Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہر

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    اس افسانے میں کہر کو مجسم کرنے کوشش کی گئی ہے۔ انسانی مفاد پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی اور کثافت نے پورے شہر کو دھندلا کر دیا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ دھند قدرتی اور وقتی ہے، چھٹ ہی جائے گی۔ لیکن ختم ہونے کے بجائے بڑھنے کے ہی آثار نظر آتے ہیں۔ کہر اس افسانے میں جبر کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔

    اسے کسی نے نہیں بلایا۔ وہ پھر بھی آ گئی۔ دروازہ کھلتے ہی اندر گھسنے لگی۔

    دروازہ کھلنے سے بھی پہلے، دروازے میں چابی کے سوراخ سے دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ وہ گھر کے باہر والے برآمدے میں ٹھہری ہوئی ہے۔ رکی ہوئی ہے اور انتظار کر رہی ہے۔ انتظار کر رہی ہے کہ دروازہ کھلے اور وہ اندر آ جائے، گھر میں بھر جائے۔ لگ رہا تھا کہ وہ تیار ہوکر آئی ہے اور تازہ دم ہے۔ دروازے کے اس طرف، کمروں کے اندر جو بچی کھچی رات، ملگجی اور اڑتی اڑتی، بسی ہوئی ہے، اس کے مقابلے میں چاق و چوبند ہے۔ وہ تر و تازہ ہے، پھیل رہی ہے۔ جھاگوں بھری۔ سمندروں نہائی ہوئی۔ اجلی، ٹھنڈی، نرم نرم چھو کر گزرتی ہوئی۔ جہاں سے چھو جائے، پھریری سی چھوڑتی ہوئی۔ گدگدی کی طرح۔ روئی کے گالوں جیسی۔ کبوتر کے سینے کے ہلکے پروں جیسی۔ پانی کے ہاتھوں جیسی کہ جہاں لگ جائے، گیلا کر ڈالے۔

    کسی کو اس کے آنے کی توقع بھی نہیں تھی۔

    بھلا یہاں کہاں۔۔۔ ہمارے لیے تو یہ سنی سنائی باتیں تھیں۔ میں روز کے معمول کے مطابق دروازہ کھولنے جا رہا تھا۔ دروازے کی چٹخنی کھولتا ہوں، پھر کنڈے کے ساتھ بندھی چھوٹی سی زنجیر، پھر تالا۔۔۔ یہ سب اس لیے کہ رات میں کوئی بن بلایا نہ آ جائے۔ ساری احتیاط کے باوجود، وہ پھر بھی آن ٹپکی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گھر میں گھس پڑے، سارے کمروں میں سما جائے۔۔۔ میں نے دروازہ کھولا کہ چوکیدار کو صبح کی چائے دے دوں اور اخبار اٹھا لوں جو گول بناکر، ربر بینڈ چڑھا کر اخبار والا گیٹ کے اندر پھینک جاتا ہے۔ اخبار کے دھپ سے گرنے کی آواز آتی ہے اور اخبار والے کے اسکوٹر کا ہارن اس آواز کا مطلب سمجھا دیتا ہے۔ آواز سنتے ہی میں دروازہ کھول کر باہر آتا ہوں۔ نہیں، باہر بھی نہیں آتا۔ دروازے کی جھری میں سے جھانک کر دیکھتا ہوں۔ میں ایسے دیکھتا ہوں کہ خود دکھائی نہ دوں۔ میں اس وقت رات کے کپڑوں میں ہوتا ہوں۔ اخبار والے نے اجرک کے اندر چمڑے والی جیکٹ پہنی ہوئی ہے اور چہرہ، سر ڈھانپنے کے لیے وہ گول ٹوپی جسے ہم بچپن میں بندر ٹوپی کہتے تھے۔ وہ لگتا بھی ایسا ہی تھا۔

    میں نے کوئی آواز نہیں سنی اس دن۔ جھانک کر دیکھا تو دروازے کے باہر کچھ بھی نہیں تھا۔ صبح بھی نہیں۔ بس وہ منتظر کھڑی تھی۔۔۔ میں اس کو دیکھ کر یقین بھی نہیں کر سکا۔ وہ یہاں، اس شہر میں، میرے گھر کے باہر؟ مگر میں جاؤں گا کیسے؟ دفتر، بچوں کا اسکول۔۔۔ اور گاڑی جواب نہ دے جائے، پرانی ہے اور چلتے چلتے خراب ہو بھی سکتی ہے۔ دروازہ کھلا بھی نہ تھا کہ وہ خود آگے بڑھ آئی۔ اس نے جیسے میرا استقبال کیا۔ اس نے مجھے چھوا۔ میرے چہرے پر نرم بوچھار پڑی۔ وہ پھیلنے لگی۔ میں نے دروازہ فوراً بند کر دیا اور تالے کی چین چڑھا دی۔ میں نے لاؤنج پار کیا۔۔۔ ایک ایک قدم کے بھاری احساس کے ساتھ۔۔۔ اور کھانے کی میز کے سامنے پہنچ کر زور سے کہا، ’’باہر کہر ہے!‘‘

    یقین کسی نے بھی نہیں کیا۔ بچے سیریل کے پیالے اور چاکولیٹ کے مگ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور دھبڑ دھبڑ بھاگتے ہوئے کھڑکیوں پر آ گئے۔ وہ اسے دیکھ رہے تھے، شور مچا رہے تھے، ہاتھ ہلا رہے تھے۔ انہوں نے پہلے اسے اتنےآس پاس اس طرح دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ وہ بھی جیسے آگے بڑھ کر ان سے گلے ملنے اور انہیں اپنے اندر سمیٹ لینے اور ڈھانپنے کے لیے تیار تھی۔ سب سے چھوٹی بچی نے تو بڑھ کر دروازہ بھی کھول لیا ہوتا اگر میں نے اسے ڈانٹ کر روکا نہ ہوتا۔

    ’’یہ کیا ہے؟ It’s so cool !‘‘ وہ پوچھ رہی تھی اور خوشی کے مارے اچھل پڑ رہی تھی۔ میں نے اسے گھڑک دیا تو وہ منھ بسورنے لگی۔ کھڑکی دروازوں میں کہر ٹنگی ہوئی تھی، اندر جھانک رہی تھی، ہمیں دیکھ رہی تھی۔ یہ میری برداشت سے باہر تھا۔ ہمیں جانا ہی ہوگا، میں نے فیصلہ کیا۔ میں ان کو بتانے کے لیے مڑا۔ وہ سب حیرت اور توقع سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ یہ کیا ہے اور ہمیں ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ جیسےمیں ان کے سب سوالوں کا جواب فراہم کر دوں گا۔ یقین کے ساتھ تو مجھے بھی نہیں معلوم، یہ اندازہ ان کو نہیں ہونا چاہیے۔ ان کو شک تو ہو جائےگا، مگر اس سے کوئی مدد نہیں ملتی۔

    ’’یہ کہر ہے۔ ذرا دیر میں صاف ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ اسکول سے چھٹی کر لی جائے!‘‘ میں نے اپنی آواز کو فیصلہ کن بناتے ہوئے ان سے کہا۔ بچوں کے منھ لٹک گئے۔

    ’’تھوڑی دیر اور دیکھ لیجیے۔‘‘ میری بیوی نے کہا، ’’ایسا نہ ہو ہم گھر سے نکلیں اور کوئی گڑبڑ ہو جائے!‘‘ وہ ذرا ذراسی بات پر سہمنے لگی تھی۔

    ’’گڑبڑ؟ کیسی گڑبڑ؟‘‘ میں نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔ مجھے اس کو تو ضرور یقین دلانا چاہیے۔ چاہے اپنے آپ کو باور نہ کرا سکوں۔

    ’’راستے میں پرابلم ہو سکتی ہے۔ گاڑی بھی بھروسے کے قابل نہیں رہی۔ بچوں کا ساتھ ہے، اکیلے ہم کیسے سہہ پائیں گے؟‘‘ ایک ہی سانس میں اس نے وہ تمام باتیں گنوادیں جو میں اپنے ذہن سے محو کیے ہوئے تھا۔ میں ان چیزوں کو اب ٹال نہیں سکتا۔ مجھے ان کا سامنا کرنا تھا اور وہ کہر تھی کہ امڈی آ رہی تھی۔ میری بیوی کھڑکی میں سےاسے دیکھ رہی تھی اور کہہ رہی تھی۔۔۔

    اس نے کہا، میں نہیں مانا۔ میں نے کہا، اس نے مان کے نہیں دیا۔ ہماری معمول کی صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔ کہر ہو نہ ہو، اب تو آگے جانا ہی تھا۔ سمیٹنے کے لیے سارا دن پڑا ہوا تھا۔ مجے بہت کام تھے۔ کون سے کام ضروری ہیں، میں فیصلہ نہیں کرپایا تھا۔ ایک ایک کرکے مجھے سب دیکھنے پڑیں گے، جو سارے شہر میں بکھرے ہوئے ہیں۔ فلاں جگہ یہ کام، دوسری جگہ وہ کام۔۔۔ کہر کے لیے کیسے رک سکتا ہوں؟ کہر نےہمیں الوداع نہیں کہا۔ وہ ہمیں رخصت کرنے گاڑی تک آئی اور گاڑی کے اندر داخل ہونے لگی۔ جلدی جلدی دروازے بند کر کے اور شیشے چڑھا کر ہم نے اسے روکا، باہر دھکیلا۔ وہ ہماری مہمان تھی یا ہم اس کے؟ وہ چاروں طرف تھی۔ میرے سانس سے گاڑی کے ونڈ اسکرین پر بھاپ سی پڑتی اور اتنی جگہ شیشے کا گدلا پن ہلکا پڑ جاتا۔ ذرا سی دیر میں کہر اسے پھر برابر کر دیتی۔

    جیب سے رومال نکال کر شیشے کا ایک حصہ نے میں نے رگڑا۔ ایک مستطیل ٹکڑا صاف ہو گیا اور مجھے دکھائی دینے لگا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ میں نے پہلے پیچھے مڑ کر دیکھنا ضروری سمجھا۔ وہ ہمارے مکان کو گھیرے میں لیے کھڑی تھی۔ مکان سفید ہو رہا تھا۔ جیسے پانی کے بلبلے کے اندر رکھا ہوا ہو۔ ایک لمحے کے لیے میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔۔۔ کیا اس کا انجام یہ ہونا ہے، یہ مکان جو اتنے چاؤ کے ساتھ اپنی ساری جمع پونجی لگا کر اتنے جتن سے بنایا تھا، پانی میں مل کر پانی؟

    چوکیدار گیٹ بند کر رہا ہوگا۔ میں اس کی آواز سن سکتا تھا۔ میں نے آگے کی طرف نظر دوڑائی۔ گاڑی اس طرح آگے بڑھ رہی تھی جیسےاندھوں کی طرح راستہ ٹٹول رہی ہو۔ ہیڈ لائٹس فل آن کر دی تھی تو سڑک کا اتنا سا حصہ نظر آنے لگتا۔ یہ سڑک ہے اور اس کے ساتھ پڑی ہوئی بجری، برابر والے خالی پلاٹ پر اگے ہوئے کیکر، زمین پر گری ان کی بھوری پیلی پھلیاں، ایک طرف آک کے پودوں کا جھنڈ، مٹی، ریت اور ٹوٹی ہوئی اینٹوں کا ڈھیر جس کے ساتھ کسی نے کوڑا بھی پھینک دیا ہے، جنگلی پودوں سے اٹکی ہوئی پلاسٹک کی تھیلیاں۔۔۔ کہر ان میں بھی بھر رہی تھی اور یہ خالی تھیلیاں پھول رہی تھیں۔۔۔ اور پوری صبح جو اپنی آوازوں سے خالی تھی۔ اِدھر اُدھر جو بنگلے بن رہے تھے، سناٹے کا ڈھیر معلوم ہو رہے تھے۔ نہ مزدور کام کر رہے تھے اور نہ مشینوں کے گھر گھرانے کا شور تھا۔ سیمنٹ کی بوریاں ایک جگہ ڈھیر تھیں۔

    کسی اور گاڑی کا ہارن بجا۔ وہ تیز بتیاں تیرتی ہوئی سامنے سے گزر گئیں۔ ہم سمجھ گئے کہ اپنے گھر کے سامنے والی سڑک سے نکل کر خیابان پر آ گئے۔ یہاں اور گاڑیاں بھی تھیں۔ ہارن پر ہارن بج رہے تھے، روشنیاں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے سرک رہی تھیں۔۔۔ گاڑی بھی اسی سست رفتار سے بڑھ رہی تھی اور کہر دبیز ہو رہی تھی۔ گاڑی سے آگے بمشکل دکھائی دے رہا تھا اور اس کہر میں گاڑیاں چل رہی تھیں، شہر جاگ رہا تھا، لوگ اپنے اپنے کاموں پر جا رہے تھے۔

    ’’کراچی میں تو ایک جیسا موسم رہا کرتا ہے۔ یہ کہر کہاں سے آ گئی؟ پہلے تو اس طرح نہیں ہوتا تھا۔۔۔‘‘ میری بیوی آپ ہی آپ کہہ رہی تھی۔

    ’’پہلے کی بات چھوڑو۔ اب موسم بھی بدل گیا ہے اور شہر بھی۔۔۔‘‘ میں نے اس کی بات کا ہلکے انداز میں جواب دینا چاہا۔ شاید اس طرح یہ بات آئی گئی ہو جائے۔

    ’’یہ سمندر سے آئی ہوگی!‘‘ چھوٹی بچی نے پچھلی سیٹ پر سے پکار کر کہا۔ ’’سمندر کی کہر کیا شہر میں آ سکتی ہے؟‘‘

    ہو بھی سکتا ہے، میں نے سوچا۔ مجھے اس کا پتہ نہیں تھا۔ اگر سمندر میں کہر ہو تو اس کو شہر میں آنے سے کون روک سکتا ہے؟ بچی نے شاید میرے خیالات پڑھ لیے تھے، ’’ایسا تو نہیں کہ سمندر میں کوئی تیل والا جہاز ٹوٹ گیا ہو اور اس کا تیل بہہ رہا ہو؟‘‘

    نہیں! ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے اسے تسلی دلانا چاہی۔

    ’’ہو کیوں نہیں سکتا؟ پہلے بھی تو ہوا تھا۔ لوگوں کو پتہ نہیں چلا تھا کیا ہو رہا ہے، لوگ بیمار پڑنے لگے تھے۔۔۔‘‘ وہ اصرار کیے جا رہی تھی۔

    نہیں! یہ نہیں ہوسکتا۔ کوئی جہاز ہوتا اور اس میں خرابی ہوتی تو لوگوں کو ضرور بتایا جاتا۔ میں اسے تسلی دینا ضروری سمجھتا تھا۔

    ’’پہلے بھی تو نہیں بتایا تھا۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ پتہ نہیں میں اس بات کا کیا جواب دیتا۔ جواب میرے پاس تھا بھی نہیں۔ جواب کی جگہ ایک موٹرسائیکل آ گئی۔

    خیابانِ حافظ کے انٹرسیکشن پر جہاں ٹریفک سگنل کام نہیں کر رہا تھا۔۔۔ کام کیا نہیں کر رہا تھا، وہ کھڑا رنگ بدل رہا ہوگا۔ مگر کون دیکھتا ہے۔۔۔؟ گاڑیاں ایک دوسرے کے آگے آ رہی تھیں۔ ذرا سی جگہ بھی نظر آتی تو کوئی نہ کوئی گاڑی آگے آ جاتی۔ گاڑیاں اس طرف سے بھی بڑھ رہی تھیں اور دوسری طرف سے بھی۔ جو رک رہے تھے وہ اس مجبوری سے رک رہے تھے کہ ٹریفک پھنس رہا تھا۔ ایک بس زور زور سے ہارن بجا کر آگے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے آگے دور تک گاڑیوں کی قطار رکی کھڑی تھی۔ بس میں سے ایک آدمی اترا اور بس کو زور زور سے پیٹ کر، گاڑیو ں کو چلنے، رکنے کا اشارہ کرنے لگا۔ گاڑیاں ایک دوسرے کو چھوتی ہوئی، جوں کی رفتار سے آگے گھسٹ رہی تھیں۔ وہ موٹر سائیکل الٹی طرف سے آئی اور پچھلی گاڑی کے بمپر کے ساتھ تنکے بھر جگہ میں داخل ہونے لگی۔ میں نے بریک نہ لگایا ہوتا تو وہ گاڑی سے ٹکڑا جاتی۔

    گاڑی ایک دھچکے کے ساتھ رکی۔ میں نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا۔ موٹر سائیکل پر سوار دونوں آدمی کہر میں بھی صاف نظر آ رہے تھے۔ ان کے سروں پر بندھی ہوئی پگڑی کا رنگ بھی واضح تھا۔ وہ تو ان کی داڑھیوں پر نظر پڑ گئی ورنہ میں نےگالی دے ہی ڈالی تھی، ’’الٹی طرف جا رہے ہو، کچھ خیال تو کرو۔۔۔‘‘ میں نے برا بھلا کہنے کے لیے منھ کھولا۔ مگر چپ ہو گیا۔ انہوں نے بھی جو کہا وہ اسٹارٹ ہونے والی رکی ہوئی گاڑیوں کے شور میں ہوا کے ساتھ بہہ گیا۔ میں بھی جلدی سے آگے بڑھ جانا چاہتا تھا کیوں کہ آگے گزری چوک کی طرف کہر ہلکی لگ رہی تھی۔ مسجد اور اس کے ساتھ بازار ادھورے جھلکنے لگے تھے۔ دائیں طرف سٹی گورنمنٹ کا ٹرک وہ کوڑا سمیٹ رہا تھا جو لوگوں نے ڈمپر کے باہر پھینک دیا تھا۔ نیلے یونی فارم میں لڑکیاں اسکول جا رہی تھیں۔ سڑک کے ساتھ تغاری اور کدال پھاؤڑے سنبھالے مزدور روز کی اجرت کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ دن چڑھ رہا تھا۔

    کہر کم ہونے لگی، جب ہم گزری چوک سے سب میرین چورنگی کی طرف آئے، جہاں پرانی جنگی آبدوز کا اب صر ف نام رہ گیا ہے، تو آس پاس کی گاڑیاں بھی نظر آنے لگیں اور ان میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی۔ بلکہ فریئر ٹاؤن کی طرف سے مڑے تو میں نے خاص طور پر فلائی اوور کے نیچے رہ جانے والی اس پرانی عمارت کو دیکھا تو اس کی سرخ کھیریل اور پیلے سینڈ اسٹون شہر کے کسی گزرے وقت کا اس کہر میں بھی پتہ دے رہے تھے۔ کینٹ اسٹیشن کے آتے آتے کہر بہت کم ہوگئی تھی اور ٹریفک کے ہجوم میں، اسٹیشن کے احاطے کے اندر کھڑا ہوا وہ پرانا دھوئیں والا انجن بھی دکھائی دے رہا تھا جو اب چلنے کے لائق نہیں رہا تھا اور پٹری کے اس حصے پر کھڑا کر دیا گیا تھا جو کہیں جاتا نہیں تھا۔۔۔ اس کی پرانی چمنی میں اٹکا ہوا کہر کا ٹکڑا کلغی معلوم ہو رہا تھا اور ہوا کے ساتھ لہرا رہا تھا۔

    پھر یک بیک وہ پلٹ آئی۔ جاتے جاتے رک گئی اور دم بہ دم گاڑھی ہونے لگی۔ وہ ہر طرف سے امڈ رہی تھی اور دھواں دھواں، دل کے دل پھیلتے جا رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے تو میں خائف ہو گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈیڈ اینڈ پر کھڑے ہوئے اس انجن کی چمنی سے یہ دھواں نکلنے لگا جو سارے شہر کو دھندلائے جا رہا ہے۔ یا کوئی دیوزاد ہے جو منھ میں سانس بھر کر شہر کے اوپر چھوڑ رہا ہے۔۔۔ مگر اس میں بدبو نہیں تھی، یہ نرم تھی۔ اور اس میں موسلا دھار بارش سے پہلے کا ترشح تھا۔ تیز ہوا کے ساتھ پلٹتا ہوا پانی۔۔۔ میری عینک کے شیشے بھی دھندلا جاتے اور ذرا ذرا دیر بعد ان کو صاف کرنا پڑتا۔

    ’’یہ واپس کیسے آ گئی؟‘‘ میں نے بلند آواز میں سوچا۔

    ’’واپس کہاں آئی؟ یہ گئی کب تھی؟ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ کیا ہوگیا ہے؟‘‘ میری بیوی نے زور دے کر کہا۔ مجھے لگا کہ دو گاڑیاں ہیں جو کہر میں چلتے چلتے ایک دوسرے کی ہیڈلائٹس کے دائروں کو کاٹ رہی ہیں۔ مگر دو گاڑیاں نہیں، ایک ہی گاڑی تھی۔۔۔ جس میں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم ایک ایک انچ کرکے آگے بڑھ رہے تھے، اس لیے کہ ہمیں بچوں کو اسکول چھوڑنا تھا۔ ذرا دیر میں اسکول کی گھنٹی بج جائےگی اور ہاؤس پریفکٹ ان کو سرخ ستارے کے ذریعے لیٹ مارک کر دےگی۔ ہم رک رک کر واپس پلٹ رہے تھے، اس لیے کہ ہم کو گھر پہنچنا تھا اور گھر جاکر ٹی وی کی خبریں دیکھنی تھیں۔ شاید ان میں بتائیں کہ یہ کہر کیسی ہے۔ ٹی وی موسم کا حال سن کر ہم اندازہ لگا سکیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

    اسکول کی گھنٹی بج چکی ہے اور بچے ابھی تک گاڑی میں ہیں۔ گاڑی اس طرح پھسل رہی ہے جیسے سڑک پر کہر نہیں، برف پڑی ہو۔ زمین سے لے کر آسمان تک بند، ہر چیز سفید ہے۔۔۔ چمکیلی، اجلی، پھسلواں۔۔۔ اور گیلی۔ شہر کے اوپر کسی نے نم خوردہ ٹشو پیپر پھینک دیا ہے، جس کے اندر ہر چیز اپنی واضح ہیئت کے بجائے ایک دھبے میں بدل گئی ہے۔ مگر میں اسے پھر بھی دیکھ سکتا ہوں، یہ وہی روز روز کی دیکھی ہوئی ڈوارٹے بلڈنگ ہے جس کا سامنے والا آرائشی حصہ باقی رہ گیا ہے، اندر سب کچھ ملبے کا ڈھیر بن کر ڈھے گیا ہے۔ اس عمارت کو بھی کسی دن منہدم کر دیا جائےگا لیکن آج کہر میں یہ ایک بدروح کی طرح موجود ہے۔۔۔ میں کانپ جاتا ہوں اور اپنےآپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا سردی کی وجہ سے ہو رہا ہے جو لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ بیوی کے ٹوکنے پر میں چونک جاتا ہوں اور گاڑی کا شیشہ چڑھانے لگتا ہوں۔

    اوپر ہوتے ہوئے شیشے سے کٹ جاتا ہے آرمی بیرکس کی چار دیواری میں لگا ہوا شامیانہ اور اس کے اوپر نصب سرخ کینوپی۔۔۔ اس کی باریک جالی میں اجلی کہر الجھ رہی ہے۔۔۔ گزری کی سڑک پر پھولوں کی دکانوں میں للی، ٹیوب روز، گیندے کے پھول باسی ہیں۔ صبح کے پھول نہیں آئے ہوں گے اور چینی دندان ساز کے مطب پر پینٹ کی ہوئی اشتہاری بتیسی کے مسوڑھے کہر میں کٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سحر اور صبا آنے والی ہیں۔ مسلم، محافظ، اتحاد، بخاری گزر گئیں۔۔۔ میں سڑکیں اس طرح گزرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جیسے مالا کے دانے ایک ایک کر کے گرتے جا رہے ہوں۔

    یہ سڑکیں نہیں ہیں، چینل ہیں۔ میں ان کو بدل بدل کر پتہ لگانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایک پر انگریزی گانے ہیں، ایک پر کھانا پکانے کی ترکیبیں اور ایک پر فلموں کے بارے میں تبصرہ۔ دیکھنے کے لیے کیا ہے؟ جھنجھلا کر میں چینل بدل ڈالتا ہوں۔ ایک دو اسٹیشن جن پر سے ہندوستانی پروگرام آتے تھے، خالی ہونے کا سگنل دے رہے تھے۔ ایک جگہ سے خبریں آ رہی تھیں۔ میں نے رک کر دیکھا۔ وہی سرخیاں! ’’صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب۔ اپوزیشن کے لیڈر ڈیسک بجا بجا کر نعرے لگا رہے ہیں۔ گو، مشرف گو۔ نو ایل ایف او نو۔۔۔ تامل ناڈو میں شادی ہال میں آگ لگ گئی۔ عراق میں خودکش بم کے مزید دھماکے۔۔۔‘‘

    ’’وہی روز روز جیسی خبریں۔ کہر کے بارے میں کچھ کیوں نہیں بتا رہے؟‘‘ میرے برابر سے بیٹی کی آواز آتی ہے تو میں چونک اٹھتا ہوں۔ وہ میرے ہاتھ سے ریموٹ کنٹرول لے کر کارٹون نیٹورک لگا لیتی ہے اور اطمینان سے دیکھنے لگتی ہے۔ ٹی وی کے اندر ٹام بلی، مسلسل جیری چوہے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ میں جیسے اٹھ کر چلنے لگا ہوں، اپنے فریم سے نکل کر پرانے کسی فریم میں واپس کہ جو قدم میں آگے بڑھ رہا ہوں وہ الٹا واپس جا رہا ہے۔

    اس نے ری وائنڈ کا بٹن دبایا تھا۔ میں نے فاسٹ فارورڈ کرنا چاہا۔ ریموٹ کا بٹن جام ہو گیا۔ اب میں اسے بار بار دبا رہا ہوں اور کچھ نہیں ہو رہا۔ وہ کارٹون نیٹ ورک دیکھ رہی ہے اور میں الٹا چلتا ہوا، پیچھے کی طرف جا رہا ہوں۔ میں کہر دیکھنے کے لیے دروازہ کھول رہا ہوں۔ اجلی اور گیلی۔۔۔ بادل کی طرح وہ امڈی چلی آ رہی ہے۔ مجھے اپنے ہاتھ بھی دکھائی نہیں دے رہے جو دروازہ کھولنے کے لیے چٹخنی پر رکے ہوئے ہیں۔ دروازے سے باہر منظر بھی دکھائی نہیں دے رہا جہاں سمندر کے رخ پر نیا ہاؤسنگ پراجیکٹ زور و شور سے بن رہا ہے۔ اس کی جگہ سفید بادل امڈ رہے ہیں۔

    نرم لمس سے کہر میرا چہرہ چھو لیتی ہے۔ میں چونک اٹھتا ہوں۔ دن نکلا جا رہا ہے اور کہر چھٹنے کے آثار نہیں۔

    مأخذ:

    میرے دن گزر رہے ہیں (Pg. 28)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: شہرزاد، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے