Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلیاں اور کانٹے

اختر اورینوی

کلیاں اور کانٹے

اختر اورینوی

MORE BYاختر اورینوی

    کہانی کی کہانی

    کہانی دق کے مریضوں کے لئے مخصوص سینی ٹوریم اور اس کے عملہ کے ارد گرد گھومتی ہے۔ دق کے مریض اور ان کی تیماردار نرس، دونوں کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہےکہ مریضوں کی زندگی کا سورج کسی بھی پل ڈوب سکتا ہے۔ امید و ناامیدی کی اس کشمکش کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے جنسی طور پر لذت بھی کشید کرتے ہیں اور ایک عام عاشق و معشوق کی طرح روٹھنے منانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ ساری نرسیں کسی نہ کسی مریض سے جذباتی اور جنسی طور پر منسلک ہوتی ہیں اور مریض کے صحتیاب ہونے یا مر جانے کے بعد ان کی وفاداریاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کے دل کے کسی گوشہ میں یہ حسرت بھی رہتی ہے کہ کاش کوئی مریض ان کو مستقل طور پر اپنا لے۔ اسی لئے جب انور رخصت ہونے لگتا ہے تو کیتھرن روتے ہوئے کہتی ہے، انور بابو، آپ نے ہم نرسوں کو عورت نہ سمجھا، بس ایک گڑیا۔۔۔ ایک گڑیا۔۔۔ ایک گڑیا۔۔۔

    وہ تعداد میں نو تھیں۔ گوری، سانولی، گوارا اور ناگوار، بعض ان میں دل کش کہی جا سکتی تھیں مگر خوب صورت کوئی نہیں۔ سورج اسی طرف سے طلوع ہوتا تھا جس طرف سے وہ اپنی سفید ساریوں میں ملبوس طیور صبح کے چہچہوں کے ساتھ باکس اور ڈورینڈا کی جھاڑیوں کی اوٹ سے نکلتی دکھائی دیتی تھیں۔ ہر صبح اٹھ کر ادھر آتی تھیں اور ایک ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح مشرق افق کی طرف سفر کر جاتی تھیں۔ درجۂ اول کے کوارٹر صحت گاہ کے عام وارڈوں سے قریباً تین فرلانگ پورب جانب تھے۔ ان میں سے کسی ایک کی ڈیوٹی اسی طرف ہوتی تھی اور ڈیوٹیاں بدلتی رہتی تھیں ہر پندرہویں روز۔ عام دارڈ کے بھی دو درجے تھے۔ دوم و سوم۔

    درجہ اول کے کوارٹر خاصے بنگلے تھے۔ ان کی اپنی شخصیت تھی۔ وہ اسپتال نہیں گھر معلوم ہوتے تھے۔ ساٹھ روپے ماہوار ان کا کرایا تھا۔ درجہ دوم کے چالیس روپے ماہانہ تھے۔ ایک مریض کو دو کو ٹھریاں مل جاتی تھیں۔ ایک اپنے لئے اور ایک تیمار دار کے لئے۔ تیسرے درجے کے معنی تھے ایک وسیع سالا انبا چوڑا کمرہ۔ ایک کمرے میں آٹھ پلنگ ہوتے تھے اور جب حیات کے لعب ولہو کی رفتار میں زیادہ تیزی ہو جاتی تو سل و دق کے جراثیم کے چند اور شکار آ جاتے تھے اور کمرے کی آبادی بارہ تیرہ تک پہنچ جاتی تھی۔ درجۂ سوئم کا کرایہ پچیس روپے ماہوار تھا۔ موت اور زندگی کے درمیان بھی انسانیت درجوں میں بٹی ہوئی ہے۔ گھر، اسپتال اور قبرستان ہر جگہ نمبر ایک، نمبر دو تین کی تفریق ہوتی ہے۔ کالوں کا قبرستان، گوروں کا قبرستان، شرفاء کے مدفن اور غریبوں کے گورستان ہر شہر، ہر قصبے اور گاؤں میں پائے جاتے ہیں۔ صحت گاہ اسی کرہ پر قائم تھی اور اسی کے بھلے برے قانون کی پابند۔

    ہم ان دنوں دس تھے۔ صحت گاہ کے انتہائی جنوبی طرف تیسرے درجے کے دارڈ میں۔ یہاں سے نرسز کو ارٹر سامنے نظر آتا تھا۔ لوہے کے پلنگ پر پڑے ہوئے مریض درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان نرسوں کی اقامت گاہ کو اس طرح دیکھتے تھے جیسے فٹ پاتھ پر چلتی ہوئی مزدورنوں کے ترسے ہوئے بچے پرستانی دکانوں میں شیشے کی الماریوں کے اندر کھلونے دیکھتے ہیں۔ وہ نونرسیں ہم سے شنا ساتھیں۔ ان میں سے ہر ایک کی ڈیوٹی ہم لوگوں کے وارڈ میں کبھی نہ کبھی رہ چکی تھی۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے کی پارٹیوں اور پکنکوں میں ہم لوگوں کا ساتھ رہتا تھا۔ ہم سب نرسوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور وہ ہمیں۔ ہماری گفتگو کا اکثر حصہ انہیں سے متعلق ہوتا تھا۔ ان کی تعریف، ان کی برائیاں، ان کے ناز، ان کی سازشیں، ان کی محبت و نفرت۔

    ہم رومان سے تھک کر ٹھیٹھ حقیقت طرازی پر اتر آئے تھے۔ ہمارے گرسنہ جذبات رومانی بیانات کے شربت کو برداشت کرتے کرتے تھک گئے تھے۔ ہمیں مصالحہ دار چٹپٹی چیزوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ ہم میں سے اکثر افراد اس وارڈ میں ایک سال گزار چکے تھے۔ اور چند ایسے بھی تھے جن کے تین سال ختم ہوگئے تھے۔ امیدی ونا امیدی کے تین سال، ارمانوں اور محرومیوں کے تین طویل سال۔ ایک دو نووارد تھے۔ یہ نو گرفتار سہمے سہمے، سنجیدہ، انمل، متردد، بےبس اور ملتجی سے نظر آتے تھے۔ چند ہفتوں میں یہ بھڑک عموماً دور ہو جاتی تھی، اور نئے بہت جلد پرانے بن جاتے تھے۔ لیکن ایک دو پرانے بھی ایسے تھے جن کی مستقل مایوسی اور گھبراہٹ کبھی دور نہ ہوئی۔ بہر کیف موت اور بیماری کے درمیان بھی وارڈ کی مجموعی فضا خوش گوار تھی۔ استراحت کے گھنٹوں کے علاوہ وقتوں میں ہم لوگ کھیلتے تھے، ہنستے تھے، جملہ بازیاں ہوتی تھیں، قہقہے لگتے تھے، نرسوں سے لگاوٹ ہوتی تھی، اصلی اور نقلی آہیں کھینچی جاتی تھیں، سرگوشیاں ہوتی تھیں اور رازداریاں بھی۔

    ہم دسوں کا ایک خاندان تھا، ایک مذہب۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہوتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ رنج۔ وارڈ میں بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی، پر سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ کم از کم ایسا نظر آتا تھا۔ ہاں استراحت کے گھنٹوں میں ہماری اجتماعیت ٹوٹ کر بکھر جاتی تھی اور ہم میں سے ہر ایک اپنی دنیا بساتا تھا اور ویران کرتا رہتا تھا۔ رات کے آرام کے علاوہ دن بھر میں تین استراحت کے وقفے ہوتے تھے باضابطہ طور پر نرسیں گھنٹی بجا کر مریضوں کو بارِ بستر ہو جانے پر مجبور کرتی تھیں۔ یہ بھی ایک علاج تھا۔ نیند اور گفتگو ممنوع۔ زندہ لاش کی طرح پڑے رہئے۔ جہاں تک ممکن ہو کم سے کم کروٹ لیجئے اور کچھ مت سوچئے۔ فکر و تردد ایسے مریض کے لئے مہلک ہے۔

    ’’سوچامت کیجئے۔ اچھے! ہاں۔۔۔ ں!‘‘ نرسیں بڑے پیار سے کہتیں مگر بھلا کوئی کیسے نہ سوچے۔ ہم اکیلے پلنگ پر پڑے پڑے سوچتے رہتے تھے۔ زندگی کی سوچ، موت کی سوچ، سل کی سوچ، دق کی سوچ، آرزوؤں کی لاش، ماضی کا ماتم، مستقبل کار دگ اور سب سے بڑھ کر روح کی وہ مہیب کپکپی جو مادہ کے سہارے سے علیٰحد گی کے محض تصور سے ہی طاری ہو جاتی ہے۔ جسم! محسوس، ٹھوس، تپاں، متحرک، خود نگر، خوب صورت اور حقیقی جسم کا اچانک سرد اور بےحس ہو جانا! احساس و ادراک چھٹپٹا نے لگتے ہیں۔ فرد کے وجود کا لا معلوم، تاریخ، بےپایاں، لامکاں، بےزماں وسعتوں میں تحلیل ہو کے فنا ہو جانا، سوچنے والے دماغ، دھڑکتے ہوئے دل، تیرتے ہوئے خون کا تعطل اور لاعلمی کا لرزہ، ناقابل تصور پھیلاؤ۔ یہ کائنات کا سب سے الم ناک سانحہ ہے۔

    ہم صحت گاہ کی خاموشیوں میں پھسلتے ہوئے لمحات کو، سرکتی، گھٹتی، ڈوبتی ہوئی زندگی کے انجام کو سوچ کر لرز اٹھتے تھے۔ ہم خیالات کے بوجھ کو فضا میں پھینک کر اپنی قمیصوں کے بٹن یا پلنگ کی پٹی کو پکڑ لیتے تھے، تاکہ معلوم اور شنا سا چیزوں کو ہستی کی ٹیک مل جائے۔ ہم گاہ ٹماٹر کے دام اور پیٹی کوٹ کے حاشیے کو تخیل سے چھوکر درد زندگی کی اذیتوں سے پناہ لیتے تھے اور کبھی بےخواب راتوں کی نیند کا کا جل گھول کر احساس کو افیون دینے کی کوشش کرتے۔ مرجھائے ہوئے پھول کی طرح پپوٹے نڈھال ہونے لگتے تو، ’’اوہ۔۔۔ رے۔۔۔ ے! بڑے صاحب سے کہہ دوں گی، یہ تو سونے لگے ہیں۔‘‘ کی آواز سنائی دیتی اور گاہے گاہے گال یا پیشانی پر ایک آشنا سی چپت۔ یہ نجات دہندہ آواز سر سے بوجھ اتار دیتی تھی۔ ہماری آنکھیں مسکراتی ہوئی کھل جاتیں۔

    ’’میں آپ سے مذاق کر رہا تھا مس صاحب! سوتا کون ہے؟ آیئے آپ بھی سو جایئے۔‘‘ یہ جواب ملتا اور پھر کئی تسکین دہ رد عمل۔

    وہ روز طلوع آفتاب کے بعد کرنوں کی طرح وارڈ میں آتی دکھائی دیتی تھیں۔ پہلے نسائی آوازوں کے گھنگھرو بولنے لگتے تھے۔ ہم چوکنا ہو کر اس طرف دیکھتے، صحت گاہ کی ویرانیوں میں یہ روزانہ کا واقعہ بھی کافی اہمیت رکھتا تھا۔ سفید ساریاں سبز جھاڑیوں سے نکلتیں ، جیسے بیلے کے پھول کونڑھی کے اخضریں پردے سے نکلتے ہیں بگلوں کا پر اقریب تر ہو جاتا اور آوازیں زیادہ واضح۔ پھلجھڑی چھوٹتی اور دو پھول ہم لوگوں کے وارڈ میں آگرتے۔ ہم وسوں مریض انھیں اپنے دامن نظارہ میں لے لیتے۔

    جب کسی نرس کی ڈیوٹی درجۂ اول کے کوارٹر سے وارڈ میں بدلتی تو عموماً وہی ہوتا کہ بجا یا بےجا طور پر کردہ و ناکردہ غلطیوں پر ہم لوگوں کی سرزنش یوں کی جاتی، ’’میں اے وارڈ میں ہی بھلی تھی۔ کیسے اچھے مریض ہیں اے وارڈ کے۔ چھی، اس وارڈ کے مریض تو جان کھا جاتے ہیں۔‘‘

    ’’کیسے اچھے ہیں اے وارڈ والے! اپنے نوکروں سے کام کرا لیتے ہیں بیچارے اور یہ لوگ تو جوتے سیدھے کرواتے ہیں، جیسے میں ان کی لگائی ہوں۔۔۔‘‘ اور کبھی زیادہ دلدوز، ’’گھر میں کرتے ہوں یہ ٹھاٹھ! شان وکھلانے آئے ہیں! اے وارڈ میں نواب صاحب اپنا منھ تک میلا نہیں کرتے۔‘‘

    ہم دسوں مریض مختلف زاویوں سے درجہ اول کے کوارٹر کو معاندانہ دیکھنے لگتے اور کوارٹر کی سرخ انیٹیں طنز یہ ہنسی ہنستی نظر آتیں۔ معمر نواب صاحب کی موٹر، ان کا جوان لڑکا منصف صاحب، دھن راج جی کے بھائی کی توند اور شہوتی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، صوبے کے صدر ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ صاحب کا گورا چٹا، چالاک و فتنہ کار نور نظر، بیمار وتیما ر دار، غرض درجہ اول کی ساری مخلوق سل کے کیڑوں کی طرح محسوس ہوتی جو ہمارے پھیپھڑوں کو چھلنی کر رہی ہے۔ ہم ان سب کو اپنے اندر سے نکال کر تھوک دینا چاہتے تھے۔ تھوکدانی کے کار بولک ایسڈ میں فنا ہونے کے لئے۔ اس روز سینے کے لگاؤ زیادہ خلش پیدا کرتے اور ہم میں سے کئی، نرس ستم گار کے جسم کا جغرافیہ بیان کر کے دل کی بھڑاس اور چھپے ہوئے جنسی ارمان نکالتے تھے۔

    ہمارے دلوں میں چور تھا اور ان کے دلوں میں بھی۔ ہمارے اندر کوئی ٹیڑھی سیدھی رگ ضرور تھی جو نرسوں کو ذلیل سمجھنے پر اکساتی رہتی تھی اور نرسیں بھی ہر وقت اپنی شخصیت اور پندار کے تحفظ کے لئے تیار رہتی تھیں۔ ان کے تجربے رنگ رنگ کے تھے۔ ماضی کے نہاں خانے میں سیکڑوں مریض، بیسیوں ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر چھپے ہوئے تھے۔ نرسوں کے دلوں سے ہو کر ایک تار گذرتا تھا جو ان مریضوں اور ڈاکٹروں کو گوندھے ہوئے ہمیں بھی پروتا چلا جاتا تھا۔

    تیسرے درجے میں خلوت کا سکون اور مواقع نہ تھے۔ لیکن اجتماع کا تنوع، ہمدردی اور رونق تھی۔ اے۔ وارڈ کے علاوہ اَپرسی وارڈ اور لورسی وارڈ کے درمیان بھی رقابتیں تھیں مگر یہ دوسری رقابت ولولہ انگیز اور عمل پرور تھی۔ یہ اپر اور لور محض زمین کے نشیب و فراز کا فرق تھا۔ پہاڑی علاقوں میں زمین کا اونچ پنچ بہت ہی نظر نواز ہوتا ہے۔ دونوں سی وارڈ تیسرے درجے کے وارڈ تھے۔ دونوں کا اعتبار اور امکانات برابر تھے لیکن ہمارے وارڈ کا ایکہ ساری صحت گاہ میں مشہور تھا۔ ہماری لاگ اور لگاؤ بس سمجھئے متحدہ ہی تھے۔

    وارڈ کے انتہائی داہنی طرف اٹھارہ سال کے ایک گورے نازک سے لڑکے کا بڈ تھا۔ اس کے دونوں پھیپھڑوں میں ’’اے پی‘‘ دی جاتی تھی۔ یہ صحت گاہ کا معجزہ تھا اور مثالی نمونے کی حیثیت رکھتا تھا۔ داکٹر مدراسی نے اسے حیرت انگیز طور پر سل کے پنجوں سے چھینا تھا۔ اسے بہت زیادہ آرام کرنے کی ہدایت تھی پھر بھی وہ وارڈ کی دل چسپیوں میں کافی حصہ لیتا تھا۔ وہ نرسوں کا کھلونا تھا۔ ننھا گوپال پندرہویں سال میں سینی ٹوریم آیا تھا۔ اس کے ایک جانب ایک مارواڑی تھا بہت ہی موٹا تازہ، تین من اس کا وزن تھا۔ پر یہ غریب ساڑھے تین سال صحت گاہ میں رہ کر بغیر شفایاب ہوئے ہی چلا گیا۔ اس کے دونوں پھیپھڑوں میں بڑے بڑے غار تھے۔ اس کے بڈ پر ایک مار واڑی ہی آیا۔ یہ اتنا دبلا تھا کہ ہم لوگ اسے مگنی رام کا بھوت کہتے تھے۔

    تیسری ہستی ایک سیاہ رنگ کے مریض کی تھی جو حیاتین کے جنون میں صرف ایک سیر ٹماٹر دن بھر میں کھا جایا کرتا تھا۔ وہ کم سخن مگر زندہ دل تھا۔ یہ حضرت مر مر کے بچے تھے شاید ان کی صورت دیکھ کر ملک الموت بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ چوتھا میں خود تھا۔ صحت گاہ میں اپنی شادی کے سوٹ پہن پہن کر حسرتیں نکالنے والا میرا دوسرا ہمسایہ نقی تھا۔ ایک طرف بھائی حاذق کی سیاہ فامی اور دوسری جانب نقی کاکا فوری رنگ، ہم تینوں مل کر اس اشتہار کی تصویر بن جاتے تھے جس کے نیچے لکھا رہتا ہے ’’اب کالا کوئی نہیں رہےگا۔‘‘ نقی حسین تھا اور بےحد جو ان معلوم ہوتا تھا۔ شوخ، چونچال، بیباک اور ہنس مکھ۔ اس کی آمد سے لوئر سی دارڈ کا پلہ گراں ہو گیا تھا۔ پہلے اپر سی وارڈ میں گھوش نرسوں کا مرکز ثقل تھا۔ مگر اب ڈیوٹی ختم ہوتے ہی ساری نرسیں اپنے کوارٹر جاتے ہوئے لوئر سی میں چلی آتی تھیں۔ گھڑی دو گھڑی کے لئے کھانے کی میز کے گرد بڑی دل نواز فضا پیدا ہو جاتی تھی۔

    چہل سالہ وکیل صاحب کے چست فقرے نرسوں کو بہت بھاتے تھے۔ وارڈ میں دو وکیل صاحبان تھے۔ ایک واڑھی رکھتے اور نقلیں کرتے تھے، دوسرے پیشانی پر چندن کا ٹیکہ لگاتے اور نرسوں سے فحش مذاق کرتے تھے۔ جو نیئر وکیل صاحب کی پیشانی پر عبیر کی سرخ بیندی نرسوں کے لئے سرمایہ تفریح تھی۔ ان دونوں بزرگوں کی ٹکینک ایک سی تھی۔ یہ پہلے بےوقوف بن کر اور جملے سہ کر اپنا حق جما لیتے تھے اور پھر معصومانہ انداز میں مذاق کا جواب دیتے تھے۔ ان دونوں کا نشانہ بےخطا تھا۔ مگر ایک کی فطرت میں ایمائی طنز زیادہ تھا اور دوسرے میں واقعیت نمایاں۔

    نقی کے بائیں پہلو میں ایک نوجوان مِصر جی تھے۔ گورا رنگ جس پر سرخی کی چھوٹ تھی۔ مصر جی بہت جذباتی اور رقیق القلب تھے۔ جسمانی طور پر جو بھی رہے ہوں مگر ذہنی طور پر بالکل کنوارے تھے ، اچھوت کنیا کی طرح اور مصر جی کو ایک پھیپھڑے میں ’’اے پی‘‘ دی جاتی تھی۔ مصر جی کہنہ مریض تھے۔ ’’اے پی‘‘ کا کورس ختم ہو چکا تھا۔ ان کے مریض پھیپھڑے کو فرینک نرو کی جراحت کے ذریعہ معطل کر دیا گیا تھا۔ میں اور مصر جی میڈیکل کالج کے طالب العلم رہ چکے تھے۔ تختے کی طرح چت لیٹے یسوع مسیح سے لو لگائے رہتے تھے۔ کوئی جنبش نہیں، کسی قسم کے آثار حیات نہیں۔ وہ جب ضرورتاً چلنے پھر نے پر مجبور ہو جاتے تھے تو یوں چلتے تھے کہ’’زیر قدمت ہزار جان است۔‘‘ اصولاً وہ اپنے سل زدہ پھیپھڑوں کو کم سے کم حرکت اور زیادہ سے زیادہ آرام دینا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک گفتگو بھی زیانِ حیات تھی۔ ہر وقت، ہر روز، ہر سال یونہی زندگی گذارتے تھے جیسے سسرال میں نئی دلہن۔ صحت گاہ میں انھیں ڈھائی سال ہو چکے تھے۔

    دسویں ہستی ایک بنگالی مسلمان لڑکے کی تھی۔ سولہ سترہ سال اس کی عمر ہوگی۔ موٹا، گول مٹول سا، گردن ندارد۔ یہ لڑکا غلام ربانی بھی پربھو بابو کا مرید تھا۔ کم سخن، کم آمیز مگر بسیار خورو بسیار خواب۔ اسے ہم لوگ مرغ کہتے تھے اور پربھو بابو کو پطرس ولی۔ ’’مرغ‘‘ وضو کے علاوہ غسل بھی کرتا تھا۔

    یہ دسوں مختلف طبائع کے لوگ تھے۔ ایک انوکھی ہمدردی کے ذریعہ ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ سے تھے۔ نرسوں سے مذاق کے وقت پطرس ولی بھی ایک دو مسکراہٹیں ضرور ارزاں کر دیا کرتے تھے۔ ویسے بھی وہ ہمارے رومانوں سے کافی دل چسپی لیا کرتے تھے کیتھرن اور ایشری کی آواز سنتے ہی’’مرغ‘‘ بھی بانگ دینے لگتا تھا۔ یہ دو نرسیں جانِ سینی ٹوریم تھیں۔ ایشری بیس سال کی صند لی رنگ و دراز قد، چھوٹی مگر مسکراتی ہوئی آنکھوں والی لڑکی تھی۔ وہ چلتی تھی جیسے اسپ تازی ’’قدم چلتا‘‘ ہے۔ وہ اس کی گردن اور سینے کا ’’کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق‘‘ قسم کا خم۔ ایشری ملنسار، دل نواز اور مجسم سپردگی تھی۔ وہ نسیم خوش خرام کی مثال آزاد و ہمہ گیر تھی۔ ایشری کیتھرن کو کٹو بوا کہتی تھی۔

    کیتھرن پچیس سالہ بھر پور جوان عورت تھی۔ سانو لارنگ جراحات ِجفا پر نمک ریز، اس کے پھیلے اور گداز کو لھے ، اس کی گول کمر، اس کی مثالی ہندی چال، مست ہاتھی کی طرح وہ یوں افقِ نظر میں داخل ہوتی جیسے سمندری سفر کے بعد جہاز ہچکولے کھاتا ہوا ساحل کی طرف آتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بھاری کو لہوں کے محور پر بالائی جسم جھوم سا جاتا تھا، جیسے پھل دار شاخ موٹے تنے پر لچک سی جائے، پر اس کے کولھے پیش و پس ڈگمگا کے متانت سے آگے بڑھتے جاتے تھے۔ وہ داہنے ہاتھ سے ہلکا سا اشارہ کر کے ساری کے پلو میں تناؤ پیدا کرتی اور چھوڑ دیتی تھی۔ آنچل کی لپٹن میں اس کے سینے ابھر آتے تھے اور پلو لہرانے لگتا تھا۔ کیتھرن عموماً متین سے رہتی تھی مگر اچانک طور پر وہ شوخ و سحر کار بن جاتی تھی اور پھر سنجیدہ۔ بجلی کا چنچل پن اور امنڈتے ہوئے کالے، موج در موج بادل کی گمبھیرتا، یہ دونوں ایک دوسرے کو نمایاں کر کے قاتل تر بناتی تھیں۔ اس کی فطرت میں بحر الکاہل کی گہرائی تھی۔

    ان دو کے علاوہ سات اور تھیں۔ ایک جوڑا تھا مار تھا اور فیبی۔ مارتھا مردانہ وار لانبی چپٹی سی عورت تھی۔ ہنسوڑ اور بےجھجک۔ فیبی اس کے زیر حکومت تھی۔ نرس کوارٹر کے ایک ہی کمرے میں دونوں رہتی تھیں۔ وہاں دو پلنگ کے کمرے تھی۔ فیبی تو فلاں مریض سے گھل مل کر کیوں ملی؟ فلاں نے تجھ سے چھیڑ کیوں کی؟ اس جوڑ ے کے ’’نصف بہتر‘‘ حصے پر ہر وقت پہرہ تھا۔ مار تھا ہاں مصر جی سے خوش تھی۔ شرمیلی اچھوت کنیا سے مصر جی۔

    ایک جوڑا دو چچا زاد بہنوں کا تھا سلومی اور فلورنس۔ دونوں گوری گوری، گدازگداز، مائل بہ فر بہی عورتیں تھیں مگر لڑ کیاں کہے جانے پر مصر۔ سلومی اخلاقاً یا ضرورتاً لڑ کی کہی اور سمجھی جا سکتی تھی لیکن فلورنس تو بہت ہی بلند اخلاقی اور اشد ضرورت کے باوجود عورت سے لڑکی نہیں بن سکتی تھی۔ میگی اور دلاری کالی کالی چپٹی ناکوں والی نرسیں تھیں۔ خوش اخلاق، کرم فرما، ہر دلعزیز، ایثار پسند میگی ادھیڑ عمر کی تھی اور دلاری جوان۔ اس کے چھوٹا ناگپوری سینوں کی سنگینی، ناک کے چپٹے پن کا اس حد تک کفارہ ضرور ادا کر دیتی تھی کہ اس کی پیشانی کے محاذ سے نظر یں پھسل کر صدر میں ٹھوس سہارے کے بل پر تھم جاتی تھیں۔

    نویں تھی ڈولی۔ وہ سراپا ڈولی تھی۔ چھوٹا سا کھلونا۔ شریر آنکھیں مٹکانے اور چیں چیں کرنے والی گڑیا۔ گہرا سانولا رنگ، بوٹا سا قد، پاجی آنکھیں ، کھلنڈری بےباک، لڑ پڑنے والی اور لڑ کر ہنس دینے والی۔ یہ سب سے کم عمر تھی۔ اٹھارہ انیس سال کی ہوگی۔ کبھی تو یہ بد صورت دکھتی تھی اور کبھی گوار احد تک بھولی۔

    صحت گاہ ایک دیرانے میں تھی۔ سب سے نزدیک کا گاؤں ڈیڑھ میل پر تھا، اور سب سے نزدیک کا شہر اٹھارہ میل پر۔ صحت گاہ کی بس اپنی ایک چھوٹی سی دنیا تھی الگ تھلگ۔ دو ڈاکٹر، ایک کمپاؤنڈر، ایک ڈریسر، ایک ایکسرے بابو، دو کلر ک، نو نرسیں ، ایک میٹرن اور ایک سسٹر، آٹھ وارڈ بوائے ، چند مہتر انیاں اور پچاس کے لگ بھگ سل و دق کے مریض مع اپنے باورچیوں اور چند تیمارداروں کے۔ وارڈوں کے چاروں طر ف باغ، جنگل اور سرخ سرخ مورم کے بڑ ے بڑے ٹیلے تھے۔ کچھ دور پر چھوٹی چھوٹی مگر پر شور پہاڑی ندیاں تھیں۔ جاڑوں اور گرمیوں میں یہ ند یاں مریضوں کے آنسوؤں کی طرح خشک ہو جاتی تھیں۔

    ایک روز میں اور نقی ایکسرے کے لئے نرس ڈولی کے ساتھ جا رہے تھے۔ ڈولی صبح سے غمگین اور چڑچڑی تھی۔ بڑے صاحب نے اسے ڈانٹا تھا۔ راستے میں اس نے دور سے بڑے صاحب کو دیکھا۔ کہنے لگی، ’’بڑا بنتا ہے۔ ایکسرے کرنے کے بہانے ڈارک روم میں خود جو چاہے کر گزرے اور دوسروں سے جلتا ہے۔‘‘ ڈولی نے غصے کی بد خیالی میں یہ جملے ادا کئے۔ ہم لوگوں کی موجود گی کے احساس نے اسے چونکا دیا۔ پردہ داری کے بغیر رومان رہتا ہے نہ کشش۔ وہ کہہ چلی، ’’نرسیں اگر دیسی ہوتیں تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ خدا باپ ہم لوگوں کو بچا لیتا ہے‘‘

    بات یہ تھی کہ بڑے صاحب کے جذبۂ اجارہ داری کے باوجود نرسوں کی انفرادیت ہمیشہ سرکشی پر تلی رہتی تھی۔ مہینے میں ایک روز نرسوں کو ڈے آف ملتا تھا۔ وہ تنہا یا دو تین کی ٹولی بنا کر شہر چلی جاتی تھیں مگر اجنبی شہر میں دل کی پیاس کا بجھنا، بلاؤز یا پیٹی کوٹ کی لیس خرید نا تو ہے نہیں۔ نرسیں عموماً وہاں سے دل کا بوجھ اٹھائے ہوئے واپس آتیں بلکہ سنیما دیکھنے کے بعد آرزؤں کی خاکستر کے اندر چنگاریاں اور سلگ اٹھتیں۔ کوارٹر میں دو نرسوں کی ٹولیاں تھیں۔ یہ ٹولیاں زیادہ تر زندگی کی ٹھیٹھ حقیقتوں اور مطالبوں پر جانب دارانہ تبصرہ کیا کرتی تھیں۔ فاش صداقتوں کو آنکھوں میں ڈال کر دیکھتی تھی۔ جب سب مل بیٹھتیں تو پھر مریضوں ، ڈاکٹرو ں اور ڈے آف کی باتیں، طعنہ و طنز، چھیڑ چھاڑ اور کبھی جھو مر کے گیت،

    آگے آگے میں چلی اور پیچھے پیچھے سیاں

    سروتا کا ہے بھول آئے پیارے نندویا

    اور غزلیں۔

    اے عشق عطا کر دے وہ کیف کا پیمانہ

    سیاں تو خیر دور کی بات تھی مگر کیف کے پیمانے کی تلاش جاری رہتی۔ ہر نرس کی کئی کئی داستانیں تھیں مگر ان سے ان کی طبیعت کبھی سیر نہ ہوئی۔ جوانی، عورت، بیوی اور ماں ہمیشہ ان میں جاگتی رہتی تھیں اور نہ جانے کتنے جانے اور ان جانے روپ بدل کر ان کے جذبوں پر چھا جاتی تھیں۔ سطح کے نیچے نا آسودگی اور بیزاری پوشیدہ رہتی تھی۔ ارادی اور غیرارادی قوتوں نے انھیں زندگی کی اس منزل میں لا ڈالا تھا جہاں لطافت مٹی نہ تھی روپوش ہو گئی تھی۔ کچھ عجیب بات معلوم ہوگی مگر ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی نرس نے مریض کے بلغم میں سل کے کیڑوں کے پائے جانے کے باوجود اس کے لئے اپنے لب و رخسار ارزاں کر دیے اور یہ مسلول سل کے کیڑوں کو مکمل طور پر اپنے دل و دماغ میں ہضم کر جاتے تھے۔

    ’’مثبت‘‘ مریض گہمنا سانپ سے زیادہ خطر ناک سمجھے جاتے ہیں مگر یہ دیویاں بس گھول کر پی جاتی تھیں۔ کون جانے محبت کے امرت میں ملا کر یا آتش بداماں ہوس کی آگ میں بجھا کر۔ مریض تو جراثیم کو تمنائے حیات کی رومیں بہا دیتے تھے۔ وہ اتنی بار ٹی بی ٹی بی کا درد کرتے تھے کہ ٹی بی بے حقیقت ہو جاتی تھی۔ جیسے ملا کی تسبیح پر گھومتے گھومتے خدا بےحقیقت ہو جاتا ہے۔ ایک بار بھائی حاذق نے ’’اسپیوٹم فلاسک‘‘ میں سخت کھانسی کے بعد بلغم پھینکتے ہوئے مصر جی سے مسکراتے ہوئے کہا تھا، ’’بھائی! تم بی بی اور فے بی (فیبی) دونوں سے لطف اٹھاتے ہو، میں صرف ٹی بی سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا تھا میگی بھی تو ہم قافیہ ہے۔ اپنی غزل کے لئے آپ اسے استعمال کیجئے۔ بھائی حاذق ہنسنے لگے اور انھیں زور سے تکلیف وہ کھانسی آ گئی۔

    ہم لوگ کرسمس، عید اور ہولی سب تہوار منایا کرتے تھے اور یوں اور مریضوں کے علاوہ ذی فراش مریض بھی اپنے دکھ درد کو بھلا کر غم غلط کر لیا کرتے تھے۔ نقی کو صحت گاہ میں آئے ہوئے ساتواں مہینہ تھا اور مجھے پانچواں کہ کرسمس آ گیا۔ اس عرصے کے اندر میں اور نقی بہت قریب ہو چکے تھے۔ عورتوں کے وارڈوا لیاں ہمیں ’’سارس کا جوڑا‘‘ کہتی تھیں۔ زنانہ وارڈ ہم لوگوں کے وارڈ کے پہلو میں تھا۔ معصوم سے مصر جی گاہے گاہے وہاں برج یا کیرم کھیلنے کے لئے بلا لئے جاتے تھے۔ مسز شنکر اور مسز اکرام نے ایک دودفعہ سارس کے جوڑے کو بلوا بھی بھیجا مگر ہم لوگوں نے تاب مقابلہ نہ پاکر بلا وے کو ٹال دیا مگر جب ہم لوگ ڈرامہ کھیلتے تھے تو پھر زیور اور کپڑے مانگنے کی تقریب سے جنس لطیف سے ملاقاتیں ہو ہی جاتیں تھیں کرسمس کے موقعہ پر بھی ہم لوگوں نے ڈرامہ کھیلا۔ نرسوں نے بھی شرکت کی مگر یہ کرسمس کے جذبات میں طوفان برپا کرتا ہوا آیا۔

    نقی لوئر سی وارڈ میں سب سے خوب صورت اور زندہ دل نوجوان تھا۔ اس کی شوخ حسین آنکھیں چشمہ شیریں کی طرح تھیں۔ صنف نازک کے لئے دل کی پیاس بجھانے کا نہایت ہی شاداب ذریعہ۔ ہر نرس نے اس کی لانبی اور گھنی پلکوں کے نخلستان میں پناہ لینی چاہی مگر ایشری کی جرأتوں کے سامنے بقیہ سب عقبی زمین کی آرائش بن کر رہ گئیں، ہاں ننھی ڈولی اس طرح وابستہ رہی جیسے ہندوستان کے ساتھ لنکا۔ ڈولی گلہری تھی۔ ہر درخت پر چڑھ کر پھل کترنے والی مگر چوری چوری یہ لے اور وہ بھاگ۔

    ایشری بےحد جذباتی تھی۔ اس کے جذبات کی رومیں ماضی، حال اور مستقبل سب بہہ جاتے تھے۔ اس پر محبت کے دورے پڑتے تھے۔ دو تین ماہ سے زیادہ و ہ شدت کے ساتھ کسی کو نہیں چاہتی تھی مگر نقی نے اسے رام کر لیا تھا۔ محبت کے دورے کے وقت بھی وہ کسی کے جذباتی مطالبے کو رد نہیں کر سکتی تھی۔ اے وارڈ کے منصف صاحب اس پر مرنے لگے تھے۔ ایشری نے ان کا دل بھی نہیں توڑا اور دل دہی کے لئے وہ انتہائی بخششوں سے کام بھی لے لیا کرتی تھی۔

    ’’مجھ سے کسی کا کڑھنا دیکھا نہیں جاتا نقی اور ایک تم ہو۔‘‘ ایشری نے میرے سامنے ایک بار جھوے کے سائے میں کہا تھا۔ وہ اپنے سارے قصے ہم لوگوں سے کہہ دیتی تھی۔ اس کا کوئی راز نہ تھا۔ کیتھرن ایشری کی ضد تھی۔ وہ مجسم راز رہنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس کی فتوحات پس پردہ ہوا کرتی تھیں۔ اپنے کو وہ نہایت پارساثابت کرنا چاہتی تھی مگر نقاب و حجاب کا اتنا گوشہ وہ چٹکیوں سے اراوتاً ضرور اٹھا دیتی تھی کہ اس کی محبوبیت اور گراں مائیگی ارمان انگیز طور پر ظاہر ہو جائیں۔ کیتھرن نے بھی نقی کو اپنا شکار بنانا چاہا مگر نقی اس کی آہستہ خرامی اور راز دار انہ اندازکی فطرتاًتاب لاہی نہیں سکتا تھا۔ وہ محبت میں جری تھا۔ بےباک ایشری کی ذات میں اس کو وہ ٹائپ مل گیا جو جذبات کے کھیل میں ہر رکاوٹ کو گناہ سمجھتا ہے۔

    یہ سب کچھ ہو چکا تھا جب میں سینی ٹوریم آیا۔ ایک مہینے کے اندر ہی میں اور نقی گھل مل گئے تھے۔ ایشری میرے سامنے بھی نقی سے بےتکلف باتیں کرتی تھی مگر کیتھرن نے جب ایک روز میرا بستر درست کرتے ہوئے چپ چاپ اوڑھنے والی چادر کے اندر میرے ہاتھوں میں گلاب کا پھول دے کر آہستہ سے کہا، ’’ڈارلنگ‘‘ اور میں نے اس سانحہ کا تذکرہ نقی سے کر دیا تو کیتھرن نے مجھ سے شکو ے کئے۔ ’’آپ تو بڑے نا سمجھ ہیں ، دیکھئے نقی مجھے بھابھی کہنے لگا ہے۔ میں یہ باتیں پسند نہیں کرتی۔ میری بھی تو عزت ہے۔ وہ تو آپ سے۔۔۔‘‘ کیتھرن نے اپنی سنجیدہ شیریں لوچدار آواز میں شکایت کی اور بات کو مکمل کرتے کرتے دانستہ رک کر ہنسنے لگی۔

    کرسمس کی تیاریاں خوب ہوئیں۔ ہم مریضوں نے رنگ برنگ کے کاغذوں کے زنجیرے اور جھنڈیاں بنائیں۔ ساری صحت گاہ کی آرائش کی گئی۔ چوبیس دسمبر کو ہر جگہ خوشی تھم تھم کر ابلنے کے لئے بے چین ہو رہی تھی۔ نرسیں نوخیز ہرنیوں کی طرح کلیلیں کرتی پھرتی تھیں۔ اسی روز بڑے صاحب نے بھی رقابت اور فرض کی زنجیریں ڈھیلی کر دی تھیں۔ شام کو نرسیں وارڈ میں جھرمٹ بنا کر صرف یہ پیام دینے آئیں کہ وہ لوگ کرسمس کا نغمہ شب گاتی ہوئی صبح کا ذب کے وقت ہی وارڈ میں آئیں گی۔ سب لوگ ان کی پذیرائی کے لئے تیار رہیں۔ وہ سب کی سب وردی برطرف کئے حسین و آرزو خیز ساڑیوں میں لپٹی، جذبات کے بوجھ سے لڑکھڑاتی فضا میں رقص مستانہ کرتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔

    ایشری طوفان و سیلاب تھی۔ کیتھرن نے اپنی فطرت کا نقاب الٹ دیا تھا۔ وہ بھی کرسمس ایو پر بے محابا تھی اور کون اس شام کو متحرک سپردگی نہ تھا۔ لوئر سی وارڈ میں کہر بائی لہر ڈور گئی۔ معمر وکیل صاحب (جنھیں ہم لوگ پیر مغاں کہتے تھے ) سے لے کر غلام ربانی تک لوگ تلاطم محسوسات میں ڈانواڈ دل ہو رہے تھے۔ ہمارے ہاتھ اٹھے نہ تھے لیکن ہمارے جذبات آغوش واکئے ہوئے تھے۔ اف! سی وارڈ کے ممکنات اور مواقع کتنے محدود تھے۔ ہمارے دل میں اپنی جیبیں اڑائے وارڈکی خلوتیں، انفرادی شان میں آسودہ کھٹک رہی تھی۔

    ’’نرسیں بڑے صاحب کے یہاں ’کرسمس ٹری‘ بنانے جا رہی ہیں ، جاگتے رہنا۔ ہاں!‘‘ ایک لوچد ار آواز فضا میں لہرا کر دلوں میں اتر گئی۔

    ’’اوہ۔۔۔ رے۔۔۔ ے! نہیں کیسے جاگیں گے بواتم بھی تو جان کے بنتی ہو۔ بلا آج رات نیند ہی کب آئےگی انھیں۔ ذرا مصر جی کو تو دیکھو۔۔۔‘‘ ایک رہزن تمکین ہوش نے دکھتی ہوئی رگ چھولی۔ پھر جلوۂ برق فنا قسم کا قہقہہ ترنم بار ہوا، اور فیبی کو چھیڑتی ہوئی سب نرسیں یوں چلی گئیں جیسے آتش بازی چھوٹ کے رہ گئی ہو۔

    وہ رات قیامت خیز تھی۔ نرسوں کے چلے جانے کے بعد ہم سب لوگ یک بہ یک محزوں ہوگئے۔ بیس دسمبر کو گیا رہواں مریض ہم لوگوں کے وارڈ میں داخل ہوا۔ بائیس کو وہ بہت ہی درد و کرب کے عالم میں جاں بحق ہو گیا اس کا پھیپھڑا پھٹ گیا تھا۔ ہم دسوں کی نظر یں خالی بڈ پر جاکر ہم آغوش ہوئیں۔ خاموش ماتم کی حالت میں پر بیتی آپ بیتی بنی جا رہی تھی۔ کچھ دیر تک ہم سب ہمدرد انہ انداز میں چپ چپ سے رہے۔ ہم اس اندوہ بلا سے پناہ چاہ رہے تھے اور انتقاماً ہم سارے جہاں کی خوشیوں کو چھین کر اپنے دل میں جمع کر لینے کی تمنا کر رہے تھے۔ پیر مغاں مغرب کی نماز پڑھنے چلے گئے۔ وہاں سے انھوں نے کچھ سکون مستعار لیا اور سلام پھیرتے ہی آخر شب کی امیدوں کے تذکرے چھیڑ دیے۔ ہم سب لوگ ٹوٹ کر ان تصورات سے لطف لینے لگے۔ نمبر گیارہ کے جسم کو پھر سے جلا کر ہم نے ذرات فضا میں بکھیر دیے اور اس کی روح خیالات کی انتہائی گہرائیوں میں دفن کر دی۔ اس شام کو ہم نے استراحت کے گھنٹے میں بھی بلند آواز میں گفتگو کی۔ بےہنسی کی ہنسی ہنسے اور نرسوں کا اتنے پہلو اور زاویوں سے تجزیہ کیا کہ ان کے جسم تحلیل ہوکر ہم میں سما گئے اور ہم ان میں۔

    نصف شب ہی سے نرس کوارٹر بیدار ہو گیا تھا۔ گیتوں اور ہنسیوں کی آوازیں ہماری مضطرب نیندوں کو اور بےکل کر رہی تھیں۔ ابھی رات ہی تھی کہ کرسمس کا حسین ’’نغمہ شب‘‘ اچانک طور پر لوئرسی وارڈ کے بہت قریب سامعہ نواز ہوا۔ ہم غنودگی اور نیند کے درمیان سے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ ہم میں سے اکثر نے جلد جلد اپنے الجھے ہوئے بال درست کر لئے۔ نرسیں ہارمونیم پر کرسمس کیر دل گاتی، چہلیں کرتی لڑکھڑاتی چلی آ رہی تھیں۔ وہ آگئیں چیت کی سنکتی ہوئی ہواؤں کی طرح، شباب کی امنگوں کی مثال کچھ دیر کے لئے۔ نغمے رک گئے۔ خندۂ بےباک تھم گئے اور فضا سکرومستی سے لبریز ہو کر چھلکنے لگی۔ ولولہ بداماں خاموشی کا ترنم، زندہ سکوت کی ابدی لے، آغوشِ وجود میں تھرتھرا رہی تھی۔ اس کے قبل کہ کوئی بڑھ کر بجلی کا بٹن دبائے بہت سی حسرتیں پوری ہو گئیں، بہت سی آرزوئیں جوان ہوئیں، کئی ارمان پیدا ہوئے اور ان گنت ناکردہ گناہ حسرت کی داد لینے کے لئے درد ناک مضحکہ کا سامان بن گئے۔

    آج انفعال خود جرأت رندانہ پر تلا ہوا تھا۔ باہر سطح مرتفع پر چلنے والی تیز ہوائیں سرد، بوڑھے، خاموش، گہرے نیلے آسمان کے سائے میں الھڑ دوشیزاؤں کی طرح لغزیدہ تھیں۔ پورب کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ میں نے تاروں کی چند آوارہ شعاعوں کی مدھم روشنی میں مائل انحطاط فلورنس کو اپنے بہت قریب پایا اور جب کسی نے بھک سے روشنی جلا دی تو میں نے دیکھا کہ ڈولی اور نقی کے درمیان ایک سکنڈ میں تھوڑی سی دوری پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی قماش بنے اور بکھرے۔ نغمے پھر بلند ہوئے۔ ہارمونیم ایشیری بجا رہی تھی اور سلومی نے فادر کرسمس کا سوانگ بھرا تھا۔ سرخ پیجامہ، سرخ عبا، نیلی اونچی خرطومی ٹوپی اور سفید لانبی داڑھی۔ ہم سب لوگ اسے دیکھ کر بے تحاشا قہقہے لگا نے لگے۔ ’’پیر مغاں‘‘ نے بڑھ کر فادر کرسمس سے معانقہ کیا۔ اس پر ایک گو نجتا ہوا قہقہہ لگا۔

    والان کے کھلے ہوئے حصے میں ایک حلقہ ڈال دیا گیا۔ رقص اور نغمے شروع ہوئے۔ نرسیں اپنا بہترین لباس زیب تن کئے ہوئے مور کی طرح ناچ رہی تھیں۔ باری باری اور گاہ جھومر ڈال کر گا رہی تھیں۔ ان کے بےپناہ سپردگی ہم لوگوں کو مدہوش کر رہی تھی۔ گاتے گاتے ان کے حشر خیز اشارے ، ناچتے ناچتے ان کے شانوں پر ذرا آسودگی حاصل کر لینا، موت اور حیات کی سرحدیں ملا رہا تھا۔ پیر مغاں نے ایشری کے گلے سے بندھا ہوا ہار مونیم اتار کر اپنے گلے میں ڈال لیا۔ میں نے اور نقی نے ہارمونیم کو سہارا دیا۔ ہمیں اس گھڑی بھی مجروح پھیپھڑوں پر وزن پڑ جانے کی مضرت بھولی نہ تھی۔ معمر وکیل صاحب نے جھوم جھوم کر خوب ولولہ خیز گت بجائی اور رات کی پریاں مجسم غزل الغزلات بنی ہوئی خدائے محبت کے جلوؤں کے خیر مقدم میں عرض نغمہ اور گذارش رقص پیش کرتی رہیں۔

    کرسمس کے بعد حجاب اٹھ گئے تھے۔ صبح کی شرمیلی سرخی بڑے دن کے بعد روز روشن کی تنویر بن گئی۔ ہم مریضوں کے جذبات کی جڑیں صحت گاہ کی زمین میں زیادہ پیوست ہو گئیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بوڑھے کرسمس نے سینی ٹوریم کی بالائی سطح کھر چ کر معجزانہ طور پر ایک نئی دنیا بنا دی ہے، جس میں اسپتال کی تلخ حقیقتوں کے ساتھ گھریلو فضا کی لطافت اور ہمدردی بھی ہے۔ ہم لوگوں نے پیر مغاں کی شادی تفریحاً فادر کرسمس سے کر دی جو صبح ہوتے ہی چولا بدل کر ’’مدر کرسمس‘‘ تھی۔ ’’پیر مغاں‘‘ اسے ’’میری گھر میں‘‘ کے اصول سے ’’میری وارڈ میں‘‘ کہنے لگے۔ ایشری باضابطہ طور پر میری سالی بن گئی اور کیتھرن نقی کی بھابھی تھی۔ اس نوع کی اور بھی کئی رشتہ داریاں قائم ہو گئی تھیں۔ ہم لوگ ان رشتہ داریوں کو یوں استعمال کرتے تھے جیسے لنگڑے بیسا کھیاں استعمال کرتے ہیں ہمارے یہ ذہنی سہارے فریب کی بنا پر قائم تھے۔ مگر زندگی میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فریب حقیقت سے زیادہ حقیقی بن جاتا ہے۔ ہم لوگ کشتی شکستہ پر سند باد جہازی یار ابن سن کر و سو کی طرح صحت گاہ کے صحرائی جزیرے میں بیٹھے سنسار سے الگ تھلگ، انتظار کی دبی ہوئی آگ سینوں میں لئے بری بھلی اپنی ایک چھوٹی سے دنیا بنارہے تھے۔ انسانیت کے دل میں کتنی لا انتہا حسرت تعمیر بھری ہوئی ہے۔

    یوں تو پہلے بھی نرسیں ہم لوگوں کے لئے ڈے آف میں شہر سے پھل اور میوے لے آتی تھیں مگر کرسمس کے تحفوں کی رنگینی و دل آویزی سے ایک نئے دور کی ابتدا ہوئی۔ پہلے پھل اور میووں نے رومانی لطافتوں کی شکل اختیار کی۔ جذبے کی حدت نے انھیں حریری رومالوں اور عطروسینٹ میں تبدیل کر دیا۔ حقیقت کی ایک سیال صورت رومان ہے جیسے برف سے پانی اور پانی سے بھاپ بن جاتی ہے مگر کچھ دنوں کے بعد رومال اور سینٹ تناسخ کے چکر میں پڑ کر بیسنی روٹی اور پوڈنگ بن گئے۔ استمرار حیات کے لئے روز مرہ کی واقعیت کا وسیلہ لازمی ہے۔

    گوپال بہت خوش تھا اکثر کہتا، ’’نقی بھائی! وارڈ میں بہت جی لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میری بیماری اچھی ہو گئی۔۔۔ تب بھائی انور ہم پھر جا کر اسکول میں نام لکھوا سکیں گے نا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں زندگی کی آرزوئیں جھلکنے لگتیں۔ وہ ذرا نڈھال ہو کر کہہ چلتا، ’’مگر پوڈنگ اور بیسنی روٹی اور کٹو بوا کے گیت، طبیعت بہت گھبرائے گی یہاں سے جاکے، ہے نا؟ پھر ہم سل کے مریضوں سے کون گھل مل کرےگا۔ سانپ سے کون کھیلے گا؟ ایشری بھابی اور کٹوبوا کا پریم کہاں ملےگا؟‘‘ نادان اور پر ارمان گوپال پر رقت سی طاری ہو گئی۔

    لوئر سی وارڈ میں تعلقات میں اجتماعیت کا رنگ چوکھا تھا۔ پر بھو بابو اپنی صوفیت اور گوپال اپنے کومل ارمانوں کے باوجود دوسرے وارڈوں سے، ہم سب لوگوں سے زیادہ رقابت کرتے تھے۔ وہ سل ودق کے ہلاہل میں نسائی لطافتوں کا امرت انڈیل کر سمیت کو گوارا بنانے کے لئے بے چین تھے۔ پر بھو بابو کو اپنے بڑے سے کنبے کی ذمہ داریاں یاد آتی تھیں۔ یسوع مسیح کی محبت، برج اور کیرم کے کھیل، نرسوں کا لوچ، جو بھی زخم پر مرہم کا پھاہا رکھ دے، جس سے بھی غم غلط ہو جائے۔ ایک روز گوپال برہم بر ہم سا ٹہل کر واپس آیا۔ اب اسے چند فرلانگ چلنے پھرنے کی اجازٹ مل گئی تھی اور سیر کے بعد اس کی حرارت کا درجہ بڑھتا نہ تھا۔ ان دنوں وہ بہت مسرور تھا۔ اسے امید تھی کہ رفتہ رفتہ اسے بھائی حاذق کی طرح ایک میل سیر کی اجازت مل جائےگی۔

    گوپال کو بیزار اور برہم دیکھ کر مجھے اور نقی کو سخت تعجب ہوا۔ ہم لوگ بھی دو میل کی سیر کے بعد پلنگ پر لیٹ کر تھر ما میٹر لگا رہے تھے۔ اس کے بعد فوراً شام کی استراحت کا گھنٹہ شروع ہو گیا۔ ڈولی کی ڈیوٹی تھی اس بک بک کرنے والی لڑکی نے ہم لوگوں کو باتیں کرنے نہیں دیں۔ گوپال کا نازک سا چہرہ تمتما رہا تھا۔ وہ کچھ کہنے کے لئے بےچین تھا اور ہم لوگ سننے کے لئے مگر قہر مریض بر جان مریض، ایک گھنٹہ ہم لوگوں نے عجب الجھن میں گذارا۔ ٹن ٹن ٹن! گھنٹی بجی اور گوپال جھٹ اٹھ کر میرے اور نقی کے پلنگ کے درمیان آ کھڑا ہوا۔ ہم بھی اٹھ بیٹھے۔

    ’’کٹوبوا آبزرویشن وارڈ میں مہندر بابو سے۔۔۔‘‘ گوپال رک گیا۔ اس کا چہرہ اور سرخ ہو گیا، ’’مہندر بابو نے کٹو کے گال میں۔۔۔‘‘ اب کے اس نے بوا نہیں کہا۔ ’’انور بھائی کیتھرن سے مت بولئے۔‘‘ گوپال بہت خفا تھا۔ اس کی آنکھیں پر نم ہو گئیں۔ ایک گھنٹے کے بعد ڈیوٹی سے فراغت ہو گئی تو کیتھرن ہم لوگوں کے وارڈ میں آئی۔ کچھ شرمائی ہوئی خفیف وہ سیدھے میرے پاس آئی۔

    ’’انور بابو! مجھے ٹائی باندھنے نہیں آتی۔ ڈرامے میں میرا مردانہ پارٹ ہے۔ میں آپ سے ہی تو ٹائی کا ناٹ بند ھواؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکرائی، لچکی اور دزدیدہ نگاہوں سے اس نے گوپال کو بھانپا۔ کیتھرن نے بھی کار خیر کرتے وقت غالباً گوپال کو دیکھ لیا تھا۔ یہ جملے آزمائشی تھے۔ جن کے اندر احساس لغزش نے مشتبہ پذیرائی کو امید افزا بنانے کے لئے نوازش اور شیرینی کی آمیزش کر دی تھی۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے کچھ اور چھیڑ ا تو میں ایک کتاب اٹھائے پڑھنے لگا۔ کیتھرن چلی گئی۔ اس کے اندر نسائی پندار کافی تھا اور پھر راز کو وہ شرمندۂ عریانی کرنا کب گوارا کر سکتی۔ ہم لوگوں میں بات چیت بند ہو گئی۔ ایک روز ہلکی ہلکی بارش ہور ہی تھی۔ ایشری دوسرے وارڈ جاتے ہوئے میرے پاس آئی اور چپ چاپ سے صرف یہ کہہ گئی، ’’کٹو بوا کا آج ڈے آف ہے۔ وہ شہر نہیں گئیں اپنے کمرے میں چادر سے منہ لپیٹے رو رہی ہیں۔‘‘

    ان دنوں ایشری بھی اے وارڈ کے مصنف صاحب سے خوب پینگیں بڑھا رہی تھی۔ میں نے اور نقی نے یہ مشورہ کیا کہ کیتھرن اور ایشری، ان دونوں لات اور منات کو کشیدگی کا مزہ چکھا یا جائے۔ اپنے فیصلے سے ہم نے اہل وارڈ کو بھی مطلع کر دیا۔ پربھو بابواور پیر مغاں نے صاد کیا۔ طے یہ ہوا کہ میں صرف کیتھرن سے مراسم تر ک کردوں اور نقی صرف ایشری سے۔ دوسرے مریض حسب سابق میل جول جاری رکھیں ورنہ نرسیں وارڈ ہی سے گریز کر جائیں گی۔ یہ چپ چپ ایک ہفتے تک جاری رہی۔ ایک روز شام کی سیر سے پہلے اسٹورروم سے نقی محجوب سے ہنسی ہنستا ہوا نکلا اور مجھے علیٰحدہ لے جا کر کہنے لگا، ’’سیلا ب کو مضبوط دیو ارروک سکتی ہے مگر سیلاب بھی کہیں رک پاتا ہے، چلو کشید گی ہو چکی۔‘‘ ایشری کی شخصیت کی طوفان و شی نقی کی شعلہ مزاجی کو پنکھا جھل گئی۔ میں نے اسے بہت برا بھلا کہا۔ وہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے بس اتنا بولا، ’’منصب بھی کیا یاد کرےگا۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’مگر تم ایشری کو اپنا تو نہ سکے۔‘‘

    ’’تو کیا تم نے چپ رہ کر کیتھرن کو اپنا لیا؟‘‘ وہ تنک کر بولا اور پھر کا میابی کی ہنسی ہنسنے لگا۔ میں نے واقعیت کا ٹھوس پن اور جذبات پر وری کی نامرادی کا زہر محسوس کیا۔ بات یہ ہے کہ گوپال کی رپورٹ میرے احساس کی بالائی سطح سے کافی نیچے اتر گئی تھی۔ کرسمس نے ہم لوگو ں کی توقعات کو بہت آگے بڑھا دیا تھا اور تو قعات کا قیام خلش نامرادی میں بس بھر دیتا ہے۔ فرق یہ تھا کہ نقی حقیقت پسند تھا اور میں ذرا مثالی بلندیوں پر اڑ کر غیرمعمولی لذت حاصل کرنے کا عادی۔

    دو تین روز کے بعد میں اور نقی رات کے کھانے سے فارغ ہو کر وارڈ کے صحن کے ایک گوشے میں یوکلپٹس کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ چاندنی رات تھی مگر ابر کے سفید سفید ٹکڑے چاند کو پیار کرتے ہوئے نیلے آسمان میں تیر جاتے تھے۔ باد شمال یوں چل رہی تھی جیسے آسودگی کے بعد خیالات ماضی کی رنگین و آباد و سعتوں میں لطف پر واز حاصل کرتے ہیں۔ ہم لوگ ذرا سنجیدہ حالات میں ایک دوسرے کے مستقبل کے متعلق ہمدردانہ سوچ بچا ر کر رہے تھے۔ کیف بار ماحول میں کبھی طبیعت بڑی سنجیدہ اور گداز ہو جاتی ہے۔ اچانک خوشگوار ہنسی کا نغمہ ہوا کے فرش پر رقص کر گیا۔ ’’پاگلوں کو دیکھو۔‘‘ کیتھرن کی لوچدا ر آواز عین عقب سے آئی۔ ’’پاگلوں سے بھی بڑے پاگل، بالکل باؤلے۔ اچھا یہ سارس کا جوڑا کیا کر رہا ہے چاند سے پریم ہو رہا ہے؟‘‘ یہ ایشری کی شوخ بولی ٹھولی تھی۔ میں نے کہا، ’’آوایشریً تم سے پریم کریں!‘‘

    ’’واہ! میں کیوں آؤں؟ وہ۔۔۔ رے۔۔۔ ے! دیکھونا، کٹوبوا تمہیں منانے آئی ہیں۔‘‘ میں خاموش رہا۔ کیتھرن میرے پاس گھاس پر بیٹھ گئی۔

    ’’دیکھو آج بڑے صاحب نے میرے باز و میں کو لو کیلسیم کا انجکشن دیا ہے۔ چھی کتنا پھول گیا ہے بہت بےدرد ہے انور بابو۔۔۔‘‘ اس نے مترحم نظروں سے مجھے دیکھ کر کہا۔ میں بیگانہ سا بنا رہا۔ وہ کہہ چلی، ’’ارے ہم نرسوں کی زندگی کیا، غیروں کے لئے سب کچھ کرو مگر کبھی کوئی اپنا نہ ہو۔ اور ہمارا اپنا کون بیٹھا ہوا ہے؟ ننھی تو یتیم ہے نا اور میں۔۔۔ میرا ایک بوڑھا باپ اور ایک سوتیلا بھائی ہے۔ ہو بھی جائے ٹی بی، مرجائیں گے تو کون دو آنسو بہانے والا آئےگا بڑے صاحب کہتے تھے کہ کیتھرن کے لنگس بہت کمزور ہیں۔۔۔ اسی لئے تو یہ نگوڑی سوئیاں چبھوتے ہیں۔ چل ننھی کوارٹر! فوراً اسینک دے اسے۔۔۔‘‘ وہ ایشیری سے مخاطب ہو کر اٹھنے لگی۔ نقی نے بڑھ کر کیتھرن کا بازو عیادتاً مس کیا۔ اس نے ناز سے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا، ’’جس ڈالی پر میں گھائل پرندے کی طرح گھونسلا بنانے آئی تھی وہ ڈالی اکڑی ہوئی ہے تو پھر دوسری شاخ کیوں میری پوچھ کرے۔‘‘

    اب بیگانگی جرم تھی۔ تیر ہدف پر لگا۔ پرسش نے سکوت کی مہر توڑ دی۔ اس روز ہم لوگ کچھ دیر تک اپنی اور نرسوں کی زندگیوں کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ میں نے گوپال والی اطلاع سے گریز ہی کرنا چاہا لیکن چلتے چلتے کیتھرن نے ایشری سے کہا، ’’سنتی ہے ننھی؟ میں مہندر کے حلق میں ’’منڈلس پینٹ لگا رہی تھی، نہ جانے اس نے کیا کیا انور بابو سے کہہ دیا۔ بڑا خراب ہے۔ میں تو اسی وقت ڈری تھی۔ یہ مریض بھی عجیب ہوتے ہیں۔ نرسوں کی عزت ان کے نزدیک کوڑی کی بھی نہیں۔ بات کا بتنگر بنانا خوب جانیں۔‘‘

    ایشری نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اتنا جلتے ہیں تو پھر شادی کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘ دونوں ہنستی ہوئی چل دیں۔ باد شمال ان کے جانے کے بعد ذرا دیر تک ان کی ہنسی کی لہریں ہم تک پہنچاتی رہی۔ اس واقعہ کے تیسرے روز ’’پیر مغاں‘‘ صحت گاہ سے چل دیے۔ وہ صحت یاب ہو چکے تھے۔ ایک سال کے بعد بڑے صاحب نے انھیں پر یکٹس کی اجازت بھی دے دی تھی۔ رخصت کے وقت نرس سلومی نے مذاقیہ طور پر رونے کی نقل کی۔ ’’پیرمغاں‘‘ بھی ہنستے ہوئے ’’اپنی وارڈ میں‘‘ سے رخصت ہوئے مگر جب وہ ہم لوگوں سے رخصت ہونے لگے تو ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔ کتنے درد آگیں اور کتنے تفریحی دن ہم لوگوں نے ساتھ گذارے تھے۔ بڑے وکیل صاحب بڑے زندہ دل شخص تھے اور غمگسار، ہفتوں وارڈ سونا سا رہا۔

    ہم لوگوں نے چھوٹے وکیل صاحب کو پیر مغاں منتخب کیا اور صحت گاہ اپنے زخم و مرہم کے ساتھ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک مہینے کے بعد پر بھو بابو کو بھی جانے کا پروانہ مل گیا۔ وہ احتیاطاً ابھی سینی ٹوریم سے جانا نہیں چاہتے تھے مگر مریضوں کی کثرت ہو رہی تھی اور جگہ محدود۔ ان کو جانا ہی پڑا۔ ہائے اس گرفتار کا آزاد ہونا جس کے بازو ٹوٹے ہوئے ہوں۔ پربھو بابو ساڑھے تین سال کے بعد گھر جاتے ہوئے جھجک محسوس کر رہے تھے۔ جانے پھر وہا ں پھیپھڑے کیسے رہیں۔ وہ رخصت کے روز بہت دیر تک بائبل پڑھتے رہے اور روتے رہے۔ سیر کی انھیں اجازت تو تھی لیکن اسٹیشن جاتے ہوئے ان کے پاؤں ڈگمگانے لگے۔ صحت گاہ میں صرف ایک ہی رکشا تھا۔ وہ صرف ذی فراش مریضوں کو وارڈ سے ایکس رے روم لے جایا کرتا تھا۔ پربھو بابو کی پرشکستگی دیکھ کر نرس کو رکشا منگوانا پڑا۔ ان کو صحت گاہ سے اچھے ہو کر جانے کی مسرت تھی مگر اس مسرت کے آنسو کے ساتھ انجان مستقبل کا خوف بھی انھیں رلا رہا تھا۔ ایک دفعہ مجروح ہوکر گرفتار ہونے کے بعد وہ فضا میں پرواز کرنے سے ڈرتے تھے۔

    ہم لوگ اسٹیشن تک انھیں پہنچانے گئے اور سہارا دے کر گاڑی پر چڑھایا۔ ہم سب لوگوں پر رقت طاری تھی۔ واپس آکر ہم لوگوں نے دیکھا کہ نرس دلاری رہ رہ کر روئے دیتی ہے۔ وہ پربھو بابو کو باپ کی طرح چاہتی تھی۔

    ہم لوگوں کے وارڈ کے سبھی پرانے مریض اچھے ہو گئے تھے۔ مگر سینی ٹوریم کا اچھا ہونا بہت ہی لچک دار حالت ہے۔ کبھی غم دل کو کھاتا ہے اور کبھی دل غم کو۔ پہلے سل کے کیڑے ہمارے پھیپھڑوں کو کھا رہے تھے اور اب ہمارے پھیپھڑے ان کیڑوں کو کھا رہے تھے۔ محاذ کا رخ کب پلٹ جائے یہ کابوس ہم لوگوں کے خیالات پر سوار تھا۔ ہم لوگوں نے اس خلش سے نجات پانے کے لئے تواتر کے ساتھ تمثیل و اداکاری کا سلسلہ جاری کیا۔ نرسوں نے اس کھیل میں بھی ہماری بہت مدد کی۔ کیتھرن اور ایشری نے ان دنوں میں ہم لوگوں پر الطاف و کرم کی بارش کر دی اور ان دونوں کی سیرت کا ایک خاص پہلو اجاگر ہوکر ہوکر ہمارے سامنے آیا۔ اس کی ابتدا تو اس چاندنی رات ہی کو ہو گئی تھی۔ میں نے کیتھرن سے زندگی کے سنجیدہ مسئلوں کے متعلق گفتگو کی طرح ڈالی۔ وہ اپنے ماضی سے بیزار مستقبل کی طرف سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانا چاہتی تھی۔

    ’’انور بابو تیرہ سال کے سن سے میں مشن اسکول میں پڑھنے لگی۔ وہاں کی لڑکیاں نرس بننے کو بہت ا چھا سمجھتی تھیں۔ وہ آزادی کو پسند کرتی تھیں۔ میں نادان تھی۔ میں نادان تھی۔ میں نے چمک دمک کی طرف رخ کیا۔ بہت برا ہوا انور بابو۔‘‘ کیتھرن نے ایک بار کہا۔

    ’’آپ نہ ہو تیں تو یہ مریض اچھے کیسے ہوتے؟‘‘ میں بولا۔

    ’’تو کیا ہماری اپنی زندگی کوئی نہیں؟ دوسروں کے لئے اچھی بنو، پر دوسرے ہمیں اچھا نہ سمجھیں انور بابو! ہم صرف نرسیں تو نہیں عورت بھی تو ہیں اور یہ مرد! بس جسم کے بھوکے ہیں۔ سب کچھ ان کے سامنے پیش کر دو، سب کچھ اور ادنیٰ سی عزت بھی نہ دیں۔‘‘ کیتھرن بیزاری سے کہہ اٹھی۔

    ’’سب تو ایسے نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’کون! سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں، سب عورتیں ایک جیسی مگر ہماری مٹھاس ہماری زندگیوں کو تلخ کر دیتی ہے اور مٹھاس کے لالچی مرد شہد کی مکھی کی طرح ڈنک مارتے ہیں اور اڑ جاتے ہیں۔ انور بابو جب تک صحت ہے کام کرتی ہوں اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ شادی کرلوں گی۔ کر لوں؟‘‘ کیتھرن ہنسنے لگی۔

    ’’ضرور کر لیجئے!‘‘

    ’’کرا دو نا؟‘‘ اسے کرا دیجئے کہنا تھا۔ اس نے مجھے ہمیشہ آپ کہا اور میں نے اسے آپ ہی سے مخاطب کیا۔ اس ’’کرا دو نا‘‘ کی بے تکلفی میں یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘ کی حسرت پوشیدہ تھی۔

    ’’ہم سل کے مریض آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‘‘ میں نے یہ ٹھس سا جواب دیا۔

    ’’تم نرسوں کو نہیں سمجھے انور بابو۔‘‘ اب کے بھی ستم تھا۔ کیتھرن بڑی عمیق نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ زندگی اور تقدیر کی گتھیا ں پر پیچ و خار دار راستوں کی طرح سامنے آ گئیں۔ کیتھرن اس نوع کی درد آشنا بات چیت کی پیاسی تھی۔ لیکن ایشری ان سنجیدہ باتوں کی تاب بھی نہیں لا سکتی تھی۔ جب اس طرح کی باتیں چھڑ جاتیں تو ایشری اکتا جاتی۔ عین اسی وقت وہ ہمارا منہ چڑا دیتی یا پہلو میں چٹکی بھر لیتی۔ وہ صرف گرم جوشی کی قائل تھی۔ حال اس کے لئے سب کچھ تھا۔ اپنی شاد کامیوں اور محرومیوں کے ساتھ نقی نے ایک بارا یشری سے کہا، ’’تم شادی کیوں نہیں کر لیتیں۔‘‘ ایشری نے جواب دیا، ’’کتنے مردوں سے شادی کروں؟ سب ہی تو شکنجے میں جکڑ کر اپنی من مانی مرادیں جی بھرکر پوری کرنی چاہتے ہیں۔‘‘

    نرس سلومی کو تجسس اور ادھر کی بات ادھر کرنے کی بہت عادت تھی۔ اس نے ایک روز کیتھرن کے سارے پوست کندہ حالات مجھے سنائے اور حال کے لگاؤ سے بھی آگاہ کیا۔ کیتھرن نے آج تک کسی کو کچھ تحفہ نہ دیا تھا، وہ صرف لینے کی عادی تھی۔ مہندر، گھوش، وہ ہڈیوں کی ٹی بی والا ذی فراش مریض پر یش چندر اسبھوں کو باری باری اس نے اپنا پروانہ بنایا تھا۔ کلرک، کمپاؤنڈر، ایکسرے بابو یہ سبھی اس کے گھائل رہ چکے تھے۔ پروہ راز داری کی قائل تھی اور داد دستد کے بعد ایسا کٹ کر جدا ہوتی تھی کہ کسی کو بھنک تک نہ لگے۔ مہندر سے اب تک کچھ سلسلہ تھا۔ وہ ایک صاحب ثروت کا لڑکا تھا نا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کیتھرن نے اپنا اصول بدل کیسے ڈالا۔ اس نے مجھے بہت سے تحفے دیے تھے اور کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا اور ایشری کا تویہ عالم تھا کہ نقی پر اپنا سارا مشاہرہ صرف کر سکتی تھی۔ اس نے مختلف اوقات میں اونی سوئٹر، چائے کا طشت، گرم پائتابے، مفلر وغیرہ تحفے نقی کو دیے تھے۔ ایک باروہ نقی کا سوٹ بنوانے پر مصر تھی مگر نقی نے انکار کر دیا۔ ایشری کئی دنوں تک روٹھی رہی۔ اس نے شکایتاً کہا، ’’آخر نرس میگی سین گپتا کو اپنا نصف مشاہرہ کیسے دے دیتی ہے؟‘‘

    ہم لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ اڑ تیس سالہ میگی اور سین گپتا! سین گپتا بیس سال کا ایک گورا چٹا بنگالی لڑکا تھا۔ بہت ہی غریب۔ وہ مریض دوستوں کی مدد سے اور نہ جانے کیسے سینی ٹوریم کا خرچ چلا رہا تھا۔ یہ نیا انکشاف تھا کہ میگی اس کی مدد کرتی ہے۔ میگی کی الفت میں ماں اور بیوی کی محبت کا امتزاج تھا۔ وہ سین گپتا کی مربی بننے میں اپنے مادرانہ جذبات کی تسکین چاہتی تھی نیز حیات کی منزلیں طے کرتے ہوئے وہ کسی مرد کو اتنا قریب کر لینا چاہتی تھی کہ اسے اپنا سہارا، اپنا جذباتی ٹیک سمجھ سکے۔ ایشری نے بتایا کہ جب نرسیں اسے سین گپتا کے بارے میں چھیڑتی ہیں تو وہ خوش ہوتی ہے۔ شاید اس کی نسائیت تذکرۂ التفات ہی سے وجد کرنے لگتی ہے مگر اس کی جنسیت میں عجلت کا کوئی پہلو نہ تھا۔ اس نے سین گپتا کی حماقتوں کو ہمیشہ یوں رد کیا، جیسے ماں بیمار بچے کو کھانے سے روکتی ہے مگر ایشری اور میگی میں آکاش اور پاتال کا فرق تھا۔ ایشری مردوں سے اس طرح برتاؤ کرتی تھی جیسے وہ زندہ ساریاں اور بولتے ہوئے بلاؤز ہیں۔ آج اس کو سینے سے لگا لیا کل اس کو اپنے گرد لپیٹ لیا۔ اسے سب ساریاں عزیز تھیں۔ نقی اس کی سب سے پیاری ساری کی طرح تھا۔ میگی گھریلو چکی کی طرح اٹل اور ایک محور کے گرد گھومنے والی تھی۔

    مہینہ دو مہینہ پر سینی ٹوریم کا ڈاکٹر نرسوں کا ایکسرے اسکرین بھی کر لیا کرتا تھا۔ نرس ڈولی نے مجھے راز دارانہ طور پر بتایا تھا کہ میگی اور نرس سوشیلا کے پھیپھڑوں میں داغ پائے گئے۔ یہ نئی نرس سوشیلا، سلومی کی جگہ پر بلائی گئی تھی کیونکہ سلومی نوکری سے استعفادے کر ایک موٹر ڈرائیور سے شادی کرنے دلی جا رہی تھی۔ نئی نرس دوسری صحت گاہوں میں بھی کام کر چکی تھی اور بیمار پڑ کر کر عرصے سے گھر پر تھی لیکن مسلسل گھر پراِنے گنے لوگ ہی رہ سکتے ہیں۔ اونچے خاندان کے لوگ، بڑے لوگ۔ خلقت تو بائبل کی بد دعا کی شکار رہتی ہے۔ ’’تیرے لئے اس زمین پر لعنتیں ہیں، اپنی زندگی کے سارے دن تجھے غم و اندوہ کے ساتھ غذا ملےگی۔ تپتے چہرے کے پسینے میں شرابور ہو کر تو روٹیاں کھائےگا۔‘‘

    سلومی چلی گئی۔ اب وہ پھر نوکی نو تھیں۔ سوشیلا کو بھائی حاذق سے دل چسپی ہو چلی تھی۔ دونوں ہم رنگ تھے مگر بھائی حاذق اس سے پناہ مانگتے تھے۔ تاہم ہم لوگوں کی شہ پر سوشیلا کو ایسے ایسے مغالطے ہوئے کہ کیا کہیئے۔ سوشیلا کے اظہار خلوص کا انداز نرالا تھا۔ وہ اپنے محبوب کو پیٹنے کی عادی تھی۔ بھائی حاذق ٹمپریچر چارٹ پر ٹپا کرتے تھے۔ چپت کھاتے تھے۔ کبھی سوشیلا کی چٹکیوں کی مسلن سے بلبلا اٹھتے اور ہم لوگوں کے نام پر صبر کرتے تھے۔ وہ تو خیریت تھی کہ مریض تھے ورنہ وہ شہید ناز ہو ہی چکے تھے۔ یہ حسن زنگا ر ترک ستم گار سے بہت آگے بڑھا ہوا تھا۔ بھائی حاذق رد بلا کی دعائیں پڑھا کرتے تھے مگر یہ بھوت ان کی سر پر سوار ہی رہا۔ آخر وہ خود ہی سینی ٹوریم سے چل دیے۔ لوئر سی وارڈ سے صرف وہی شخص تھے جو مسکراتے ہوئے رخصت ہوئے۔ شایدان کی نگاہیں ہمیشہ اپنی ڈاک خانے کی کلر کی پرجمی رہی تھیں اور جو تھوڑا بہت وارڈ سے انھیں لگاؤ تھا وہ سوشیلا کی بے پناہ دلنواز یوں نے ہرن کر دیا تھا۔

    بھائی حاذق کے بعد غلام ربانی بھی چلا گیا اور مصر جی بھی مگر مصر جی یوں گئے جیسے کوئی سفر پر جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے رخصت بھی ہوئے، نرسوں سے مل مل کر روئے بھی مگر ان کے انداز میں ایک ایسی بات تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ فرقت کے دن زیادہ نہیں۔ سینی ٹوریم کا ڈاکٹر نسبتاً اچھے مریضوں کو لوئرسی وارڈ میں جگہ دیتا تھا۔ کچھ تو یہ وجہ تھی اور کچھ یہاں کی خوش باشانہ روایات کا اثر کہ ذی فراش مریض ایک دوماہ میں چلتے پھرتے، ہنستے کھیلتے آدمی بن جاتے تھے۔ زندگی سے دل چسپی ضامن حیات ہے۔ ارادہ زیست بقا کا سب سے زبر دست سامان ہے۔ بد دل، اکتائے ہوئے فکر مند مریض اپنی قبر کھودتے ہیں۔ اپر سی وارڈ کے پنڈت گنیش اور فصیح کی حالت کچھ ایسی خراب نہ تھی لیکن ان میں حیات کی امنگ باقی نہ تھی۔ ان کا ارادۂ بقا فکر مندیوں کی آغوش میں سویا ہوا تھا اور اس حسین کرہ کے نیرنگ حیات نہ ا ن کے نیکیوں کو اکساتے تھے اور نہ بدیوں کو۔ ان کے لئے نہ ثواب میں لذت تھی اور نہ گناہ میں کیف۔ جب خدا اور شیطان دونوں مر جائیں تو پھر موت اور عدم بھی ایک وہمی لاشئے ہو جاتا ہے۔ زندگی کا پر تو تک کہاں!

    وارڈ میں جونئے مریض بھی آئے سوائے ایک کے، سب صحت کی طرف قدم اٹھا رہے تھے مگر ابھی وہ ہم لوگوں سے بہت گھلے ملے نہ تھے۔ ہم لوگ صرف پانچ پرانے مریض رہ گئے تھے۔ نقی، میں، چھوٹے وکیل صاحب، گوپال اور مارواڑی۔ ہم لوگوں میں اب اضطرابی کیفیت کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ صحت کی قربت نے زندگی کی تو قعات اور مطالبوں کو بڑھا کر اپنی محرومیوں اور نامرادیوں کے احساس کو تلخ بنا دیا تھا۔ آپس میں تو نہیں مگر دوسرے وارڈوں سے ہم لوگوں کی رقابت بہت بڑھ گئی تھی اور نرسوں سے ہم لوگ بےجا طور پر الجھ پڑتے تھے۔ آج مار تھا سے لڑائی ہوئی کل فیبی کو ڈانٹ بتائی گئی۔ آخر میں ان نرسوں کی باری آتی جو ہم لوگوں سے زیادہ قریب ہو گئی تھیں یا جنھیں قریب ہونے کا مغالطہ تھا۔ ان نرسوں کی آپس میں بڑی رقابتیں تھیں ورنہ نوبت یہا ں تک پہنچ جاتی کہ پوری صحت گاہ میں ہم لوگوں کا ایک ہمدرد بھی نہ رہ جاتا۔ ہاں ایشری کو کسی سے رقابت نہ تھی لیکن وہ کبھی اتنی سنجیدہ ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ اپنی یا دوسری نرسوں کی تضحیک کے بارے میں سوچنا گوارا بھی کرے۔ بس وہ اتنا کہتی، ’’چپ کرو۔‘‘ پھر چل دیتی اور سب کچھ بھول جاتی۔

    سینی ٹوریم میں بھی شہنشاہ معظم کی جبلی منائی گئی۔ مٹی، پانی، آگ، ہوا، اربعہ عناصر پر بادشاہ کی حکومت ہے۔ وارڈوں کے درمیان تزئین و آرائش کا مقابلہ ہوا۔ لوئرسی وارڈ اول آیا۔ ہم لوگوں کی خوشی کو مت پوچھئے۔ جب خوش ہونے کی بڑی بڑی باتیں نہ ہوں تو پھر کچھ تو خوش ہونے کو چاہیئے۔ کبھی انسان غم منا کر بھی غم غلط کر تا ہے اور یہ تو خوشی ہی تھی۔ نرسوں نے بھی خوشیاں منائیں اور نرس ڈولی تو اس روز کھلی جاتی تھی۔ نہ جانے کیوں چند ہفتوں سے ڈولی بےحد ہنسوڑ اور چونچال ہو گئی تھی۔ جبلی کے قبل وہ ایک مہینہ کی رخصت پر گھر گئی۔ وہاں سے آئی تو اس کا عجب حال تھا۔ ہنسی ہنسی میں وہ نا گفتنی باتوں کا تذکرہ کر ڈالتی تھی۔ اب کے اس نے اپنے گھر کی کرسچن کالونی کے قریب مویشیوں کا اختلاط دیکھا تھا۔ وہ اس بات تک کا تذکرہ کرتی اور ہنس پڑتی تھی۔

    عین جبلی کے روز دس بجے دن کو کرن کے پھیپھڑوں سے شدت کے ساتھ خون آنے لگا۔ وہ ہمارے وارڈ کے پہلو کے وارڈ کا مریض تھا۔ بہت بلند پیشانی، لانبے لانبے بال اور وحشت ناک چھوٹی آنکھیں اور بیزار و باغی جذبات سے تلملایا ہوا چہرہ، لانبا قد، دوہر ابدن مگر بیماری سے ڈھیلا۔ وقفے وقفے سے اسے دن بھر خون آتا۔ رہا شام کو سارے سینی ٹوریم میں چراغاں کیا گیا۔ پارٹی ہوئی، ریڈ یو بجا، کھیل کود ہوا، نرسوں نے گانے گائے۔ غرض بڑی تفریح رہی اور یہ ہوا کہ کرن کی اچانک علالت کے سبب ڈولی کی نائٹ ڈیوٹی ہو گئی۔ ہم لوگ شہنشاہ معظم سے وفاداری کا ثبوت دے کر اور اپنی جی بہلا کر وارڈ واپس آئے تو پہلو کے وارڈ سے اطلاع ملی کہ کرن اب تک خون تھوک رہا ہے۔ ہم سب لوگ افسردہ ہوگئے مگر ڈولی ادھر سے ہنستی ہوئی آئی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ آج وہ مذاق پر تلی ہوئی تھی۔ ہم لوگوں نے بھی کرن کو بھول جانے کے خیال سے اس کی حسرتوں کی خوب داد دی اور ویسے بھی ہم لوگ ان جاں فشار خون فشانیوں کے عادی بھی ہو گئے تھے۔

    ابھی اندھیرا ہی تھا کہ مسہری کے پردے کے اندر اپنا بالائی جسم داخل کر کے کسی نے مجھے جگایا۔ میں چونک اٹھا۔ ڈولی نے میرے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں کچی نیند کی غنودگی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈولی کی سانس تیز اور گرم تھی۔ وہ بےقرار سی معلوم ہوئی۔ اس نے میرے لب شرارت سے اپنی چٹکیوں میں مسل دیے۔ میری نیند غائب ہو گئی۔ مجھے عجیب سے گھبراہٹ ہونے لگی۔ میں نے یک بہ یک محسوس کیا کہ کرن کے سرکی بلا میرے سر پر سوار ہو رہی ہے مگر ڈولی اس رات کو جذبات کی ایک سیاہ آندھی تھی۔ روحِ تاریکی تھی۔ اس آندھی میں کون جانے میرا کیا حشر ہوتا مگر ہوا یہ کہ بغل کے بڈپر شاید وکیل صاحب جاگ پڑے اور انھوں نے کچھ سمجھ کر مسلسل کروٹیں لینی شروع کیں۔ لوہے کا اسپرنگ داربڈ ردبلا کے لئے طلسم کا بول ثابت ہوا۔

    صبح کے آٹھ بجتے بجتے سینی ٹوریم میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ بھور کو اے وارڈ کے چوبے جی نے ڈولی کا سارا زہر دور کر دیا۔ برہمن تھے نا، بس پی کر بھی آنند ہی ہوئے۔ کتنی حریص دل چسپی سے ہم سب لوگوں نے اس کرامت کا تذکرہ سنا۔ بات یہ ہے کہ ناگن کی دم پکڑ کر اسے فضا میں چرخ دینے کی گدگدی تو سب کو ہوتی ہے مگر ڈسے جانے کا خوف اور نہ جانے کتنے قسم کے خیالی بچھو تصور میں رینگ رینگ کر سہما دیتے ہیں۔

    ہم سب لوگوں نے اپنی نیتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے چوبے جی اور ڈولی دونوں پر لعنتیں بھیجیں۔ اس واقعہ کے بعد سے ہمارے وارڈ کے اکثر مریض ڈولی سے لڑ پڑنے لگے۔ ان کے دلوں کا بھوت انہیں انتقام کے لئے اکساتا تھا۔ آخر ایک دن میری ڈولی سے سخت لڑائی ہو گئی۔ اس نے ایک نئے مریض خان صاحب کو بس اتنا کہا تھا، کہاں چلا جاتا ہے خان؟ میں حلق میں پینٹ لگانے کے لئے کب سے کھڑی ہوں۔ خان بگڑ گیا تھا۔ میں نے خان کی پاسداری کی۔ بات بڑھ گئی اور بڑھی تو اتنی کہ میں نے ڈولی کو کیا نہیں کہہ ڈالا۔ میں غصے سے کانپ رہا تھا اور وہ لڑتے لڑتے سسکیاں لے کر رونے لگی۔ ایک دوسرے کے خلاف رپورٹیں ہوئیں اور یہ ہوا کہ سلسلہ کلام قطعی بند۔ ایشری اور کیتھرن نے بات کو سلجھا نا چاہا لیکن گرہ نہ کھلی۔

    مجھے گیارہ ماہ سینی ٹوریم میں ہو گئے تھے اور نقی کو ایک سال سے کچھ زیادہ۔ ہم دونوں اکتا گئے مگر گرمیاں درپیش تھیں اور اس موسم میں سینی ٹوریم سے جانا مناسب نہ تھا۔ کرن کے خون تھوکنے سے ہم لوگ اور گھبرا گئے تھے۔ وہ چلتا پھرتا مریض کہ اچانک اس پر مرض نے حملہ کا اعادہ کیا۔ کرن عجیب طرح ہماری زندگی میں داخل ہو گیا تھا۔ جبلی کے بعد ایک ہفتے تک اسے خون آتا رہا۔ ایک ماہ ہوا تھا کہ وہ سینی ٹوریم میں آیا تھا۔ دوہفتے ذی فراش رہنے کے بعد اسے سیر کی اجازت مل گئی تھی۔ وہ کچھ پاگلوں کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ اکثر چپ رہتا اور گاہے معمولی سی بات پر ہنسنے لگتا۔ وہ اپنے لباس کی طرف سے بے پرواہ تھا۔ وہ کبھی کبھی ایسی باتوں سے چڑ جاتا جو پرسش دوستانہ کے تحت آتیں۔

    اس کا کوئی ماموں برما سے روپیے بھیجتا تھا لیکن اس نے اپنے ماموں کو خط لکھنے سے منع کر دیا تھا۔ اس کا اور کوئی دنیا میں تھا بھی یا نہیں، ایک راز تھا۔ وہ اپنے ماموں کو گالی دیتا تھا۔ کہتا، ’’اس نے مجھے مرنے کیوں نہ دیا۔ ناحق میرا علاج کر اکے مجھ میں زندگی کا لالچ پیدا کر دیا اور اب مسلسل خوف، جینے کی مصیبت، گرنے کا ڈر، سل کے مریض کا علاج، سینی ٹوریم سے جا کر ہم لوگ کیا کریں گے؟ آرام اور غذا، ہونہہ! آرام! استراحت کے گھنٹے! اصول! پروگرام! انڈے! دودھ! مکھن! چوزے! پھل! ہو اور مکان اور کچھ فکر نہیں گدھے کے بچے ڈاکٹر! جیسے بیماری کے پہلے ہمارے پیٹ بھر ہی تو رہے تھے۔ سب نوجوانوں کو سل کے کیڑے کا انجکشن دے کر مار ڈالنا سماج اور حکومت کا فرض ہے کہ بیماروں کا علاج کرانا۔‘‘

    اس کی آنکھیں شعلہ بار ہونے لگتیں اور وہ پاگلوں کی طرح بکنے لگتا، ’’جب میں خون تھوک رہا تھا تو اسے رو کا کیوں گیا؟ میں دو گھنٹے میں مر چکا ہوتا اور اب کیسے مروں؟ خدا اور شیطان نے مل کر انسان کا جگر چھلنی کر دیا یہ احمق انسان خدا اور انسان کے درمیان بٹ گیا ہے اور زندگی نہ خدا کسے پاس ہے اور نہ شیطان کے پاس۔ یہ ہے ٹاٹا کے پاس، فورڈ کے پاس، برلا کے پاس، جو خدا اور شیطان دونوں سے طاقت و راو ر زیادہ خطرناک ہیں۔ مگر نوع انسان اس قابل ہے کہ اس کے ہر فرد کو ہلاک کر دیا جائے۔‘‘

    کرن کلکتہ یونیورسٹی کا ایم اے تھا۔ وہ زندگی کے ماضی پر ایمان رکھتا نہ مستقبل پر۔ اس میں عدمیت کی روح حلول کر گئی تھی لیکن کبھی کبھی غیرمعمولی طور پر وہ بڑی محبت سے گفتگو کرتا بچوں کی طرح، اور باتیں کرتے کرتے اس پر رقت سی طاری ہو جاتی۔ وہ حیات کی آغوش کے کسی کھوئے ہوئے سر چشمے کو ڈھونڈتا تھا۔ اب کے جو کرن کو خون آنا شروع ہوا تو ہم لوگ اس کی بیمار پرسی کو گئے۔ ایسی حالات میں بولنے کی سخت ممانعت ہوتی ہے مگر ہم لوگوں کو دیکھ کر وہ زور زور سے بولنے لگا اور پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ اصولاً زہر تھا۔ کہنے لگا، ’’اب کے آسانی سے مر سکوں گا۔‘‘

    وہ دیر تک بکتا رہا۔ صبح کو نرس دلاری اور کیتھرن کی اس روز ڈیوٹی تھی۔ دلاری دوڑی ہوئی آئی کہ اسے لٹائے۔ ہم لوگوں نے بھی بہتیرا سمجھایا مگر وہ چیختا رہا۔ اسے دو دفعہ خون کی ابکائی بھی آئی۔ کرن نرسوں سے بہت چڑتا تھا مگر اس روز جب کیتھرن نے اسے آخر اپنے خاص انداز سے کہا، ’’کرن بابو!‘‘ تو وہ فوراً الیٹ گیا اور کیتھرن کو حسرت سے دیکھنے لگا۔ خدا جانے ان دو لفظوں میں نرس نے کتنی مٹھاس، شکایت، تادیب اور خلوص گھول دیا تھا کہ کرن رام ہو گیا۔

    استراحت کے گھنٹوں کے علاوہ میں اور نقی اس کی تیمار داری کرتے تھے۔ اسے برف کے ٹکڑے دینا، پھل کا عرق پلوانا اور چپ چاپ اس کے پاس بیٹھے رہنا۔ جریان خون کے دورے کے وقت وہ بادۂ لاہو ہو جاتا اور اس پر بحرانی حالت سی طاری ہو جاتی۔ وہ اٹھ جاتا اور پلنگ چھوڑ کر دوڑنے کی کوشش کرنے لگتا۔ یہ عجیب بات تھی کہ وہ یا تو میری بات ایک حد تک سنتا یا کیتھرن کی مان لیتا۔ کیتھرن نے مجھ سے دو پہر کو آکر کہا، ’’انور بابو! میں ہر وقت تو نہیں رہوں گی۔ پاگل ہے بالکل، آپ کا خیال کچھ کرتا ہے، رسٹ پیر یڈ کے بعد کرن کو دیکھ لیا کیجئےگا۔‘‘ مجھے اسی وقت کرن سے بجلی کے کوندے کی طرح کی رقابت محسوس ہوئی۔ میں نے کیتھرن کے لہجے اور تیور میں کچھ محسوس کیا۔ بہرحال میں وہی کرتا رہا جو کیتھرن نے کہا تھا۔ پتہ نہیں یہ کیتھرن کا پاس تھا یا کرن کا خیال۔ کیتھرن کرن کے لئے غیر معمولی توجہ کا عملی اظہار کر رہی تھی۔

    تیسرے روز کرن پر بیماری کا شدید حملہ ہوا۔ بڑے ڈاکٹر نے اے بی وی ہارس سیرم کیلسیم ایٹسین مورفیا اور کونگورڈ کے انجکشن دیے مگر خون نہ تھما۔ رات کو حالت نازک ہو گئی۔ میں اور نقی کرن کے پاس تھے۔ اس نے یک بہ یک جیلی کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ اسے سوائے رقیق غذا کے اور کسی چیز کی اجازت نہ تھی مگر ایسی رقت اور لجاجت سے اس نے جیلی مانگی کہ ہم لوگ اسے منہ مانگی چیز دینے پر تیار ہو گئے۔ وارڈ میں جیلی نہ ملی۔ اسی درمیان میں پھر اس کے منہ سے خون آیا۔ میرے دل میں یہ خواہش سفید کا غذ پرسیاہ روشنائی کی طرح پھیل گئی کہ کرن کا خون نہ تھمے اور وہ ختم ہو جائے۔ پھر یک بہ یک جیسے کسی نے اس روشنائی کو جاذب سے اٹھا لیا ہو۔ اب بھی ایک کالا سا دھبہ موجود تھا۔ میں نے اس داغ کو اپنی انسانیت کی نگاہ سے چھپانے کے لئے فوراً اپنے پیسوں سے کرن کے لئے اسٹور سے جیلی منگوائی اور اپنے ہاتھوں سے اسے کھلایا۔ وہ بے پایاں ممنونیت کی نطر سے مجھے دیکھ کر بس اتنا کہہ کر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں، ’’تم خدا سے بہتر ہو۔‘‘

    ایک ہفتے کے بعد کر ن اچھا ہو گیا۔ سبھوں کو حیرت ہوئی اور کیتھرن کو حیرت کے ساتھ ناقابل بیان نوعیت کی مسرت بھی۔ وہ اپنے کو کرن کا فرشتہ حفاظت محسوس کرنے لگی تھی۔ مجھے کرن سے پوشیدہ نفرت ہونے لگی۔ میں کیتھرن پر فقرے کسنے لگا۔ وہ قسمیں کھاتی اور صرف کہتی، ’’وہ پاگل ہے بیچارہ کرن۔‘‘ اس بیچارہ سے مجھے چڑ تھی مگر حالات نے مجھ پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ کرن کو یوں چاہتی ہے جیسے کوئی نادان مگر شریر بچے کو پیار کرے۔ پھر بھی میرے دل میں عجیب سی کھوٹ تھی۔ کرن اچھا ہو کر کیتھرن سے، مجھ سے اور ڈاکٹر سے شدید نفرت کرنے لگا، پر جیلی کو یاد کر کے اب بھی وہ میرا مخلصانہ شکر یہ ادا کرتا تھا۔ کہتا تھا، ’’وہ میری جان بچانے کی کوشش نہ تھی تمہاری خالص محبت تھی۔ حیوانی، بےعقل، آزاد، مہیب مگر پیاری اور اندھی محبت۔ پر میں تمہیں اس محبت کے طفیل میں بھی معاف نہیں کر سکتا۔ تم اور کیتھرن۔‘‘ اس نفرت کے باوجود کیتھرن کرن کو چاہتی رہی۔ وہ اس کے لئے کڑھتی رہی۔ کہتی، ’’ایسے پاگل مریض کہیں اچھے ہوئے ہیں۔‘‘

    نہ میں سمجھ سکا اور نہ کیتھرن کو اپنی اصلیت معلوم تھی کہ وہ کرن کی مجنونانہ بےبسی کی وجہ سے اس کی طرف کھنچی تھی، یا اس کی بے پناہ پر شور ذہنی قوت کے سبب۔ وہ اب بھی میرے پاس آ آکر زندگی، مستقبل، محبت، ملازمت کی پریشانیاں اور اپنی خیالی شادی کے متعلق گفتگو کرتی تھی۔ اسے میری اور کرن دونوں کی جذباتی احتیاج تھی پردہ اس کا تجزیہ نہ کر پائی اور میں نفرت کے کیچڑ میں کیڑے کی طرح تلملا تا رہا۔

    گرمیوں میں سل کے مریضوں کی اور کثرت ہونے لگی۔ بہت سی درخواستیں سیٹ کی کمی کی بنا پر واپس کر دی گئیں لیکن کچھ ایسی قوتیں بھی ہیں جن کی درخواستیں رد نہیں کی جا سکتیں۔ یہاں ڈاکٹر کی شش و پنج کا مسئلہ نہیں بلکہ خالص اثر و رسوخ اور زر کا مسئلہ تھا۔ ایسے طبقے کے چند لوگوں کو جگہ کی ضرورت تھی جس کے افراد دوسرے طبقات کے سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔ اے وارڈ میں جگہ نہ تھی اور وہاں کسے ہٹایا جاتا؟ وہاں والوں کی رگوں میں بھی تو خون تھا۔ تو طے یہ ہوا کہ فوری طور پر سی وارڈ میں جگہ خالی کی جائے اور پھر موقع ملنے پر ان بیش قیمت ہستیوں کو اے وارڈ میں منتقل کر دیا جائے۔ گوپال، نقی اور جونیر وکیل صاحب کو بہ یک قلم ڈسچارج کر دیا گیا۔ میں نے کچھ ایسی گھبراہٹ محسوس کی، بس ارادہ ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ سے کہوں کہ میرا نام بھی کاٹ دے مگر جون کے مہینے میں سینی ٹوریم چھوڑ نے کے خوف سے لرز گیا اور خود حفاظتی کی حس میرے دوسرے احساسات پر غالب آ گئی۔

    گوپال اضطراب میں ڈاکٹر کے جانے کے بعد ٹہلنے لگا۔ وہ پہلے بہت خوش ہوا۔ پھر اس پرحیرانی اور تذبذب طاری ہوا۔ آخرکار وہ رونے لگا۔ وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے لپٹ گیا، ’’انور بھائی! تم بھی چلو نا، گھر جائیں ہم انور بھائی؟ وہاں اے پی کون دے گا؟ جاڑے میں جاتے یہاں سے۔ ساڑھے تین برس اسی وارڈ میں رہے۔ ڈھائی سال تو اس بڈ پر ہو گئے۔ گوپال نے اپنے خاص گوشے کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی آنکھیں امڈ آئیں۔

    ’’پھر ہم سب لوگ، نقی بھائی، آپ، پیر مغاں، مصر جی، بھائی حاذق، پربھو بابو، انور بھائی، ہم پانچوں آدمی، چلئے شہر کے کنارے کرایہ کا مکان لے کر رہیں۔‘‘ اس نے اس پروگرام کی دقت کو محسوس کیا اور مجبوری کے احساس سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں، نقی اور وکیل صاحب سب بےچین تھے۔ میری اور نقی کی رفاقت سینی ٹوریم میں مثال کے طور پر مشہور تھی۔ میرا دل بھی بھر آیا۔ ہم سب لوگ ملے جلے، واضح اور مبہم جذبات کے نوع در نوع اثرات کے تصادم کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے آنسو بہا رہے تھے جیسے کسی بھاری چٹان کے نیچے سے پانی کا سوتا رس رہا ہو۔

    نرسوں نے بھی اس خبر کو بےچینی سے سنا۔ ایشری تو اس اچانک حادثے سے بدحواس ہو گئی۔ یہ تینوں مریض دوسرے روز جا رہے تھے۔ ہم لوگ دن بھر باتیں کرتے رہے۔ دکھ، درد، امید و نا امیدی، خوشی اور موت، رفاقت اور غم گساری، بیماری اور صحت کی باتیں۔ ہم لوگوں میں وعدے وعید ہوئے کہ ایک دوسرے کو خط لکھیں گے۔ لوئرسی وارڈ کے خاندان کا بقیہ حصہ بھی بکھر رہا تھا۔ مریض صحت پاکر جا رہے تھے مگر اس ناقابل بیان مسرت کے ساتھ شکست رفاقت کا عجیب غم بھی تھا۔ سینی ٹوریم کی رفاقت بھی میدان جنگ کی رفاقت سے کم نہیں۔ کیسے کیسے قاتل لمحات کا ہم لوگوں نے مل جل کر مقابلہ کیا تھا! کتنی نا امیدیوں کو ہم نے شکست دی تھی، کتنے ارمان، کتنی حسرتوں کو ہم سب نے ساتھ پالا تھا! مسرت اور فریب کی گھڑیاں، بے آسراشامیں، تاریک صبحیں، دلداریاں، غم گساریاں، ہمدردیاں سب یاد آ رہی تھیں۔ موت سے ہم لوگوں نے لڑائی جیتی تھی۔ وقتی ہی سہی، فتح کے احساس سے بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ کاش اس سیاہ بھیانک عفریت کے آئندہ حملوں کے وقت بھی ہم سب لوگ ایک ساتھ رہتے۔ آہ زمانہ ہر دانے کو علیٰحدہ علیٰحدہ کر کے اپنی چکی میں پیس لیتا ہے۔

    ڈیوٹی سے فارغ ہو کر ایشری نقی سے ملنے آئی۔ سبھی نرسیں آئیں۔ ایشری سب کے چلے جانے کے بعد بھی دیر تک ٹھہری رہی۔ وارڈ کے صحن میں ہم لوگ ساتھ بیٹھے۔ وہ نقی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لئے روتی جاتی اور باتیں کرتی جاتی تھی، جیسے نقی کے ہاتھ کبوتر کا ایک جوڑاہوں جسے کسی بچے کے ہاتھ سے چھین لئے جانے کی دھمکی دی جا رہی ہو۔ وہ ہاتھوں کو اس طرح دبائے ہوئے تھی کہ انھیں کبھی نہ چھوڑےگی۔ اس نے رخصت ہوتے وقت نہایت بے باک خلوص کے ساتھ کہا، ’’اگر مجھے خیال ہوتا کہ تم جون ہی میں چلے جا رہے ہو تو میں دعا کرتی کہ ابھی بیمار ہی رہو۔ میں تمہیں بیمار دیکھ سکتی ہوں مگر تم سے بچھڑنے کی تاب نہیں لا سکتی۔‘‘

    وہ تینوں چلے گئے۔ مارواڑی اور میں رہ گیا۔ نو مریض اور تھے پھر بھی ہم لوگ سخت تنہائی محسوس کر رہے تھے۔ میراجی تو بالکل نہیں لگ رہا تھا۔ بیزار، اکتایا ہوا اور کچھ خائف۔ تنہائی میں بیماری کا بوجھ محسوس ہو رہا تھا اور اس کا خوف دامن گیر۔ کیتھرن نے میر ی بڑی دلد ہی کی لیکن نہ جانے کیوں ان دنوں اسے دیکھ کر یہ محسوس کرتا تھا کہ میں دنیا میں یکاو تنہا ہوں۔ مجھے یہ شدید احساس ہو رہا تھا کہ ہر فرد کی زندگی ایک علیٰحدہ کال کو ٹھری ہے جس کے اندر کوئی دوسرا نہیں آ سکتا۔ دور سے وقتی طور پر اس کے اندر جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے۔ دو قیدیوں کا مل جانا محال ہے۔ آنی جانی دلچسپی ممکن ہے مگر اور زیادہ دردناک۔ ہم ایک دوسرے کی روح میں جھانک کر دیکھتے۔ اس سے نفرت یا محبت کرتے گذر جاتے ہیں۔ ہماری روحیں مل نہیں سکتیں۔ ایک ہو جانا فریب ہے سراسر فریب۔ مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ کیتھرن نے دو دن کے لئے میری باطنی زندگی میں جھانکا اور اب کسی دوسری روح کی کھڑیوں کے پٹ کھول رہی ہے۔ سچ ہے کوئی جنگلے سے لگا ہوا کوٹھری کے اندر کب تک جھانکتا رہے۔ وصال داخلی ناممکن ہے اور خارجی اتصال فریب احساس ہے، المناک طنز ہے اور مضحکہ خیز بھی۔

    ایک روز میں نے کیتھرن کو صاف کہہ دیا دھوکا دینے سے کیا فائدہ۔ آپ کرن کو چاہتی ہیں چاہئے۔ وہ بگڑ گئی، ’’چاہتی تو ہوں مگر۔۔۔ اور آپ کتنے تنگ نظر، سنگ دل، بدظن اور نا اعتبار ہیں۔‘‘ مجھے آگ ہی تو لگ گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ میرا مقابلہ کرن سے کیا جا رہا ہے اور مجھے مردود قرار دے دیا گیا ہے۔ اگر یہ جملے کبھی اور مجھے کہے جاتے تو میں صرف ہنس دیتا مگر اس میں مقابلہ کا اشارہ پایا جاتا تھا۔ یہ سم میری خودی کا دم گھونٹ رہا تھا۔ میں تلملا گیا۔ کیتھرن نرس روم میں چلی گئی۔ میں نے اپنا بکس کھول کر اس کی دی ہوئی بچی کھچی چیزیں نکالیں اور انہیں واپس کرنے ڈیوٹی روم میں گیا۔ میں نے انھیں کیتھرن کے ہاتھ میں دینا چاہا، پراس نے لیا نہیں اور تنک کر بھنبھناتی ہوئی دوسری جانب چلی گئی۔ میں نے سب چیزیں اس کے سامنے پٹک دیں اور لوٹ آیا۔ کیتھرن بپھر گئی اور میں نے واپس ہوتے ہوئے یہ جملے سنے، ’’مجھے یہ باتیں بالکل پسند نہیں۔ کس پر ناز کرتے ہیں۔ مغرور آدمی! میں کسی کی بیا ہتا نہیں ہوں۔ بڑے آئے کہیں کے۔۔۔!‘‘

    نازک دھاگا ٹوٹ چکا تھا۔ میں اپنی تنہائیوں میں اور زیادہ تنہا ہو گیا تھا۔ کوئی سہارا نہیں کوئی تسکین نہیں۔ کرن کے بعد اب میری باری تھی۔ جون کے ایک دودن باقی تھے کہ سوتے سوتے چار بجے صبح کو میرے منھ سے خون آ گیا۔ میں بستر پر لیٹا ہوا خوف کے مارے پسینے پسینے ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ یہ دنیا، یہ کرہ، سارے سامان حیات کو لے میرے سامنے گولی طرح شن سے کائنات کی انجان وسعتوں میں دور نکل گیا اور میں خلا، تاریک و سرد خلا میں معلق ڈوب جانے کے لئے اکیلا رہ گیا۔ موت کی کالی کالی موجیں مجھے ڈھانپے جا رہی ہیں اور میں فنا کے غار میں غرق ہو رہا ہوں۔ آس اور نراس کے درمیان زندگی کے عنکبوتی تانے بانے کو ایک سال، مکمل ایک سال تک بنا تھا۔

    طوفان کے بعد پھر سے تنکے اکٹھا کر کے آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے بندھن سے باندھا تھا اور اب ایک نئی آندھی آشیانہ حیات کو نوچ نوچ کر برباد کر رہی تھی۔ میں نے کتنی باتوں کو بھلایا تھا، کتنی یادوں کو تھپک تھپک کر سلا دیا تھا، کتنے ارمانوں کو بہلا کر خاموش کر دیا تھا اور پھر زندگی کی خشک شاخ پر نازک نازک ننھی ننھی کو نپلیں پھوٹ رہی تھیں، کلیاں بھی پھول بننے کا سندیسہ دے رہی تھیں اور آرزؤں کی نئی بسنت بہار تازہ کا پیغام لا رہی تھی، مستقبل پھر فریب تمنا دے رہا تھا اور یہ اچانک موت کے ترکش کا ایک تیر آلگا۔ ہر طرف خزاں تھی، ویرانیاں تھیں اور بےبس سکوت!

    زندگی کی نیرنگی نا امیدیوں میں بھی امید کے بت تراش لیتی ہے۔ یہ کیفیت گذر جانے کے بعد مجھے یہ خیال آیا شاید کیتھرن یوں واپس آ جائے۔ شاید یہ روایتی خون ٹوٹی ہوئی رگوں کو جوڑ دے۔ مجھے مسرت ہوئی۔ میں نے زہر سے امرت بنا لیا۔ انسان میں بھی کتنی الوہیت ہے۔ وہ ہر آن اپنے کو پُجوانا چاہتا ہے اور اس کے لئے اپنا اور دوسروں کا خون بھی بہا سکتا ہے۔ خدا تو صرف دوسروں کا خون بہاتا ہے، اپنا خون بہا کر لذت آزار حاصل کرنے کا اسے تجربہ کہاں، یہ انوکھا احساس اس کے بس سے باہر ہے۔

    مجھے بھی بارِبستر کر دیا گیا۔ وہی باتیں ہوئیں جو کرن کے ساتھ ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹر نے مجھے تسکین دی کہ، ’’پھیپھڑے کی حالت بہت اچھی ہے۔ سل کے مریضوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہی ہیں۔ جراثیم خفتہ حالت میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی سوئے سوئے بھی پھیپھڑے کی رگوں کو چاٹتے رہتے ہیں، کسی رگ کی دیوار پھٹ جاتی اور خون آنے لگتا ہے۔ تمہارے پرانے زخم میں فائبروس ہو چکا ہے، نئے ریشے نکل آئے ہیں اور مرض قبضے کے اندر آ گیا ہے۔ یہ گذر جانے والا دور ہے گھبراؤ مت!‘‘ نرسوں نے بھی عیادت کی، جی بہلایا اور تشفی دی مگر میں عجیب حالت میں تھا۔

    گذشتہ سال جو میرے منھ سے ایک ماہ تک خون آتار ہا تھا تو میں نے اپنے جذباتی سہارے کے لئے روحانی ما بعد الطبیعاتی عالم کی طرف رخ کیا تھا۔ اب کے میرا دل بنجر تھا، بالکل بنجر مگر بنجر زمین کو سب سے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے یہ ٹھنڈک عورت کے جسم میں نظر آتی۔ حیرت انگیز طور پر مجھے حواسی عشرت کی طلب ہوئی مگر محرومی نے دل میں جہنم سابھڑ کا دیا۔ موت سے قربت ہو تو خدا یاد آتا ہے لیکن شاید مادہ کے بچھڑ جانے کے احساس نے مجھ میں مادہ جسم اور دنیا کی شدید حریصانہ محبت پیدا کر دی۔ جو چیزیں چھٹ جانے والی ہوں ان سے کتنا بیتاب عشق ہوتا ہے۔ پائیدار اشیا تو اکثر اکتاہٹ پیدا کرتی ہیں۔ فنا کے سبب بقا سے محبت ہوتی ہے اور غیرفانی ہستی کبھی اتنی مستحکم، وزنی اور عظیم و جلیل معلوم ہونے لگتی ہے کہ اس کے وزن اور باقی و حاضر و ناظر ہونے کے تصور سے روح پسی جاتی ہے۔ خدا اتنی بڑی حقیقت ہے کہ دل اس کو بھول کر اپنے کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کا آنی جانی ہونا ہی کشش کا باعث ہے۔ اس مادی دنیا کی سب سے حسین ترکیب مادہ عورت ہے۔ مادہ کا نقطہ کمال جسم کے حسن تعمیر کا عروج جمیل۔ اس لئے مادی سہارے میں سب سے بڑا سہارا عورت ہے۔

    میں بستر پر لیٹا لیٹا فنا کا خیال کر کے جب لرز نے لگتا تو دل میں ایک ہوک اٹھتی تھی اور حیات کا ذرہ ذرہ جنس لطیف کو ڈھونڈ تا تھا۔ مجھے اٹھنے کی اجازت نہ تھی مگر جذبہ دل ایسی حرکتوں پر اکساتا تھا جو سامان بقا ہیں۔ مجھے اپنی رومانی مثال پسندی سے نفرت ہونے لگتی۔ میں سوچتا کہ نرا گاؤوی ہوں۔ بدن کی رومانیت مجسم اور حقیقت مثالی کو چھوڑ کر جذب و کشش کی لطافتوں میں الجھے رہنا بےبسی، بےعملی اور نامرادی کی دلیل ہے۔ مجھے نقی اور اس کی قوت اقدام و عمل یاد آتی اور میں انتہائی محرومی و نا کارکردگی کے غم میں غلطاں ہو جاتا۔ یہ فطرت کا کتنا المناک طنز تھا کہ اس بجھی ہوئی خاکستری حالت میں مجھے عمل کے چراغ جلا نے کی شدید تمنا ہو رہی تھی۔ میں نرسوں کو صرف دیکھنا نہیں چاہتا تھا بلکہ انھیں چھونا، سننا، دیکھنا، سونگھنا اور چکھنا چاہتا تھا۔

    عورت ہی ایک ایسا عطر مجموعہ ہے جو ہمارے سارے حواس کو بہ یک وقت شاد کام کرتا ہے۔ جس گھڑی میرے منھ سے خون آتا، میں مجبوری و محرومی کے احساس میں غرق ہو کر اپنے ہی جسم کو انتہائی پیار محبت سے چھوکے رونے لگتا۔ مجھے اپنا ہاتھ، اپنی انگلیاں بہت عزیز معلوم ہوتیں۔ میں نے ان سے اتنی شدید محبت کا احساس کبھی نہیں کیا تھا۔ اتنی بار میں نے کبھی ان کو اتنے انہماک سے دیکھا بھی نہ تھا۔ میں نے جو امید قائم کی تھی کہ کیتھرن اس حال میں تو ضرور مجھ سے من ہی جائےگی، ٹوٹ گئی۔ کیتھرن بس ڈیوٹی کے طور پر وارڈ میں آتی اور چلی جاتی۔ اس نے میرا حال تک نہ دریافت کیا۔ مصیبت تنہا نہیں آتی غم کی گھٹائیں موج در موج ہوتی ہیں۔ کیتھرن کتنی خود دارو خود بیں تھی۔

    مگر اس کے خلاف ڈولی، جسے میں نے کیا نہیں کہہ ڈالا تھا، جس سے میری کوئی توقع وابستہ نہیں تھی، وہ ڈیوٹی نہ ہونے کے باوجود میری علالت کی خبر سنتے ہی بھاگی ہوئی آئی اور مضطرب مسکراہٹ کے ساتھ میری خیریت دریافت کی۔ میں چپ چاپ رہا۔ خفگی سے نہیں شرمندگی سے۔ اس وقت وہ چارٹ دیکھ کر چلی گئی۔ پھر وہ برابر آتی رہی۔ مجھے وارڈ کی بیگانگی سے وحشت ہوتی تھی۔ لہذا مجھے معائنہ کے کمرے میں رکھ دیا گیا تھا۔ ایک دو پہر کو ڈولی مزاج پرسی کے لئے آئی۔ میں انتہائی ندامت میں گڑ گیا اور ہیجان جذبات نے مجھے رو پڑنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے ڈولی کا ہاتھ پکڑ کر بہ رقت معافی مانگی۔ وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور صرف اتنا کہا، ’’انور صاحب آپ نہیں جانتے۔‘‘

    میں نے آنسوؤں میں ماضی کے کانٹوں کی چبھن محسوس کی اور زندگی کے کمیاب حسن کی چند نورانی کلیاں کھلتی ہوئی دکھائی دیں۔ انوکھے طور پر میں نے یہ محسوس کیا کہ عورت ہی مرد کی ابدیت کا ذریعہ ہے۔ فانی انسان عورت ہی کی مدد اور ربوبیت سے چند قطروں کو ناپیدا کنار سمندر بنا دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ انسانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر عورت کی آغوش سے نکل کر ازل اور ابد کو گھیرے ہوئے ہے۔

    آخرکار میں اچھا ہوگیا۔ چند ماہ اور سینی ٹوریم میں رہ کر مجھے گھر واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ میں بہت اکتا بھی گیا تھا۔ ادھر کیتھرن نے مجھ سے روٹھ کر اپنی زندگی ہی بدل لی تھی۔ وہ سب سے تعلق توڑ چکی تھی۔ اگر وہ مجھ سے باتیں نہیں کرتی تھی تو اور لوگوں سے بھی گریزاں ہی رہتی تھی۔ شاید وہ اپنی زندگی کے تجربات تلخ و شیریں کے بعد شکست فریب کی تلخیاں برداشت کر رہی تھی۔ اب وہ صرف کھیلنا نہیں، زندگی بسر کرنا چاہتی تھی۔

    درخت کا اکھڑنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ درد زندگی میں سب سے بڑا دکھ انتقال ہے۔ جڑیں وصل زمین سے محروم کئے جاتے وقت کر اہنے لگتی ہیں۔ میری حیات کا درخت بھی صحت گاہ میں ڈیڑھ سال تک نصب رہا تھا اور اب علیحدگی کے وقت اعصاب کے سوتے درد ناک ہو رہے تھے۔ میں رخصت سے پہلے سے نرسوں سے ملنے ان کی اقامت گاہ کو گیا۔ سب بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں۔ سبھوں نے بڑے انس اور خلوص سے میری پذیر ائی کی اور بعض نے خوشی کا اظہار کیا کہ اب میں اچھا ہو کر اپنے گھر جا رہا تھا مگر کیتھرن وہاں بھی خاموش رہی۔ رخصت کی صبح کو ایشری نے مجھ سے کہا، ’’کٹوبوارات بھر روتی رہی ہیں اور ڈولی بھی۔ آپ کو سبھی لو گ چاہتے ہیں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’جو میری خطرناک حالت میں بھی بیگانہ رہا ہو، وہ بلاؤز کے پیرس بٹن ٹوٹ جانے پر تو رو سکتا ہے مگر میرے لئے اس کے آنسو کی ایک بوند نہیں ہو سکتی۔ ہاں ڈولی سے میں بےحد شرمندہ ہوں۔‘‘ ایشری مجھ سے باتیں کر رہی تھی کہ کیتھرن آئی اور اس نے ایشری کو ڈیوٹی روم میں بلا لیا۔ ذرا دیر میں وہ مسکراتی ہوئی لوٹ آئی اور ہنس کر کہنے لگی، ’’جائیے مل لیجئے! بوا بلاتی ہیں!‘‘ نہ جانے کیوں میں ارادے کے خلاف اندر چلا گیا، اور ایشری وارڈ میں مریضوں کا ٹمپریچر لینے چلی گئی۔

    خود دار و خود بیں کیتھرن کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا۔ میں اس کے قریب چلا گیا۔ اس نے میرا ہاتھ زور سے جذباتی انداز میں پکڑ لیا اور اسی حال میں میز پر ٹیک لگا کر آہستہ آہستہ سسکیاں بھرنے لگی۔ اسے اپنے آنسو دکھلانے میں بھی عار تھی۔ اچانک اس نے سر اٹھا کر کہا، ’’انور بابو! آپ نے ہم نرسوں کو عورت نہ سمجھا۔ بس ایک گڑیا۔۔۔ ایک گڑیا۔۔۔ ایک گڑیا۔۔۔‘‘

    مأخذ:

    اختر اورینوی کے افسانے (Pg. 89)

    • مصنف: اختر اورینوی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے