Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مدیون کا نسیان

محمد امین الدین

مدیون کا نسیان

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    مدیون سیڑھیاں چڑھتے ہوے اچانک رک گیا۔ گردن جھکا کر دیکھا، ایڑیوں کے پیچھے اور پنجے کے آگے قدمچے گہری کھائی میں اترتے اور آسمان میں گم ہوتے ہوے محسوس ہورہے تھے۔ مگر دوسرے ہی لمحے کھائی میں اترنے اور آسمان میں گم ہونے کا خوفناک احساس جاتا رہا۔ سیڑھیاں بس اتنی ہی تھیں جنہیں شمار کیا جاسکتا ہو یا جن پر آسانی سے چڑھا جاسکتا ہو۔ مگر مدیون زندگی کی سیڑھیوں پر روانی سے چڑھ بھی کہاں رہا تھا۔ وہ تو اپنے چچا اور مثال کی ابا کے مطابق سیڑھیاں پھلانگ رہا تھا اور پھلانگنے والے اوپر جانے کے جوکھم بھرے تجربے کو نہیں جانتے، اسی لیے وہ قدم بہ قدم آگے بڑھنے اور گزری منزلوں کے شمار سے بھی آگاہ نہیں ہوتے۔

    مگر شمار کیسے کرتے ہیں؟

    وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اسے یاد نہیں تھا کہ کتنی منزلیں چڑھ چکا ہے اور مزید کتنا اوپر جانا ہے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی نمبر، کوئی نشانی، ہندسہ یا علامت، کچھ نہیں تھا۔ دیواریں ذہن کی طرح سپاٹ تھیں۔ اس کے ذہن سے یکایک وہ ہندسہ مٹ گیا تھا جو روز مطلوبہ منزل پر پہنچایا کرتا تھا۔

    ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟

    اس نے سوچا ، میں روز زینہ اترتا چڑھتا ہوں ۔ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگنے کے باوجود ایک معمول کی طرح اپنی منزل پر دائیں سمت مڑ جاتا ہوں۔ شاید چوتھی۔۔۔ نہیں تیسری۔۔۔ ہاں یاد آیا۔ وہ تیسری منزل ہوتی ہے۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔ اسے اپنا مطلوبہ نمبر یاد آگیا تھا۔ حیرت سیڑھیوں کا اسپرنگ نما جالا بن کر اس کے پیروں سے لپٹی ہوئی تھی۔ لمحہ بھر کو اس نے سوچا۔ اگر مجھے نمبر یاد نہیں آتا تو؟

    وہ لرز کر رہ گیا۔ اس کی زندگی میں ہندسے چاروں طرف پھیلے ہوے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے اردگرد رہنے والے ہر فرد کی زندگی میں ہندسوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ وہ سب ہندسوں کے بغیر نامکمل ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہی ہندسوں کے ساتھ جینا شروع کردیتے ہیں۔ پہلی بار حسابِ ماہ و سن کی صورت، جب یہ ہندسے کسی فرد کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، تو ہمیشہ کے لیے اس کے وجود سے چپک کر رہ جاتے ہیں۔ مگر کارِ بے ثمر کے باوجود وہ سب مطمئن ہیں، میں کیوں نہیں؟ اس سوال نے اسے ایک بار پھر الجھادیا۔ وہ دو قدم نیچے اترا اور فوراً پیروں سے لپٹی الجھن کو جھٹکتے ہوے چار قدم اوپر چڑھ گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ البتہ بے قراری میں اسے یہ ضرور یاد آگیا کہ مطلوبہ زینے کے سامنے ایک فلیٹ کے دروازے پر آیت الکرسی کا اسٹیکر چپکا ہوا ہے۔ وہ سمجھ گیا کہ فلور نمبر سے زیادہ اس کے حافظے میں اسٹیکر بسا رہتا ہے۔ جب سیڑھیاں پھلانگتے ہوے پنڈولم کی طرح رقصاں نظروں میں جوں ہی اسٹیکر مرکز بنتا ہے، تو قدم بے ساختہ اگلی سیڑھی کے بجائے کوریڈور کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔

    اب بھی اس نے یہی کیا۔ کوریڈور سے گزر کر وہ فلیٹ کے دروازے پر پہنچا تو بی تین سو پندرہ پڑھ کر لمحہ بھر کو ٹھٹکا۔ مگر یاد کی کھڑکی بلا توقف کھل گئی۔ وہ اپنے فلیٹ کے دروازے پر ہی تھا۔ دروازہ کھلنے پر وہ اندر چلا گیا۔ ہر شے قرینے سے اپنی اپنی جگہ موجود ہونے کے باوجود اسے فلیٹ اجنبی اجنبی لگا۔ خوش گوار رقصاں زندگی سفری بیگ کی صورت دیوار سے لگی اداس پڑی تھی۔

    اس نے دواؤں کا لفافہ شیشے کے ٹاپ والی ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دیا، جو چند روز پہلے ہی خریدی گئی تھی۔ کاش چند روز اور صبر کرلیتا۔ یہ سوچ کر اس نے خود کو گالی دی۔ بے دلی سے کمروں میں جھانکا۔ سامان پر نگاہ پڑتے ہی مایوسی بھری کڑواہٹ منہ میں بھر گئی۔ کچھ چیزوں کے علاوہ ہر چیز نئی تھی۔ اماں ابا کی تصویر والا فریم ،پیتل کا لمبا منقش گلدان، مثال کے اپنے ہاتھوں سے کاڑھے ہوے اللہ محمد والے طغرے، ہالا کی رنگین جھالروں والی چٹائیاں اور اس گھر میں بسے ہوے تین نفوس، مثال ، اماں اور وہ خود۔ باقی سب نیا تھا۔ چیزوں کو خریدنے میں مثال اور اس نے کتنی جلدی کی تھی، یہ احساس اسے شدت سے ہورہا تھا۔ ڈرائنگ روم کا لگژری چائنا میڈ قیمتی صوفہ ڈیلٹن سے چار ماہ پہلے خریدا۔ اٹالین بیڈ روم سیٹ نرسری مارکیٹ سے تین ماہ پہلے خریدا۔ فلیٹ اسکرین ٹی وی دو ماہ پہلے، جس کے بڑے اسکرین پر کعبتہ اللہ کے براہ راست مناظر دیکھ کر اماں بہت خوش ہوا کرتیں، اور اکثر بہو سے کہتیں کہ مبا شرٹی وی لگادو۔ وہ ہنس کر کہتی کہ اماں وہ مباشر نہیں ہے۔ مباشر کا مطلب لائیورٹیلی کاسٹ ہوتا ہے۔ یہ باتیں سن کر وہ بھی ہنس دیا کرتا تھا، مگر اس وقت یہ سوچتے ہوے اسے ذرا ہنسی نہیں آئی۔ وہ حیران تھا کہ کچھ دن پہلے تک وہ پیسے کس قدر بے دردی سے خرچ کررہا تھا۔ مگر اسے کیا معلوم کہ وہ جس کشتی میں سوار ہے، اس کے پیندے میں بڑے بڑے سوراخ ہیں، جنہیں پیوند کاری کے خوش نما عارضی سہاروں نے ڈھانک رکھا ہے۔ چند برسوں سے یہ خوش نمائی چیزوں سے لے کر انسانوں تک میں بہت تیزی سے در آئی تھی۔ وہ بھی ان لوگوں کی قطار میں شامل ہوگیا تھا، جو ہر چار پانچ ماہ بعد موبائل سیٹ تبدیل کرلیتے ہیں، اور کچھ دن پہلے تک ان میں شامل ہونے کی تگ دو میں تھا ،جو ہر سال گاڑی کا ماڈل بدل لیتے ہیں۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ کشتی کے لمبے چوڑے پاٹوں کے درمیان کئی مضبوط شہتیروں کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ اور ہنر مندی ،تعلیم، تربیت، تجربے اور پیشہ ورانہ صلاحیت کا انسانی زندگی میں کتنا بڑا کردار ہوتا ہے۔ وہ تو ان تمام مضبوط سہاروں کے بغیر سمندر میں کشتی اتار بیٹھا تھا۔ اور اب اس کی حالت ایسی تھی کہ وہ ہاتھ پاؤں بھی نہیں مارسکتا تھا۔ وہ خالی خالی نظروں سے کمروں میں پھرتا ہوا واپس لاؤنج میں آیا تو اماں پر نگاہ پڑی۔ اس نے دواؤں کی تھیلی اماں کو دی ،جو انہوں نے اپنے بیگ میں رکھ لی۔ مثال کا اپنے چہرے کی طرح پھولا ہوا سفری بیگ وہیں دیوار کے پاس واپسی کے سفر کے لیے رکھا ہوا تھا۔ اور وہ خود کچن میں کھڑی اس کے لیے کچھ بنارہی تھی۔

    صبح اٹھ کر وہ سب سے پہلے پراپرٹی ڈیلر کے پاس گیا تھا۔ مگر وہ اس کا مدعا سن کر حیران ہوا اور بولا۔

    ’’صاحب! یہ وقت چیز لے کر ڈالنے کا ہے، نہ کہ بیچنے کا۔ اس وقت تو مارکیٹ بہت نیچے آگئی ہے۔ سمجھو جتنے میں لیا تھا، اس سے آدھے میں جائے گا‘‘۔

    اس نے حیرت سے کہا۔ ’’مگر ابھی چھ سات مہینے پہلے ہی تو یہ فلیٹ میں نے آپ کے ذریعے خریدا تھا‘‘۔

    ’’صاحب! چھ مہینے ہی میں تو کایا پلٹ گئی ہے۔ آ پ چھ مہینے پہلے کہتے تو میں لاکھ دو لاکھ اوپر دلوادیتا، مگر اب تو کاروبار کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ہے۔ اسٹاک کتنا نیچے۔۔۔‘‘

    ’’اسٹاک کا تم نام ہی مت لو‘‘۔ اس نے فوراً چڑ کر کہا۔ ڈیلر خاموش ہوگیا۔ وہ کیسے بتاتا کہ اس کی بربادی کا ذمہ دار۔۔۔ اف ۔۔۔ لیکن اگر اسے بتاؤں تو ہو سکتا ہے کہ وہ الٹا جواب دے کہ جناب سال دو سال پہلے آپ خود کیا تھے؟ یہ اسٹاک ہی تھا جب پانچ ہزار کی نوکری ملنا مشکل تھی تو آپ کو پچیس ہزار کی نوکری اور کمیشن پر کاروبار کی سہولت ملی۔

    جب وہ اٹھنے لگا تو ایجنٹ بولا۔

    ’’اپنا نمبر لکھوادیں ۔ جوں ہی کوئی اچھی پارٹی آئی تو ضرور بتاؤں گا‘‘۔

    اس نے کہا۔ ’’لکھئے۔ زیرو۔۔۔ تھری۔۔۔ فور۔۔۔‘‘

    ہندسے ایک بار پھر اس کے ذہن سے نکل گئے۔ ’’زیرو، تھری فور، فائیو۔۔۔‘‘

    اس نے ذہن پر زور دیا ،مگر نمبر یاد نہیں آیا۔

    ’’کیا ہوا؟‘ ‘ایجنٹ بولا۔ ’’کوئی بات نہیں کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔ آپ اپنے سیل سے میرا نمبر ملائیں۔ ابھی مسئلہ حل ہوجائے گا‘‘۔

    اس نے جیب سے فون نکالا۔ وہ نمبر بولتا گیا اور یہ ہندسے دباتا گیا۔ یکایک اسے اپنے ہندسوں کی ترتیب یاد آگئی۔ ایجنٹ سمجھ گیا مگر نظر انداز کرتے ہوے بولا۔ ’’کوئی مسئلہ نہیں، آپ مجھے ایک مس بیل دے دیں‘‘۔

    اس نے یہی کیا، مگر ایجنسی سے اترتے ہوے اسے بار بار یہ خیال آرہا تھاکہ وہ اپنا ذاتی نمبر کیسے بھول سکتا ہے؟ صبح سے اس کے ساتھ یہ دوسری بار ہوا تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ وہ ہندسے بھول جائے۔ گذشتہ کئی سال سے وہ جو کام کررہا تھا وہ ہندسوں کے سہارے ہی چلتا تھا۔ لوگوں کے اکاؤنٹ نمبر، کوڈ، ادائیگیاں، جس میں صفر کی تعداد کبھی کبھی دور تک جاتی تھی اور پھر سارا سارا دن ریٹس کا اتار چڑھاؤ ، کمپنی کے رجسٹریشن نمبر ، ان کی پچھلی ٹریڈنگ اور کس پارٹی نے کتنا انویسٹ کیا ہوا ہے، یہ سب ہندسوں ہی کا کھیل ہے۔ اس میں ذرا سی غلطی منافع کو گھاٹے اور سکون کو بربادی میں بدل سکتی ہے۔ مگر جب سے وہ اس شعبے میں آیا تھا، اس نے ہمیشہ عمدگی سے یاد رکھا اور بہت مہارت اور ہوشیاری سے اپنا کام انجام بھی دیا۔

    مگر اب اچانک کیا ہورہاہے ؟

    وہ یہ سوچ کر پریشان تھا۔ اسی پریشانی میں بینک جانا بھی یادنہ رہا، جہاں کئی بار جانے کے باوجود لون کے معاملات دیکھنے والے افسر سے ملاقات نہیں ہوپارہی تھی۔ جب مثال نے بینک کے بارے میں پوچھا تو وہ چونکا اور ماتھے پر ہاتھ مارتا ہوا دوبارہ باہر کی طرف لپکا۔

    بینک افسر کے سامنے جب اپنا مدعا بیان کیا تو اس نے اکاؤنٹ نمبر اور کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کا نمبر پوچھا۔ جو اس نے بہت اعتماد کے ساتھ بتایا۔ افسر نے نمبر اپنے کمپیوٹر میں فیڈ کیے، پھر ایک نظر اسے دیکھا اور بولا۔

    ’’دوبارہ بتائیے؟‘‘

    وہ یکایک گڑبڑاگیا۔ ہندسوں کی ترتیب نے اسے ایک بار پھر مشکل میں ڈال دیا تھا۔ بینک افسر نے بھی وہی کہا۔

    ’’کوئی بات نہیں۔ ایسا کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔ آپ اپنا مسئلہ بتائیے؟‘‘

    وہ دھیرے دھیرے اپنا مسئلہ بتانے لگا۔

    سال بھر پہلے مثال کی خواہش تھی کہ فلیٹ گلستان جوہر میں لیا جائے۔ اس نے بہت سمجھایا کہ ہر مہینے کم از کم اماں کو تو ضرور میر پور جانا پڑے گا۔ لہذا سپر ہائی وے کے آس پاس کسی اپارٹمنٹ میں فلیٹ خرید لیتے ہیں۔ گلستان جوہر سے سستا بھی پڑے گا۔ مگر وہ نہ مانی اور ترنگ سے بولی۔

    ’’بھلے سے دو چار لاکھ زیادہ کا لینا پڑے، لیکن لوں گی وہیں۔ کسی کو بتاؤ تو ذرا رعب پڑتا ہے‘‘۔

    جب پراپرٹی ڈیلروں کی خاک چھانی تو پتا چلا کہ اس نے اسٹاک میں رہ کو جو کچھ کمایا اس رقم میں فلیٹ نہیں خریدا جاسکتا۔ اس دوران مثال نے میر پور میں ہر رشتے دار اور جاننے والے کو بڑے فخر سے بتادیا کہ ہم گلستان جوہر میں فلیٹ لے رہے ہیں، اور اب وہیں چلے جائیں گے۔ ایک دن اس نے مثال کو سمجھایا تو اس نے ٹی وی پر ایک کمرشل دکھاتے ہوے اخبار کا ایک تراشا بھی اس کے سامنے رکھ دیا۔ ہنستے مسکراتے میاں بیوی کا پرکشش اشتہار جس میں پلک جھپکتے لون منظور ہوتے ہوے دکھایا جاتا ہے، اور جس میں قسطوں کا شیڈول اپنی سہولت سے مرتب کرنے کی ناقابلِ یقین پیش کش کی جاتی ہے۔

    کچھ ہی دنوں میں وہ آس پاس کے لوگوں اور اپنے میر پور کے جاننے والوں پر حقیقتاً رعب جماچکے تھے۔ اس رعب دار خوشی کی پھوار کا نصف پانی بینک سے لیے ہوے پرسنل لون نے فراہم کیا تھا، جو انہیں اشتہار کی طرح واقعی بہت آسانی سے حاصل ہوگیا تھا۔

    فلیٹ میں منتقل ہوتے ہی مثال پر اسے سجانے کی دھن سوار ہوگئی۔ وہ ہر ماہ کی بچت سے عمدہ اور نفیس چیزوں سے فلیٹ کے خالی کمروں کو ہوس کی ہانڈی کی طرح بھرنے لگی۔ ابھی فلیٹ کے کئی کونوں اور بہت سی دیواروں پر مثال کی خواہشوں کا عکس ابھرنا باقی تھا کہ تیز رفتار دوڑتی ہوئی زندگی کی کشتی کے پیندے میں خوش نما عارضی سہاروں کی پیوند کاری نے اکھڑنا شروع کردیا۔

    ان ہی دنوں اسٹاک نے کئی بار نیچے کی سمت یوں چھلانگ لگائی جیسے کوئی ماہر کرتب باز جمپر پیروں میں ربر کی رسی باندھ کر کسی بلند عمارت یا پہاڑ کی چوٹی سے اعتماد کے ساتھ چھلانگ لگاتا ہے کہ پیروں میں بندھی ہوئی رسی کی لچک اسے نہ صرف گرنے سے بچالے جاتی ہے بلکہ اوپر کی طرف اچھال بھی دیتی ہے۔ مگر کوئی خوش رنگ رسی ٹوٹ بھی سکتی ہے، اور کوئی اندھا بھروسہ دھوکہ بھی دے سکتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ بہت سارے چھوٹے کھاتے داروں کے ساتھ ساتھ اس کی کمر بھی ٹوٹ گئی۔ لوگ لٹ پٹ کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ کمیشن بند ہوگیا۔ کئی دنوں تک کمپیوٹر اسکرین پر بجھے ہوے ہندسوں کے تسلسل کے بعد بروکر سیٹھ نے کمپنی کا آدھا اسٹاف یکایک کم کردیا۔ قلیٹ کے قرض کی چوتھی قسط جمع کرانے والے روز وہ بے روزگار تھا۔

    اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ میر پور لوٹ جائے، جہاں اس کے چچا اور مثال کے ابا کی پرچون کی دکان میں سامان تولنے والے کی ضرورت ہمیشہ ہی رہتی ہے، یا فلیٹ فروخت کردے۔ فلیٹ فروخت کرتا ہے تو اس سے بینک لون بھی ادا نہیں ہوپائے گا اور ذاتی رقم تو سرے سے ڈوب ہی جائے گی۔ یعنی وہ ایک بار پھر فٹ پاتھ پر بے روزگار کھڑا ہوگا۔ اس بار پہلے کی طرح تنہا نہیں، بلکہ اماں اور مثال بھی کراچی کی تیز رفتار اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی چمک دار زندگی کا شکار ہوں گی۔ اس خیال سے ہی اسے کپکپی طاری ہوگئی۔ خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے فوراً اماں اور مثال کو واپس میر پور بھیجنے کا فیصلہ کیا، اور ابھی کچھ دیر پہلے وہ انہیں میر پور جانے والی بس میں سوار کر آیا تھا۔

    مثال کو بس اڈے پر چھوڑنے سے پہلے وہ اسے بتاچکا تھا کہ بینک افسر نے قسطیں نہ جمع کرانے کی صورت میں فلیٹ ضبط کرلیے جانے کا اشارہ دیا ہے۔ یہ سن کر وہ تھوڑا سا پریشان ہوئی تھی۔ ان دونوں کو چند ماہ پہلے مثال کے ابا کی کہی ہوئی بات یاد آگئی کہ میاں صاحبزادے! کمرشل بینکوں کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ زندگی میں ترقی کا زینہ ایک ایک قدم چڑھتے ہوے طے کرو۔ اپنی محنت، دشواری، اور جوکھم کا لطف اٹھاؤ، اپنی تھکن کا ذائقہ چکھو۔ سیڑھیاں پھلانگ کر تم جلدی اوپر تو پہنچ جاؤ گے، مگر جو جنگ تم نے لڑی ہی نہیں، اس کے جیتنے کی خوشی تمہیں کیا سرشاری دے گی؟

    اس کے چچا نے اسے اچھی نصیحت کی تھی، مگر جب بیٹی خود بولے کہ ابا تو پاگل ہیں۔ ساری زندگی اس چھوٹے سے شہر میں ضائع کردی، تو بھلا بھتیجے کو ایسا سمجھنے میں کیا قباحت تھی۔

    الآصف اسکوائر پر اماں اور مثال کو بس میں سوار کراتے ہوے اس نے سوچا کہ مثال سے کہے کہ کاش تم نے اپنے ابا کا مشورہ گرہ میں باندھ لیا ہوتا۔ مگر وہ تو بس میں بیٹھتے ہوے اب بھی یہی کہے جارہی تھی کہ جمہوری حکومت آگئی، دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اپنے علاقے کے ایم پی اے سے بات کریں گے، وہ لون معاف کروادے گا۔ اتنے بڑے بڑے قرضے معاف ہوجاتے ہیں ہمارا تو بہت ہی معمولی سا قرضہ ہے۔

    وہ بیوی کی خوش گمانیوں کے ساتھ اپارٹمنٹ لوٹ آیا۔ مگر زینہ چڑھتے ہوے آیت الکرسی کا اسٹیکر اسے ایک بار پھر نظر نہیں آیا، اور وہ بے دھیانی میں آخری منزل کی چھت تک چڑھتا چلا گیا، جہاں سے دو ماہ پہلے ایک نوجوان نے پیروں میں لچک دار ربر کی رسی باندھے بغیر چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی تھی، اور جو پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ساٹھویں بے روزگار کی موت تھی۔ وہ بھی چلتا ہوا منڈیر تک آگیا، مگر پھر اچانک سوچ میں در آئی بے دھیانیوں کے جالے میں الجھ کر رہ گیا۔ اس نے چاروں طرف تجسّس بھری نظروں سے دیکھا۔

    اسے چھت پر چلے آنے کی وجہ یاد نہیں تھی۔

    (۲۰۰۹ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے