aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کوبڑ

MORE BYشوکت حیات

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے کنبے کی دیکھ بھال میں ہی اپنی ساری زندگی گزار دی۔ کنبے کو امریکہ میں نوکری کرنے والا چھوٹا بیٹا زیادہ عزیز ہے۔ وہ بیمار ہے، پھر بھی اماں کے کہنے پر چھوٹے بھائی کو ایئرپورٹ پر الوداع کہنے کے لیے دلی تک کا سفر کرتا ہے۔ اس سفر میں اس کی جیب تک کٹ جاتی ہے۔ پھر ایئرپورٹ پر جب وہ اپنے بھائی کو الوداع کہتا ہے تو ان کے درمیان کچھ ایسی بات چیت ہوتی ہے کہ وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا ہے۔

    اس نے اسٹیشن پہنچنے میں کچھ اور دیر کردی ہوتی تو ٹرین چھوٹ جاتی۔ ا چانک اس کی اماں نے حکم صادر کردیا تھا کہ اسے اپنے چھوٹے بھائی کو دہلی جاکر سی آف کرنا ہوگا۔ وہاں سے آگے اللہ مالک ہے۔ کم سے کم وہاں تک کی خیر و خبر تو اماں کو اس کے ذریعہ مل جائے گی۔

    اس طرح اچانک ہزار میل کا سفر اختیار کرنا پڑے گا؟ یہ بات اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ شادی بیاہ کے ہنگاموں کی وجہ سے وہ دو روز سے مستقل جاگا ہوا تھا۔ آج شاید کچھ سکون سے سونے کا موقع ملتا۔ حالانکہ صبح سویرے اٹھ کر بھائی کو ہوائی اڈّے تک الوداع کہنے کے لئے جانا تھا اوریہی نہیں ، گھر کے سارے افراد کو وہاں تک پہنچانے کا اہتمام کرنا تھا۔ طرہ یہ کہ گاڑیوں کی ہڑتال تھی۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ کس طرح یہ سب بحسنِ خوبی انجام دے گا کہ اماں نے حکم صادر کردیا کہ اسے ابھی شام والی گاڑی پکڑ لینی ہے تاکہ صبح گیارہ بجے تک دہلی پہنچ جائے۔ اس کا بھائی صبح کی فلائٹ سے دہلی کے لئے روانہ ہوگا اور ساڑھے دس گیارہ تک پہنچ جائے گا۔ وہاں وہ بھائی سے ہوائی اڈے پر ملے گا۔ اسے رات کے ڈھائی بجے نیویارک والی فلائٹ میں سوار کرادے گا۔

    بادل ناخواستہ دہلی جانے کے لئے اس نے اپنے آپ کو تیار کیا۔ اتنی جلدی بھی کہیں پروگرام بنتا ہے۔ اب برتھ کی ریزرویشن ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ساری رات جاگتے گزرے گی۔ گھر کے سارے لوگ اصرار کرنے لگے کہ بھائی ہونے کے ناطے اسے دہلی سی آف کرنے کا فریضہ ادا کرنا چاہئے تو اسے تیار ہونا ہی پڑا۔

    دوسرے دن سے ہولی کی چھٹی شروع ہورہی تھی، ٹرین میں بےتحاشہ بھیڑ تھی۔ اس کے تو اوسان خطا ہورہے تھے۔ بغیر ریزرویشن کے اس بھیڑ بھاڑ میں اپنے لئے گنجائش نکالنے کا تصور اس کے لئے سوہانِ روح تھا۔

    سلیپر میں جگہ حاصل کرنے کے لئے ریزرویشن چارٹ لے کر گھومتے ہوئے ایک ٹی ٹی ای سے اس نے بات کرنی چاہی تو اس نے سنی ان سنی کردی۔ یوں بھی اس جمِ غفیر میں کسی سے اپنی بات کہہ پانا آسان نہیں تھا۔ گاڑی پلیٹ فارم کی جانب لپک رہی تھی۔ انبوہ میں دور سے ٹرین کے انجن کو دیکھ کر اسے محسوس ہوا کہ یہ گاڑی اس کے سینے کو روندتی ہوئی آرہی ہے۔

    کیا مجھ جیسا ناتواں آدمی کمپارٹمنٹ میں داخل ہوسکے گا۔۔۔؟ ٹرین رکتے ہی اس نے خود سے سوال کیا۔

    کوئی جواب دیئے بغیر امنڈتی ہوئی بھیڑ کے درمیان اس نے خود کو گٹھر میں تبدیل کرلیا۔ یہ ہنر اسے معلوم تھا کہ بچپن سے اب تک اکثر اوقات سنگین حالات کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اسے خود کو بے جان اشیاء میں تبدیل کردینا پڑتا تھا۔ ورنہ اس کے جیسے آدمی کے لئے جینا آسان نہ تھا۔ اس کے کمزور جسم میں مزاحمت کرنے، حالات پر قابو پانے اور رخ موڑ دینے کی طاقت نہیں رہی تھی۔

    کمپارٹمنٹ میں جیسے تیسے داخل ہونے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ اس کی ہتھیلی سے خون بہنے لگا ہے۔ خون کا بہنا اس کے نزدیک کوئی اہمیت کی بات نہ تھی۔ اہم تو یہ تھا کہ گٹھر میں تبدیل ہونے کے بعد دھکے کھاتا ہوا وہ کمپارٹمنٹ میں داخل ہونے میں آخر کار کامیاب ہوگیا تھا۔ اب صرف یہ اندیشہ تھا کہ ریزرویشن نہیں ہونے کی وجہ سے اسے کنڈکٹر سلیپر سے نکال سکتا تھا۔

    کچھ ہی دیر بعد گاڑی کھل گئی۔ جن لوگوں کے ریزرویشن تھے انہوں نے اپنی اپنی برتھ پر اپنے بستر بچھا دیئے۔ اس کی طرح کچھ اور لوگ بھی تھے جو اس ٹرین میں بے گھر بار تھے۔ان میں سے بیشتر نے کنڈکٹر کو پچیس پچیس روپے دیئے اوراپنی ٹکٹوں پر ایک ایک برتھ ریزرو کرالی۔

    کنڈکٹر اس کی طرف بھی بڑھا۔ لیکن اس نے سوچا کہ پچاس روپے ٹکٹ کے لگ چکے ہیں۔ سونے کے مزید پچیس دینے کا مطلب تھا کہ اس کے سفر کے خرچ کا پورا بجٹ گڑبڑ ہوجائے گا۔ بھائی امریکہ میں ڈھیر سارا روپیہ کماتا ہے اس سے کیا۔ اسے بہرحال اپنی آمدنی اور اپنی حیثیت دیکھنی ہے۔ آخر اس نے اپنی اوقات کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی تو بھائی کو سی آف کرنے کے لئے طیارے کے بجائے ٹرین کی سواری اختیار کی تھی۔

    ’’ریزرویشن کے سات روپے لگتے ہیں پھر یہ پچیس کیوں؟‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے کنڈکٹر سے سوال کردیا۔ کنڈکٹر کے تیوریوں پر بل آئے۔ اس نے گھور کر دیکھتے ہوئے کہا، ’’اتنے سارے لوگ بے وقوف ہیں کیا۔۔۔ نہیں دے سکتے تو اگلے اسٹیشن پر اتر جانا۔۔۔ یہ تھری ٹائر ہے۔۔۔ آپ کو جنرل بوگی میں جانا ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’جب یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے تو وہاں کیسے گھس سکوں گا!‘‘

    ’’پھر لائیے پچیس روپے۔۔۔ آخر اس بھیڑ بھاڑ میں آپ کے لئے سونے کی جگہ مہیا کروں گا۔۔۔ کوئی مذاق ہے کیا۔۔۔!‘‘

    “بھائی میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں!”

    دہلی بغیر پیسے کے جاتے ہو۔۔۔ یہ سالی بغیر پیسے کے اپنا ہاتھ بھی نہیں چھونے دیتی ہے!”

    “پہلی بار جارہا ہوں۔۔۔”

    تو لاؤ بیس ہی دے دو۔۔۔ تمہارے لیے مروت کر رہا ہوں۔۔۔ ہنسوڑ قسم کا کنڈکٹر اس کی خستہ حیثیت بھانپتے ہوئے ’آپ‘ سے ’تم‘پر اتر آیا۔

    “بھیا سب میری جیب میں نہیں جائے گا۔۔۔”

    اس نے کہا وہ اسے دس روپے سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ کنڈکٹر نے دس روپے لیتے ہوئے اسے بتایا کہ تب اسے بیٹھ کر جانا ہوگا۔ یہ بھی کم نہیں کہ اسے بیٹھنے کی جگہ مل رہی ہے۔

    گاڑی مغل سرائے سے آگے بڑھ گئی تو اس نے برتھ کی طرف رخ کیا۔ یہ دیکھ کر اس کی کوفت میں اضافہ ہوگیا کہ کئی برتھ خالی پڑے تھے۔ لیکن پیسے کی کمی کی وجہ سے وہ برتھ کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھنے پر مجبور تھا۔

    وہ دہلی پہلی بار جارہا تھا او رمتعدد الجھنوں سے دوچار تھا۔ اسٹیشن سے اسے پالم ایئر پورٹ جانا ہوگا۔ نہ معلوم اسے نئی دہلی اسٹیشن اترنا چاہئے یا پرانی دہلی۔ پہلے کون سا اسٹیشن آئے گا۔ جس اسٹیشن پر بھی اترے گا وہاں سے کون سی سواری کرے گا۔ ہم سفروں سے اگر پوچھتا ہے تو سب اسے نرا گاؤوی سمجھیں گے کہ اتنا سن رسیدہ ہونے پر بھی اب تک وہ اپنے ملک کی راجدھانی نہیں گیا تھا۔ انہیں کیا معلوم کہ کتنے لوگ اس ملک میں ایسے ہیں جو دہلی تو بہت دور کی بات ہے اپنے صوبے کی راجدھانی تک نہیں جاسکتے ہیں۔

    کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ریلوے لائن نہیں دیکھی۔۔۔ اور کتنے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک ساتھ چار روٹیاں نہیں دیکھیں۔۔۔

    وہ غمزدہ ہوگیا۔ اسے لگا کہ وہ رات کے سناٹے میں کسی مرگھٹ میں بیٹھا ہے۔۔۔ دور کہیں سے کتوں کے رونے کی آواز آرہی ہے۔۔۔ چاروں طرف گہرا اندھیرا ہے۔ بجز اس روشنی کے جو ایک جلتی ہوئی لاش سے برآمد ہورہی ہے۔

    ٹرین کے پہیوں کی چھک چھک اور سناٹوں کے ہولناک آوازوں کو سنتے سنتے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح ہوئی تو اس کی نیند ٹوٹی۔ ایک طیارے کو اس نے ٹرین کے اوپر اڑتے دیکھا۔ اس کا جی چاہا کہ لوگوں سے چیخ چیخ کر کہے کہ اس ہوائی جہاز میں اس کا چھوٹا بھائی سفر کر رہا ہے۔ ہوائی جہاز میں اڑنےوالے کا وہ بڑا بھائی ہے۔۔۔ ہو ۔۔۔ ہو ہو۔۔۔ لیکن خود اسے اپنی ہنسی بہت کھوکھلی لگی۔

    اس کا ذہن ماضی بعید میں بھٹکنے لگا۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس کا کوئی فرزند اس قدر ترقی کرے گا کہ امریکہ جاپہنچے گا۔ وہ تو وہیں کا وہیں رہ گیا۔ ٹھٹھر سا گیا۔ لیکن کیا کیا جاسکتا تھا۔ حالات کے لازمی نتائج کے طور پر یہ تو ہونا ہی تھا۔ یہ اطمینان کی بات تھی کہ کم سے کم یہ چھوٹا پودا تو اگ کر تناور درخت بن گیا۔

    ڈرتے ڈرتے ایک سردار جی سے اس نے دہلی کے بارے میں آئیڈیا لینا چاہا تو اسے معلوم ہوا کہ وکرم شیلا تو نئی اور پرانی دونوں دہلی جائے گی، لیکن اسے پالم جانا ہے تو نئی دہلی اترجانا چاہئے۔ اس نے نصیحت کے طور پر گر کی بات بتائی کی اسٹیشن کے کیمپس سے لگی ہوئی کوئی سواری نہ کرے۔ اسٹیشن سے باہر آجائے۔ بائیں جانب پیدل بڑھے اور پھر کناٹ پیلس کے پاس سے تین سو سات نمبر کی بس پکڑ لے یا تھری ویلر کرئے۔

    سردار جی نے یہ بھی کہا، ’’لیکن سرداروں کی ٹیکسی کے میٹر کے چکر میں نہ پڑنا۔۔۔ بھاڑا طے کرلینا۔۔۔ دس سے پندرہ روپے کے بیچ تیار ہوجائے تو ٹھیک ہے۔۔۔ میٹر کا حساب کروگے تو ایسا بھی ہوگا کہ وہ ادھر ادھر گھماکر تم سے پچیس تیس اینٹھ لیں گے اور تم پالم سے اتنی ہی دور ہوگے جتنا کناٹ پیلس کے پاس تھے۔۔۔‘‘

    سردار جی نے پہلو بدلتے ہوئے کہا، ’’یار دہلی میں اچکے زیادہ بستے ہیں۔۔۔ ہندوستان میں کہاں کہاں نہیں گھوما۔۔۔ لیکن اتنی لوٹ میں نے کہیں نہیں دیکھی۔۔۔!’’

    سردار جی زندہ دل اور بے باک شخص تھا۔ دنیا داری کی باتوں کے علاوہ سردار ہوتے ہوئے اس نے سرداروں کے اتنے سارے دلچسپ لطیفے سنائے کہ ہنستے ہنستے اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔

    کام کی باتیں اس نے بڑی احتیاط سے گرہ میں باندھ لیں۔

    ہدایت کے مطابق نئی دہلی اترکر سڑک پر بائیں جانب بڑھتا گیا۔ اس درمیان کئی ٹیکسی والے اس کے پاس آئے لیکن وہ سب کو اس شانِ بے نیازی سے نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا جیسے کئی پشت سے وہ کناٹ پیلس کا باشندہ رہا ہو او رچہل قدمی کرتا ہوا اپنے باپ کے مکان کو جارہا ہو۔ اس درمیان وہ ترچھی نظروں سے گزرتے ہوئے تھری ویلر کا جائزہ بھی لیتا جارہا تھا۔

    وہ ایسے تھری ویلر کا متلاشی تھا جس کا ڈرائیور غیر سردار ہو اور جو دیکھنے میں کچھ شریف قسم کا آدمی نظر آرہا ہو۔ ظاہر ہے اس کے لئے وہ کسی نحیف اور لاغر جثے والے ڈرائیور کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس طرح کا ایک ڈرائیور اسے مل ہی گیا۔ دبلا پتلا بیمار سا۔ یہ آدمی خطرناک نہیں ہوسکتا ہے۔ اس نے اشارہ کیا۔

    ’’کہاں چلوگے صاحب۔۔۔‘‘

    ’’پالم۔۔۔ کتنے لگیں گے۔۔۔؟‘‘

    ’’بیٹھ جاؤ صاحب۔۔۔ میٹر گرادیتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں طے کرلو۔۔۔‘‘

    ’’پندرہ روپے دینا۔۔۔‘‘

    ’’بارہ دوں گا۔۔۔‘‘

    ’’آجاؤ۔۔۔‘‘

    تقریباًؑ پینتالیس منٹ کے بعد وہ پالم پہنچ گیا۔ پیسے دینے کے لئے اس نے جیب میں ہاتھ ڈالے تو پتا چلا کہ بھیڑ بھاڑ میں اس کے روپے کسی نے گول کردیے تھے۔ اب کیا ہو۔۔۔ ہوائی اڈے کے اندر بھائی کو ڈھونڈ کر اپنی مصیبت بتائے۔ اس سے مدد لے۔ لیکن یہ اسے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ اب چلتے چلاتے وقت اس معمولی سی ضرورت کے لئے بھائی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔

    یوں ہی اس بار اس نے چھوٹی بہن کی شادی میں تقریباً پچاس ہزار روپے خرچ کرڈالےتھے۔ لیکن اس ڈرائیور کا کیا ہو۔ اس نے فوراً قلم نکالا۔ پھر اسے خیال آیا کہ یہ تو محض ڈھائی روپے کا تھا۔ اس سے کرایہ کا بھگتان کیسے ہوسکتا تھا۔ اب ایک ہی صورت تھی۔ کلائی کی گھڑی۔

    اس نے سوچا ڈرائیور شریف آدمی ہے۔ ڈھائی سو کی گھڑی کا سو روپے دے ہی سکتا ہے۔ اس میں اس کی واپسی کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔ ا تنی دیر میں ڈرائیور نے تھری ویلر اسٹارٹ کردیا تھا۔ اس نے گھڑی اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا، ’’بھائی ایسا ہے کہ میری جیب کٹ گئی۔۔۔ تم یہ گھڑی رکھ لو اور جتنے پیسے مناسب سمجھو مجھے دے دو۔۔۔‘‘

    شریف اور غیر سردار ڈرائیور نے گھڑی اپنے نحیف ہاتھوں میں لے لی۔ ایک نظر اسے گھور کر دیکھا اور پھر دیکھتے دیکھتے یہ جا وہ جا۔

    وہ دھیمی آواز میں چیختا رہ گیا۔ اس جگہ زیادہ شور اور ہنگامہ کر کے وہ اپنے آپ کو مذاق کا نشانہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ ڈرائیورنے اس کی کمزوری بھانپ لی تھی۔ تھری ویلر کے اڑتے ہوئے دھوئیں میں اس کے زرد چہرے کی شکست قابل دید تھی۔

    انٹرنیشنل ڈیپارچر کے پاس شیشے کی دیوار کے اندر اس کا بھائی ٹہل رہا تھا۔اس نے بہت لہک کر کہا، ’’بھائی!‘‘

    اس کا بھائی اس کے قریب آگیا۔

    ’’سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ رات کی فلائٹ اوکے ہے۔ ٹھیک دو بج کر چالیس منٹ پر۔ فلائٹ نمبر زیرو ون ۔ جب تک ہم لوگ چلیں۔ امریکہ کے دوستوں کے لئے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔ ادھر ہی ہم لوگ کھانا بھی کھائیں گے۔ میں نے سارا سامان لفٹ لگیج میں رکھ دیا ہے۔ اب کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ہم لوگ رات بھر جاگ کر ایئر پورٹ پر گپیں کریں گے۔ آپ صبح کی کسی گاڑی سے واپس چلے جائیے گا۔۔۔ کل یوں بھی ہولی کی وجہ سے دہلی بند رہے گا۔۔۔ گھومنے پھرنے کا کوئی موقع نہیں۔۔۔‘‘

    دونوں تمام دن کناٹ پلیس ، قرول باغ، پالیکا بازار اور مینا بازار میں گھومتے رہے۔ لگ بھگ تین ہزار روپے کی خریداری کی گئی۔ کسی دوست کے لئے کولہا پوری چپل، کسی کے لئے پینٹ، کچھ ایمی ٹیشن ، کچھ اماوٹ وغیرہ وغیرہ۔ ہینڈ لوم کے سوتی کپڑوں کا وہاں ایک خاص کریز تھا۔ جامع مسجد کے پاس فلورا ہوٹل میں کھانا کھایا گیا۔ پھر شاپنگ۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔

    اس کا چھوٹا بھائی بہت ہوشیار تھا۔ شاپنگ میں مول تول کے طریقے جانتا تھا۔ جس چیز کی قیمت دکاندار سو روپے بتاتا، اسے وہ زیادہ سے زیادہ ساٹھ میں خرید لیتا ۔ دنیاداری کے ان طریقوں سے وہ ناواقف تھا۔ اگر وہ تنہا خریداری کر رہا ہوتا تو سو کی جگہ سو ہی دے کر آتا۔ اتنی بڑی عمر میں محض لٹتے چلے جانے کے علاوہ ہوا ہی کیا تھا۔

    وہلی آتے ہی وہ دوبارہ غچا کھاچکا تھا۔ جیب کٹ گئی اور گھڑی لٹ گئی۔ اگر بھائی سے اس کا وہ تذکرہ کرتا تو اسے شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ واپسی کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے اس ٹھنڈک میں بھی پسینے آگئے۔ بھائی نے کہا، ’’دیکھا کتنا مقوی کھانا تھا یہاں کا۔ آپ کو پسینہ آنے لگا۔ بھیا آپ اگر پٹنہ چھوڑ دیں تو بالکل چنگے ہوجائیں۔۔۔‘‘

    وہ بس یک ٹک بھائی کو دیکھتا رہ گیا۔ کچھ نہیں بولا۔

    بھلا ہندوستان میں رہ کر بھی صحت بن سکتی ہے۔۔۔

    خاموشی کی زبان میں وہ یہی کہہ سکا۔

    بھائی نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ اس کی نظریں تو ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ ہا ہا کرتے ہوئے اس نے چند خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر کہا، ’’بھیا کیا برا ہے۔۔۔ اگر دہلی میں شادی کی جائے۔۔۔‘‘

    وہ کیا کہہ سکتا تھا۔ اسے تو یہاں کی لڑکیوں میں نام کو بھی حسن نظر نہیں آیا۔ یہاں کی حسین ترین لڑکی بھی اس کے یہاں قبول صورت لڑکی کے مقابلے میں کمتر لگی۔ لیکن بھائی کو شاید یہی سب پسند ہے۔ بڑی بڑی گول ہپ۔۔۔ موٹی موٹی گٹھیلی پنڈلیاں۔۔۔ کیلے کے تنے جیسی گدرائی ہوئی جانگھیں۔۔۔ بڑے بڑے آہنی گولوں جیسے سخت اور تنے ہوئے۔۔۔

    اسے تو ان سب کے نیچے کچل جانے کا خوف ہوتا۔ روندتے چلے جانے کا احساس جاگنے لگتا۔

    اچانک بھائی نے سنجیدگی سے کہا، ’’میرے لئے کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر رکھئے گا۔ امریکہ میں سب کچھ کیجئے۔۔۔ خوب موج مستی لیجئے۔ لیکن شادی کے لئے ہندوستانی لڑکی ہی بہتر ہوتی ہے۔ وہاں کی لڑکیاں شوہروں کا شوہرپن آسانی سے تسلیم نہیں کرتیں۔۔۔ اور اس طرح ان میں بیوی پن کبھی نہیں آپاتا۔۔۔‘‘

    ایئر پورٹ پر بھائی نے بڑی سنجیدگی سے کہا، ’’بھیا آپ تو اب نہ معلوم شادی کریں گے یا نہیں۔۔۔ لیکن آپ کے انتظار میں اب میں بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ صرف شادی ہی تو نہیں۔۔۔ اولاد اپنی زندگی میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے، یہ بھی تو دیکھنا ہے۔۔۔‘‘

    صحیح بات ہے۔۔۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔ خوف سے اس کی آنکھیں اندر دھنس گئیں۔

    مان لو بھائی میری شہوت کی عمر اگر بچی بھی ہے تو کیا ہوا۔۔۔ اولاد کو اپنے پیروں پر کھڑا کرپانے کا زمانہ تو ختم ہوگیا۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن ہم لوگ تو بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے۔۔۔

    یہ باتیں اس نے اتنی آہستہ سے کہیں کہ اس کے بھائی نے نہیں سنیں۔

    ’’اور ہاں سنئے۔۔۔ اماں کا پاسپورٹ بنوا دیجئے۔۔۔ انہوں نے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔۔۔ اب انہیں آرام اور سیرو سیاحت کا موقع ملنا چاہئے۔۔۔ اگلی بار آؤں گا تو انہیں ساتھ لے جاؤں گا۔۔۔ سوچتا ہوں اگلی بار بیگم اور اماں دونوں کو۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے ۔۔۔ میں پاسپورٹ کے لئے اپلائی کردوں گا۔۔۔‘‘

    ’’صرف اپلائی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔۔۔ دوڑ دھوپ کرنی پڑے گی۔۔۔ ہاتھ پاؤں چلانے ہوں گے۔۔۔ ادھر ادھر کرنا ہوگا۔۔۔ انڈیا میں سرکاری کام بغیر لئے دیئے نہیں ہوتا۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘

    اس نے کہا۔ اب اور کتنی دوڑ دھوپ کروں گا۔۔۔ یہ الفاظ اس کی زبان سے ادا نہیں ہوئے۔

    ’’اور بھیا اماں کا خیال رکھئے گا۔۔۔ میں تو برابر پیسے بھیج ہی دیا کروں گا۔۔۔آپ کم سے کم اتنا کریں گے کہ مقوی چیزیں خرید کر ان کے لئے لے آیا کریں گے۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘

    اچھی چیزیں وہ کھانا ہی نہیں چاہتیں۔۔۔ نہ معلوم انہیں کون سا دکھ کھائے جارہا ہے۔۔۔ یہ بات اس نے خود سے کہی۔

    گپ شپ کرتے کرتے رات کے دس بج گئے۔ بھائی نے کہا، ’’اب ٹرالی لے آتا ہوں۔۔۔ سامان نکال کر ان ساری خریدی ہوئی چیزوں کو سیٹ کردیتا ہوں۔۔۔‘‘

    اس کا م میں تقریباً گیارہ بج گئے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک کرلینے کے بعد انہوں نے پھر گپ شروع کردی۔ بے شمار باتیں۔ بچپن کی۔۔۔ باپ کے زمانے کی۔۔۔ باپ کے انتقال کے بعد کی۔۔۔ اور اس کے بعد بھائی نے امریکہ میں اپنے کچھ معاشقوں کی روداد بھی سنائی۔

    ’’آپ نے بھیا یہاں کچھ موقع نکالا کہ نہیں؟‘‘ چھوٹے بھائی نے تھوڑے توقف کے بعد کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’نہیں بھائی۔۔۔ ان کاموں کے لئے فرصت ہی نہیں ملی۔۔۔ او رپھر مجھ میں ہے بھی کیا کہ کوئی لڑکی میری طرف نظر ڈالے۔۔۔ ڈھنگ کا کپڑا۔۔۔ قاعدے کی صورت۔۔۔ نہ اندازِ گفتار میں کشش۔۔۔ سب کچھ تو کھڑکھڑاتا ہوا۔۔۔ ہا ہا۔۔۔‘‘ اس نے ہنسنے کی بادل ناخواستہ کوشش کی۔

    ’’آپ رہ گئے بھیا۔۔۔‘‘

    ہاں۔۔۔ میں رہ گیا۔۔۔ کہیں چھوٹ گیا میں۔۔۔ جانے کہاں۔۔۔ اندھیرے میں ایک ٹرین گم ہوتی جارہی ہے۔۔۔ میں کنارے گرا ہوا اٹھنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ میرے چاروں طرف کتے بھیانک آواز میں رو رہے ہیں۔۔۔ روتے ہوئے کتے رونے کا فعل چھوڑ کر میری طرف دیکھ کر بھونکنے لگے ہیں۔۔۔ وہ خامشی کی زبان میں خود سے کہتا رہا۔

    ’’آپ کہاں کھو گئے بھیا۔۔۔؟‘‘

    وہ چونک پڑا۔

    ’’ہاں۔۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ سچ مچ عشق کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔۔۔‘‘ اپنی ذہنی کیفیت پر اس نے پردہ رکھا۔

    اناؤنسمنٹ ہوئی۔۔۔ بڑی خوبصورت اورخوابیدہ آواز۔۔۔

    ’’امریکہ جانے والے یاتری گن اپنے سامان اور فارین ایکسچینج کی پیمنٹ کے لئے کاؤنٹر کی اور پرستھان کریں۔۔۔‘‘

    ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا۔ لگا کہ ساری دہلی، امریکہ جانے کے لئے مقابلہ آرائی کر رہی ہے۔ آن کی آن میں امریکہ پہنچ جانا چاہتی ہے۔

    جیسے تیسے اس کا بھائی ٹرالی پر سامان لئے ہوئے ایئر انڈیا کے کاؤنٹر پر پہنچ گیا۔ وہ دور ہی سے بھائی کو دیکھ رہا تھا۔ کاؤنٹر کے قریب ویزی ٹرس کے جانے کی ممانعت تھی۔ سامان جمع کر کے اور رسیدیں لے کر بھائی واپس آگیا۔

    ’’اب کیمرے کے لئے کسٹم کے سامنے ڈیکلریشن دینا ہوگا۔۔۔ اور پھر سیکوریٹی چیکنگ۔۔۔ پھر تو بھیا آپ مجھے نہیں دیکھ سکیں گے۔۔۔ اوپر ویورس گیلری سے شاید ایک بس نظر آئے، جس میں بیٹھ کر رن وے تک جاؤں گا۔۔۔ میں نظر نہیں آؤں گا۔۔۔ پھر ممکن ہے کسی اڑتے ہوئے جہاز پر ایئر انڈیا لکھا ہوا نظر آجائے۔۔۔ آپ سمجھ لیجئے گا کہ بھائی رخصت ہوگیا۔۔۔‘‘

    بھائی سے جدائی کی گھڑی کی قربت کا خیال آتے ہی وہ اندر سے ٹوٹنے لگا۔ اسے غصہ آرہا تھا۔ دل ہی دل میں وہ بڑبڑا رہا تھا۔

    کیوں چلے آتے ہو ہمیں دکھی کرنے کے لئے۔۔۔ کیا رکھا ہے وطن میں۔۔۔ کیسا وطن ہے ، جہاں ساری زندگی کرائے کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں بسری ہورہی ہے۔۔۔ جب ہم تمہارے بغیر رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں، تم آکر اپنے ہونے کے احساس کا چرکا دے دیتے ہو۔ ہمیں رونے کے لئے چھوڑ جاتے ہو۔۔۔ ہم لوگوں سے اگر نہ بھی ملو تو تمہارا کیا بگڑے گا۔۔۔ ملنے سے کون سا روحانی سکون ملتا ہے۔۔۔

    خاموشی کی زبان میں کہتے کہتے اس کے جذبات بے قابو ہونے لگے۔ آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔ سمندر اچھل اچھل کر اس کے وجود کے کناروں کو ریزہ ریزہ کرنے کے درپے تھا۔

    خوابیدہ آواز دوبارہ گونجی، ’’امریکہ کے یاتری گن اب سیکوریٹی چیکنگ کے لے پرستھان کریں۔ رن وے تک لے جانے والی بس ان کا انتظار کر رہی ہے۔۔۔‘‘

    اس کا بھائی بھی آبدیدہ ہوگیا۔

    ’’بھیا تم اپنا خیال نہیں رکھتے۔۔۔ کیسی صحت ہوگئی ہے تمہاری۔۔۔ چند سال بڑے ہو۔۔۔ لیکن دیکھنے میں باپ لگتے ہو۔۔۔‘‘

    سب چلتا ہے بھائی۔۔۔ اگلی بار جب تم آؤگے تو میں تمہارا دادا لگوں گا۔۔۔ اور اس سے اگلی بار شاید میں۔۔۔ وہ خود کلامی کرتا رہا۔

    ’’بھیا اب رخصت کی گھڑی ہے۔۔۔ آؤ۔۔۔ ہم لوگ گلے مل لیں۔۔۔ اب نہ معلوم کب ملنا نصیب ہو۔۔۔‘‘ ا س کے بھائی نے دھیرے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

    دونوں بھائی ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔

    دونوں کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو رواں تھے۔

    اچانک چھوٹا بھائی چیخ مار کر الگ ہوگیا، ‘‘بھیا۔۔۔ تمہاری پیٹھ پر یہ کیسا ابھار ہے۔۔۔ مکروہ خبیث کے سر جیسا۔۔۔‘‘

    بڑے بھائی کو کاٹو تو لہو نہیں۔ ا سکی سمجھ میں نہیں آیا کہ بھائی کی اس بات کا کیا جواب دے۔ چھوٹا بھائی پھر بولا، ’’بھیا۔۔۔ یہ کیسا آسیب سوار ہے تم پر۔۔۔ تم نے آج تک نہیں بتایا۔۔۔‘‘

    امریکہ جانے والے ایک ہم سفر نے سیکوریٹی چیکنگ کے لئے جاتے ہوئے اس کا ہاتھ زور سے پکڑا۔

    ’’جلدی کرو۔۔۔ دیر ہورہی ہے۔۔۔ گیسٹ کو گڈبائی کہو۔۔۔‘‘

    ’’خدا حافظ بھائی۔۔۔ فی امان اللہ۔۔۔ بھائی۔۔۔‘‘

    اس کا بھائی خوف و دہشت کا تاثر لئے ہوئے جارہا تھا۔ لگاتار وہ اس کی پیٹھ کی جانب دیکھے جارہا تھا۔

    ’’بھیا! اس خبیث سے چھٹکارا حاصل کرو۔۔۔ جیسے بھی ہو۔۔۔‘‘ جاتے جاتے اس نے پکار پکار کر کہا۔ چند لمحوں بعد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

    دھیرے دھیرے بالکل سناٹا چھا گیا۔ مسافروں کی ریل پیل ختم ہوگئی۔ ۔۔۔ دیوانہ وار وہ ویورس گیلری کی طرف لپکا جو اوپری منزل پر واقع تھی۔

    باہر بارش ہورہی تھی۔ کچھ بھی صاف نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے ونڈو اسکرین کا شیشہ صاف کیا۔ نیم روشن دھندلے منظر میں ایک بس رن وے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ دود ھ جیسی سفید بس۔

    اس کا بھائی اسی میں ہوگا۔۔۔ اس نے اندازہ لگایا۔

    کچھ ہی دیر بعد ایک طیارہ اڑا۔۔۔ ہو نہ ہو اس کا بھائی اسی میں ہوگا۔

    الوداع ۔۔۔ الوداع۔۔۔ اے پردیسی ہم وطن۔۔۔ اب ہم جانے کب ملیں۔۔۔ ملیں بھی کہ نہیں۔۔۔ بے رحم زندگی کے راستے پر سفر کا پہاڑ ڈھونے والے۔ خدا حافظ۔۔۔

    طیارہ آسمان میں غائب ہوچکا تھا۔

    اب چاروں طرف سناٹا تھا۔ قبرستان کاسا گہرا سناٹا۔

    اس کا دماغ کچھ دیر کے لئے خالی ہوگیا۔ تکان کے عالم میں اس کے حواس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    کچھ دیر بعد اس کے اوسان بحال ہوئے تو خیال آیا کہ اس کا بھائی الوداعی کیفیت کی شدت میں جسے خبیث سمجھ رہا تھا وہ اس کی پیٹھ کا کوبڑ تھا اور ہ بھی کہ دہلی سے واپسی کے لئے اس کے پاس ٹرین کا کرایہ نہیں تھا۔

    مأخذ:

    گنبد کے کبوتر (Pg. 38)

    • مصنف: شوکت حیات
      • ناشر: شوکت حیات
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے