Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کنواں

بلراج کومل

کنواں

بلراج کومل

MORE BYبلراج کومل

    جب میونسپل کارپوریشن کی طرف سے شہر کے بیشتر حصوں میں پانی کے نل مہیا کر دئیے گئے تو شہر کے اکثر کنویں بے مصرف ہو گئے اور کافی عرصہ تک بےمصرف رہے۔ آخر ایک ذہین شہری نے ان کا ایک انوکھا مصرف ڈھونڈ نکالا۔ اس نے ایک جست میں کنواں پھلانگنے کا انوکھا تجربہ کیا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔ نتیجتاً اس ذہین شہری نے کنواں پھلانگنے کا مشغلہ باقاعدہ طور پر اختیار کر لیا۔ جب وہ ایک کنواں پھلانگ چکتا تو اس کی خواہش ہوتی کہ وہ ایک اور کنواں پھلانگے۔ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ مشکل صورت حال کا انتخاب کرتا اور تماشائیوں کی تالیوں اور واہ واہ کے درمیان کنواں پھلانگنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اس کی مقامی رفتہ رفتہ شہرت کا درجہ اختیار کر گئی اور اب اس کا نام بیرونی ممالک کے اخبارات میں بھی کہیں کہیں نظر آنے لگا۔

    کسی بھی فرد کا کوئی دعویٰ ایسا نہیں ہے جس کو چیلنج کرنے کے لیے دوسرا فرد موجود نہ ہو۔ چنانچہ گولنکر کے سلسلہ میں بھی یہی ہوا۔ ایک روز اسے ڈاک سے ایک خط ملا۔ یہ خط ایک اجنبی کی طرف سے تھا جس نے گولنکر کو کنواں پھلانگنے کے مقابلہ کے لیے چیلنج بھیجا تھا۔ گولنکر نے خط پڑھا اور خط پڑھتے ہی اس کے مردانہ وقار نے تقاضا کیا کہ وہ چیلنج منظور کر لے۔ چنانچہ گولنکر نے فوراً چیلنج کرنے والے کو تحریری اطلاع دی کہ وہ کسی وقت بھی باہمی کتابت کے ذریعہ طے شدہ شرائط کے مطابق مقابلہ کے لیے تیار ہے۔ اگلے چند ہفتوں کے اندر شرائط طے ہوئیں اور مقابلے کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔ مقامی اور قومی اخبارات میں مقابلہ کی تفصیلات کا اعلان کر دیا گیا۔

    اگرچہ گولنکر کہنہ مشق کھلاڑی تھا اور بہت سے کنویں پھلانگ چکا تھا۔ جوں جوں مقابلے کی تاریخ قریب آتی گئی اس کے دل میں خدشات پیدا ہونے لگے۔ ان خدشات پر قابو پانے کے لیے گولنکر نے فیصلہ کیا کہ چونکہ سوال اپنی شہرت اور وقار کو برقرار رکھنے کا ہے اسلیے مقابلہ سے قبل کنواں پھلانگنے کی کچھ مشق ضرور ی ہو گی۔ جو مقابلے کا فیصلہ، نتیجہ کن انداز سے اس کے حق میں کرنے میں مفید ثابت ہوگی۔

    یہ فیصلہ کرنے کے بعد گولنکر نے شہر کے تمام کنوؤں کا جن میں سے اکثر وہ پھلانگ چکا تھا بغور جائزہ لیا۔ ہر ایک کنوئیں کا قطر ناپا۔ پھلانگنے کے زاویوں کا مطالعہ کیا۔ ظاہر ہے گولنکر جیسی شہرت کے مالک کے لیے شہر کے کنوؤں پر مشق کرنا مناسب نہیں تھا۔ اس لیے اس نے اس کام کے لیے شہر سے باہر ایک ویران کنویں کا انتخاب کیا۔ کنواں چاروں طرف سے درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ باہر سے گزرنے والا آدمی اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ درختوں کے جھنڈ کے اندر کنواں ہے اس کنویں کی ایک خوبی یہ تھا کہ اس کی منڈیر، اس کا قطر اور اس کے چاروں طرف کی خالی زمین کا حدود اربعہ اس کنویں کے مماثل تھا جو آخری مقابلہ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

    کنویں کا انتخاب کرنے کے بعد مناسب تیاری کی ضرورت تھی۔ گولنکر نے تمام تیاری دو چار روز میں مکمل کر لی اور ایک صبح کنویں کی طرف روانہ ہو گیا۔

    مارچ کی یہ صبح بڑی خوبصورت تھی۔ ہوا میں موسم بہار کا اثر تھا لوگوں کے چہروں پر مسرت تھی بچے آنگنوں میں کھیل رہے تھے۔ زندگی کا کاروبار معمول سے زیادہ حسن اور خوش اسلوبی سے چلتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ گولنکر رنگ و بو کی اس محفل سے لطف اندوز ہوتا ہوا شہر کے دھیرے دھیرے تیز ہوتے ہوئے ہاؤ ہو میں سے گزر کر درختوں کے اس جھنڈ کی طرف جا رہا تھا جہاں اسے کنواں پھلانگنے کی مشق کرنی تھی۔ اس کا دل اس کا دماغ اس کا پورا وجود زندگی کے نشے سے سرشار تھا۔ اس کے قدم اعتماد سے اٹھ رہے تھے اور ا س کے چہرے پر کامرانی کا وہ نور تھا جیسے وہ مقابلے میں شامل ہونے سے پہلے ہی مقابلہ جیت چکا ہو۔

    شہر کی ایک نواحی بستی میں وہ ایک پارک کے قریب سے گزرا۔ سبزے پر کچھ لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے۔

    ٹھیک اسی وقت کھیلنے والے لڑکے نے ایک شاندار چھکا لگایا۔ گولنکر کا دل مسرت سے چھلک اٹھا۔ نواحی بستی سے نکل کر وہ اس سڑک پر آ گیا جہاں خوبصورت بنگلوں کی ایک قطار دور تک چلی گئی تھی۔ ایک مکان کے باہر ایک گول مٹول، سرخ و سپید بچہ ٹافی کھا رہا تھا۔ گولنکر نے اس کے ملائم صحت مند گالوں کو تھپتھپایا اور آگے بڑھ گیا۔

    اب وہ درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ کے بالکل قریب تھا۔ وہ رک گیا اور اس نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ فطرت کا سارا حسن کھیتوں کی ہریالی اور سونے میں سمٹ آیا تھا۔ گولنکر کچھ دیر اس حسن سے سرشار ہوتا رہا اور پھر جھنڈ کے اندر داخل ہو گیا۔ کنویں کے قریب پہنچ کر اس نے جو منظر دیکھا اسے دیکھنے کا امکان اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

    کنویں کی منڈیر پر سوکھا مارا چیتھڑوں میں لپٹا ہوا ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا اور بڑے انہماک سے کنویں کے اندر جھانک رہا تھا۔ اجنبی گولنکر کی آمد سے بالکل بےخبر تھا اس لیے جب گولنکر اس کے قریب پہنچا تو وہ چونک پڑا۔ گولنکر نے اپنے ردعمل کا اظہار ایک سوال کی صورت میں کیا،

    ’’تم کون ہو؟‘‘

    اجنبی اب بھی کنویں کی منڈیر پر بیٹھا ہوا تھا اور گولنکر پر ایک تحقیر آمیز نظر کرکے کنویں کے اندر جھانکنے کے عمل میں دوبارہ مصروف ہو گیا تھا۔

    گولنکر کے سوال کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

    گولنکر نے اپنا سوال دہرایا۔

    ’’میں پوچھتا ہوں، تم کون ہو؟ کیا کرتے ہو اور یہاں کس لیے آئے ہو؟‘‘

    اجنبی نے اپنی آنکھیں کنویں کے پیندے سے ہٹائیں اور گولنکر کے چہرے پر گاڑ دیں۔ گولنکر کو یکایک محسوس ہوا کہ اجنبی اس کی روح کے اندر جھانک رہا ہے اور اس کے ہر راز سے واقف ہوتا جا رہا ہے۔ گولنکر کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے لیکن اس سے پیشتر کہ گولنکر اپنے حصے کا اظہار کر پاتا۔ اجنبی کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہلے،

    ’’دو انسانوں کے درمیان ہمدردی اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ان کے مقاصد ایک جیسے ہوں۔‘‘

    ’’تو تم ہمدردی کی تلاش میں ہو۔‘‘

    ’’شاید میں نے غلط لفظ استعمال کیا۔ مجھے رشتہ یا تعلق یا اسی قسم کا کوئی عام لفظ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال میں کسی سوال کا جواب نہیں چاہتا ہوں۔‘‘

    گولنکر چکر میں آ گیا۔ عجیب آدمی سے واسطہ پڑا تھا۔ وہ اجنبی کو کچھ دیر بے بسی کے عالم میں دیکھتا رہا اور پھر بولا،

    ’’دیکھو میں یہاں ایک خاص مقصد سے آیا ہوں۔ تم یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘

    ’’میں واپس جانے کے لیے نہیں آیا ہوں۔ تم چاہو تو یہاں سے جا سکتے ہو۔‘‘

    ’’آخر تم کیا چاہتے ہو۔‘‘ گولنکر نے پوچھا۔

    ’’میں چاہنے یا نہ چاہنے کے عمل سے بہت دور نکل چکا ہوں۔‘‘

    گولنکر کے ذہن میں ایک اور سوال کوندے کی طرح لپکا۔

    ’’کیا تم خودکشی کرنا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’زندگی اور موت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔‘‘ اجنبی نے جواب دیا۔

    گولنکر کے چہرے پر مسرت اور اعتماد کی روشنی نمودار ہوئی وہ اجنبی کی پراسرار شخصیت کے ایک گوشے کو بےنقاب کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

    ’’کیا تم جانتے ہو کہ میں کس مقصد سے یہاں آیا ہوں؟‘‘

    ’’مجھے اب دوسروں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے کسی مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

    گولنکر کی حیرت میں ہر لمحہ اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔

    ’’یقیناً تمہارا گھر ہوگا۔ تمہاری بیوی ہوگی، بچے ہوں گے۔‘‘

    ’’تھے! اب نہیں ہیں۔‘‘ اجنبی نے ایک بار پھر کنویں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

    ’’کہاں گئے۔‘‘

    ’’مر گئے۔‘‘

    ’’کس طرح مر گئے؟‘‘

    ’’جس طرح انسان مرتے ہیں۔ بھوک سے، بیماری سے، قتل سے۔‘‘

    ’’یہ تو عام بات ہوئی خاص طور پر تمہاری بیوی اور تمہارے بچے کیسے مرے؟‘‘

    اجنبی شاید گولنکر کے ضرورت سے زیادہ سوالوں کے جواب دے چکا تھا اس لیے برہم ہو کر بولا،

    ’’میں تمہارے کسی سوال کا جواب دینا نہیں چاہتا۔ تم مجھے مجبور کیوں کر رہے ہو؟‘‘

    ’’کچھ سوالوں کا جواب تم نے اپنی خوشی سے دیا ہے۔ ویسے بھی مجھے تمہارے ساتھ دلچسپی پیداہو گئی ہے تمہارے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    دوستی کے نام پر اجنبی کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور پورے زور سے چیخا، ’’چلے جاؤ یہاں سے۔ تم کون ہوتے ہو میرے ساتھ دوستی کرنے والے۔‘‘

    گولنکر مسکرایا۔

    ’’میں تمہارا دشمن نہیں ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر تم کون ہو؟‘‘ اجنبی سوال پوچھ کر اپنے سوال پر خود حیران ہو گیا۔

    ’’ابھی کچھ دیر پہلے ٹھیک یہی سوال میں نے تم سے پوچھا تھا جس کا جواب دینے سے تم نے انکار کر دیا تھا لیکن میں انکار نہیں کروں گا۔ میرا نام گولنکر ہے۔ میرے نام سے اس شہر کے تمام لوگ واقف ہیں۔ میں مشہور کنواں پھلاگنے والا ہوں۔‘‘

    ’’مجھے تمہارے ساتھ کو ئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

    ’’تمہیں میرے ساتھ دلچسپی ہے اس لیے تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘

    اجنبی کی آنکھوں میں غصے کی بجلی ایک پل کے لیے لہرائی۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ کہا، ’’مجھے کنواں پھلانگنے والوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

    ’’نہ سہی۔ لیکن میں کنواں پھلانگنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتا ہوں۔‘‘

    ’’میں جانتا ہوں تم جو کچھ کرتے ہو جھوٹ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل، زنا بالجبر۔۔۔‘‘

    اجنبی کے یہ الفاظ سن کے گولنکر سناٹے میں آ گیا۔

    ’’شاید تم اپنے کارناموں کی تفصیل پیش کر رہے ہو۔‘‘

    ’’جی ہاں۔ اپنے تمہارے تمام انسانوں کے۔‘‘

    ’’لیکن تمہارے بیوی بچے کیا ہوئے؟‘‘

    اجنبی کی آنکھوں سے ظاہر تھا کہ وہ اس سوال کے جواب سے بھی گزرنا چاہتا ہے۔

    جھوٹ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل۔۔۔

    ’’لیکن انسان کی زندگی صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہے۔‘‘ گولنکر نے اسے درمیان میں ٹوک دیا۔

    ’’میں تمام فلسفوں سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ مت سمجھو کہ تم کنویں پھلانگتے پھلانگتے زندگی کے رازدار بن گئے ہو۔‘‘

    ’’خودکشی سے صرف تمہارا مسئلہ حل ہوتا ہے۔‘‘

    گولنکر کو اجنبی کی باتوں سے جو دلچسپی پیدا ہوگی تھی مزید گہری ہو گئی۔

    ’’لیکن اس زندگی کے اہم مسائل بھی توہیں جو میری اور تمہاری ذات کے مسائل سے زیادہ اہم ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں میں ان سے بھی واقف ہوں ان پر بھی جھوٹ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل، زنا بالجبر حاوی ہیں۔ فرد سے اجتماع تک پہنچتے پہنچتے تفصیلات میں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’فرض کرو تم خود کشی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہو جس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ میں تمہیں ایسا ہرگز کرنے نہیں دوں گا۔ تو کیا تمہارے ذاتی مسائل اور دنیا کے مسائل حل ہو جائیں گے۔‘‘

    ’’مجھے اس سوال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں۔ میں اپنا آخری فیصلہ کر چکا ہوں اور پھر میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ دنیا کا کوئی اجتماعی مسئلہ فیصلہ کن طریقے سے ہمیشہ کے لیے کبھی حل نہیں ہوتا۔ صرف عارضی طور پر حل ہوتا ہے میں صرف اپنا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’تم نادان ہو۔‘‘

    ’’کون جانتا ہے کون نادان ہے۔‘‘

    دونوں آدمی اپنے سوالات اور جوابات میں الجھ گئے تھے تھوڑی دیر کے لیے دونوں خاموش ہو گئے۔ گفتگو کا دوبارہ آغاز اجنبی نے کیا،

    ’’تم یہاں سے چلے جاؤ میں اپنے آخری فیصلے پر فوراً عمل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’اس کا مطلب ہے کہ تم اس سے پہلے اپنے کسی فیصلے پر عمل نہیں کر سکے۔‘‘

    اجنبی کے چہرے پر جھلاہٹ پیدا ہوئی۔

    ’’میں اپنے ہر فیصلے پر عمل کرتا رہا ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر اس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے ہچکچاہٹ کیوں۔ تم اپنا مسئلہ ملتوی کیوں کرنا چاہتے ہو۔‘‘

    اجنبی کے چہرے پر مزید غصے کے آثار پیدا ہوئے، ’’میں نے کہا نہ کہ میں اپنے آخری فیصلے پر فوراً عمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘

    ’’اگر یہ فیصلہ تمہارا آخری فیصلہ ہے اور تم اس پر عمل بھی فوراً کرنا چاہتے ہو تو میری موجودگی سے تمہیں کیا زحمت ہے۔‘‘

    ’’میں اپنی موت کے عمل میں تنہا شامل ہونا چاہتا ہوں۔ تم میری موت کے گواہ نہیں بن سکتے۔ میں یہ حق تمہیں کبھی نہیں دے سکتا۔‘‘

    ’’میں اسے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ زندگی خوبصورت ہے۔ زندہ رہنے کی کوشش کرو۔‘‘

    ’’مجھے تمہارے امید افزا الفاظ بےمعنی نظر آتے ہیں۔ بفرض محال اگر زندگی خوبصورت بھی ہے تو تمہیں اس سے لطف اندوز ہونے کی پوری آزادی ہے تم میرے معاملے میں ٹانگ کیوں اڑا رہے ہو۔‘‘

    ’’اس کا مطلب ہے تم اپنے آخری فیصلہ پر عمل کرنا چاہتے ہو۔ تم خوشی سے خودکشی کرو۔ میں یہاں سے چلتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر گولنکر وہاں سے چل پڑا۔ اجنبی کنویں پر چڑھ گیا اور کنویں کے اندر کودنے کے لیے تیار ہو گیا۔

    گولنکر دو چار قدم چلنے کے بعد رک گیا اور واپس اسی جگہ آ گیا جہاں وہ چند لمحے پہلے کھڑا تھا۔

    ’’میرا ایک آخری سوال باقی ہے۔‘‘

    ’’پوچھو‘‘

    اجنبی نے فاتحانہ انداز میں کہا، ’’تم نے خود کشی کے لیے یہ کنواں کیوں منتخب کیا؟‘‘

    ’’تم نے پھلانگنے کے لیے یہ کنواں کیوں منتخب کیا؟‘‘

    ’’میرے لیے یہ کنواں مناسب تھا۔‘‘

    ’’ٹھیک یہ بات میں کہتا ہوں۔ یہ کنواں میرے لیے مناسب تھا۔‘‘

    اس جواب سے گولنکر کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ لمحہ بھر سوچنے کے بعد اس نے اجنبی سے پوچھا، ’’کیا تم اپنی خودکشی چندمنٹوں کے لیے ملتوی کر سکتے ہو؟‘‘

    ’’آخر تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’میں یہاں کنواں پھلانگنے کی مشق کرنے کے لیے آیا تھا کہ مجھے دو روز بعد کنواں پھلانگنے کے لیے مقابلہ میں حصہ لینا ہے۔‘‘

    ’’تو میں کیا کروں۔ تم سمجھتے ہو۔ اس مسخرے پن سے تم مجھے متاثر کر لوگے۔‘‘

    ’’تمہیں کچھ نہیں کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں جس کام کے لیے یہاں آیا ہوں اسے پورا کرکے جاؤں جہاں تک تمہیں متاثر کرنے کا تعلق ہے۔ تم جہنم میں جاؤ۔ میں تم پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘

    ’’شوق سے پورا کرو۔ لیکن جلدی، کیونکہ میں اپنا فیصلہ زیادہ دیر کے لیے ملتوی نہیں کر سکتا۔ میں اپنے صبر کی انتہاتک پہنچ چکا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اجنبی کنویں کی منڈیر سے ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ گولنکر نے کنویں کی منڈیر سے مخصوص فاصلہ ناپ کر زمین پر کچھ نشان لگائے۔ ایک نشان پر کھڑے ہوکر اس نے اپنی قوتوں کو ایک مرکز پر جمع کیا۔ اپنے جسم کو ٹٹولا اور اس کے بعد دوڑتا ہوا کنویں کی جانب بڑھا راستے میں ایک دوسرے نشان سے اس نے بھرپور جست لگائی۔ اجنبی کے دل کی دھڑکن اس دوران میں تیز ہو گئی۔ جست لگاتے ہی گولنکر کا جسم ہوا میں ایک قوس سی بناتا ہوا کنویں کے اوپر سے گزرنے لگا اور عین اس لمحہ جب اجنبی کی توقع تھی کہ گولنکر کے دوسری طرف ہوگا ایک پرزور دھماکہ ہوا گولنکر کا جسم کنویں کی منڈیر کی اندورنی سطح کے ساتھ زور سے ٹکرایا اور پھر کنویں کی پوری گہرائی کا فاصلہ طے کرتا ہوادھم سے پانی میں جا گرا۔

    اجنبی کی آنکھیں پھیل کر روزن بن گئیں۔ اس کا پورا وجود فطری رد عمل کی زد میں آ گیا اور وہ ڈوبنے والے کی تقدیر سے غافل اپنے ارادوں اور فیصلوں سے غافل، درختوں کے جھنڈ کو چیرتا، سرسبز و شاداب کو اپنے پاؤں تلے روندتا شہر کی جانب بھاگ نکلا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے