Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لینڈ اسکیپ کے گھوڑے

مشرف عالم ذوقی

لینڈ اسکیپ کے گھوڑے

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

     

    (پیارے دوست اس۔ ال۔ حسین کے نام)

    سب سے بری خبر
    ’’نہیں، اس گھوڑے کے بارے میں نہیں پوچھئے۔ برائے مہربانی۔‘‘ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ برائے مہربانی اور جیسا کہ میں نے کہا، آپ یقین کیجئے۔ وہ گھوڑا۔ با۔ بابا۔ ایک بے حد دلچسپ کہانی اور جیسا کہ میں ہوں۔ کیا آپ مجھ پر یقین کریں گے۔ ہاں آپ کو کرنا چاہئے۔ اور وہ گھوڑا چانک کورے کینواس سے چھلانگ لگا کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔‘‘

    کالے چشمہ کے اندر حسین کی پتلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ نہیں۔ مجھے مغالطہ ہوا تھا۔ کسی بھی انسانی آنکھ کی پتلیوں میں یہ جوش میں نے کم دیکھا تھا۔ حسین کی پتلیاں ٹھہرتی نہیں تھیں۔ وہ شرارتی کنچے، کی گولیوں کی مانند تھیں۔ ادھر سے ادھر چمکیلے فرش پر تیرنے والی اور مجھے لگتا ہے باتیں کرتے ہوئے بھی حسین ان پتلیوں کو وقفے وقفے آپ کی نظر بچا کر اپنی ہتھیلیوں میں تھام لیتا ہے۔۔ گو، ایسا کرتے ہوئے وہ پریشان بھی ہو اٹھتا ہے کہ پتہ نہیں سامنے بیٹھا ہوا آدمی اس کے اس عمل کو کیا نام دے؟ مگر۔ کنچے کی گولیوں کی طرح اس کی آنکھوں کی شرارتی پتلیاں اور گھوڑے۔ 

    شراب کے دو ایک گھونٹ کے بعد ہی ہو وہ جذباتی حد تک فلسفی بن جاتا۔۔۔ 

    ’’دوست، سب سے بُری خبر ابھی لکھی جانی باقی ہے۔ ‘‘ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہل رہا ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ حسین کو چڑھ گئی ہے۔ چڑھنے کے بعد حسین کے اندر سنبھال کر رکھا ہوا، بوجھل آدمی مر جاتا ہے اور ایک حساس، جذباتی اور پاگل آدمی زندہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ 

    ’’دوست، ابھی سب سے بری خبر لکھی جانی باقی ہے۔ لیکن یہ بری خبر آہستہ آہستہ لکھی جائےگی اور ممکن ہے۔ ممکن ہے۔ اس کے لکھے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہو۔‘‘

    حسین پھر اپنی کرسی پر واپس آ کر بیٹھ گیا ہے۔ 

    ’’کیا یہ خبر تم سے جڑی ہے؟، میں ہنسنا چاہتا ہوں۔ حسین کو چھیڑنے کا منشا ہے۔ مگر۔ حسین کے اندر کا آدمی دکھ گیا ہے۔ 

    ’’سب سے بری خبر۔ سب سے بُری خبر کا تعلق محبت سے ہو گا دوست۔ سب سے بری خبر ہو گی کہ محبت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ سب سے بُری خبر ہو گی کہ محبت پر کچھ بھی تحریر نہیں کیا جائےگا۔ سب سے بُری خبر ہوگی۔‘‘

    حسین بہک رہا ہے۔ 

    میں اپنے دل کو سمجھاتا ہوں۔ حسین، جیسے بہت دیکھے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے پینے والے ہی حسین ہوتے ہیں۔ پی کر، خود پر قابو نہیں رکھنے والے۔ اپنے آپ کو بھول جانے والے۔ پھر۔ اندر کا فرسٹریشن مزے لے لے کر آپ کو ایک بیوقوف قسم کے جو کر میں بدل دیتا ہے۔ یعنی جیسے آپ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوں اور اپنے عکس کو دیکھ کر عجیب عجیب حرکتیں کر رہے ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ پینے کے بعد آپ اپنی عجیب عجیب حرکتوں کے لئے تو بچ جاتے ہیں لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بے سر پیر کی کہانیاں اور فلسفے شروع ہو جاتے ہیں اور شراب کا نشہ ہرن ہونے تک، فلسفے بھی شیمپئن کے جھاگ کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ 

    لیکن۔ سب سے بری خبر۔ 

    *

    مجھے اس خبر نے چونکایا تھا تو کیا اس آدمی نے، اس پچاس باون سالہ جذباتی خبطی آدمی نے محبت کا روگ بھی لگایا ہو گا۔ نہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس پچاس باون سالہ آدمی نے۔ ایک انتہائی تجربہ کار، حساس اور جذباتی آدمی نے۔۔۔ سوچنے کے آخری لمحے میں میں نے حسین سے اپنے دل کی بات پوچھ لی تھی۔ 

    ’’آپ کی سب سے حسین پینٹنگ کون ہے؟‘‘

    ’’جو میں نے اب تک نہیں بنائی۔‘‘ 

    اس کی آنکھوں کی پتلیاں، پھر سے کنچے کی گولیاں بن گئی تھیں۔ 

    اور جو کچھ حسین نے بتایا

    یہ کہانی یوں بھی شروع ہو سکتی تھی کہ ایک تیس سال کا پینٹر تھا اور ایک دبئی یا کسی بھی عرب ممالک میں رہنے والی لڑکی تھی۔ لیکن حسین کے لئے صرف لڑکی ہونا، محبت کے لئے کافی نہیں تھا۔ اور وہ بھی تب۔ جب ایک عمر نکل جانے کے بعد بھی ایک عمر آپ میں چھپی بیٹھی رہ جاتی ہے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ میں ہوں تو مجھے جیتے کیوں نہیں ہو۔ 

    ’’وہ کیسے ملی؟‘‘

    حسین کے لفظوں میں۔ پہلی بار لگا، وہ لڑکی دیکھتے دیکھتے میرے سامنے ایک پینٹنگ میں بدل گئی ہو۔ ایزل، کینواس، برش، رنگ۔ اس پینٹنگ میں سب کچھ تھا۔ لیکن لڑکی غائب ہو گئی تھی۔ لڑکی کی جگہ۔ ‘‘

    ’’گھوڑے نے لے لئے تھے۔‘‘ ’’میں مسکرایا۔ دلّی کی نمائش گاہ میں اس کی جس پینٹنگ کی، میں نے سب سے زیادہ داد دی تھی، وہ وہی دو گھوڑے تھے۔ دو وجیہہ گھوڑے۔ حسین ایرانی گھوڑے۔ آپس میں گلے ملتے ہوئے۔ کاغذ کے کینواس پر پنسل کی باریک لکیروں سے، ان دو گھوڑوں نے جنم لیا تھا۔ 

    ’’کیا یہ تم ہو، حسین؟‘‘

    ’’آہ نہیں۔ لیکن تم قریب قریب پہنچ رہے ہو۔‘‘

    ’’کیا ان میں سے ایک گھوڑا ہندستانی ہے اور ایک۔ ‘‘

    ’’نہیں۔ حسین پر اس بار پینٹنگ والی لڑکی حاوی ہو گئی تھی۔ ’’اس سے پہلے میں نہیں جانتا تھا۔ عورتیں، مردوں کی کمزوری سے کس حد تک واقف رہتی ہیں۔ اور شاید وہ اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن شاید اپنی ان کمزوریوں کو مرد بھی پہچانتا ہے۔ مرد ان کمزوریوں سے واقف رہتا ہے۔ اس وقت بھی جب عورت اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہی ہوتی ہے۔ لیکن آہ، عورت کبھی مرد کی اس طاقت کو نہیں پہچان پائی۔ جس کے بارے میں وہ جان لے تو شاید عورتوں کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے۔ کیونکہ ان کی پہچان کا ایک راستہ مرد کی طاقت سے بھی ہو کر گزرتا ہے۔ حسین کہتے کہتے ٹھہر گئے تھے۔ 

    ’’وہ میرے دوست کی بہن تھی اور اس دن، میرا دل بار بار کہہ رہا تھا، حسین کچھ ہونے والا ہے۔ یہ اندر کے گھوڑے کی بے چینی تھی، جس نے اپنے علاج کے لئے ڈاکٹر دوست کا گھر دیکھ لیا تھا۔ 

    ’’میں اپنے اسی لباس میں تھا۔ کرتا پائجامہ اور جیسا کہ میں عام طور پر پہنتا ہوں۔ کرتے پر کالے رنگ کی ایک صدری یا بنڈی۔ آپ جو بھی نام دے دیں۔ کال بیل پر انگلی رکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ لرز رہے تھے۔‘‘

    اور وہ آئی۔ وہ سامنے کھڑی تھی۔ تصویر ساکت تھی۔ وہ مجسم، میری اس پینٹنگ میں بدل گئی تھی، جو میں نے اب تک نہیں بنائی تھی۔ کیا یہ کیوپڈ کا تیر تھا؟ لمحہ رک گیا تھا اور پینٹنگ ساکت تھی۔ 

    ایک بہت ہی عام چہرہ جیسا کہ میں ہوں۔ 

    اور ایک بےحد خاص چہرہ جیسا کہ وہ تھی۔ 

    ایک بے حد عام سا مرد۔ اور بے حد خاص سی لڑکی۔ 

    ہم دونوں دروازے پر تھے۔ ایک دروازے پر ہاتھ رکھے اور دوسرا دروازے کے باہر۔ 

    خاموش ان لمحوں کا جادو ایسا تھا کہ کسی حسین پینٹنگ کی طرح میں اسے آنکھوں کے کینواس پر قید کر رہا تھا۔ بکھری ہوئی زلفیں۔ آسمانی رنگ کی شلوار، قمیض۔ اسی رنگ سے میچ کرتا ہوا دوپٹہ۔ دوپٹہ ہڑبڑاہٹ میں، اس کے کندھے سے ہوتا ہوا سینے پر جھول گیا تھا۔ وینس دی میلو۔ خوبصورت آدھے کٹے ہاتھوں والی عورت اور اس کا براق حسین سینہ۔ وہ سینہ مصفّی وہ دو قبہ نور۔ یقیناً وہ حسین تھے اور بھرے بھرے۔ اس کے ہونٹ موٹے تھے۔ موٹے ہونٹ میری کمزوری ہیں۔ موٹے اور رسیلے۔ وہ تو وینس دی میلوتھی۔ لیکن میں کیا تھا؟

    وہ مجھ میں کیا دیکھ رہی تھی۔ 

    میں اس پر نثار ہو رہا تھا اور چاہتا تھا، وہ اپنے لئے میری اس کمزوری کو محسوس کرے۔ 

    ’’عمر۔ عمر کیا ہو گی اس کی؟‘‘

    ان جادوئی خاموش لمحوں میں، میں اس کی عمر کی، رواں سڑک سے گزر رہا تھا۔ سولہ، اٹھا رہ یا زیادہ سے زیادہ بیس۔ یا عمر کہیں کسی سرکش گھوڑے کی طرح ٹھہر گئی تھی۔ ندی بہہ رہی تھی۔ 

    پھر ندی ایک دم سے ٹھہر گئی۔ 

    وینس کو اپنے ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔ 

    ’’دیکھئے۔ ‘‘

    میں نے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔ ’’میری طبیعت خراب ہے۔ اس وقت بھی بخار سے جل رہا ہوں۔ فرقان میرے دوست ہیں اور آپ کے ملک میں میرا ساتواں دن ہے۔ آنے سے قبل، پاکستان سے فرقان سے میری فون پر بات ہوئی تھی‘‘

    اس کی آنکھوں میں نشہ تھا۔ وہ ہرن کی طرح لہرائی۔ ندی کی لہروں کی طرح گھومی۔ دوپٹہ کو ریشم کی ڈوری کی طرح نچایا۔ اپنی ’’لانبی‘‘ گردن کو جنبش دی۔ 

    مجھے اندر آنے کے لئے جگہ دیا۔ مسکرائی۔ 

    ’’آ جایئے۔ فرقان میرے بڑے بھائی ہیں۔‘‘ 

    ڈاکٹر فرقان، پینٹنگ اور وہ
    وہ بات بات پر ہنس پڑتا تھا۔ یا یوں کہئے، اسے ہنسنے کی بیماری تھی۔ یا یوں کہئے، ہنسنا اس کے لئے مریضوں کو ’’رُجھانے ‘‘ کا ایک شغل بن چکا تھا۔ مجھے یقین تھا وہ رات میں سوتے سوتے بھی بلا واسطہ ہنستا ضرور ہنستا ہو گا۔ تو یہ ڈاکٹر فرقان تھا۔ (نہیں، آپ اس آدمی یا اس کی کہانی پر تعجب مت کیجئے، جس کے بارے میں، بعد میں معلوم ہوا کہ فرضی اور جعلی ڈگریوں کے حوالے سے اس نے نہ صرف میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔ بلکہ دبئی تک کا سفر بھی کر آیا۔ بہر کیف ان باتوں کا کہانی سے کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے ) مجھے تعجب تھا، اتنی حسین لڑکی ڈاکٹر فرقان کی بہن کیسے ہو سکتی ہے اور اس سے مسلسل، باتیں کرنے کے دوران مجھے یہ خیال بھی پیدا ہو رہا تھا کہ اس جیسے کسی ڈاکٹر کو یعنی جس کا ٹارچر کرنے والا پیشہ اس کے چہرے پر بھی لکھا ہوتا ہے، کی کوئی بہن نہیں ہونی چاہئے۔ بہن اور وہ بھی اتنی خوبصورت۔ 

    ’’ہو۔۔۔ ہو۔۔۔ ڈاکٹر فرقان پھر ہنسا۔ تو اب بھی تمہاری وہی عادت ہے، یعنی آڑی ترچھی لکیریں ۔۔۔ ہو ہو۔۔۔ 

    وہ ہنس رہا تھا۔ 

    وہ سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ مسکرا رہی تھی۔ 

    ’’تو آپ پینٹنگ بناتے ہیں؟‘‘

    ہو ۔۔۔ ہو۔ ڈاکٹر فرقان کو اپنی بے کار کی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ 

    ’’آئیے۔ آپ سے کچھ پینٹنگ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ کھڑے کھڑے اس نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ انتہائی شفاف۔ لانبی مخروطی انگلیاں۔ کیا یہ وینس دی میلو کی انگلیاں ہیں۔ آج اس کا دوپٹہ غائب تھا۔ کھلے گلے سے ’’قبہ نور‘‘ کے دیدار کے لئے آج اس نے میری مسحور نظروں کو روکا یا ٹوکا نہیں تھا۔ جی بھر کر دیکھنے دیا تھا۔ اس کی انگلیاں گرم تھیں۔ ہتھیلیاں، آگ کا گرم انگارہ بن گئی تھیں۔ 

    ڈاکٹر فرقان ہنس رہا تھا۔ پینٹنگ۔ ہو ہو۔۔۔ جاؤ میری بہن اس موضوع پر تم سے کچھ زیادہ اچھی باتیں کر سکتی ہے۔ ہو ہو۔۔۔ 

    اس نے ہاتھ تھامے ہوئے اپنی بہن کو کچھ ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے عام طور پر وہ اپنے مریضوں کو دیکھتا ہو گا۔ 

    اس کی آواز سرد تھی۔ جیسے کسی گہرے کنویں سے آ رہی ہو۔ 

    ’’بھیا ایسے ہی ہیں۔ ہمیشہ سے۔ یعنی پورے ڈاکٹر۔ ‘‘

    ہم بالکونی میں تھے۔ پلاسٹک کی کرسیوں کے پاس کی جگہ ایک چھوٹے سے گارڈن کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔ جہاں ہم بیٹھے تھے، وہاں سے آسمان پتوں کی قطار سے جگمگا تا ہوا، کچھ زیادہ ہی گہرا نیلا ہو گیا تھا۔ اس نے نظر جھکائی۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے تھام لیا۔ وہ اپنے ناخنوں پر لگی پالش سے کھیل رہی تھی۔ 

    ’’تہذیب نے آرٹ کو جم دیا اور آرٹ نے تہذیب کے لئے راستے پیدا کئے۔ پہلے تہذیب پیدا ہوئی یا پہلے آرٹ؟ پہلے بیج پیدا ہوا یا پہلے درخت؟۔ مجھے لگتا ہے، پہلے پہلے ایموشنس، رہے ہوں گے۔ جذبات۔ دو آنکھوں، دو دریا اور دو دلوں کے بیچ۔ جیسے ندی میں کنکری پھینکو۔ پہلے پہلے کسی نے اس کنکری کی چیخ سنی ہو گی۔ اور اس چیخ کو ’’پاشان‘‘ والوں نے کسی درخت کے کھوکھل یا زمین کے ماتھے پر لکھ دیا ہو گا۔ آرٹ پہلے آیا اور تہذیب؟‘‘

    اس نے کنچوں والے جھولتے گل دستے سے ایک پتہ توڑ لیا۔ ’’تہذیبیں کتنی آگے نکل گئیں۔ اسٹون، کوپر اور آئرن ایج کے انسان نے اپنے ہر کرشمہ کے لئے آرٹ کو آواز دی ہو گی؟ ہے نا؟‘‘ وہ میری طرف گھومی تھی۔ 

    ’’تم پینٹر، عورت میں کیا دیکھتے ہو؟‘‘

    وہ جھکی تو اس کے قبہ نور کے شعلے انگاروں کی بارش کرنے لگے۔ اس نے مجھے اپنے جادو میں تیرنے دیا۔ ذرا توقف کے بعد وہ پھر بولی۔ 

    ’’تم نے جواب نہیں دیا۔ تم لوگ عورت میں کیا ڈھونڈھتے ہو؟‘‘ ایک ننگا جسم؟ وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ گداز بانہیں، حسین چکنے پاؤں، جیسے ایک چکنی سڑک اور۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ 

    پھر اس کی مسکراہٹ کچھ زیادہ ہی گہری ہو گئی۔ 

    ’’کیا تم مجھے دیکھنا چاہو گے؟‘‘

    اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اٹھی۔ میرا بدن لرز رہا تھا۔ اٹھتے اٹھتے میں نے دیکھا اس نے جھولتے گلدستہ سے جو پتہ توڑا تھا۔ اس کے ٹکڑے زمین پر بکھر گئے تھے۔ 

    ڈاکٹر فرقان! میرے لب تھرتھرائے۔ 

    ’’نہیں۔ وہ مریضوں کو دیکھنے جا چکے ہیں اور شام کے 8بجے سے قبل لوٹیں گے بھی نہیں۔‘‘

    وہ مجھے اپنے بیڈروم میں لے آئی تھی۔ آگے بڑھ کر پچھم کی طرف کھلنے والی کھڑکی اس نے بند کر دی۔ پردہ کھینچ دیا۔ بلب روشن کر دیا۔ مجھے صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر میز پر، کتابوں کے درمیان سے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ پھر تیز تیز میرے قریب آ کر، البم سے ایک تصویر نکال کر ہنس پڑی۔ 

    ’’پہچانو۔‘‘

    تصویر میں ایک سال کی بچی، نہانے والی بالٹی کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔ ایک عورت ہاتھ میں پانی کا مگ لئے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ 

    ’’یہ میں ہوں، اس نے بچی کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ اور یہ ماں ہے۔‘‘ اس کے چہرے پہ معصوم شرارت تھی۔ 

    ’’دیکھ لیا مجھے۔ اس بچی کو ایک پینٹنگ میں کتنا بڑا کر سکتے ہو؟۔ میرے برابر؟۔ پھر وہ یہ رہی۔ یا یہ میں بن گئی؟‘‘

    ’’اس بچی نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا ہے۔ ‘‘

    ’’اور میں لباس سے ہوں۔‘‘ 

    وہ ہنس رہی تھی۔ کمال تو تب ہے جب تم اس بچی کو ربر کی طرح کھینچ کر پینٹنگ میں ڈال دو۔ ڈال سکتے ہو؟

    مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی
    ’’تو کیا یہ میں ہوں گی حسین؟ یعنی، میں جو ابھی ہوں۔ یا وہ بچی ہوگی، جو اس تصویر میں ہے اور جو نہانے کے نام پر رو رہی ہے۔ برہنہ‘‘

    ’’تم یہ بات کس طرح جاننا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔ ‘‘

    ’’اس بچی کو اگر ربر کی طرح کھینچا جائے تو۔ ’’میں بچی اور اس کے چہرے کو تول رہا تھا ’’بچی میں تم نہیں ہو اور تم میں بچی نہیں ہے۔‘‘ 

    ’’یہ میری بات کا جواب نہیں ہوا‘‘

    اس بار میرا لہجہ سخت تھا۔۔۔ سنو، پریم پجاری۔ امتحان مت لو میرا۔ پینٹنگ کی زبان میں یہ دونوں الگ چہرے اور جسم رکھتے ہیں۔ تمہیں چھوٹا کروں تو اب کی تم کل والی اس بچی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اور بچی کو ربر کی طرح کھینچوں تو، یہ تمہاری طرح آگ نہیں بن سکتی۔ ‘‘

    ’’پینٹنگ کی زبان چھوڑ کر زندگی کی زبان میں بات کرو تو۔‘‘ وہ مسکرا رہی تھی۔ 

    ’’بچی کے ساتھ سیکس کا خیال نہیں ابھرتا اور تمہارے ساتھ‘‘

    اس نے گرم ہتھیلیاں میرے ہونٹوں پر رکھ دیں۔۔۔ 

    قبّہ نور، کو اب لباس کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔ 

    وہ ناچی، اچھلی، تڑپی اور میرے جسم میں سما گئی۔ 

    یہ پہلے گھوڑے سے میری ملاقات تھی۔ 

    *

    کمرے میں ٹپ ٹپ بارش رک چکی تھی۔ 

    ’’برسوں پہلے موہن جوداڑو کی کھدائی سے۔۔۔ تمہیں یاد ہے۔ ’’سفید چادر میں اس کے ہلتے پاؤں نے میرے ننگے پاؤں پر اپنا گداز بوجھ ڈال دیا تھا۔۔۔ تمہیں یاد ہے حسین، وہ آرکائیو والوں کے لئے یقیناً ایک انوکھی، قیمتی اور مہنگی چیز تھی۔ مجھے یاد کرنے دو۔ ایک عظیم بھینسا، رالچھس جیسا۔ بڑی بڑی سینگیں۔ لیکن چھوٹا سر۔ دو نوکیلی سینگیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ میں نے یہ تصویر کسی امریکن میگزین میں دیکھی تھی۔ لیکن، مجھے یاد رہ گئی۔ پتہ ہے، وہ عظیم بھینسا کون تھا۔ وہ تم تھے حسین!‘‘

    وہ اچھلی۔ سفید چادر اس کے اجلے نرم ملائم بدن سے پھسل کر اس کی جانگھوں تک چلی گئی تھی۔۔۔ 

    ’’تم اس وقت بھی تھے۔ موہن جودڑو کی تہذیب میں۔ ایک عظیم بھینسے کی صورت میں۔ لیکن اس وقت میں کہاں تھی حسین؟‘‘

    وہ تارکول کی طرح میرے بدن پر پھسل رہی تھی۔ ’’میں بن رہی تھی شاید۔ ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ عیسیٰ قبل کئی صدیاں پہلے یونان میں۔ کبھی ’’پارتھنیان‘‘، کے آدھے گھوڑے آدھے انسانی مجسمے کی صورت۔ کبھی وینس اور ’’اپالو‘‘ کی پینٹنگ میں۔ کبھی لیونارڈو دی ونچی کی مونالزا اور جن آف راکس، دی میڈونا اینڈ چائلڈ اور باچیوز میں۔ اور کبھی رافل، رمبراں اور جان اور میر کی تصویروں میں۔‘‘

    وہ کچھوے کی طرح پھدکی۔ میرے پاؤں کے انگوٹھے کو اپنے ہونٹوں میں بھرا۔ پھر اچھل کر میرے پاؤں کے بیچوں بیچ آ کر بیٹھ گئی۔ 

    ’’سچ کہنا، مونالزا کا صرف چہرہ مسکراتا تھا اور میرا جسم۔‘‘

    ’’لیونارڈو دی ونچی نے تمہیں نہیں دیکھا تھا۔ اس لئے وہ جسم کی ایسی کسی مسکراہٹ سے واقف نہیں تھا۔‘‘

    ’’کیا میں مائیکل اینجلو کا تصور ہوں؟‘‘

    ’’تم ایک حسین بدن کا تصور ہو‘‘

    ’’کیا میں۔‘‘

    میں نے اپنے چیختے بدن کو ایک بار پھر اس کے حوالے کر دیا تھا۔ 

    ’’تم ایک گھوڑا ہو اور یقیناً یہ گھوڑا پارتھینان کے گھوڑے سے مختلف ہے۔‘‘

    اور اسی کے ساتھ میں نے اس کے جسم کے دریا میں چھلانگ لگا دیا تھا۔ 

    خالی کینواس، ننگا بدن اور چھلاوہ
    اس رات، بلکہ یوں کہئے ساری رات میں خود سے لڑتا رہا۔ ’’ایزل‘‘ کسی ایرانی گھوڑے کی طرح تنا ہوا، کورے کینواس کا بوجھ اٹھائے تھا۔ اور کینواس کا ’’کورا بدن‘‘ میرے ہاتھوں کی انگلیوں کے تعاقب میں تھا۔ رنگ بھرے جانے تھے۔ لیکن رنگ کون بھرتا۔ پینسل کا پورا ڈبہ بلیڈ کی حیوانیت کی نذر ہو چکا تھا۔ سفید کاغذ پر دھبے جمع ہو رہے تھے۔ پارتھینان کا آدھا گھوڑا، آدھا انسان۔ ایک سرکش ندی کا بدن۔ خیال آ رہے تھے۔ مچل رہے تھے۔ اور اس کے مخملی بدن سے پھسلتے ہوئے لوٹ ج رہے تھے۔ آدھی جل مچھلی، آدھا گھوڑا۔ یہ بھی نہیں۔ مکمل گھوڑا۔ یہ بھی نہیں۔ اس کا بولتا بدن۔ چیختا بدن۔ اس کے موٹے، پھل کے رس سے بھرے ہونٹ۔ میں بار بار اس کی زندہ پینٹنگ میں دفن ہوا جا رہا تھا۔ پھر میں نے سوچ لیا۔ 

    ’’کیا؟‘‘

    میں یہاں رہا۔ تو میں مر جاؤں گا۔ ٹھیک اپنے کینواس کی طرح۔۔۔ کورا۔ میں اس کا جسم بن جاؤں گا۔ کیونکہ سمندر کو، ندیوں کو ضم کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ سمندر تھی اور

    ’’تم ندی تھے؟‘‘

    ’’میں ندی بھی نہیں تھا۔ میں ندی کی معمولی لہر بھی نہیں تھا۔ اور وہ۔ بلا خیز طوفان تھی۔ اس نے مجھے۔ آسمان سے باتیں کرنے والا، دو عظیم سینگوں والا بھینسا غلط کہا تھا۔ دراصل۔‘‘ 

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’موہن جوداڑو کی تہذیب سے نکلے جس مجسمے کی تصویر کو اس نے امریکن میگزین میں دیکھا تھا‘‘ وہ۔ وہ خود تھی۔ وہ مجھے خوش کر رہی تھی۔ سمندر ندیوں کو پی کر مہان بننے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ایگو پرابلم تھا۔ میں ایسی کوئی ندی نہیں بننا چاہتا تھا جسے سمندر آسانی سے ہضم کر ڈالے۔ ندی سہی، لیکن میں ندی بن کر ہی اپنے آرٹ کو زندہ رکھنا چاہتا تھا۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’اس سنسنی خیز حادثے کے بعد میں وہاں دو دن اور رہا۔ دو دنوں میں، میں نے اپنی واپسی کی پوری تیاری کر لی۔ اس درمیان ڈاکٹر فرقان کے کئی فون میری تلاش میں آئے۔ لیکن میں کسی بھی طرح اپنی واپسی کی اطلاع کو اس سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا۔ ‘‘

    ’’تو کیا یہ ممکن ہوا؟‘‘

    ’’آہ۔ نہیں۔ فلائیٹ میں چار گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔ دو بڑے بڑے سامان پیک ہو کر دروازے کے پاس رکھے تھے۔ بیل بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ سامنے، سمندر کی شانت لہریں میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ اسے میرے واپس جانے کی خبر مل گئی تھی۔ 

    ’’جاؤ۔‘‘ 

    وہ ایک بےحد ’’اچھالدار‘‘ لہر تھی۔ ’’مگر یاد رکھو، میرا بدن تمہارے بدن میں رہ گیا ہے۔ کیا اس بدن کو بھول سکوگے؟۔‘‘

    جانے سے پہلے وہ پلٹی۔ ’’اور یاد رکھو۔ یہ پارتھینان کے آدھے انسان کا بدن یا وینس دی میلو نہیں ہے۔‘‘

    ’’سنو۔‘‘

    جانے سے پہلے، اسے آخری بار دیکھ کر، میں نے اپنے آنسو چھپا لئے تھے۔۔۔ ’’برسوں پہلے تمہارے جنم میں میں نے اپنا جنم رکھ دیا تھا۔ آواگون کو مانتی ہو تو ہم پہلے بھی ملے تھے اور ہم۔ پھر ملیں گے۔‘‘

    دروازے پر کوئی نہیں تھا۔ 

    میری فلائیٹ کا وقت قریب آ چکا تھا۔ 

    دو گھوڑے 

    قارئین!
    سب سے پہلے میں آپ کی توجہ ایک بے حد خاص موقع کے لئے، بنائی گئی اس بے حد خاص پینٹنگ کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔ اس پینٹنگ میں دو گھوڑے ہیں۔ دو حسین گھوڑے۔ یہ گھوڑے جوناتھن سوئفٹ، کے خیالی گھوڑوں کی طرح خوبصورت بھی ہیں اور وجیہہ بھی۔ یعنی دو بےحد حسین ایرانی نسل کے شاندار گھوڑے۔ ان کے دو پاؤں دھرتی پر اور دو ہوا میں معلق ہیں۔ اس طرح جیسے یہ کوئی بہت اہم پیغام لے کر ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہوں۔ یہ پینٹنگ میری ڈرائنگ روم کی زینت ہے۔ یعنی ایک بے حد خاص موقع کے لئے بنائی گئی۔ پینٹنگ۔ اور ایک بےحد خاص دوست کی طرف سے۔۔۔ اور جیسا کہ پہلی بار دلّی کی نمائش گاہ میں جیتے جاگتے ان دو گھوڑوں کے ملاپ پر، شیشے کے اوپر سے ہاتھ پھیرتے ہوئے میں نے حسین سے پوچھا تھا۔ 

    ’’کیا ان میں سے ایک ہندستان ہے؟‘‘

    حسین کی آنکھوں میں چمک تھی۔ 

    ’’اور دوسرا پاکستان؟‘‘

    اور جواب کے طور پر حسین نے کہا تھا۔ ’’آہ نہیں، لیکن اب تم قریب قریب صبح جگہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہو۔‘‘

    پاکستان جانے سے پہلے حسین کا ایک مختصر دستی خط مجھے ملا تھا۔ ’’آپ کی پینٹنگ چھوڑے جا رہا ہوں۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے، یہ پینٹنگ آپ کو وہیں رفیع مارگ، اسی بلڈنگ میں مل جائےگی جہاں میری تصویروں کی نمائش لگی تھی۔‘‘

    اور اس طرح، قارئین، بےحد خاص موقع پر بنائی گئی وہ پینٹنگ میرے گھر، میرے ڈرائنگ روم کی زینت بن گئی۔ لیکن یہ کہانی چونکہ انہی وہ گھوڑوں کی مدد سے شروع ہوئی ہے اور اس کے خالق حسین ہیں، اس لئے حسین کے بارے میں کچھ اہم اطلاعات آپ تک پہچانا ضروری ہے۔ 

    تقسیم وطن کے دو ایک سال بعد، جب مار کاٹ میں کچھ کمی آ گئی تھی، ہندوستان، پاکستان دو آزاد ملکوں کے طور پر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب نوابوں کے شہر لکھنؤ کی ویران بستیوں میں حسین کا جنم ہوا تھا۔ ویران بستیاں۔ مجھے اپنے الفاظ پر شرمندگی ہے۔ لٹا تو پورا ملک تھا، بلکہ بٹوارے میں تو دل اور دماغ بھی بٹ گئے تھے۔ لیکن لکھنؤ کی تہذیب کا خون کچھ زیادہ ہی ہوا تھا۔۔۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ لکھنؤ چھوڑ کر حسین کا خاندان پاکستان کیوں آباد ہو گیا۔۔۔ ظاہر ہے، کچھ تو وجہ رہی ہو گی۔ امین آباد کی انہی سونی گلیوں میں سے ایک میں ڈاکٹر فرقان کے والد، والدہ کا گھر آباد تھا، جن سے بچپن میں حسین کے مراسم تھے۔ ہاں، پاکستان جانے تک وہ لڑکی، جس کا ذکر کہانی کے شروع میں بار بار آیا ہے، کا دور دور تک وجود نہیں تھا۔۔۔ فرقان پانچ ساتھ برس، حسین سے بڑے ہوں گے۔۔۔ اور پاکستان سے دبئی جاتے ہوئے حسین کو اتفاقیہ طور پر ان کا پتہ ملا تھا۔ لیکن حسین کو کیا خبر تھی کہ اس غیر ملک میں ایک بہت عجیب خبر، ایک بےحد خاص خبر میں بدلنے کے لئے ان کا انتظار کر رہی ہے۔ 

    تو میں اس پینٹنگ کی بات کر رہا تھا، جو میرے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے۔ (اور پینٹنگ کے پہلے گھوڑے کی کہانی آپ حسین کی زبانی آپ سن چکے ہیں۔)

    ’’دوسرا گھوڑا۔‘‘

    ہم ہوٹل جن پتھ کے ’’بار‘‘ میں تھے۔ یہ حسین کے واپس جانے سے دو دن قبل کا واقعہ ہے۔ حسین تین پیک لے چکے تھے اور حقیقتاً، کہنا چاہئے آنکھوں کی تھرکتی پتلیاں، ایک بار پھر کانچ کی گولیاں بن گئی تھیں۔ 

    ’’قصوں سے کہیں زیادہ پُر اسرار ہوتی ہیں سچی کہانیاں‘‘

    ’’بچپن میں لکھنؤ چھوڑا۔ پاکستان آباد ہو گیا۔ 80ء کے آس پاس دبئی گیا۔ یعنی اچھے کام کی تلاش میں۔ تب عمر ہو گئی یہی کوئی تیس کے آس پاس۔ ڈاکٹر فرقان کی بہن ٹکرائی۔ اور میں واپس پاکستان لوٹ گیا‘‘

    ’’پھر۔‘‘

    حسین نے ایک بڑا سا پیگ بنایا۔ اس کی آنکھوں میں نشہ اتر رہا تھا۔ 

    *

    یعنی یہ پچھلے سال گرمیوں کا ذکر ہے۔ سن 2001ء کے اگست ستمبر کا مہینہ۔ اس خوبصورت حادثہ کے 20-22 برس بعد ’’پیس مشن‘‘ سلسلہ میں حسین کو ہندوستان کے دوسرے فنکاروں کے ساتھ ویزا ملا تھا۔ ویزا کے مطابق وہ دلّی کے علاوہ اپنے وطن لکھنؤ جا سکتے تھے۔ سیاسی سطح پر ہندوپاک کے تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے تھے کہ فنکار اور دانشوروں کا طبقہ ان دنوں لگاتار پاکستان سے پیس مشن پر ہندوستان آ رہا تھا۔۔۔ 

    لیکن۔ کیسا پیس مشن؟ جہاں دلوں کو سیاسی دیواروں نے بانٹ رکھا ہو، وہاں شانتی اور امن کے پیغام بھی بے معنی لگنے لگتے ہیں۔ شاید اسی لئے ان دو گھوڑوں کی محبت بھری ادا کو دیکھ کر میں نے پوچھا تھا۔ ان میں سے ایک ہندوستان ہے اور دوسرا۔‘‘

    نمائش گاہ سے باہر نکل کر حسین نے مجھے چونکا دیا تھا۔ ’’یقین کرو گے یہ میری تازہ پینٹنگ ہے۔‘‘

    ’’یعنی۔‘‘

    ’’دوبئی میں اس رات جو کینواس ادھورا رہ گیا تھا، وہ لکھنؤ مسعود نیّر کے شہر سے واپسی پر کل رات میں نے پورا کیا۔ 

    ’’مسعود نیر؟‘‘

    ’’فرقان کو مذاق مذاق میں، ہم لوگ مسعود نیّر بھی کہتے ہیں۔ (اور جس کے، میڈیکل کی جعلی ڈگری لے کر دبئی آنے کا تذکرہ آپ پہلے سن چکے ہیں)

    ’’ممکن تھا، میں اس رات جانے کا ارادہ ترک کر چکا ہوتا۔ ممکن تھا، میں نے پینٹنگ بنا لی ہوتی۔ لیکن میرا یقین ہے۔‘‘

    حسین نے زور سے میز پر ایک مکّا مارا۔ بار میں بیٹھے دوسرے لوگوں نے پلٹ کر حسین کی طرف دیکھا۔ حسین کی آنکھوں میں دھرے دھیرے مدہوشی چھانے لگی تھی۔ 

    ’’شاید میرا پیس مشن پر آنا کامیاب ہو گیا تھا۔ تمہیں یاد ہے نا؟ وہ ہماری آدھی ملاقات تھی جب اس نے کہا تھا، کیا تم اس بدن کو بھول سکو گے۔ ہاں، مجھے اس کی ایک ایک بات یاد رہی اور پورے بیس بائیس برسوں تک۔۔۔ پاکستان کی آمرانہ فوجی حکومت۔ سیاسی اتھل پتھل اور زندگی کے ہنگاموں کے دوران کا ہر لمحہ۔ وہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے رہا۔ وہ لفظ میرے کانوں میں گونجتے رہے۔‘‘ یہ پارتھنیان کے آدھے انسان کا بدن یا وینس دی میلو نہیں ہے۔ میں جینے کی کوشش کرتا تھا اور سمندر کی لہریں اچانک اچھلتی، گرجتی چاروں طرف سے۔ مجھے اپنے قبضہ میں کر لیتی تھیں۔ میں نے سوچا تھا، اس سے دور جا کر میں جیت جاؤں گا۔ مگر نہیں۔ شاید 20-22 برسوں تک۔ اس سے الگ کی ایک لمبی زندگی۔۔۔ شاید میں سچ مچ ندی تھا اور سمندر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ مجھے اپنے میں ضم کر لے۔ وہ دور رہ کر بھی سمندر رہی۔ اور میں اتنے طویل برس لگاتار اسی سمندر میں تیرتا ابھرتا رہا۔ ہاں پارتھینان کے آدھے گھوڑے والے حصے کو اپنی ناکامی کے طور پر کاغذ کے کینواس پر رنگ دے چکا تھا مگر۔ 

    ’’دوسرا گھوڑا؟‘‘

    حسین مسکرائے۔ بوتل خالی پڑی تھی۔ گلاس بھی خالی تھا۔ نیپکن سے ہاتھ پوچھتے ہوئے حسین نے گلاس پلٹ کر ٹیبل کر رکھ دیا۔ 

    ’’لکھنؤ گیا تو معلوم ہوا مسعود نیّر دبئی کی پریکٹس چھوڑ کر واپس آ گیا ہے۔ (واپس آنے کی وجہ وہی جعلی ڈگری تھی۔ یعنی مسعود نیّر نے زندگی بھر جو کچھ کمایا وہ سب جعلی ڈگری کے عوض تھا۔) مجھے یہ بھی معلوم ہوا، وہ بیمار رہ رہا ہے۔ میں اس کی عیادت کے لئے گیا اور لکھنؤ میں امین آباد کی، انہی ویران گلیوں میں سے ایک میں، ذرا سا پوچھ تاچھ کرنے پر اس کا مکان مل گیا۔ میں نے دروازہ پر دستک دی اور مسعود نیّر کے دروازہ کھولنے کے انتظار میں کھڑا رہا۔ 

    کیا آپ؟

    حسین کے چہرے پر نشہ کا دور تک نام نہیں تھا۔ کیا آپ جنم جنمانتر کا بندھن یا آواگون پر یقین رکھتے ہیں؟ مجھے میرے لفظ یاد آئے، جو میں نے آخری بار اس کے واپس جاتے قدموں کو روک کر ادا کئے تھے۔ ’’برسوں پہلے تمہارے جنم میں، میں نے اپنا جنم رکھ دیا تھا۔‘‘ دروازہ کھولنے والی وہی تھی۔ وہ ذرا سی بجھ گئی تھی۔ لیکن 20-22 برس کے فاصلے کو بہت زیادہ اس میں محسوس نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے ’’ول پال‘‘ کی پینٹنگ کی طرح بہتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی ہوا کو ہاتھ کے اشارے سے، آدھے میں ہی روک رکھا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ رک اسے ذرا بھی تعجب نہیں تھا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا، جیسے میں اپنے ہی گھر میں، صبح آفس سے گیا گیا شام کو واپس گھر لوٹ آیا تھا۔ ہاں، اس کی آنکھیں تھکی تھکی تھیں۔ لیکن ان آنکھوں میں اس نے ایک لمبا انتظار رکھ دیا تھا۔۔۔ تو اس نے دروازہ کھولا۔ میری طرف دیکھا اور میرا، آخری ملاقات میں بولا گیا، میرا ہی جملہ میرے سامنے رکھ دیا۔ 

    ’’آواگون کو مانتی ہوں۔ ہم پہلے بھی ملے تھے اور ہم پھر مل رہے ہیں۔‘‘

    ’’کون ہے؟‘‘ اندر سے ڈاکٹر کی آواز آئی تھی۔ 

    ’’ہو ہو۔۔۔ ہو۔۔۔ آڑی ترچھی لکیریں۔۔۔ ہو ہو۔ آدھی ہنسی کے راستے میں دمہ کے مرض نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ کم بخت کھانسی۔ 

    ’’تم لوگ باتیں کرو’’۔ اندر جاتے ہوئے میں نے ڈاکٹر فرقان کا غور سے جائزہ لیا۔ ان برسوں نے اسے ایک بدنما شخصیت میں تبدیل کر دیا تھا۔ پھولا پیٹ۔ بدن پر چڑھی ہوئی کچھ زیادہ چربی۔ آنکھوں پر کالا چشما اور پیشانی پر سجدے کا داغ۔ 

    سامنے آ کر اس نے اپنی ہتھیلیاں میری طرف بڑھائیں۔ 

    ’’یہ میرے دوسرے گھوڑے کا چہرہ تھا۔ ‘‘

    *

    اور اس کے ٹھیک دو دن بعد ہی، میرے لئے ایک دستی خط اور ایک، دو گھوڑوں کا پورٹریٹ چھوڑ کر حسین پاکستان واپس لوٹ گئے تھے۔۔۔ خط میں ایک جملہ اور بھی تھا، جسے میں نے جان بوجھ کر کہانی کے حسین اختتام کے لئے آپ سے چھپا کر رکھا تھا۔۔۔ اصل میں حسین کے آناً فاناً پاکستان بھاگنے کے پیچھے بھی ایک راز تھا اور اسی لئے خط کے آخر میں حسین نے تحریر کیا تھا۔ ’’مائی ڈیر، وہ لڑکی مجھ سے شادی کے لئے راضی ہو چکی ہے۔ پاکستان جا کر بہت سے کام مکمل کرنے ہیں۔ میں بہت جلد واپس آؤں گا۔ عقد مسوسلہ کے لئے۔ میرے لئے اپنے انتظار کو سنبھال کر رکھنا۔ بس الٹی گنتی شروع کر دو۔ میں پہنچنے ہی والا ہوں۔ تمہارے ملک۔ اپنے ملک۔‘‘

     دہشت گردی بنام جنگ اور حسین کی آمد

    یہ وہ اُنہی دنوں کا واقعہ ہے جب ای میل سے مجھے حسین کا پیغام ملا تھا۔ میں آ رہا ہوں۔ میں بہت جلد تم سے ملوں گا۔ بائیس برسوں کی مسافت کم نہیں ہوتی یار اور جب آپ نے محسوس کیا ہو کہ وہ برس تو آپ نے خرچ ہی نہیں کئے۔ دراصل ہم دونوں نے وہ 22 برس اپنی اپنی ذات کی تحویل میں رکھ کر، کنجی وقت کے والے کر دی تھی۔ وقت نے اب جا کر یہ کنجی ہمیں واپس کی ہے۔ یقین جانو، یہ ایک انوکھی شادی ہو گی۔‘‘

    *

    اور آپ جانئے، یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے، جب دنیا کی تقدیر میں دہشت کے نئے باب لکھے جا رہے تھے۔ قارئین! یہ کہانی کی مجبوری ہے کہ یہ اپنے وقت اور حالت کے تجزیے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ’’پرانے ہزارہ‘‘ کے تاریخی دھماکے ابھی کم بھی نہیں ہوئے تھے کہ نئے ہزارہ کی چیخوں نے انسانیت کی کتاب میں کتنے ہی لہو لہو باب کا اضافہ کر دیا۔ 11! ستمبر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر دہشت گردوں کے ہنگامے کے بعد ہندو پاک کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ پھر 13! دسمبر ہندستانی پارلیامنٹ پر دہشت پسندوں کے حملے کے بعد صورت حال آہستہ آہستہ جنگ میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ نتیجہ کے طور پر اپنی اپنی سطح پر دونوں ہی ملکوں نے کئی بھیانک قدم اٹھائے۔۔۔ ہندوستان نے نہ صرف اپنا سفارت خانہ بند کیا بلکہ اپنے ہائی کمشنر بھی واپس بلا لئے۔ فضائیہ اڑانوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ابھی تعلقات کی سرحدوں پر آخری کیل ٹھوکنے کی کارروائی باقی تھی۔ 

    اور وہ کارروائی تھی۔ ہندوستان سے پاکستان جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس اور بسوں کو بند کرنے کی کارروائی۔ 

    قارئین! ان پابندیوں کا وقت وہی تھا، جب حسین، اپنی بائیس برسوں کی گمشدہ محبت کو نیا عنوان دینے کے لئے ہندوستان آنے والے تھے۔ یعنی سمجھوتہ ایکسپریس سے باراتیوں کا قافلہ آنے والا تھا۔ 

    سرحدیں بارود اُگل رہی تھیں۔ واگہہ بارڈر سے دلّی بس اڈے تک گھنا کہرا چھایا ہوا تھا۔ باہر سرد لہر چل رہی تھی۔ میں اپنے ڈرائنگ روم میں تھا۔ 

    اچانک یوں ہوا۔ پورٹریٹ سے حسین کے دونوں گھوڑے کودے اور میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے غور سے دیکھا۔ یقیناً یہ پارتھینان کے آدھے حصے والے گھوڑے نہیں تھے۔ یہ گھوڑے اپنے حسن میں مکمل تھے۔ لیکن یہ گھوڑے ٹھہرے نہیں، بلکہ پلک جھپکتے ہی ڈرائنگ روم سے اوجھل ہو گئے۔ میں نے ڈرائنگ روم میں، دیوار پر آویزاں پورٹریٹ کی طرف دیکھا۔ وہاں ایک خالی کینواس پڑا تھا۔ مجھے حسین کے الفاظ شدت سے یاد آ رہے تھے۔ 

    ’’سب سے بُری خبر لکھی جانی ابھی باقی ہے۔ سب سے بُری خبر یہ ہوگی کہ محبت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ سب سے بری خبر کا تعلق محبت سے ہوگا دوست۔‘‘

    اور میں نے جوابی کارروائی کے طور پر کہا تھا۔ ’’سب سے بُری خبر آہستہ آہستہ لکھی جائےگی۔ جنگ اور دہشت کے ماحول میں۔‘‘

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے