Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مچھیرا

MORE BYفیصل سعید ضرغام

    میں جب ماں کے پیٹ میں تھا، پانی میں تھا۔

    میرا بچپن اپنے باپ کیساتھ پانی پر گذرا۔

    اور آج، میں اپنی آسودگی بھی پانی ہی میں تلاش کر رہا ہوں۔۔۔۔

    میں اپنا بچپن ماں کی ہڈیوں سے کشید کرتا رہا، یہاں تک کہ اس کے جسم میں موجود ساری ہڈیاں بھربھری ہو گئیں اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ جب میری ماں کے پاس مجھے دینے کے لیے پیار کے سوا کچھ بھی نہ بچا۔ جب میری ہڈیوں نے چلنا سیکھا تو میں نے اپنے باپ کی انگلی تھام لی اور اس وقت تک تھامے رکھی کہ جب تک وہ میری بند مٹھی میں غائب نہ ہو گئی۔۔۔۔۔

    میرا تہہ دار نفس اکہرے پھٹے کا تابع ہو گیا اورمجھے اپنا لباس ایک قید خانہ محسوس ہونے لگا۔ میرے جسم کا ہر پور آتش فشاں کا دہانہ بن کر لاوا اگل رہا تھا۔ میرا توانا جسم دن رات آزادی کے رنگین خواب دیکھا کرتا۔ میرے بدن پر موجود ایک ترتیب میں پروئی ہوئی سوت کی ڈوریں اس منہ زور بغاوت پر ماتم کناں تھیں۔

    میرے کان صرف وہ سنا کرتے جو میں سننا چاہتا۔

    میری آنکھیں وہ دیکھا کرتیں جو میں دیکھنا چاہتا۔

    میں ہر روز اپنی ہوس کو جال میں لپیٹ کر سمندر میں پھینکا کرتا، لیکن جال واپس کھینچنے پر اس کے اندر کوئی جل پری موجود نہ پا کر اور بھی مایوس ہو جاتا۔۔۔ میں یونہی ہر روز اپنی جوانی اور مردہ مچھلیوں سے بھرا ٹوکرا واپس لئے اپنے گھر آ جاتا۔۔۔

    کلارا سے میری پہلی ملاقات ایک کلب میں ہوئی۔

    وہ، وہاں کلب ڈانسر تھی۔

    میں ایک ماہر مچھیرا تھا لیکن بغیر جال کے مچھلیاں پکڑنے کا ہنر صرف کلارا کے پاس تھا۔۔۔ اس کے سنہری بالوں میں بڑے بڑے مگر مچھوں کو حقیر جوؤں کی طرح رینگتے اور بےبس تڑپتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔

    ’’کلارا کی ضرورت میرے بٹوے میں تھی اور میری دوسری بنیادی ضرورت اس کے چست اور بھڑکیلے لباس کے اندر قید تھی۔۔۔‘‘

    اس کے ہونٹوں پر لگا گہرا سرخ رنگ مجھے اپنی جانب کھیچنے لگا۔۔۔ میں اس کے نچلے ہونٹ میں چھپا زنگ آلود کانٹا نہ دیکھ سکا اور میرا بالائی ہونٹ اس کانٹے میں پھنس گیا۔ میں کسی مچھلی کی طرح تڑپتا رہا اور کلارا اپنی رنگین اداؤں سے میری جوانی چراتی رہی۔

    آج جب میں خود کو ٹٹولا کرتا ہو تو مٹی کے صندوق میں چند باقی رہ جانے والی سانسوں، کمزور پٹھوں اور نحیف ہڈیوں کے سوا کچھ اور موجود نہیں۔ میری ایک اور ضرورت بوڑھی ہوچکی ہے میں اپنے ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں اسکا جنازہ لئے پھرتا ہوں۔۔۔

    سنا ہے کلارا کی جگہ کوئی اور کلب ڈانسر آ چکی ہے۔

    یہ بھی سنا ہے کہ وہ کلارا سے زیادہ خوبصورت ہے اور جوان بھی۔۔۔

    میں اپنی بالکنی میں بیٹھا ہوں، میرے سامنے ٹیبل پر شراب کی خالی بوتل اور گلاس میں آدھا پیگ بچا ہوا رکھا ہے۔

    میری بیوی جولیا ہمارے نوزائیدہ بچے کو چھاتی سے لگائے اپنا دودھ پلا رہی ہے اور وہ ماں کی گود میں لیٹا ایسے ہاتھ پاؤں چلا رہا کہ جیسے کوئی ماہر مچھیرا سمندر میں تیر رہا ہو۔ میں نے ایک ہی سانس میں بچا ہوا پیگ حلق سے نیچے اتارا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اندر کمرے میں پہنچ کر اپنے بیٹے کا ماتھا چوما اورٹیلی فون پر بیوپاری سے نائلون کے نئے، مظبوط اور بڑے جال خریدنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔۔۔

    میں البرٹ ہومر۔۔۔!

    آج جب اپنا جال سمندر میں پھینکتا ہوں، تو اسے واپس کھینچتے ہوئے میری نظر ان تڑپتی ہوئی مچھلیوں پر ہوتی ہے جو ایک ایک کرکے مر جاتیں ہیں۔

    آخرش میری انگلی بھی اپنے بیٹے کی مٹھی میں غائب ہوجائے گی۔ پھر میرا جسم ہر طلب سے بےنیاز ہوگا ۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے