Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواب

MORE BYاسماعیل فسیح

     

    1
    رات کے اندھیرے میں مجھے ایک خواب دکھائی دیتا ہے کہ میں نے اپنے ایک ہم شکل کو قتل کردیا ہے، یا اپنے ہم زاد کو قتل کردیا ہے۔ کسی جگہ، آئینے کے سامنے، میں نے چھرے کا پھل اس کے گلے میں اتار دیا ہے۔ خون کا فوراہ ابلتا ہے۔ وہ ایک چیخ مارتاہے۔ آہستہ سے پھڑپھڑاتا ہے۔ اس کے ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ جاتے ہیں۔ وہ چھرے سے چھوٹ کر زمین پر گرتا ہے اور دم توڑ دیتا ہے۔ 

    میں اس کو خون میں لتھڑے ہوئے بالوں سے پکڑ کر، نیم تاریک راہداری کے سرد پکے فرش پر گھسیٹتا ہوا، ویران مکان میں سے، تاریکی میں سے، یادوں میں سے، آرزوؤں میں سے گھسیٹتا ہوا، قلب شب تک لے آتا ہوں۔ رات برہنہ اور بے امان ہے اور میں اس جسد کو باغ کی پشت کے کھنڈر میں بڑی احتیاط کے ساتھ ایک گندے گڑھے میں ڈال دیتا ہوں۔ 

    میری مٹھی میں جکڑے ہوئے خون آلود چھرے سے اب تک لہو ٹپک رہا ہے اور لاش کی پتھرائی ہوئی آنکھیں میرے درونی غصے اور کینے کا شکار ہوکر خاموش پڑی ہیں۔ 

    لاش کو گڑھے میں ڈال کر میں اندھیاری میں کھڑا رہتا ہوں اور خاک پر پڑے ہوئے بے جان بدن سے کہتا ہوں، ’’تو نے میری زندگی برباد کردی۔ میری بڑی سے بڑی تمنا کو خاک میں ملا دیا۔ میرے خوابوں کو، میری چاہتوں کو او رمیرے ہر ہنر اور ہر خوبی کو ملیا میٹ کردیا۔‘‘ 

    میں یہ کہتا ہوں اور لاش کی آنکھ کے ڈھیلے میں چھرا بھونکتا ہوں۔ کب سے جمع ہوتے ہوئے کینے اور غیظ و غضب کے ساتھ چھرا اور اندر اتارتا ہوں اور دھار دار فولاد سے آنکھ کی پتلی، حدقے، جمتے ہوئے خون، گوشت کے ریشوں، نسوں، ہڈیوں کو کاٹتا چلا جاتا ہوں اور مغز تک، جسمانی ذلالتوں کے مرکز تک، اور زمین کی مٹی تک، چھرا اتار دیتا ہوں۔ 

    پھر احتیاط کے ساتھ لاش پر پٹرول چھڑکتا ہوں۔ اسے آگ دکھاتا ہوں۔ جلاکر راکھ کرتا ہوں اور راکھ کو فضا میں منتشر کردیتا ہوں۔ 

    2
    جھٹ پٹے کا سماں ہے۔ میں سرخ شراب کا جام ہاتھ میں لیے، ہلکا پھلکا، برہنہ اور تنہا، ٹب کے گرم پانی میں پھیل کر لیٹ جاتا ہوں۔ سوتے جاگتے میں خواب دیکھتا ہوں کہ اپنے ہم زاد سے اب تک باتیں کر رہا ہوں۔ اس سے کہتا ہوں، 

    ’’کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ تو کرنا ہی تھا۔ میں اس عذاب کو ختم کرنے پرمجبور ہوگیا تھا، ورنہ، اگر یہ نہ کرتا تو میری اور تیری مسلسل جاں کنی کبھی ختم ہونے میں نہ آتی۔ چلتی رہتی، برسوں چلتی رہتی، یہاں تک کہ ہم، دو فرتوت بوڑھے، ایک دوسرے کا ماتم کرنے بیٹھ جاتے اور میری تیری زندگی میں سے ایک گدلی بد رنگ سیاہ تلچھٹ کے سوا کچھ نہ رہ جاتا۔ لیکن اب تو آزاد ہے، میں بھی آزاد ہوں۔ ہم ایک دوسرے کی قید سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ہم دونوں نے اپنی اپنی اصل کو پالیا ہے۔‘‘ 

    3
    برہنہ اور تنہا، ٹب کے گرم چپچپے پانی میں پڑا ہوا، میں خواب دیکھتا ہوں کہ سچ مچ میں آزاد ہوں۔ اس جسم سے رہائی کا احساس میرے اندر موجیں مار رہا ہے۔ میں اوج پر پہنچ رہا ہوں۔ امنگیں میری روح کو پھر سے زندہ کر رہی ہیں۔ دائمی آزادی کے اس کیف اور سرمستی نے مجھ کو نہ صرف میرے ہم زاد سے آزاد کیا ہے بلکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں خود اپنی بھی داستان، اپنی بھی تاریخ سے الگ ہوگیا ہوں۔ 

    ٹب کے گرم ساکت پانی میں پڑے پڑے اب میں یہ خواب دیکھتا ہوں کہ جس نے میرے ہم زاد کا خون کیا ہے وہ میں نہیں ہوں، کہ میں ایک موہوم اوراپنا من گڑھت وجود ہوں، کہ میں رمز و تخیل کی خلق کی ہوئی ایک حسین لافانی روح ہوں۔ 

    لیکن صبح ہوتے ہوتے، اور کھڑکی کے ادھر زندگی کی آوازوں کے ساتھ، خواب اور بیداری کے درمیان مجھے اپنا سر گھومتا معلوم ہوتا ہے۔ میں آنکھیں کھولتا ہوں اورمجھ کو حمام کی چھت اور دیواریں ناچتی دکھائی دیتی ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کہیں نیچے ہی نیچے گرتا چلا جارہا ہوں۔ 

    اور اب مجھ کو راہداری میں ان کے قدموں، ان کے بھاری بوٹوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ 

    4
    حوالات میں طول طویل جرحوں اور اقبالی بیان کے بعد، جب مجھے کوٹھری میں بند کر کے سب چلے جاتے ہیں، میں لکڑی کی بنچ پر پڑے پڑے گہری نیند سو جاتا ہوں اور خواب دیکھتا ہوں کہ درحقیقت میں نے کسی کا خون نہیں کیا ہے، کسی کو انگلی بھی نہیں چھوائی ہے، سوا اپنے۔ وہ میں تھا، اور کوئی نہیں۔ میں نے اپنے آپ کو قتل کیا ہے، ایک لحظے میں، اس ایک لحظے میں جب میں آئینے کے اندر تھا اور آئینے نے مجھ کو اشارہ کیا تھا، میں نے چھرا اپنے گلے میں اتا دیا تھا، باہر کھینچ لیا تھا، اور پکار کر اپنے بدن سے کہا تھا، 

    ’’تونے سب کچھ تہس نہس کردیا۔ یہ تیری پھٹی پھٹی بھوکی آنکھیں، یہ تیرے پیٹ سے بھی زیادہ بھوکا تیرا دل، یہ تیرے بھوکے ہاتھ، یہ تیرے بیہودہ گو ہونٹ، یہ تیری چھوٹی چھوٹی خود پرستیاں اور اوچھی حرکتیں، ان سے تونے سب کچھ ملیا میٹ کردیا۔ جس شے میں بھی حسن کی رمق تھی، تونے اسے مٹا دیا۔‘‘ 

    اور میں نے اپنی گردن کی ایک ایک نس پر، پیشانی پر، چہرے کے عضلات پر، چھرا چلا دیا اوراپنی جان لے لی، پھر ہلکی سی تھرتھراہٹ کے ساتھ آئینے سے الگ ہوا اور زمین پر گر گیا۔ بس لمحہ بھر کی بات تھی۔ 

    تنہا، حوالات کے ایک گوشے میں، میں خواب دیکھتا ہوں کہ میرا دم ذرا ذرا کر کے نکل رہا ہے اور دل کی آخری دھڑکنوں کے ساتھ میری روح آزاد اور سبک بار ہوجاتی ہے اور میرے سکڑے ہوئے بے بس بدن کو فنا کے مکڑ جال میں الجھا چھوڑ دیتی ہے، اور مجھے معلوم ہے کہ اب میں اس ذلیل منحوس بدن میں واپس نہیں آؤں گا۔ 

    5
    رات کو بلدیے کے ہسپتال میں، میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں پہلے کی طرح ہوگیا ہوں۔ میں اپنے گھر، اپنی بیوی اور بچے کے پاس لوٹ آیا ہوں۔ کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ قتل، گرفتاری، جرح، حوالات، کچھ بھی نہیں۔ زندگی ہمیشہ کی طرح ہے۔ میں دن بھر کا تھکا ہارا کام پر سے واپس آیا ہوں۔ گاری گیرج میں مقفل کردی ہے۔ رات ہوگئی ہے۔ میں نے پیٹ بھر کر کھاپی لیا ہے۔ اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیان اکیلا بیٹھا ہوں۔ دوسرے کمرے سے ٹیلی ویژن کی آواز آرہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح میرے ہاتھ میں کتاب ہے۔ پڑھ بھی رہا ہوں، نہیں بھی پڑھ رہا ہوں۔ اور وہ، جو میرا ہم شکل تھا، یا میرا ہم زاد تھا، اور میرا دشمن تھا، دیواری آئینے میں سے مجھ کو دیکھ رہا ہے، مجھے اشارے کر رہا ہے۔ کھڑکی کے پیچھے سے اشارے کر رہا ہے، کچھ غصے میں، کچھ تمسخر کے ساتھ، اور میں اس کی وہی لعنتی آواز سنتا ہوں جو سرد زمستانی ہوا میں میری روح کے اندر سے اٹھا کرتی تھی، اس شخص کی آواز جو میرا عدو تھا، آواز جو میری روح کو کھرچتی رہتی تھی۔ 

    وہ رات کی کھڑکی میں سے مجھ پر ہنستا ہے۔ میں اسے دیواری آئینے میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر ہنس رہا ہے۔ اور آج رات میں اس کو بہت احتیاط کے ساتھ اشارے سے بلاتا ہوں، دروازے کا کھٹکا کھول دیتا ہوں اور اس کا انتظار کرتا ہوں۔ اسے دیکھتا ہوں کہ دروازہ کھول کر آہستہ آہستہ کمرے میں آرہا ہے۔ ہم میز پر آمنے سامنے بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں۔ میں نفیس شراب کی طرف کانپتا ہوا ہاتھ بڑھاتا ہوں، وہ کھانا اپنی طرف کھسکاتا ہے او رمیں دیکھتا ہوں کہ یہاں میرے اس کے مابین جو کچھ بھی ہے اس کا مقدر فنا ہے۔۔۔ اور میرا ہاتھ چھرے کی طرف بڑھتا ہے۔ 

    6
    مقدمے کا دن
    مقدمے کے دوران، بعد ظہر کی بے کیف گھڑیوں میں، عدالت کے تپتے ہوئے کمرے میں وکیل دفاع، وکیل سرکار اورجج کی سپاٹ آوازوں، مقدمے کی لامتناہی اور پوچ بحثوں کے درمیان، میں دھوپ کی عینک کے پیچھے آنکھیں موند لیتا ہوں اور خواب دیکھتا ہوں کہ مجھ کو شہر کے میدان میں ننگا کر کے پھانسی پر الٹا لٹکا دیا گیا ہے۔ پھانسی کا تماشا دیکھنے آئے ہوئے لوگوں کو میرا الٹا، بے ڈھنگا بدن نظر آرہا ہے۔ موت کی نیند میں مجھ کو جج کی آواز سنائی دیتی ہے، 

    ’’تم نے ایک بے گناہ آدمی کا خون کیا، اس کی لاش جلا دی، اس کی راکھ اڑا دی، اور دعویٰ کرتے ہو کہ تمہارا اپنا بدن تھا، اور تم نے سب کچھ اس کے بھلے کے لیے کیا تھا۔ کون تھا وہ آدمی؟ اسے جینے کا حق نہیں تھا؟ کیا نام تھا اس کا؟‘‘ 

    میں سر ہلادیتا ہوں۔ میں نے اپنا نام، اپنی زندگی، اپنی تاریخ سمیت اپنے آپ کو گڑھے میں ڈال کر پھونکا تھا۔ 

    7
    پھانسی سے پہلے والی رات
    میں اپنی تنہا کوٹھری میں اپنی روح کے ساتھ مزے سے بیٹھا ہوا ہوں۔ خواب دیکھتا ہوں کہ ایک ختم نہ ہونے والے راستے پر چل رہا ہوں۔ موت کی نیرنگیوں کے درمیان چلا جارہا ہوں۔ بہشت کی لپٹ آتی ہے، بہشت کی لپٹ مجھے پکارتی ہے۔ میں گرتا پڑتا آگے بڑھتا ہوں اورا پنی بیداری کو برقرار رکھتا ہوں، عظیم، حسین بیداری جس میں نجات کا آہنگ ہے، جو اس شہر، اس جہان میں میرے جسم، میری روح، میرے عمل کے تمام ممکنات سے ارفع ہے۔ اور آج رات اس تنگ زنداں میں، اپنے گوشت پوست میں، خواب میں، یہ بات مجھ کو ڈراتی نہیں کہ کل مجھ کو میدان شہر میں پھانسی دے دی جائے گی۔ یہ تصور تک مجھے نہیں ڈراتا کہ مجھ کو الٹی پھانسی سے بھی بدتر اذیتیں دی جارہی ہیں۔ 

    لیکن اس سب سے ہزار گنا بدسر نوشت میرا انتظار کر رہی ہے۔ 

    پھانسی کی صبح
    گھڑیال کی آواز سے میری آنکھ کھلتی ہے۔ کچھ دیر نیند اور بیداری کے درمیان جھولتا رہتا ہوں۔ کہاں ہوں؟ 

    میں دیکھتا ہوں کہ مجھے گھر لے آیا گیا ہے۔ میں اپنے مکان میں، اپنی خواب گاہ میں ہوں۔ حیران و پریشان واش بیسن کے پاس آتا ہوں۔ آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں۔ منھ پر پانی ڈالتا ہوں۔ برش سے چہرے پر صابن ملتا ہوں۔ سیفٹی ریزر میں نیا بلیڈ لگاتا ہوں۔ خون کے تھالوں کے درمیان چمکتی ہوئی اپنی پتلیوں کو گھور گھور کر دیکھتا ہوں۔ 

    کچن سے چائے کی بھینی مہک آتی ہے۔ میری بیوی کے گنگنانے کی آواز آتی ہے۔ پھانسی، موت کچھ نہیں۔ 

    زندہ رہنا ہے۔ 

    (فارسی عنوان، ’’خواب‘‘)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے