Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلوا

MORE BYرفیق حسین

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک کتے کی اپنے مالک سے وفاداری، چاہت اور محبت کے لیے تڑپنے کی کہانی ہے۔ پلے سے کتا ہونے کے دوران کلوا کو دو ہی ایسے مالک ملے تھے جن سے اسے گہرا لگاؤ ہو گیا تھا۔ ایک تھا اسکول میں پڑھنے والا بچہ اور دوسری تھی کہار کی بیٹی۔ مگر دونوں میں سے کسی کے پاس بھی وہ زیادہ عرصہ نہیں رہ سکا تھا۔ دوبارہ لوٹنے پر کہار کی بیٹی اسے پہچان نہیں سکی تھی اور اسکول کے بچے کو تالاب میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے اس نے خود اپنی جان دے دی تھی۔

    منہ پر پسینہ، گالوں پر سرخی، کوٹ کے بٹن کھلے ہوئے۔ قمیض کے دامن اور ہاتھ پر روشنائی کے دھبے، ازار بند پیروں تک لٹکا ہوا، ایک بغل میں کالا بستہ اور دوسری بغل میں کالا کتے کا پِلا، منن گھر میں داخل ہوا۔ اماں نے چیخ ماری، ’’اے ہے میں مر گئی۔‘‘ سنگرمشین نے گنگنانا بند کر دیا۔ ماں کا ایک ہاتھ مشین کے ہینڈل پر تھا دوسرا ماتھے پر، وہ ساکت بچے کو دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ اور گہری محبت نمایاں تھی۔ لڑکے نے چھوٹے سے گھر میں ایک طرف سے دوسری طرف گردن گھما کر دیکھا اور بھاری آواز بنا کر بولا، ’’اماں ہم اسے پالیں گے۔‘‘

    ماں نے ماتھے سے ہاتھ ہٹا کر پلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اسے خدا کے لئے گود سے تو پھینکو۔‘‘ کچھ خفگی کی آواز میں، ’’سارے کپڑے بخس کر لئے پھینکو اسے۔ تمہارے ابا آتے ہوں گے۔‘‘

    لڑکے نے جلدی سے پلے کو زمین پر رکھ دیا۔ پلا تین انچ کی دم ہلا ہلا کر منن کے جوتوں پر لوٹنے لگا۔ ماما نے باورچی خانے سے گردن باہر نکال کر ناک پر انگلی رکھ کر ہنستے ہوئے کہا، ’’بیوی دیکھئے تو موا کیسا پیروں میں لوٹ رہا ہے۔‘‘ دو برس کی لڑکی تخت کے پاس سے صحن کی طرف بڑھی، ماں چلائی، ’’لو یہ بھی چلیں، اب گھر بھر گندا ہوگا۔ منن تم یہ کیا مصیبت لے آئے۔‘‘

    منن نے کہا، ’’ہٹو کاٹ کھائے گا ادھر نہ آنا۔‘‘

    ڈیڑھ گھنٹے بعد منن منہ دھوئے، صاف کپڑے پہنے، اجلے بنے، چارپائی پر بیٹھے تھے۔ صرف سیدھے ہاتھ کی انگلیوں پر ہلکی نیلی روشنائی کے نشان ابھی تھے۔ سامنے مرادآبادی تھالی میں دو بسکٹ تین جلیبیاں اور ایک پیالی دودھ تھا۔ جس پر تین مکھیاں مشغول تھیں۔ خود کتے کی طرف مشغول تھے۔ کتے کا پلا صحن کے دروازے کے سامنے کھٹولے کے پائے میں دھجی سے بندھا ہوا ایک ہڈی میں پوری طرح مشغول تھا۔ ماں نے توریّاں چھیلتے ہوئے کہا، ’’اب ناشتہ کر لو۔ یہی تو بات بری ہے۔ مکھیاں بھنکا رہے ہو دیکھو دودھ میں مکھی گھر جائےگی۔‘‘

    ’’اماں اس سے ہدی تو چبتی ہے نہیں۔ بسکٹ دیدوں‘‘، یہ کہا اور لڑکا بسکٹ لے کر اٹھنے لگا۔

    ماں نے کہا، ’’چلے پھر چھونے کو۔ ارے تم کھا تو لو، میں اور۔۔۔‘‘

    گھر میں آہستہ سے مالکِ خانہ داخل ہوئے۔ سیاہ ٹوپی۔ سیاہ فریم کی عینک۔ سیاہ تکونی ڈاڑھی۔ سیاہ شروانی۔ سیاہ چھڑی ہاتھ میں اور سیاہ جوتہ پیر میں۔ کھٹولے کے پاس آکر کھڑے ہو گئے۔ بیوی سجی ہوئی چائے کے ٹرے میں سے چائے دان لے کر باورچی خانہ کی طرف چلیں۔ لڑکا وہیں دبک کر بیٹھ گیا۔ سر جھکا کر دودھ میں بسکٹ توڑ توڑ کر ڈالنے لگا۔ میاں نے جھنجھلائی آواز میں کہا، ’’یہ کیا ہے جی؟ کون لایا ہے؟‘‘

    بیوی چائے دان ہاتھ میں لیے باورچی خانے کے سامنے رک گئیں۔ مسکرا کر بولیں، ’’اے موا ڈیوڑھی میں آ گیا تھا۔ کوں کوں کر رہا تھا۔ دیکھ کر ترس آ گیا۔ کیسا پیارا ہے۔ میں نے باندھ لیا۔‘‘

    میاں نے لاحول کو قرآت سے ادا کر کے کہا، ’’ہگےگا تو؟‘‘

    ’’بھنگن اٹھائےگی۔‘‘

    ’’موتےگا جو؟‘‘

    ’’تو لوٹے سے دھویا جائےگا۔ آؤ چائے پی لو۔‘‘

    ’’بچے جو چھوئیں گے؟‘‘

    بیوی اب باورچی خانہ میں تھیں اس لئے کوئی جواب نہ ملا۔ منن کا سر البتہ پیالے کی طرف اور جھک گیا۔ میاں نے کمرے میں جاکر اپنے سوا باقی تمام چیزیں ایک ہی کھونٹی پر لٹکا دیں۔ دوسرا قمیص اور پاجامہ پہن کر منہ دھویا۔ تولیہ سے رگڑ رگڑ کر ڈاڑھی کو پونچھا اور چائے پینے کو بیٹھ گئے۔ بیوی پاس بیٹھ کر مکھیاں جھلنے لگیں۔ اب پھر میاں بولے، ’’کیا نجاست پھیلائی ہے پھکوا دو باہر!‘‘

    بیوی نے بگڑ کر کہا، ’’بس تم کو تو ایک بات کی دھن ہو جاتی ہے۔ ہمارا کیا لیتا ہے۔ پڑا ہے بچے کھیلیں گے۔‘‘

    ’’ہاں یہ انہی حضرت کا شوق ہوگا؟‘‘

    حضرت تینوں جلیبیاں، آدھا بسکٹ اور تھوڑا سا دودھ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے زینے میں گھس چھت پر پہنچ گئے۔

    کالا پلا آٹھ دن اس گھر میں مہمان رہا۔ دو دن صحن میں جہاں دو دفعہ میاں نے گود والی لڑکی کو اسے چھوتے دیکھا۔ پھر پانچ دن ڈیوڑھی میں جہاں ایک دفعہ اس کی رسی پیروں میں پھنسی اور دوسری دفعہ یہ خود ان کے پیروں میں آ گیا۔ آخری یعنی آٹھویں رات اس کو کوٹھے پر بسر کرنی پڑی۔ یہاں اس کو ماں کی یاد نے ستایا۔ یہ یادِ ماضی پر چیخیں مارتا رہا اور میاں بیوی کو بھنبھوڑتے رہے۔ اوپر اور نیچے دونوں جگہ رت جگا رہا۔

    دوسرے دن گیارہ بجے پلا صدائے احتجاج بلند کرتا، حمین بوا (ماما) کے پیچھے گھسٹتا ہوا نخاس کی چوڑی سڑک پر پہنچ گیا اور سڑک کے سپر دکر دیا گیا۔ پانچ منٹ کے بعد ایک موٹر نے غیں! غیں! کرنا شروع کی۔ ایک بڑے لڑکے نے ہنستے ہوئے لپک کر اسے ایسی ٹھوکر ماری کہ یہ گیند کی طرح لڑھکتا ہوا پکی نالی میں جا گرا۔ موٹر ایک دفعہ اور غیں کر کے چل دیا۔ لیکن کالا پلا عرصے تک ٹیاؤں! ٹیاؤں کرتا رہا۔

    نالی میں کیچڑ اور پانی صرف اتنا ہی تھا کہ اس کے پنجے ڈوبے ہوئے تھے لیکن نالی اس کے واسطے کافی گہری تھی۔ جس میں سے وہ نکل نہ سکتا تھا۔ اس نے چار چھ زبان کے سٹراپوں سے کچھ پانی پیا اور پھر نالی پر چڑھنے کو اگلے پیر اٹھا کر نالی کی دیوار پر رکھے، تین دفعہ کوں کوں کی اور پھر پیر نیچے کر کے چل دیا۔ آٹھ قدم چل کر پھر اس نے وہی کوشش کی اور کوں کوں کر کے پھر چل دیا۔ گلے کی رسی پیچھے گھسٹ رہی تھی۔ یہ ایسی ہی کوششیں کرتا چلا جا رہا تھا کہ ایک قصائی کے لڑکے کی اس پر نگاہ پڑی۔ ایک ہاتھ میں بستہ اور بغل میں تختی تھی۔ دوسرے ہاتھ میں مٹی کی داوات اور سینٹے کا قلم۔ صرف پیر آزاد تھے چنانچہ اس نے ننگا پیر لٹکاکر اس کی مدد کرنا شروع کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں پلا کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ اتنے میں قصائیوں کے دو لڑکے اور آ گئے۔ کچھ دیر وہ اس کا تماشہ دیکھتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک نے جھک کر اس کی رسی کا سرا پکڑ لیا اور ایک ہی جھٹکے میں اسے اور اس کی رسی کو نالی سے باہر نکال دیا۔ رسی پر لپٹی ہوئی کیچڑ کے چھینٹے اڑے۔ ایک کی آنکھ میں اور دوسرے کے کھلے ہوئے ہنستے منہ میں کیچڑ نے اپنا مزا چکھایا ،چنانچہ تینوں لڑکوں میں آپس میں ماں اور بہنوں کے متعلق شستہ گفتگو شروع ہو گئی۔

    کالے پلے نے محبت بھری نگاہوں سے اس لڑکے کو دیکھا جو جھکا ہوا اپنے ہاتھ کی کیچڑ سڑک پر پھینک رہا تھا اور اپنے ساتھی کی گالی کے جواب میں گالی برابر لوٹا رہا تھا۔ پلا دم ہلاتا ہوا اس کی طرف چلا۔ اب اس نے پلے کو غور سے دیکھ کر کہا، ’’شیرا ہے شیرا۔‘‘ پھر اس نے رسی کے سرے کو پیر سے زمین پر رگڑا اور اٹھا لیا۔ ’’آؤ شیرا آؤ!‘‘ کر کے رسی تانی، شیرا نے تین چار پھدکیاں اس کی طرف بھریں۔

    اب لڑکا بھاگنے لگا۔ دو چار قدم شیرا نے ساتھ دیا، پھر گھسٹنے لگا۔ جب پیر چھلنے لگے توپیں پیں کرکے چت ہو کر ہی گھسٹنا بہتر سمجھا۔ باقی دونوں لڑکے اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ گلی کے نکڑ پر مونڈھا بچھائے پہلوان بیٹھے تھے۔ انھوں نے لونڈوں کو ڈانٹ بتائی، ’’ارے تمہارا ایسا ویسا لونڈوں کیا کرتے ہو۔ چھوڑ دو پلے کو۔‘‘ لونڈے پلے کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پلا تین انچ کی دم ٹانگوں میں دبائے سر زمین سے لگائے پہلوان کی طرف بڑھا۔ پہلوان نے پیر سے دو تین دفعہ اسے لڑھکا کے گلی کے اندر کر دیا اور خود بےفکر ہو کر پھر مونڈھے پر جا بیٹھے۔ وہیں پر چار دوکانوں میں کہار رہتے تھے۔ ایک کہاری بیٹھی ہوئی لوہے کی کڑہائی مانجھ رہی تھی۔ پلا اس کے پاس اسی حالت سے سر زمین سے ملا، دم پیروں کے اندر کوں کوں کرتا گیا۔ کہاری نے کہا، ’’دھو، دھو۔‘‘

    ایک تیرہ برس کی دبلی میلی کہاری کی لونڈیا نے برابر کی دوکان سے چھلانگ ماری اور پلے کو اٹھا لیا۔ لیکن فوراً ہی رام رام کہہ کر زمین پر رکھ دیا۔ دونوں ہاتھ دیوار پر رگڑ کر دوکان میں گئی ایک لٹیا پانی لائی اور اسے غسل دیا۔ پلے کا یہ پہلا غسل تھا۔ بہت ناپسند آیا۔ ہر طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ ناک میں بھی پانی چلا گیا، بری طرح چھینکیں آئیں۔ جب غسل ہو چکا تو وہ کانپ رہا تھا۔ لڑکی نے اس کا بدن ایک میلے چیتھڑے سے پونچھا۔ مَٹھے میں بجور کر بجھڑے کی روٹی کھانے کو دی۔ اسی لڑکی نے اس کا نام کلو رکھا۔ لڑکی کا خود نام چندو تھا۔

    کلو نے ڈھائی مہینے چندو کے ہاتھ اور پیر چاٹے۔ اس کا یہ زمانہ بڑے عیش میں کٹا۔ لیکن اسی قلیل عرصے میں بھوریا نامی قصائی کے لڑکے نے پہلے تو چندو سے تعشق بڑھایا۔ لیکن جب چندو نے ایک دو مرتبہ بری طرح جھڑک دیا تو پھر اس نے بیر بڑھایا اور اب بھی جب بس نہ چلا تو ایک رات جب یہ لوگ گلی میں سو رہے تھے تو کلوا کو کھٹیا کے پاس سے اٹھا بھاگ گیا۔ پہلے کلوا نے کوں کوں کی پھر ناراضگی کے دانت دکھائے اور آخر میں جب کاٹنے کی کوشش کی تو بیچارے کے تھوتنی پکر لی گئی۔ بھوریا نے اسے بہت دور بلوچ پورہ کے ایک پرانے قبرستان میں لے جاکر قبروں کے بیچ میں ایک بیری سے باندھ دیا۔

    کلوا تمام رات سینکڑوں قبروں پر اکیلا نوحہ خوانی کرتا رہا۔ صبح کو ایک لونڈا زمین سے صرف چار انچ اونچا کرتا پہنے قبروں میں کچھ ڈھونڈھتا ہوا آیا۔ کلوا کو دیکھ کر بڑے زور سے چلایا، ’’بابا رے یہ دھرا سالا۔‘‘ بابا، قبرستان کے تکیہ دار فقیر۔ مہندی کی قمچی ہاتھ میں لئے آئے اور کلوا کی بہن کو یاد کر کے بولے، ’’رات بھر چلایا کیا۔‘‘ اور مہندی کی قمچی سے کلو کو دھنکنا شروع کر دیا۔ لمبے کرتہ والا لڑکا کلوا کی واویلا سے بہت محفوظ ہوا۔ ہنسی کے مارے لوٹا جائے۔ یہاں کلوا کی یہ حالت کہ جب پیٹھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی تو چت ہو گیا اور پیروں پر قمچی کو روکنے لگا۔ خدا خدا کرکے قمچی ٹوٹی تو اس کی جان بچی۔

    کلوا دن بھر اسی بیری کے نیچے بھوکا پیاسا بندھا ہوا چندو کی یاد میں پڑا رہا دن بھر کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ دور کچھ عورتوں اور بچوں کے بولنے کی آوازیں آیا کیں، لیکن اس طرف ایک قبر کے لمبے چوڑے تکیہ نے آڑ کر رکھی تھی۔ شام کو جب اندھیرا ہونے لگا تو اسی طرف سے کلوا کی تیز ناک نے بھنتے ہوئے گوشت کی خوشبو محسوس کی۔ صبر پر جبر نہ ہو سکا۔ ایک مہین اور لمبی چیخ نکل گئی۔ جب تھوری دیر بعد ایک عورت اس کے پاس آئی تو کلوا ڈر کے مارے چت لیٹ گیا۔ دم پیروں میں سکیڑ لی۔ زبان گو پیاس سے لٹکی پڑتی تھی لیکن جلدی جلدی اندر سمیٹ ہلکے ہلکے کوں کوں کرنے لگا۔ عورت نے اسے کھولا اور لے چلی۔ کلوا خاموشی سے ساتھ ہو لیا۔ قبرستان کے دوسرے سرے پر دو مختلف قسم کے مکان تھے۔ ایک کوٹھری اور ایک مقبرہ۔ ان ہی دونوں میں اِن لوگوں کی رہائش تھی۔

    وہاں ایک بکری بندھی تھی۔ چار کھٹیاں ایک لائن میں پڑی تھیں۔ ایک عورت اور چھ بچے چٹائی پر بیٹھے تھے۔ گیسو دراز فقیر صاحب مقبرہ کے چبوترے پر اکڑوں میٹھے گانجے کے دم لگا رہے تھے۔ کلوا نے ہانپتی ہوئی زبان اندر کرکے گانجے کی خوشبو پر غور کیا۔ غالباً بری معلوم ہوئی۔ ناک کی نوک کو ایک دفعہ دائیں اور پھر بائیں طرف جنبش دے کر زبان پھر لٹکا دی اور ہانپنے لگا۔ عورت نے اس کو بھی اسی کھونٹی سے باندھ دیا جس سے کہ بکری بندھی تھی۔ اس نے جاتے ہی بکری کے کونڈے میں سے پانی چاٹا۔ بکری کو اس دوہری ہتک عزت پر غصہ آ گیا۔ اس نے تین چار دفعہ کھریاں جوڑ کر اور سینگ کی نوکیں کلوا کی طرف کرکے حملہ کرنے کی دھمکی دی۔ لیکن کلوا نے ظاہر اس کی طرف دیکھا بھی نہیں، وہ اطمینان سے دونوں اگلے پیر آگے پھیلا کر اور پچھلے سمیٹ کر اس چٹائی کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ جب اس چٹائی پر کھانا ہونے لگا تو اس کی ہم کھوٹا بکری نے بھی جگالی شروع کر دی۔ پہلی بوٹی جب کلوا کے پاس آکر گری تو اس نے اپنی دم کو شکریہ کے واسطے دو دفعہ زمین پر مارا۔ تہذیب سے وہیں پر بیٹھے بیٹھے گردن لمبی کرکے سر بڑھا کر بوٹی کو اٹھا لیا۔

    چونکہ بوٹی مزے دار تھی۔ دو وہی دانت مار کر نگل لی۔ زبان سے ناک اور ہونٹوں کو چاٹ کر صاف کر لیا اور پھر انتظار کرنے لگا۔ دوسری بوٹی ہوا میں اڑی۔ ان کے پھیلے ہوئے پیروں کے بیچ میں گردن کے نیچے آکر رک گئی۔ دم کو تین جھٹکے شکریہ کے دیکر کلوا کھڑا ہو گیا۔ بوٹی نرم تھی، ویسے ہی نگل گیا۔ پھر جو ایک ہدی اچھلی تو بکری کے پاس گری۔ یہ جو اس طرف بڑھا تو بکری چونک پڑی۔ چابن نگل کر جگالی کے نئے غلہ کے گردن میں سے چل کر منہ میں آنے کے انتظار میں تھی۔ کوئی بھلا جانور ایسے موقعے پر دخل اندازی پسند نہیں کر سکتا۔ فوراً سر نیچا کر کے سینگوں کی نوکیں پیش کر، کھریاں جوڑ حملہ آور ہوئی۔ معاملہ ہڈی کا تھا۔ معمولی بات نہ تھی۔ کلوا نے جواب دیا۔ ’ہڈی‘ اور پھر ’ہم ہم‘ کرکے دو جھوٹے حملے کئے۔ بکری صاحبہ ڈر گئیں۔ اب جو بھاگیں تو رسی کو بھول گئیں۔ بس بھاگ پڑیں۔ رسی تنی جھٹکا سا کھایا۔ دھم سے زمین پر دراز ہو گئیں۔ کلوا کی جانے بلا۔ ہڈی اٹھا دوسری طرف چل دئے۔ جب رسی تن گئی بیٹھ کر مزے لینے لگے۔ گیسو دراز صاحب نے اٹھ کر ایک رسی کے ٹکڑے سے کلوا کو بڑی مار ماری۔

    سات دن کلوا کو قبرستان میں پیٹ بھر مار اور آدھے پیٹ کھانے پر گزر کرنی پڑی۔ ایک رات خیال آیا کہ اگر دانتوں کو رسی پر ورزش دی جائے تو کیا ہرج ہے۔ چنانچہ ایک گھنٹے کی متواتر محنت کے بعد ایک عجیب نتیجہ یہ ہوا کہ کلوا آزاد تھے۔

    غلامی کا نشان صرف فٹ بھر کا ٹکڑا گلے میں باقی تھا۔ اس کی فکر کلوا کو مطلق نہ ہوئی فوراً ایک طرف روانہ ہو گیا۔ چندو کی یاد اور پیٹ کی خواہش ان دو اثرات کے تابع اس کے قدم اٹھنے لگے۔ نیم کا سایہ، نیم کی جڑ، تین کچی قبریں، دو پکی قبریں۔ ایک بہت اونچی پکی قبر، وہی پت جھڑی بیری، دو دھنسی قبریں۔ ایک چھوٹی قبر۔ اس کے برابر ایک بڑی قبر۔ ایک قبر کا خالی گڑھا، قبرستان کی دیوار کا ایک گرا ہوا حصہ سب کو دم آسمان کی طرف اور ناک زمین کی طرف کئے ہوئے پار کیا۔ دوسری طرف دیوار سے ملا ایک نیولا کھڑا تھا۔ اس نے اس کو دیکھا اور لپکا۔ اس نے اسےدیکھا اور بھاگا چار چھلانگوں میں یہ اس کے پاس پہنچ گیا۔ نیولا لپٹ پڑا۔ دم پھول کر جھاڑو ہو گئی پچھلے پیروں پر بیٹھ کر مقابلہ کو تیار ہو گیا۔ کلوا بھی اگلے دونوں پیر چھوڑ کر بدن کو پیچھے تان کر رک گئے۔ اب غالباً اشاروں میں ایک سے دوسرے نے معافی مانگی۔ وہ ادھر چل دیا اور یہ ادھر روانہ ہو گئے۔ پھر وہی دم آسمان کی طرف اور ناک زمین کی طرف چندو یاغذا دونوں میں سے ایک جس کی بو مل جائے۔

    جاتے جاتے پکی سڑک پر ہو لیا۔ عیش باغ کے سامنے پولیس کی چوکی پر پہنچا ایک موٹے کتے نے لیٹے لیٹے غراکر کہا، ’’بھوں‘‘ کلوا نے دم دبائی اور ایک سپاٹا بھرا۔ ایسے ہی چلا جا رہا تھا کہ ایک ہڈی کی بو پائی۔ ٹھٹک کر رہ گیا۔ ناک زمین پر سوں سوں کرکے فوراً ڈھونڈھ لی۔ دیکھا تو کچھ حصہ اس میں کام کا تھا۔ کھایا اور پھر چل دیا۔ آر۔کے ریلوے کی چوکی آ گئی۔ ایک بوچے کتے نے لپک کر ان کا راستہ روکا ٹیڑھے ٹیڑھے کھڑے ہو کر کھیسیں دکھا بردباری سے کھینچ کر کہا، ’’کھیں۔‘‘ کلوا نے بھی کچلیاں دکھا کر کہا، ’’کھیں‘‘ بوچے نے اور گہری آواز گلے سے نکال کر کہا، ’’دیکھیں۔‘‘ کلوا نے دانت نکال کر تین دفعہ جھٹکوں سےمنہ بنا کر کہا، ’’ہیں۔ ہیں۔ ہیں۔‘‘ ایک کتیا اور آ گئی۔ اس نے آتے ہی کلوا کو باری باری دونوں سروں سے سونگھا اور پھر بے پرواہی سے انھیں چھوڑ کر چل دی۔ جس کے صاف معنی اس کی زبان میں یہ تھے، ’’جانے بھی دو لونڈا ہے۔‘‘ مگر بگڑے دل بوچے کو کب گوارا تھا۔ ہم ہم ہم، کرکے اوپر چڑھ بیٹھا۔ لاچار کلوا نے اطاعت قبول کی، چت لیٹ گیا۔

    دو مہینے کلوا نے بو چاکی اطاعت میں عیش باغ اسٹیشن سے آغا میر کی ڈیوڑھی تک آر ۔کے لائن کے اوپر چکر لگائے۔ یہی بوچا کے دانتوں اور پنجوں کے زور سے حاصل کردہ جائداد تھی۔ کلوا نے بار بار چندو کی یاد میں اس جائداد کو چھوڑ کر دور کے سفر کے قصد کئے۔ لیکن ہر دفعہ اس کو ناکامیاب واپس آنا پڑا۔ کیونکہ زمین کا چپہ چپہ کتوں کی جائدادوں میں تقسیم ہوا پڑا تھا۔ جس پر کہ غیر کا قدم رکھنا کتوں کے قانون میں سخت جرم ہے۔ اگر کسی بڑی جائداد کے تنہا خونخوا مالک سے بچ کر نکل بھی گیا تو دوسری سرحد پر وہاں کے حاکم اور ایک، دو یا تین جتنے بھی شاگرد ہوئے ان سے تنہا مقابلہ کرنا پڑا۔ ان ناکامیاب کوششوں سے اسے ایک فائدہ ضرور ہوا۔ زخم کھا کھا کر اس کا جسم پکا پڑ گیا اور آدابِ جنگ کی تمام باریکیوں سے واقف ہو گیا۔

    ایک روز کلوا تنہا آغامیر کی ڈیوڑھی کی طرف سے واپس آ رہے تھے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ریلوے کراسنگ سے کچھ دور بوچا استاد کی لاش لائن پر کٹی پری ہے، استانی پریشان کھڑی اس کو سونگھ رہی ہے۔ کیا کر سکتے تھے سوائے ہمدردی کے۔ خود بھی سونگھا۔ پاس کھڑے ہوکر استانی کا غم غلط کیا۔ وراثتاً جائداد کے مالک تھے اس کا انتظام ہاتھ میں لیا۔ متعینہ غذا جو اس جائدا د میں ریل سے گرتی تھی اور چیلوں کے پنجوں سے ٹپکتی تھی۔ اب اس کے کھانے والے تین کی جگہ دو ہی منہ رہ گئے۔ ایک ہی مہینے میں استانی چربیا گئیں اور ان کے ہاتھ پیروں پر رونق آ گئی۔ لیکن اب استانی کو ان کا تعشق لونڈھیا یا معلوم ہونے لگا۔ یہاں تک کہ ایک دن کلوا کو اکیلا چھوڑ کر ایک کبرے کتے کے پیچھے نکل گئیں۔ اب یہ تنہا رہ گئے۔ اکیلے کھانے والے اور اکیلی جائداد کی حفاظت کرنے والے۔ پیٹ بھر ورزش تھی پیٹ بھر خوراک۔ ایک مہینہ جو اور گزرا تو اب کلوا کی شان ہی نرالی تھی۔ سیاہ چمکدار مخملی کوٹ، لہراتی ہوئی لمبی دم، گٹھا ہوا بھاری تھوتھنا۔ ہاتھ اور پیروں پر ابھرے ہوئے پٹھے۔ بل کھائے ہوئے۔ قد میں بھی بڑے سے بڑا کتا ان کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ چور اور آوارہ گرد کتوں کا ان کو دیکھ دم نکلتا تھا۔ اس عرصے میں اس نے اپنی جائداد کو بھی اور وسعت دے لی تھی، آغامیر کی ڈیوڑھی کے پلیٹ فارم کی اپنی طرف کی آدھی لمبائی تک قبضہ بڑھا لیا تھا۔ ایک اس پلیٹ فارم پر ایک جگہ ایک بو تھی۔۔۔۔ کلوا کا محبت کا بھوکا دل تڑپ گیا۔ یہیں چندو بیٹھی تھی۔

    کلوا اس جگہ کو سونگھے اور منہ اونچا کر کے خاموش کھڑا ہو جائے۔ قدرت نے آنسو نہ دئے تھے کہ جاری ہوتے۔ بہت دیر تک یہی کیا کیا۔ پھر ایک دفعہ دم آسمان کی طرف اور ناک زمین پر، یہ روانہ ہو گیا۔ سینکڑوں ہزاروں طرح کی بوؤں میں چندو کی بو اس کے واسطے الگ تھی۔ بو لیتا بو ہی بو چل دیا۔ سکندراعظم نے ہندوستان تک آنے میں اتنی مہموں کا سامنا نہ کیا ہوگا جتنی مصیبتوں اور رکاوٹوں کو اس نے بلوچپورے تک پہنچنے میں عبور کیا۔ بیسیوں کتوں کو زخمی کرکے خود زخموں سے چور جس وقت وہاں پہنچا رات کا ایک بج چکا تھا۔

    گلی وہی تھی، مکان وہی تھا۔ دوکان وہی تھی مگر بند تھی۔ اب لوگ اس کے اندر سو رہے تھے۔ دروازے سونگھے۔ چندو کے ماں اور باپ دونوں کی بوئیں تازہ تھیں مگر چندو کی بو بہت خفیف تھی، کتے آتے اس پر بھونک کر چلے جاتے۔ مگر یہ وہیں بیٹھا رہا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد چندو کی بو سونگھتا رہا جو برابر زائل ہوتی چلی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ صبح چار بجے چندو کی بو گم ہو گئی۔ اس نے دوکان کے سامنے منہ اٹھا کر رونا شروع کر دیا۔ کاش کوئی انسان اس کو یہ بتا دیتا کہ چندو اپنے دولہا کے ساتھ دولہن بن کر بانس بریلی گئی۔ مگر کون بتاتا۔ چندو کا باپ ہاتھ میں لٹیا لئے یہ کہتا ہوا نکلا، ’’روئے جات رے کو کر۔‘‘

    قصائیوں کے کتے نہ اس کے ایسے تندرست تھے نہ قدآور۔ لیکن کچے گوشت کے کھانے والے بے انتہا خونخوار۔ کلوا کے بھی دانت کھٹے ہو گئے۔ جب کہیں جاکر ان کو گلی اور گلی کی پیچھے تھوڑے میدان پر قبضہ ملا۔ دن رات کا زیادہ تر حصہ یہ چندو کی دوکان کے آگے ہی گذارتا۔ جہاں اب اس کا پہچاننے والا کوئی نہ تھا۔ کلوا چندو کے باپ اور ماں دونوں کی برابر مار کھاتا رہا۔ لیکن اس نے دوکان کا دامن نہ چھوڑا یہاں کھانے کو کافی اور پھر عمدہ چیزیں مل جایا کرتی تھیں۔ لیکن افسوس دل کی آگ محبت کے چھینٹوں کی طالب سلگے گئی۔ کچھ عرصے بعد اس نے ان دونوں کے علاوہ غیروں سے بھی اشارے کئے اور محبت کے لین دین کا خواستگار ہوا۔ مگر دل کا سودا کہیں نہ پٹا۔ ایک برس اسی طرح گذر گیا۔ مگر آخر چندو آہی گئی۔

    بالکل وہی، چندو کچھ دبلی اور ہو گئی تھی۔ بچہ گود میں تھا۔ لیکن کلوا کو بھول چکی تھی۔ وہ کلوا سے ڈر گئی۔ انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا۔ لیکن کلوا کتا تھا زمین پر بچھ گیا۔ پیٹ کے بل زبان نکال کر پیر چاٹنے کو آگے بڑھا۔ پیر نہ ملے تو زمین چاٹی۔ کہاری کی جوتیاں جب پڑیں لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ کہارنے ڈنڈے جب مارے تو سمٹ سمٹ کر چلایا۔ لیکن سب لاحاصل۔ اس بڑی چکی کے دونوں پاٹوں میں پتھر کم پستے ہیں اور دل زیادہ۔ آٹھویں دن چندو پھر سسرال چلی گئی۔

    آج کالا کتا غیظ وغضب کی تصویر بنا ہوا آوارہ گرد ہے۔ گتے اس کو دیکھ کر ڈرتے ہیں۔ سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔ سیاہ منہ پر آنکھیں لال انگارہ ہیں۔ موٹی گردن پر بال کھڑے ہیں اور دم بالکل سیدھی پھیلی ہوئی ہے۔

    اور آج ہی وہی پیارا بچہ منن، باپ کی بےجا سختی اور ماں کی اندھی محبت کے باعث آوارہ ہے۔ اسکول میں جھڑکیاں اٹھانے اور مار کھانے کے بجائے آج کے دن اس نے سونی عیدگاہ میں آزادی کی عید منائی ہے۔ اب چار بج چکے تھے۔ منن عید گاہ کی چار فٹ اونچی دیوار پر بیٹھا سونچ میں تھا۔ دن تو گزر گیا، اب کیا کرے گھر جائے نہ جائے، وہاں خبر ضرور ہو گئی ہوگی۔ ننھے سے دل میں وحشت کے پنکھے چل رہے تھے۔ وارفتہ دل، صحرا نورد کلوا کا گذر ادھر سے ہوا۔ اس کی نگاہ بچے پڑی۔

    جس طرح انسانوں کے واسطے راتیں تاریک ہوتی ہیں لیکن کتوں کے لئے ان میں سہانی روشنی ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانوں کے واسطے صورتیں، آنکھ، ناک کان اور منہ کا صرف مجموعہ ہوتی ہیں۔ لیکن کتوں کے لئے ان پر خوشی کی چمک، غم کی سیاہی اور محبت کی ارغوانی شعاعیں بھی عیاں ہوتی ہے۔ کلوا نے دیکھا کہ بچہ اداس بیٹھا ہے لیکن وہ اپنی دھن میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ دیوار کے نیچے جہاں جہاں وہ جا رہا تھا بچے کی بو رَواں دواں تھی۔ اس نے اس بو میں کچھ خصوصیت محسوس کی۔

    خیال اور خیالوں کے تحت واقعات کی یادداشت اس کو قدرت نے عطا کی ہی نہ تھی۔ نہ رہا گیا، گھوم کر بچے کو دیکھنے لگا۔

    چاروں طرف آگ کا اک سمندر موجزن تھا۔ جس میں سے لپلپاتے شعلے تابہ فلک اٹھ رہے تھے۔ ٹوکری بھر کر ایک بچے کو ا س میں پھینکا گیا۔ تو کیا ہوا؟ پلک جھپکی بھی نہ تھی اور وہاں سبزے میں پھولوں کا ایک تختہ تھا جو خوشبوؤں سے مہکتا تھا۔ اس میں بچہ بیٹھا کھیل رہا تھا۔ یہ قصّہ حضرت ابراہیم کا ہے۔ اب جن دماغوں میں عقل کی زیادتی ہو گئی ہے اور اس قصہ کو صحیح ماننے سے قاصر ہیں۔ آئیں ادھر آئیں۔ میں ان کو دکھائے دیتا ہوں کہ یہی ہو سکتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، جفاکاری میں بھینسا کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ استقلال میں پتھر کی سل کتے کے آگے گھس جائےگی۔ خونخواری اور دلیری میں جس وقت کتے سے مقابلہ پڑتا ہے تو شیر بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لیکن محبت کی ایک چھوٹی سی چمکاری میں کتا پیروں پر گرتا ہے اور اس وقت وہ حلم اور عاجزی، انکساری اور خاکساری ایسی رقیق چیزوں کی جیتی جاگتی تصویر ہوتا ہے۔

    منن اور کلوا میں ایک دفعہ پھر نئے سرے سے دوستی شروع ہوئی۔ اس کی جیب میں بچی ہوئی ایک روغنی ٹکیا اور تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے نوالوں میں کلوا کو پیش کی گئی۔ انڈا تھا نہ انڈے کی بو اس پر بھی ٹکیہ کلوا کو بڑی میٹھی معلوم ہوئی۔ منن نے ڈرتے ڈرتے کلوا کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ کلوا نے منہ کھول کر محبت کے نشے میں دعاؤں، کہہ کر انگڑائی لی۔ منن کھیلتا کھیلتا کتے کو ڈھیلوں کے پیچھے بھگاتا قدرتاً گھر کی طرف آگیا۔ یہ بھی تو امید تھی کہ گھر میں اسکول سے بھاگنے کی خبر نہ پہنچی ہو ڈرتے ڈرتے گھر میں گھسا۔ کلوا باہر ہی رہ گیا۔

    محبت کی دیوانی ماں نے منہ دھلایا، ناشتہ کھلایا۔ اکنی کنکیا کے واسطے دی۔ دو پیسے کی برف کی قلفی لے دی۔ دو دفعہ باپ کے بے جا غصے اور منن کے بیچ میں سد سکندری بن کے حائل ہو گئی۔ یہاں تک کہ رات ہو گئی اور منن سو گیا افسوس اے جاہل ماں تونے سب کچھ کیا لیکن بچے کے کی تھاہ نہ لی۔ بچے کےدل میں بچہ بن کر گھسنا ہوتا ہے۔ وہاں اس کے چھوٹے چھوٹے رنج، منی منی خوشیاں۔ معصوم گلےاور شکوے ہوتے ہیں اور بیوقوف مائیں اس دنیا کو کسمپرسی میں چھوڑ دیتی ہیں۔

    چھ دن کلوا نے استقلال سے بیٹھے بیٹھے اسکول کے سب تماشے دیکھے، ساتویں دن ضبط برداشت سے باہر گیا۔ سیاہ پینتیس سیر کا جسم ایک جست سے دروازے سے باہر نکلا اور ماسٹر سے تصادم ہوا۔ ماسٹر زمین پر گر پڑا۔ کلوا اس کے سینے پر سوار ہو گیا۔ روتے ہوئے منن نے جلدی جلدی کتابیں اور بستہ سمیٹا اور سیدھا اسکول سے باہر بھاگا۔ سڑک پر جاکر ’’آؤ، آؤ۔‘‘ کی آوازیں لگائیں اور دوڑ پڑا۔ تھوڑی دیر میں خون آلودہ کان کو جھٹکتا ہوا کلوا بھی منن سے آن ملا۔ سر اٹھا کرمنن کا منہ چاٹنا چاہا تو اس نے سر پر سلیٹ ماری۔ کلوا خوش ہو گئے۔ اچھل کے آگے آگے ہو لئے۔

    دوسرے دن بستہ بغل میں لیکر منن نے پھیر عیدگاہ کا رخ کیا۔ کلوا کو اس سے کیا مطلب تھا۔ جدھر وہ چلا اس کے پیچھے ہو لیا۔ واٹر ورکس کی دیوار کے نیچے پہنچ کر باہر لٹکی ہوئی املی کی شاخوں کے سائےمیں دونوں بیٹھے۔ منن نے کوٹ کی جیبوں میں سے چرائے ہوئے روٹی کے ٹکڑے، ہڈیاں اور بوٹیاں، کلوا کو کھلائیں اس کے بعد املی پر الجھی ہوئی پتنگ پر اینٹ کے ڈھیلے کا لنگر اچھالنا شروع کیا۔ کلوا بھی ڈھیلے کی ہر اچھار پر اچھلتے تھے۔ لیکن فٹ سوا فٹ ان کی حد تھی اس کے بعد عیدگاہ میں بسیار ڈھیلے بازی کے بعد ایک کچا کیتھا اٹھا کر ’تال کٹورے‘ کا رخ کیا۔ راستہ میں منن نے کیتھے کے وہ چٹخارے لئے کہ کلوا کی بھی لار ٹپک پڑی۔ لیکن جب حصہ ملا تو سونگھ کر ہی چھوڑ دیا۔

    آسماں بار امانت نتوا نست کشید

    فرعۂ فال بنام من دیوانہ زند

    جانوروں کو انسٹنکٹ (instinct) کا مادہ دیا گیا ہے جس میں غلطی کا احتمال ہی نہیں اور ہم کو عقل، جو ہر قدم پر ٹھوکر کھاتی ہے۔

    تیسرے دن شام کو جب آوارہ گردی کے مکتب سے منن گھر واپس ہوا تو اس نے دیکھا کہ مکان کے آگے اسکول کے تین لڑکے اور ایک ماسٹر کھڑے ہیں۔ باپ دروازے پر کھڑے ان سے باتیں کر رہے ہیں۔ سر سے پیر تک کانپ گیا اور فوراً واپس لوٹ پڑا۔ پھر عیدگاہ پہنچا، وہاں پھرتے پھرتے جب شام ہونے لگی تو قدم گھر کی طرف خودبخود اٹھنے لگے۔ واٹر ورکس کی دیوار پر چڑھا۔ اندر بالکل سنسان تھا۔ تھوڑی دور پکے تالاب تھے۔ دیوار سے کود کر ان کے کنارے پہنچا۔ کلوا بھی کود پھاند کے ساتھ تھا۔ تالاب کے چاروں طرف پکی دیوار تھی۔ جس سے ڈیڑھ فٹ کے نیچے شفاف پانی میں چھوٹی چھوتی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ منن اپنی فکریں بھول گئے۔ کنارے اکڑوں بیٹھ کر مچھلیوں کی سیر میں محو ہو گئے ایک مچھلی دیوار کی جڑ تک آ گئی۔ منن نے جھُک کر اسے پکڑنا چاہا۔ پوری جان سے اندر لڑھک گیا کلوا کچھ دور تھا۔ اس کی ہلکی سی چیخ نکلی اور وہیں سے اس نے پانی میں جست ماری۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ پاس پہونچے۔ بچہ پانی کی تلی کی طرف روانہ تھا پانی بہت گہرا تھا۔ کئی منٹ کے بعد بچے نے اچھالا کھایا۔ کلوا کے دھوکا نہ کھانے والے احساس نے اسے بتا دیا کہ بچہ کس جگہ ابھرےگا۔ وہیں پر موجود تھا۔ کلوا نے ڈھال کی طرح اپنا جسم بچے کے سینے کے نیچے کر دیا۔ بچے کے پیٹ میں کافی پانی جا چکا تھا۔ وہ قریب قریب بےہوش تھا۔ لیکن قدرتاً اس کا ایک ہاتھ بچے کی گردن میں اور دوسرا ہاتھ پچھلے پیروں میں لپٹ گیا۔

    افق کی سرخی گہری پڑتے پڑتے سیاہی میں تبدیل ہو گئی۔ سیا ہ آسمان پر جھانک جھانک کرتارے نکل آئے۔ ایک چمگادڑ نے پانی کی سطح پر سراٹا مارا۔ دو بوند پانی منہ میں اٹھاتا ہوا نکلا چلا گیا۔ دو گھنٹے بعد ایک نیولے نے پچھلے پیروں پر کھڑے ہوکر تالاب کو دیکھا اور سمٹ کر سر سراتا ہوا جھاڑیوں میں گھس گیا۔ رات بڑھتی چلی گئی۔ راہ عدم سے ایک تارہ ٹوٹا اور راہ عدم میں غائب ہو گیا۔ اب کلوا کا بھی پیٹ پھول چکا تھا۔ جسم میں طاقت نہ تھی۔ یا اپنی ناک سے پانی باہر رکھ سکتا تھا یا بچےکی۔ دل میں طاقت وہی باقی تھی۔ مالک کی ناک اوپر رہی اور تھکی ہوئی گردن نیچے جھک گئی۔ صبح کو کچھ لوگ جمع ہوئے۔ سسکتے ہوئے بچے کو نکال کر میڈیکل کالج کی طرف دوڑے۔ کلوا کی پھولی ہوئی لاش وہیں چھوڑی۔ جس کو تھوری دیر بعد دو بھنگیوں نے نکال کر احاطہ سے باہر میدان میں پھینک دیا۔

    تین گدھ فضائے آسمانی سے سنسناتے اترے۔ چھہ فٹ کے پھیلے بازو سمیٹ کر آہستہ آہستہ اس لاش کی طرف بڑھنے لگے۔

    مأخذ:

    گوری ہو گوری (Pg. 27)

    • مصنف: رفیق حسین
      • ناشر: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی
      • سن اشاعت: 1952

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے