Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماں کہاں رہے گی؟

مختار احمد

ماں کہاں رہے گی؟

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    نامساعد حالات کے باوجود علیم اور سلیم آج اس قابل ہوگئے تھے کہ اب ایک پرسکون اور آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ ان کی اس کامیابی کا وسیلہ الله تعالیٰ نے ان کی ماں کو بنایا تھا جس نے انتہائی برے حالات کے باوجود خود تن تنہا محنت کر کے نہ صرف ان کی پرورش کی تھی بلکہ انھیں پڑھایا لکھایا بھی تھا۔ ان کو اس جگہ تک پہنچانے کے لیے اس نے دن رات محنت کی تھی۔ اپنی تمام خواہشات کو مار کر ہر ماں کی طرح اس نے ان کی بہترین تعلیم و تربیت اور آرام و آسائش کا حد سے زیادہ خیال رکھا تھا۔

    علیم اور سلیم ابھی چھوٹے چھوٹے ہی تھے کہ ان کا باپ اس دنیا سے چل بسا۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں کام کرتا تھا اس لیے ان کی ماں کو پنشن کے تھوڑے بہت پیسے مل جاتے تھے۔ یہ رقم اتنی کم تھی کہ ایک گھر کو چلانے کے لیے ناکافی تھی۔ رشتے دار تو بہت تھے مگر وہ لوگ صرف خیر خیریت معلوم کرکے یہ سمجھ لیتے تھے کہ انہوں نے رشتے داری کا فرض ادا کردیا ہے۔ ان کی ماں کی یہ خواہش تھی کہ اس کے دونوں بچے پڑھ لکھ کر معاشرے کے مفید انسان بنیں اور خود بھی ایک اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہوں۔ اسے احساس تھا کہ انھیں کسی قابل بنانے کے لیے اسے ہی ہمت سے کام لینا ہوگا۔

    اس کی جب شادی ہوئی تھی تو وہ میٹرک پاس تھی۔ وقت پڑا تو اس کی یہ پڑھائی لکھائی کام آئی۔ اس نے گھر میں ہی چھوٹے بچوں کا ٹیوشن سینٹر کھول لیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں یہ خوب چل نکلا اور محلے اور آس پاس کے رہنے والوں کے بہت سے بچے وہاں پڑھنے کے لیے آنے لگے۔

    بچوں کو پڑھانا اور وہ بھی چھوٹے بچوں کو ایک دقّت طلب کام تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر علیم اور سلیم کو تیار کر کے اسکول بھیجتی۔ پھر دوپہر تک گھر کے مختلف کاموں میں لگی رہتی۔ اس کے بعد دوپہر سے لے کر شام تک ٹیوشن والے بچوں کو پڑھانے میں مصروف رہتی۔ ان کے جانے کے بعد وہ دوبارہ گھر کے کاموں میں لگ جاتی۔ علیم اور سلیم اپنے کھیل کود میں لگے رہتے۔ ماں کی سختی کی وجہ سے وہ باقائدگی سے اسکول جاتے تھے اور اس کے ہی ڈر سے پڑھنے میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ وہ دونوں بیٹوں سے بہت محبّت کرتی تھی مگر ان کی پڑھائی کے سلسلے میں کوئی رعایت نہیں کرتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اگر لاڈ پیار میں آکر انھیں اس وقت ڈھیل دے دی تو وہ زندگی بھر تکلیفیں اٹھائیں گے۔ شوہر کی پنشن اور ٹیوشن سے ملنے والے پیسوں سے اس کے گھر کے اخراجات بخوبی پورے ہونے لگے تھے۔

    وقت کا دھارا بہتا رہا اور پھر اچھے دنوں کی آس بندھ گئی۔ پہلے علیم نے یونیورسٹی سے ڈگری لی اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنے لگا۔ اس کے بعد سلیم کی تعلیم بھی مکمل ہوگئی۔ اس نے ٹیکسٹائل ڈیزائن کی ڈگری لی تھی۔ ایک دو سال تک تو وہ ادھر ادھر انٹرن شپ کرتا رہا۔ پھر ایک ٹیکسٹائل مل میں اسے ڈیزائنر کی جاب مل گئی۔ جہاں اسے اچھی تنخواہ اور دوسری مراعات ملتی تھیں۔ بیٹوں کی ملازمتیں لگنے کے باوجود اس نے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا نہیں چھوڑا تھا حالانکہ وہ اصرار کرتے تھے کہ اب وہ اپنا ٹیوشن سینٹر بند کرکے آرام کرے۔ مگر تعلیم دینے کو وہ نیک کام سمجھتی تھی اور یہ سوچ کر خوش ہوتی تھی کہ جب یہ بچے جب پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جائیں گے تو ان کی کامیابی میں اس کا بھی تھوڑا بہت حصہ ہوگا۔

    کسی زمانے میں اس کے شوہر نے دو پلاٹ لے کر ڈال دیے تھے۔ اس وقت یہ پلاٹ آبادی سے میلوں دوری کے فاصلے پر تھے اس لیے کم پیسوں میں مل گئے تھے۔ ان کا باپ تو چاہتا تھا کہ یہ پلاٹ اس کی بیوی کے نام ہوں مگر اس کے کہنے پر اس نے انہیں اپنے بیٹوں کے نام کر دیے تھے۔ اب وہاں بھی آبادی ہوگئی تھی۔ حالات ٹھیک ہوئے تو دونوں بھائیوں نے ماں کے کہنے پر ان کی تعمیر بھی شروع کروا دی۔ ماں کا خیال تھا کہ گھر بن جائیں تو پھر وہ ان کی شادی کردے گی۔ ہر ماں کی طرح اس کا بھی یہ ارمان تھا کہ اس کی چاند جیسی بہوئیں آجائیں۔ اس نے اپنی ملنے جلنے والوں میں دو لڑکیاں بھی ڈھونڈ لی تھیں۔ دونوں لڑکیاں شکل و صورت کی بہت اچھی تھیں۔

    علیم اور سلیم کے نئے گھر بن کر تیار ہوگئے تھے۔ ان کا موجودہ مکان جس میں وہ برسوں سے رہتے چلے آرہے تھے وہ بہت چھوٹا تھا۔ اب اس کے چھوڑنے کا وقت آگیا تھا۔ دونوں بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب اس مکان کو بیچ دیں گے۔ اس گھر میں علیم اور سلیم چھوٹے سے بڑے ہوئے تھے اور انہیں اس سے ایک خاص محبّت ہوگئی تھی۔ اس کے فروخت ہو جانے کے خیال ہی سے انھیں دکھ کا احساس ہو رہا تھا۔

    ایک روز اسی سلسلے میں ایک بیٹھک ہوئی۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ جلد سے جلد اس گھر کا سودا ہوجائے تو اچھا ہے۔ اس رات ان کی ماں سونے کے لیے لیٹی تو اپنے مرحوم شوہر کو یاد کرکے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو اس کی طرح وہ بھی بیٹوں کی کامیابی پر پھولے نہ سماتا۔ ان کے نئے تعمیر شدہ گھروں کو دیکھ کر اسے بھی بہت خوشی ہوتی۔

    اگلے روز ناشتے پر اس نے محسوس کیا کہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے کچھ کھنچے کھنچے سے ہیں۔ خلاف توقع انہوں نے ایک دوسرے سے کوئی ہنسی مذاق بھی نہیں کیا۔ دونوں نے خاموشی سے ناشتہ کیا اور اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے۔

    شام کو جب وہ گھر آئے تب بھی ان کے رویوں میں پہلے والی بات نہ تھی۔ ایک اپنا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ دوسرا ٹی وی دیکھنے لگا۔ وہ اس صورت حال سے پریشان ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا کہ کھانے کے بعد وہ ان سے بات کرے گی اور پوچھے گی کہ دونوں میں کسی بات پر تکرار تو نہیں ہوگئی ہے۔ اسے یاد آیا کہ رات کو وہ دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے تیز تیز آوازوں میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔

    وہ باورچی خانے میں تھی اور کھانا پکانے کی تیاری کر رہی تھی کہ اچانک اس کے کانوں میں سلیم کی دبی دبی سی آواز آئی۔ “بھائی صاحب۔ رات والی تلخ کلامی پر مجھے افسوس ہے۔ آپ بڑے ہیں۔ بڑا بھائی باپ جیسا ہوتا ہے۔ امید ہے کہ آپ مجھے معاف کردیں گے۔ امّی والے مسلے پر ہمارا بحث کرنا اور لڑنا جھگڑنا مناسب نہیں۔ اب آپ کی تجویز مجھے معقول لگ رہی ہے کہ قرعہ اندازی سے یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ امّی کس کے ساتھ رہیں گی”۔

    سلیم کی یہ بات سن کر وہ دم بخود رہ گئی۔ ان کے آپس کے کھنچاؤ کا سبب وہ خود تھی۔ شائد وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ ماں کو کون اپنے پاس رکھے۔ اس نے تو یہ بات سوچی ہی نہیں تھی کہ اس گھر سے چلے جانے کے بعد وہ کہاں رہے گی۔ وہ تو اس خوشی میں ہی مگن تھی کہ اس کے بیٹوں کے گھر بن گئے ہیں اور جلد ہی ان کی شادی بھی ہوجائے گی۔

    اب وہ دونوں پہلے کی طرح اس کے محتاج نہیں تھے۔ وہ بااختیار ہوگئے تھے۔ وہ کس کے ساتھ رہے گی یہ فیصلہ کرنا اس کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اب یہ ان دونوں کی مرضی پر منحصر تھا کہ کون اس کو اپنے ساتھ رکھے گا۔ سلیم کی باتوں سے اس نے اندازہ لگایا کہ یہ مسلہ الجھ گیا ہے اور نوبت قرعہ اندازی تک پہنچ گئی ہے۔

    اسے اپنے محلے کی وہ بوڑھی عورتیں یاد آگئی تھیں جو اٹھتی تو منہ اندھیرے تھیں مگر ناشتہ انھیں سب سے آخر میں ملتا تھا۔ گھر کے سب لوگ اپنی اپنی مصروفیات میں گم رہتے تھے اور وہ دن بھر گھروں سے باہر چبوتروں پر بیٹھ کر آتے جاتے لوگوں اور آس پاس کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ دیکھ کر دل بہلاتی تھیں یا پھر گھر میں پلی مرغیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں جو دانہ دنکا چگنے گلی میں آجاتی تھیں۔ یہ بوڑھی عورتیں خود ہی بیمار پڑتی تھیں اور خود ہی ٹھیک بھی ہوجاتی تھیں۔ ان کے جوان بچوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ دو گھڑی ان کے پاس بیٹھ کر ان کا حال احوال معلوم کریں اور ان کی دلچسپیوں کی باتیں کریں۔ ان ماؤں نے بچپن میں اور پھر ان کے بااختیار ہونے تک کبھی بھی انھیں تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ انھیں تو یہ تک یاد رہتا تھا کہ کس بچے نے کھانا کھا لیا ہے اور کس نے نہیں۔ ان کےگھر کے اور اسکولوں کے کپڑوں کا، رات کو ان کے صاف ستھرے بستر بچھانے کا، غربت کے باوجود ہر روز کے جیب خرچ کا اور اسی قسم کی بیسیوں باتوں کا وہ خود ہی خیال رکھتی تھیں اور بغیر کسی کے کہے یہ تمام کام روزانہ پابندی سے انجام دیتی تھیں۔ ان تمام خدمات کا انھیں یہ صلہ ملا تھا کہ اب ان ہی بچوں میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان کے پاس گھڑی دو گھڑی بیٹھ کر ان سے اًدھر اُدھر کی باتیں کرتا۔ یہ ہی حال ایسی اولادوں کے بوڑھے باپوں کا تھا۔ وہ بھی گھروں سے باہر نکل کر دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے تنہا خالی وقت گزارنے کا اذیت ناک کام سر انجام دیتے تھے۔ اب ان کی اولادوں کی زندگی میں خوب صورت بیویاں اور ننھے ننھے بچے شامل ہوگئے تھے۔ ان کے پاس فرصت ہی کہاں تھی کہ کسی اور طرف توجہ دیتے۔

    ان خیالات کے ذہن میں آنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ کھانا پکاتے ہوئے وہ سوچتی رہی۔ زمانہ تیزی سے بدل رہا تھا۔ ایک مضبوط خاندانی نظام کی یہ آخری ہچکیاں تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے تو لڑکی والے یہ دیکھ کر رشتے دیتے تھے کہ لڑکے کا خاندان زیادہ بڑا نہ ہو۔ پھر بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی۔ لڑکیوں کی اکثریت اس بات کو ترجیح دینے لگی کہ شادی کے بعد ان کے الگ گھر ہوں، وہ ہوں، ان کے بچے ہوں، ان کے شوہر ہوں اور دوسرا کوئی نہ ہو۔

    اس ٹرینڈ اورغلط سوچ کی وجہ سے بوڑھے ماں باپوں کی اکثریت متاثر ہو رہی تھی۔ وہ اپنی ساری زندگی اپنی اولادوں کی دیکھ بھال اور ان کی پرورش میں صرف کردیتے تھے۔ جب بڑھاپے کا وقت آتا اور طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوجاتیں تو ان کی اکثریت مناسب دیکھ بھال اور توجہ سے محروم ہی رہتی تھی۔ ماں باپ بوڑھے ہوں تو ان کا انحصار بیٹوں پر ہی ہوتا ہے، یہ ہی ہمیشہ سے دستور بھی رہا ہے۔ مگر دوسری برائیوں کی طرح یہ دستور توڑنے کی روایت بھی چل نکلی ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اور اپنی خواہشیں مار مار کر اولاد کی پرورش کرنے والوں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کا رحجان بھی تیزی سے پروان چڑھا ہے اور اس میں دن بہ دن تیزی ہی آتی جا رہی ہے۔ بوڑھے ماں باپ سے جھڑک کر بات کرنا بھی دھیرے دھیرے عادتوں میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔

    تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے ایک فیصلہ کرلیا۔ کھانے کے بعد اس نے دونوں بیٹوں کو اپنے پاس بٹھایا۔ اس کے اس رویے نے دونوں کو حیران کردیا تھا۔ وہ ماں کو سوالیہ نظروں سے تکنے لگے۔

    وہ بولی۔ “بیٹا۔ میں خوش ہوں کہ تم دونوں اپنے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے ہو۔ تمھارے اپنے گھر بھی بن کر تیار ہوگئے ہیں۔ چند مہینوں کی بات ہے پھر تمھارے بیاہ بھی ہوجائیں گے۔ تمہاری شادیاں ہوجائیں تو مجھے اور بھی اطمینان ہوجائے گا۔ تمہارا باپ زندہ ہوتا تو ان سب چیزوں کو دیکھ دیکھ کر وہ کتنا خوش ہوتا”۔

    ماں کی یہ تمہید دونوں کی ہی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ وہ پھر بولی۔ “میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔ میں اس گھر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ اس گھر سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ میں اسی گھر میں بیاہ کر آئی تھی۔ تمھارے باپ کے ساتھ میں اسی گھر میں بہت ہنسی خوشی رہی تھی۔ تم دونوں بھی یہیں پیدا ہوئے تھے۔ اس گھر کو چھوڑنے کے خیال سے ہی میرے دل میں ہول سے اٹھنے لگے ہیں۔ میں یہ گھر کبھی بھی نہیں چھوڑوں گی۔ میں اسی میں رہوں گی۔ مرتے دم تک۔ یہ میرے شوہر کی نشانی ہے”۔

    اس کی بات سن کر سلیم ہنس پڑا۔ دیر تک ہنستا رہا پھر یکایک اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے ماں کو گلے سے لگایا اور رندھی ہوئی آواز میں بولا۔ “امی۔ ہم دونوں تو پہلے ہی اس الجھن میں تھے کہ یہاں سے جانے کے بعد آپ کس کے ساتھ رہنا پسند کریں گی۔ میں چاہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہیں۔ بھائی صاحب کہتے تھے کہ وہ بڑے ہیں اس لیے آپ کو اپنے ساتھ رکھنے کا حق ان کا ہے۔ رات اس بات پر میری اور ان کی تلخ کلامی بھی ہوگئی تھی۔ ہم دونوں ہی اپنی اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ اس بات پر بھی ہم نے سوچا تھا کہ آپ مہینے میں پندرہ پندرہ دن باری باری ہم دونوں کے ساتھ رہیں مگر اس میں آپ کو آسانی نہیں ہوتی۔ پھر اپنی عقل کے مطابق ہم اس بات پر متفق ہوے کہ اس سلسلے میں قرعہ اندازی کرکے یہ معاملہ قسمت پر چھوڑ دیں۔ اب آپ نے اپنا یہ نیا فیصلہ سنا دیا ہے۔ ہم اب کریں تو کیا کریں؟”

    سلیم کی بات نے اس کی ماں کے رگ و پے میں مسرت کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ ایک فخر کا احساس تھا جو اسے محسوس ہورہا تھا۔ اپنے بیٹوں کے بارے میں اسے جو غلط فہمی ہوئی تھی وہ اب دورہو چکی تھی۔

    علیم نے ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بولا۔ “امی جان۔ اس الجھن سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم وہ دونوں گھر فروخت کر کے اپنے اسی گھر کو خوب بڑا سا اور اچھا سا بنا لیں۔ ہم کبھی بھی کسی ایسے گھر میں نہیں رہیں گے جہاں ہماری ماں ہمارے ساتھ نہ ہو”۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے