aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خدا کا بھیجا ہوا پرندا

صدیق عالم

خدا کا بھیجا ہوا پرندا

صدیق عالم

MORE BYصدیق عالم

    کہانی کی کہانی

    یہ حقائق اور خیالی تصورات پر مبنی بنی نوع انسان کی اصل دنیا سے متعارف کراتی کہانی ہے۔ انگریز ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی مشرقی پاکستان کا رخ کر چکی تھی۔ بستی میں چند ہی مسلمان رہ گئے تھے جو اب تک راوی کے دادا کی دو منزلہ عمارت سے آس لگائے بیٹھے تھے اور جب بھی شہر میں فساد کا بازار گرم ہوتا پناہ لینے کے لئے آ جاتے۔ اس کے دادا کو اس بات کا دکھ تھا کہ آئے دن انھیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام کا سامنا کرنے کے لئے تھانہ جانا پڑتا۔ پھر ایک دن فسادیوں نے انھیں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر مار ڈالا۔ اس کے دادا کے گھر میں کئی کرایہ دار رہتے تھے جن میں ایک کرایہ دار بدھ رام تھا جو دادا کے ساتھ لمبے عرصے تک ریلوے میں نوکری کر چکا تھا۔ اس کی ساری زندگی کا اثاثہ ایک ٹرنک کے اندر بند تھا جس پر بیٹھے بیٹھے وہ کھڑکی سے باہر آسمان پر نظریں ٹکائے رہنے کا عادی تھا۔ ان ہی تنہائی کے دنوں میں ایک دن اس نے ایک طوطے کی کہانی سنائی جس کے جسم پر اللہ کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ طوطا ایک ادھیڑ عمر کی عورت اس کے پاس بیچنے آئی تھی، جسے دیکھتے ہی بدھ رام نے محسوس کیا کہ اب یہاں برا وقت آنے والا ہے۔

    یہ پرانا اسٹیشن جس کی محرابوں سے آج بھی چمگادڑیں لٹکتی ہیں، میں نے ہمیشہ اس کے باہر سن رسیدہ بدھ رام کو اپنا انتظار کرتے پایا ہے۔ مگر اس سے پہلے میں آپ کو اس شہر میں آنے کا مقصد بتا دوں۔

    پچیس برس پہلے میرے دادا جان اس اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر فسادیوں کے ذریعے مار ڈالے گئے۔ یہ میری پیدائش سے قبل کا واقعہ تھا، مگر ہوش سنبھالتے ہی ایک دن میرے ہاتھ میں دادا جان کی جیبی گھڑی آ گئی اور ساتھ ہی ان کی ذاتی نوٹ بک بھی جو الماری میں مذہبی کتابوں کی بھیڑ میں دفن تھی۔ یہ نوٹ بک انھیں خاصی عزیز رہی ہوگی کیونکہ انھوں نے گھڑیال کے جس چمڑے سے اس کی جلد کروائی تھی وہ چمڑا اپنے سفر کے دوران انھیں کن حالات میں حاصل ہوا تھا اس کا ذکر اس نوٹ بک میں خاص طور پر درج تھا۔ دوسری طرف یہ گھڑی ان کی جیب سے برآمد ہوئی تھی جب ان کا جلا ہوا جسم پلیٹ فارم سے اٹھایا گیا۔ دراصل ان کے جھلسے ہوئے جسم کے سبب ان کی پہچان ممکن نہ ہوتی اگر ان کی شناخت اسی گھڑی کے ذریعے نہ کی گئی ہوتی جو ان دنوں ٹرین کے کنڈکٹر اپنے بٹن کے سوراخ سے لٹکائے رکھتے ،یہ اور بات تھی کہ میرے دادا ٹرین میں ڈرائیور تھے۔اس جیبی گھڑی کی زنجیرسلامت تھی جس کے ایک سرے سے اس کی پیتل کی منحنی چابی لگی ہوئی تھی۔ اس کا شیشہ پگھل کر ڈائل کے ساتھ چپک گیا تھا جس میں اب رومن کا صرف سات کا ہندسہ بچا تھا جس سے جانے کیوں میں نے یہ نتیجہ نکال لیا تھاکہ یہ واقعہ دن یا رات کے سات بجے پیش آیا ہوگا، جب کہ یہ صحیح مفروضہ نہیں کہا جا سکتا تھا ۔گھڑی کا ڈھکن کھولنے پر جو اب صرف ایک کیل کے ذریعے گھڑی کے کیس کے ساتھ منسلک تھا مجھے ادھڑے ہوئے ڈائل کے پیچھے پہیوں اور اسپرنگ کی ایک دنیا نظر آئی۔ اندر کی زیادہ تر پلیٹیں سلامت تھیں جن میں سب سے بڑی پلیٹ پر’’سوئزرلینڈ میں بنا‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اس وقت جب کہ میں کافی کمسن تھا اور ایک دوسرے شہر میں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہا تھا جو میرا پیدائشی شہر بھی تھا، اسے اپنی مٹھی میں دبا کر مجھے ایسا لگا تھا جیسے یہ اب بھی گرم ہو گرچہ مجھے معلوم تھا یہ احساس سراسر نفسیاتی تھا۔آج میں آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں تو میرے دادا جان، جن کی کوئی تصویر ہمارے گھر میں موجود نہیں، ان کے خط و خال میرے سامنے بالکل واضح اور صاف ہوتے جاتے ہیں جیسے یہ حال کا واقعہ ہو اور میں ان کی گود میں بیٹھا ہوا یہ شہر دیکھ رہا ہوں۔

    دادا جان جنھیں کتوں اور کمسن لڑکیوں سے پیار تھا، نماز کے لئے ان کا احترام لوگوں کی سمجھ سے باہر تھا گرچہ یہ انھیں آئے دن شراب نوشی کے اڈے کی طرف جانے سے نہیں روکتی تھی۔ انھوں نے اپنی پہلی شادی میں اس بات کو یقین بنانا چاہا کہ ان کی شریک حیات ان کے لئے کنواری ثابت ہو۔ اس رات انھوں نے اپنی دقیانوسی نوٹ بک میں لکھا، اگر میرے ساتھ دھوکہ نہیں کیا گیا ہے تو میرے ہونے والے بچے کا باپ اس کرۂ ارض پر کہیں بھٹک رہا ہوگا۔

    سڑک پر کیروسین لیمپ کے رنگین شیشوں سے چھن چھن کر روشنی آ رہی تھی جس میں چلتے ہوئے وہ یہی سوچ رہے تھے کہ انھوں نے محسوس کیا کہ اب رات اور زیادہ گہری ہونے والی نہیں اور آخری دکانیں بس اپنے جھانپے گرانے ہی والی ہیں۔ تو انھوں نے ایک مٹھائی کی دکان کے سامنے رک کر اپنی کمسن بیوی کے لئے پیڑے خریدے، کیونکہ وہ حمل سے تھی اور ہمیشہ بھوکی نظر آتی تھی۔

    ’اسے دو آدمی کا کھانا چاہئے۔‘ اس نے بنگالی دکاندار کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ دکاندار ادھیڑ عمر کا تھا اور اپنی کافی بڑی توند پر ایک چرکٹ بنیان چڑھائے مٹھائی کے شوکیس کے پیچھے کھڑا کسی گاہک کی امید میں ایک بوڑھے انسان کے لئے بالکل بھی تیار نہ تھا۔ یوں بھی یہ اس کی رکھیل کا وقت تھا اور ڈھال میں اتر کر اسے کھیت کے کنارے دیسی شراب کے ٹھیکے پر ایک پاؤ لینا لازمی تھا۔

    ’آپ ان لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھر سکتے۔‘ دکاندار ٹینڈر کے کھردرے کاغذ کے ٹھونگے کے اندر پیڑے رکھتے ہوئے دادا کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ چھپر کے کنڈے سے لٹکتی لالٹین کی مدھم لو میں اس کا سیاہ جسم کافی لحیم شحیم نظر آ رہا تھا۔ ’اگر انھیں بچہ دینا ہو تو آپ کبھی روک نہیں پائینگے۔‘

    ’عورتوں کے سلسلے میں تمہارا رویہ صحتمند نہیں۔‘ دادانے شو کیس کے شیشے پر پیسہ گنتے ہوئے کہا۔ شو کیس کے اندر جلتی موم بتی کی حرارت کے سبب سیشہ پر سبز پتنگے پڑے پڑے تپ رہے تھے۔ انھیں حلوائی کی بات سے تکلیف پہنچی تھی۔ ’تم شادی شدہ نہیں ہو سکتے،‘ وہ بڑبڑائے۔

    ’جب کہ میرے چھہ بچے ہیں۔‘

    جس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا، داداریلوے کی پٹریوں کو احتیاط سے پھلانگتے ہوئے سوچ رہے تھے کیونکہ ٹیوب لائٹس اونچے کھمبوں پر نصب ہونے کے سبب پٹریاں دھندلی لکیروں میں بدل گئی تھیں۔ ریلوے کے گدام کی چہار دیواری کے ساتھ بگلوں کی بیٹ سے سفید فلک بوس درختوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا جو چاندنی راتوں میں کافی پراسرار اور آس پاس کی چیزوں کے مقابلے زیادہ تاریک نظر آتے۔ راستے میں کہیں کہیں اینٹ کی کوئی دیوار نمودار ہو جاتی جس کے وہاں ہونے کے جواز کا پتہ لگانا مشکل تھا سوائے اس کے کہ اس جگہ سے نجاست کی وہ خاص بو آیا کرتی جس کا تعلق صرف ریلوے یارڈ سے ہوا کرتا ہے۔دادا کو اپنا راستہ بخوبی معلوم تھا۔ بہت جلد وہ ریلوے کے کوارٹروں سے باہر نکل آئے

    جہاں کھیتوں کے بیچ رہائشی گھروں کی زیادہ تر روشنیاں بجھ چکی تھیں اور کتے تک خاموش تھے۔ دن کے وقت ایسا لگتا جیسے اس جگہ سے آدھے کوس دور داداکے گاؤں کی دیواروں تک یہ شہر اپنی غلاظت کے ساتھ کبھی بھی پہنچ نہ پائےگا۔ مگرقریب پہنچنے پر خود ان کا گاؤں بھی غلاظت کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوتا۔ مگر یہ غلاظت کا ڈھیر نہ تھا جب دادا نے اپنا گھر بنوایا تھا۔ دادا اس شہر کے نہیں تھے اور جب ریلوے کی نوکری کے سلسلے میں ان کا تبادلہ اس اسٹیشن پر ہوا تو سستی زمین اور سکون کی تلاش میں وہ اتنی دور آ گئے تھے جہاں کچھ سال پہلے تک گنے کے کھیتوں اور ناریل کے درختوں کے جھنڈ کے بیچ کنول کے پتوں سے ڈھکے ہوئے کئی تالاب تھے جن کے پانی پر بچھی دبیز کائی پر بطخ کے غول لکیریں کھینچتے نظر آتے اور طرح طرح کی لانبی چونچ والی خاکستری مائل چڑیاں مچھلیوں کی تلاش میں پانی کے اوپر اوپر منڈلایا کرتیں اور جب جوہڑ کے کنارے وہ پانی میں اترتیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ کس طرح اتنی لمبی پتلی ٹانگوں کو جن کا گلابی رنگ حیران کن ہوتا اور اڑتے وقت جنھیں وہ تیر کی طرح سیدھی رکھتیں، پانی میں اترتے ہی ان میں سے ایک ان کے پروں کے اندر غائب ہو جاتی۔ یہی وہ چیزیں تھیں جنھوں نے ان کی توجہ اپنی طرف کھیچ لی تھی۔ ان دنوں انھیں اس بات کی بالکل بھی خبر نہ تھی کہ اپنے شور اور غلاظت کے ساتھ اس جگہ تک پہنچنے کے لئے شہر کو صرف بیس برس لگیں گے اور زیادہ ترتالاب یا تو ڈھک دئے جائینگے یا کوڑے کے ڈھیر میں بدل جائینگے۔

    ’مجھے اور بھی زمینیں خرید کر رکھنی چاہئے تھیں۔‘ ایک دن انھوں نے اپنے دوست بدھ رام سے کہا جو سگنل مین کی ڈیوٹی سے ریٹائر تو ہو چکے تھے مگر ا ب بھی ہرے اور سرخ سگنل کے خواب دیکھنے سے باز نہ آتے۔ ’میں کبھی اچھا بزنس مین نہیں رہا۔ یہ تم نہیں سمجھ سکتے، ایک ایسا آدمی جو سگنل کی روشنیوں سے باہر کچھ سوچنے کی طاقت نہیں رکھتا۔‘

    شاید وہ ٹھیک کہہ رہے تھے کیونکہ بدھ رام کی ساری زندگی بیکار گئی تھی۔ وہ خاندانی ناستک تھے جنھوں نے حال ہی میں مسیحیت قبول کی تھی اور بڑے گرجا کے پادری کے حکم سے ان کے نام کے آخر میں ہربرٹ کا لقب چپکا دیا گیا تھا۔ مگر ان کے اس لقب سے کم لوگوں کو واقفیت تھی اور جنھیں واقفیت تھی انھوں نے اس پر یقین نہیں کیا تھا۔ خود انھیں لوگوں نے کبھی چرچ جاتے نہیں دیکھا تھا۔ آفس کے رجسٹروں میں وہ اب بھی بدھ رام ہی تھے۔ بدھ رام نے زندگی بھر اپنے رشتے داروں سے دور ریلوے کوارٹر میں مجرد کی زندگی گزاری اور ریٹائر ہونے کے بعد اب ایک کرایے کے گھر میں رہتے تھے جو دراصل ایک ریلوے کوارٹر ہی تھا مگر جس کے نام سے وہ الاٹ تھا اس شخص نے اسے کرایے پر دے رکھا تھا۔ انھیں اس کی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے رشتے داروں نے کبھی ان کی کوئی خبر نہیں لی سوائے ان دنوں کے جب انھیں پیسے کی ضرورت ہو۔ شاید اس میں قصور ان ہی کا تھا۔ ان کے پاس ہر ضرورت مند کے لئے کچھ نہ کچھ رقم تیار رہتی تھی۔

    ’میں زندگی بھر ایک اچھا انسان رہا۔‘ بدھ رام نے اپنی کھینی کی ڈبیا نکالتے ہوئے کہا۔ ’اور میں نے دیکھا ہے، اس دنیا میں پانے کے لائق کچھ بھی نہیں ہے اور وہ جنھوں نے بڑی بڑی حویلیاں کھڑی کیں اور کھیت اور باغات کے ڈھیر لگا دیے، مرنے کے بعد انھیں دو گز زمین پر قناعت کرنی پڑی۔ انھیں تین پشت سے زیادہ یاد بھی نہیں رکھا گیا۔‘

    ’یہ ایک ہارے ہوئے انسان کی سوچ ہے۔‘ داداسامنے ڈھلان کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں بچے ڈوبتے سورج کے نیچے المونیم کے پہیوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے دس کا ہندسہ بنا رہے تھے۔ ’اگر تمہارے خیال سے میں ایک ایسا گھر چھوڑ کر جاؤنگا جس کی کسی کو ضرورت نہ ہوگی تو یہ تشفی میرے لئے کم نہیں کہ میرے لگائے ہوئے آم اور امرود کے پیڑ برسوں تک پھل دیتے رہینگے اور اگر وہ پھل دینا بند بھی کر دیں تو بھی کٹھ بڑھئی اور گلہریاں اس میں پناہ تو لے ہی سکتی ہیں۔‘

    شاید دادا کو آنے والے دنوں کی آہٹ مل چکی تھی۔ انگریز ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی مشرقی پاکستان کا رخ کر چکی تھی۔ اب اس بستی میں چند ہی مسلمان رہ گئے تھے جو اب تک ان کی دو منزلہ عمارت سے آس لگائے بیٹھے تھے اور جب بھی شہر کے اندر فساد کا بازار گرم ہوتا پناہ لینے کے لئے اس کے اندر آ جاتے۔ انھیں اس بات کا دکھ تھا کہ صرف اس وجہ سے ان کے مکان کو پولس والے شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے اور آئے دن انھیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام کا سامنا کرنے کے لئے تھانہ جانا پڑتا۔ انھیں پتہ تھا دیر سویر اس گھر کو بک جانا ہے۔ خود ان کے مکان کے چاروں طرف نچلی ذات کے ہندوؤں نے گھر بنا لیا تھا اور ایک ایسا شخص بھی تھا، جو کبھی اس کا نوکر رہ چکا تھا مگر اب سرکاری نوکری میں نچلی ذات والوں کو رزرویشن مل جانے کے سبب اس کے چاروں لڑکوں کو سرکاری نوکریاں مل گئی تھیں اور اب اس کے پاس اتنا پیسہ آ چکا تھا کہ وہ داداکے گھر کو خریدنے کے بارے میں سوچ سکے۔

    ’مجھے تمہارا یہ نمک خوار پسند نہیں۔‘ بدھ رام نے ایک دن اپنی اکتاہٹ کا اظہار کیا۔ ’وہ کیسے کھلے عام تمہارے گھر کے بارے میں بات کر سکتا ہے۔‘

    ’کیونکہ اسے پتہ ہے میرے مر جانے کے بعد یہ گھر اس کا ہونے والا ہے۔ یہ میرے نالائق لڑکے، تم ان سے کیا امید رکھتے ہو۔انھیں سوائے پہلوانی کے آتا بھی کیا ہے اور اس کے لئے تم ان نچلی ذات کے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا نہیں سکتے۔ کبھی وہ دوسروں کے ذریعے بے زمین کر دیے گئے تھے۔ آج انھوں نے اپنی زمینیں واپس لینا شروع کر دی ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔‘

    بدھ رام نے شادی نہیں کی تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ خوش تھے۔ داداکو اس کا پتہ تھا کہ ان کے رشتے داروں کی ایک فوج تھی جس نے اس کی زندگی تنگ کر رکھی تھی اور آئے دن اپنی عجیب و غریب مانگوں کے ساتھ نمودار ہوتے رہتے تھے۔مگر اس کے لئے وہ بدھ رام کو ہی ذمہ وار ٹھہراتے تھے۔وہ جب بھی شراب کے نشے میں ہوتے ان کا دل بدھ رام کے لئے خیرسگالی کے جذبے سے بھر آتا۔ بدھ رام جو کبھی کسی عورت کے ساتھ ہم بستر نہ ہوا، انھیں ان سے زیادہ قابل رحم انسان اور کوئی دکھائی نہ دیتا۔ ’ویشالی میں تمہارا اتنا بڑا کنبہ ہے۔۔۔‘ وہ اکثر بدھ رام کو تلقین کیا کرتے۔ ’تم اپنے رشتے داروں میں لوٹ کیوں نہیں جاتے۔ بڑھاپے میں ایک انسان کو سب سے زیادہ اپنے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

    ’ایک دن تمہیں اپنے لوگوں کا مطلب سمجھ میں آئگا جب میں تمہیں اپنے لوگوں کے بیچ لے جاؤنگا،‘ بدھ رام نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’اس دن تم صحیح رائے دینے کے قابل ہو جاؤگے۔‘

    بڑھاپے میں ایک اور شادی کرنے کی پاداش میں (اور یہ ان کی تیسری شادی تھی) دادا کو اپنے سفید بال اور داڑھی کو مہندی سے سرخ کرنی پڑی تھی، گرچہ میری کمسن دادی کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ تو ایک بڑا سا پیٹ اٹھائے آج بھی ایک الھڑ لڑکی نظر آتی تھی۔

    ’وہ کیسے اتنا بڑا پیٹ لے کر دیوار پھاند جایا کرتی ہے؟‘ بدھ رام نے ایک دن اپنی حیرت کا اظہار کیا۔ ’مجھے پتہ نہ تھا کہ تم نے ایک گلہری سے شادی کی ہے۔‘ میرے دادا کو بدھ رام کی بات پسند آ گئی۔ ’وہ سچ مچ ایک گلہری ہے۔‘ انھوں نے بدھ رام کی دی ہوئی کھینی پھانکتے ہوئے آنکھ ماری۔ ’ایک جنگلی گلہری جسے اول تو پکڑنا آسان نہیں اور اگر پکڑ میں آ جائے تو زیادہ دیر تک تھامے رکھنا مشکل ہے۔‘

    ’بوڑھے آدمی، تمہیں اپنے آس پاس کے نوجوانوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ یہ دنیا ایک بہت ہی بری جگہ ہے۔ تم یقیناً نہیں چاہوگے کہ اس بڑھاپے میں کوئی تم پر ہنسے۔‘

    ’’لوگوں کو ہنسنے سے کون روک سکتا ہے۔ ‘میرے دادا جان نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔’ ویسے اسے ایک بار ماں بن لینے دو ،سب ٹھیک ہو جائگا اور تم چاروں کھونٹ گھوم آؤ، جہاں تک عورت کا تعلق ہے بستر میں میرے جیسا دوسرا آدمی تمہیں دکھائی نہ دیگا۔‘‘

    بدھ رام نے ترحم کے ساتھ میرے دادا کی طرف دیکھا۔ انھیں ایسا لگا جیسے وہ اب زیادہ دنوں تک زندہ رہنے والے نہیں۔ اس دن ایک سرخ سگنل کی طرف تاکتے ہوئے انھوں نے سوچا، ہم کسی چیز کو پانے کی دھن میں اسے اپنے آپ سے کتنی دور کر دیتے ہیں۔

    بدھ رام بستر پر لیٹے لیٹے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ان کی آنکھوں میں ایک عجیب روشنی نظر آ رہی تھی۔ آپ میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ میں نے پوچھا۔ مجھے ان کی آنکھوں سے بے چینی ہو رہی تھی جیسے وہ مجھے میری جڑوں تک کھنگال لینا چاہتی ہوں۔ وہ تھوڑی دیر چپ رہے، پھر انھوں نے اپنی خاموشی توڑی۔کبھی کبھی تمہاری شکل تمہارے دادا سے ملنے لگتی ہے۔ لیکن یہ مشابہت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا، میں نے کہا۔ شاید میرا چہرا ان سے ملتا ہو۔ نہیں، یہ بات نہیں ہے۔ کوئی بھی چہرا تمہارے دادا کی برابری نہیں کر سکتا۔ وہ مجھ سے عمر میں کچھ برس چھوٹا تھا مگر اس نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ اس کے اندر دو بیل کی طاقت تھی۔ پولس بھی اسے حوالات میں ڈالنے سے ڈرتی تھی۔

    بدھ رام اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے تھے اور ان دنوں ہمارے دادا کے مکان میں کرایہ داروں کے لئے بنائی گئی کوٹھریوں میں سے ایک میں بغیر کرایہ کے رہ رہے تھے۔ ان کے کمرے کا آدھا حصہ دائمی طور پر اندھیرے میں ڈوبا رہتا جس کی انھیں پرواہ نہ تھی۔ ان کی ساری زندگی کا اثاثہ ایک ٹرنک کے اندر بند تھا جس پر بیٹھے بیٹھے وہ کھڑکی سے باہر آسمان پر نظریں ٹکائے رہنے کے عادی تھے۔ ان وقتوں کے علاوہ جب میں قانونی دستاویزات پر ان کی رائے لینے آتا جن کے سہارے میں اپنے داداکی جائداد کوان گنت مقدموں سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھا، باقی وقت وہ میرے ساتھ اپنی یاد داشت کے گلیاروں میں گھومنے کے عادی تھے اور یہ مجھے پسند بھی تھا کیونکہ مجھ سے زیادہ میرے دادا کے واقعا ت کا علم بدھ رام کو تھا۔ بدھ رام جنھیں کہانی بننے کا فن بخوبی آتا ہے۔

    وہ ایک بڑا ہی خاموش دن تھا، بدھ رام نے کہنا شروع کیا۔ میرے کوارٹر کی کھڑکی کے کواڑ برسات کا پانی پی پی کر پھول گئے تھے اور ٹھیک سے بند نہیں ہو رہے تھے جب اس پر ایک دستک ہوئی۔ یہ دستک میرے لئے حیران کن تھی۔ اب میری ضرورت کسے ہو سکتی ہے؟ میں نے نہ بند ہونے والا پٹ کھولا تو ایک ادھیڑ عمر کی عورت ایک سبز طوطا ہاتھ میں لئے کھڑی تھی۔

    اس طوطے پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہے، اس نے کہا۔

    آہ، میں نے سوچا، اب یہاں برا وقت آنے والا ہے۔

    میں نے اس کے لئے دروازہ کھولا جو مجھے نہیں کرنا چاہئے تھا اور وہ ایک بہت ہی چرب زبان عورت ثابت ہوئی کیونکہ دس منٹ کے اندر اندر اس نے وہ طوطا اور پنچ گونی تار کا پنجڑا جس کے اندر طوطا بند تھا، مجھے بیچ ڈالا۔

    اس کا احترام کرنا، یہ خدا کا بھیجا ہوا خاص پرندا ہے، اس نے روپئے ساڑی کے پلو میں باندھتے ہوئے کہا۔

    دراصل اس ادھیڑ عمر کی عورت نے مجھے ایک ہی نظر میں اپنا غلام بنا لیا تھا۔ مجھے پہلی بار حیرت ہوئی کہ اتنی لمبی عمر کسی عورت کے بغیر میں نے کیسے گذار دیا تھا۔ تم کس گاؤں کی ہو؟ میں نے اس سے دریافت کیا۔ میں اسی شہر کی ہوں، عورت نے جواب دیا۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی، عورت کو اس بات کا احساس ہو گیا تھاکہ میں بری طرح اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہوں ۔اس نے اپنے جسم کے بھرپور احساس کے ساتھ میری طرف دیکھا اور اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے مزید کہا، اس طوطے کو پانی سے بچا کر رکھنا ورنہ اللہ کا نام غائب ہو جائگا۔

    شاید اب اسے میرے ساتھ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہ تھی۔

    اس کے جانے کے بعد مجھے افسوس ہوا کہ میں نے اس کے گھر کا پتہ کیوں نہ دریافت کیا۔ گرچہ پچھلے بیس برس میں یہ شہر کافی بڑا ہو چکا تھا مگر جانے کیوں مجھے اس بات کا یقین تھا کہ میں اس طوطا فروش کو ضرور ڈھونڈ نکالوں گا۔ بعد میں جب میں نے تمہارے دادا سے اس واقعے کا ذکر کیا تو اس نے انتہائی شبہے کے ساتھ اس پورے معاملے کو دیکھا۔ تم نے دیر کر دی، تمہارے دادا نے کہا۔ اب وہ اس لائق نہیں رہ گئی ہے کہ تمہارے لئے بچہ دے سکے۔ کیا وہ کنواری تھی؟وہ مسلمان تھی ،میں نے اس سوال سے بچنے کے لئے یہ بےتکا سا جواب دیا۔ پھر تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہے، تمہارے دادا بڑبڑا ئے۔ اس میں پیچیدہ کیا ہے؟ میں نے ضد کی۔آخر ہم عیسائی اور مسلمان ایک ہی پیغمبرکے ماننے والے ہیں۔نہیں، تم اسے نہیں سمجھ سکتے، اس سے پیچیدگی اور بھی بڑھ جاتی ہے اور تمہارے داد ا خاموش ہو گئے۔ لیکن مجھے علم تھا، وہ اتنی آسانی سے کسی بھی چیز کو بھولنے والا آدمی نہ تھا۔ دوسری صبح جب وہ اپنا شنٹنگ انجن لے کر پٹری سے گذر رہا تھا، اس نے اشارے سے مجھے بتایا کہ مجھے شام خالی رکھنی چاہئے جب ہم سِنڈر پٹی سے گذر کر اسٹیم گیٹ کے پیچھے واقع بڑے کھلیان کی طرف جائیں گے جہاں کی دیسی شراب ہمیں خاص طور پر پسند تھی۔ خالی، میں نے سوچا، اب میرے پاس ایسا ہے ہی کیا کہ اپنے آپ کو مصروف رکھوں! مگر میرا یہ سوچنا غلط تھا۔ قدرت نے کچھ اور ہی چیز میرے لئے تجویز کر رکھی تھی۔ اچانک اس عورت کی مجھے شدید یاد آ نے لگی اوردوپہر تک میری حالت اتنی غیر ہو گئی کہ میں تمہارے دادا کو بھول کر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔

    سند کے طور پر میں نے اپنے ساتھ وہ طوطا رکھ لیا تھا جس پر اللہ کا نام لکھا تھا۔ شہر، کیا تم اسے شہر کہوگے، صرف اس لئے کہ اس کی تارکول کی سڑکوں پر بجلی کے کھمبے آ گئے ہیں اور اس کی نئی پرانی عمارتوں میں ہر طرح کے لوگ رہنے لگے ہیں اور تم نے ذرا بھی دیر کی تو وہاں رات اتر جاتی ہے اور عین ممکن ہے کہ تم راستہ بھول جاؤ یا کوئی تمہیں لوٹ لے یا ایک باغی کے نرغے میں آ جاؤ یا کسی فحش فعل میں مصروف جوڑا تمہیں دیکھتے ہی بھاگ نکلے۔ مگر یہ دن اس طوطے کا تھا۔ وہ پنجڑے کے پنچ گونی خانوں سے پنجوں کے مڑے ہوئے ناخن باہر نکالے خاموش کھڑا تھا اور بار بار سر نیوڑھا کر دھندلے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا جس میں اب ہفتے میں دو ایک ٹو سیٹر جہاز نمودار ہونے لگے تھے جو سامانوں کے اشتہار پھینک جایا کرتے۔ یہ کاغذی اشتہار پلندوں کی شکل میں جہاز سے باہر آتے مگر دیکھتے دیکھتے شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل جاتے۔

    میں بہت تھک چکا تھا۔ میں پناہ لینے کے لئے ایک عمارت کے اندر داخل ہوا۔ عمارت ویران پڑی تھی پھر بھی میں کسی نیک دل انسان کی تلاش میں اس کی سیڑھیاں طئے کرنے لگا۔ عمارت کے تمام دروازے دریچے بند تھے یا شاید میری دستک اس کے مکینوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی یا شاید انھیں میری نیت کا پتہ چل چکا تھا۔ آخر کا ر میں اس کی چھت پر پہنچ گیا جس کے اوپر آسمان میں پتنگ اڑ رہے تھے اور سورج دور افق میں غلیظ بادلوں کے اندر بجھ چکا تھا۔ میں نے پانی کے کائی خوردہ ٹینک کے سامنے جس سے پانی رستا ہوا چھت کے کونے میں جم رہا تھا، ایک دیوار کا انتخاب کیا جس کی تعمیر بیچ میں ہی روک دی گئی تھی اور پنجڑا اس پر رکھ کر بیٹھ گیا۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا دیوار پر بیٹھے بیٹھے کب میری آنکھ لگ گئی۔

    آنکھیں کھلیں تو میں نے اپنے آپ کو ایک عجیب و غریب شہر کے اندر پایا جو میرے لئے اجنبی تھا۔ یہ کون سا شہر ہے؟ میں یہاں کس طرح سے پہنچا؟ دور تک کنکریٹ کی عمارتیں جنھیں ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے جن کے درمیانی راستوں میں بجلی کے اونچے اونچے عمودی کھمبے کھڑے تھے جنھیں میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ بہت دیر تک غور سے دیکھتے رہنے کے بعد ایک آدھ پرانی عمارتوں کے مینار اور گنبد ابھرنے لگے جن کے اندر مجھے پرانے شہر کے نشان دکھائی دے رہے تھے مگر کنکریٹ کے ان اونچے ڈبوں کے سامنے وہ ہیچ نظر آ رہے تھے۔ وہ کھلا ہوا شہر جانے کہاں چلا گیا تھا۔ ہر طرف تنگ راستوں اور گلیوں کا جال بچھ چکا تھا۔ سورج شاید نکل رہا تھا یا ڈوب رہا تھا اور میں اپنی اونچی مگر تنگ چھت کی منڈیر پر بیٹھا اینٹ اور پلستر کے ان ڈھیروں کی طرف تاک رہا تھا جن پر برسات در برسات کائی جم کر کئی بد نما پیڑ اگ آئے تھے۔ چیل کوٹھی کی چھت پر پانی کا ٹینک اپنی جگہ کھڑا تھا اور آج بھی اس سے پانی رستا ہوا کونے میں جم رہا تھا۔ اس پانی میں ایک کبوتر مرا پڑا تھا۔چھت کے فرش سے لے کر اس کی نیم تاریک سیڑھیاں اور ان کے بیچ کے چبوترے تک گندے ہو رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا اس عمارت کے مکین اپنی تمام گندگیاں ان جگہوں پر ڈالنے کے عادی ہو گئے ہوں۔ لیکن میرے یہاں ہونے کا جواز کیا تھا؟ اور یہ خالی پنجڑا! میں اسے اٹھائے کیوں کھڑا ہوں؟ اور مجھے اس کا افسوس ہونے لگا کہ میں اکیلا اس مہم کے لئے نکل آیا تھا۔ مجھے تمہارے دادا کو ساتھ لینا چاہئے تھا۔ آخرکار عورتوں کے معاملے میں وہ ایک جہاں دیدہ انسان تھا۔ تومیں نے چھتوں کے نا ہموار سلسلے پر دور تک نظر دوڑائی جہاں دلچسپی کے لائق کچھ نہ پاکر میری نظر واپس خالی پنجڑے پر ٹک گئی۔ کیا میری نیند کی حالت میں طوطا اڑ چکا تھا یا کوئی اسے چرا لے گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کوئی جادوی طوطا ہو جو مجھے اس شہر میں لانے کا سبب بنا ہو اور اپنا کام کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غائب ہو چکا ہو۔ تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عورت کا ضرور کوئی نہ کوئی وجود رہا ہوگا جس نے وہ مقدس طوطا چند سکوں کے عوض میرے حوالے کیا تھا۔

    میں جب سیڑھیاں اتر رہا تھا تو میں نے دیکھا، نیچے کی چاروں منزلیں بظاہر ویران پڑی تھیں جن کے اندر گھپ اندھیرا تھا مگر ہر دو سیڑھیوں کے درمیانی چبوترے پر کھڑے ہوکر عجیب و غریب بھنبھناہٹوں اور سرگوشیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا، عمارت آباد تو تھی مگر آج بھی لوگ میرا سامنا کرنے سے کترا رہے تھے۔ نیچے کنکریٹ کی سڑک پرمیں نے کچھ راہگیر اور فیکٹری سے لوٹتے سائکل سواروں کو دیکھا۔ وہ شا ید میرے ہی منتظر تھے اور اپنے آس پاس کی دنیا کو بھول کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔

    کسی نے میرا طوطا دیکھا ہے؟میں نے اپنے خالی پنجڑے کو اوپر اٹھا کر دریافت کیا۔ اس پر اللہ کا نام لکھا ہوا تھا۔

    انھوں نے جواب دینے کے لئے منہ کھولنے کی کوشش کی۔ میں دیکھ رہا تھا، انھیں اس میں ناکامی ہو رہی تھی۔ اچانک مجھے ان کے چہروں میں ایسا کچھ نظر آیا جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ طوطے کے بارے میں سارے شہر کو واقفیت تھی۔ یہ کون سا شہر ہے؟ میں نے ڈرتے ڈرتے دریافت کیا، یہ میرا شہر تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے دیکھا راہگیر مجھ سے دور ہٹتے جا رہے تھے۔ سائکل سواروں نے اپنی سائکلوں کا رخ موڑ لیا اور تیزی سے پیڈل مار تے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں ان کا تعاقب کرتے ہوئے، (گرچہ یہ تعاقب بےمعنی تھا) ایک دوسری ویران سڑک پر نکل آیا جو ایک لوہے کے پل سے گذرتی تھی جس کے نیچے کیچڑوں سے ڈھکے ہوئے پانی کا کھال تھا۔ کھال کے اندر لوگ ٹوکریوں سے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ شاید میں کسی گودی کے علاقے میں بھٹک رہاتھا۔ سڑک پر تاحد نظر ایک ہی طرح کے آہنی لیمپ پوسٹ کھڑے تھے جن میں سے ایک کے نیچے ایک بھکاری اپنی گدڑیوں کے بیچ افسردہ سا بیٹھا تھا۔ اس کا کتا اس سے ایک ہاتھ کے فاصلے پر ایک چھوٹی دیوار پر جو شاید کبھی سنگ میل رہی ہوگی، اپنے سامنے کے پنجے جمائے کھڑا نیچے کھال کی طرف تاک رہا تھا۔ اس کی بھینگی آنکھوں میں سارے شہر کی دہشت لکھی ہوئی تھی۔خود بھکاری کے وجود سے ایک عجیب طرح کی بساند آ رہی تھی جیسے اس کا جسم سڑ چکا ہو۔

    آپ اس شہر کے لئے نئے نہیں ہو، بھکاری نے کہا اور میں آپ سے بھیک قبول نہیں کر سکتا، کہیں مجھے آپ کے کسی سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف تم پڑھے لکھے ہو بلکہ تمہیں میرے طوطے کا بھی علم ہے، میں نے کہا۔ ہاں، بھکاری نے جواب دیا، وہ اسی طرح کے ہتھکنڈے لوگوں پر آزمایا کرتی تھی، مگر ایک ہی شہر میں آپ برسوں تک لوگوں کو ایک ہی طرح کے فریب نہیں دے سکتے، ایک نہ ایک دن آپ کا پول کھل جاتا ہے۔ اسے چاہئے تھا کہ کسی دوسرے شہر میں قسمت آزمائے۔ مگر کوئی خاص وجہ اسے اس شہر کو چھوڑنے سے روکے ہوئے تھی۔ تو اس نے اپنا پیشہ بدل لیا۔ اس نے کھال کے کنارے اپنے جسم کا دھندا کرنا شروع کر دیا۔ وہ ہر شام اسی لوہے کے پل پر ملاحو ں کی امید میں آتی مگر اسے زیادہ تر خالی ہا تھ لوٹنا پڑتا کیونکہ اس کی عمر کے سبب کسی گاہک کو اس کے اندر کیا دلچسپی ہو سکتی تھی؟ خاص طور پر جب کمسن لڑکیوں کی کھیپ کی کھیپ چکلوں کے اندر بھر چکی ہو۔ رہا آپ کا طوطا، تو وہ کب کا مر چکا ہے۔ تمہیں علم نہیں تم جس طوطے کی بات کر رہے ہو وہ کوئی ایسا ویسا طوطا نہیں تھا، میں نے کہا۔ تم اتنے سر سرے انداز میں اس کی موت کا ذکر نہیں کر سکتے۔ وہ خدا کا بھیجا ہوا خاص پرندا تھا۔ ممکن ہے وہ ویسا ہی رہا ہو، بھکاری نے تائید میں سر ہلایا، مگر آپ واپس کیوں نہیں لوٹ جاتے؟ شاید آپ کو علم نہیں، آپ اپنے وقت سے باہر نکل آئے ہیں۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ تمہیں اتنا سب کچھ کیسے معلوم؟

    بھکاری اپنے عجیب و غریب دانتوں سے مسکرایا۔

    میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ پھر بھی ایک بات تو بتا ہی سکتا ہوں۔ بیس برس قبل ایک بوڑھا آپ کی تلاش میں یہاں آنکلا۔ ہوا کی ایک ٹھنڈی لہر سے بچنے کے لئے بھکاری نے چیتھڑوں کو اپنے گرد لپیٹنا شروع کر دیا جس سے بساند اور بھی تیز ہو گئی۔ وہ آپ کو تقریباً تلاش کر چکا تھا کہ شہر میں فساد پھیل گیا اور لوگوں نے اسے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر زندہ جلا ڈالا۔ اس کے بعد بھی وہ سرکاری اسپتال میں کئی دنوں تک زندہ رہا۔ پھر اس پر دل کا دورا پڑا اور اس کے لوگ اسے واپس اٹھا کر لے گئے اور آپ کا طوطا بیس سال تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس نے ضرورپنجڑے کے اندر جان دے دی ہوگی اور وہ دھیرے دھیرے مٹی میں بدل گیا ہوگا۔ شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو، میں پنجڑے کے اندر دیکھ رہا تھا، کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا اور اس کی مٹی کو برسات کا پانی بہا کر یا ہوا اڑا کر لے گئی ہوگی۔ مگر تمہیں اس عورت کا پتہ تو معلوم ہوگا؟ میں نے پوچھا۔ ایسی عورتوں کا کوئی پتہ ٹھکانہ نہیں ہوتا، بھکاری نے جواب دیا۔ میں نے اسے عرصے سے دیکھا بھی نہیں ہے۔ یوں بھی، وہ اب آپ کے کسی کام کی نہیں، وہ ہر طرح کے ٹیومر سے گھر چکی ہے۔ اگر وہ زندہ ہے تو کسی ہسپتال کے احاطے میں اپنی موت کو انتظار کر رہی ہوگی۔ یہ اس کے ان گنت گناہوں کا نتیجہ ہے۔

    تمہارے دادا کی موت کی اطلاع مجھ پر بجلی بن کر گری تھی مگر اس کے جھٹکے کو سمجھنے کے لئے مجھے کچھ وقت لگ گیا اور جب مجھے اس کا احساس ہوا تو میں پاگل کی طرح سڑکوں پر دوڑتا پھرا۔ کچھ راستے اور گلیاں میری پہچان میں بھی آ گئیں اور پھر دھیرے دھیرے میں ان کی پہچان بن گیا۔ میں نے وہ پنچ گونی تاروں والا پنجڑا کب کھو دیا، مجھے اس کا احساس نہ تھا۔ خود میں اچھا خاصا بوڑھا ہو چکا تھا۔ میں نے ایک لمبے عرصے تک شہر میں آوارہ گردی کی۔اپنی آوارہ گردی کے دنوں میں بھوک مٹانے کے لئے مجھے کئی معصوم چوریاں بھی کرنی پڑیں۔ ایک بار پکڑٖا بھی گیا مگر میری عمر کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو مجھ پر ترس آ گیا اور انھوں نے مجھے عیسائیوں کے ذریعہ بنائے گئے بوڑھوں کے ایک آشرم میں ڈال دیا جہاں سے بھاگنا آسان نہ تھا کیونکہ اس کا پاگل دربان ایک گھنٹے کے لئے بھی نہیں سوتا تھا۔ مگر میں بھاگ نکلا اور آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب میں نے تمہارے دادا کی قبر دریافت کر لی۔ خدا بھلا کرے ان لوگوں کا جنھوں نے قبروں پر کتبہ نصب کرنے کی روایت قائم کی۔ شہر میں آج کے برعکس ان دنوں تم مسلمانوں کا ایک ہی قبرستان تھا، مگر تمہارے دادا کو تمہارے لوگوں نے تمہارے خاندانی قبرستان میں دفن کیا تھا جس کے دو ہاتھ کے فاصلے پر اس کا کتا بھی دفن تھا جسے تمہارے دادا نے رمضان میں روزہ رکھنے کی عادت ڈلوائی تھی۔ مگر تمہارے بڑے چچا نے، جس نے گھر کے تمام ساز و سامان کے ساتھ اس اتنی بڑی عمارت کی چھت سے لگے شہتیروں سے لے کر کھڑکیوں دروازوں کے چوکھٹ تک گروی رکھ دی تھی، مجھے ایک الگ ہی واقعہ سنایا۔ اس کے مطابق وہ ریلوے کے حادثے میں مارا گیا تھا۔ وہ مالگاڑی لے کر کسی سنسان اسٹیشن سے گذر رہا تھا جب اس کا انجن بفر لائن پر غلطی سے جا نکلا جس کے خاتمے پر ٹرین کو روکنے کے لئے بنائے گئے مٹی کے اونچے ڈھیر سے ٹکرا جانے کے سبب اس کا ابلتا ہوا بوئلر پھٹ کر تمہارے دادا پر آ گرا جس سے وہ جھلس کر مارا گیا۔ یہ اسٹیم انجن کا زمانہ تھا جب پٹریاں دستی بیرم کے ذریعے بدلی جاتی تھیں اور کسی نے شرارت سے پٹری کا رخ بفر لائن کی طرف موڑ دیا تھا۔

    بدھ رام سے میں نے اس طوطے کے بارے میں دریافت کیا ۔کیا واقعی اس کا کوئی وجود تھا؟ کیا واقعی وہ خدا کا بھیجا ہوا پرندا تھا جس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ وہ گھڑی کے کانٹوں کو طوفانی رفتار سے چلنے مجبور کر دے، اتنی تیزی سے کہ دہائیاں گذر جائیں اور آدمی کو پتہ نہ چلے اور خود اس کا اپنا شہر اس کے لئے اجنبی بن جائے، جیسا کہ ان کے ساتھا ہوا تھا۔

    بالکل، وہ ہنسے۔ اب تک اس بوڑھے کی ہنسی میں اس کا بچپنا جھلکتا تھا۔ اگر تمہارے دادا زندہ ہوتے تو اس بات کی تصدیق کرتے۔

    کچھ دنوں کے بعد ہمارے دادا کا مکان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ ہم لوگ بدھ رام کو اس کے ٹرنک کے ساتھ اسٹیشن چھوڑنے آئے جس کی محرابوں سے ہمیشہ کی طرح چمگادڑیں لٹک رہی تھیں۔ ہمالیہ کی ترائی میں اسے ایک کہرے سے ڈھکے ہوئے شہر کی یاد تھی جہاں اب بھی اس کے کچھ رشتے دار زندہ تھے جو انھیں پہچان سکتے تھے۔

    میری سمجھ میں نہیں آتا میں وہاں کیوں جا رہا ہوں؟بدھ رام نے کہا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی جس کے سبب پلیٹ فارم پر ایک طرح کی دھند چھا گئی تھی ۔ہم لوگ لوہے کا ٹرنک ان کی سیٹ کے نیچے رکھ کر ابھی ابھی باہر آئے تھے اور ان کی کھڑکی کے سامنے کھڑے تھے۔ تیز ہوا بارش کی پھوار کو شیڈ سے نیچے کی طرف لا رہی تھی۔بدھ رام کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں۔وہ اب زندگی میں بالکل اکیلے ہو چکے تھے۔کچھ دیر بعد انھوں نے سر اٹھا کر کہا، اگر تم لوگ کچھ اور دن انتظار کرتے تو اپنے دادا کی زمین میں عیسائی رسم و رواج کے مطابق مجھے دفن کر سکتے تھے۔ آخر کار اس میں ایک کتا بھی دفن ہے۔ میں تو خیر ایک عیسائی ہوں۔

    ہم عدالت کے حکم کے سامنے مجبور ہیں، میں نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا۔ وہ مکان اب ہمارا نہیں رہا۔

    ٹرین چل چکی تھی جب بدھ رام نے کھڑکی سے ہاتھ نکال کر چلاتے ہوئے کہا،ایک دن میں واپس آؤں گا اس عورت اور اس طوطے کی تلاش میں۔ اس دن تمہارے دادا کے بارے میں میں اور بھی بہت ساری جانکاری دوں گا۔

    ایسا نہیں تھا کہ میں نے پوری طرح ان کی بات کا بھروسہ کیا ہو، مگر وہ دن اور آج کا دن، مجھے اب بھی اس ٹرین کا انتظار ہے۔ آج جب چند نا گزیر حالات کے سبب میں اس شہر کا باشندہ بن چکا ہوں جہاں ایک عورت اور اس کے طوطے کی نامکمل کہانی کے ساتھ ساتھ میرے دادا کی زندگی کے ان گنت واقعات دفن ہیں جن کا علم صرف بدھ رام کو ہے۔

    بدھ رام، میں دادا کی جیبی گھڑی کو جس میں وقت دائمی طور پر رک چکا تھا، اس کی زنجیر سے اپنے سامنے لٹکا کر اس کے سات کے ہندسے کو دیکھ رہا تھا ،جب تک تم لوٹ کر نہیں آتے نہ وہ طوطا مر سکتا ہے، نہ وہ عورت اور نہ ہی تم مر سکتے ہو۔ وقت کا یہی فیصلہ ہے!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے