Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لکیریں

MORE BYقرۃ العین خرم ہاشمی

    اجواد اپنے کو لیگ مبشر سید کے ساتھ باتیں کرتا ہوا وہاں سے گزر رہا تھا۔ اجواد کا تعلق ایک شو آرگنایزر گروپ سے تھا۔ موہنجوڑرو میں انھیں ایک شو آرگنایز کروانا تھا۔

    اسی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے کھنڈرات میں عجیب میلہ کا سماں تھا۔ تاریخی ورثہ کو خوبصوتی سے اپنے مقصد کے لئے سجایا جا را ہا تھا۔

    ایک تاریخ جو وہاں سو رہی تھی اور ایک تاریخ جو اُس سوئی ہوئی تاریخ پہ اپنا روشن آج پیش کر رہی تھی۔

    اجواد اور مبشر شو کے سلسلے میں ہونے والےانتظامات کو ڈسکس کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ ایک نظر آس پاس بھی ڈال رہے تھے۔ جب انہوں نے کچھ لوگوں کو ایک جگہ جمع دیکھا۔ دونوں نے تھوڑا آگے ہوکر دیکھا۔ تو زمین پہ ایک ملنگ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے لمبے بال کندھوں پہ بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے کرتے پہ جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ گلے میں مختلف رنگوں کی مالا اور ہاتھوں میں انگوٹھیاں۔۔۔ وہ ملنگ مٹی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اجواد نے ذرا غور سے دیکھا۔ اسے زمین پہ مختلف شکلیں اور لکیریں بنی ہوئیں نظر آئیں۔

    وہ ملنگ بابا زمین پہ مختلف لکیریں کھینچتا اور ان لکیروں سے مختلف قسم کی اشکال بناتا۔ وہ یہ کام اتنی تیز رفتاری اور مہارت سے کر رہا تھا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے۔

    وہ ملنگ بابا ایک نظر لوگوں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پہ بھ ڈالتا جو اس سے ہاتھ کی لکیریں پڑھنے پر اصرار کرتے ہوئے، مختلف سوالات کر رہے تھے۔ ملنگ بابا مٹی پہ لکیریں کھنچتا، ایک ایک نظر سب کی ہتھیلیوں پہ ڈالتا اور کچھ نہ کچھ انہیں بتا دیتا۔ مگر لوگوں کا اشتیاق مزید بڑھتا اور وہ اور سوال پوچھنے لگتے۔ آہستہ آہستہ کرکے ہجوم کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ ملنگ بابا اسی طرح زمین پر لکیریں کھینچ کر، ان سے اشکال بنا رہا تھا۔

    ہماری عوام بھی کتنی جاہل ہے۔ ہر جگہ بےوقوف بننے کو تیار رہتی ہے۔ چاہے اپنے لیے رہنما چننے ہوں۔ اندھا دھند ان کی تقلید کرت ہیں اور کبھی ان جیسے لوگوں سے بےوقوف بنتے ہیں۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ اگر اتنے قابل ہوں کہ لوگوں کی قسمتوں کا حال انہیں بتا سکتے تو کیا اپنی قسمت کا حال جان کر اسے بہتر نہ بنا لیتے۔

    اجواد نے تنفر سے اپنے کولیگ مبشر سید سے کہا۔ جو سرہلا کے رہ گیا۔

    باو۔۔۔ قسمت کا حال جاننے کا کوئی دعویٰ ہم نے تو نہیں کیا۔ ہم تو صرف مٹی سے کھیلتے ہیں، لکیروں سے شکلیں بناتے ہیں اور مٹا دیتے ہیں۔ ہم فقیروں سے اتنی ناراضگی۔۔۔

    ملنگ بابا نے اپنی سرخ سرخ نگاہوں سے اجواد کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    سب جانتا ہوں میں۔۔۔ یہ کیا ڈھونگ رچا رکھا ہے تم جیسے لوگوں نے۔۔۔

    اجواد نے ملنگ بابا کو گھورتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

    باو سب جاننے کا دعویٰ تو تم بھی نہیں کرتے۔۔۔ حیرت کی بات ہے دعویٰ بھی تم کرو۔۔۔ اور برے ہم بنے۔۔

    ملنگ بابا نے مٹی پہ لکیریں کھینچنا چھوڑ کر اپنے گلے میں موجود مالا کے دانوں کو ہاتھ میں لے کر گھومانے لگا۔ مگر اس کی نظریں اجواد پر ہی تھیں۔

    کیا کہتے ہو باو۔۔۔ تمہارے اس دعویٰ کو آزما ہی نہ لیا جائے۔۔۔

    ملنگ بابا نے کہا تو اجواد نے ناگواری سے انہیں دیکھا۔

    میرے پاس نہ فضول ٹائم ہے اور نہ دماغ کہ تمہارے ساتھ کھپاتا رہوں۔۔۔

    اجواد نے کہا اور جانے لگا۔

    ڈر گئے باو۔۔۔ اتنی جلدی۔۔۔ ملنگ بابا نے پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔۔

    میں کسی سے نہیں ڈرتا ہوں۔۔۔ بولو کیا کرنا ہے۔۔۔ اجواد نے ملنگ بابا کے نفسیاتی داو میں آتے ہوئے بھڑک کر کہا اور ان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ اپنی کامیابی پہ ملنگ بابا کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔

    بیٹھو۔۔۔ ملنگ بابا کے کہنے پہ اجواد ان کے سامنے بیٹھ گیا۔

    تم جانتے ہو باو۔۔۔ ڈرتے تو ہم سب ہیں کسی نہ کسی چیز سے، کسی نہ کسی بات سے مگر ہم اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ جیسے میں بھی ان لکیروں کے علم سے بہت ڈرتا ہوں۔۔ خوفزدہ ہوتا ہوں مگر۔۔۔ کچھ کر نہیں سکتا۔۔۔

    ملنگ بابا نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ کیوں۔۔۔ اس میں اتنا خاص کیا ہے۔۔ مٹی سے کھیلنا، اس پہ چند لکیریں کھینچنا اور ان سے شکلیں بنانا۔۔۔ اس میں ڈرنے والی کیا چیز ہے؟

    اجواد نے استہزائیہ لہجے میں کہا۔

    اچھا۔۔۔ اگر اس میں ایسا خاص کچھ نہیں ہے اور بقول تمہارے تم کسی چیز سے ڈرتے نہیں ہو تو مجھ سے یہ علم تم لے لو۔ تم سیکھ لو یہ لکیروں کا کھیل۔۔۔

    ملنگ بابا نے پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ اچھا۔۔۔ وہ کیسے؟ اجواد نے الجھتے ہوئے پوچھا۔ میں سکھا دوں گا تمہیں۔۔۔ یہ دیکھو غور سے۔۔۔ ملنگ بابا نے کہا اور زمین پہ مختلف لکیریں کھینچنے لگا۔ اور ان سے مختلف شکلیں بنانے لگا۔ اجواد کو غور سے دیکھنے سے یہ کھیل دلچسپ لگا اور وہ اس کے اسراد میں کھونے لگا۔ آہستہ آہستہ ہو خود اس کھیل میں انتا مگن ہو گیا کہ اسے اپنے ہاتھوں اور کپڑوں کے گندہ ہونے کا احساس تک نہ ہوا۔ اجواد۔۔۔ اس کے کولیگ مبشر سید نے اس کا کندھا ہلا کر اسے متوجہ کیا۔

    یہ کیا کر رہے ہو؟ مبشر کے سوال پہ اجواد نے چونک کر اپنے ہاتھوں اور پھر مٹی پہ بنی مختلف شکلوں کو دیکھا۔ وہ وہاں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔

    ملنگ بابا کہاں گئے؟ اجواد نے چونک کر خود کلامی کی اور بےقرار ہوکر ادھر ادھر نظریں دوڑائی۔ تو اسے ملنگ بابا کھنڈر روک سےباہر نکلتے ہوئے نظر آئے۔

    رکو۔۔۔ ٹھہرو ایک منٹ۔۔۔ اجواد نے انہیں آوازیں دیں۔۔ اور ان کی طرف بھاگا۔ مگر وہ اچانک ہی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

    کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ کسے آوازیں دے رہے ہو؟ مبشر نے اس کے پیچھے آتے ہوئے کہا۔

    وہ۔۔۔۔ ملنگ بابا۔۔۔ اجواد نے الجھتے ہوئے کہا تو مبشر بولا۔

    وہ تو کب کے چلے بھی گئے ہیں۔ تم بھی کن چکروں میں پڑ رہے ہو۔ چلو شام ہو رہی ہے۔ نکلیں یہاں سے۔۔۔

    مبشر نے کہا تو سوئے ہوئے کھنڈروں میں نظر ڈالتا اجواد بھی اس کے پیچھے نکل آیا۔

    یہ اس واقعہ کے ایک مہینے بعد کی بات ہے۔ اجواد کی دلچسپی کا مرکزاب لکیریں بنانے اور ان سے مختلف اشکال تخلیق کرنا، پھر سب سے داد سمیٹنا بن گیا تھا۔ وہ آفس ورک کے دوران بھی، پین اور پیپر لے کر اس میں مصروف رہتا تھا۔ بڑھتی بڑھتی اس کی دلچسپی ہاتھ کی لکیروں میں منتقل ہوگئی۔ اب وہ بڑے یقین اور اعتماد کے ساتھ لوگوں کو ان کے مستقبل کا ھال بتاتا تھا۔

    اس کی بتائی گئیں سب باتیں درست ثابت ہونے لگی۔ بڑھتے بڑھتے اس کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ اس نے اپنی جاب چھوڑ دی کیونکہ وہ اس کام میں اتنا معروف اور مشہور ہو گیا تھا کہ اسے کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی تھی۔

    ہر انسان کا ظرف، مختلف ہوتا ہے۔ ہر ایک کا ظرف کا پیالہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ظرف سے زیادہ کسی کو بھی مل جائے تو وہ اسے خود میں سمو نہیں پاتا ہے۔ اس کے ظرف کا پیالہ چھلکنے لگتا ہے۔

    اسی طرح ہر علم بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اجواد نے لکیروں کا علم کیا سیکھا، وہ غرور و فخر کی اونچی مسند پہ جا بیٹھا اور جب کوئی انسان اپنے علم پہ غرور کرنے لگتا ہے تو وہاں سے اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور اس کا فخر اس کا قلم اسی کے لئے وبال جاں بن جاتا ہے۔

    اجواد لوگوں کو ان کا، ماضی، حالاور مستقبل بتاتا تھا۔ لکیروں کے کھیل سے حساب لگاتا زائچہ بناتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں خدا بن بیٹھا تھا۔ اس کے لہجے کی رعونیت اور غرور اسے عام لوگوں سے بہت منفرد بناتا تھا۔ یا اس نے خود کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔

    ایک بار اس نے اپنی بیوی انابیہ کا ہاتھ دیکھا اور وہ بری طرح چونک گیا۔ اس نے لکیروں سے کچھ زائچے بنائے اور پھر اپنے ہاتھ کو غور سے دیکھنے لگا اور کچھ لکیریں کھینچ کر، زائچہ بنانے لگا۔

    کیا ہوا؟ انابیہ نے اپنے شوہر کے چہرے پہ پریشانی دیکھ کر پوچھا۔

    آں۔۔۔ کچھ نہیں۔ بچے کہاں ہیں؟ اجواد نے اپنے دونوں بیٹوں موسیٰ اور سعد کے بارے میں پوچھا۔۔۔

    وہ دونوں کمپیوٹر گیمز کھیل رہے ہیں۔ اپنے روم میں ہیں۔ انابیہ نے جواب دیا۔

    اچھا۔۔۔ مجھے ایک کپ چائے پلا دو۔ اجواد نے اپنا سر ایک ہاتھ سے دباتے ہوئے کہا۔ تو انابیہ سرہلاتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔

    یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ مجھے غلطی ہوئی ہو۔ دوبارہ دیکھتا ہوں۔ اجواد نے جود کلامی کی اور دوبارہ لکیروں کے علم میں کھو گیا۔ مگر ہر بار جواب ایک ہی تھا۔

    نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ اجواد نے خوفزدہ ہوتے ہوئے خود سے کہا۔ انابیہ کا ہاتھ دیکھ کر وہ اس لئے چونکا تھا کہ اس کے ہاتھ میں آفے کا سفر شہا لکھا ہوا تھا اور مشکلات سے بھرا ہوا۔ اجواد نے اپنا ہاتھ دیکھا تو اسے اپنی زندگی کی لکیر سکڑتی ہوئی نظر آئی اور حساب میں بھی اندھیرا ہی نظر آنے لگا۔ لکیریں عجیب عجیب سی شکلوں میں ڈھل رہی تھی۔

    اجواد نے لکیروں کے کھیل سے یہ جانا کہ آنے والا ایک ہفتہ اس کے لیے برا لانے والا ہے۔ اجواد دن رات عجب خوف کا شکار رہنے لگا۔ اس نے گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ بیوی بچوں کو انے سسرال چھوڑ آیا۔ ہر آہٹ پہ وہ چونک چونک جاتا۔ اسے لگتا تھا کہ اچانک کہیں سے کوئی حادثہ رونما ہوگا اور اس کی زندگی کا چراغ گل ہو جائےگا۔

    وہ پاگلوں کی طرح کاغذ پر پنسل سے لکیریں کھینچتا رہتا۔ اس دوران نہ اسے اپنے چلنے کا ہوش ہوتا اور نہ کھانے پینے کا۔ ایک دن وہ اس بےقراری اور ذہنی انتشار کے عالم میں گھر سے نکل گیا اور انہی کھنڈرات میں پہنچ گیا۔ جہاں سے اسے یہ علم ملا تھا۔

    وہ کھنڈروں میں ادھر سے ادھر پھرنے لگا۔ لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اسی طرح گھومتے گھومتے وہ تھک کے زمین پہ بیٹھ گیا اور مٹی پہ لکیریں کھینچنے لگا اور ان سے مختلف اشکال بنانے لگا۔ اس کا حلیہ اسے عجیب ملنگ سا ظاہر کر رہا تھا۔ کچھ لوگ اس کے پاس آکر رک گئے اور دلچسپی سے اس کی حرکات و سکنات دیکھنے لگے۔ پھر اسے کوئی پہنچی ہوئی ہستی سمجھ کر اس سے مختلف سوال کرنے لگے۔ اجواد نے غصے میں پاس پڑا پتھر ان کی طرف پھینکا۔ تو وہ لوگ اسے پاگل سمجھ کر جانے لگے۔

    ہم لوگوں کی آراء، اکثر اسی طرح بہت جلدی جلدی پلٹا کھاتی ہیں۔

    بس باو اتنی جلدی تھک بھی گئے۔ اجواد نے جانی پہچانی آواز پہ چونک کر سامنے دیکھا تو وہی ملنگ بابا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے۔ پھر چند قدم چلتے ہوئے، اس کے پاس آکر زمین پہ بیٹھ گئے۔

    یہ سب تماری وجہ سے ہوا ہے۔ میرا گھر میرا روشن مستقبل، میری جاب، ہر چیز آج داو پہ لگی ہوئی ہے۔ تم نے ایسا منحوس لکیروں کا کھیل مجھے سکھایا کہ میری ساری زندگی کی ترتیب ہی بدل گئی۔

    اجواد نے غصے سے گھورتے ہوئے ملنگ بابا سے کہا۔

    میں نے نہیں۔۔۔ تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی تباہ کی ہے۔ ملنگ بابا نے اطمینان سے کہا۔

    میں نے؟ اجواد ن حیرانی سے اپنی طرف انگلی کرکے کہا۔

    ہاں۔۔ تم نے خود۔۔۔ میں نے تو تمہیں نہیں بلایا تھا یہ علم سیکھنے کے لئے۔ تم خود آئے تھے۔ ملنگ بابا نے اسی اطمینان سے جواب دیا۔

    پتا نہیں کیسے میں اس گورکھ دھندے میں پھنس گیا اور آج۔۔۔ زندگی کے کنارے پہ بیٹھا، اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوں۔

    اجواد نے افسردگی سے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔

    نمیں کس نے کہا کہ تم مرنے والے ہو۔۔۔ ملنگ بابا نے مسکر کر پوچھا۔

    ان لکیروں کے علم نے۔۔۔ اجواد نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے ہوئے اپنی ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    تمہیں اپنی لکیروں پہ زیادہ یقین ہے یا اس رب کی بنائی تقدیر پہ۔۔۔ ملنگ باب نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔ تو اجواد نے چونک کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا۔

    مطلب۔۔۔ کیا یہ علم غلط ہے؟ اجواد نے الجھتے ہوئے پوچھا۔

    اس کا فیصلہ تمہارے ایمان پہ ہے۔ علم کوئی بھی غلط نہیں ہوتا۔ اس کا استعمال اسے غلط یا درست ثابت کرتا ہے۔ ملنگ بابا نے کہا۔

    وہ کیسے۔۔۔ اجواد نے الجھتے ہوئے پوچھا۔۔ مثال تو تم خود ہو۔۔۔۔ پوچھ ہم سے رہے ہو۔ خیر۔۔۔ دیکھو جب میرے پاس یہ علم تھا تو تم نے کتنی نفرت اور حقارت سے اسے کم تر سمجھا اور ڈھونگ کہا اور آج تم خود وہ ہی ڈھونگ رچائے بیٹھے ہو کیوں؟

    ملنگ بابا نے سنجیدگی سے اجواد کو دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وہ خاموشی سے سر جھکا کر رہ گیا۔

    اس لئے کہ تمہارے اندر کے بھونچال کو کیفیت کو صرف تم ہی سمجھ سکتے ہو کوئی اور نہیں۔ تمہارے ہاتھوں کی بےچینی تمہیں مٹی سے کھیلنے، لکیریں کھینچنے پہ مجبور کررہی ہے اور تم سب سے بےنیاز اس مٹی کے کھیل میں الجھ کررہ گئے ہو۔۔۔

    اسی طرح ہوتا ہے۔۔۔ علم کو حاصل کر لینا بڑی بات نہیں ہوتی۔ اسے ساری زندگی اپنے لئے اور دوسروں کے لئے کارآمد بنا کر جینا ہی اس علم کا صیح استعمال ہوتا ہے۔

    تمہارے پاس لکیروں کا علم کیا آیا تم خود کو خدا سمجھ بیٹھے۔ کیا تم اپنے علم کو اپنے لئے دوسروں کے لئے، سب کی بھلائی کے لئے استعمال نہیں کر سکتے تھے؟

    ملنگ بابا نے کہا تو اجواد نے شرمندگی س اعتراف کرتے ہوئے کہا۔

    ہاں۔۔۔ میں نے اس کا غلط استعمال کیا۔ اور شاید اسی کی سزا مجھے ملنے والی ہے۔ سزا اور جزا کا فیصلہ اتنی جلدی نہیں کر لیتے۔ وہ رب اپنے بندوں پہ بہت مہربان ہے۔ اس کی رحمت تمہاری، میری سوچ سے بھی زیادہ ہے اور اب جو تمہارا ایمان کہتا ہے۔ اسی کو مان لو۔ سب ٹھیک ہوجائےگا۔۔۔

    ملنگ بابا نے پر اسرار لہجے میں کہا تو اجواد بےساختہ بولا، میرا ایمان کہتا ہے کہ اچھی بری تقدیر سب اس ذات پاک کے حکم سے ہے۔ موت بھی برحق ہے بالکل اسی طرح جیسے یہ زندگی بھی اسی دینے والے کی دین ہے۔

    اجواد نے مضبوطی سے کہا۔۔۔ اسے لگا کہ جیسے وہ ایک دم سے ہلکا پھلکا ہو گیا ہے۔ اس کا ذہنی انتشاراور الجھن اور ڈر ایک دم سے غائب ہو گئے تھے۔

    جلدی سمجھ گئے ہو۔۔۔ ملنگ باب نے سرہالتے ہوئے خود کلامی کی۔ اجواد اٹھ کر جانے لگا تو ملنگ بابا بولے۔ زندگی میں دوبارہ کبھی بھی کسی کے علم کا مذاق مت اڑانا۔ ہر کوئی بہتر جانتا ہے کہ اس نے اپنا علم کیسے اور کس قیمت پہ حاصل کیا ہے۔ یہ مٹی کے کھیل آسان نہیں ہوتے۔ بس تم مٹی کے ہوکر بھی اس بھید کو نہیں سمجھ سکتے ہو۔ جاو آج کیا تمہیں اس لکیروں کے کھیل سے۔۔۔

    ملنگ بابا نے ہق مین مٹی اڑائی اور دوبارہ سے زمین پہ لکیریں سی کھینچنے لگے اور ان سے مختلف اشکال بانے لگے۔

    اجواد کچھ دیر تک انہیں دیکھتا رہا اور پھر پلٹ کر واپس آ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے بہت تھوڑی قیمت دے کر زندگی کا وہ سبق حاصل کیا ہے جو اس کی تمام عمر کے لئے کافی تھا۔

    آنے والے کئی سالوں میں اجواد موہن جودڈو کے ان کھنڈرات میں جاتا رہا۔ مگر اسے دوبارہ کبھی وہ ملنگ بابا نظر بہیں آئے تھے۔ وہ کھنڈروں جیسی پر اسراریت لے کر کہیں اور مٹی سے لکیریں کھینچتے اشکال بناتے، کئی بھٹکے ہوئے لوگوں کو ایمان کا رستہ دیکھا رہے تھے۔ کہ ہر علم کی معراج یہ ہی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے