Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لاری میں

MORE BYکیپٹن سید فیاض محمود

    منور ایک سادہ سا آدمی ہے۔ میرا اس کا تعارف، تین سال ہوئے ایک دوست کے ہاں چائے کے موقع پر ہوا تھا۔ اس کے بعد اتفاق ایسا ہوا کہ کسی نہ کسی جگہ ہماری ملاقات ہوتی رہی اور اب دو سال سے کچھ زیادہ ہی عرصہ ہوا کہ میری اس کی خاصی اچھی دوستی ہو گئی ہے۔ وہ اکثر میرے ہاں آ جاتا اور ہماری لمبی چوڑی گفتگوؤں کا سلسلہ جاری ہو جاتا۔

    دیکھنے میں منورمیا نہ قد اور سانولی رنگت کا نوجوان ہے۔ اس کی عمرغالباً ۲۳۔ ۲۴ سال کے درمیان ہوگی۔ کچھ عرصہ ہوا وہ ’’جنگلات‘‘میں ملاز م ہو گیا ہے۔ وہ خوش پوش ہے اور چونکہ اس کا جسم سیدھا اور ورزشی ہے، اس لیے وہ جامہ زیب بھی ہے۔ چلتے ہوئے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کپڑے مانگے کے ہیں۔ شکل وشباہت میں اگرچہ کوئی خاص نقش قابل ذکر نہیں مگر بحیثیت مجموعی خوش شکل ہی معلوم ہوتا ہے۔ مگر دو ایک چیزیں اس کی البتہ ضرور جاذب نظر ہیں۔ ایک تو اس کے بال اور دوسرا تبسم۔

    بال اس کے گھنگھریالے نہیں مگر دو ایک خم ان میں قدرتی طور پر اس طرح قائم ہو جاتے ہیں کہ دیکھنے والے پر اچھا اثر ڈالتے ہیں۔ پھر اس کی آنکھیں اتنی شرمیلی ہیں جیسے کسی لڑکی کی ہوں۔ ان سے فقط یہی اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی میں اس کے تجربات علمی اور تخیلی ہی ہیں۔ یوں اچھا پڑھا لکھا شخص ہے اورخصوصیت سے اقتصادی اور سیاسی مسائل سے اسے بہت انہماک ہے۔ اکثر انہی مضامین کی کتابیں پڑھتا ہے اور اس کی گفتگو ان ہی مسائل کے مختلف پہلوؤں کے متعلق ہوتی ہے۔

    ہماری باتوں میں اگرچہ سماجی زندگی کے کئی ایک پہلو موضوع بنے ہیں مگر نسوانی موضوع پرہم نے بہت کم تبادلہ خیالات کیا ہوگا، کیوں کہ منور اگرچہ اپنے خیالات میں کافی حد تک جدید بلکہ انقلاب پسند ہے مگر عورتوں کے معاملہ میں وہ شرمیلا ضرور ہے۔ اس لیے اس نے اگرچہ معاشرتی اور متعلقہ امور پر کئی دفعہ بحث کی ہوگی لیکن اپنے ذاتی خیالات یا محسوسات یا تجربات کی بابت اس نے مجھے بہت کم بتایا ہے۔ کبھی کبھی برسبیل تذکرہ اگر ذاتی معاملات پر ذکر چھڑ جاتا تو وہ رک رک کے شرما شرما کے تھوڑا بہت اپنی بابت اور کسی واقعہ کے متعلق کچھ بتاتا، جس سے میں نے یہ اندازہ کیا کہ اسے کسی سے کبھی محبت ہوئی بھی ہوگی تو بےزبان گہری قلبی بلااظہار اور اس لیے پرحسرت یعنی بےاثر اور چونکہ میری عادت نہیں کہ دوسروں کے راز کریدتا رہوں اور اس کی شخصیت باوجود اس حجاب کے بھی کافی دلچسپ ہے۔

    اور چونکہ دور حاضرہ کے عمرانی اور سیاسی معاملات میں اس کی رائے قابل وقعت اور اس کی معلومات وسیع ہیں اور اس کے خیالات اور تجاویز بہت دلچسپ ہوتی ہیں اور چونکہ ذاتی طور پر بھی وہ ایک دل پسند طبیعت کا مالک ہے، اس لیے ہمارے تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔ یہ کہانی اس کے متعلق ہے مگر نہ اتنی کہ اس کے جان پہچان والے اسے پڑھ کر مذاق کرتے پھریں اور اس موقع کو اب ایک سال ہونے کوہے اور یہ تومیں نہیں کہہ سکتا کہ خود منور اسے بھول گیا ہے، مگر چونکہ میں نے اس سے بھی کہہ دیا تھا کہ میں۔۔۔ اسے کسی نہ کسی دن لکھ دوں گا، اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اب اس واقعہ کے اعادہ سے ناراض نہیں ہوگا۔

    ایک دن غالباً فروری کے مہینے میں منور شام کے وقت مجھ سے ملنے آیا۔ ہمیں ملے دو ہفتے سے زیادہ ہو گئے تھے، اس لیے اس کا آنا باعث مسرت تھا اور میں نے بہت اشتیاق سے اس کا خیرمقدم کیا مگر میں نے دیکھا کہ اس کا انداز کچھ بشاش نہیں ہے بلکہ اگر پژمردہ نہیں تو خاموش اور غیرمعمولی طور پر متین ضرور ہے۔ میں نے کہا خیریت توہے؟ کہنے لگا، نہیں بات تو کوئی نہیں ہونی چاہئے مگر طبیعت ضرور پریشان ہے۔ چونکہ عادتاً وہ قدرے راست گو واقع ہوا ہے۔ میں سمجھ گیا ضرور کوئی وجہ ہے۔ چنانچہ میں نے کہا اتنے دن کہاں رہے؟ بیس ایک دن ہو گئے تمہیں دیکھا نہیں۔ کہنے لگا یہیں تھا۔ کچھ دنوں کے لیے گوجرانوالہ ایک کام کو گیا تھا۔ میں نے یہ تو نہ پوچھا کہ کام کیا تھا مگر مجھے محسوس ہوا کہ گوجرانوالہ کا لفظ ادا کرنے میں اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔ کم از کم فرق ضرور تھا، جیسے کوئی بات اس لفظ کے ادا کرنے میں مانع ہو۔

    میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ میراشک درست تھا یا نہیں مگر اس کی آواز میں ارتعاش کے علاوہ کچھ تلخی کی آمیزش بھی تھی۔ بہرحال میں نے اس سے گوجرانوالہ کے متعلق مطلقاً کچھ نہ پوچھا، محض ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا مگر وہ معمول کے خلاف کچھ باتیں کرکے چپ ہو جاتا۔ وہ ایک دفعہ جب میرے سلسلہ کلام کو جاری کرنے پر بھی چپ رہا تو میں نے اس سے بہت زور سے پوچھا کہ بھئی کیا ہو گیا ہے۔ کوئی وجہ ضرور ہے جو اتنے ملول ہو۔ کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو مجھے بتاؤ، شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں اور اگر میں کچھ نہیں بھی کر سکتا تو کہہ ڈالو، شاید تمہارا دل ہی ہلکا ہو جائے۔ اس پر اس نے مجھے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا مگر میں جان گیا کہ اس کی آنکھیں تھکی ہوئی ہیں اور اس کی نگاہ لاابالی ہے۔ آخرکار تھک کر میں نے ذرا سختی سے پوچھا کہ بھئی کیوں گھلے جا رہے ہو۔ ذرا ہمیں بھی بتاؤ۔ جب بہت اصرار کیا تو اس نے یہ واقعہ سنایا۔

    ’’تمہیں یاد ہوگا ابھی کچھ منٹ ہوئے میں نے تم سے گوجرانوالہ کا ذکر کیا تھا۔ مجھے وہاں کام تھا۔ واپسی پر تو مجھے گاڑی واڑی کا وقت یاد نہیں تھا۔ میں لاریوں کے اڈے پر چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ کسی بس سروس کی لاری بس دو منٹ میں چلنے والی ہے مگر شاید جانتے ہو بس سروسوں کی لاریاں دور دور مقاموں کے درمیان چلتی ہیں۔ یہ لاری لاہور اور سیالکوٹ کے درمیان چلتی ہے۔ چنانچہ جب ٹکٹ لے کر بیٹھنے لگا تو دیکھا کہ اگلی نشست تو رکی ہوئی ہے۔ درمیانی درجہ یا حصہ بھی کسی ہندو خاندان سے اٹا پڑا تھا۔ غالباً کسی برات پر جانے والی مستورات بیٹھی ہیں۔ اگر آپ پیچھے بیٹھ جائیں تو نواز ش ہوگی۔ میں نے خیال کیا کہ شاید سارا درجہ ہی محفوظ کرا رکھا ہے مگر لاری میں اب تک کبھی پچھلے حصہ میں نہیں بیٹھا۔

    کچھ مجھے تامل ہوا مگر ڈرائیور کہنے لگا، صاحب بیٹھنا ہے توبیٹھے رہئے۔ گاڑی چلنے والی ہے۔ چنانچہ طوعاً و کرہاً میں پچھلے حصہ میں داخل ہو گیا۔ ٹکٹ بھی لے چکا تھا۔ یہ بھی خیال تھا کہ جانے دوسری لاری کب چلے اور پھر پچھلے حصہ کی دائیں جانب کی وہ نشست جو بالکل درمیانی حصہ کے ساتھ لگتی تھی یاکم از کم وہاں ایک مسافر بیٹھ سکتا تھا۔ چنانچہ میں اسی نشست کی طرف لپکا اور بیٹھ گیا۔ اب جو اطمینان سے نظر اٹھاکر اردگرد دیکھا تو معلوم ہوا کہ نشست بھی کوئی بری نہ تھی۔ میرے دائیں طرف برات والیاں بیٹھی تھیں اور خو ش قسمتی سے ان میں سے جن کی پشت میری طرف تھی ان میں ایک وہ لڑکا تھا۔ ایک اس کے ساتھ پانچ ایک برس کی پیاری چھوٹی بچی تھی اور ایک بوڑھی عورت اور ایک لڑکی جس کی عمر کوئی سات برس کی ہوگی۔ البتہ جونشستیں اب میرے مقابل تھی۔۔۔ مقابل ہی سمجھو نا، کیوں کہ میں تقریباً انہیں کی طرف رخ کرکے بیٹھا تھا یعنی بیٹھا تو آڑا تھا مگر میں انہیں بآسانی دیکھ سکتا تھا اور وہ سب میری طرف دیکھ سکتی تھیں۔ اگر چاہتیں یعنی کہ۔۔۔

    میں پہلے شاید کہہ چکا ہوں کہ یہ خواتین کسی برات میں جا رہی تھیں اور جب اس پر اس امر کا خیال کیا جائے کہ وہ ہندو عورتیں تھیں توتم اندازہ کر سکتے ہو کہ لباس کے لحاظ سے توو ہ سب کی سب جگمگا رہی ہوں گی اور خصوصیت سے ایک تو شاید تازہ شادی شدہ تھی یا کم از کم اسے ایک سال سے زیادہ تو ہرگز نہیں ہوا ہوگا، کیوں کہ ایک تو اس کے کپڑے ہی سب سے اچھے تھے اور پھر زیور کے لحاظ سے بھی وہ سب سے ممتاز تھی اور یوں تو گویا تم جانو میرے لیے تو اس کے سوا وہاں گویا اور کوئی تھا ہی نہیں۔ میں نے ایک دو نظر میں سب کو دیکھ لیا اور پھر اس کو بھی جس کی پشت میری طرف تھی۔ لڑکے کی پشت میری طرف تھی، اس لیے اس طرف سے تسلی تھی۔ اس کے ساتھ کی سواری وہ ننھی منی سی لڑکی تھی۔ جانتے ہو اتنی عمر کا بچہ کبھی نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ چنانچہ سب سے پہلے جس نے میری توجہ اپنی طرف منعطف کرائی، وہ یہی لڑکی تھی، جسے وہ بار بار جو سامنے کی نشست پر کونے میں بیٹھی تھی، یہ کہہ کے چپ کراتی تھی، ارے چاند تو آرام سے تو بیٹھ۔

    چاند رانی معلوم ہوا، اس چھوٹی سی سرخ گالوں والی شوخ لڑکی کا نام تھا۔ کرتی وہ کیا تھی؟ یہ پوچھو وہ کرتی کیا تھی؟ کبھی اٹھتی کبھی بیٹھتی اور ہر وقت اپنی چھوٹی سی ریشمی اوڑھنی کو اپنے سر کے گرد لپیٹنے میں مشغول رہتی۔ پھرایک جیب میں سے جو کافی پھولی ہوئی تھی، ایک بڑا سا ریشمی رومال نکال کرچوسنے والی مٹھائی کی ایک گولی نکالتی اور رومال کو پھر جیب میں ٹھونستی اور مٹھائی کو منہ میں ڈال کے اپنے دوپٹہ کو، جو اس اثنا میں ضرور سرپر سے اتر گیا ہوتا، سنبھالنے لگ جاتی یا اپنی جگہ کھڑے ہوکر پیچھے حصہ کی طرف منہ کرکے ہم سب کی طرف ایک ایک نظر غور سے دیکھ کر پیچھے کی کھڑکی سے سڑک اور ہٹتے ہوئے درخت کو دیکھتی رہتی مگر ایک منٹ سے زیادہ نہیں۔

    اس کا دہن چھوٹا سا تھا اورجب وہ پیچھے دیکھتی تومنہ میں گولی ہونے کے باعث اس کے ہونٹ ضرور ملے ہوئے ہوتے۔ منہ بس ایک ننھی سی گلاب کی کلی معلوم ہوتا اور چونکہ توجہ اس کی یا سڑک کی طرف یا کسی اور چیز کی طرف مرکوز رہتی، اس لیے چہرہ جو عام طور پر جب اس کی ماں یا مومانی یا ماموں کی طرف ہوتا، شوخی اور شرارت اور ہنسی خوشی سے چمکتا ہوتا، اس قدر متین نظر آتا کہ میں نے موٹر کے چلنے کے پانچ منٹ کے اندر اندر اس سے واقفیت پیدا کر لی اور وہ اس طرح کہ جب وہ ہماری طرف دیکھ رہی تھی تو میں نے آہستہ سے ایک انگلی سے اس کے دائیں گال کو سہلا دیا۔

    پہلے تو ایسا کرنے پر وہ ایک دفعہ شرماکر اور تھوڑا بہت غصہ کرکے فوراً ہی منہ دوسری طرف کر لیتی مگراس کے ایسا کرنے پر بھی اسے دوپٹہ درست کرنے کی ضرورت پیش آتی تو میں موقعہ پاکر اس کے دائیں گال کو جو اب میرے نزدیک تر ہوتا، سہلا دیتا۔ اس پر وہ اتنا لجا جاتی کہ دوہری ہوکر گول مول ہو جاتی مگر نچلا بیٹھنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ و ہ مجھے بھول کر اور میرے چمکارنے یا گدگدانے کو بھول کر اپنی ماں سے یا اپنی ممانی سے جو بالکل اس کے سامنے بیٹھی تھی، سوال وجواب میں مشغول ہو جاتی۔

    میں نے چاند کے متعلق اتنی لمبی تمہید اس لیے دی ہے کہ دراصل میرے اس واقعہ یا سانحہ کی روح اگر چاند نہ تھی تو وسیلہ ضرور تھی۔ اس لیے بائیں طرف جو بوڑھی عورت بیٹھی تھی، وہ اتنی کم سخن تھی کہ مجھے یاد نہیں اس نے ایک دفعہ بھی کچھ کہا ہو۔ اگرچہ کچھ نہ کچھ تو وہ بولی ہوگی۔ چاند کے سامنے والی پشت پر جوتین فرد تھے، ان میں سے معلوم ہوا کہ جو عورت لڑکے کے سامنے بیٹھی تھی، وہ چاند کی نانی تھی، پھر چاند کے سامنے اس کی ممانی اور پھر اس کی ماں جس کی گود میں دودھ پیتا بچہ تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ برات سے واپس جا رہی تھیں یا برات کو جا رہی تھیں۔ غالباً کسی شادی سے واپس آ رہی تھیں۔

    چاند سے چھیڑچھاڑ شروع کرنے سے پہلے ہی میں نے اس کے سامنے بیٹھنے والی کو نظ ربھر دیکھ لیا تھا اور جو میں نے دیکھ لیا تھا، وہ یہ کہ اس کی عمر بیس اکیس سے بمشکل زیادہ ہوگی۔ گول چہرہ، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، گلابی ہونٹ، چھوٹی سی خوش قطع ناک اور چھوٹے چھوڑے مگر خوب جڑے ہوئے سفید دانت جو اکثر جھلکتے ہی رہتے تھے۔ باقی رہے کپڑے، سو ان کا عالم یہ تھا کہ گلابی رنگ کا بنارسی دوپٹہ تھا اور آتشی گلابی کمخواب کا سوٹ اور کامدانی گرگابی۔ قمیص پر ہلکے زرد رنگ کا اونی سوئٹر کوٹ اور زیور؟ زیور کا ٹھکانا ہی نہیں تھا۔ کڑے بھی تھے اور چوڑیاں بھی اور گھڑی پہنچی بھی جس میں اوم بنا ہوا تھا اور جسے شاید نفیسیاں بھی کہتے ہیں اور گلے میں ہار اور نیکلس۔ ہاتھوں میں انگوٹھیاں، کانوں میں لمبے لمبے بندے، دوپٹے کے اوپر جوگیا رنگ کی چادر۔ لباس سے ہی ظاہر ہوتا تھا کہ شادی کو بہت عرصہ نہیں ہوا اور یہ بھی کہ کسی امیر گھرانے کی بہو ہے۔

    جو چیز اس کی ہر وقت سامنے رہتی ہے، وہ اس کی مسکراہٹ ہے۔ ہروقت اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکاسا تبسم کھیلتا رہتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ ہونٹ بنے ہی مسکراہٹ کے لیے ہیں اور پھر اس کی مسکراہٹ کے لیے۔ تم نے بہت سی خوبصورت لڑکیوں کو مسکراتے دیکھا ہوگا۔ اچھا بہت سی کو نہیں، توکچھ تو ضرور دیکھی ہوں گی اور شاید لڑکی ہی جو ان ہوکر مسکرا سکتی ہے یا کم از کم عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے مگر دراصل یہ خیال غلط ہے اور لوگوں کی بےوقوفی نہیں تو تجربہ کاری پر مبنی ہے۔ ورنہ میری بھی چوبیس سال کی عمر ہے۔ میں بھی تو کبھی ایسی مسکراہٹ دیکھتا! تبسم کیا تھا حسن کا رقص تھا، نشہ تھا نشہ۔۔۔ آنکھیں! وہ اتھاہ گہرائیاں! ان میں جھجک بالکل نہ تھی۔ ان میں اطمینان، سکون، غرور، احساس حسن تھا اور ظاہر تھا کہ وہ جانتی تھی کہ ان میں جاذبیت ہے اور میرا ان کے سامنے جھک جانا یامجھے اس کے حسن کا اعتراف کرنا لازمی تھا۔ بےباکی، خود اعتمادی!میں تمہیں کیا بتاؤں میں تو نہ دیکھ سکا۔ یقین جانو میں تو شرما گیا۔

    پہلے تو میں نے سرسری طور پر محسوس کیا تھا کہ وہ خوبصورت ہے مگر چونکہ لاری ابھی چلی ہی تھی، میں نے زیادہ عجلت نہ کی اور اس کے درجے کی باقی عورتوں کو اچھی طرح دیکھا کیا اوران کی باتیں سنتا گیا مگر اس کو دیکھنے کا اچھی طرح موقع نہ آیا تھا۔ دوسرے چاند رانی ہی مجھے اپنی طرف مشغول رکھنے میں کافی تھی۔ ایسی پیاری اور سرخ وسپید اور شوخ کہ پہلے پانچ منٹ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میں اسی میں مشغول رہا۔ ایک دفعہ جو وہ گول مول بنی سمٹی سمٹائی اپنے آپ کو دوپٹہ میں لپیٹتی جا رہی تھی اور میں کبھی یہاں کبھی وہاں انگلی سے گدگدا رہا تھا تو میری نظر اٹھ کراس کی ممانی پر جا پڑی۔ اتفاق سے وہ بھی میری طرف دیکھ رہی تھی اور مسکرا بھی رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں سے جو میری نظر اٹھ کر اس کی آنکھوں میں گر پڑی تو میں کچھ دیر کے لیے چاند رانی اور لاری اور برات اورسب کچھ بھول گیا۔ معلوم نہیں میں ایک منٹ دیکھتا رہتا تو کیا ہو جاتا۔ میں تو پانچ سکنڈ سے زیادہ نہیں دیکھ سکا ہوں گا مگر تمہیں کیا بتاؤں کہ ان آنکھوں میں کیا دیکھا۔

    شاعر تو پیٹتے رہتے ہیں۔ شرمائی ہوئی باحیائی کنواری نظر کو میں کہتا ہوں ان نظروں کو کیا دیکھنا آئے جو شرم وحیا سے آپ ہی بند ہوئی جاتی ہوں۔ آنکھیں تو وہ تھیں! میں کبھی نہیں بتا سکتا کہ ان آنکھوں کا یقین، ان کی بے حجابی ان کی گویا ’’معلومیت‘‘ جیسے کہ مرد عوررت کا فرق اجنبی اور غیرمحرم کی غیریت سب پردے فضول ہیں اور دیکھنے والی آنکھ کے سامنے سب پردے عریاں ہیں۔ یقین کر لو مجھے تو اپنی نظر سے شرم آ گئی۔

    مجھے محسوس ہوا کہ گویا اسے معلوم ہے کہ میری نظریں کیا کہہ رہی ہیں؟ کس چیز کی خواہش کر سکتی، کون سی چیز اسے مل سکتی ہے۔ مرد عورتوں کو کس نظر سے اور کس لیے دیکھتے ہیں اور ان سے کس چیز کے طالب ہوتے ہیں۔۔ اور ستم یہ تھا کہ اس جاننے والی نظر کے باوجود ابھی اس کی آنکھیں ایک جوان لڑکی کی آنکھیں تھیں اور اس کی مسکراہٹ میں شباب کا تمام نشہ موجود تھا۔‘‘

    یہ کہہ کر بےچارہ منور اٹھ کھڑا ہوا اور بےچینی سے دو قدم ادھر اور دو قدم ادھر پھرا۔ پھر یک دم جیسے چونک کر بیٹھ گیا اور ایک کمزور سی مسکراہٹ سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں خوب غور سے اس کی کہانی سن رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ جتنا حساس وہ ہے اور مجھے اس کے احساسات کے ساتھ ہمدردی بھی تھی، اگرچہ اس سے قبل اس نے کبھی اپنی جذباتی زندگی سے مجھے اچھی طرح روشناس نہیں کیا تھا۔ میں حیران ضرور ہوا کہ یہ خاموش سا شرمیلی آنکھوں والا نوجوان جس چیز سے اتنا متاثر ہو گیا ہے، اتنی جاذب تھی بھی یا نہیں؟ مگر منور پھر شروع ہو گیا تھا،

    ’’میں نے تواپنی آنکھیں نیچی کر لیں مگر نہ جانے وہ مجھے کتنا عرصہ دیکھتی رہی یا شاید اس نے دوبارہ دیکھنا شروع کر دیا ہوک، یوں کہ جب کچھ دیربعد میں نے پھر اس کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اب کی دفعہ میں نے اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا بلکہ میں اس کے ہونٹوں، اس کے چہرے، اس کے ہاتھوں کی طرف جن میں سے ایک میں رومال پکڑا ہوا تھا، دیکھتا رہا۔ کلائیوں پر اس نے نفیسیاں پہن رکھی تھیں۔ نفیسیوں کی طرف میں اس لیے بھی غور سے دیکھتا رہا کہ میں اول اول یہ نہ معلوم کر سکا کہ ان کے درمیان سرخ سے جو نقوش بنے ہوئے ہیں وہ کیا ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ اوم ہے۔ مگر اس کے بعد پھر جو میں نے نظر اٹھاکر اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں پھر میری جانب دیکھ رہی تھیں۔

    میں نے قدرے بےچینی سے اپنے بائیں طرف دیکھا کہ شاید وہ کسی اور کی طرف دیکھ رہی ہو مگر نہیں، میں نے محسوس کیا کہ یہ پلکوں سے آدھی آدھی ڈھکی ہوئی آنکھیں جن کی چمک اور نظر، عمق اور وثوق پلکوں میں سے چھن چھن کر مجھ تک پہنچ رہا تھا، میری طرف ہی جھکی ہوئی ہیں اور دو نگاہیں میرے جسم، دماغ اور دل سے گزر کر میری تمام حسیات کو بےنقاب کرکے کمال آسانی اور اطمینان اور لطف سے ایک کتاب کی طرح پڑھ رہی ہیں۔ شایدیہ سب کچھ اس ترتیب سے مجھے اسی وقت نہ سوجھا ہو مگر یہ احساس اسی وقت کا ہے۔ شاید بعد میں میں نے سوچ اور فکر میں ان احساسات کو ترتیب دے دیا ہو، کیوں کہ اب تو مجھے یاد یہی آتا ہے کہ وہ نظریں گویا بہت ہی حلیم نظریں تھیں۔

    اس کے کافی عرصہ بعد یعنی تقریباً دس منٹ تک اس نے میری طرف نہیں دیکھا، مطلقاً نہیں۔ مگر اس اثنا میں میں چاند رانی سے بہت بےتکلف ہو گیا تھا۔ اب وہ میرے گدگدانے یا ہاتھ لگانے سے اتنی سمٹتی نہ تھی بلکہ اگرچہ بظاہر میری توجہ اور چھیڑچھاڑ سے اب تک ناپسندگی یا حجاب کا اظہار کرتی تھی مگر مجھے معلوم تھا کہ اس نے گویا مجھے قبول کر لیا ہے اور وہ بھی نہایت غیرجانب داری سے اپنی توجہ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے افراد کی طرف رکھتی تھی اور آدھی یا میری طرف یا ان اطراف اور اشیا کی طرف جن سے میں اس تک پہنچ سکوں۔

    لطف یہ تھا جیسا کہ میں کہہ رہا ہوں، جب کبھی میں اسے چھیڑتا، گدگداتا یا اس کے گال یا بالوں کو سہلاتا تو منہ وہ ایسا ہی بناتی تھی جیسے کہ میرا ایسا کرنا اسے ناپسند ہے اور اگر میں دو منٹ تک بھی اس کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لیتا تو وہ اس اجتناب کومحسوس کر لیتی اور کنکھیوں سے میری طرف دیکھ لیتی اور اور لاری کے پچھلے حصہ کی طرف منہ کرکے اپنی نشست پر کھڑی ہو جاتی اور بغیر ادھر ادھر دیکھنے کے سیدھی پیچھے ہٹی ہوئی سڑک یا اس پر گزرتے ہوئے لوگوں یاچھکڑوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہی مگر دراصل مجھے معلوم ہوتا کہ اسے انتظار اس بات کا تھاکہ کب میں اس سے پھر کھیلوں۔

    ان دونوں کے علاوہ جیسا کہ میں کہہ چکاہوں کہ چاندکی والدہ بھی اس کی ممانی کے دائیں طرف بیٹھی تھی اورجب میں چاندکی طرف نہ دیکھتا اور جب میں اس کی ممانی کی طرف نہ دیکھ سکتا تو چاند کی طرف دیکھتا رہتا۔ مجھے یاد ہے کہ اس ڈیڑھ یا پونے دو گھنٹوں کے سفر میں ایک گھنٹہ سے زیادہ میں چاند کی والدہ کی طرف دیکھتا رہا ہوں، یا اس کی باتوں کو سنتا رہا ہوں مگر میں مانتا ہوں کہ بعض عورتوں میں نہ دیکھتے ہوئے دیکھنے کا ملکہ بھی کامل طور پر موجود ہوتا ہے، کیوں کہ اس عورت کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہاہوں اور اس کی باتوں کو غور سے سن رہا ہوں مگر اس نے ایک مرتبہ بھی دانستہ طور پر میری طرف نہ دیکھا۔

    اب شاید تمہیں یہ خیال ہو کہ اتنی مدت تک ایک عورت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہنا بدتمیزی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہ آداب کے خلاف ہے اور شاید تم جانتے ہوکہ میں ایسی حرکت عام طور پر کرنے کے نا قابل ہوں بلکہ اگر کہیں میرا گزر ایسے گلی کوچے سے ہو جائے جہاں عورتیں بیٹھی ہوں یا موجود ہوں تو میرے لیے وہ بیس پچیس قدم مصیبت بن جاتے ہیں اور میں نے آج تک کبھی اچھی طرح نظر اٹھاکر نہیں دیکھا مگر یہاں بات جو میری معاون تھی، وہ یہ تھی کہ اس عورت نے گویا میری طرف نہ دیکھنے کا عہد کر رکھا تھا۔ شاید چھچھلتی ہوئی نظر مجھ پر سے پڑ کر گزر گئی ہوگی، کیوں کہ آخر میں تو چاند رانی کے عین پیچھے اور اسی سمت میں بیٹھا تھا اور وہ کونے میں ترچھی تقریباً میری طرف رخ کئے بیٹھی تھی اور اس لیے بھی کہ وہ تمام وقت ہی چاند کی ممانی اور نانی اور چوتھی عورت جو چاند کے ساتھ بیٹھی تھی، اس سے تیز تیز لہجے میں باتیں کرتی رہی۔ پہلی باتیں جن سے رفتہ رفتہ ان سب کا رشتہ آپس میں معلوم ہوا، وہ تھیں۔

    دوسروں سے وہ کہہ رہی تھی، ہائے ہائے یہ کیا طریقہ ہوا۔ پورن کی ماں نے شام دیوی کے بیاہ پر مجھے دو لڈو اور تھوڑے سے مرمرے بھیجے تو کس کے ہاتھ؟ اپنی چھوٹی کانتی کے ہاتھ۔ میں نے کہا میں تو لیتی نہیں۔ میں تو نہیں لیتی۔ بھیجا تو دوسرے دن اور آپ تو نہ آ سکی۔ بھیجا تو بالشت بھر کی لڑکی کے ہاتھ۔ میں نے کہا میں کیوں لوں، برابر کی شریک ہے۔ میں کیوں نیچی ہوں۔ دو لڈو اور مٹھی مٹھائی! اور کانتی کے ہاتھ میں نے تو کہہ ہی دیا تھا کہ لے جا مار اپنی ماتا کے سر پر کہ چاند کے پتاجی بیٹھے تھے۔ کہنے لگے تم تو ناحق ناراض ہوتی ہو تمہیں وہ خود دینے نہیں آئی تو تمہارے ہاں کچھ ہوگا تو بھی نہ جانا، تم بھی چاند کے ہاتھ بھیج دینا۔ میں نے کہاکہ اچھا میں بھی چاند کے ہاتھ ہی بھیجوں گی (اور دودھ پیتے بچے کو ہاتھ لگا کے) میں بھی کاکاجی کے ہاتھ ہی بھیجوں گی۔

    میں نے کہا چاند کے پتا جی سے میں چاند کے ہاتھ بھی کیوں بھیجوں گی۔ میں بھی نوکر کے ہاتھ بھیجوں گی۔ یہ بھی کیا طریقہ ہوا! پورن کی ماں تو لین دین اور بھاجی کا کوئی طریقہ آتا ہی نہیں۔ مٹھائی بھیجا بھی تو چٹکی سی اور کانتی کے ہاتھ۔ میں بھی نوکر کے ہاتھ ہی بھیجوں گی۔

    جس تیزی سے اور اشاروں اور اعضا اور نقوش کی حرکت کی مدد سے اس نے یہ سب کچھ کہا، وہ میرے لیے اتنا دلچسپ تھا کہ میں تومبہوت ہوکر اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس لیے بھی کہ زیادہ دفعہ چاند کی ممانی کی طرف دیکھنا بھی مخدوش تھا۔

    اب چاند کی ماں اپنی ماں یعنی چاند کی نانی سے کہہ رہی تھی، آپ سے میں نے کئی دفعہ کہا آپ لاہور آئیں تو آپ کو قلعہ دکھاؤں۔ میں چڑیا گھر دکھاؤں۔ میں انارکلی دکھاؤں۔ میں سنیما دکھاؤں۔ آپ تو آئی ہی نہیں۔ اب چلی ہیں توہم سب کل چلیں گے۔ تین تانگے لیں گے تین۔ دومیں توہم سب نہ آ سکیں گے۔ سویرے کھانا کھاکر دس بجے گھر سے نکلیں۔ سارا دن سیر کریں گے۔ شام کو آپ کو نہر بھی دکھائیں گے۔ اب تو سردیوں میں وہاں رونق نہیں ہوتی۔ گرمیوں میں توشام کو وہاں میلہ لگا رہتا ہے۔ ابھی وہ یہیں تک تھی کہ وہ لڑکا بولا، توبہن جی ماتاجی نے کبھی شالامار بھی نہیں دیکھا ہوگا اور سنیما بھی، تو آج کل ’’مہاتما‘‘ جیسی فلم آئی ہوئی ہے۔ ماتاجی نے کبھی سنیما دیکھاہی نہیں۔ افسوس ہے میرا تو امتحان قریب ہے، ورنہ میں بھی ساتھ رہتا۔ مگر آپ تو ساتھ ہوں گی۔ انہیں سنیما تو دکھائیے اور بھائی جی بھی تو شام کو دفتر سے آ جائیں گے۔ اس پر ان کی والدہ نے کہا، میں تو لاہور آتی، اس لیے نہیں آئی کہ ٹھہروں کہاں۔ اب منوہر کی بدلی ہو گئی ہے۔ اب آ جایا کروں گی۔

    معلوم ہوا منوہر چاندکی ممانی کا خاوند ہے۔ تم جانتے ہونا یہ ہندو لوگ اپنی لڑکیوں کے ہاں نہیں رہتے اور نہ ان کے ہاں کا کھاتے ہیں۔ شاید پانی بھی نہیں پیتے، اسی لیے غالباً اس لڑکے اور ہاں معلوم ہوا، اس لڑکے کا نام مراری تھا، اسی لیے اس مراری کی ماں چاند کی ماں کے ہاں نہیں اترتی۔ خیر اس دفعہ معلوم ہوا کہ وہ منوہر کے ہاں جا رہی تھی۔

    ایسی ویسی ہی باتیں ہوتی رہیں مگر مجھے ابھی خود اس کا نام نہ معلوم ہوا اور نہ یہ کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔ اس سے یہ مطلب نہ لے لینا کہ ان کا پتہ معلوم کرنے سے میرا کوئی مدعا تھا۔ مگر جانتے ہو مجھے لحظہ بہ لحظہ یہ امرشاق گزر رہا تھا کہ اب لاہور آجائےگا اور یہ اترکر چلے جائیں گے اور میں خود بھی لاری چھوڑ دوں گا اور پھر شاید ہم کبھی نہ مل سکیں گے۔ مگر باوجود اس کے، اس کا نام جاننے کے لیے میرے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ میں باربار اس کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھنے لگا اور چونکہ میں نے اس اثنا میں پانچ چھ مرتبہ گھڑی کو بھی دیکھا، شاید وہ سمجھ گئی ہوگی، کیوں کہ اب کی بار جو اس نے مجھے دیکھا تو اس کی مسکراہٹ میں شوخی کے علاوہ میرے اضطراب کا علم ضرور تھا۔ یہ میں نہیں بتا سکتا کہ یہ مجھے کیسے معلوم ہوا۔ اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی اس کی آنکھوں اور اس کے تبسم کو سمجھ لیتے۔ اس کا ہر احساس تو شاید تم نہ سمجھ سکتے۔ (اس پر میں مسکرایا) مگر ایسا صاف جذبہ تو اس کا ذکی الحس بشرہ صاف ظاہر کر رہا تھا۔ کم از کم اس کی پر معنی نگاہ سے مجھے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ضرور میری بےچینی کی وجہ کو پہچان رہی ہے۔

    اب لاہور غالباً بیس میل رہ گیا تھا اور مجھے ہر منٹ یہی خیال ہو رہا تھا کہ ہم اب لاہور پہنچے کہ اب۔ حالاں کہ لاری کم از کم پینتالیس منٹ لیتی مگر میں سوچتا کہ پون گھنٹہ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو ابھی ختم ہو جائےگا اور پھر اس کی پتلی پتلی گلابی موتیا رنگ کی انگلیاں اوران میں عنبر اور نیلے نگوں کی انگوٹھیاں اور اس کی کلائیوں کی نفیسیاں کہاں چلی جائیں گی۔ مجھے زیور اس سے پہلے لگتا ہی برا تھا اور جب کبھی ان عورتوں کو دیکھتا جو زیوروں سے لدی ہوئی ہوتی تھیں تو مجھے سخت نفرت ہوتی تھی اور اب یہ مجھے خیال ہی نہ تھا کہ اس نے زیور بھی پہنے ہیں کہ نہیں۔ البتہ اس کی کلائیوں پر وہ گھڑی پہنچیاں اس قدر اچھی معلوم ہوتی تھیں کہ جب میں اس کے چہرے کی طرف نہ دیکھ رہا ہوتا تو اس کے ہاتھوں یا کلائیوں یا ان پہنچیوں کی طرف دیکھتا ہوتا۔

    اور خوش قسمتی سے اسے کسی طرح معلوم ہو گیا کہ اس کے ہاتھ اور اس کی کلائیاں مجھے اچھی لگتی ہیں، کیوں کہ یا تو عام طور پر اس کے ہاتھ اس کی چادر کے اندر ہوتے کیوں کہ ہوا میں سردی ضرور تھی اور یا اب شاید ہی وہ ایک آدھ بار چھپائے گئے ہوں بلکہ عام طو رپر وہ دونوں یا کم از کم ایک تو کہنی کے سہارے گھٹنے پر ٹیکے ہوئے چہرہ تھامنے میں مصروف رہتے۔ شاید اس کے پاؤں کے نیچے کوئی سوٹ کیس ہوگا، کیوں کہ اس کے گھٹنے اٹھے ہوئے تھے، اس لیے اس کی کہنیوں کے ٹیکنے کے لیے جگہ بھی موجود تھی۔ یوں بیٹھی پتلی پتلی گلابی ناخنوں والی انگلیاں دونوں گالوں کو حمائل کیے ہوئے وہ چاند رانی سے منٹوں تک باتوں میں مصروف رہتی اور کیا باتیں ہوتیں۔‘‘

    اس پر منور نے ایک ٹھنڈا سانس لیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ، ’’بھئی یہ تو میں سمجھ گیا کہ وہ ماہ طلعت ضرور ہی تمہارے جذبات سے متاثر ہو رہی ہوگی اور ہوگی بھی اس قابل کہ تم والہانہ طور پر اسے دیکھتے رہتے اور کاش کہ تمہارا سفر لمبا ہوتا۔ یہ تمہاری لاری ہی راستہ میں فیل ہو جاتی تاکہ تمہیں ایک آدھ گھنٹہ اور مل جاتا مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ خاندان تو ہندو عورتوں کا تھا اور جانتے ہو اپنے اعمال کی پاداش میں مسلمان لڑکیوں کو ہم پردہ کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتے اور ہندو لڑکیاں ہمیں مسلمان سمجھ کر نہیں دیکھتیں۔ تمہیں وہ کس طرح دیکھتی رہی اور تمہارے دیکھنے کو وہ کیسے برداشت کرتی رہی۔ نہ بےپروائی کی تیوری چڑھائی، نہ آنکھوں سے شعلہ باری کی اور نہ تمہاری طرف سے منہ ہی پھیرا اور نہ نشست ہی تبدیل کی؟ یہ میں نہیں سمجھ سکا۔‘‘

    منورنے کہا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہماری ملعون زندگی سے بدتر اور کیا زندگی ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں تو لڑکیوں کالڑکوں کی طرف دیکھنا بھی گناہ ہے۔ زندگی کا لطف خاک آئے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ افریقہ میں پیدا ہوتے! ہم سے تو حبشی ہی اچھے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اتنی قیدیں، اتنی رکاوٹیں۔ احساس کو بیدار کرنے کے لئے ہزاروں لاکھوں چیزیں موجود ہیں اور دل کی تسلی کے لیے ایک بھی نہیں! مگر کیا کریں۔۔۔ اور ہاں تم پوچھ رہے تھے کہ میری طرف اس نے دیکھا کیوں؟ میں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ کچھ لمحوں کے لیے میرا ستارہ کسی منحوس برج سے نکل کر اکیلا گشت لگا رہا ہوگا اور کیا بتاؤں؟ اور ہندو مسلمان کے متعلق تو جواب آسان ہے کہ میں سوٹ پہنے ہوئے تھا اور میرے سر پر ہیٹ تھا۔ شکل سے نہ ہندو لگتا ہوں نہ مسلمان۔ یا دونوں ہی اور شاید اسے یہ خیال ہی نہ آیا ہو، کیوں کہ اسے بھی تو معلوم ہوگا کہ ڈیڑھ دو گھنٹہ کا سفر ہے۔ پھر وہ کہاں اور میں کہاں اور اگر اسے نہ بھی آیا ہو تو مجھے ہر لمحہ یہی خیال آکر گھبرا رہا تھا۔‘‘

    مگر میرے لیے سوائے اس کے کہ چاند رانی سے چھیڑچھاڑ یا پیار میں مشغول رہوں اور اس کی ممانی کی طرف دیکھ لوں اور کیا تھا۔ چنانچہ اب چاندرانی نے بھی میرے قرب کو تسلیم کر لیا تھا اور اپنے گدگدانے کو میرا حق مان لیا تھا۔ مگر اس وقت چاندرانی میر ے بہت کام آئی۔ خدااسے جوان ہونے پر بھی اتنی کامنی اور من موہنی رکھے، جتنی پیاری وہ پانچ برس کی عمر میں تھی۔ میری خوش قسمتی کہ اس کی ممانی اب اس سے یہ باتیں کر رہی تھی۔ چاندجی اپنے ماموں کے گھر چلوگی۔ تمہیں پتہ ہے اپنے ماموں کے گھر کا؟ چاندجی چپ تھی اور مگن مگر موٹی موٹی آنکھوں سے اپنی ممانی کو نہایت عبادت مندانہ انداز سے حددرجہ کے پیار سے دیکھنا اگر جواب ہو سکتا ہے تو چاندجی اپنی ممانی سے خوب باتیں کر رہی تھی۔

    ظاہر تھا کہ چاندرانی کو اگر کسی سے پیار تھا تو اپنی ممانی سے اور ممانی کے منہ پر جو مسکراہٹ تھی، اس میں اتنا پیار اور اتنی ملائمت تھی کہ مجھے تو چاند رانی ہی سے ایک لمحہ کے لیے حسد ہو گیا۔ مگر چاند رانی سے جو باتیں ہو رہی تھیں وہ میرے لیے اس قدر دلچسپ تھیں کہ مجھے اور کسی چیز کا دھیان ایک سکنڈ سے زیادہ عرصہ تک نہیں رہ سکتا تھا۔

    چاند رانی سے پوچھا جا رہا تھا کہ، ’’چاندجی تم اپنے ماموں کے گھر آؤگی نا؟ کہاں ہے میرے ماموں جان کا گھر؟ پنچ محل روڈ پر۔ جانتی ہو کہاں ہے پنچ محل روڈ؟ تم تو لاہور کی رہنے والی ہو، تم نے تو لاہور کی خوب سیرکی ہوگی؟ چاندہمارے یہاں آؤں گی نا۔ ہم اور تم سیر کو چلیں گے۔ ہم اور تم چڑیا گھر چلیں گے۔ لارنس باغ چلیں گے اور خوب سیر کریں گے۔ تم پنچ محل روڈ پر آنا۔ تمہارے گھر سے دور تو نہیں۔ اپنی ماتا جی کو لے کے آنا۔ ہم سب سیر کو چلیں گے۔ ہم تو لارنس باغ میں شام کو سیر کیا کرتے ہیں۔ تم نہیں کیا کرتیں۔ ہائے سیر کرنے نہیں جایا کرتیں۔ چاندجی تم ہمارے پاس آؤ۔ ہم تمہیں ماتاجی سے لے لیں گے۔ ہم تمہیں اپنے پاس رکھیں گے۔ ہم روزشام کو سیر کرنے جایا کریں گے۔ ہم موٹر پر جایا کریں گے۔ موٹر پر سیر کروگی نا۔ ہم تمہیں موٹر پر سیر کرائیں گے۔ ہم گرمیوں میں نہر پر جایا کریں گے۔ تم بھی آؤگی نا؟‘‘

    چاند رانی تو کھل کھل کر ہنس رہی تھی اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنی ممانی سے لپٹی جا رہی تھیں مگر ایک منٹ کے بعد ممانی جان نے آنکھ اٹھاکر میری طرف دیکھا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر! کیا نظر تھی! ایسا محسوس ہوا کہ میرا دل اس نگاہ کی گرمی محسوس کر رہا ہے اور اب بھی اس کی آنکھوں میں وہی پر معنی چمک تھی۔

    میں نے سوچا کہ اب تو یہ پتہ چل گیا کہ وہ رہتی کہاں ہیں مگر اس سے فائدہ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں پھر اسے دیکھ سکوں اور وہ بیاہی بھی ہوئی ہے۔ اس کا تو خاوند بھی ہے اور خاوند سے اسے ضرور پیار ہوگا۔ ابھی تو شادی کو زیادہ عرصہ ہوئے نہیں معلوم ہوتا۔ ایک نہیں تو ڈیڑھ سال ہوا ہوگا اور میں مسافر اجنبی اور ڈیڑھ گھنٹے کا سفر اور میں کون اور میرے لیے کس کی دلچسپی، کس کا شوق بکواس۔ اسی ادھیڑبن میں میرا چہرہ اداس سا ہو گیا اور میں نے چاندرانی کو چھیڑنا چھوڑکر اس کی طرف پانچ منٹ تک دیکھا بھی نہیں تھا۔ پھر چاندجی نے اپنی جگہ کھڑے ہوکر میری طرف منہ کرکے دوپٹہ لیتے لیتے دوپٹے کو اس طرح جھٹکا دیا کہ میرے ہیٹ پر آ لگا۔ ہیٹ ٹیڑھا ہو گیا۔ میں نے ہیٹ اتار کر اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا اور اس وقت سوچا کہ اورسب کچھ تو نظر کا دھوکہ ہوگا مگر چاندرانی تو واقعی ایک پیاری سی لڑکی تھی اور وہ تو کم از کم سچائی سے آرزومند تھی کہ میں اس سے کھیلوں۔ مان لیا کہ وہ مجھے لاہور پہنچنے پر پانچ منٹ کے اندر بھول جائےگی مگر اس وقت تو وہ حقیقی طور پر مجھ سے کھیلنے کے لیے مشتاق تھی اور پھر وہ تھی اتنی پیاری سی۔ چنانچہ میں نے اس کی ممانی کی طرف پانچ منٹ تک نہ دیکھا۔

    اب اپنے آ پ پر لعنت بھیجتا ہوں کہ وہ پانچ منٹ بھی کیوں ضائع کئے۔ دیکھتا رہتا تو کیا تھا۔ اسے کیا پروا کہ میں کیوں اداس ہوں یا میراجی کیا چاہتا ہے۔ خیر دو تین میل تک میں نے اسے نہ دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ وہ مجھے متجسس نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ معلوم نہیں وہ کیا جاننا چاہتی تھی مگر اس کی نگاہ بالکل غیرمضطرب اور پرسکون تھی، جیسے کوئی حادثہ اسے گھبرا نہیں سکتا۔ واللہ مجھے معلوم نہ تھا کہ دنیا میں ایسی نگاہیں بھی ہو سکتی ہیں۔ کیا صاف اور بےہراس نگاہ تھی۔ یہ تو کبھی میرے قیاس میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اسے میرے ساتھ کچھ دلچسپی پیدا ہونے کا امکان بھی ہے اور آخر تم جانتے ہو لاری میں ڈیڑھ گھنٹے کا سفر فقط ایک سو منٹ ہوں گے اور کیا ہے۔ اس سے کچھ توقع کرنا حماقت تھی مگر میرا دل چاہتا تھا کہ ایسی نظر اتنی تیز اور پر معنی لا ابالی نہ ہو۔ مجھے شک پڑتا تھا کہ اسے میری گھبراہٹ اور میرے اشتیاق سے لطف آ رہا ہے مگر پھر اس کی مسکراہٹ کو دیکھتا تھا تو اس میں کوئی ترشی نہ تھی اور وہ ایسی ملائم اور میٹھی اور رحیم تھی۔۔۔ شاید!

    یہ کہہ کر منور بھی ایک دومنٹ کے لیے چپ ہو گیا۔ میں نے بھی اس ’’شاید‘‘ کی تشریح اس سے نہ پوچھنی چاہی۔ پھر وہ ذرا مدھم آواز میں بولنے لگا، ’’اس کے بعد میں کسی خیال میں مستغرق تھا کہ مجھے اس کی آواز نے چونکا دیا اور میں نے دیکھا کہ وہ چاندکی ماں سے کہہ رہی تھی، آپ نے ہی تو اس دن مجھ سے کہا تھا کہ شانتی تو یہیں بیٹھ، میں کھانا کھلاکے تجھے اندر بلاتی ہوں اور جب میں تھک کر آپ کا انتظار کرکے اندر چلی گئی تو آپ ناراض ہو گئیں اور اب تک آپ نہیں بھولیں۔‘‘

    ’’تم تو پہلے ہی چاہتی تھیں کہ باہر نہ بیٹھو۔‘‘ یہ چاندکی ماں نے کہا مگر ترش لہجہ میں، ’’اور میں نے تو تمہیں باہر بھی کھلے منہ بیٹھے دیکھا تھا۔ میرے دیور جیٹھ سارے ہی گزر رہے تھے۔ وہ بھی کیا کہتے ہوں گے کہ کل کی دلہن اور ننگے منہ۔ میری سسرال تھی، میرا خیال کیا ہوتا۔ مگر وہ تو آج کل کی پڑھی لکھی لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہیں۔‘‘

    ’’مگر میں کہاں اندر جاتی تھی۔ آپ ہی نے کہا تھا شانتی یہاں بیٹھ، میں وہاں بیٹھ رہی اور بھی میرے پاس بہتیری تھیں۔ کسی نے بھی برا نہ مانا اور گھونگھٹ نکالنے سے تو مجھے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے اور نکالتی تو باقی سب مجھے کھانہ لیتیں۔ شانتی یہ کیا؟ اور شانتی یہ کیوں؟ اندر بیٹھی تھی تو کسی نے کہا شانتی باہر آکے بیٹھ۔ تو ابھی دلہن ہے۔ باہر نکل کے مہمانوں میں بیٹھ۔ صحن میں رونق ہو۔ تو شانتی باہر جا بیٹھی۔ پرسب کچھ ایک ایک کرکے شانتی کے پاس سے اٹھ بھی گئیں۔ تو شانتی وہاں کیا کرتی؟ اور گھونگھٹ تو میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھ سے نکالا نہیں جاتا۔‘‘

    ’’بہن تم تو آزاد ہو، تمہاری مرضی ہے۔ میں نے تو یہی کہا تھا کہ اندر میرے دیور بیٹھے ہیں۔ اٹھ جائیں تو آ جانا۔‘‘

    ’’تو بہن جی وہ تومیرے پاس ہی کوئی نہ بیٹھا رہا اور آپ بھی نہ آئیں۔ پرایا گھر۔ میں گٹھری بن کے کیا کرتی اور مجھے خیال تھا کہ سب اٹھ گئے ہوں گے۔‘‘

    ’’یہی تو میں کہتی ہوں۔ میری سسرال کی بات تھی۔ سب کہتے ہوں گے کہ ان کی دلہن سال ابھی ہوا نہیں، سب کے سامنے منہ کھلے پھرتی تھی اور ہرج تو کوئی نہ تھا۔‘‘

    ’’تو بہن جی مجھے کیا پتہ تھا کہ ابھی تک کوئی اندر بیٹھا ہے یا پھر باہر ہی آپ کسی کو میرے پاس بھیج دیتیں۔ آپ کرتی ہی زبردستی ہیں اور آپ نے یہ بات ایک دفعہ نہیں کی۔ کئی دفعہ کی ہے۔ ہم تو کبھی اتنی دور تک بات کو نہیں کھینچتے۔ آپ کی عادت ہی کچھ ایسی ہے۔‘‘

    ’’تو بہن تو کون سی کم ہے۔ تو بھی تو ایسی نہیں کہ۔۔۔‘‘

    یہاں چاند کی نانی بیچ میں آ گئی اور اس نے کہا، ’’اچھا جانے دو۔ شانتی تو ہی جانے دے۔ ساوتری (یہ چاند کی ماں) چھوڑا بھی بات کو۔ کیا بری عادت ہے تیری! اب لاہور تو آنے کو ہوگا۔ شام ہو چلی ہے۔ یہ موٹر ہمیں گھر تک پہنچا آئے گی یا کہیں اور چھوڑ دے گی؟‘‘

    مراری نے کہا، ’’ماتا جی یہ تو چنگی خانہ کی لاری ہے۔ یہ ہمیں اسٹیشن پر ہی چھوڑ دےگی۔ وہاں سے ہمیں ٹانگہ لینا پڑےگا۔‘‘ اس پر ساوتری نے جو اتنے میں شانتی سے اپنی چپقلش شاید بھول بھی چکی تھی، کہا، ’’یہ ہمیں شاہ عالمی کے اڈے پر پہنچا دے تو اچھا ہے۔ وہاں ٹانگے ہمیں کرشن نگر تک مل جائیں گے۔ نہیں تو یہ لاری ہمیں کرشن نگر تک پہنچا دے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’کرشن نگر کہاں ہے؟‘‘

    منورنے کہا، ’’معلوم نہیں، یہیں کہیں ہوگا۔ عجیب عجیب سے نام لوگوں نے رکھ لیے ہیں۔ اچھیرے دچھیرے کی طرف ہوگا یا کسی اور طرف۔ ہماری بلا جانے۔ میں تو تمہیں بتاتا ہوں جو میں نے سنا۔ اب لاہور پانچ چھ میل شاید رہ گیا تھا۔ اگرچہ شاہدرہ ابھی نہیں آیا تھا۔ شام پڑ رہی تھی۔ میں لاہور کی نزدیکی سے بہت گھبرایا مگر جانتے ہو کچھ کر نہیں سکتا تھا تو اس نے مجھے اپنا نام بتا دیا تھا مگر شاید اس کا یہ مطلب نہ ہو۔ پھر سوائے اس کے کہ میں اس کے چہرے یا آنکھوں یا ہونٹوں یا اس کے ہاتھوں کو دیکھتا رہوں اور کیا کر سکتا تھا۔ روشنی ابھی اتنی تھی کہ میں سب کچھ باآسانی دیکھ سکوں۔ ہاتھوں کا اس کے رنگ تھا کہ غضب۔ ہاتھ کیا تھے موتیا کے پھول تھے۔ ایسا لطیف رنگ، ایسی نرم جلد، محسوس ہوتا تھا کہ ہاتھ لگانے سے ان پرداغ پڑ جائےگا۔

    میں نے کہا کہ اس کی نند یا ساس یا کوئی دیکھتا ہے تو دیکھے۔ باقی پندرہ منٹ سوائے اس کے دیکھنے کے تو میں اور کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ مگر دیکھنے سے کیا سیری ہو سکتی ہے اور آنکھوں کی بھوک کا احساس دوسرے کو ہو بھی جائے تو اس سے کیا ہوتا ہے! مگر میں دیکھتا رہا۔ کبھی کبھی چاند رانی پربھی نظر ڈال دیتا مگر اس سے کھیلنے کو زیادہ جی نہیں چاہتا تھا۔ وہ اب منتظر رہتی کہ کب میں اس کو گدگداؤں۔ مگر میں کئی کئی منٹ اس کی طرف دیکھ بھی نہ سکتا۔‘‘

    اب مجھے اس کا نام بھی معلوم تھا اور یہ بھی کہ وہ کہاں رہتی ہے۔ مگریہ کہ میں پھر کبھی اسے دیکھ سکوں گا، یہ خیال مجھے بہت بے چین کر دیتا۔ مگر میرا خیال ہے کہ میں اس کے چہرے پر اتنا منہمک تھا اور لاہور پہنچنے کے ڈر سے اتنا مضطرب ہو رہا تھا کہ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ تمام باتیں یعنی اسے پھر نہ دیکھنے کا ڈر۔۔۔ اور اسے دیکھنے کا گمان اور ایسے ویسے اندیشے مجھ سوجھ بھی رہے تھے کہ نہیں۔ مجھے یہ بھی وثوق سے یاد نہیں کہ کیا میرا اس وقت واقعی خیال تھا کہ اس نے اپنا نام اور پتہ دانستہ طور پر بتایا ہے؟ شاید یہ محض میرے دماغ کی آفرینش تھی یاشاید اس کی نگاہوں کا کچھ مطلب تھا! یا وہ مجھے اب ہر وقت ہر دو تین منٹ کے بعد ٹکٹکی باندھ کر کیوں دیکھ لیتی، یا اب آنکھوں میں وہ بےپروائی اور غرور کیوں نہیں تھا۔ یا کیا واقعی اس کی نظر میں کچھ بےچینی موجود تھی یا اس کی مسکراہٹ اب کیوں غائب ہو گئی تھی۔ یا اب اس کے ہاتھ کیوں رومال کو لپیٹنے، مروڑنے، کنے اور کھولنے میں مشغول تھے یا اب وہ کیوں نظریں ملاکر آنکھ جھکا لیتی تھی؟ افسوس ہے ان سوالوں کا جواب شاید مجھے تاحشر نہیں مل سکےگا۔

    مجھے اب اس بات کا افسوس بھی ہے کہ چاندرانی سے بھی کیوں کھیلتا رہا۔ میں ساری راہ اسے ہی کیوں نہ دیکھتا رہا۔ آخر میں اس کے ہونٹ نہ مسکرا رہے تھے، نہ بولنے کے لیے کھلے ہوئے ہوتے تھے مگران کے ایک ایک خط سے، ان کے خفیف سے جھکاؤ سے کتنی مماثلت کا اظہار ہو رہا تھا۔

    لاہور آ گیا۔ ہم اڈے پر پہنچ گئے اور لاری کھڑی ہو گئی۔ اس وقت سب مسافر اترنے میں مشغول۔ ان کے حصے میں دونوں طرف کی کھڑکیاں کھلی تھی ں۔ ’وہ‘ چونکہ بیچ میں بیٹھی تھی، شایداس لیے وہ سب سے آخر میں اتری۔ میں بھی اپنی کھڑکی سے دور تھا۔ میں بھی بیٹھا تھا۔ اترتی دفعہ بھی اس نے مجھے خاص اپنی نظر سے دیکھا۔ ’’کاش وہ اترتی دفعہ ہی مجھے اس نظر سے نہ دیکھتی۔ پھر بھی میں شاید اسے کبھی بھول جاتا۔‘‘

    میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ کبھی پنچ محل روڈ پر نہیں گئی۔ یا کیا وہ اسے کبھی لارنس باغ میں نہیں دکھائی دی مگر اس کی نظر کی افسردگی کو دیکھ کر مجھے یہ پوچھنا بےسود ہی معلوم ہوا۔

    مأخذ:

    رنگ و بو (Pg. 218)

    • مصنف: کیپٹن سید فیاض محمود
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے