Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کانٹوں کی سیج

گوپی ناتھ موہنتی

کانٹوں کی سیج

گوپی ناتھ موہنتی

MORE BYگوپی ناتھ موہنتی

    جب وہ کام سے واپس آیا، اس کے پاس سے ایسی بھینی خوشبو آ رہی تھی جسے کملا محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی۔ اس نے کروٹ بدل لی تو درد سے اس کے ماتھے پر شکن پڑ گئی۔ اس نے بستر علالت سے شوہر کے چہرے پر نظر ڈالی۔

    اس کو اپنا یہ ارادہ یاد تھا کہ نہ تو وہ اسے اپنی تکلیف سے آگاہ ہونے دےگی اور نہ ہی اپنے چہرے کی بے رونقی کو اس پر ظاہر ہونے دےگی۔ اس کے بجائے وہ مسکرائے گی یاکم از کم مسکرانے کی پوری کوشش کرےگی۔ اس کے باوجود اس کو اپنے اندرون سے یہ رونے کی آواز کیوں سنائی دے رہی ہے؟ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ اس کی اپنی زندگی کے دن گنتی کے رہ گئے ہیں اور شوہر پر ایک اور بوجھ بنے رہنا بےکار ہے۔

    اس سے پہلے کہ وہ اپنے چہرے پر نمائشی مسکراہٹ لا پاتی، سورا بابو اس کے پاس پہنچ گئے۔ ان کا چہرہ اداس تھا۔ اس کا سر اپنے بائیں ہاتھ سے دباتے ہوئے اور اس کے بکھرے ہوئے بالوں سے کھیلتے ہوئے انہوں نے پوچھا، ’’کیا درد آج بڑھ گیا ہے؟ ہے بھگوان، اب ہم کیا کریں؟ اس طرح سے تم اور کتنے دن چلا پاؤگی؟‘‘

    کملا مسکرائی اور کہا، ’’یہ تو وہی پرانا درد ہے۔ اس میں نئی بات کیا ہے؟‘‘

    بیوی کی گہری نگاہ کے سامنے لگتا تھا کہ ان کے چہرے کی اداسی اور بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’ہاں تم تو یہی کہوگی نا؟ یہ تو تمہاری عادت ہے، سبھی عورتوں کی عادت کہ جو کچھ ان کے اندر بیت رہا ہے، دوسروں کو تو چھوڑیے، خود کو بھی نہیں بتائیں گی۔ تم لوگوں کا خیال ہے کہ دوسروں کی سیوا کرتے ہوئے اپنے کو جلا بھی ڈالو تو سیدھے سورگ پہنچوگی، ہے نایہی بات، کملا؟‘‘

    سورا بابو نے اس کے گال سہلانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ لیکن گویا کہ ان کے لمس سے بچنے کی سر توڑ کوشش میں اس نے دردسے تلملاتے ہوئے اپنا چہرہ ہٹا لیا۔ اس نے اپنے سینے میں درد کی چبھن محسوس کی، اچانک اسے چکر آ گیا اور جب اس نے اپنی آنکھیں بند کیں تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خلا میں تیر رہی ہو۔ چند ہی لمحوں میں وہ سنبھل گئی، اپنا نچلا ہونٹ کاٹا اور بولی، ’’آپ نے کپڑے تک نہیں بدلے۔ آپ کو بےچینی نہیں ہو رہی ہے؟ مہربانی کرکے جائیے اور کچھ کھا لیجیے۔‘‘ اور پھر گھر کے ملازم اندر کو بھرائی ہوئی آواز میں بلایا۔

    سورا بابو نے کہا، ’’میں جا رہا ہوں مگر اتنی اونچی آواز میں مت بولو۔ اس سے تمہاری کمزوری اور درد میں اضافہ ہی ہوگا۔‘‘ کملا نے ٹھنڈی سانس بھری اور آنکھیں بند کر لیں۔ ایک منٹ بعد جب اس نے اپنی آنکھیں کھولیں، سورا بابو اب بھی وہیں کھڑے تھے۔

    ’’اس بدن میں اب رہا کیا ہے؟‘‘ یہ چند الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ وہی خوشبو پھر اس کی ناک تک پہنچی۔ وہ اپنی جمی ہوئی نظر کے سامنے چیزوں کو کبھی واضح اور کبھی مبہم، تحلیل ہوتے ہوئے دیکھ سکتی تھی اوراب بارش کے بعد جاڑے کی پیلی روشنی میں وہ انسانی جسم، اپنے شوہر کے جسم میں جھلکتی ہوئی جوت دیکھ سکتی تھی۔ اس کے شوہر کی چھیالیسویں سالگرہ اب بالکل پاس تھی۔ اس کے باوجود اس کے جسم میں وہی ہٹیلاپن تھا، ماتھا چوڑا، چہرے پر علم کی دمک تھی اور مصیبت کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے جذبے کی غماز، ٹھوڑی کی وہی لاپروا اشارت تھی۔ مگر اس کے پاس تو اس کا اپنا جسم تھا، صرف اس کا اپنا۔

    کملا کے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے، اس کا چہرہ گرم تھا، آنکھوں کے اطراف کی جگہ جل رہی تھی اور وہ سورا بابو کو للچائی ہوئی نظروں سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ شوہر کے ہم وردی کے الفاظ اسے یاد تھے۔ لیکن وہ کس حالت کو پہنچ گئی تھی۔ بدگمانی کا وہ لکہ ابر جو کبھی اس کے شعور میں منڈلاتا تھا اچانک ایک گھنگھور گھٹا کی شکل اختیار کر گیا تھا اور اس کے امڈکر برسنے کے آثار تھے۔ اس نے دانت بھینچ کر کہا، ’’شراب کا خالی پیالہ کس کام کا؟‘‘ سورا بابو نے گھبراکر پوچھا، ’’ ارے تم نے یہ کیا کہا؟‘‘ کملا نے رشک سے مسکراکر کہا، ’’کچھ بھی تو نہیں۔ مگر دیکھیے آپ سے میں برسوں سے کہتی آئی ہوں کہ میں نے تو پلنگ پکڑ لی ہے، آپ کے لیے کچھ بھی تو نہیں کر پاتی اور آپ کو ضرورت ہے ایسے شخص کی جو آپ کی خبرگیری کر سکے۔ بھگوان کے لیے آپ۔۔۔‘‘

    اس کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ سورا بابو نے اپنا چہرہ دوسری طرف نہیں پھیرا۔ ان کی آنکھیں نم نہیں دکھائی دے رہی تھیں اور ایسی تجویز سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی تشویش میں پڑ گئے ہوں۔ اس کی بجائے ان کی آواز میں برہمی تھی، جب انہوں نے کہا، ’’تم یہ سب کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ کملا کو محسوس ہوا جیسے اس کا دل بیٹھا جا رہا ہو، غصے سے نہیں بلکہ کسی نامعلوم خو ف سے اور اس نے کہا، ’’کیا آپ خفاہیں؟ آپ دن بھر کی محنت کے بعد ابھی لوٹے ہیں۔ کیوں نہ آپ جائیں، کپڑے بدلیں، نہالیں اور کچھ کھا پی لیں؟ اس کی بجائے آپ یہاں کھڑے کیوں ہیں۔‘‘ اور وہ پھر ایک بار چلائی، ’’اندر کچھ سنتا بھی ہے؟ بابو یہاں کھڑے ہیں۔‘‘ سورا بابو چلے گئے۔ ہلکی ہوا میں وہ خوشبو تھوڑی دیر تک ہی برقرار رہی۔

    کملا بستر پر دراز غائب دماغی سے اوپر دیکھتے ہوئے سوچتی رہی۔ باہر سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اس کے بستر سے سوزنی کا پیڑ دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ ہی لمحہ قبل سورج کی ڈوبتی روشنی میں اس کی پتیوں کی روشن مسکراہٹ جھلک رہی تھی اور اب وہ دھیرے دھیرے تاریکی کے ایک ستون کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ اس کے حافظے نے اسے اپنی بائیس سال پہلے کی دنیا میں پہنچا دیا۔

    گھن کی پیدائش میں ابھی کچھ وقت تھا۔ مینکا اور سونا کے بارے میں تو ابھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ ان کی شادی شدہ زندگی کا پہلا سال تھا۔ ’’تم کیا خوب مہک رہی ہو کاما۔‘‘

    ’’جائیے بھی، ماں جی اس کمرے میں ہیں اور دیکھئے کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے، ہو سکتا ہے کہیں آپ کا کوئی شاگرد نہ ہو۔ آپ دن بھر پڑھانے کے بعد گھر لوٹے ہیں اور آپ کو بھوک نہیں لگی؟‘‘ ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی۔ اس کے بکھرے ہوئے بالوں کو اپنی نگاہوں کے پھیلے ہوئے جال میں لیے وہ بے حس و حرکت وہیں کھڑے رہے۔

    ’’آپ مہربانی کرکے جائیں گے بھی۔’’

    ’’بس چپ رہو، میں گانا سن رہا ہوں۔‘‘

    ’’آپ کیا بکواس کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’انسان کے سینے میں موسیقی اور جسم میں خوشبو ہے۔ تو پھر بتاؤ اس کے لمس میں کیا ہے؟‘‘

    ’’آگ!‘‘

    ’’نہیں تم غلط کہہ رہی ہو۔ لمس میں لطافت ہے کنول کی اور نیند کی۔‘‘

    ’’جی ہاں، آپ کی زبان میں تو سب کچھ ہے۔ آخر آپ ادب کے پروفیسر ہیں۔‘‘

    ’’ادب کی بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ ادب زندگی سے بڑھ کر نہیں ہے، یہ زندگی کا بدل تو نہیں ہ وسکتا۔ زندگی تو میرا سہارا ہے، زندگی تومیرا اوڑھنا بچھونا ہے۔‘‘

    ’’آپ کو شرم نہیں آتی؟‘‘

    ’’ شرم تو ایک دکھاوے کا بہروپ ہے۔ ایسی چیز اپنے پاس کیوں رکھیں جس کے ہم قائل ہی نہیں؟‘‘

    گھبراکر کملانے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اچانک اٹھنے والی ٹیس نے اسے اس کے بدن کے مستقل درداور اس میں پلنے والے روگ کا احساس دلایا۔ وہ قابل رحم حالت میں اداس لیٹی رہی۔ خوشبو کو البتہ اس نے پہچان لیا، جو بازار کے ایک عطر کی تھی۔ ایک زمانہ ہوا وہ سنگار کے سامان کے بارے میں سب کچھ بھول چکی تھی۔ سبھی ذاتی مسرتوں اور نفاست پسندیوں کو بھول کر اس نے خود کو بچوں کی پرورش کرنے والی جفاکش گھر والی بنا لیا تھا اوراب بچے گھر سے نکل کر اس وسیع و عریض دنیا میں اپنے مستقبل کی تلاش میں لگے ہوئے تھے۔ مینکا اور سونا نے اپنے اپنے گھر بسا لیے تھے۔ گھن کوئمبٹور میں جنگل سازی کی تعلیم پا رہا تھا۔ نوکری مل جائے تواس کی بھی شادی ہو جانی چاہیے گو کہ وہ ابھی بچہ ہی ہے۔ گھر میں ایک بہو تو رہےگی۔ اس نے اپنی تمام خواہشات اور مسرتوں کو تج دیا تھا اور مسرت حاصل کی تھی تو بس دینے سے، تیاگنے سے اور بچوں کو پالنے پوسنے سے۔ گھریلو کام کاج میں جٹے رہنے سے اس کی ہتھیلیوں کی ملائمیت غائب ہو چکی تھی، چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا اور سر کے بال دن بہ دن گرتے جا رہے تھے۔ سب کو کھلانے کے بعد خود کھانا کھانا تو بس ایک رسم کی حیثیت رکھتا تھا۔ پہننے کے لیے کچھ بھی ہو، بازار سے تھوڑا سا ناریل کا تیل مل جائے، کام چل جاتا تھا اور اب ڈیڑھ سال ہوا، وہ کام کرنے کی اس صلاحیت سے بھی محروم ہو چکی تھی اور بستر پر بےحرکت پڑی تھی۔

    بہتیرے ڈاکٹروں نے اس کامعائنہ کیا تھا۔ نہ معلوم کتنی دوائیں حلق سے اتار چکی تھی لیکن بےنتیجہ۔ کمر اور پاؤں میں وہی درد۔ کمزوری ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس کا بدن آہستہ آہستہ گھلتا جا رہا ہے۔ کہاں وہ اور کہاں عطر! لیکن وہ خوشبو شاید محض اسے چڑھانے کے لیے اس کے شوہر کے بدن کے ذریعہ لوٹ آئی تھی۔ اس کے شوہر کے لیے یہ انداز انوکھا تھا۔ وہ تو عطر کے پاس کبھی بھٹکتے بھی نہیں تھے اور اکثر اپنی داڑھی مونڈنا، بالوں میں کنگھی کرنا اور ڈھنگ کے کپڑے پہننا بھی بھول جاتے تھے۔ وہ بڑے عالم ہیں، پروفیسر ہیں، ان پر ہر چیز سجتی ہے۔ لیکن عطر ہرگز نہیں سجتا۔ پھر یہ آیا کہاں سے؟

    اس نے سوچا، اس کو کتنا اچھا شوہر ملا ہے اور واقعی اس کو خدانے کن کن نعمتوں سے نہیں نوازا ہے۔

    اندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ کملا رورہی تھی، اس کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسوؤں کی صرف چند بوندیں تھیں۔ اندر لیمپ لے آیا۔ پوچھنے پر اس نے کملا کو بتایا کہ سورا بابو باہر چہل قدمی کو گئے ہیں۔

    ’’کہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’انہوں نے مجھے بتایا نہیں۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘ اس نے کہا اور چپ ہو گئی۔ عطر بازار میں دستیاب تھا اور اس پر کسی کا اجارہ نہیں تھا۔ دنیا انسانوں سے بھری پڑی تھی اور جیسا کہ کہتے ہیں جویندہ و یابندہ۔ کون کس کا انتظار کرتا ہے اور سبھی تعلقات خاطر اور سبھی چاہتیں بس ایک مختصر سی مدت کے لیے ہوتی ہیں، ایک طرح کا جھوٹ۔

    بسترپر کروٹ بدل کر کملا چپ چاپ لیٹی رہی۔ آنسو امڈے آ رہے تھے اور اندر وہاں کھڑا تھا۔ وہ اس کے آنسوؤں کا عادی ہو چکا تھا اور اب محض اس کے دکھ درد کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں اس نے پوچھا، ’’رات کے لیے سالن کون سا بنے گا؟‘‘

    ’’تمہارے خیال میں یہاں میں اور کتنے دن کے لیے ہوں کہ تم مجھ سے یہ پوچھتے رہتے ہو؟‘‘ آواز بھرائی ہوئی تھی۔ اپنی دھوتی کا سرا چباتے ہوئے اندر نے پوچھا، ’’تم رورہی ہو، بہن؟ کیا جلدی اچھی نہیں ہوگی؟‘‘

    ’’یہ بدن جائے بھاڑ میں۔ ایسے جینے کا کیا فائدہ جس میں آدمی کو تکلیف کے علاوہ کچھ نہ ملے؟ بہرحال کون کس کا ہوتا ہے؟‘‘

    اندر جا چکا تھا۔ کملا کو ایسا لگا کہ اس نے کم از کم کسی کے سامنے تو اپنے دل کی بھڑاس نکال لی۔ اس نے اپنے آنسو پوچھے۔ اس نے اپنے مرنے کی خواہش کا برملا اظہار کر دیا تھا اور اب اس کے دل کا بوجھ ایک حد تک ہلکا ہو گیا تھا۔ وہ بستر پر لیٹے ہوئے اطمینان سے موت کے بارے میں سوچتی رہی جو ایسے جینے سے تو بہتر ہے جب انسان بے بس اپنی دو آنکھو ں سے تماشاہی دیکھنے بھر کارہ جاتا ہے۔ موت بےشک اس اذیت سے بہتر ہے۔ لیکن وہ کب، آخر کب آئےگی؟ اس کے حافظے میں کسی درگزر کا تو نہیں البتہ دودھ کی مکھی کی طرح الگ کر دیے جانے کا بڑھتا ہوا احساس ضرور تھا۔

    گھن کو اس سے بےتحاشا دلی تعلق تھا لیکن اپنی تعلیم اور اپنے مستقبل کو تو اسے بہرحال ترجیح دینا ہی ہے۔ چار مہینے پہلے جب وہ بہت بیمار تھی، وہ اس کے پاس چار دن سے زیادہ نہیں رہ پایا تھا۔ اس کے پتاجی کا بھی اصرار تھا کہ اسے اپنی تعلیم نہیں خراب کرنی چاہیے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سبھی یہی راگ الاپ رہے تھے اور مینکا اور سونا جب اپنے پنے گھر کی ہو گئیں تو روز روز تو آنے سے رہیں۔ سچی بات تویہ ہے کہ کسی کو بھی نہیں آنا چاہیے۔ ہر ایک کو بالآخر اپنے اپنے سنسار کی خبرگیری کرنی ہے۔

    جو اس کا اپنا ہے وہ کالج سے لوٹ کر ایک لفظ بھی کہے بغیر باہر چہل قدمی کے لیے جا چکا ہے۔

    روشنیاں جل رہی تھیں۔ چپ چاپ لیٹے ہوئے کملا نے باہر کی طرف نظر ڈالی۔ اس کا منہ آدھا کھلا ہوا تھا جیسے وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی ہے اور اس کا ذہن کہیں اور بھٹک رہا ہو۔

    اس نے سوچا کہ اب وہ اس عمر کو پہنچ گئی ہے جب جسمانی خواہشات کو ختم ہونا چاہیے۔ اس کے ایک بیٹا ہے اور دوبیٹیاں۔ وہ پندرہ سال کی عمر میں سسرال آئی اور اب گرہستی میں پچیس سال گزر گئے۔ یہ ایک مدت دراز تھی جس کے دوران بعضوں کے گھر برباد ہوئے تو کچھ دوسری دنیا کو سدھار گئے۔ اسے اکیس سال پہلے گھن کی پیدائش کے بعد اس کا خیال آیا تھا۔ وہ اسپتال، وہ درد، ایک چھوٹا سا آپریشن، مرہم پٹی، وہ بے موسم کی بارش اور وہ کڑاکے کی ٹھنڈی ہوا جس سے بدن کپکپانے لگتا تھا۔ اس کی آہ و زاری سے آسودگی پسند پروفیسر صاحب چونک جاتے اور کہتے، ’’چپ چاپ نہیں سو سکتیں؟ دیکھواب بچہ جاگ گیانا۔‘‘ اور بعض اوقات بچہ بھی پھوٹ پھوٹ کرروتا۔

    زندگی کے لیے خوشی سہارے کا کام دیتی ہے۔ خوف کے احساس میں غرق زندگی برقرار نہیں رہ سکتی۔ اس لیے بعض اوقات وہ بھی جوش سے بےقابو ہو جاتی اور محض اپنے بچاؤ کے لیے شاستروں کے احکام کو نظرانداز کرتی۔ بدن تو بدن ہی ٹھہرا، چوٹ کھاتا، بحال ہو جاتا اور محض دوسری چوٹوں کے انتظار میں رہتا۔ گھن کے بعد مینکا اور پھر سونا۔ یہ مسرت کے پھل تھے یا شاید محض ہیجانی کیفیت کے۔

    تب بھی وہ اپنے کو قائل کرنے کی کوشش کرتی۔ جسم کی خواہشوں کو ختم ہونا چاہیے۔ چنانچہ اکثر وہ اپنی دھان پان سہیلی سونا سے کہتی، ’’پیاری سہیلی، یہ مسرت نہیں محض اذیت کی ایک شکل تھی۔ کیا خوب دن تھے جو مائیکے میں گزرے۔ تیرنا، پھول چننا، درختوں پر چڑھنا، بس یوں ہی بھاگتے دوڑتے رہنا۔ بے فکری کے وہ دن کہیں واپس آ سکتے ہیں؟‘‘

    اکثر سے اپنے مضبوط، صحت مند، بیماریوں سے محفوظ ہاتھ پاؤں کی چلتی پھرتی چھاؤں یاد آتی اور ماضی کی دل فریب سرگوشیاں سنائی دیتیں۔

    ٹھنڈی سانسیں اورذہن میں سمائے ہوئے فلسفے کی لہریں اکثر آپس میں مل جاتیں اور اس پرغالب آنے کی کوشش کرتیں۔

    اس کی سہیلی سب سمجھتی تھی۔ اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعداس کے بدن میں خون بےحدکم ہو گیا تھا۔ اسے بدہضمی کی شکایت ہو گئی تھی اور بار بار دست ہوتے تھے۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ محض ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن کر رہ گئی۔ اس کا شوہر فولاد کے ایک کارخانے میں مستری تھا اور بھیم جیسا طاقتور دکھائی دیتا تھا۔ وہ ہمیشہ کملا کی رائے سے اتفاق کرتی، ’’سچ، اس گرہستی اور بچوں کوپیدا کرنے اور پالنے پوسنے کے ساتھ جو دکھ دردجڑا ہوا ہے، اس کا کس کو پتہ تھا؟ انسان کہاں اپنی رونق سے، اپنی طاقت سے محروم ہو جاتا ہے؟‘‘

    کملا سر جھکا لیتی اورمنہ سے ایک لفظ نہ نکالتی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سورا بابو لالچی یا بے رحم بھی ہو سکتے ہیں۔ کنجیاں اسی کے پاس رہتی تھیں اور وہ اپنی ساری کمائی لاکر اسے دے دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی اپنی کوئی خرچیلی عادتیں بھی نہیں تھیں۔ ان کااس کی سہیلی کے شوہر سے مقابلہ ہی فضول تھا۔ وہ اپنے ہی الفاظ کی تردید کرتی اور ڈھارس دیتی، ’’یہ سب قسمت کی بات ہے، پیاری سہیلی۔‘‘ کملا اپنی سہیلی کی معاشی حالت کا اندازہ اس کے ملے دلے کپڑوں، روکھے بالوں اور کمزور بدن سے لگا سکتی تھی اور وہ جانتی تھی کہ ہر وقت پان چبانے والی یہ سکھٹی عورت دراصل ایک باغی ہے۔

    اس کی سہیلی اس کے بغاوت کے مخفی حوصلے کا سہارا تھی لیکن ایک بار پھر وہ پیٹ سے تھی۔ لیکن اس بار اپنے بچے کا چہرہ دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہ پائی۔ ڈاکٹر کی قصوروار آنکھوں کے سامنے اس کا مستری شوہر بچے کو اپنے بازوؤں میں لیے کھڑا تھا جب کہ ماں بستر پر یوں پڑی تھی جیسے گھورے پر پھینکا ہوا کوئی گندہ چیتھڑا۔

    کملا نے اس دردناک انجام کے بارے میں سورا بابو سے سناتھا۔ آنکھوں میں آنسو لیے دردمند پروفیسر صاحب نے اس واقعے کی روداد شرح و بسط کے ساتھ سنائی تھی۔ اپنے شستہ الفاظ سے انہوں نے اس واقعے کی چلتی پھرتی تصویر کھینچ دی تھی۔ مگر کملا کو اپنے اندرون میں اس نقصان کا احساس ایک ادیب کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عورت کی حیثیت سے ہوا تھا۔ نجات کے متلاشی اس کے شعور کی ملاقات اس کی سہیلی سے یوں کہنا چاہیے کہ کہیں آسمان پر ہوئی۔ اس کی نظروں کے سامنے اچانک اس سوکھے قاق چہرے کی خیالی تصویر ابھر آئی جس پر مسکراہٹ کا خم زندگی کی ہنسی اڑا رہا تھا۔ کملا کو اس پر ترس آتا تھا لیکن وہ خود قابل رحم تھی۔ اس کو ایسا لگا جیسے اس مقابلے میں جیت اس کی سہیلی کی ہوئی ہو۔ اس کا جی چاہا کہ پوچھے، ’’ہم سب کو ایک دن رخصت ہونا ہے، تو پھر اس ناقابل برداشت وجود کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ تفصیلات کو یاد کرتے ہوئے اور ان کو باہم دگر جوڑتے ہوئے اس کا درد ابلا پڑ رہا تھا۔

    اس کو وہ شام یاد آئی جب سورا بابو نے ایک ’’نئی شخصیت‘‘ سیام کی شریمتی چندرا میدھا عرف اوشا رانی کواس سے متعارف کرایا تھا۔ وہ سیلون کی عورتوں کے ایک ادارے میں پروفیسر تھی۔ وہ اساتذہ کے باہم دگر تبادلے کے ایک پروگرام کے تحت آئی تھی۔ وہ انگریزی پڑھاتی تھی لیکن ہندی، بنگلہ اور تمل سے بھی واقف ہو گئی تھی۔ یہاں آنے پہلے اس نے دو مہینے پوری میں گزارے تھے اور ان دو مہینوں کی مدت میں اڑیا میں بھی خاصی روانی کے ساتھ گفتگو کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ بھولی بھالی تھی، یوں سمجھوکہ ایک بچہ۔ آگے سورا بابو نے کہا، ’’اب میں اس پر یہ ثابت کر رہا ہوں کہ اس کے آبا و اجداد ہمارے کلنگا کے ہی تھے اور اسی لیے اڑیا سے واقفیت حاصل کر لینا اس کے کرموں کا پھل ہے۔‘‘

    چندرا میدھا مسکرا رہی تھی لیکن (نمسکارکے دوران) ہاتھوں کو جوڑنے اور ان کو آگے بڑھانے کی جنبش میں تیزی کی جھلک ضرور تھی۔ سورا بابو بولے، ’’سواگتم!‘‘ اس نے کہا، Welcome سورا بابو نہ صرف الفاظ کے معنی بلکہ ان کی اصل اور ماخذ کی وضاحت کی بھی کوشش کر رہے تھے۔ چندرا میدھا نے آنکھ ماری اور محبت کے لیے علی الترتیب انگریزی، ہندی، بنگالی اور اڑیا الفاظ کے موازنے کی کوشش کی۔ کملا ہنسی، سورا بابو کچھ نہ بولے۔ کملا نے پوچھا، ’’چندرا میدھا دیوی، تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘

    سورا بابو نے اسے گھور کر دیکھا۔ چندرا میدھا عجیب انداز سے ہنسی اور اس ہنسی کے ہلکورے اس کے سارے چہرے پر اور اس کے ہونٹوں اور موتی جیسے دانتوں کے کنارے کنارے پھیل گئے۔

    اس نے سورا بابو سے پوچھا، ’’وچت‘‘ یعنی ’’یہ کیا؟‘‘سورا بابو نے اس کے خیرمقدم کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔ کملا نے اٹھنے کی کوشش پھر نہیں کی۔ دیوان خانے سے ان دونوں کی ہنسی کی لہریں اس کے کان تک پہنچیں۔ کملا اچھی طرح جانتی تھی کہ چندرا میدھا واقعی بےنظیر تھی اور اس کی ہنسی موسیقی کا درجہ رکھتی تھی۔ وہ مطمئن، توانا اور آزاد زندگی کی علامت تھی۔ یہ قابل رشک بات تھی۔ کملا کے پاس نہ کبھی ویسی صحت تھی اور نہ ویسی آزادی۔ اپنی روایات میں محصور تنگ و تاریک اندھی گلی سے اس نے چندرا میدھا کی اڑچنوں سے پاک شاہراہ کو آنکھیں پھاڑکر دیکھا۔ اس نے پہلی بار اپنے اندرون میں خوف کی ایک پوشیدہ کپکپی محسوس کی تھی۔ کسی نے اس کی وجہ اسے نہیں سمجھائی تھی لیکن اس کے نسوانی ذہن نے شاید کسی لطیف سطح پر، اس کے معنی ڈھونڈ نکالے تھے۔ اس رات اس نے بھگوان سے اسے زندگی سے چھٹکارا دلانے کی پرارتھنا کی۔

    کسی واقعے کا مفہوم منحصر ہوتا ہے ہمارے ذہنی رویے پر ا وریہ رویہ منحصر ہوتا ہے ہماری ذہنی کیفیت پر جو خود منحصر ہوتی ہے صورتحال کی متعدد دوسری نوعیتوں پر۔ بعض اوقات اسے وہ واقعات یاد آتے جو اس کے شوہر نے بیان کیے تھے اور ان واقعات کا ان کا کیا ہوا تجزیہ یاد آتا۔ گویا کہ وہ ایک دور افتادہ دیہاتی علاقے سے آئی تھی پھر بھی ان پڑھ نہیں تھی۔ اس نے ابتدائی اسکول تک پڑھا تھا اور اپنی ماں کو خوش کرنے کے لیے مقدس کتابیں بھی پڑھی تھیں اور خود اپنی خوشی کے لیے اس نے کچھ ایسے ناول بھی پڑھے تھے جو رفیق زندگی کی تلاش کے لیے اپنے قاری کو تیار کرتے ہیں۔

    اپنے ماضی پر دوبارہ نظر ڈالتے ہوئے اس کو ایسا لگا تھا کہ سورا بابو کو کبھی اس سے محبت نہیں تھی، وہ تو صرف خود سے محبت کرتے تھے اور اس غرض سے کہ ان کی یہ خود پسندی اور نرگسیت بڑھے اور پروان چڑھے، اس سے محض ایک سہارے کا کام لیا گیا تھا۔ شروع سے انہوں نے اسے پڑھانے لکھانے کی کوشش کی تھی، ناکام رہے تھے اور ناامید ہو گئے تھے۔ باہر تفریحی صحبتوں میں شرکت کا موقع اسے صرف اس صورت میں ملتا جب یہ ناگزیر ہوتا، ورنہ اس کے پتی دیو ہر وقت کتابوں کے ڈھیر کے پیچھے کھوئے رہتے۔ ان کی خود کلامی کا خودغرضانہ مفہوم بعض اوقات دوبارہ اس کے ذہن کو جھنجھوڑتا، ’’اگر میرے کام میں کوئی میری تھوڑی سی بھی مدد کرتا تو میں کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہوتا۔ ڈی لٹ کر لینا اتنا مشکل ہرگز نہ ہوتا۔‘‘

    اسے اپنا چولہا چوکا، اپنے پان، اپنی گھریلو پریشانیاں، بچوں کی نگہداشت یاد آئی، واقعی ان کے ڈی لٹ کے لیے یہ سب باتیں شاید ہی کسی کام کی رہی ہوں۔ تاہم اب جب کہ چندرا میدھا آ گئی تھی، وہ ان کے ڈی لٹ میں بےشک ان کی مدد کر سکتی تھی۔

    آخر وہ خود تو گیان میں ایک بونے کی حیثیت رکھتی تھی، وہ ان کے لیے کیا کر سکتی تھی؟

    اکثر وہ ہمارے سماج میں عورتوں کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اچھی گرہستنیں تو ضرور ہیں لیکن بہ حیثیت شریک حیات بےکار محض ہیں۔

    ’’تم سمجھتی ہو، کما؟‘‘وہ کہتے، ’’مورتی پوجا دھرم نہیں ہے، دھرم تو آدرشوں کے مطابق کام کرتا ہے۔ اگر شوہر ایک ڈاکٹر ہو اور اس کی بیوی کا دھرم رسوئی ہو تو کیا تمہارے خیال میں وہ ایک دوسرے کے اچھے ساتھی ثابت ہو سکتے ہیں؟‘‘

    اس کو زندگی اور سماج پر ان کی رائے زنی بھی یاد آتی، جس میں وہ ادب سے نمونے کا کام لیتے۔

    ’’اب اخلاقیات ہی پر غور کرو۔ بہتیرے لو گ اسے ایک نیا مفہوم دیتے ہیں اور س کو پردہ بناکر اس کے پیچھے بہت سارے جھوٹ اور بہت سارے باطل حیلے بہانے چھپا دیتے ہیں۔ دل میں ایمان مطلق نہیں مگر رام نام جپتے رہتے ہیں۔ ہماری عورتیں اپنی اخلاقیات پر فخر کرتی ہیں لیکن رہتی ہیں اپنے ذہن کی تنگ و تاریک خواب گاہوں میں۔ کوشش یہ کرتی ہیں کہ سب کا خیال رکھیں لیکن اس کا خاتمہ خودغرضی پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات انتہائی کند ذہن خود کو روشن خیال منوا لیتی ہیں اور وہ جو طرح طرح کی گندی افواہ اڑانے کی رسیا ہوتی ہیں اور جن کے ذہن کا رجحان صرف تاریک پہلوؤں کی طرف ہوتا ہے، ماتھے پر چوندھیا دینے والی سیندور کی بندیا اور ایک جڑاؤپن لگالیتی ہیں جس پر’’ پتی پرم گرو ‘‘کندہ رہتاہے۔ حقیقی اصول اخلاق محض اپنے جسم کو شوہر کے لیے مختص رکھنے اور اپنے اندرون میں بہت سارا کوڑا کرکٹ جمع کرنے کا نام نہیں ہے۔‘‘

    ان سب باتوں کو اس نے سر جھکاکر تسلیم کر لیا تھا۔ آخر تو وہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ یہ سب باتیں ان کتابوں میں ہوں گی جووہ دوسروں کو پڑھاتے ہیں۔ ان نظریات کی صداقت کے بارے میں اس نے کبھی نہ توشک وشبہ ظاہر کیا اور نہ ہی استثنائی صورتوں میں ان کے عدم اطلاق کی بات کی۔

    اونچی جماعت کا ایک طالب علم بسی بابو اکثر اپنے ’’سر‘‘ سے صلاح مشورے کے لیے آیا کرتا تھا۔ عینک کے شیشوں پر سے جھانکتی ہوئی گھنی بھوؤں والایہ خوب رو نوجوان ایک دل پذیر شخصیت کا حامل تھا، ہمیشہ مسکراتا اور ہشاش بشاش رہتا اور اس کی موجودگی میں سبھی آسودگی اور مسرت محسوس کرتے۔ بعض اوقات جب بسی اور سوا بابو اکیلے کمرے میں سرگرم گفتگو ہوتے تواسے ان کے لیے چائے اور ہلکا ناشتہ اندر لے جانے کا اتفاق ہوتا۔ اچانک ایک دن سورا بابو نے اس کے خلاف زہر اگلا، ’’اس لڑکے کا اعتبار ہرگز مت کرنا۔ انسان کے روپ میں شیطان ہے۔ یہ بات یاد رکھنا۔‘‘

    اس کے بعد سے جب بسی ملاقات کے لیے آتا، وہ کبھی باہر نہ نکلتی۔ انہیں بہتیرے دوسرے لوگوں کے خلاف بھی اسی طرح کی شکایتیں تھیں۔ ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے دفعتاً محسوس کیا کہ جب بھی کوئی بے تکلف چہرہ سامنے آیا (چاہے جس صنف کا ہو) تو سورا بابو نے ہمیشہ اس کے خلاف رائے ظاہر کی۔ یہ شاید اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالنے کا ان کا طریقہ تھا۔ ان کی خوش مزاجی کے پیچھے ہمیشہ بدگمانی چھپی رہتی اور اخلاقیات، محبت، گرہستی کے بارے میں یہ ساری طویل طویل باتیں محض دکھاوا تھیں اور حقیقت تھا ان کا بےمعنی ساتھ، محض ایک ملمع، جس کے اطراف نظریات کا حاشیہ ٹانک دیا گیا تھا۔ زندگی پس پشت چلی گئی تھی اور اس کی اٹھتی جوانی کے دن پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

    بعض اوقات اس کا جی چاہتا تھا کہ پھوٹ پڑے، ’’واقعی تمہاری چندرا میدھا نے جہاں گردی کی ہے، بہتیرے لوگوں کو جانتی ہے اور تنگ نظر نہیں ہے۔ لیکن اس کے نہ شوہر ہے، نہ بیٹا۔ وہ گزر بسر کے لیے کسی اور کی دست نگر نہیں ہے۔ وہ ہماری طرح تو ہے نہیں کہ کسی سے ڈر کر رہے؟‘‘ لیکن یہ الفاظ کبھی وہ اپنی زبان پر لائی نہیں، یہ باتیں کبھی کہہ نہیں پائی۔ اسے ہمیشہ اپنے شوہر کا فکرمند چہرہ اور بےخواب راتیں یاد آ جاتیں۔ کیایہ سب آخرکار اسی کے لیے نہیں تھا؟ پچھلے سالوں کی بہار کی یاد اسے ہمیشہ اس کے شوہر کے ساتھ ایک ایسے جھولے پر بٹھا دیتی جہاں نہ رشک ہوتا، نہ تنگ ظرفی اور نہ خودغرضی، صرف آشیرواد کے پھول نچھاور ہوتے۔ وہ سکھی رہیں، سبھی سکھی رہیں، بھگوان کرے میری زندگی کا چراغ ان کے سامنے ہی گل ہو۔

    لگتا ہے جیسے جسم آہستہ آہستہ پاؤں سے اوپر کی طرف بےجان ہوتا جا رہا ہو۔ ایک خالی برتن کی طرح ہلکی سی چوٹ سے بھی ذہن گمکنے لگتا ہے۔ اسے ہمیشہ محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کے جسم اور ذہن کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے اور دونوں وقت کے گھیرے اور دباؤ میں ہیں۔ وہ بےقابو ناچ رہی تھی لیکن یہ عہد شباب کا رقص نہیں بلکہ سردباد شمال کی زد میں کسی شاخ پر ڈانوا ڈول لرزتی ہوئی نیم مردہ پتی کا ناچ تھا۔ امید اور درگزر کے جذبے سے محروم ناچ۔ وہ کسی اور کو کیسے معاف کر سکتی ہے جب کہ وہ خود کو بھی معاف کیے بغیر جانا چاہتی ہے! اس کے پتی دیواب بھی کتنے صحت مند تھے۔ برستے پانی کی بوچھاڑ کے آگے سینہ سپر پتھر کی مانند انہوں نے بھی زمانے کے سردوگرم کو بہ خوبی برداشت کر لیا تھا۔

    ماہ وسال گزرتے رہے۔ غریبی کے ساتھ عمر میں بھی اضافہ ہوتا رہا لیکن وہ بھی بےجھجک آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے قابل رشک طور پر اپنا سر اونچا رکھا۔ تینوں بچے اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں اور اب بھی اس کے پتی دیو صبح سویرے اٹھتے ہیں، ورزش کرتے ہیں اور چہل قدمی کو جاتے ہیں۔ صبح زمین ان کے سامنے کھلی رہتی ہے اور آسمان بھی تاکہ وہ تخیلِ شاعرانہ کے محرک کی جستجو میں لگے رہیں۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ وہ ستار پر بھی بہت رات گئے ریاض کرتے رہتے ہیں اور خود اس کی دنیا؟ اس کا واسطہ توبس جسمانی اذیت اور درد سے ہے، ذہن جھلس سا گیا ہے، جیسے تیسے رینگتے ہوئے جائے ضرور کو جانا اور واپس لوٹنا۔

    جب اس نے کھڑکی میں سے دیکھا تو اسے چھوٹے اور بڑے پیڑوں کی ایک باڑ اور کچھ فاصلے پر ایک گھر کا پچھواڑا دکھائی دیا۔ ان پر جھکا ہوا آسمان کا خم، متعدد پانی کی ٹنکیاں، شکر کے کارخانے کی چمنیاں، اونچے درخت، اونچی عمارتوں کے بالائی حصے اور ان سب میں گھرا ہوا آسمان۔ سونا اور سنسنان آسمان۔ اسے وہاں جانا ہے؟ کب؟ لیکن اس کے جسم کے اندرون میں قوت حیات کا آخری قطرہ زندہ رہنے، بدلتے موسموں، جانی بوجھی گایوں، گوریّوں، چیلوں، ان کی نقل وحرکت اوررخ بدلتی ہواؤں کو دیکھنے کے لیے اب بھی چیخ رہا تھا اور جب آسمان کا رنگ گہرا نیلا ہو گیا اور سوزنی کا پیڑ اپنی پھلیوں سمیت نیچے جھکا تو وہ اپنی بیماری کو فراموش کرنے کے لیے آمادہ ہو گئی۔ اس نے اندر کو آواز دی۔ کتنی خوبصورت سوزنی کی پھلیاں ہیں! تم بابو کے لیے انہیں پکاتے کیوں نہیں، بابو کو یہ کتنی پسند ہیں۔

    خارج میں انسانی آواز کی گونج سے اسے تشفی حاصل ہوئی۔ جب چاروں طرف سناٹا ہوتا تو وہ اپنے سینے پر گرتی ہوئی اوس کو محسوس کرتی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بوند بوند ٹپکنے لگے۔ جیسے غصے یا رشک سے ایک پاگل یا مریل آدمی دفعتاً اپنے کو طاقتور محسوس کرتا ہے اس نے بھی کھو جانے یا نظرانداز کر دیے جانے کے ایک مخفی احساس کے زیر اثر ہمت جٹائی۔ کوشش کرکے نے اپنی لگاتار کھانسی کو روکا اور اس نے محسوس کیا کہ یہ سوچنا بے وقوفی ہے کہ صحت مند لوگ ایک بیمار کی مستقل خبرگیری کرتے رہیں۔ یہ تو ایک فریب ہوگا یا فسوں گری، اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً اپنے شوہر سے کہتی، ’’میں نے آپ کو بہت تکلیف دی ہے۔ مہربانی کرکے دوسری شادی کر لیجئے۔‘‘ اور جوا ب ہمیشہ ہوتا، ’’مہربانی کرکے چپ رہو۔ پاگل ہوکیا؟ لوگ سنیں گے توہنسیں گے۔‘‘

    یہ سچ ہے کہ اس اوشا رانی کے آنے کے وقت سے وہ گڑبڑا گئی تھی۔ وہ اسے اس کے اصلی نام کی بجائے بہ اصرار اس نام سے پکارتے۔ کسی نہ کسی طرح اس کا نام روزہی زبان پر آ جاتا۔ وہ طر ح طرح سے ان کے گن گاتے اور اپنے بستر پرپڑی ہوئی کملا پوری طرح سمجھ گئی کہ ایک صحت مند مرد صرف چڑھتے سورج کو آنکھ اٹھاکر دیکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اکثر دوہراتی کہ نفسانی خواہشات محض غلطی اور واہمہ ہیں۔

    گھر کا ملازم اور رسوئیا اندر وہ فرد واحد تھا جو اس کی باتیں تشویش کے ساتھ سنتا۔

    ’’یہ دنیا کا دستور ہے اندر، کبھی بھی مرد کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

    اندر اس با ت کا مفہوم شاید ہی پوری طرح سمجھ پایا ہو لیکن وہ بھی مردوں سے مستقل ناراض تھا۔ وہ بھی چاہتا تھا کہ کاش وہ عورت کے روپ میں پیدا ہوتا۔ اداس اور آزردہ ہوکر اس نے کہا، ’’بہن، تم اچھی ہو جاؤگی۔‘‘

    یہ دو خستہ حال کشتیاں ناکافی لفظوں کے توسط سے ایک دوسرے سے مس ہوئیں اور پھر آگے تیرنے لگیں۔ کملا کو اپنی تنہائی سے کچھ سکون ملا لیکن اس نے اپنے شوہر کی بدلتی ہوئی کیفیت مزاج کو دیکھا تو اس کو اندازہ ہوا کہ وہ دن بہ دن کتنے بشاش دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر ان کی آنکھوں میں نئی جوانی کی چمک دمک تھی، جو بعض اوقات سحرزدہ خاموشی تو بعض اوقات بے وجہ گھبراہٹ میں جھلکتی۔ ستار میں ایک نئی سمفنی۔ بعض اوقات وہ کالج سے دیر تک لوٹتے اور پھر شام ہونے کے بعد چہل قدمی کو جاتے۔ شروع میں دو ایک بار انہوں نے کہا تھا، ’’مجھے چندرا میدھا کے ہاں تقابلی لسانیات پرلکھے ہوئے اپنے ایک مضمون پر تبادلہ خیال کے لیے جانا ہے۔‘‘ رفتہ رفتہ وہ اس کا نام ظاہر کرنا بھولنے لگے۔ انہیں بس کہیں باہر دیر ہو جاتی!

    کملا سمجھتی تھی کہ زندگی کو موت پرفتح حاصل ہوگی، تندرست جسم مردہ جسم کے اوپر بیٹھےگا۔ اس دن، پھر ایک بار ان کے پاس سے وہ خوشبو آ رہی تھی، پھر ایک بار وہ شام میں دیر تک باہر رہے تھے۔ آسمان میں وہ آگ کی لکیر کیسی ہے؟ اس نے غور سے دیکھا۔ چودھویں کا بڑا، گول سا چاند مسکراتا ہوا اوپر آیا اور اس کی دھند میں سوزنی کا پیڑ بھی اسے ایک حسینہ جیسا دکھائی دیا۔ یہ اس کی امید اور اس کی قابل رحم خواہش تھی۔ اچانک اپنے شعور میں اسے لگا جیسے مدوجزر کی زبردست لہریں منظر کو حد نگاہ تک گھیرے ہوئے ہیں۔ اسے ایسا لگا جیسے اس نے کچھ پا لیا ہو۔ اب اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا لیکن الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ بہرحال اب ا س کا فائدہ بھی کیا تھا؟ اور پھر بھی اس کا منہ آدھا کھلا ہوا رہا۔ سورا بابو ساڑھے نو بجے واپس لوٹے۔ وہ بھی راستے بھر زندگی کے بارے میں سوچتے رہے تھے۔ انہیں دلی یقین تھا کہ زندگی اور مسرت لازم و ملزوم ہیں۔ وہی معاملہ موت، مصیبت اور تنگ نظری کے درمیان ہے۔

    کملا پڑی ہوئی تھی۔ اس طرح کہ اس کا چہرہ اوپر کی جانب تھا اور چاند کی طرف جھکا ہوا تھا۔ منہ کسی قدر کھلا ہوا تھا۔ گویا جوبات وہ کہنا چاہتی تھی وہ پوری نہیں ہو پائی ہو۔

    مأخذ:

    عصری ہندوستانی کہانیاں (Pg. 208)

      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 2001

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے