Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرب

MORE BYمحمد علیم اسماعیل

    ماہ رمضان کی آمد کا بےصبری سے انتظار اور اس بابرکت مہینے میں مختلف قسم کی چیزوں کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ صرف روزہ دار ہی اس کی اصل لذت کا تذکرہ کر سکتا ہے۔ بازار مختلف رنگین قمقموں سے سج چکے تھے۔ کہیں کہیں مسجدیں بھی سجائی جا چکی تھیں۔ ساتھ ہی بازار بھی لذت دار میوؤں، پھلوں اور مشروبات سے بھرے تھے۔ واقعی رمضان رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ کہتے ہیں جو شخص گیار ہ مہینوں میں اتنی نیکی نہیں کماتا جتنی نیکی اس ایک مہینے میں کما لیتا ہے۔ بازار، فٹ پاتھ اور ہوٹلوں میں افطاری کے لیے طرح طرح کی اشیا بہترین طریقوں سے سج دھج کر فروخت کے لیے تیار تھیں۔ نمازی، روزہ دار اور دیگر افراد کی چہل پہل سے رونقیں بکھری ہوئی تھیں۔ بچے، بوڑھے اور خواتین بازاروں اور فٹ پاتھوں پر افطاری کی خرید اری میں بڑے مصروف نظر آ رہے تھے۔ قمقموں سے جگ مگ ہوٹلوں کے اندر باہر لوگوں کا ہجوم اپنی اپنی پسندیدہ چیز یں خریدنے میں منہمک تھا۔ اس مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت کا معاملہ ضرور فرماتا ہے۔

    ان مصروف جگہوں کے درمیان ایک پھٹی پرانی ساڑی میں ملبوس نہا یت ضعیف الجثہ خاتون ساڑی کے پلو سے بار بار اپنے ماتھے پر بہنے والے پسینے کو پونچھتی ہوئی افطاری کی اشیا فروخت کرنے کی غرض سے، فٹ پاتھ کے ایک کونے میں خریداروں کے انتظار میں تھیں۔ پر افسوس کہ خریدار اس بے چاری خاتون کے سامنے سے آ جا رہے تھے، لیکن کوئی بھی اس سے کچھ نہیں خرید رہا تھا۔ یہ ضعیف خاتون روزانہ گاہکوں کا انتظار کرتیں اور اذان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی پورا سامان لیے گھر کی طرف لوٹ جاتیں۔ آج بھی شام کے وقت وہ بڑی امیدوں سے افطاری کا سامان لیے اللہ کے نیک بندوں، روزہ داروں کو فروخت کرنے کی غرض سے اسی مقام پر بیٹھ گئیں اور روزانہ کی طرح ساڑی کے پلو سے ماتھے کا پسینہ پونچھتی رہیں۔ ان کے لب پر کسی کے لیے بھی کوئی شکوہ نہیں تھا۔ یکا یک ان کے ٹھیلے کے سامنے ایک شاندار قیمتی کار آکر رک گئی۔خاتون کی نظریں اس کار پر پڑیں۔ کچھ پل بعد کار کا دروازہ کھلا، اس میں سے سفید پوشاک پہنے ایک سفید داڑھی والے، عمر دراز بابا باہر نکلے، خاتون کے قریب گئے، انھیں میٹھے لہجے میں سلام کیا۔ ان کے پاس بیٹھ گئے، جیسے وہ ان کی والدہ ہو۔ انھوں نے خاتون سے پورے سامان کی قیمت پوچھی اور قیمت ادا کرکے وہ سارا افطاری کا سامان لے کر چلے گئے۔ کسی کے پوچھنے پر ضعیف خاتون نے پہلے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر اللہ کا شکر ادا کیا اور اس خریدار کو ڈھیروں دعائیں دینے لگیں اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگیں۔

    ”میرا بیٹا اور بہو مجھ پر زیادتی کرکے یہ اشیا فروخت کرنے بھیجتے ہیں۔ نہ بکنے پر کئی مرتبہ مجھے بھوکی ہی سونا پڑتا ہے۔ لیکن آج اللہ کے فضل و کرم سے میرا پورا سامان بک گیا۔ آج گھر پہنچ کر حساب دوں گی اور پیٹ بھر کھانا کھاکر پر سکون نیند سو جاؤں گی۔“

    یہ کہتے ہوئے خاتون کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

    مأخذ:

    الجھن (Pg. 116)

    • مصنف: محمد علیم اسماعیل
      • ناشر: محمد علیم اسماعیل
      • سن اشاعت: 2018

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے