Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لین دین

ناصر بغدادی

لین دین

ناصر بغدادی

MORE BYناصر بغدادی

    شام کے گہرے سائے موت کا اذیت ناک بوجھ بن کر نانا صاحب کے دوران میں آہستہ آہست اترتے جارہے تھے۔ اس رنگا رنگ دنیا سے رخصت ہونے کا احساس زردیوں کا روپ اختیار کر کے ان کے جھریوں بھرے چہرے کی ایک ایک شکن، ایک ایک سلوٹ میں سماتا جا رہا تھا۔ اردگرد کا ماحول بڑا غم انگیز ہو گیا تھا۔ حیات وموت کی زبردست کشمکش کے منظر نے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں ایسے درد کو اجاگر کر دیا تھا جس کی تڑپتی خاموشی میں دھڑکتے دلوں کی شروعات ہوتی ہے۔آج گھر کی ہر شے زندگی کے مچلتے، ہمکتے جذبات سے دست کش ہو کر جمود کی گود میں بیٹھ چکی تھی۔ ایک بےحد خطرناک طوفان تھا جو ہنوز آیا نہ تھا لیکن جس کی آمد کی اطلاع سب کو مل چکی تھی۔

    خاندان کے سارے لوگ روحانی کرب کی گرد میں اٹے ہوئے ایک کمرے میں جمع تھے۔ دریچے کے قریب ایک پلنگ پر نانا صاحب گردن تک سفید کفن جیسی چادر اوڑھے چت لیٹے تھے۔ ان کا جسم بالکل غیر متحرک اور ساکت تھا۔ بس آنکھیں نیم وا تھیں اور سوگواروں کے ہجوم سے بے نیاز ایک ٹک چھت کی طرف مرتکز تھیں۔ شاید اس جگہ موت چپکے بیٹھی اشاروں اشاروں میں ان پر اپنی آمد کا مقصد واضح کر رہی تھی۔ ہر چند لمحوں بعد ان کے چہرے پر اینٹھن اور تشنج کے آثار پیدا ہو جاتے۔ اگرچہ اب تک تقدیر کے جابر دیو نے کمرے کے محدود دنگل میں لڑی جانے والی زندگی وموت کی اس کشتی میں ریفری بن کر موت کی فتح کا اعلان تو نہیں کیا تھا لیکن اندازے سے یہی معلوم ہو رہا تھا کہ موت کا پلہ بھاری ہے۔

    نانا صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک ایسا خوبصورت گلدستہ جس کے رنگا رنگ پھولوں کی خوشبوئیں تھکے ہوئے بوجھل احساسات کو تروتازہ کرنے کی قوت رکھتی تھیں۔ وہ محض اپنے گھر کے نانا نہیں تھے بلکہ ان کی متاثر کن شخصیت کے بوقلموں پہلوؤں نے انہیں جگت نانا بنا دیا تھا۔ حتیٰ کے وہ حضرات جن کی دودو فٹ لمبی داڑھیاں تھیں اور جو خودکئی بچوں کے نانا بننے کا شرف حاصل کر چکے تھے، وہ بھی ان کو اس انداز سے ’’نانا صاحب‘‘ کہتے تھے جیسے وہ واقعی ان کے حقیقی نانا تھے۔ مگر انہوں نے اس بات کا کبھی برا نہیں منایا تھا۔ ایسے حضرات سے وہ اسی طرح پیش آتے تھے جیسے اپنے حقیقی نواسوں سے پیش آتے تھے۔

    نانا صاحب یوں تو گونا گوں خوبیوں کے مالک تھے مگر جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ انسان لاکھ اشرف المخلوقات سہی لیکن وہ بے عیب نہیں ہو سکتا۔ کچھ ایسی ہی بات نانا صاحب کے متعلق بھی کہی جا سکتی تھی۔ وہ لاکھ کردار کے غازی سہی، لاکھ ان کی طبیعت مکھن کی طرح، چاندنی کی طرح سکون بخش سہی، مگر روپے پیسوں کے معاملے میں تو کبھی کبھی وہ کنجوس بنیوں اور سود خور پٹھانوں کو پیچھے چھوڑ دیتے تھے۔دیکھنے میں آیا تھا کہ وہ چمڑی سے زیادہ دمڑی کی فکر میں بولائے پھرے تھے۔ مگر ان کی شخصیت کا یہ ستم بھی ان کی شخصیت کو ہر دل عزیز ہونے سے نہیں روک سکا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ ان کی اس فطری کمزوری کی وجہ سے گھر کے کچھ لوگ ان سے کھنچے کھنچے سے رہنے لگے تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں تھا کہ نانا صاحب کی طرف سے ان کے دل کے شیشے میں بال آ چکا تھا۔ نانا صاحب سے دشمنی کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ فطری اختلاف کے باوجود سب نانا صاحب کی ذات گرامی کو گھر کے لیے نعمت مترقبہ سمجھتے تھے اور ان پر سو جانوں سے فریفتہ تھے۔ اس کی زندہ مثال یہ تھی کہ اولاد کے سر کے بال سفید ہو گئے تھے مگر اس کے باوجود آج تک کسی نے اپناحصہ مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ کاروبار اب بھی نانا صاحب کے ہاتھ میں تھا، جووہ بڑی کامیابی سے چلا رہے تھے۔ آج اس احساس کے زیر اثر کہ نانا صاحب کی دائمی رخصت قریب ہے سب کے کلیجے منہ کو آ رہے تھے وہ سب اس طرح خاموش، سر جھکائے ہوئے کھڑے تھے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا تھا اور پھر اچانک ہوا کا ایک بےتاب جھونکا کمرے میں زخمی کبوتر کی طرح پھڑپھڑا یا تو نانا صاحب نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ آج ان کی آنکھوں کو درد و اضطراب کی دھند نے دھندلا دیا تھا۔ انہوں نے مریضانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھا پھر ان کے ہونٹ آہستہ سے کھلے اور تیزی سے بند ہو گئے۔ بڑے ماموں تیزی سے ان کی طرف بڑھے اور ان کے سرہانے پلنگ کے ایک کونے پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئے۔

    ’’ابو اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ وہ ان کی طرف جھک گئے۔

    جواب میں نانا صاحب نے بڑی بے چارگی سے ان کی طرف دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ سے رک رک کر بولے۔

    ’’مجھے تم سے کچھ کہنا ہے‘‘۔

    ’’جی فرمائیے‘‘۔

    ’’غور سے سنو’’۔ لہجہ بڑا پر لکنت تھا۔

    ’’جی۔۔۔‘‘

    ’’پچھلے دو تین برسوں میں‘‘ وہ پھولی ہوئی سانس پر قابو پاتے ہوئے بولے۔ ’’بہت سے چھوٹے تاجروں نے مجھ سے قرض لیا تھا‘‘۔ وہ رک گئے، پھر سوگواروں کے ہجوم پر اک کرب ناک نگاہ ڈالی اور پھر رک رک کر سلسلہ کلام آگے بڑھایا۔ ’’میری موت کے بعد تم لوگ ان سے سارا قرضہ وصول کر لینا اور ۔۔۔ پھر دیکھو۔۔۔ قرضے پر جتنا سود واجب الادا ہے وہ بھی وصول کر لینا۔۔۔قرضے کے سارے کاغذات بینک کے لاکر میں محفوظ ہیں‘‘۔

    وہ خاموش ہو گئے۔ ان کا چہرہ لمحہ بہ لمحہ رنگ بدل رہا تھا۔ ان کی حالت لحظہ بہ لحظہ ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ کمرے میں خاندان کے لوگ یوں سر جھکائے چپ چاپ کھڑے تھے جیسے ان کی قوت گویائی سلب ہو گئی تھی۔ بس نانا صاحب کی بات سن کر چند ثانیے کے لیے بڑے ماموں اور چھوٹے ماموں کے چہروں پر ہلکا سا گلابی رنگ پھیل گیا تھا۔

    ’’خدا کا شکر ہے کہ موت نے مجھے اتنی مہلت دی‘‘۔ نانا صاحب نے رک رک کر کہا۔ ’’اور میں تم سے یہ بات کہہ سکا‘‘۔ نانا صاحب نے بات ختم کی۔چھوٹے ماموں چند قدموں آگے بڑھے۔ پہلے تو انہوں نے پر خیال انداز میں دو تین مرتبہ ہولے سے سر کو جنبش دی اور پھر بڑی آہستگی سے نانا صاحب کو مخاطب کیا۔

    ’’ابا جان! آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ نے کاروبار کے سلسلے میں بینکوں سے کتنا قرضہ لیا ہے؟‘‘

    ان کی بات سن کر نانا صاحب کا کمزور جسم ہلکے سے کانپا۔ چہرہ اداس شاموں کی طرح بجھ گیا۔ ہونٹ کپکپانے لگے۔

    ’’اوف میرے خدا‘‘۔ ان کا لہجہ اضطراب سے لبریز تھا۔ کتنی سردی ہے۔ ارے دریچہ کیوں کھلا ہے؟ افوہ۔ ہوا بے حد سرد ہے۔ مجھے لحاف اوڑھا دو۔۔۔ ہوا۔۔‘‘

    ’’ابا جان۔ آپ پر کتنا قرض واجب الادا ہے؟ ‘‘ چھوٹے ماموں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

    ’’چپ رہو۔ چپ رہو۔ خدا کے لیے۔۔۔ مجھے سکون سے مرنے دو‘‘۔ نانا صاحب کی آواز میں آخری وقت کا درد شامل ہو گیا تھا۔ ’’ارے لحاف۔۔۔ دریچہ بندکرو۔۔۔ہوا سرد ہے۔ ہوا۔۔۔‘‘

    اور پھر وہ خاموش ہو گئے۔ چھوٹے ماموں کے ہونٹ اب بھی کچھ کہنے کے لیے پھڑپھڑا رہے تھے!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے