Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماں

MORE BYادھو شیلکے

    آج بھی گھر میں چخ چخ شروع ہوئی۔ ویسے یہ روز ہی کا معمول تھا۔ دن نکلا کہ نہیں گڑ، چائے کے پیسوں کولے کرچخ چخ شروع ہو جاتی۔ اسی طرح کبھی جوار کے لیے تو کبھی کسی اور چیز کے لیے چخ چخ چلتی رہتی۔ باپو جو اباً کبھی کچھ نہیں بولتا۔ ماں کامنہ البتہ چلتا رہتا۔ باپو کے منہ پرہی اسے صلوتیں سناتی، غصہ میں جان دینے کی دھمکی بھی دیتی پھر کہتی، نہ تو اچھا نہ تیری اولاد ہی اچھی۔ میں نے گھر چلانے کا ٹھیکہ نئیں لیا۔۔۔ آدمی جیسا آدمی اور کوڑی کا کام کانئیں۔ اس سے اچھا ہے کہ ہاتھوں میں چوڑیاں ڈال کر چولہا پھونک! اس طرح کی باتوں کے ذریعہ ماں غصہ کی آگ اگلتی رہتی۔

    اس آگ کے چٹکے باپو کو کبھی نہیں لگتے۔ اس نے برداشت کرنے کی عادت ڈال لی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے اس کی پتھریلی ہتھیلیوں کو کلہاڑی کے ڈنڈے کی عادت پڑ چکی تھی۔ وہ کچھ نہیں بولتا۔ ماں کی باتوں کا جواب دینا اس کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ بیوی کے منہ لگنے کی بجائے وہ گھر سے نکل جانے کو بہتر سمجھتا۔ اپنا ہتھوڑا، چھلنی اور کلہاڑی کاندھے پر ڈالتا اور غائب ہو جاتا۔ گاؤں میں چکر لگاتا اگر کسی کو ضرورت ہوئی اور کام مل گیا تو لکڑیاں پھوڑتا۔

    روپئے دو روپئے میں گاڑی بھر لکڑیوں کو چھیل ڈالتا۔ لیکن ضروری نہیں تھا کہ ہاتھ میں لیاہوا کام پورا بھی کرے۔ دن بھر لکڑیاں پھوڑتا اور شام ہوتے ہی مالک سے بال بچوں کے بہانے تھوڑے بہت پیسے مانگ لیتا۔ مالک نے رحم کھاکر پیسے دے دیئے تو سمجھو باپو کا کام بن گیا۔ ضروری نہیں تھا کہ دوسرے دن بھی کام پر واپس جائے۔ جب تک پھر سے چائے تمباکو کے لئے محتاج نہیں ہو جاتا کلہاڑی کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ گاؤں میں چکر نہیں مارتا۔

    باپو کا معمول تھا کہ دن بھر ناگو کے ہوٹل پر جمارہتا۔ گھنٹے آدھے گھنٹے کے وقفے سے چلم اور گڑکا کاڑھا ملتے رہیں تو سمجھو باپو کا کام نبھ گیا۔ کھانے پینے کا دارومدار جیب میں پڑے ہوئے پیسوں پر ہوتا۔ جیب میں اگر پیسے رہیں تو چار چھ آنے کے بھجئے وہ بیٹھے بیٹھے چٹ کر جاتا۔ کبھی ناگو کو رحم آ جاتا اس کی حالت پر۔ باسی بھجیوں کے چورے کی پڑیاوہ باپو کے ہاتھوں میں تھما دیتا۔ باپو وہ پڑیالے کر چائے کی بھٹی کے آسرے میں لیکن زمین ہی پر بیٹھ چوٹے کی طرح کھاتا۔ لیکن باپو مفت خوری کا عادی نہیں تھا۔ بیٹھے بیٹھے کبھی ناگو کے لیے پیاز کتر دیتا تو کبھی شہر سے جاکر بیسن کی بوری لا دیتا تو کبھی کھانے کے تیل کا پیپا کاندھوں پر ڈال کر لا دیتا یا پھر کبھی کوئلے کی بوری اٹھا لاتا اور اس طرح احسان کا بدلہ اتار دیتا۔

    باپو کو بجرنگ داس بابا کی مہربانی سے اکثرپیسے ملتے رہتے۔ ایسے موقعوں پر باپو کادل ہمارے لیے بھی تڑپ اٹھتا۔ بڑا بیٹا ہونے کے ناطے خاص طور سے میرے ساتھ باپو بڑی محبت سے پیش آتا۔ سٹے میں جیتے ہوئے پیسے لے کر وہ گھر آتا۔ چونکہ میں اکثر گھر ہی میں ہوتا۔ مجھ کو دیکھ کر باپو باہر ہی سے چلاتا۔ مجھے بازار لے جاتا۔ ایک آدھ قمیص کے لیے سین خرید کر دیتا تو کبھی کبھار پنجاب درزی کی دکان سے ایک آدھ تار چڈی دلوا دیتا۔ یہ سب حسب استطاعت ہوتا۔ پیسے اگر زیادہ نہ ہوئے تو پھر ہوٹل میں لے جاتا اور خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلواتا۔ سونتی اکثر اپنے حصے کا کھانا بچا لیتی اور گھر لے جانے کی غرض سے پڑیا میں باندھ لیتی۔ پڑیا لاکر وہ اکثر ماں کو دیتی۔ ماں کے لئے اس کا دل بہت ٹوٹتا ہے۔ ہاں اگر باپو نے ضد کی تو الگ بات ہے۔ پھر وہ ہوٹل ہی میں کھانے پر مجبور ہو جاتی۔ لیکن ایسے موقعوں پر اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے رہتے۔ باپو غصہ میں اسے گالیاں بکتا۔ دوبارہ ساتھ نہ لانے کی دھمکیاں بھی دیتا۔

    کبھی کبھارباپو کو اچانک اپنی گھریلو ذمہ داریوں کا احساس بھی ہوتا بشرطیکہ سٹے میں تگڑی رقم ہاتھ لگی ہو۔ پھر باپو کے ٹھاٹ ہی الگ ہوتے دکان پر جاتا اور دھوتی کے پلو میں ایک آدھ پائلی گیہوں یا چاول گھر لے جاتا۔ تہوار وغیرہ کا موقع ہوتو ایک آدھ سیر گھاٹ کا گڑ بھی خرید لاتا۔ کبھی ایسا کوئی عمل اس سے سرزد ہو جائے تو خود باپو کو بڑا اطمینان ہوتا۔

    ماں کا معاملہ اس سے بالکل الگ تھا۔ ان چیزوں کا اس پر کوئی اثرنہ ہوتا۔ میں اگر کبھی اس سے پوچھ لیتا کہ باپو کے لائے ہوئے گیہوں کہاں رکھوں تو تنک کر کہتی، ’’پھینک دے ادھر گھر پر! مرے سامنے لاؤں نکو!‘‘ باپو کے لائی ہوئی چیز کو چار چار دن ہاتھ تک نہیں لگاتی۔ ماں کا برتاؤ باپو کے ساتھ ہمیشہ ہی ایسا رہا ہے۔ باپو کبھی کبھار مجھے تمباکو لانے کے لئے دکان پر بھجواتا۔ ایسے وقت اگر سرو نے ماں سے متعلق پوچھ لیا تو پھنک کر کہتی، ’’مجے نئیں مالوم، پوچتے بیٹھ۔ تیرے جیسی بے کام کی ٹھیکری ہوں کیا مئیں!‘‘ ماں کا جواب سن کر سرو خود سمجھ جاتی کہ میں باپو کے کام سے گیا ہوں۔

    ادھر باپو کاندھے پرکلہاڑی ڈال کر نکلا اور ادھرماں کی گالم گلوج میں تیزی آ گئی۔ وہ باپو کے نام سے کوستی، انگلیاں توڑتی اور جومنہ میں آئے بکتی ہے۔ ایسے وقتوں میں لفظوں، رشتوں کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔ پھر غصہ غصہ ہی میں اپنے کمر پر ٹھونستی ہوئی چونی نکال کر میری جانب سرکاتی اور میری طرف دیکھتے ہوئے چلاتی ہے، ’’لے رے پوٹے، اٹھاوہ چار آنے اور شنکر یاکی دکان کو جا۔ دو پیسے کا بیسن کا اٹا، دو پیسے کا گوڑ، پائی کی پتی، پائی کی چھا لیا اور ایک پیسے کا کھانے کا تیل دے بولنا۔‘‘

    میں ایک میلا کچیلا پھڑ کا اٹھاکر دکان کی طرف نکلتا ہوں۔ اسی وقت پیچھے سے ماں کی آواز آتی ہے، ’’تیل کائے میں لائیں گا، میرے منہ میں کی تیرے منہ میں۔‘‘

    میں واپس گھر میں جاتا ہوں، المونیم کا گلاس اٹھاتا ہوں۔ اسی اثنا میں ماں کو اور کوئی بات یاد آ جاتی ہے۔ وہ کہتی، ’’یہ دیکھ رے پوٹے، وہ ٹوٹی ڈنڈی کا کوپ لے اور آتے وقت تیلن سے پیسے کا دودھ بھی لاجورے!‘‘

    واپسی پر مجھے اکثر دیر ہو جاتی۔ کبھی تومداری کا تماشہ دیکھنے میں محو ہو جاتا ہوں اور کبھی چھوکروں کا اینگا مینگا کا کھیل دیکھنے میں۔ کبھی کبھار راستے میں ہونے والے جھگڑے دیکھنے میں بھول جاتا ہوں۔ ماں سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔ میرا انتظار کرتے کرتے اکتا جاتی ہے۔ چولہے پر چائے کے لیے رکھا ہوا پانی جگہ ہی جگہ سوکھ جاتاہے۔ اسے یہ بھی اچھا نہیں لگتا۔ معاملہ جب برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو خود شنکریا کی دکان کی طرف نکل جاتی ہے۔ راستے میں جہاں کہیں مل جاتا ہوں گدی دباتی ہے اور کچھ بولے سنے بغیر ایک کے بعد ایک دو چار جھانپڑ جڑ دیتی ہے بولنے کا موقع تک نہیں دیتی۔ رگیدتے ہوئے گھر لاتی ہے۔

    شاید مار پڑنے کاہی ڈر تھا کہ ہم اپنے اپنے ذمہ کے کام برابر کرتے یعنی میں کنویں سے پانی لاتا ہوں، سرو برتن دھوتی، جھاڑ جھوڑ کرتی ہے۔ تین سال کی ننھی شونی کے ذمہ بھی کام ہوتا ہے۔ وہ اپنی جگہ پربیٹھے بیٹھے پالنے میں پڑی ہوئی شانتی کو جھولا دیتی ہے۔ بائیں ہاتھ کی دوانگلیاں ہمیشہ اس سے منہ میں ہوتی ہیں اور سیدھے ہاتھ سے پالنے کی رسی کھینچتی رہتی ہے۔

    ہمارا اندازہ تھا کہ ماں شاید باڑے میں بھی کام کرتی ہے۔ وہاں وہ کیا کام کرتی ہے یہ ہمیں معلوم نہ تھا۔ اس سے پوچھنے کی ہمت نہ تھی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ باڑے سے جلدی جلدی واپس آتی ہے لگڑے کا پلو کبھی بندھا ہوا ہوتا ہے تو کبھی کھلا۔ بائیں ہاتھ میں گائے کے پیل پیلے دودھ کا برتن ہوتا ہے۔ ہماری شانتی کے واسطے پائلن بائی روز دودھ بھجواتی ہے۔ معلوم نہ ہوتے ہوئے بھی ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اس برتن پر قطعی ہمارا دھیان نہ ہوتا۔ ہماری توجہ کا مرکز توماں کا سیدھا ہاتھ ہوتا ہے جس میں کاغذ سے ڈھانپی ہوئی ہمیشہ کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے اور اکثر کھانے کی چیزیں ہی ہوتیں۔ کبھی گیہوں کی باسی چپاتیاں تو کبھی رات کا بچا ہوا باسی ہی ساگ لیکن چپ چپ تیل میں ڈوبا ہوا اور کبھی کبھار تو ہمارے اندازے سے بھی پرے کی ایسی مٹھائی ہوتی جس کا نام تک ہم نہیں جانتے۔

    اسی لیے ماں جب بھی باڑے میں جاتی تو ہم اس کی واپسی کا شدت سے انتظار کرتے۔ اس وقت ہمارے جوش و خروش کی انتہا نہیں ہوتی جب وہ باڑے سے لوٹتی ہوئی نظر آتی۔ اسی جوش و خروش کی وجہ سے اکثر ہمیں مایوسی کا بھی دیکھنا پڑتا۔ اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک آدھ ٹوکرا یا لوہے کا کوئی برتن ہوتا جس میں صرف چھانچ پڑی ہوئی ہوتی یا پھر کبھی کبھار حال ہی میں جنی ہوئی کسی بھینس کا دودھ ہوتا۔۔۔ جسے ماں ’چیک‘ کہتی۔ ابالنے پر اس کے چکتے چکتے ہو جاتے ہیں اور کھانے میں بہت لذیذ لگتا ہے۔ اگر ہماری قسمت سے اس میں ملانے کے لئے تھوڑا سا گڑ بھی مل جائے تو سمجھو ہماری دعوت ہو گئی۔ انگلیوں سے چاٹ چاٹ برتن صاف کیا جاتا ہے۔ باقی بچے پانی کے واسطے بھی آپس میں توتو میں میں ہوتی ہے لیکن ظاہر ہے یہ سب کے سامنے ہرگز نہ ہوتا ہوگا۔

    ماں مردانہ چال چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوتی ہے اور اپنے ہاتھوں پر اٹھایا ہواپسارا زمین پرپٹخ دیتی ہے (ہم نے ماں کو سامان زمین پر آہستہ سے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا) اس کی نظروں میں آنے سے پہلے ہی ہمیں اپنے اپنے ذمہ کے کام نمٹ لینے پڑتے ہیں۔ کام اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوئے تو پھر ہماری خیریت نہیں۔ کچھ کہے سنے بغیر ڈنڈے جیسی کلائیوں پر سے چوڑیاں کہنی تک چڑھ جاتی ہیں اور پھر وہ مضبوط پنجے ہماری پیٹھ کی خبر لیتے ہیں۔ وہاں کوئی اپیل نہیں ہوتی ہے ویسے ہمیشہ ہی ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی آج کچھ ایسا ہوا۔

    ماں نے سرو سے اوپلیاں، کاڑیاں اور چھال لانے کو کہا۔ چولہے پر روٹیوں کے لیے پانی رکھا گیا۔ بجھتی ہوئی آگ راکھ جھٹکنے کے بعد جب بھڑکنے لگی تو بڑی شن میں مٹکے سے آٹا نکالا گیا۔ اگر گھر میں پیاز ہو تو کترنے کے لیے سونتی کو دی جاتی۔ نہ ہو تو پروا نہیں۔ آج ویسے بھی پیاز ہے ہی نہیں۔ مجھ سے مرچیوں کے ٹکڑے کرنے کو کہا گیا ہے۔ میں پیوسی کے واسطے وقت گزاری کرنے لگا تبھی وہ میرے نام سے چلائی۔ ناخنوں سے کترنے کا حکم ہوا۔ میں اپنا کام کرنے لگا۔ کام کرتے ہوئے ہم سب تھرتھر کانپتے رہتے کیوں کہ معمولی سے معمولی بات پربھی وہ چیخ پکارکرنے لگی۔ بلا وجہ دانت ہونٹ چباتی اور بیچ بیچ میں گالیوں کا سیلاب امڈ آتا۔ سیدھے منہ بات کرنا اس کی سرشت ہی نہ تھا۔

    ماں کی گرجدار آواز گونجتے ہی پڑوسیوں کواس کی موجودگی کا پتہ چل جاتا۔ اس کی موجودگی کے بارے میں کبھی کسی کو پوچھنے یا بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ماں کی آواز سنتے ہی کبھی گنگو اپنے سمڑے پوٹے کو گود میں اٹھائے آ جاتی یا تو کبھی من کرنا اپنی چھوکری کا ہاتھ پکڑے جس کی مچ مچی آنکھوں میں گیرو لگایا ہوا ہوتا ہمارے دروازے میں آ دھمکتی یا پھروندھیا سیتا مالن آتی۔ آج وہ نہیں آئی۔ من کرنا نے حاضری دی۔ دروازہ میں آکر کھڑے کھڑے ماں سے کہنے لگی، ’’کام دھندہ ہوا کیا؟‘‘

    ’’نئیں۔ کون؟ من کرنا؟ آنا!‘‘

    ’’نئیں بائی! جاتیوں۔‘‘ پھسڈی مارتی ہوئی وہ بولی، ’’کیا آنا ماں۔‘‘

    ’’کیوں جی؟‘‘

    ’’نند نے جانا بولتیوں۔‘‘

    ’’کس کے کھیت میں؟‘‘

    ’’سدی رام پاٹل کے۔‘‘

    ’’کونے سے کھیت میں؟‘‘

    ’’آم والے۔‘‘

    ’’آم کے میں توکل گئے تھے نا او۔‘‘ ماں روٹیاں تھاپتے ہوئے کہنے لگی۔

    ’’پھر ابی تک ہوا نئیں؟‘‘

    ’’نئیں۔۔۔‘‘ وہ گردن کے جھٹکے سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگی۔

    ’’بھوت چ چکٹ ہے۔ ہوتا ہوتا نئیں۔ تو کس کے کھیت میں جاری؟‘‘

    ’’وامن بمن کے۔‘‘

    ’’اس میں توکل چ ہوا کیا کی نا؟‘‘

    ’’کپاس کو جا رہوں۔‘‘

    ’’من سے کی روز سے؟‘‘

    ’’من سے۔‘‘

    ’’اچھی پھوتی کیا؟‘‘

    ’’کائی کاماں!‘‘ ماں توے پر روٹی ڈالتی ہوئی ناراضی سے کہنے لگی’’ایک بونڈا یہاں تو ایک بونڈا وہاں۔ سارے د ن میں دو دھڑے کپاس نئیں ہوئی۔‘‘

    ’’پھر کائی کو جاتی وہ ماں؟‘‘

    ’’جاؤں نکو تو کماؤں کیا ماں!‘‘

    ’’وہ بی سچی ہے۔ تیرا آدمی کاں گیا او؟‘‘

    ’’شمشان میں۔‘‘ ماں موضوع ٹالتی ہوئی کہتی ہے۔

    تھوڑی دیر کے بعدمن کرنا اٹھنے لگی، ’’جاتیوں۔‘‘

    ’’بیٹھ نا او، جانا!‘‘

    ’’لا پھر تمباکو سپاری تو بی دے۔‘‘ وہ پھر پھسڈی مار کر بیٹھ گئی۔

    ’’تمباکو نئیں ہے۔ سپاری ہے۔‘‘

    ’’لا سپاری چ دے۔‘‘

    پھر ماں نے سرو سے تھیلی لانے کے لئے کہا۔ من کرنا نے سپاری کھائی۔ ماں کے ساتھ اطمینان سے گپیں مارتی رہی۔ اس گھنٹے آدھے گھنٹے میں ماں روٹیاں بنا لیتی ہے اور چولہے پر بیسن کھد کھدا بلتا ہے۔ پھر وہ چولہے کے پاس کا سامان سومان اٹھائے ضروری نہیں کہ یہ کام وہ مکمل بھی کر لیتی ہو کیونکہ اسی اثنا میں کوئی نہ کوئی اس کے نام کی ہانک لگاتا ہے۔ آج بھی باہر سے آواز آئی، ’’دیوکی، او دیوکی!‘‘

    ’’آریوں او، جب تک آگے چلو‘‘ ماں آٹے سے بھرے ہوئے ہاتھ دھونے لگتی ہے۔‘‘

    ’’ہوا نئیں کیا ابی تک؟‘‘

    ’’ہوا، ہوا، بائیاں نکل گیا کیا؟‘‘

    ’’ہو، ہو۔۔۔‘‘ راستے سے آنے والی آواز کہتی ہے، ’’چل جلدی۔‘‘

    ’’آگے چلو تم، میں ابی آئی۔‘‘

    ’’آجلدی سے، گاؤں کے باہر رکتے ہم تیرے واسطے۔‘‘ دروازے کے پاس کی آواز آگے چلنے لگتی ہے۔

    پھر ماں کے کام کاج میں مزید تیزی آ جاتی ہے۔ چولہے پر پکتا ہوا بیسن وہ ایک روٹی پر ڈالتی ہے، چاہے وہ پکا ہو نہ ہو۔ اگر گھر میں ہو تو اس پ رتھوڑا تیل ڈال لیتی ہے نہ ہو تو بھی پروا نہیں۔ اپنا توشہ باندھتے ہوئے ہمارے لئے مسلسل ہدایتیں ہوتی رہتی ہیں، ‘‘ واسودیو توندی سے پانی لاکے رکھ رے۔ ان سرو تو برتن دھوکے رکھ۔ گھر بی لیپ کے رکھ۔ شانتی کو دودھ بی پلانا۔ دودھ چولہے پر رکھ کتے بلی کو آنے دیوں نکو۔ سیونتی، شانتی کو اکیلی چھوڑکر کے جاؤں نکو۔ کس کے گھر جانے کا نئیں بھلا کیا، کیامنگ کے کھانے کانئیں، کوئی دیابی تو کھانے کا نئیں۔ آئے بعد میرے کنے کوئی تمہارے نام سے بومبلا تو ایک ایک کے پیٹھ کی چھال نکال دیوں گی! دیکھو رے باپو نئیں تو بولیں کی بولی نئیں تھی۔ واسودیو اسکول کو گیا تو سرو تو گھر چھوڑ کے جاؤں نکو نئیں تو کل کے جیسا ہویں گا۔ ہمارے کسی کے جواب کا انتظار کئے بغیر ماں مسلسل بولتی رہتی، سمجھاتی رہتی اور اتنی دیر میں اس کا توشہ بھی بندھ جاتا۔

    ماں بچی ہوئی دو روٹیو ں کے چار ٹکڑے کرکے رکھتی ہے۔ یہ چار ٹکڑے ہمارے حصے کے ہوتے ہیں یعنی میں، سرو، سیونتی اور چوتھا ٹکڑا باپو کا۔ لیکن اکثر باپو کا حصہ بچ جاتا۔ کیوں کہ وہ گھر آتاہی نہیں اورپھر ہماری خواہش بھی یہی ہوتی کہ باپو گھر نہ آئے۔ دوپہر میں چار بجنے کے بعد ہم وہ چوتھا ٹکڑا بھی چٹ کر جاتے۔ ماں کی خود یہی ہدایت ہوتی ہے کہ باپو نہ آئے تووہ ٹکڑا ہم کھا لیں۔ ماں خوداپنے ہاتھ سے ان چاروں ٹکڑوں پر بیسن ڈال جاتی ہے تاکہ آپس میں جھگڑانہ ہو۔ ایسا اس کا خیال ہوتا ہے۔ جاتے ہوئے وہ پھر کہتی ہے، ’’روٹی ابی کھاؤ نکورے، بارہ بجے کے بعد کھاؤ نئیں تو بھوکاں لگیں گے۔‘‘

    بارہ بجنے کا انتظار ہم نہیں کر سکتے۔ ماں کے باہر نکلتے ہی ہمارے بارہ بج جاتے ہیں۔ سبھی کی خواہش ہوتی ہے کہ کھا ڈالیں۔ ہم خاموشی سے اپنے اپنے حصہ کا وہ ٹکڑا کھا لیتے ہیں۔ کھاتے وقت جھگڑا بھی ہوتا ہے، مارا ماری ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو چٹکیاں بھرتے ہیں۔ میں سرو کے بال کھینچتا ہوں تو وہ مجھے ناخنوں سے بھنوڑتی ہے۔ ایک دوسرے کو کاٹتے بھی ہیں سبھی غصہ میں بھرے ہوئے، اودھم مچاتے رہتے ہیں۔ سیونتی البتہ اس جھگڑے میں شامل نہیں ہوتی۔ ایسانہیں کہ ہماری اور اس کی عمروں میں کافی فرق ہے اس لیے وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ دراصل اسے ہمارا جھگڑنا بالکل پسند نہیں۔ بولتے وقت بالکل ماں کے سے انداز میں بات کرتی ہے۔ ماں ہی کی طرح ہاتھ اٹھا اٹھاکر بولنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن بولنے سے پہلے اسے اپنی دونوں انگلیاں منہ سے باہر نکالنی پڑتی ہیں۔ تتلاکر کہتی ہے، ’’کیا ماں، چھوتے پوتوں، پوتیوں جیسا لرتے!‘‘

    ہم لوگوں کو بھی اس کی اس طرح کی باتیں بالکل پسند نہیں۔ سروکی اور اس کی تو گویا دشمنی ہے۔ ہم دونوں مل کر سیونتی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، ’’جاناا نگل چاٹٹی!‘‘

    وہ پھر منہ سے انگلیاں نکالتی ہے، بھاڑ سا منہ کھولتی ہے اور کہتی ہے، ’’میں ماں تو بولوں دی نا!‘‘

    ’’جا جا، جاکے بو م مار۔۔۔‘‘ سرو بےخوفی سے کہتی ہے۔

    سیونتی بھوں، بھوں کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کربھی نہیں سکتی۔ ہم بھی بے خوف ہو جاتے ہیں اور جیسا دل چاہے دھینگا مشتی کرتے ہیں۔ اس میں اچھا خاصا وقت نکل جاتا ہے۔ ماں نے ہمارے ذمہ کئے ہوئے کاموں کابھی احساس نہیں ہوتا۔ یہ بات البتہ اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ وہ کام، چاہ کسی وقت کیوں نہ ہو ہمیں نمٹانے ہیں۔ ماں کے آنے سے پہلے سب کام ہو گیا بس، کام کے واسطے تو سارا دن پڑا ہے، ایسا ہمیں لگتا ہے۔ اسی لئے ہم بےفکر رہتے ہیں۔ آج بھی میں اسی طرح بےفکر ہوں۔

    اچانک مجھے اسکول کا خیال آتا ہے۔ اگر چھٹی کا دن ہوتب بھی پیٹھ پر تھیلی لادکر میں اسکول کی طرف نکل جاتا ہوں۔ چھٹی کے دن تو اسکول مجھے خاص طور پریاد آتا ہے اور پھر جب جمن ماسٹر کے بیوی کی یاد آتی ہے تو جھپ جھپ میں اسکول کے راستے چلنے لگتا ہوں۔ ماسٹر کا گھر اسکول کے پچھواڑے ہی ہے۔ میں چھٹی کے دن یقینی طور پر ان کے گھر جاتا ہوں۔

    جمن ماسٹر کی بیوی مجھ سے کپ طشتریاں دھلواتی ہے تب بھی میں جاتا ہوں، وہ مجھے روزانہ کے استعمال کا پانی بھرنے کے لیے کہتی ہے پھر بھی میں جاتا ہوں۔ وہ مجھے چارپائلی اور مجھ سے اٹھایا نہ جا سکے اتنا وزنی اناج پسوانے بھیجتی ہے تب بھی میرے پاؤں اسی طرف کھینچتے ہیں۔ ماسٹرنی مجھ سے اپنا جسم دبواتی ہے، سر اور ماتھے پر گائے کا گھی ملواتی ہے تب بھی میں اسے ٹال نہیں پاتا، اسی لئے میں وہاں جاتا ہوں۔

    اس کی وجہ بھی ہے۔ کپ طشتریاں دھونے پر مجھے آدھا کپ چائے ملتی ہے۔ پانی بھرنے کے بعد گیہوں کی ایک چپاتی ملتی ہے اس چپاتی کے ساتھ کبھی گھی تو کبھی شکر اور کبھی کبھار شکر اور کسری پاپا کر ملتا ہے۔ جسم دابنے اور سر میں گھی ملنے کے بعد اکنی ملتی ہے۔ پسواکر لانے سے لڈو، بیسن کی بڑی یا کوئی دوسری چیز میرے ہاتھوں پر رکھ دی جاتی ہے۔ یہی چیزیں مجھے ان کے گھر لے جاتی ہیں۔ تہوار کے دن توان کے گھرکی کشش قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ اس دن وہ مجھے ایک آدمی کا فل کھانا کھلاتی ہے۔ اس میں پورن پولی، ایک وڑا، چاربھجئے، آدھی پیالی کڑی، دوسبزیاں، چٹنیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں میں غپاغپ کھاتا ہوں، تھالی چاٹ پونچھ کر، انگلیاں چاٹ چاٹکر۔ انہی چیزوں کا چسکہ مجھے ان کے گھر لے جاتا ہے۔ لہذا روز ہی جاتا ہوں اس لئے آج بھی ادھر نکلا۔

    وہاں سے واپسی پر مجھے شام ہو جاتی۔ ماں کے خوف سے جلدی جلدی گھر میں داخل ہوتا ہوں۔ اس وقت تک سیونتی زمین ہی پر سوچ کی ہوتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر روز وہ سوچ کی ہو۔ آج البتہ سوئی ہوئی ہے۔ نیند کی حالت میں ابھی انگلیاں اس کے منہ میں ہوتی ہیں۔ پالنے میں پڑی ہوئی شانتی جاگ رہی ہے اور جھولی میں اچھل کود مچا رکھی ہے۔ پھر زور زور سے رونے لگتی ہے۔ بےچین ہوتی ہے۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ ویسے بھی دروازہ اکثر صرف بھیڑا ہوا ہوتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ گھر کے اندھیرے کونے میں واقع ہنڈیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے ان کی تلاشی لی جا چکی ہے۔ یہ اکثر ہوتا ہے۔ نیچے کی ہنڈیاں اوپر اور اوپر کی ہنڈیاں نیچے نظر آ رہی ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ زمین پر ہی اس طرح پھیلی ہوئی ہوتی ہیں جیسے کسی نے ہنڈیوں کی دکان لگا رکھی ہو۔ سارے گھر میں ڈھونڈا ڈھونڈ ہو چکی ہے۔ نمک، مرچ وغیرہ کے لیے رکھی ہوئی خالی کلیاں بدلی ہوئی ہیں۔

    گھر کی ایسی حالت نظر آتے ہی میں سمجھ جاتا ہوں کہ باپو گھر آیا تھا۔ وہی یہ ساری نکال کر پھینک کرتا ہے۔ اکثر تو ہماری آنکھوں کے سامنے یہی وہ یہ سب کرتا ہے۔ گھر سے نکلتے ہوئے البتہ ہمیں دھمکاتے ہوئے کہتاہے۔ ’’اس کومت بولو رے۔‘‘ اور پھر ہمیں ایک ایک آنہ دے جاتا ہے۔

    ہم چاہے ماں سے کچھ نہ کہیں لیکن آتے ہی وہ سب کچھ سمجھ جاتی ہے۔ بڑی جلدی میں وہ کسی ہانڈی میں ہاتھ ڈال کر گھماتی ہے اور پھر سر پر ہاتھ دھرے باپو کے نام سے گالم گلوج کرتی رہتی ہے۔ ایسے موقعوں پر ہمیں بھوکا سونا پڑتا ہے اور ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔ ان دنوں البتہ نکال پھینک ہو بھی تو ہمیں بھوکا سونا نہیں پڑتا پھر ان دنوں یہ وارداتیں بھی نہیں ہوتیں۔

    میں سیونتی کو جگانا چاہتا ہوں تاکہ اس سے پوچھوں، سرو کہاں گئی؟‘‘ مگر سیونتی جاگنے کا نام نہیں لیتی۔ شانتی کی بےچینی اور چیخ پکار مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ میں اسے جھولی سے نکالتا ہوں۔ جھولی کی بوری گیلی نظر آتی ہے۔ سوچتا ہوں شاید یہ بدل دینے سے شانتی پھر سو جائے۔ کم از کم اس کا رونا تو بند ہوگا۔ میں بوری بدلتا ہوں لیکن دوبارہ جھولی بنا نہیں سکتا۔ کوشش کے باوجود بات نہیں بنتی۔ شانتی مسلسل روتی رہتی ہے۔ زمین پر لٹاتا ہوں تو اور زیادہ چلانے لگتی ہے۔ مجھے غصہ آتا ہے اور میں اس پر اپنا غصہ اتارتا ہوں۔ میں اسے چانٹے نہیں مارتا کیوں کہ ان کی آواز ہماری پڑوسن نرمدا کو سنائی دیتی ہے اور وہ ماں سے کہہ دیتی ہے اسی لئے میں شانتی کو چمٹیاں لیتا ہوں۔ وہ اور زور سے رونے لگتی ہے میں اور شدت سے چمٹیاں لیتا ہوں۔

    اسی اثنا میں سرو آ جاتی ہے۔ یقینی طور پر وہ کشن مارواڑی کے گھر سے واپس آ رہی ہے۔ سرو وہاں دن بھر جمی رہتی ہے۔ مارواڑی کے بچے کو لے کر کھیلتی ہے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اسے مارواڑی کے پاس کسی نے برتن دھوتے دیکھا تھا۔ میں نے اس کا ذکر ماں سے کر دیا۔ ماں نے اسے مارمارکے ادھ مرا کر دیا تھا۔ ماں کی پانچوں انگلیاں اس کی پیٹھ پر امڈ گئی تھیں لیکن اس کا اثر بھی کچھ نہیں ہوا۔ چار چھ دن کے بعد سرو پھر سے وہاں جانے لگی۔ جیسے ہی میں اسکول گیا سرو ادھر نکل جاتی۔ میرے واپس آتے ہی وہ بھی آ جاتی۔ کبھی کبھار میرے آنے سے پہلے آ جاتی، آج اسے آنے میں دیر ہو گئی۔

    گھر واپس آنے کے بعد ہم سبھوں کو ایک ہی چیز کی جستجو ہوتی یعنی باپو نے اپنے حصے کاوہ روٹی کا ٹکڑا کھایا کہ نہیں۔ آتے ہی ہم پہلے ا س بات کا اطمینان کر لیتے ہیں کہ روٹی کا وہ پاؤ بھر ٹکڑا ویسا ہی رکھا ہے۔ ٹوکری سے ہم وہ ٹکڑا نکالتے ہیں۔ روٹی پر پڑا ہوا بیسن سیونتی پہلے ہی چٹ کر چکی ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس پاؤ روٹی کے تین برابر ٹکڑے کئے جاتے ہیں۔ تقسیم کرنے کا حق مجھے حاصل ہے اور میں اپنے حق کا ناجائز استعمال کرنے سے کبھی نہیں کتراتا۔ حتی الامکان کوشش اس بات کی کرتا ہوں کہ اپنے حق کا غلط استعمال کر سکوں۔ دو ٹکڑے سرو اور سیونتی میں تقسیم کرتا ہوں۔ گھرمیں مل جائے تو ہم ان ٹکڑوں پر تھوڑا سا تیل یا نمک ڈال لیتے ہیں نہ ملے تو پرواہ نہیں۔ روٹی کے یہ ٹکڑے ہم کبھی برتن میں لے کر نہیں کھاتے۔ ہاتھوں ہی میں لیتے ہیں۔ ایک جگہ بیٹھ کربھی کبھی نہیں کھاتے۔ کوئی پالنے میں تو کوئی بستر پر اور کوئی دروازے میں ہوتا ہے۔ روٹی ہاتھوں سے توڑ کر کبھی نہیں کھائی جاتی دانتوں سے کتر کتر کر کھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ آدھا پون گھنٹہ چلتا ہے۔ ایسا ہی آج بھی ہوا۔

    ان ہنگاموں میں اچھا خاصہ دن گزر جاتا۔ پھر مویشی جنگلوں سے لوٹ کر گاؤں میں داخل ہوتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں۔ گھر گھر سے دھواں جھانکنے لگتا ہے۔ کسی ایک آدھ گھر میں دیا بھی روشن نظر آتا ہے۔ ہم سب سدھ میں آ جاتے ہیں۔ ماں نے جاتے ہوئے ہمارے ذمہ کئے ہوئے کاموں کا خیال آتاہے۔ ہماہمی شروع ہو جاتی ہے۔ ماں کے ڈر سے ایک گھنٹہ میں ختم ہونے والے کام آدھے گھنٹے میں نمٹے جاتے ہیں۔ کام میں ہم ایک دوسرے کی مدد کرنے لگتے ہیں۔ میں پانی نکال کر دیتا ہوں اور سرو وہ پانی ہودے میں لاکر ڈالتی ہے۔ وہ برتن مانجھتی ہے اور میں پانی سے انہیں کھنگالتا ہوں۔ وہ گھر میں جھاڑو کرتی ہے اور میں کوڑا کرکٹ سمیٹتا ہوں۔

    سیونتی بیٹھے بیٹھے شانتی کو جھولا دے رہی ہے۔ شانتی سوئی نہیں شاید اسے بھوک لگی ہے۔ کیونکہ اس کے حصے کا رکھا ہوا دودھ اسی کو ملا ہوا یسا ضروری نہیں۔ کوئی دھیان دینے والا آس پاس نہ ہو تو دودھ خود شانتی ہڑپ کر جاتی ہے۔ ویسے سرو بھی اکثر وہ دودھ پی لیتا ہے اور موقع محل دیکھ کر میں بھی سستی نہیں کرتا، پی جاتا ہوں۔ ہمارے خلاف شانتی شکایت بھی نہیں کر سکتی۔ وہ اس کی اہل بھی نہیں ہے۔ بھوک سے بےچین ہونا ہی اس کے اختیار میں ہے۔ اب بھی شاید کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وہ بہت بے چین ہو رہی ہے، پالنے میں اچھل کود مچا رہی ہے۔

    اکثر عین دیے لگاتے وقت ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ چمنی میں گیس کا تیل ہے ہی نہیں۔ شیشی بھی خالی پڑی ہے۔ اس معاملے میں ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہم چاروں بھائی بہن آنگن میں کمبل بچھاکر بیٹھ جاتے ہیں اگر چاندنی رات ہو تو ہمیں بڑا اطمینان رہتا ہے، نہ ہو تو بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔ کہیں سے ’کھٹ‘ کی آواز بھی آجائے تو چاروں کا پتہ پانی ہونے لگتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ لیکن آج کچھ ایسا نہیں ہوا۔ آج اتفاق سے چمنی میں گیس کا تیل ہے۔ بوجھل بو جھل سی روشنی کمرہ میں منمنانے لگتی ہے۔

    کافی دیر ہو چکی ہے ماں ابھی تک واپس نہیں آئی۔ ہم لوگ اندازے قائم کرنے لگتے ہیں۔ اب وہ کھیت سے نکلی ہوگی، اب اس نے آدھا راستہ پار کیا ہوگا، اب وامن بمن کے گھر تک پہنچ چکی ہوگی، اب کپاس تولی جا رہی ہوگی، اب تولنا ختم ہوا ہوگا، اب گھر کی طرف نکلی ہوگی۔۔۔ مگر ماں نہیں آتی۔ اس کے آنے میں اور ہمارے اندازوں میں کبھی کبھی دو دو گھنٹوں کا فرق پڑ جاتا ہے۔

    ماں کے قدموں کی آہٹ ہم دور ہی سے پہچان لیتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ والی عورت کے ساتھ مردانہ آواز میں بولتے بولتے آتی ہے۔ ان باتوں کا موضوع کبھی تو وامن بمن کا کھوٹا ناپ ہوتا ہے اور کبھی اس کی کنجوسی۔ آج تو موضوع یہ تھا کہ بمن نے تور کی پھلیاں کم دیں۔ بولتے بولتے ماں دروازہ کے پاس رکتی ہے۔ باہر ہی سے اندازہ لگاتی ہے کہ شانتی سور ہی ہے یا جاگ رہی۔ اس لیے ماں اندر آ گئی۔ ورنہ باہر ہی سے باڑہ کی طرف نکل جاتی۔

    وہ گھر میں داخل ہوئی۔ توشہ کے کپڑے سے بنائی ہوئی پوٹلی کھڑے کھڑے نیچے پٹخ دی۔ یہ ا س کا ہمیشہ کا معمول ہے۔ پھر کھڑے کھڑے ہی وہ اپنے پلو میں بندھی پوٹلی کھولتی ہے۔ اس میں باندھی ہوئی تور کی پھلیاں زمین پر انڈیل دیں۔ مجھ سے دوسری پوٹلی کھولنے کے لیے کہا۔ دونوں پھلیاں ایک جگہ کی گئیں۔ ڈھیر کی اونچائی دیکھ کر سرو سے رہا نہیں گیا، وہ زور سے کہنے لگی، ’’ارے باپ، آج تو بھوت پھلیاں لائی ماں!‘‘ اسی وقت ماں نے سرو کو گھورا، نیچے کا ہونٹ اوپر کے دانتوں میں دباتے ہوئے دھیمی آواز میں کہنے گی، ’’چپ رہ ناباپ کی ماں، بوم کروں نکو!‘‘

    ماں ہودہ کے پاس گئی۔ کھڑے کھڑے آدھے پاؤں گیلے کئے، کلی کی اوران ہی گیلے ہاتھوں سے اپنی چھاتیاں صاف کیں۔ چولی کی گاٹھ کھولے بغیر ہی وہ یہ سب کر لیتی ہے۔ اندر آکر شانتی کو پالنے سے نکالا اور پوچھنے لگی، ’’دودھ کب پلائی تھی؟ ان نے پی تھی کی نئیں؟‘‘ اس کی گود میں پہنچتے ہی شانتی بےصبری سے اس کی چھاتیاں ٹٹولنے لگتی ہے۔ چھاتی منہ میں آتے ہی اس کا رونا دھونا بند ہو جاتا ہے۔ دوسری چھاتی ایک ہاتھ سے پکڑے رکھتی ہے۔ سپ سپ دودھ پینے لگتی ہے۔ اسی اثنا میں ماں اپنی ساڑی کا پلو اس پر ترچھا ڈال دیتی ہے۔ یہ بھی اس کا ہمیشہ کا معمول ہے۔

    ماں پھلیوں کے ڈھیر کے پاس بیٹھی ہے۔ سیدھا ہاتھ پھلیاں نیچے اوپر کرنے میں لگا ہواہے۔ ڈھیر میں مونگ کی پھلیاں ہیں، بھنڈیاں ہیں امباڑی کے بونڈ ے ہیں کبھی کبھی پھوٹی مونگ کی پھلیاں بھی مل جاتی ہیں یا ایسا ہی کبھی کبھار ایک آدھ بیر ہاتھ تک لگ جاتا ہے۔ یہ چیزیں ہماری طرف پھینکی جاتی ہیں جس کے ہاتھ پڑے وہ چٹ کر جاتا ہے۔

    اس اثنا میں ماں چپ نہیں ہوتی۔ ہم سے ہمارے دن بھر کی مصروفیت کا حساب مانگتی ہے۔ سیونتی اس وقت ضرور مداخلت کرتی ہے۔ ہمارے جھگڑے کے بارے میں ماں کو بتا دیتی ہے۔ سرور اور میں اپنے اپنے طریقوں سے اپنے اپنے جرم چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماں کی نظریں بچاکر سیونتی کو گھورتے ہیں۔ ویسے بھی ماں سیونتی کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیتی۔ باپو کے بارے میں پوچھتی ہے اور پھر طویل خاموشی کے بعد اچانک اسے کوئی بات یاد آ جاتی ہے۔ پوچھتی ہے، ’’باڑے سے کوئی آیا تھا کیا کرے؟‘‘

    ’’نئیں۔‘‘ اپنی گھر سے غیرحاضری چھپانے کی غرض سے سرو اطلاع دیتی ہے۔

    ’’ہو۔۔۔‘‘ سیونتی فورا منہ سے انگلیاں نکال کر بول پڑتی ہے، ’’کون آیا تھا؟‘‘

    ’’تامیا۔‘‘

    ’’کیا بولا؟‘‘

    ’’آئے بعد بھیج دے بولا۔‘‘

    ماں کچھ سوچنے لگتی ہے اور پھر ہم سے پوچھتی ہے، ’’بھوک لگ ری کیا رے تم کو؟‘‘

    ’’تھوڑی سی!‘‘ میں جھوٹ بولتا ہوں۔

    ’’سرو تجھے؟‘‘

    ’’مجے بی تھوڑی سی چ ہے۔‘‘

    ’’ہنڈی میں اٹا دیکھ بھلاکتا ہے تو۔‘‘

    سرو آٹے کی ہنڈیا اٹھا لاتی ہے۔ ترچھا پکڑکر ماں کو دکھاتی ہے۔ یہی سب تیل، نمک وغیرہ کے معاملے میں دہرایا جاتا ہے پھر اچانک ماں کے چہرہ پر فکر کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ شانتی کو دوسری چھاتی سے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’’سرو تو چولہا جلا۔‘‘ پھر کمر میں اڑے ہوئے چار آنے نکال مجھ سے کہتی ہے‘‘ شنکر کی دکان سے آدھا سیر آٹا، دوپیسے کی مسور کی دال ان ایک پیسے کا تمباکولا۔‘‘

    جب میں یہ سامان لے کر گھر پہنچا، ماں گھرمیں نہ تھی۔ شانتی پالنے میں پڑی تھی اور سیونتی اسے جھونکے دے رہی تھی۔ سرو چولہے کے پاس تھی اور پھلیوں سے بیج نکال رہی تھی۔ چولہا جل رہا تھا۔ اس پر ایک طرف تور کی پھلیاں اور دوسری طر امباڑی کی بھاجی پک رہے تھے۔ میں نے ماں کے بارے میں پوچھا تو سرو کہنے لگی’’باڑے میں گئی۔‘‘

    ماں کے واپس آنے تک ہماری بے چینی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ سیونتی اور شانتی سو چکے ہوتے ہیں۔ سرو خود اونگھنے لگتی ہے۔ میں بھی جمائیاں لیتاہوں۔ اکثر بیٹھے بیٹھے نیچے لڑھک جاتا ہوں۔ گویا ہم سبھی سو جاتے ہیں۔ اکثر دروازہ کھلا ہی چھوڑکر ہم خراٹے بھرنے لگتے ہیں۔ ماں جلدی جلدی گھر میں آتی ہے۔ گھر میں وہ کھجلی بھر اکتا گھسا ہوا ہوتا ہے۔ ویسے وہ کسی چیز کو منہ نہیں لگاتا، ماں پھر بھی غصہ سے آگ بگولہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے نام لے لے کر چلانے لگتی ہے۔ اس کی آواز سے بھی اگر آنکھ نہ کھلے تو گریبان پکڑ کر اٹھاتی ہے اور بٹھا دیتی ہے اور اگر اس پر بھی ہم سدھ میں نہ آئیں تو دھنکنے لگتی ہے۔ لمحہ بھر کے لئے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ سدھ میں آتے ہی ماں کی کرخت آواز کانوں سے ٹکراتی ہے، ’’چل اٹھ! نئیں تو اورایک دیوں گی تھوبڑے پر رکھ رکے!‘‘

    میں پوری طرح جاگ پڑتا ہوں۔ سرو بھی سنبھل کر بیٹھ جاتی ہے۔ ماں عموماً ہمیں چولہے کے پاس بیٹھنے کی ہدایت کرتی ہے۔ چونکہ روٹیاں بننے میں ابھی دیر ہے لہذا ابلی ہوئی پھلیوں کا بھسکٹ ہمارے سامنے ڈال دیا جاتا ہے۔ ماں کہتی ہے، پھلیاں کھاؤ رے جب تک روٹیاں بناتیوں۔‘‘ سیونتی پھر بھی سدھ میں نہیں آتی۔ ماں ہاتھ اٹھاتی ہے اور چلاکر اس سے مخاطب ہے ’’دیوں کیا ایک کان پٹی میں آں! نوبچے نئیں کی سستی گھیرر ی، کاں محنت کرنے گئی تھی کیاریآں؟‘‘

    لیکن ماں سیونتی کو مارتی نہیں۔ سیونتی بھی پوری طرح جاگ جاتی ہے اورہمارے ساتھ پھلیاں کھانے لگتی ہے۔ ہم سبھی ماں کے آس پاس چولہے سے لگے ہوئے ایک لائن میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ماں ٹھنڈے پانی ہی سے جلدی جلدی موٹی موٹی روٹیاں تھاپنے لگتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے مسور کی دال اور روٹیاں تیار ہو جاتی ہیں۔ روٹیاں اگر گرم پانی سے تیار کی جائیں تو دیر لگتی ہے اورماں ہمیں کھانا اس وقت تک نہیں دیتی جب تک کہ سارا کھانا بن نہیں جاتا۔ اب مگر صورت حال الگ ہے۔ ایک روٹی تیار ہوتے ہی اس کے چار ٹکڑے ہوتے ہیں اور ایک ایک ٹکڑا ہمارے سامنے ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر دوسری روٹی تیار ہوتے ہی اس کے چار ٹکڑے لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔ اسی اثنا میں روٹیاں بننا ختم ہو جاتی ہیں۔ پیٹ خالی ہوتے ہیں اور اوپر سے ماں کہتی ہے ’’بیچ بیچ میں پانی پیتے جاؤرے، کھا لی اناج نکو کھاؤ۔‘‘ ہم پانی پیتے ہیں اور پھر روٹی کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسے میں ماں کہتی ہے، ’’ہاتھ دھو لیو اب، بس ہو گیا۔‘‘ باقی کا خالی پیٹ ہم پانی سے بھرتے ہیں۔ پیٹ بھر کھانا ہمیں شاذونادر ہی نصیب ہوتا ہے۔ آج بھی ادھورا کھانا ہوا۔

    ہمارا کھانا ختم ہوتے ہی ماں چولہے پر پانی کا ہنڈا رکھ دیتی ہے۔ اس کا نہانا ختم ہونے تک رات کے گیارہ بج جاتے ہیں۔ پھر وہ کھانا کھاتی ہے۔ لیکن یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ماں واقعی کھانا بھی کھاتی ہے۔ ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کیوں کہ اس وقت تک ہم پھر سے سو چکے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار رات میں آنکھ کھل گئی تو پتہ چلتا ہے کہ ماں کسی نہ کسی کام ہی میں مصروف ہے۔

    رات کے بارہ دو بجتے ہیں۔ باہر سے باپو کے دروازہ پیٹنے کی آواز آتی ہے۔ ماں جاگتی ہوتی ہے لیکن اٹھ کر دروازہ نہیں کھولتی۔ مجھے یا سرو کو اٹھاتی ہے۔ آج مجھے جگایا۔ میں جاگ پڑا۔ ماں نے اشار ہ سے مجھے دروازہ کھولنے کے لئے کہا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور باپو اندر آ گیا۔ آتے ہی اس نے اپنی چلم جلائی۔ ماں نے کچھ بھی نہیں کہا۔

    اس طرح کافی وقت نکل گیا۔ پھر ماں مجھ سے مخاطب ہوکر لیکن باپو کو سنانے کے لئے کہتی ہے، ’’ایک روٹی رکھی ہوئی ہے، وہ کھا لیو بولنا رے پوٹے!‘‘

    میں نے باپو سے یہ بات کہہ دی۔

    ’’بھوک نئیں ہے۔‘‘ باپو کا جواب۔

    ’’بھوک نئیں ہے توکھڈے میں جا بول۔۔۔‘‘ ماں نے چادر منہ پر اوڑھتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں بھی سو گیا۔

    مأخذ:

    Imkan (Pg. 53)

      • ناشر: مہاراشٹرا اردو، اکادمی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے