Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرداروں میں بٹی ہوئی زندگی

محمد امین الدین

کرداروں میں بٹی ہوئی زندگی

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    تہذیب کے انتقال کے بعد بوڑھے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔ جو وہ اونچی چھتوں، وسیع و عریض کمروں، لمبے دالانوں، پر پیچ سیڑھیوں، گھومتی راہداریوں والی قدیم حویلی میں رہتا۔ بچوں سے اس کا رشتہ تو بہت پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا۔ جب چھوٹی بہو نے اس کی یادداشتوں اور غزلوں سے بھرے کاغذوں کو یہ کہہ کر جلادیا کہ اب اس گھر میں کاٹھ کباڑ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تب اسے پتا چلا کہ لفظ کی حرمت ختم ہوگئی۔ اب لکھنے لکھانے، پڑھنے پڑھانے کا دور ختم ہوا۔ زندگی نے نیا جنم لیا۔ بطن جدید سے پیدا ہونے والے نئے بچے کو کمپیوٹر چاہیے۔ بس انگلیاں چلاؤ۔ انٹرکرو سب فیڈ ہوجاتا ہے۔ جب چاہا سائٹ کھولی، پڑھ لیا۔ لکھا ہوا لفظ، اس کی ترتیب یا گرامر غلط ہے، کمپیوٹر خود بتادے گا۔ کسی نے کہا یہ پیپر لیس دور ہے۔ یعنی بغیر کاغذ کی دنیا۔ بوڑھے نے جواب دیا۔

    ’’ہماری کتابوں کو کیڑا کھاتا تو ہم دوا چھڑ ک کر اسے ماردیتے تھے۔ تم تو اچانک آجانے والے وائرس کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے جو تمہاری پوری کی پوری فائلیں اڑاسکتا ہے‘‘۔

    مگر بوڑھے کی بک بک کون سنتا ہے۔ چلو مانا پیپر لیس دور ہے۔ مگر پرانی یادوں کو بھلا کون مٹاتا ہے، اور پھر ہم جیسے بوڑھوں کے پاس یادوں کے سوا ہوتا بھی کیا ہے۔ بوڑھے نے کلیجے میں اترتی ہوئی ٹیس کے ساتھ کہا تھا:

    ’’بہو یہ کاٹھ کباڑ نہیں۔ میری زندگی کا سرمایہ تھا‘‘۔

    مگر بہو نے تو بس آگ لگائی، گردن کو جھٹکے سے موڑا اور یہ جا وہ جا۔ تب بوڑھا اس کمرے میں آبسا جو برسوں پہلے اس نے اپنے ساتھ ہجرت کرکے آنے والے ایک بے سہارا کہانی کار اور شاعر دوست کو رہنے کے لیے دیا تھا۔ اسے یاد تھا کہ اس کا دوست یہاں آنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر یہ اس کے بغیر ادھورا تھا۔ اس کی تمام تر شہرت میں اسی کے تخیل اور قلم کا ہاتھ تھا۔ اس کے قلم کے سہارے کے بغیر اس کا دو قدم چلنا محال تھا۔ پیسے کی تو کبھی کوئی کمی تھی ہی نہیں۔ یہاں آئے تو حویلی بھی ملی اور دوسرے کئی مکان بھی۔ دوسرے بوڑھے کو تو صرف ایک کمرا چاہیے تھا۔ اور اس نے وہی لیا۔ مگر اب وہ کمرا برسوں پہلے اس کے انتقال کے بعد سے خالی پڑا ہوا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ کئی روز تک بند کمرے میں سڑتی ہوئی بوڑھے کی لاش کو دفنا تو دیا، مگر آج بھی کمرے میں اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ لوگوں نے پہلے بوڑھے کو یہاں رہنے سے روکا، مگر وہ ڈر کو تو گلی کے پچھواڑے ہی چھوڑ آیا تھا۔

    دیر سے کھڑکی میں کھڑے ہوئے تیز بارش کا مزہ لوٹنے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ آیا۔ اسی اثناء میں کہیں قریب ہی گولی چلنے کی آواز نے اسے چونکادیا۔ بوڑھا اچھل پڑا۔ آواز اوپر سے ہی آئی تھی۔ وہ دروازے کی طرف دوڑا اور پھر بائیں ہاتھ کی طرف اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں سے بوڑھی ناتواں ہڈیوں کے باوجود تیزی سے پھلانگتا ہوا دروازے پر جا پہنچا جو کھلا ہوا تھا۔ اندر جھانک کر دیکھا۔ برآمدے میں کھلنے والے کمرے کے دروازے میں سے افراتفری نظر آرہی تھی۔ وہ جھجھکتا ہوا اندر چلا گیا۔ اندر قدم رکھا تو ماضی پلٹ آیا۔ برآمدے میں اس کی تہذیب اس کی ماں کے بالوں میں کنگھی کررہی تھی۔ وہ دفتر سے گھر لوٹا تھا۔ بلکہ روز ہی لوٹتا تھا، اس نے ماضی کو سر کی جنبش سے جھٹک دیا۔ اور حال میں لوٹ آیا۔ برآمدہ خالی تھا، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے میں جا پہنچا۔

    ’’کیا ہوا، خیریت تو ہے، گولی کی آواز آئی تھی؟‘‘

    کمرے میں موجود ایک شخص نے کہا:

    ’’باہر سڑک پر پولیس مقابلہ ہورہا تھا۔ ایک گولی شیشہ توڑ کر میری بیٹی کا کاندھا چھیلتی ہوئی گزر گئی ہے۔ بس معمولی سی خراش ہے‘‘۔

    اتنی دیر میں کمرے میں موجود تمام لوگ غیر ارادی طورپر دائیں بائیں سمٹ گئے تا کہ آنے والوں کو جگہ مل سکے۔ لوگوں کے ادھر ادھر ہونے سے یہ ہوا کہ بیڈ پر پڑی ہوئی نوجوان لڑکی کو دیکھنا آسان ہوگیا۔ نوجوان لڑکی کی چھوٹی بہن بیڈ پر بیٹھ کر کاندھے کی ڈریسنگ کررہی تھی۔

    ’’خدا کا شکر ہے سب خیریت ہے۔ اچھا میں چلتا ہوں‘‘۔

    یہ کہتے ہوئے بوڑھا واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ جہاں دوسرا بوڑھا بیٹھا کہانی لکھنے میں مصروف تھا۔ لکھتے لکھتے اس کا قلم بار بار رک جاتا۔ اور پھر وہ خالی نظروں سے دیواروں کو دیکھنے لگتا۔ کسی ایک نقطے پر آنکھیں گاڑھے۔ کبھی نظر سامنے پڑی ہوئی خالی کرسی پر گڑھ جاتی تو بس گڑھ جاتی۔ کبھی اس سے ذرا دور دیوار میں جڑے ہوئے دروازے کے ٹوٹے کونے کو اپنا ہدف بنالیتی تو بس بنالیتی۔ اور کبھی بے دھیانی میں قلم کاغذ کے کونے پر مسلسل لکیریں کھینچتا تو بس کھینچتا چلا جاتا۔ اس دوران میں پہلے بوڑھے کا کمرے میں آنے اور سامنے کی کرسی کھینچ کر بیٹھنے تک کی اسے خبر نہ تھی۔ پہلے بوڑھے نے بھی اسے یہ باور کروانے کی کوشش نہیں کی کہ کمرے میں وہ بھی موجود ہے۔ بلکہ وہ خود کسی خیال میں غرقاب تھا۔ ایسا تو اس وقت ہوا تھا جب اس نے بستر پر پڑی ہوئی لڑکی کو دیکھا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ اس سے پہلے اگر کبھی اس لڑکی سے سامنا بھی ہوا تھا تو وہ سر سے پاؤں تک سیاہ عبایا اور آنکھوں پر سیاہ چشمے میں ملبوس ہوتی۔ لہذا چہرہ دیکھنے کا سوال ہی نہ تھا۔

    بوڑھے نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر لڑکی کے چہرے کو اپنی آنکھوں میں اتارنے کی کوشش کی۔ مگر اس کا چہرہ کسی اور چہرے میں مدغم ہونے لگتا، کبھی کوئی پرچھائیں لڑکی کے چہرے کو دھندلا دیتی اور پھر ایک نیا چہرہ بن جاتا۔ مگر یہ نیا چہرہ تو اس کے حواس پر چھایا ہوا تھا۔ اس چہرے کے نازک خطوط وہ بھلا کیسے بھول سکتا تھا۔ بات کرتے کرتے گالوں پر پڑنے والے بھنور، بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کے گرد تھرتھراتی پلکیں، ہمہ وقت مسکراہٹ بکھیرتے ہونٹ، دور تک گندھے ہوئے بال۔ یہ سب ایک ایک کرکے اس کے حواس پر چھانے لگے۔ تب اسے یاد آیا۔ یہ سب کچھ تو اسے بہت پہلے میسر تھا۔ اور پھر ایک زور دار دھماکے سے وہ اچھل پڑا۔ اسے یاد آگیا لڑکی اس کی مرحوم بیوی تہذیب کی ہم شکل تھی، اپنے تمام نقوش کے ساتھ ہم شکل۔ اس کے اس طرح اچھلنے پر سامنے بیٹھا ہوا بوڑھا چونکا۔

    ’’کیا کرتے ہو، سب کچھ بھلادیا‘‘۔

    ’’مگر مجھے جو یاد آیا ہے وہ تمہاری بھول سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔

    ’’تم خود کبھی اتنے قیمتی نہیں تھے۔ اگر قیمتی ہوتے تو اپنے گھر میں ہوتے۔ بھلا تمہاری یاد کیسے قیمتی ہوسکتی ہے۔ پھر بھی ایسا کیا ہے جو تمہیں یاد آگیا؟‘‘

    ’’جانتے ہو اوپر جو لڑکی ابھی کچھ دیر پہلے گولی کا نشانہ بنی ہے‘‘۔

    ’’کون لڑکی اور کون سی گولی؟‘‘

    ’’تمہیں کچھ معلوم نہیں۔ تمہارے اردگرد کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں، کبھی تم نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔ میں کب آتا ہوں۔ کب چلا جاتا ہوں۔ تمہیں معلوم نہیں ہوتا۔ تم اس گھر میں عضو معطل کی طرح ہو‘‘۔

    ’’مجھے کہانیاں لکھنے کے لیے اپنے اردگرد کی بے کار خرافات کو نظرانداز کرنا پڑتا ہے‘‘۔

    تم چاہو تواس بے کار خرافات سے مزید کہانیوں کا مواد اکھٹا کرسکتے ہو۔ اور جیسا کہ تم کرتے بھی ہو۔ بہرحال! میں جو تمہیں بتانا چاہتا ہوں، سنو گے توحیران رہ جاؤ گے‘‘۔

    ’’تمہیں جو کچھ کہنا ہے کہہ کیوں نہیں دیتے‘‘۔

    بوڑھے نے جھنجھلاہٹ سے کہا، تو پہلے بوڑھے نے بد مزہ سا منہ بنا کر کہا:

    ’’تم نے میری ساری حیرانی کو مٹی کردیا۔ جانتے ہو ابھی جو لڑکی اوپر زخمی ہوئی ہے، وہ میری مرحوم بیوی کی ہم شکل ہے۔ اگر عمروں کا فرق نہ ہو تو شاید میں جڑواں کہہ سکتا تھا‘‘۔

    ’’ہوسکتا ہے کہ اسے تمہاری مرحوم بیوی نے جنم دیا ہو اور پالا کسی اور نے ہو اور تمہیں اس کی کچھ خبر بھی نہ ہو‘‘۔

    ’’کیا بکواس کرتے ہو۔ کہانی کار ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تم جب اور جہاں چاہو جھوٹی کہانیاں گھڑنا شروع کردو‘‘۔

    یہ کہتے ہوئے پہلا بوڑھا اٹھا اور کھڑکی کے سامنے تنی ہوئی رسی پر سے دھلے ہوئے کپڑے اتارنے لگا۔ جو کہ دھوپ سے اب خشک ہوچکے تھے۔ کپڑے اتارنے سے کمرے میں روشنی بڑھ گئی۔ دوسرے بوڑھے نے سر اٹھائے بغیر کہا۔

    ’’کھڑکیاں روشنی اور ہوا کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ تم انہیں کپڑے سکھانے کے لیے استعمال کرتے ہو اور ویسے بھی تمہاری زندگی میں کچھ بھی تو ایسا نہیں جو درست ہو، جس کام کے لیے تمہیں ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے۔ تم وہ نہیں کرتے،کچھ اور کرتے ہو۔ تمہارا ایک بیٹا لاکھوں روپیہ تمہارا اور لاکھوں ہی حکومت کا خرچ کرکے ڈاکٹر بنا اور بعد میں وہ سول سروس میں پاور فل زندگی کی تلاش میں چلا گیا۔ تمہارا دوسرا بیٹا اپنی وردی پر بہت سارے فوجی ستارے سجا کر عوامی نمائندگی کے ایک ادارے میں سربراہ کی حیثیت سے بیٹھتا ہے اور تم خود بھی بہت عرصے تک مرکزی مشاعرہ کمیٹی کے رکن رہ چکے ہو۔ جبکہ اشعار تم میرے کہے ہوئے سناتے ہو۔ حتیٰ کہ ایک بار میں نے بحر سے خارج غزل تمہیں دی تھی۔ تم نے وہ بھی پڑھ ڈالی۔ مجھے افسوس تمہارے سنانے پر نہیں ہوا ،بلکہ اس بات پر ہوا کہ تم تب بھی داد سمیٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں کوئی بڑا غلطی کرے تو وہ بھی حسن ظن قرار پاتی ہے‘‘۔

    یہ سب بوڑھے نے سنی ان سنی کردی۔ دوسرا بوڑھا لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ سامنے پڑی ہوئی خالی کرسی کی پشت کی سیدھ میں دروازے کا کونا اب بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ بوڑھے کا قلم بڑی تیزی اور روانی سے رواں دواں تھا۔ خیالات بڑی تیزی سے کہانی کی شکل اختیار کرنے لگے۔ کہانی میں واحد متکلم راوی کی مرحوم بیوی کی ہم شکل لڑکی زخمی حالت میں بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ بوڑھا کہانی کار اسے واحد متکلم کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے مختلف کرداروں اور واقعات کی مدد سے پھیلانے لگا۔ تب اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ کہانی دھیرے دھیرے اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی تھی۔ پہلا بوڑھا کمرے میں نہیں تھا۔ وہ بغیر بتائے کہیں چلا گیا تھا۔ ایسا وہ اکثر کیا کرتا۔ بات کرتے کرتے ادھورے سوال اورادھورے جواب فضا میں معلق چھوڑ جاتا جنہیں بیٹھا ہوا بوڑھا کبھی مکمل کردیتا اور کبھی بکھیردیتا۔

    دوسرے دن پھر صبح سے ہی ہلکی ہلکی پھوار سے شروع ہونے والی بارش نے گلی کو جل تھل کردیا ۔ کمرے کی واحد کھڑکی پر شیشہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے شور نے بوڑھے کو بیدار کردیا۔ اس نے گلی میں جھانکنے کے لیے دروازہ کھولا تو پہلا بوڑھا اندر آدھمکا۔

    ’’تم کہاں گئے تھے؟‘‘

    ’’میں تمہارے لیے کچھ لینے گیا تھا‘‘۔

    ’’کیا؟‘‘

    دوسرے بوڑھے نے متجسس لہجے میں سوال کیا۔ بوڑھے نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ جس میں رول کیا ہوا رسالہ تھا۔ بوڑھے نے رسالہ لیتے ہوئے پوچھا:

    ’’کیا ہے اس میں؟

    بوڑھے نے رسالہ جھپٹ کر اندر سے ایک مڑا ہوا صفحہ کھول دیا۔ صفحہ پر کسی ماڈل کی تصویریں تھیں۔ بوڑھا بولا:

    ’’اسے پہچانو‘‘۔

    اس سے پہلے کہ دوسرا بوڑھا کچھ پوچھتا۔ پہلے بوڑھے نے خود ہی جواب دیا:

    ’’یہی وہ لڑکی ہے جو ہمارے اوپر والے مکان میں رہتی ہے۔ چھپی ہوئی۔۔۔ لپٹی ہوئی۔۔۔ سمٹی ہوئی۔۔۔ حجاب۔۔۔ در حجاب۔۔۔ در حجاب۔۔۔‘‘

    بوڑھے نے ہاتھ لہراتے ہوئے مزید کہا:

    ’’مگر اس رسالے میں۔۔۔ ایک سراپا بے نیاز۔۔۔ لباس سے۔۔۔ حیا سے۔۔۔ شرم سے۔۔۔‘‘

    ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ لڑکی وہی ہے جسے تم نے کل کمرے میں دیکھا تھا؟‘‘

    ’’سوفیصد بلکہ دو سو فیصد‘‘

    ’’مگر کل تو تم نے کہا تھا کہ وہ تمہاری مرحوم بیوی کی ہم شکل ہے؟‘‘

    ’’وہ میں نے جھوٹ بولا تھا، میرے ذہن میں کہانی کا تانا بانا کچھ دوسرا تھا۔ مگر اب دیکھو یہ کچھ اور کہہ رہی ہے۔ یعنی زندگی کی بے رحم سچائی کے ساتھ ایک نیا موڑ لے رہی ہے‘‘۔

    ’’تمہیں چائے کی طلب ہورہی ہوگی، مجھے تو نہیں ہے، اگر تم بناؤ گے تومیں بھی پی لوں گا‘‘۔

    ’’تم بہت کمینے ہو۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ چائے کی طلب ہے۔ میری قسمت پھوٹ گئی جو میں یہاں تمہارے پاس آکر رہنے لگا ہوں۔ بلکہ اس وقت پھوٹی جب تمہیں یہاں لا کر بسایا‘‘

    ’’اس کے لیے میں تمہارا شکریہ بہت پہلے ادا کرچکا ہوں، بلکہ لکھ کر دے چکا ہوں۔ مگر افسوس وہ سارے کاغذ تو تمہاری بہو نے جلا ڈالے ،اور ویسے بھی جتنا کچھ میں نے تمہیں غزلوں کی صورت میں دیا ہے، وہ تمہارا احسان چکانے کے لیے بہت ہے‘‘

    ’’چلو اس بات کو چھوڑو۔ اس بات پر دھیان دو جو میں تمہیں اب بتار ہا ہوں‘‘۔

    ’’مگر میں تو کہانی میں ہم شکل کا کردار ڈال چکا ہوں‘‘۔

    ’’کردار کا کیا ہے، اسے تبدیل کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو آج کا اخبار پڑھ لو۔ دیکھو کتنے لوگوں نے کل صبح کی سرخیوں اور آج کی سرخیوں کے بیچ کس قدرجلدی اپنا کردار تبدیل کیا ہے۔ سیاسی طورپر، سماجی طور پر، حکومتی سطح پر اور غیر حکومتی سطح پر، کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے کہ کردار ایسے مقام پر آجاتا ہے جہاں سے یوٹرن نہیں لیا جاسکتا۔ ایسا کرنا اصولوں کے خلاف ہوتا ہے۔ مگر وہاں سے بھی یوٹرن نہ صرف لیا جاتا ہے، بلکہ نظریہ ضرورت جیسی نئی اصطلاحیں قائم کردی جاتی ہیں۔ لہذا اب کہانی ہم شکل کی نہیں دہرے کردار کی چلے گی۔ یہاں کچھ وہاں کچھ۔ گھر میں کچھ باہر کچھ‘‘۔

    ’’ان لوگوں کے کچھ گھریلو مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ کوئی مجبوری ہوسکتی ہے۔ تمہیں پہلے ان کے گھر میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ آخر ایک پردہ دار لڑکی کیوں کر ایسی خرافات والی زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘‘۔

    ’’ٹھیک ہے جیسا تم کہتے ہو‘‘۔

    دوسرا بوڑھا لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ اس نے میز پر دھری کہانی کے آخری کے دو صفحات پھاڑ دیئے۔ یوں بھی ہم شکل سے زیادہ دہرے کردار کی لڑکی میں جان تھی۔ میز کے دوسری طرف والی کرسی خالی تھی۔ کمرے میں اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ نہ دوسرا بوڑھا اور نہ ہم کلامی۔ ایک کمرے کے مکان میں جس کی کوئی دوسری منزل نہیں۔ بوڑھا بیٹھا کہانی لکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایک دوہرے کردار کی لڑکی کی کہانی جس کی نیم برہنہ تصویریں میگزین کی زینت بنتی ہیں، اور جو محلے میں سے گزرتے ہوئے عبایاپہنا کرتی ہے۔ جس کے چہرے کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا، حتیٰ کہ دوسرے بوڑھے نے بھی نہیں۔ مگر دوسرا تو کوئی بوڑھا نہیں ہے۔ اسے تو مرے ہوئے کئی برس ہوگئے ہیں۔ پہلا بوڑھا ہی اصل میں دوسرا بوڑھا ہے، جس کی کوئی کہانی کسی رسالے میں نہیں چھپی۔ وہ تو ایک شاعر کی حیثیت سے مشہور ہے۔ مگر اس کے تمام اشعار اسی دوسرے بوڑھے کے کہے ہوئے ہیں۔ اسے شعر کہنے اور کہانی لکھنے، دونوں میں مہارت تھی۔ مگر اسے شاعر کہلوانا پسند نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی تمام شاعری اس امیر بوڑھے کو بیچ کر زندگی کی سانسیں خریدی تھیں۔ یہاں بھی اور ہجرت سے پہلے بھی۔ مگر وہ میز اور اس پر دھرے کاغذ، کونسی میز! یہاں تو کوئی میز نہیں، بس ایک دریچہ نما کھڑکی ہے۔ جس کے دوسری طرف پوری ایک دنیا آباد ہے۔ ایک اکیلے بے خانماں برباد بوڑھے کے لیے، جس نے کبھی کوئی کہانی لکھی اور نہ شعر کہا۔

    ہاں ! مگر دوسرے بوڑھے نے ۔۔۔

    (۲۰۰۳ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے