Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لذتِ گریہ

سلام بن رزاق

لذتِ گریہ

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    اس دن اتفاق سے قیس اور لیلیٰ بس اسٹاپ پر مل گئے۔ بس کے آنے میں دیر تھی۔ لیلیٰ بار بارمنی بیگ سنبھالتی، چھوٹے رومال سے پیشانی کا پسینہ خشک کرتی۔ کبھی کلائی کی گھڑی کو دیکھتی تو کبھی گردن اٹھا کر دور تک پھیلی سڑک پر نگاہ ڈال لیتی۔ یہ سڑک نسبتاً کم بھیڑبھاڑ والی تھی تبھی اس نے کنکھیوں سے دیکھا کہ ایک شخص کیمبرج کے بش شرٹ اور جینس پینٹ میں ملبوس، ہاتھ میں ایک چمڑے کا بریف کیس لیے اس کے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا۔ یہ قیس تھا۔ اس کا چہرہ بھی پسینے سے تر تھا۔ اس نے بھی جیب سے رومال نکال کر اپنے چہرے کا پسینہ پونچھا۔ ایک اچٹتی سی نگاہ لیلیٰ پر ڈالی اور وہ بھی بس کے انتظار میں گردن اٹھا کر سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ غالباً دونوں کو بیک وقت احساس ہو گیا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو اس سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے اور اسی احساس کے تحت دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ یعنی بیک وقت دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی نگاہوں میں شناسائی کی جھلک صاف محسوس کرلی۔ آخر قیس نے ہی پہل کرنا مناسب سمجھا۔ ہر چند کے عشق پہلے معشوق کے دل میں پیدا ہوتا ہے مگر مشرقی تہذیب کے مطابق اظہار عاشق کو ہی کرنا پڑتا ہے۔

    لہٰذا قیس نے کھنکار کر گلا صاف کیا، اپنا کالر درست کیا، عینک کو ٹھیک کیا اور بڑے شائستہ لہجے میں بولا۔ ’’ایکسکیوزمی!‘‘

    لیلیٰ کچھ گھبرائی، کچھ شرمائی سی اس کی طرف مڑی اور سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ قیس نے ایک بار پھر کھنکار کر گلا صاف کیا اور گویا ہوا۔’’ معاف کرنا۔۔۔ کیا آپ لیلیٰ ہیں؟‘‘

    لیلیٰ کے چہرے پر خوشی، حیا اور غرور کے ملے جلے رنگ بکھر گئے، اس نے مسرت اور شرم سے بھیگے لہجے میں جوابی سوال کیا۔’’کیا آپ قیس ہیں؟‘‘

    ’’قیس نے مارے خوشی کے لڑکھڑا کر ریلنگ کا سہارا لیا اور جوش اور مسرت سے لرزتے لہجے میں چیخا۔’’ ہاں ۔ میں قیس ہی ہوں۔۔۔ تم۔۔۔ لیلیٰ ہی ہو نا؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ میں لیلیٰ ہی ہوں۔‘‘

    ’’اوہو۔۔۔!‘‘ قیس نے اطمینان بھری حیرت کا اظہار کیا۔’’کتنے برسوں بعد ہم مل رہے ہیں۔‘‘

    ’’شاید صدیوں بعد۔‘‘

    ’’ہاں صدیوں بعد۔‘‘

    ’’کیا ہم لوگ کہیں بیٹھ کر چائے پی سکتے ہیں۔ میرا مطلب۔۔۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوتو۔‘‘ قیس نے آفر کی۔

    ’’ویسے مجھے دس بجے تک دفتر پہنچنا ہے۔۔۔‘‘ لیلیٰ نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔’’مگر ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے۔‘‘

    پھر اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا’’کیا یہاں قریب میں کوئی ہوٹل ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ پاس ہی ایک سیکنڈ گریڈ ہوٹل ہے۔ ہم وہاں دو گھڑی بیٹھ کر اطمینان سے کچھ باتیں بھی کر سکتے ہیں۔ وہاں فیملی روم بھی ہے۔‘‘

    ہوٹل کے فیملی روم میں آمنے سامنے بیٹھ چکنے کے بعد قیس اور لیلیٰ نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا۔ لیلیٰ تھی تو اب بھی سانولی مگر اس کے چہرے پر ایسی ملاحت تھی کہ لگتا تھا ابھی ابھی نمک کی کان سے نکل کر آئی ہے۔ اس نے پیازی رنگ کی ساڑی پہن رکھی تھی اور اسی رنگ کا بغیر آستینوں والا بلاؤز تھا۔ ڈھیلی ڈھالی چوٹی اور بالوں میں سفید گلاب، پیشانی پر فیشن کے طور پر ایک چھوٹی سی بندیا، ہونٹوں پر ہلکی لپ اسٹک، کانوں میں ٹاپس، ناک میں لونگ۔۔۔ ظاہر ہے وہ غیرمعمولی طور پر خوبصورت نہیں تھی مگر مجموعی اعتبار سے اس کے سراپا میں کچھ ایسی جاذبیت تھی کہ وہ غیرمعمولی طور پر پر کشش دکھائی دیتی تھی۔

    قیس بھی بہت زیادہ ہینڈسم نہیں تھا۔ پینٹ، ہاف بش شرٹ اور بریف کیس کے ساتھ پہلی نظر میں تو وہ ایک انشارنس ایجنٹ ہی لگتا تھا۔ بال سلمان خان اسٹائل میں جمے ہوئے تھے۔ کلین شیو، متناسب ناک نقش، آنکھوں پر عینک، مسکراتا چہرہ اور گلے میں پتلی سی طلائی زنجیر۔ کل ملا کر اس کی شخصیت بھی غیرمعمولی نہ ہوتے ہوئے بھی صنفِ مخالف کے لیے کشش تو رکھتی تھی۔

    قیس اور لیلیٰ نے بہت غور سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر قیس نے ’’مینو‘‘ اٹھایا اور ایک نظر مینو پر ڈال کر بولا۔’’آپ کوئی اسنیکس وغیرہ لیں گی؟‘‘

    ’’نو تھینکس۔۔۔ میں ناشتہ کرکے چلی ہوں۔ آپ اپنے لیے منگوا لیجئے۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں بھی ناشتہ کرکے ہی نکلتا ہوں۔ چائے۔۔۔ یا۔۔۔ کافی؟‘‘

    ’’کافی۔۔۔‘‘

    ویٹر آیا۔ قیس نے ویٹر کو دو کولڈ کافی کا آرڈر دیا۔ ویٹر آرڈر لے کر چلا گیا۔ قیس نے دوبارہ لیلیٰ کو غور سے دیکھا۔ لیلیٰ قیس کو یوں بے محابا اپنی طرف دیکھتا پاکر کچھ مضطرب سی ہوئی۔ پھر غیر ارادی طور پر اپنے سینے کا پلو درست کرتی ہوئی دھیرے سے بولی۔

    ’’کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟‘‘

    ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ آخر آپ کی شخصیت میں ایسی کیا بات تھی جس پر میں صدیوں پہلے اس بری طرح عاشق ہوا تھا۔‘‘

    اب لیلیٰ واقعی شرم سے دوہری ہو گئی۔ پھر ایک ادا سے اپنی دونوں ہتھیلیوں پر اپنا چہرہ رکھے، میز پر کہنیاں ٹیکے قیس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

    ’’تو آپ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس اسرار کو نہیں جان پائے۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    ’’میں بتاؤں۔۔۔؟‘‘

    بتایئے۔۔۔‘‘

    ’’پاگل پن۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر لیلیٰ ہنس دی۔ قیس بھی اس کی کھنکتی ہنسی میں شامل ہو گیا۔ پھر سنجیدہ ہوتا ہوا بولا۔

    شاید آپ ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ اس جذبے کو پاگل پن یا جنون ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی لیے تو لوگ بعد میں مجھے مجنوں کے نام سے پکارنے لگے۔‘‘

    ’’او۔۔۔ نو۔۔۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔‘‘ لیلیٰ نے قیس کو خواہ مخواہ سنجیدہ ہوتے دیکھ کر قدرے ندامت سے کہا۔

    اتنے میں ویٹر کافی لے کر آیا۔ دونوں گردنیں جھکائے اپنی اپنی پیالیوں میں شکر گھولنے لگے۔ دفعتاً قیس نے سر اٹھا کر کہا۔

    ’’آپ برا نا مانیں تو ایک سوال پوچھوں؟‘‘

    ’’ضرور پوچھئے۔‘‘

    ’’آپ کی شادی تو نہیں ہوئی۔۔۔؟‘‘

    ’’ہو گئی ہے۔ دو بچے بھی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ قیس نے حیرت آمیز بے یقینی سے کہا۔

    ’’کیوں۔۔۔ آپ کو یقین نہیں آتا؟‘‘

    لیلیٰ نے اپنا پرس کھولا، اس میں سے منگل سوتر نکالا اور گلے میں ڈال لیا۔

    ’’میں بس میں بیٹھنے سے پہلے اسے پرس میں رکھ لیتی ہوں۔ بس اسٹاپ پر جیب کترے اور اچکے بہت ہیں نا۔۔۔ اکثر منگل سوتر اور طلائی زنجیریں چھیننے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’آئے نو۔۔۔ آئے نو۔۔۔‘‘ پھر اس نے اس کے سراپے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ شادی شدہ ہیں، دو بچوں کی ماں ہیں مگر لگتا نہیں۔ آپ نے اپنے آپ کو حیرت انگیز طور پر مینٹین کیا ہے۔‘‘

    لیلیٰ نے شرما کر نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔’’آپ کی شادی ہو گئی ہے؟‘‘

    ’’میں بھی دو بچوں کا باپ ہوں۔‘‘ قیس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’سچ۔۔۔؟‘‘ لیلیٰ کے لہجے میں حیرت کے ساتھ اطمینان تھا۔

    ’’آپ نے بھی اپنے آپ کو کافی چست درست رکھا ہے۔‘‘ لیلیٰ نے ہاف آستین سے جھانکتی اس کے بازوؤں کی مچھلیوں کو توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کمپلی مینٹ دیا۔

    ’’تھینک یو۔۔۔‘‘ قیس نے دوبارہ عینک لگا لی۔ پھر رسٹ واچ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

    ’’اب کب ملاقات ہوگی؟‘‘

    ’’جب آپ کہیں۔۔۔‘‘

    ’’آپ کے شوہر نے آپ پر بہت زیادہ پابندیاں تو نہیں لگا رکھی ہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ کافی براڈ مائنڈیڈ ہیں۔‘‘

    ’’تب تو ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’اور۔۔۔ آپ کی بیوی؟‘‘

    ’’ارے وہ بھی بہت روشن خیال ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو مائنڈ نہیں کرتی۔‘‘

    لیلیٰ نے اپنی رسٹ واچ کی طرف دیکھا اور بولی۔’’آفس کا وقت ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’کل ملتے ہیں۔۔۔ اسی وقت۔۔۔ اسی ہوٹل میں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ کل نہیں۔۔۔ پرسوں ملیں گے۔‘‘

    ’’اوکے۔۔۔ بائی دی وے آپ کام کہاں کرتی ہیں؟‘‘

    ’’فاؤنٹین میں۔۔۔ ایک فرم میں اسٹینو ہوں۔‘‘

    ’’وہ تو آپ کی انگلیاں بتا رہی ہیں کہ آپ اسٹینو ہیں ۔‘‘

    ’’آپ۔۔۔؟‘‘

    ’’میں ایک کمپنی میں سیلس ریپریزینٹیٹیو ہوں۔ ویسے میرا دفتر بھی فاؤنٹین ہی میں ہے۔ چلیے میں آپ کو ٹیکسی میں چھوڑ دوں۔ میں بھی دفتر ہی جا رہا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں بس سے چلی جاؤں گی۔ آپ تکلیف کیوں کرتے ہیں؟‘‘

    ’’تکلیف کی کیا بات ہے۔ میں ٹیکسی ہائر کر ہی رہا ہوں۔‘‘

    ’’مگر ضرورت کیا ہے۔ ابھی وقت ہے میں بس سے وقت پر پہنچ سکتی ہوں۔ مجھے بس مل جائےگی۔‘‘

    ’’آپ فکر نہ کریں، مجھے کمپنی سے کافی ٹی۔اے مل جاتا ہے۔ آپ مجھ پر بار نہیں ہوں گی۔ چلیے۔‘‘

    ’’آپ اصرار ہی کر رہے ہیں تو چلیے۔‘‘

    تیسرے دن قیس اور لیلیٰ اسی ہوٹل میں دوبارہ ملے۔ کافی کے دوران اِدھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ تکلف کے پردے سرکتے گئے۔ نظروں سے نظریں ملیں، نظریں جھکیں، انگلیوں سے انگلیاں ٹکرائیں، ٹکراتی رہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹوں کے پھول کھلے، کھلتے رہے۔ تیسری ملاقات میں اندازِ تخاطب بدل گیا۔ ’آپ ‘کی جگہ’ تم ‘نے لے لی۔

    ’’لیلیٰ تم کتنی خوبصورت ہو۔‘‘

    ’’قیس تم کتنے ہینڈسم ہو۔‘‘

    ’’تمہیں دیکھتے ہی میرے دل میں پھلجڑیاں سی چھوٹنے لگتی ہیں۔‘‘

    ’’تمہیں دیکھتے ہی میرے تن بدن میں ستارے ٹوٹنے لگتے ہیں۔‘‘

    ’’تمہارے بغیر میری زندگی کس قدر ادھوری تھی۔‘‘

    ’’اور تمہارے بغیر میرے شب و روز کتنے بے کیف تھے۔‘‘

    ’’تم میری جان ہو۔۔۔‘‘

    ’’تم میرا ایمان ہو۔۔۔‘‘

    چوتھی ملاقات ایک پارک میں ہوئی۔ دونوں پھولوں کے گھنے اور تنہا کنج میں ایک دوسرے کے قریب بہت قریب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے۔۔۔ ایک دوسرے میں گم۔۔۔ ایک دوسرے کو ملتفت نگاہوں سے نہارتے بیٹھے رہے۔ نظروں نے نظروں سے کچھ کہا۔۔۔ دل نے دل کی آواز سنی۔۔۔ انگلیوں نے انگلیوں سے استفسار کیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں ایک ساتھ اٹھے۔۔۔ دونوں کسی نامعلوم ڈور سے بندھے ایک طرف چلنے لگے۔ آس پاس سے بے نیاز ارد گرد کے ماحول سے بے خبر چلتے رہے۔۔۔ چلتے چلتے ۔۔۔ بنا کسی تجویز۔۔۔ بنا کسی تحریک۔۔۔ بنا کسی قصد کے ہوٹل ’’ٹاک ان ٹاؤ ن‘‘ کے رسیپشن ہال میں پہنچ گئے۔ قیس نے رجسٹر پر اپنا اور لیلیٰ کا فرضی نام لکھا۔۔۔ رسیپشنسٹ نے ویٹر کو بلایا۔ چابی دے کر بولا ’’کمرہ نمبر اکیس۔۔۔۔‘‘

    ویٹر چابی لے کر آگے آگے چلا، دونوں اس کے پیچھے پیچھے چلے، کمرہ نمبر اکیس کے سامنے پہنچ کر ویٹر نے کی ہول میں چابی گھمائی ، کمرہ کھل گیا۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔ ویٹر الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ دروازہ ہلکی سی کلک کے ساتھ بند ہوگیا۔ دونوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے نظریں جھکائے چپ چاپ کھڑے رہے۔ لیلیٰ اپنی ساڑی کے پلو کو انگلی پر لپیٹ رہی تھی۔ قیس اپنے بوٹ کی نوک سے کمرے میں بچھے کارپیٹ کو کرید رہا تھا۔ کمرہ ائیر کنڈیشنڈ تھا۔ ائیر کنڈیشنڈ کی مخصوص سوں۔۔۔ ں۔۔۔ کی پھنکار سے کمرہ بھرا ہوا تھا۔ قیس نے کنکھیوں سے کمرے میں بچھے ڈبل بیڈ کی طرف دیکھا، بیڈ پر بے داغ، بے شکن، سفید دودھ چادر بچھی ہوئی تھی، سرہانے دو تکیے رکھے ہوئے تھے۔ ان کے غلاف بھی چادر کی طرح صاف ستھرے اور بے داغ تھے۔ اس نے میخ کی طرح زمین میں گڑے ہوئے اپنے پیروں کو بمشکل جنبش دی۔ دو قدم چل کر بیڈ کے سرہانے پہنچا اور دھیرے سے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ پھر گردن ترچھی کرکے لیلیٰ کی طرف دیکھا۔ لیلیٰ اسی طرح گردن جھکائے اپنا پلو انگلی پر لپیٹنے کا شغل کررہی تھی۔ قیس نے کھنکار کر گلا صاف کرنے کی کوشش کی پھر اپنی پوری قوت مجتمع کرکے تقریباً لرزتی سی آواز میں بولا۔’’بیٹھو۔۔۔‘‘

    لیلیٰ اس کے باوجود چند لمحے بت بنی کھڑی رہی۔ پھر کسی پرچھائیں کی طرح کانپتی، بیڈ کے پائینتی سے ٹک گئی۔ تھوڑی دیر بعد قیس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ’’ک۔۔۔کچھ بات۔۔۔ کرونا۔۔۔‘‘

    لیلیٰ نے نظریں جھکائے ہوئے دھیرے مگر کپکپاتے لہجے میں کہا۔’’کیا۔۔۔ بات کروں۔۔۔؟‘‘

    ’’کچھ بھی۔۔۔‘‘

    ’’تم کرونا۔۔۔‘‘

    ’’میں تو کر رہا ہوں۔‘‘

    ’’میں بھی کر رہی ہوں۔‘‘

    ’’تم شاید ڈر گئی ہو۔۔۔؟‘‘

    لیلیٰ نے جواب نہیں دیا، اپنی سینڈل کی نوکیں دھیرے دھیرے آپس میں ٹکراتی رہی۔

    ’’ہے نا۔۔۔ تم ڈر رہی ہونا۔۔۔؟‘‘ قیس نے پھر پوچھا۔

    ’’تم بھی تو ڈر رہے ہو۔‘‘ لیلیٰ زیرِ لب بولی۔

    ’’ن۔۔۔نہیں۔۔۔ میں کہاں ڈر رہا ہوں۔‘‘ قیس نے خواہ مخواہ کھیسانی ہنسی ہنستے ہوئے ڈھٹائی سے کہا۔

    ’’میں بھی کہاں ڈر رہی ہوں۔‘‘ لیلیٰ کی نظریں اب بھی اپنے سینڈلوں پر تھیں۔

    ’’پھر قریب آؤنا۔‘‘ قیس نے جرأت کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ق۔۔۔قریب تو ہوں۔‘‘

    ’’اور قریب۔‘‘

    ’’ڈر لگتا ہے۔‘‘

    ’’ابھی تو کہہ رہی تھیں نہیں لگتا۔‘‘

    ’’جھوٹ بول رہی تھی۔‘‘

    ’’کس سے ڈر لگتا ہے۔۔۔؟ مجھ سے؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ اپنے آپ سے!‘‘

    ’’اب ۔۔۔ اب یہاں تک آنے کے بعد ڈر کیسا۔۔۔؟‘‘

    لیلیٰ پھر چپ ہو گئی۔ قیس نے آہستہ سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ لیلیٰ نے ایک جھرجھری سی لی۔ قیس نے اس کی ساڑی کا پلو اس کے کاندھے سے اس کی گود میں گرا دیا۔ لیلیٰ نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اب لیلیٰ کی سلونی کمر کے لوچ قیس کی نگاہوں کے گھیرے میں تھے۔اس کی عریاں سڈول گردن کی پشت پر اس کی نگاہیں اس طرح پھسلنے لگیں جیسے حمام کے چکنے فرش پر صابن کی ٹکیہ پھسل پھسل جاتی ہے۔ قیس نے جھک کر آہستہ سے اس کی گردن چوم لی۔ لیلیٰ اچھل کر کھڑی ہو گئی جیسے بجلی کا کرنٹ لگا ہو۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سینے کو ڈھک لیا اور لڑکھڑاتی ہوئی دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی۔وہ ہولے ہولے سسک رہی تھی۔ قیس بوکھلا گیا۔ لمحے بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ لیلیٰ کا یوں اچانک رونے لگ جانا اس کے لیے قطعی غیر متوقع تھا۔ غیرمتوقع اور پریشان کن۔ وہ ہکلانے لگا۔

    ’’لیلیٰ۔۔۔ لیلیٰ!۔۔۔ میری جان۔۔۔ یہ اچانک تمہیں کیا ہو گیا۔ دیکھو اس طرح نہ روؤ۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔‘‘ لیلیٰ کی ہچکیاں اور تیز ہو گئیں۔ قیس اور زیادہ بوکھلا گیا۔ اس نے اسے چپ کرانے کے لیے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھنا چاہا مگر ہاتھ کاندھے تک پہنچتے پہنچتے خود بخود رک گیا۔ اسے لگا لیلیٰ جادو کے زور سے گوشت پوست کے بجائے کانچ کی بن گئی ہے۔ ہاتھ لگانے سے جھنجھنا کر بکھر جائےگی۔ وہ اپنا ہاتھ ملنے لگا۔

    ’’لیلیٰ ! خدا کے واسطے چپ ہو جاؤ۔ میں سچ مچ تم سے بہت شرمندہ ہوں۔ میں ایک ذلیل اور کمینہ انسان ہوں۔ میں نے واقعی بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ تم جیسی معصوم اور شریف خاتون کو یوں ہوٹل میں نہیں لانا چاہیے تھا۔ مگر۔۔۔ تم نے مجھے منع کیوں نہیں کیا؟ میں سمجھا تم۔۔۔ خدا کی قسم اگر تم ذرا سا بھی اشارہ کرتیں تو میں ہرگز ہرگز یہ نہ کرتا۔ مجھے معاف کر دو۔‘‘

    لیلیٰ اب باقاعدہ ہچکیاں لے رہی تھی۔ اس کا پورا بدن سر سے پاؤں تک مسلسل لرز رہا تھا۔ اس کی ساڑی کا آنچل اس کے قدموں میں جھول رہا تھا۔ اس کے بالوں کا جوڑا کھل کر اس کی پشت پر بکھر گیا تھا اور وہ سینے پر دونوں ہاتھ رکھے دیوار کی طرف منہ کئے ہچکیاں لیے جا رہی تھی۔

    ’’لیلیٰ خدارا۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔ میں تمہارے ہاتھ جوڑتا ہوں۔‘‘ قیس کاگلا رندھ گیا۔ وہ بےحد نروس ہو گیا تھا۔ اسے لگا اگر لیلیٰ کی سسکیاں نہیں تھمیں تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگےگا۔ اچانک لیلیٰ کی سسکیاں دھیمی پڑ گئیں۔ اس نے پلٹ کر قیس کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑے لیلیٰ کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو جھلملا رہے تھے اور ضبطِ گریہ سے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ لیلیٰ کے آنسو تھم گئے۔ اس نے حیرت سے قیس کی طرف دیکھا۔ قیس کو اس طرح آنسو بہاتے دیکھ کر پہلے تو اسے عجیب سا لگا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ اچانک اس کے چاروں طرف بارش شروع ہو گئی ہے اور اس کے سینے میں کوئی چیز قطرہ قطرہ پگھل رہی ہے۔ اس کے اندر ایک طغیانی سی اٹھی اور اس نے آگے بڑھ کر قیس کے گالوں پر ڈھلک آئے آنسوؤں کو اپنی نازک انگلیوں سے پونچھ دیا۔ پھر اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر ان پر اپنے کپکپاتے ہونٹ رکھ دیے۔ بارش تیز ہو گئی۔ بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سے وہ کانپنے لگی۔ اتنے میں دو مضبوط ہاتھوں نے اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا اور وہ کسی ابر کے ٹکڑے کی مانند ہلکی ہوکر ہوا میں تیرنے لگی۔ اس نے بچپن میں ایک بار مور رقص دیکھا تھا۔ مور اپنے پروں کو چھتری کی طرح کھول کر ناچ رہا تھا۔ جب وہ ناچتے ناچتے تھک کر چور ہو گیا تو اس کی آنکھوں سے دو آنسو ڈھلکے جنہیں پاس کھڑی مورنی نے موتیوں کی طرح چگ لیا تھا۔

    دفعتاً پہاڑوں کی چوٹیوں سے برف پگھل کر نشیب میں بہنے لگی۔

    ایک سرکش موج نے چٹان پر اپنا سر پٹکا اور پاش پاش ہو گئی۔

    موج کے بطن سے ایک سُر نے جنم لیا اور تادیر فضا کی پلکوں پر آنسو بن کر لرزتا رہا۔

    ایک فاختہ اڑتی ہوئی آئی۔

    اس نے آنسو کو چونچ میں دبایا اور پیڑ کی سب سے اونچی پھنگی پر جا بیٹھی۔

    ہوا چلی۔۔۔ شاخ ہلنے لگی۔۔۔ فاختہ اڑ گئی۔

    فاختہ کی چونچ سے آنسو پھسل کر جھیل میں گرا۔

    جھیل کی ناف سے ایک کنول نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دھرتی پھولوں سے ڈھک گئی۔

    جب قیس اور لیلیٰ کا خمار ٹوٹا تو شاخوں پر سیب اسی طرح آویزاں تھے۔

    مگر سانپ انہیں ڈس کر اپنے بل میں لوٹ چکا تھا۔ دونوں کے بدن سانپ کے زہر سے نیلے پڑ چکے تھے۔ مگر شریانوں میں لذت کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

    دونوں سرشاری کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ کپڑے پہنے، صدیوں کی محرومی، فراق اور گھٹن کے غبار کو اپنی پیشانیوں سے پونچھا اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہنستے، مسکراتے ہوٹل سے باہر نکل آئے۔

    ان کے چہرے چاند اور سورج کی طرح دمک رہے تھے۔

    دوسرے دن جب بس اسٹاپ پر قیس اور لیلیٰ پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ بس اسٹاپ خالی پڑا تھا اور اس پر جلی حرفوں میں ’کینسلڈ‘ (Cancelled) لکھا ہوا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں کچھ کہا اور خاموشی سے مخالف سمتوں میں مڑ کر شہر کی بھیڑ میں گم ہو گئے۔ پتا نہیں انہوں نے ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا کہا۔ اس کے بعد دونوں کبھی نہیں ملے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے