Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کنواری

عصمت چغتائی

کنواری

عصمت چغتائی

MORE BYعصمت چغتائی

    اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ لفٹ خراب ہونے کی وجہ سے وہ اتنی بہت سی سیڑھیاں ایک ہی سانس میں چڑھ آئی تھی۔ آتے ہی وہ بےسدھ پلنگ پر گرپڑی اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے خاموش رہنے کو کہا۔

    میں خود خاموش رہنےکے موڈ میں تھی۔ مگر اس کی حالتِ بد دیکھ کر مجھے پریشان ہونا پڑا۔ اس کا رنگ بے حد میلا اور زرد ہو رہا تھا۔ کھلی کھلی بےنور آنکھوں کےگرد سیاہ حلقے اور بھی گہرے ہوگئے تھے۔ منہ پر میک آپ نہ تھا۔ خاص طور پر لپ اسٹک نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار اور بوڑھی لگ رہی تھی۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ میرے بتائے ڈاکٹر کا علاج تسلی بخش ثابت ہوا۔ اس کا پیٹ اندر کو دھنسا ہوا تھا اور سینہ سپاٹ ہوگیا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس قتل کی میں بھی کچھ ذمہ دار ہوں۔ مگر میں ڈاکٹر کاپتا نہ بتاتی تو کوئی اور بتادیتا۔ بن بلائے مہمان کو ایک دن نکالا تو ملنا ہی تھا۔

    ’’ایک مشورہ لینے آئی ہوں۔۔۔‘‘ سانس قابو میں آتے ہیں اس نے کہا۔

    ’’جمعہ جمعہ آٹھ دن بیتے نہیں اور مردار کو پھر مشوروں کی ضرورت آن پڑی،‘‘ میں نے چڑ کر سوچا، مگر نہایت خندہ پیشانی سے کہا، ’’لو، ضرور لو۔ آج کل بہت مشورے میرے دماغ میں بجبجا رہے ہیں۔‘‘

    ’’آپا، میں شادی کرلوں،‘‘ اس نے بڑی لجاجت سے پوچھا۔ گویا اگر میں نے اجازت نہ دی تو وہ کنواری ارمان بھری مرجائے گی۔

    ’’مگر تمہارا شوہر؟‘‘

    ’’موت آئے حرامی پلےکو۔ اسے کیا خبر ہوگی۔‘‘

    ’’یہ بھی ٹھیک کہتی ہو۔ بھلا تمہارے شوہر کو تمہاری شادی کی کیا خبر ہوگی،‘‘ میں نے سوچا۔ ’’مگر تمہاری شادی کے چرچے اخباروں میں ہوں گے۔ آخر اتنی بڑی فلم اسٹار ہو۔‘‘

    ’’فلم اسٹار کی دُم میں ٹھینگا۔‘‘ اللہ گواہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ یہ گالی ہوئی کہ نہیں۔ مدن ایک سانس میں تین گالیاں بکنےکی عادی ہے، مجھے تو اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ گالی جیسا سنائی دیتا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ سوائے چند عام فہم گالیوں کے یہ کل کاریاں میرے پلے نہیں پڑتیں۔

    ’’بھئی ایک بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آتی،‘‘ میں نے بات کی لگام ایک دم دوسری سڑک پر موڑ دی۔ ’’تم شادی شدہ ہو تو تمہارا بچہ حرامی کیسے ہوا؟‘‘

    ’’اوہ، آپا۔ اللہ کا واسطہ، کبھی تو سمجھا کرو۔ کمبخت شادی تو شبو دو سال کا تھا تب ہوئی تھی۔‘‘

    ’’شبو کے باپ ہی سے نا،‘‘ میں نے سہم کر پوچھا۔

    ’’اونہوں، تمہیں یاد تو کچھ رہتا نہیں۔ بتایا تو تھا۔۔۔ وہ کمبخت۔۔۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔یاد آگیا۔۔۔ وہ تمہیں گرہستی کا شوق چرّایا تھا،‘‘ میں نے اپنی کند ذہنی پر شرمندہ ہوکر کہا۔

    ’’بھوسا چرّایا تھا۔ ماں کے خصم نے دھندا کرانا شروع کردیا۔‘‘ ماں کا خصم رشتہ میں کیا ہوا؟

    ’’اونہہ، چھوڑو اس نامراد شادی کاتذکرہ۔ نئی شادی کا ذکر کرو۔ اللہ رکھے کب کر رہی ہو۔ کون ہے وہ خوش نصیب؟‘‘

    ’’سندر!‘‘ اور وہ قہقہہ مار کر قالین پر لوٹ گئی۔

    ایک ہی سانس میں اس نے سب کچھ بتا ڈالا۔ کب عشق ہوا۔ کیسے ہوا۔ اب کن مدارج سے گزر رہا ہے۔ سندر اس کا کس بری طرح دیوانہ ہو چکا ہے۔ کسی فلم میں کسی دوسرے ہیرو کے ساتھ لوسین (Love Scene) نہیں کرنے دیتا اور وہ خود بھی اسے کسی دوسری ہیروئن کے ساتھ رنگ رلیاں نہیں منانے دیتی۔

    ’’آپا، یہ فلم والیاں بڑی چھنال ہوتی ہیں۔ ہر ایک سے لنگر لڑانے لگتی ہیں،‘‘ اس نے ایسے بھولپن سے کہا جیسے وہ خود بڑی پارسا ہے۔ ’’آپا، کوئی چٹ پٹی سی کہانی لکھو۔ ہم دونوں اس میں مفت کام کریں گے۔ مزا آجائے گا،‘‘ اس نےچٹخارا لیا۔

    ’’سنسر سب کاٹ دے گا۔‘‘

    ’’سنسر کی۔۔۔‘‘ اس نے موٹی سی گالی سنسر کی قینچی پر داغی۔ ’’شادی کے بعد کام تھوڑی کروں گی۔ سندر کہتاہے اپنی دلہن کو کام نہیں کراؤں گا۔ چمبور میں بنگلہ لے لیں گے،‘‘ خوابوں کے جھولے میں پینگ لیتے ہوئے کہا اور ایک دفعہ تو مجھے بھی یقین ہوگیا کہ اس کی دنیا بس جائے گی۔ چمبور بنگلے میں وہ بیگم بنی بیٹھی ہویگی۔ بچے اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوں گے۔

    ’’اماں کھانا۔ اماں کھانا،‘‘ وہ چلائیں گے۔

    ’’اےہے ذرا صبر کرو۔۔۔ آلو تو گل جانےدو،‘‘ وہ کفگیر سےانھیں مارے گی۔ تب بچوں کا باپ مسکرائے گا، ’’بیگم کیوں مارتی ہو۔ ابھی بچے ہیں۔‘‘

    ’’بس ایک لونڈا ہوجائے پھر سالے کو شادی کرنی پڑے گی۔‘‘

    ’’تو کیا ابھی شادی نہیں ہوئی؟‘‘ خوابوں کی بستی سےلوٹ کرمیں نےپوچھا۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ جیسے میری اپنی کنواری کی بارات دروازے سے لوٹ گئی۔

    ’’نہیں آپا۔ حرامزادہ ہے بڑا چالاک۔ نہ جانے کیا کرتاہے۔‘‘ وہ دیر تک سندر کو پھانسنے کی ترکیبیں پوچھتی رہی۔ نہ جانے کیوں یہ بات اس کےدل میں بیٹھ گئی تھی کہ اگر بچہ ہوگیا تو سندر کے پیر میں بیڑیا پڑجائیں گی۔

    ’’اور پھر بھی اس نے شادی نہ کی تو؟‘‘

    ’’کرے گا کیسے نہیں، اس کا تو باپ بھی کرے گا۔‘‘

    ’’خیر، باپ کا ذکر فضول ہے، وہ مر بھی چکا۔‘‘

    ’’حرامزادے کی چھاتی پر چڑھ کر خون نہ پی جاؤں گی۔‘‘

    ’’شبو کے باپ کی چھاتی پر چڑھ کرکے کیوں نہ خون پی گئیں؟‘‘

    ’’جب میری عمر ہی کیا تھی۔ الٹی چور سی بن کے بیٹھ گئی۔ بس تم کوئی ایسی ترکیب بتاؤ کہ سالے کی ایک نہ چلے اور۔۔۔‘‘ جو ترکیبیں وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی ان سے مجھے وحشت ہو رہی تھی۔

    مدن کئی بار سندر کو لے کر میرے ہاں آئی۔ سندر اپنے نام کی طرح حسین اور نو عمرتھا، مدن سے کسی طرح بڑا نہ معلوم ہوتاتھا۔ نیانیا کالج سے آیا تو بھوکے بنگالی کی طرح چومکھے عشق لڑانے شروع کردیے۔اسی چھین جھپٹ میں مدن اسے اڑالائی۔ اچھے گھرانے کاقہقہہ باز اور باتونی لڑکا پہلی ہی دفعہ گھر میں ایسا بے تکلف ہوگیا جیسے برسوں سے آتا جاتا ہے۔

    اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ کیوں مدن اسے دل سے بیٹھی۔ اس کی صحبت میں ایک لمحہ بھی اداس نہیں گزرتا تھا۔ مدن جیسی پٹی پٹائی، غم نصیب لڑکی کے لیے ذرا سی نرمی بھی چھلکا دینے کو کافی تھی۔ وہ سندر کے ہر حملے پر بے تحاشہ قہقہے لگاتی۔ وہ بات پر نہیں، اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ پر، لبوں کی جنبش پر مسحور ہوکر کھکھلا پڑتی۔ مسرت کی اچھلتی کودتی موجیں اسے جھکول ڈالتیں۔ سندر کے لب ہلتے اور وہ قہقہہ مارتی، پانی پیتی ہوتی تو اُچھّولگ جاتا، کھانا کھاتی ہوتی تو منہ کا نوالہ سامنے بیٹھنے والے کے اوپر چھڑک دیتی۔

    وہ دونوں نہ جانے اپنا گھر چھوڑ کر میرے ہی ہاں کلیلیں کرنے کیوں آتے تھے، بچوں جیسی شرارتیں کرتے، قلابازیاں کرتے، کبھی روٹھتے، کبھی منتے۔ انھیں دیکھ کر مجھے بکری کے دو کھلنڈرے بچےیاد آجاتے تو پرائے کھیت میں پھدکنے آجاتے ہیں۔ کیا دندناتا ہوا عشق تھا دونوں کا! بے پروں کے ہوا میں اڑے جاتے تھے۔

    جنگلی ہرنیوں جیسے چوکڑیاں بھرتے ہوئے پیار نے مدن کی کایا پلٹ کردی۔ وہ ایک دم بے حد حسین اور جاذب ِنظر بن گئی۔ جلد کے نیچے دیے روشن ہوگئے۔ سوئی ہوئی آنکھیں جاگ اٹھیں، ہزاروں جادو سرگوشیاں کرنےلگے۔ سپاٹ سینہ کھل اٹھا ۔کولہے لہرانے لگے۔ سندر سے کشتیاں لڑ لڑ کر وہ پھرتیلی بن گئی۔

    سندر کی اور مدن کی جوڑی بن گئی، جن فلموں میں وہ سندر کے ساتھ نہ تھی،انھیں ڈفرانا شرع کردیا۔ سیٹ سے بڑے معرکے کےسین میک اَپ روم میں ہونے لگے۔ وہ فلمیں جو آدھی ہوگئی تھیں، چیتھڑا ہوگئیں، مدن نے پہلی بار کسی نوجوان کو دل دیا تھا۔ سب کچھ بھول کر وہ اسی میں ڈوب گئی۔

    سندر اس کے بڑے لاڈ سہتا۔ اس کے چھچھور پر ہنستا۔ اس کے اجڑے ہوئے گھر میں جان ڈال دیتا۔ نانی کو اماں اماں کہہ کر مسکا لگاتا۔ خالہ سے بیٹھ کر غپیں مارتا۔ بھائی کو وھسکی پلاتا۔ بچوں کے ساتھ دھما چوکڑی مچاتا۔ اسے مدن کے جسم سے مطلب تھا۔ اس کی آمدنی اسی طرح منہ بولے رشتہ داروں کے تنور میں جھونکی جاتی تھی۔ شبو کو وہ بہت پیار کرتا۔۔۔ مدن نے اس بدنصیب بچہ کا حال اسے سنادیا تھا۔ وہ اسے بیٹا کہہ کر گود میں بٹھا کر گھنٹوں پیار کی باتیں کیا کرتا۔

    ’’آپا، شبو نگوڑے کو بیٹاکہتا ہے۔ بس تم ہی سمجھ لو کیا بات ہے،‘‘ وہ جھوم کر کہتی اور میرے کانوں میں مدن کی بارات کے ڈھول گونجنے لگتے۔ دیکھنے میں سندر کیسا اوبالی سا تھا۔ مگر بچوں کے معاملہ میں اس کا رویہ حیرت انگیز تھا۔ آتے ہی بچے اسے مکھیوں کی طرح کھیر لیتے۔ اس کی جیبیں کیا تھیں، عمر عیار کی زنبیل تھیں، رنگین پنسلیں، پٹاخوں کی ڈبیاں، کاغذ پر اتارنے کی تصویریں، چاکلیٹ، میٹھی گولیاں، نہ جانے کیا الا بلا نکال کر بانٹنے لگتا۔ ایک دن بچی نے میری سینٹ کی شیشی توڑدی۔ میں نے اسے مارنا چاہا تو میرے ہاتھوں سے اسے جھپٹ کر لے گیا۔

    ’’آپ ماریں گی تو اسے اپنے گھر لے جاؤں گا۔‘‘ وہ اسے کندھے پر بٹھا کر بولا۔

    ’’اس نےمیری شیشی توڑی ہے۔ ضرور ماروں گی۔‘‘

    ’’ہاتھ توڑ دیے جائیں گے مارنے والوں کے۔ یہ لیجیے اپنی شیشی،‘‘ اس نے جیب سے نئی منہ بند ویسی ہی شیشی نکال دی۔ ’’مگر انھیں پوری شیشی نہیں دیں گے۔ آدھی تھی تو آدھی ملے گی،‘‘ اس نے شیشی کھول کر خوب بچوں کے بساندے کپڑوں اور میلی ہتھیلیوں پر چھڑکی۔ آدھی رہ گئی تو میرے سامنے ڈال دی۔ جب وہ بچوں کو بٹور کر دوسرے کمرے میں چلاگیا تو مدن نے روکر میرے شانے پر سرڈال دیا۔

    ’’آپا، ایسے اوٹ پٹانگ آدمی کےساتھ کوئی پیار کیسےنہ کرے؟‘‘

    اور پھر مدن کی زندگی نے ایک نیا جھٹکا کھایا۔ سندر کے گھر سے تار آیا کہ ماں سخت بیمار ہے، فوراً آجاؤ۔ مدن ساتھ جانے کے لیے مچل گئی۔ اس نے اپنے ترکش کے سارے تیر استعمال کرڈالے۔ شام سے ہی اس کے لیے وھسکی کی بوتل لے کر پہنچی۔ اسے دُھت کردیا۔ بڑے نازک لمحوں میں ساتھ لے جانے کی قسمیں دیں۔ مگر سندر ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ ساری رات جاگتی رہی۔ نہ سوئی، نہ سونے دیا۔ مگر صبح ہوتے ہی پرندہ ساری تتلیاں جھٹک کر اڑگیا۔

    ایروڈروم سے سیدھی میرے اوپر نازل ہوئیں۔ مجھے اس قسم کے مریل عاشقوں سے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ مگر اسے یوں تباہ حال دیکھ کر میرا جی پسیج گیا۔ جیسے برسوں کی بیمار۔ ایک ہی رات میں آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے۔ منہ پر پھٹکار۔ یہ اسے ہوکیا گیا ہے،میں دیر تک سوچتی رہی۔

    میں کیوں اس کمبخت کے بارے میں سوچوں۔ دنیا میں کتنے بڑے بڑے مسئلے ہیں جن میں جی الجھا ہواہے۔ پھر آخر میں اس کاخیال کیوں کرتی ہوں۔ میں یہ سب کچھ کیوں لکھ رہی ہوں۔ مدن اس لائق نہیں۔ مجھے اپنا جی ہلکا کرنےکے لیے ہی سہی، اس بوجھ کو