aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لاوارث

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    کوچ بہار کے پلیٹ فارم پر گاڑی ایک چیخ کے ساتھ رُک گئی اور پری توش کھڑکی کے راستے جھٹ ایک ڈبے میں گھس گیا۔ نیچے سے سانیال اور بوس سب سامان اسے تھماتے چلے گئے اور بار بار تاکید کرتے رہے کہ وہ ایک پوری سیٹ پر قبضہ جما لے۔

    سانیال ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا، ’’پری توش ہمارا بھائی ہے۔ وہ ناراض نہیں ہو سکتا۔‘‘ بوس یونہی مسکرا رہا تھا اور پری توش ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ گیا۔

    پرے ڈبے میں دھکا پیل ہو رہی تھی۔ باہر کا دروازہ بند کر لیا گیا تھا۔ وہی لوگ جو کچھ دیر پہلے پلیٹ فارم پر کھڑے اندر والوں کی منت سماجت کیے جا رہے تھے اب باہر والوں کو اندر آنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے۔

    سامنے کی سیٹ پر پرانے چیتھڑوں میں لپٹی سِمٹی ایک زندہ لاش نظر آ رہی تھی جس کے چہرے پر ایسی مُردنی ٹپکتی تھی کہ ہر دیکھنے والے کو خواہ مخواہ گھن آنے لگتی اور وہ سوچتا رہ جاتا کہ دراصل اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔ اس زندہ لاش کے پاؤں کی طرف ایک زرد چہرے والا انسان اکڑوں بیٹھا نہ جانے کس سوچ میں کھویا ہوا تھا۔

    ادھر ایک کونے میں سفید دھوتی اور قمیص پہنے ہوئے ایک بھاری بھرکم شخص بڑی بے تکلفی سے سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لگا رہا تھا۔ اس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی پنشن یافتہ ہے۔ وہ اپنے سگریٹ کیس کو کبھی کبھی یوں ہاتھوں میں اچھالنے لگ جاتا جیسے وہ بیڑیوں اور سستے سگریٹوں کے دھوئیں میں لپٹی ہوئی فضا سے چڑ کر اب مہنگے تمباکو کی تعریف میں ایک زور دار تقریر کیا چاہتا ہو۔ پھر اس کے چہرے پر ایک تلخی نمودار ہوئی جس کا تعلق اس قحط سے تھا جو بنگال کا گلا گھونٹ رہا تھا۔ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس قحط نے امیروں کو بھی کچھ کم تنگ نہیں کیا۔ میں ہمیشہ پانچ سو پچپن کے سگریٹ پسند کرتا تھا اور اب کونڈر سے ہی کام چلا رہا ہوں۔

    ڈبے میں ایک طرف فوجی جمے بیٹھے تھے۔ وہ اپنے قہقہوں سے اس فضا میں کچھ عجیب سی بے معنی رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ پری توش نے سوچا کہ پاس کے سپاہی سے آسام کے محاذ کے حالات دریافت کرے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ کچھ سوچ کر چپ ہو گیا۔

    سانیال اور بوس نے بھی اپنا اپنا سگریٹ سلگایا۔ لیکن بار بار جب ان کی نگاہیں اس زندہ لاش کی طرف اٹھتیں تو انھیں ایسا محسوس ہونے لگتا کہ سگریٹ میں تمباکو کی جگہ گوبر بھرا پڑا ہے۔ سانیال نے بوس کی طرف دیکھتے ہوئے ایک کھوکھلا سا قہقہہ لگایا جیسے کہہ رہا ہو، آؤ سگریٹ باہر پھینک دیں اور اس سکھ سپاہی کو یہی سمجھنے کا موقع دیں کہ ہمیں اس کے مذہبی جذبات کا احترام منظور ہے۔ لیکن بوس بے جان بت کی طرح بیٹھا رہا۔ جیسے تیسے وہ زہر مار کرتے گئے۔ ایسے ماحول میں سگریٹ کے بغیر تو چارہ نہ تھا۔

    پھر پری توش کی طرف دیکھتے ہوئے بوس کے چہرے پر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ تھرک اُٹھی۔ سانیال بولا، ’’پری توش کو شاعر کس کمبخت نے بنایا تھا؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ سگریٹ پیے بغیر وہ کیسے گیت لکھ لیتا ہے۔‘‘

    بائیں طرف سے ایک آواز آنے پر کہ ہم تباہ ہو گئے ہیں، بوس نے زور کا کش لگاتے ہوئے کہا، ’’پری توش، ادھر بھی تمھارا ایک بھائی بیٹھا ہے۔ عجیب بکواس ہے۔ آخر تم لوگوں سے کوئی پوچھے کہ بتاؤ تم کیوں تباہ ہو گئے۔ ادھر تو تم دھیان ہی نہ دوگے یونہی خواہ مخواہ چلاتے رہوگے۔‘‘

    پری توش اس کے جواب میں اونچی آواز سے اخبار پڑھنے لگا۔۔۔کلکتے میں ایک ہفتے میں ایک ہزار سے اوپر موتیں ہوئیں۔

    سانیال نے بیچ سے ٹوکتے ہوئے کہا، ’’مر گئے سو مر گئے تم کیوں ان کا رونا روتے ہو؟‘‘

    بوس نے پری توش کے ہاتھ سے اخبار چھین کر کہا، ’’بنگال میں لاشیں ہی لاشیں نظر آ رہی ہیں۔‘‘

    بیمار نے اپنے زرد چہرے والے ساتھی کی طرف اپنا مریل ہاتھ اٹھایا۔ لیکن اس کے اپنے سینے پر گر گیا۔ شاید وہ کہنا چاہتا تھا، مجھے مکھّیاں دق کر رہی ہیں اور تم انھیں اڑا بھی نہیں سکتے۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ سب حیران تھے کہ ابھی تک یہ لاش کس طرح زندہ رہنے کی کوشش کیے جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر میل کی پپڑی جمی ہوئی تھی۔ اس کے بال کسی زمانے میں اپنے گھونگھروں پر ناز کرتے ہوں گے۔ لیکن اب تو ان سے بڑی بھیانک سی بو آ رہی تھی۔ شاید یہ بیمار اپنے گاؤں میں پہنچ کر مرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اب بھی کہاں زندہ تھا۔ لاش ہی تو تھا۔ اس نے پھر ہاتھ پاؤں ہلائے۔ جیسے وہ بدقسمت انسان یہ کہنا چاہتا ہو۔۔۔مجھے لاشوں میں کیوں شمار کرتے ہو۔ میں زندہ ہوں۔ میں زندہ رہوں گا۔

    سانیال کہہ رہا تھا، ’’پری توش کے گیت ایک دن سارے دیس میں گونج اٹھیں گے۔‘‘

    بوس بولا، ’’مجھے پری توش کا وہ گیت بیحد پسند ہے۔ ’’پھر جاگے گا بنگال۔‘‘

    سب یہی سوچ رہے تھے کہ جانے گاڑی کب چھوٹے گی۔ سب کے حلق خشک ہو رہے تھے۔ لعاب نگلنے کو بھی کسی کا جی نہ چاہتا تھا۔ ڈبے کی گھٹی گھٹی سی فضا اور اس پر اس زندہ لاش کی سڑانڈ نے بری طرح ناک میں دم کر رکھاتھا اور ہر کوئی یہی محسوس کر رہا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں اسے متلی ہونے لگے گی۔

    پری توش نے سوچا سب خوشبوئیں بنتی جارہی ہیں اور زندگی کو قے پہ قے آ رہی ہے۔ یقیناً میرے گیت اس دکھ درد کا مداوا نہیں کر سکتے۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ سنگترے والے کو آواز دیتا۔ بنگال مر رہا ہو اور وہ گاڑی میں بیٹھا مزے سے سنگترے کھائے، اسے کسی بھی صورت منظور نہ تھا۔ آج ریفریشمنٹ روم میں سانیال اور بوس پورا کیک ختم کر گئے تھے۔ لیکن اس نے تو ایک کپ چائے تک قبول نہ کیا تھا۔ اب پلیٹ فارم سے آتی ہوئی خوانچہ والوں کی صدائیں اس کے دماغ پر بری طرح ہتھوڑے چلا رہی تھیں۔

    سِکھ سپاہی اپنی پگڑی پر ہاتھ پھیرتا ہوا آس پاس کے لوگوں کا خیال اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ کہہ اٹھا۔ ’’ہم لوگوں کو سب سے زیادہ دو پھول والے تنگ کرتے ہیں۔‘‘

    سانیال اور بوس چونک کر بولے۔ ’’اجی یہ دو پھول والے کیا بلا ہیں؟‘‘

    اس وقت سِکھ سپاہی سانیال اور بوس سے زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے عجیب آدمی ہیں جنھیں زندہ جسم سے بھی مردہ گوشت کی سڑانڈ آتی ہے۔ ہمیں تو کبھی مہینے مہینے کے مرے ہوئے جسموں سے بھی ایسی بدبُو نہیں آتی۔ لیکن یہ دیکھ کر کہ آخر وہ اُس کی بات میں دلچسپی دکھا رہے ہیں وہ کہہ اٹھا، ’’یہ لوگ جو بی۔ اے۔، ایم۔ اے۔ پاس کرکے اپنے کوٹ پر دو پھول لگا لیتے ہیں اور فوج میں بھرتی ہوکر ’’لفٹن‘‘ بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ بندوق اٹھانا بھی نہیں جانتے۔ وہ صرف قلم اور حکم چلانا جانتے ہیں۔‘‘

    پری توش نے سوچا، کیا خوب قلم اور حُکم یعنی دو پھول۔ اسے خیال آیا کہ اس سپاہی سے پوچھے آسامیوں کو اس نے کیسا پایا اور کیا آسام میں بھی کسی شاعر سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن یہ سوچ کر کہ دو پھول والوں نے اُسے کب یہ اجازت دی ہوگی کہ وہ محاذکے کام سے فرصت کی گھڑیوں میں آسامیوں سے میل جول بڑھائے، وہ چپ بیٹھا رہا۔

    بیمار کے چہرے پر مکھیاں بدستور بھنبھنا رہی تھیں جنھیں وہ کمزور ہاتھوں سے اڑانے کی ناکام کوشش کیے جاتا تھا۔ اس کا ساتھی جانے کس سوچ میں گم سم بیٹھا اونگھ رہاتھا۔

    پری توش نے سوچا کہ سانیال اور بوس بھی تو دو پھول والے ہیں اور بی۔ اے۔، ایم۔ اے۔ پاس کرنے کے سبب تو میں بھی دو پھول والا کہلا سکتا ہوں۔ لیکن میرا تو محض قلم چلتا ہے۔ ان کے حکم نے میرے قلم کو خرید لیا ہے۔ میرے گیت اب ان کی جائداد ہیں۔ چاہے میں پنجرے میں نئے پھنسے ہوئے پنچھی کی طرح لاکھ پھڑپھڑاؤں اِس سے اب کیا حاصل؟

    بیمار نے پھر ہاتھ پاؤں ہلائے۔ مکھیاں بدستور بھنبھنا رہی تھیں۔ اب جیسے کوئی اس کی طرف دیکھےگا بھی نہیں۔ سب نے منھ پھیر لیا تھا۔ لیکن پری توش اور سکھ سپاہی کی نگاہیں بار بار بیمار کی طرف اٹھ جاتیں۔ وہ اس کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ پری توش نے سوچا یہ سپاہی تو اتنا بھی کرسکتا ہے کہ اب چھٹی پر گھر جانے کی بجائے اس بیمار کو گاڑی سے اتار کر کسی ہسپتال میں لے جائے اور جب تک یہ اچھا نہیں ہوجاتا اپنی چھٹی میں اضافہ کرتا رہے۔ لیکن میں تو اتنا بھی نہیں کر سکتا۔

    سانیال نے بیمار کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’اس امس میں ہم مرے جارہے ہیں اور ابھی نہ جانے یہ گاڑی کب تک رُکی رہےگی۔‘‘ دراصل اس کا امس سے اتنا برا حال نہیں ہورہا تھا جتنا کہ اس زندہ لاش کی موجودگی سے۔ وہ چاہتا تھا کہ اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو یہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ اسے سامنے کی سیٹ سے اٹھوا دیا جائے۔

    امس سے بچنے کے لیے بھاری بھرکم پنشن یافتہ ایک مصور رسالے سے اپنے منھ پر پنکھا کرنے لگا۔ اس نے رسالے کو الٹا پکڑ رکھا تھا۔ پری توش نے محسوس کیا کہ یہ آدمی دو پھول والوں کا بھی دو پھول والا ہے اور اس نے اس رسالے کو نہیں بلکہ بنگال کو الٹا پکڑ رکھا ہے۔

    سانیال بولا، ’’بوس کیا کوئی ایسا قانون نہیں بنا جس کی رُو سے غلیظ بیماروں کو گاڑی میں سفر کرنے سے روکا جا سکے۔۔۔‘‘ وہ کچھ اور بھی کہتا مگر یکایک گاڑی کے چل پڑنے سے اس کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔

    سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ بیمار نے بھی ادھر ادھر ہاتھ پاؤں ہلائے۔ مکھیاں کچھ دیر کے لیے اس کے منھ سے اڑگئیں۔ لیکن تھوڑی دیر بعد پھر اس کے منھ پر بھنبھنانے لگیں شاید وہ موت موت کی رٹ لگا رہی تھیں۔ لیکن بیمار ابھی مرنا نہیں چاہتا تھا۔ ابھی تو اس کا خیال تھا کہ اس کا خون کافی گرم ہے اور اس کی ہڈیاں بھی چلنے پھرنے کے قابل ہو سکتی ہیں۔ لیکن مکھّیاں تھیں کہ برابر اسے یقین دلائے جارہی تھیں کہ اب جینے کی حرص بیکار ہے۔

    پری توش نے ایک اور کروٹ لی اور وہ سوچنے لگا کہ دراصل بنگال ہی نہیں کل ہندوستان اس قسم کا ایک مریض ہے۔

    بھاری بھرکم پنشن یافتہ نے رومال سے چہرہ پونچھ کر نیا سگریٹ سلگایا اور اب وہ رسالے کے سرِ ورق کی حسینہ کا ملاحظہ کرنے لگا۔

    فوجی سپاہی جنگ کی باتیں بھلاکر گھر کی باتیں لے بیٹھے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ گاڑی قحط زدہ بنگال سے گزر کر جلد ان کھیتوں میں پہنچ جائے گی جہاں آج بھی سنہری بالیاں خوشحالی کا پیغام سناتی ہیں۔

    بیمار کا ساتھی اسی طرح سر گھٹنوں میں دبائے بیٹھا اونگھے جارہا تھا۔ شاید وہ مکھیوں سے خوف کھاتا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہی ایک روز میرے منھ پر بھی بھنبھنائیں گی۔

    سکھ سپاہی نے اس کا کندھا جھنجھوڑ کر کہا، ’’کہاں جاؤگے تم لوگ؟‘‘

    اس نے جیسے خواب سے چونک کر سپاہی کی طرف دیکھا اور جب سپاہی نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا تو وہ کہہ اٹھا، ’’رنگپور، رنگپور۔۔۔؟ رنگپور تو اب نزدیک ہی ہوگا۔‘‘

    لیکن اس کے بعد اس نے کچھ اس طرح سپاہی کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، تمھیں ہماری کیا فکر پڑی ہے؟ تم آرام سے بیٹھے رہو۔

    پری توش اپنے خیالات میں مگن سوچ رہا تھا کہ یہ دیس کتنا وسیع ہے۔ لیکن یہ غلام کیوں ہے؟ یہ غلام ہے اسی لیے آج یہ قحط کا شکار ہو رہا ہے۔ ہر طرف چوربازار گرم ہے۔ ہر طرف کمینے رذیل نفع بازوں کی چاندی ہے۔ اس نے سارے ڈبے کا جائزہ لیا۔ اس وقت سِکھ سپاہی بھی مزے سے کچھ چبا رہا تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید اب یہ سپاہی اس لیے گھر جا رہا ہے کہ اس کی بیوی نے بیٹا جنا ہے۔ بیوی اور بیٹے کو دیکھ کر وہ آسام کے محاذ پر لوٹ آئےگا۔ وہ سپاہی سے کہنا چاہتا تھا کہ آج تم مُردہ دیس کی حفاظت کر رہے ہو، کل تمھارا بیٹا زندہ دیس کی حفاظت کرےگا۔

    بار بار پری توش کی نگاہیں اس بیمار کی طرف اٹھ جاتیں۔ سپاہی کے بعد وہی دوسرا شخص تھا جسے بیمار سے گھن نہیں آ رہی تھی۔

    بھاری بھرکم پنشن یافتہ نے جانے کیا کیا فیصلے کرتے ہوئے کہا، ’’سردار صاحب، وہ دو پھول والوں کی بات تو بالکل غلط معلوم ہوتی ہے۔ تعلیم تو بری چیز نہیں۔‘‘

    سکھ سپاہی ایک دم ہنس دیا اور بولا، ’’چھوڑو جی بی۔ اے۔، ایم۔ اے۔ ہی تو دو پھول والے نہیں۔ دو پھول والے تو ہر جگہ موجود ہیں۔ عدالت کے منشی، چپراسی، گاؤں کے پٹواری، زمیندار کے گماشتے اور پولیس والے۔۔۔یہ لوگ بھی تو دو پھول والے ہیں۔‘‘

    بھاری بھرکم پنشن یافتہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھرک اٹھی۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔شکریہ کہ کم از کم مجھے تو تم نے دو پھول والوں میں شامل نہیں کیا۔

    فوجی سپاہی اب سیٹیاں بجا رہے تھے جیسے ہر لمحے کے بعد وہ اپنے گھروں کے نزدیک پہنچتے جارہے ہوں۔ بندوقوں سے چھوٹتی ہوئی سنسناتی آوازوں کی بجائے اب نرم و نازک کلائیوں پر کھنکتی چوڑیوں کا تصور ان کی آنکھوں میں نشہ پیدا کر رہا تھا۔

    سانیال نے سرپرستانہ انداز میں کہا، ’’بوس، پری توش اپنی قیمت نہیں بتاسکتا۔ وہ جوہر ہے۔ جوہر کی قیمت جوہری ہی جانتا ہے۔‘‘

    بوس نے ایک بار پری توش کی آنکھوں میں جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ اس پر کیا اثرا ہوا ہے۔ لیکن وہ تو گم سم بیٹھا تھا۔ سانیال نے پھر شہ دی۔ ’’پری توش کے گیت اپنا جواب نہیں رکھتے۔‘‘

    بوس کہہ اٹھا، ’’مجھے تو اس کے کال گیت ہی سب سے زیادہ پسند ہیں۔ یہ ہمارے دیس کے دکھ درد کا مداوا ہیں۔ ذرا انھیں شائع تو ہونے دیجیے۔ پھر ہم انھیں انگریزی میں بھی پیش کریں گے۔‘‘

    ’’ہم پری توش کو نوبل پرائز دلائیں گے۔‘‘

    ’’ایک ہی شرط پر کہ ایک لاکھ بیس ہزار کی رقم ہمارے ’’شونار بانگلا ساہتیہ تیرتھ‘‘ کے فنڈ میں آ جائے۔ ربی بابو نے بھی تو اپنا انعام شانتی نکتین کو دے دیا تھا۔ پری توش بھی قربانی کر سکتا ہے۔‘‘

    ’’قربانی کا کیا مطلب، بوس؟ پری توش ہمارا بھائی ہے۔‘‘

    بوس نے اب کے پھر پری توش کے چہرے پر اس گفتگو کے تاثرات دیکھنے کی کوشش کی اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر وہ اس کی پیٹھ تھپتھپانے لگا اور کہتا گیا، ’’پری توش تمھارے گیت ہمارے گیت ہیں۔‘‘

    پری توش نے چونک کر اپنے پبلشروں کی طرف دیکھا اور پھر زندہ لاش کی طرف۔ جیسے وہ اپنے قدردان پبلشروں سے کہنا چاہتا ہو، ایسی ہی ایک لاش پر بھی تو میرا ایک گیت ہے۔

    بوس کہے جا رہا تھا، ’’تمھارے گیتوں پر دنیا فخر کرےگی، پری توش۔ ان کی نشرواشاعت ہمارا کام ہے۔‘‘

    پری توش کے جی میں تو آیا کہ اپنے پبلشروں سے صاف صاف کہہ دے کہ وہ اپنے گیت شائع نہیں کرانا چاہتا کیونکہ گیتوں سے قحط نہیں مِٹ سکتا اور یہ تو ایسے ہی ہے، جیسے کوئی مردے کے کان میں ڈھول بجاکر توقع کرے کہ وہ جی اٹھےگا۔

    سانیال اور بوس کھڑکی سے افق کی طرف دیکھنے لگے۔ شاید وہ ’’شونار بانگلا ساہتیہ تیرتھ‘‘ کے روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے۔ پری توش کو طالب علمی کا زمانہ یاد آ گیا جب وہ تینوں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، اسے کبھی خیال نہ آیا تھا کہ وہ روٹی کے لیے اپنے ہم جماعتوں کا محتاج ہوکر رہ جائےگا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال بجلی کے کوندنے کی طرح پیدا ہوا کہ ان سے صاف صاف کہہ دے کہ میرے گیت مجھے واپس دے دو۔ میں انھیں کسی بھی قیمت پر تمھیں نہیں دے سکتا۔ میں شاعر بھی نہیں بننا چاہتا۔ میں اب اپنے لیے کوئی نئی راہ تلاش کروں گا۔ لیکن پھر اس کے ذہن میں ملک کے سب سے بڑے شاعر کے الفاظ گونج اٹھے۔۔۔پری توش کے گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔۔۔وہ چڑ گیا۔ وہ کچھ فیصلہ نہ کر سکا۔

    بیمار کے چہرے پر مکھیاں جیسے جم گئی ہوں۔ معلوم ہوتا تھا یہ مکھّیاں نہیں، چیچک کے داغ ہیں۔ سب سے پہلے ان ہی نے بیمار کی موت کو آتے دیکھ لیا تھا۔ زندہ لاش مُردہ لاش میں تبدیل ہورہی تھی۔ اس کے ساتھی نے اس کے سر کو اپنے زانو پر رکھتے ہوئے چلاکر کہا، دادا۔۔۔! دادا۔۔۔!‘‘

    زندہ لاش نے دم توڑ دیا۔

    لوگ گھبرا گئے۔ چند نوجوانوں کو تو اس قدر غصہ آیا کہ لاش کو چلتی گاڑی سے نیچے پھینک دیں۔ لیکن وہ لاش کو چھونا بھی تو نہ چاہتے تھے۔

    لاش کے ساتھی نے روتے روتے اپنی جیب سے ایک ٹکٹ نکال کر مرحوم دادا کی جیب میں ڈال دیا۔ وہ رو رو کر کہہ رہا تھا، ’’میرے پاس کچھ نہیں۔ مجھے بچالو۔ پرماتما کے لیے دادا کو اگلے اسٹیشن پر ہی اتروا دو۔‘‘

    سِکھ سپاہی حیران ہوکر بولا، ’’تو رنگپور کون جائےگا؟‘‘

    لاش کا منھ کھلا ہوا تھا جیسے وہ مکروہ مریض مرکر بھی یہ کہنا چاہتا ہو۔۔۔میں زندہ ہوں۔ میں زندہ رہوں گا۔

    پری توش سوچنے لگا کہ یہ ملک کبھی نہیں مر سکتا۔ اسی کی چھپی ہوئی قوتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ میرے گیت انہی قوتوں کے مرہون منت ہی تو ہیں۔

    لاش کا ساتھی رو رو کر کہہ رہا تھا، ’’مجھے بچالو۔ مجھے پولیس پکڑلے گی۔ پولیس مجھے پیٹےگی۔ میں مرجاؤں گا۔ وہ میرا خون پی لیں گے۔‘‘

    پری توش نے اس کے زرد چہرے کا ملاحظہ کرتے ہوئے سوچا کہ اس ستم رسیدہ شخص کے جسم میں اب اور کتنا خون باقی ہوگا۔ سانیال بوس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ’’میرے گیت تو جب شائع ہونے ہوں گے ہو ہی جائیں گے۔ آؤ اس آدمی کی مدد کریں۔‘‘

    لیکن سوائے سکھ سپاہی کے کسی نے اس کی ہاں میں ہاں نہ ملائی۔ دونوں نے لاش کے ساتھی کو سمجھایا کہ وہ اگلے اسٹیشن پر گاڑی رکتے ہی کسی دوسرے ڈبے میں چلا جائے اور وہ سامنے سے یوں احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو، مجھے اس مدد کی بہت پہلے سے امید تھی۔

    جونہی گاڑی اگلے اسٹیشن پر رکی، وہ لپک کر نیچے اتر گیا اور نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔

    پھر بھاری بھرکم پنشن یافتہ ایک تھانیدار کو بلا لایا۔ لاش کے متعلق تفتیش کرنے کی غرض سے گاڑی تھوڑی دیر کے لیے اور رک گئی۔ سپاہیوں کو آوازیں دی جا رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے دو سپاہی موقع پر نمودار ہوئے۔ سپاہی بھنگیوں کو آوازیں دینے لگے۔ لیکن وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔

    سکھ سپاہی پری توش کے کان کے پاس منھ لے جاکر بولا، ’’یہ سب دو پھول والے ہیں۔‘‘

    پری توش نے سِکھ سپاہی کی بات سنی اَن سُنی کرتے ہوئے سانیال سے کہا، ’’آؤ ہم لاش کو کندھا دیں۔‘‘

    ’’ہم لاش کو کندھا دیں؟‘‘ سانیال نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا، ’’یہ کام تو قلی بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔‘‘

    ’’قلی؟‘‘ بوس نے چڑ کر کہا، ’’لیکن پیسے کون دےگا۔‘‘

    بھاری بھرکم پنشن یافتہ نے کہا، ’’یہ لوگ مرتے وقت اتنا پیسہ بھی تو نہیں چھوڑ جاتے کہ قلی کے دام چکائے جا سکیں۔‘‘

    لاش جیسے ہنس رہی تھی اور اس کے خاموش قہقہے اس فضا میں عجب پھبتیاں کس رہے تھے۔ جیسے وہ مکروہ مریض کہہ رہا ہو۔۔۔میں چاہوں تو خود بھی اٹھ کر پلیٹ فارم پر لیٹ سکتا ہوں۔ مجھ میں ابھی اتنی طاقت باقی ہے۔

    سکھ سپاہی کہہ اٹھا، ’’محاذ پر میں نے سینکڑوں لاشیں اٹھائی ہیں۔ یہ بھی اپنے بھائی کی لاش ہے اور یہ کچھ وزنی بھی تو نہ ہوگی۔‘‘

    پری توش اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور انھوں نے لاش اُٹھا لی۔

    وہ لاش کو پلیٹ فارم پر رکھ کر اس کے سرہانے اور پائینتی کھڑے ہوگئے۔ لوگ جمع ہو رہے تھے۔ طرح طرح کی چہ میگویاں ہونے لگیں۔ تھانیدار، اسٹیشن ماسٹر اور گارڈ لوگوں کو لاش سے پرے رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔ سپاہی بھنگیوں کو لے کر ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔

    پری توش اور سِکھ سپاہی کی طرف لوگ یوں گھور رہے تھے جیسے وہی دراصل اس انسان کی موت کے لیے جواب دہ ہوں۔ طرح طرح کی آوازوں کو چیرتی ہوئی گارڈ کی وِسل ایک احتجاجی چیخ کی طرح گونج رہی تھی۔ اس وقت بجلی کے کوندنے کی طرح گھروالوں کے چہرے سِکھ سپاہی کی آنکھوں میں پھر گئے اور وہ لپک کر گاڑی میں جا بیٹھا۔

    پری توش لاش کے سرہانے کھڑا تھا۔ بھیانک سائے دِیے کی لو کو نگل چکے تھے۔ موت نے لوری گا دی تھی۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ یہ دیا تو دوبارہ روشن کیا جا سکتا ہے اور موت کی لوری کو جھٹلانا بھی کٹھن نہیں۔

    سانیال نے کھڑکی سے منھ نکالا اور چلاکر کہا، ’’یہ تو محض ایک لاش ہے، پری توش۔ ہمارا دیش تو ایسی لاکھوں لاشوں سے پٹا پڑا ہے۔۔۔‘‘

    بوس جو اس وقت گاڑی سے اترنے کے انداز میں کھڑا تھا، اپنے ہاتھ میں’’کال گیت‘‘ کا مسودہ سنبھالتے ہوئے رقت سے لبریز لہجے میں بولا، ’’تمھارے گیتوں سے ان لاشوں کا مداوا ہو جائےگا، پری توش۔ تم آ کیوں نہیں جاتے؟‘‘

    گارڈ نے آخری وسل دی اور گاڑی چل پڑی۔ سانیال اور بوس بدستور پری توش کو پکار رہے تھے۔ یکبارگی پری توش کے قدم گاڑی کی جانب اٹھے، جیسے وہ بھاگ کر سانیال کے ہاتھوں سے ’’کال گیت‘‘ کا مسودہ چھین لینا چاہتا ہو۔ لیکن دو قدم چل کر ہی وہ رک گیا۔ اسے خیال آیا کہ اس کا شاہکار پلیٹ فارم پر اس کے قدموں میں بےحس و حرکت پڑا ہے اور اسے اس بےحس گیت کے خنک پیکر کو اپنا گرم خون دے کر گرمانا ہے اور اگلے ہی پل وہ ایک مائل پرواز سارس کی طرح بازو پھیلائے ہوئے اس لاش پر جھک گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے