Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مہاجا نہیں مرا

کرتار سنگھ دگل

مہاجا نہیں مرا

کرتار سنگھ دگل

MORE BYکرتار سنگھ دگل

    مہاجا اپنے گھوڑے سے باتیں کر رہا ہے۔

    چل بیٹا! تیرا ساز پھٹ گیا ہے۔ آج ایک چھید اور تیرے تنگ میں کسنا پڑا ہے، تیرا یہ ساز ڈھیلا ہو رہا ہے۔ تو کمزور ہو رہا ہے، یار! یوں دغا نہ دے جانا کہیں۔ پچھلے سال ’کرمی‘ اللہ کو پیاری ہو گئی تھی اور میں نے ذرا پروا نہیں کی تھی۔ میں نے سوچا جب تک تیرا ساتھ ہے، مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔ کم ذات ہر چوتھے روز بہو بیٹے کے پاس چل دیتی تھی، کوئی بات بھی ہوئی۔ چل بیٹا! تیرے چارے دانے کی بھی فکر کرنی ہے۔ انشاء اللہ! آج تجھے مسالہ ضرور کھلانا ہے، کل بھی وعدہ کیا تھا۔ مجھے یاد ہے۔ کل جھوٹا ہونا پڑا تھا۔ پرسوں ترسوں تو میں نے وعدہ نہیں کیا تھا اور اس سے پہلے دن بھی نہیں۔ پر آج وعدہ ضرور پورا کروں گا۔ اللہ نے چاہا تو۔ اس سبزے میں کچھ جان وان ہے نہیں۔ مٹی زیادہ چارہ کم۔ آج تو تجھے مسالہ کھلانا ہے۔ مسالہ بھی آج کل خاک ہی ہوتا ہے، مسالہ تو ان دنوں کا ہوتا تھا۔

    ان دنوں کی کیا بات ہے بیٹا! تیری ماں کے زمانے کی بات کر رہا ہوں۔ ان دنوں کی کیا بات ہے۔ تیری ماں کو مسالہ کھلاتے ہوئے کئی بار میں خود اس میں سے پھنکی مار لیتا تھا۔ مسالہ تیری ماں کھاتی تھی اور اس کی خوشبو سونگھ کر میری بھوک چمک اٹھتی تھی۔ سارا دن تیری ماں کے پسینے میں سے کھٹی کھٹی خوشبو آتی رہتی تھی اور شام کو اس کی مالش کرتے ہوئے میں اس کی پسلیوں میں ناک لگاکر سونگھا کرتا تھا۔ میری نیلم پری! نیلم پری نام تھا تیری ماں کا! تجھے پہلے بھی بتایا ہوگا شاید۔ بدن پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی تھی اور اب مکھیاں صبح سے تجھے سانس نہیں لینے دے رہی ہیں۔

    چل بیٹا، اللہ کا نام لے کر چل پڑ۔ سنا ہے آج بڑے بڑے فرنگی باہر سے آئے ہیں۔ دیکھ میں نے گدیوں پر صاف دھلے ہوئے غلاف چرھائے ہیں اور تانگے کا رنگ دیکھ کیسا چم چم کر رہا ہے۔ کل پہلوان کہہ رہا تھا کہ تیرا نخرہ ویسے کا ویسا ہے، باقی سب کی پھونک نکل گئی۔ تیرے تانگے کی چال ڈھال ویسی کی ویسی ہے۔ دیکھ بیٹا گھنٹی ہی دیکھ، کیسے بجتی ہے۔ ایک دفعہ تو آدمی بدک کر اوندھا جا گرتا ہے۔

    دیکھا تونے، سردار جی کیسے ٹھٹک کر رہ گئے اور مڑ مڑکر میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ بھئی آج کل بھی اپنا ربڑ ٹائر پشاوری تانگہ ہوا سے باتیں کرتا، اڑتا چلا جا رہا ہے۔ سائیکل رکشا والوں کو تو میں نے کبھی منہ نہیں لگایا، بے چارے ٹانگیں مار مار کر بےحال ہوئے رہتے ہیں، میں تو بڑے بڑے اسکوٹروں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہوں، کالی سڑک پر کوئی میرے ساتھ اسکوٹر دوڑاکر تو دیکھے۔

    لے بیٹا! چوک پر لال بتی ہے۔ ذرا ٹھہر جا۔ یہ لال بتیاں بھی سرکار کا نیا چونچلا ہیں، چاہے کوئی ادھر سے آرہا ہو، نہ آ رہا ہو، لال بتی ادھر جلتی ہی رہےگی۔ کوئی بات بھی ہوئی۔ رک جا بیٹا، جلدی مت کر۔

    لال بتی، پیلی بتی، پھر ہری بتی! تب ہم چلیں گے۔ بنگلہ صاحب کے سامنے سے ہوکر نکڑ والے پیر کے مزار پر سلام کے بعد، پھر کرزن روڈ۔ گورے لوگوں کو تانگوں پر بیٹھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے، خاص کر میموں کو۔

    آج میں تیرے سب گلے دھو دوں گا۔ میرا کیا ہے، ملنگ کا ملنگ۔ ایک تو اور ایک میں۔ بیٹا! آج تجھے میں نہیں ٹوکوں گا۔ چاہے تو دوٹوکری بھر مسالہ کھا لے۔

    پیلی بتی ہو گئی، اب تو نکل چل۔ نہیں تو موٹروں والے شروع ہو گئے تو باری نہیں آئےگی۔ نکل چل بیٹا، نکل چل! بجانے دے ان کو ہارن۔ یہ تانگہ نہیں، یہ رولز رائس ہے، لو ہو گئے پار، تو آلس کر جاتا تو وہیں ٹاپتے رہ جاتے اور پھر لال بتی ہو جاتی۔ کئی بار ایسے ہوا ہے کہ ایک طرف کی لائن ابھی ختم نہیں ہوئی کہ لال بتی پھر ہو جاتی ہے۔ کناٹ پلیس میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے، اسی لیے تو میں ادھر جاتا نہیں، کون ان لال بتیوں کو منہ لگائے۔

    بنگلہ صاحب کو سلام کر، ہاں، یوں! بڑی برکت ہے یہاں کے سلام میں۔ اس درپر آیا ہوا کوئی خالی نہیں جاتا۔ شام کو دیکھا ہے کتنی موٹریں یہاں کھڑی ہوتی ہیں۔ جہاز جتنی بڑی موٹریں اور ان میں سونے سے لدی سردارنیاں نکل کر اندر ماتھا رگڑتی ہیں۔ جھولیاں بھر بھر کر لے جاتی ہیں۔

    لے اب نکڑ والے پیر کے مزار پر بھی سلام کر لے، شاباش!

    کوئی کہتا ہے بنگلہ صاحب میں بڑی برکت ہے، کوئی کہتا ہے پیر کے مزار میں بڑی کرامت ہے۔ ہم تو بیٹا آج دونوں جگہ ہو آئے، لے بیٹا! اب تو دل نہ دکھا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ۔ ننگی ٹانگوں والی میم تیرا رستہ دیکھ رہی ہے۔

    تجھے پتا ہے بیٹا۔۔۔ ایک بار۔۔۔ ہائے وہ دن! یہ بات میں نے تجھے کبھی نہیں بتائی ہوگی، بہت دنوں کی بات ہے، تب لام لگی ہوئی تھی، تو تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا ان دنوں کی بات ہے، رات کو میں گھر لوٹ رہا تھا، گھپ اندھیری رات تھی، ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دیتا تھا، جاڑے کی اندھیری رات یہاں اس موڑ پر، جہاں جے سنگھ اور اشوک روڈ ملتی ہیں، ایک کرانٹن نے میرا تانگہ روک لیا۔ ننگی ٹانگیں، شراب میں بدمست، سگریٹ کے کش پہ کش لگائے جا رہی تھی۔ کہنے لگی تم مجھے لے چلو۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔ میں تھکا ہارا اپنے ڈیرے جا رہا ہوں، پر وہ تو کود کر تانگے میں آبیٹھی اور وہ بھی اگلی سیٹ پر اور پھر اس نے گھوڑے کی لگام مجھ سے چھین لی۔

    کم بخت غضب کا تانگہ چلا رہی تھی، جیسے ساری عمر اس کا یہی پیشہ رہا ہو اور وہ تانگہ کو برلا مندر کے پیچھے پہاڑی پر چڑھا کر لے گئی۔ توبہ توبہ، کس طرح کی عورت تھی اور فجر کو جب میں اسے اتار کر اپنے ڈیرے پر پہنچا تو چھوٹو کی ماں ایک جوتی اتارے، ایک پہنے بار بار کہتی، تمہارے کپڑوں میں سے خوشبو کیسی آ رہی ہے؟ میں اتنی باتیں بناتا ہوں، پر اس دن میرے منہ میں جیسے زبان نہ ہو، وہ جوتیاں مارتی رہی اور میں جوتیاں کھاتا رہا۔

    چل بیٹا چل، یہ بھیڑ تانگے میں نہیں بیٹھےگی، یونہی دیکھے جا رہی ہے۔ یہ لوگ گھنٹہ گھنٹہ بھر بس کا انتظار کر لیں گے لیکن تانگے میں نہیں بیٹھیں گے۔ یوں کفایت کرکے چار پیسے بچاتے ہیں اور پھر چاندنی چوک میں جاکر سرخی پاؤڈر پر پھینک آتے ہیں۔ انہوں نے تانگے کا کبھی منہ نہیں دیکھا۔۔۔ یا پھر فیشن کے مارے اسکوٹر پر بیٹھیں گے۔ کبھی بیوی اچھل کر خاوند کی گود میں، کبھی خاوند اچھل کربیوی کی جھولی میں۔ برا حال کرتا ہے یہ اسکوٹر، آنتیں تک ہلا دیتا ہے۔ ایک بار میں بھی بیٹھا تھا، دس قدموں کے بعد میں اسکوٹر کو روک کر نیچے اتر آیا۔ پیدل چلنا منظور لیکن اسکوٹر کی سواری۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔۔!

    پرانی دلی میں سائیکل رکشائیں بھی چلتی ہیں۔ توبہ توبہ! رکشا پر بیٹھنا تو یوں ہے جیسے آدمی آدمی کے کندھے پر چڑھ جائے، اگلے کا پسینہ چورہا ہوتا ہے اور سواری پسر کر بیٹھی رہتی ہے۔ میں تو کبھی سائیکل رکشا پر نہ بیٹھ سکوں۔ اس سے بہتر تو آدمی پیدل چل لے۔ بیچارے رکشا چلانے والوں کا بھرکس نکل جاتا ہے۔ چار پیسے کمانے کے لیے آدمی کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ سنا ہے، رکشا چلانے والوں کو اکثر بواسیر ہو جاتی ہے، بواسیر نہ ہو تو کیا ہو؟ بیچارے ٹانگیں کیسے چلاتے ہیں۔ سائیکل کی کاٹھی پر کولہے چھل جاتے ہیں۔

    سواری تو بس تانگے کی ہے۔۔۔ شاہی سواری! تیری ماں کے زمانے کی بات ہے۔ ایک بار بالو رنڈی میرے تانگے پر بیٹھ کر باہر نکلی۔ لوگ سڑک پر اوندھے جاجاکر گرنے لگے، تو ہی بتا۔۔۔ ٹیکسی میں کبھی ایسے ہو سکتا ہے؟ اسکوٹر میں کبھی ایسا ہو سکتا ہے؟ شام کو جب سیر کرکے لوٹی تو کہنے لگی، مہاجا! تیرے تانگے سے اترنے کو جی نہیں چاہتا اور میری مٹھی میں دس کا نوٹ تھماکر چلی گئی۔

    لو بیٹا، باتیں کرتے کرتے ہم ٹھکانے پر آن پہنچے۔ میں تجھ سے باتیں نہ کروں تو میرا جی نہیں لگتا۔ باتیں تو میں تیری ماں کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ بات ابھی میرے ہونٹوں پر ہوتی کہ وہ میرا مطلب جان لیتی، میرے اشارے کو سمجھ لیتی۔ میں اداس ہوتا تو وہ اداس ہو جاتی۔ میں خوش تو وہ خوش۔ ایک بار میں بیمار پڑا ایک دن، دو دن اس نے چارے کو منہ لگانا چھوڑ دیا۔ میں بھی اس پر جان دیتا تھا۔ مالش تیری بھی کرتا ہوں لیکن اس کے مالش جیسے ہوتی تھی کچھ نہ پوچھ۔ چھوٹو کی ماں کہا کرتی تھی کہ یہ گھوڑی نہیں میری سوت ہے، ہمیشہ اسے سوت ہی کہہ کر بلاتی۔ چھوٹو کی ماں اور تیری ماں کی کبھی نہیں بنی۔

    دیکھ، سامنے سواری آ رہی ہے۔ میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ آج تو دم نہیں لے پائےگا۔ دس دن یہ فرنگی جو یہاں پر ہیں، چاہیں تو سال بھر کی روٹیاں بنالیں۔ لے، اس نے تو اشارہ کرکے ٹیکسی روک لی، ایک تو یہ ٹیکسی والے چین نہیں لینے دیتے لیکن ٹیکسی سے میرا کوئی بیر نہیں، ٹیکسی کی سواری شریفانہ سواری ہے۔ ٹیکسی والے آدمی کے کپڑے بھی اچھی طرح اتارتے ہیں۔ جو اس طرح اپنی کھال اتروانا چاہے، بےشک ٹیکسی میں بیٹھے۔

    اس نیم کے نیچے رکتے ہیں۔ جب تک کوئی سنتری نہیں آتا تو اس نیم تلے سستالے۔ سنتری بھی کیا کرےگا، چار پیسے اس کی مٹھی میں رکھ دیے تو اس کا منہ بند ہو جائےگا۔ بڑے بڑے سنتری مہاجانے دیکھ رکھے ہیں بیٹا! ہر کسی کا بھاڑا ہوتا ہے، بھاڑا چکایا، چاہے کوئی دن دہاڑے ڈاکہ مار کر چلتا بنے۔ لے، سنتری کی بات ہی کی اور وہ سامنے آن دھمکا۔ آنے دو اسے، مہاجا نے کبھی نگوڑے سنتری کی پرواہ نہیں کی، لیکن بیٹا! تو نے یہ پاؤں کیوں ٹیڑھا رکھا ہوا ہے؟ کہیں تیرا نال تو نہیں تجھے تنگ کر رہا ہے؟ لو، نال تو تیرا اتر ہی گیا ہے، پتہ نہیں کہاں پھینک آیا ہے۔ چل، پہلے تیرا نال ہی لگوالیں، نہیں تو تیرے کھر میں چوٹ آ جائےگی، چل بیٹا! تیرا نال لگوا آئیں۔

    ’’کیوں مہاجا، ہمیں دیکھ کر منہ موڑ لیا؟‘‘

    ’’نہیں حولدارجی! گھوڑے کا نال پتہ نہیں کہاں گم ہو گیا ہے۔ اچھا ہوا میری نگاہ پڑ گئی، نہیں تو بیچارے کا سم ضرب کھا جاتا۔‘‘

    ’’یار تو کبھی کام نہیں آیا، میں نے سوچا تھا، تجھ سے کہوں گا کہ چوکی تک چھوڑ آ۔‘‘

    ’’ادھر ہی سے تو آ رہا ہوں حولدار جی! گولی کس کی اور گہنے کس کے، میں تو کبھی انکار نہ کرتا، اب تو میں اس کی نال لگوانے جا رہا ہوں۔ صبح صبح ہی یہ فالتو خرچ آن پڑا ہے۔‘‘

    ’’نعل تو پہاڑگنج ہی جاکر لگےگی، راستے میں مجھے بھی اتار دینا، بیچ ہی میں تو تھانہ پڑتا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر بیٹھ جاؤ سنتری جی۔ ہولے ہولے چلیں گے، کیوں کہ میرا گھوڑا آج کل ذرا ڈھیلا ہو رہا ہے۔ آج بوہنی آپ ہی کی سہی۔‘‘

    ’’مہاجا! تو انگشت بازی سے باز نہیں آتا۔ اگر ہم بھی تیرے چالان سے بوہنی کرتے۔۔۔ تو۔۔۔ نیم کے نیچے اڈا بناکر تو کھڑا تھا۔‘‘

    ’’او۔۔۔ بادشاہو! آپ تو ناراض ہی ہو گئے۔ میں آپ سے ٹھٹھا نہ کروں تو اور کس سے کروں؟ ان اسکوٹر والوں سے کروں گا جو ٹھیٹھری کی طرح اڑتے پھرتے ہیں؟‘‘

    ’’سب کو ہم نے سیدھا کر رکھا ہے۔‘‘

    ’’حولدارجی! یہ بتاؤ، یہ ٹیکسی والے بھی کبھی آپ کے ’قابو‘ میں آتے ہیں؟‘‘

    ’’میرے ہتھے جو بھی چڑھ جائے، کپڑے اترواکر جاتا ہے۔ چاہے ٹیکسی والا ہو، چاہے تانگے والا۔‘‘

    ’’تانگے والے تو بیچارے اب رہے ہی نہیں۔‘‘

    ’’ایک ہزار اور ٹیکسی کے لائسنس منظور ہو گئے ہیں دلی شہر کے لیے۔ ہزاروں آدمی باہر سے اس میٹنگ کے لیے آرہے ہیں، جن کے لیے کرزن روڈ پر ست منزلہ عمارتیں بنی ہیں، اپنی تو ڈیوٹی کرزن روڈ پر لگی ہے۔‘‘

    ’’پھر تو چاندی ہی چاندی ہے آپ کی! ایک تو ننگی ٹانگیں دیکھو، دوسرے ٹیکسی والوں کا چالان کرو۔‘‘

    ’’اپن کے لیے ٹیکسی، تانگہ برابر ہے۔‘‘

    ’’مہاجا! ہمیں یہیں اتاردے۔ میں سامنے چوکی تک پیدل چلا جاؤں گا۔‘‘

    ’’جیسی مرضی آپ کی۔‘‘

    ’’لیکن مہاجا! یہ تجھے ہو کیا گیا ہے، آج بیڑی تک نہیں پلائی تونے؟‘‘

    ’’معاف کرنا حولدار جی! میری تو مت ہی ماری گئی ہے، لو بیڑی پیو۔ آپ لوگوں کے لیے ہی تو لے کر رکھتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا مہاجا، خوش رہو۔ ہاں دیکھ سڑک پر تانگہ نہ کھڑا کیا کر، آج کل انسپکٹر لوگ چاروں طرف پھر رہے ہیں۔‘‘

    دیکھا بیٹا! چڈھی مفت کی لے گیا، بیڑی بھی پی گیا اور احسان بھی رکھ گیا کہ نیم کے نیچے تانگہ نہ کھڑا کیا کر۔ نیم کے نیچے نہیں تو کیا اس کی ماں کی ٹانگوں میں تانگہ کھڑا کرے کوئی؟ ٹیکسی والوں کے لیے اسٹینڈ بناتے ہیں، ٹیلیفون لگواکر دیتے ہیں۔ تانگے والوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اسی لیے ناکہ آج کل تانگے میں بیٹھنے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔ تانگے میں بیٹھنا لوگ اپنے وقت کو برباد کرنا سمجھتے ہیں۔

    میں پوچھتا ہوں بیٹا! آج کل لوگ اتنا بھاگ بھاگ کر وقت بچاتے ہیں تو پھر کیا کرتے ہیں اپنے وقت کا؟ سینما کا ٹکٹ لینے کے لیے گھنٹوں لائن میں لگے رہتے ہیں، ڈاک خانے میں ٹکٹ لینے کے لیے لائن لگتی ہے، صبح دودھ لینے جاؤ۔۔۔ لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، چھوٹے بڑے سب لائن میں لگتے ہیں۔ ادھر وقت بچاتے ہیں، ادھر لائن میں کھڑے ہوکر وقت کی بربادی کرتے ہیں۔ سارا دن دوڑتے ہیں اور ساری شام ہوٹل و کلبوں میں بیٹھ کر وقت برباد کرتے ہیں۔ میں بھی کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا۔۔۔ شہر کی فکر قاضی کو! چل بیٹا، پہلوان کی دوکان آ گئی، تیرا نعل لگوالیں۔

    ’’سلام پہلوان جی!‘‘

    ’’وعلیکم مہاجا! کیوں، میری بات سچی نکلی نا!‘‘

    ’’پہلوان جی، آپ کو استاد جو مانا ہے، اس لیے تو بات آپ ہی کی سچی ہوگی۔‘‘

    ’’میں نے تجھ سے کہا تھا نا کہ ایک نعل اکھڑتے ہی سارے نعل بدلوا لو۔‘‘

    ’’آپ کی مان لی پہلوان جی۔‘‘

    ’’آدمی کی بھی عمر بندھی ہوتی ہے، ایک نعل گیا تو سمجھو، باقی بھی جائیں گے۔‘‘

    ’’پچھلے ہفتہ ایک اترا، آج دوسرا اڑ گیا۔‘‘

    ’’اب باقی دو بھی نئے لگوالو۔‘‘

    ’’سواری تو کوئی تانگہ کی طرف منہ نہیں دیتی، صرف نعل گھستے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’ہماری بھی تو روزی چلانی ہے اللہ کو۔‘‘

    ’’ایک مہاجا نے پتہ نہیں کیا بگاڑا ہے پروردگار کا۔‘‘

    ’’ارے مہاجا تجھے کون سی پرواہ ہے، تیرا بیٹا جیتا رہے تجھے کیا فکر!‘‘

    ’’کہتا تھا، مہاجا تجھے کیا پرواہ ہے۔۔۔؟‘‘ مہاجا پھر اپنے گھوڑے سے باتیں کرنے لگا ہے۔۔۔ کیوں بیٹا! مجھے پرواہ نہیں، آج کتنے دنوں سے تجھے مسالہ نہیں ملا۔ پہلوان نے نعل لگاتے دوپہر کر دی لیکن کام پکا کرتا ہے، مزا آ جاتا ہے۔

    لے بیٹا! سامنے بس کے اڈے پر کھڑی سواریوں کے پاس سے گزرتے ہیں۔ شاید کوئی اُوب کر تیرے تانگے میں ہی آن بیٹھے۔ نعل لگوائی ہی کھری ہو جائے شاید۔۔۔ نہیں۔ ٹس سے مس نہیں ہوتی سواری آج کل۔ یہ ببوائین چاہے کھڑی کھڑی سوکھ جائیں، آنکھ اٹھاکر تانگے کی طرف دیکھیں گی بھی نہیں۔ اب مجھ سے آواز نہیں لگائی جاتی۔ گھنٹی تو میں نے بجائی تھی۔ تیری گھنٹی سن کر بھی جب کوئی نہیں آیا، تو پھر کوئی نہیں آئےگا۔ تو چلتا چل۔ گول مارکیٹ میں کبھی کبھی کوئی سواری مل جاتی ہے۔ اس وقت امیر لوگوں کی بیویاں سودا سلف خرید کر لوٹ رہی ہوتی ہیں۔ اکثر بنگالنیں رس گلوں اور گلاب جامنوں کے دونے دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوتی ہیں۔ جتنا میٹھا کھاتی ہیں، اتنا ہی میٹھا بولتی ہیں، جیسے کوئی مصری گھول رہا ہو۔

    اس پیڑ کے نیچے مجھے ایک بار ایک بنگالن ملی۔۔۔ توبہ! توبہ! کتنی موٹی تھی، کوئی ڈھائی من کی لاش ہوگی۔ کہنے لگی کہ اشوک روڈ کی میں اٹھنی دوں گی۔ میں کبھی اس کی لاش کی طرف دیکھوں، کبھی اپنے تانگہ کی طرف اور وہ بار بار کہے جا رہی تھی، میں تو ہمیشہ اٹھنی ہی دیتی ہوں، پھر میں نے اسی سے دھیرے سے کہا، بائی، میری گھوڑی سے آنکھ بچاکر چپکے سے بیٹھ جا۔ اس نے تانگہ میں پاؤں ہی رکھا تھا کہ تانگہ ’اولار‘ ہو گیا اور مجھے سارا وقت بم پر ہی بیٹھنا پڑا، بم پر ٹنگا ٹنگا میں اشوک روڈ تک گیا۔ سواریوں کے لیے کبھی کبھی بڑی جان مارنی پڑتی ہے۔

    لے، یہاں تو ہر پیڑ کے نیچے اسکوٹر کھڑے ہیں۔۔ اور ٹوکریاں اٹھائے چھوکرے۔ چار پیسے دو اور کمبخت کوس بھر پورے مہینے کا راشن اٹھاکر لے جاتے ہیں۔

    بیٹا! یہاں تیری دال نہیں گلنے کی۔ وہ دیکھ سامنے سے سواری نکلی اور سیدھی اسکوٹر میں جا بیٹھی ہے۔ میٹر کا نمبر دیکھ رہا ہے، ایک طرح سے تو یہ لوگ سچے ہیں، میٹر دیکھا اور پیسے گن کر دے دیے، میٹر دیکھا اور چل دیے، تانگہ والوں سے تو کتنی کتنی دیر لوگ بھاڑا طے کرتے ہیں۔

    چل بیٹا! یہاں سے چلتا بن، اپنے اڈے پر ہی چلتے ہیں۔ دیکھ ایک اور بابو نکلا ہے اور اسکوٹر کو اشارہ کرکے بلا رہا ہے۔ تانگے میں بیٹھنا تو یہ لوگ اپنی بےعزتی سمجھتے ہیں۔ جہنم میں جائیں، ہماری روزی تو کوئی نہیں مار سکتا۔ چل بیٹا! اپنے اڈے کی طرف چلا چل۔

    میں بھاڑا طے کرنے کی بات کر رہا تھا۔ آج کل تو یہ بھی کسی کو نہیں آتا۔ بات کرتے ہیں جیسے کوئی لٹھ مار رہا ہو۔۔۔ ڈیڑھ روپیہ ملےگا چلنا ہے تو چلو۔۔۔ کوئی بات بھی ہوئی، ان دنوں جسے ڈیڑھ روپیہ دینا ہوتا وہ ایک سے شروع کرتا، ہمیں بھی پتہ ہوتا تھا کہ اسے آخر ڈیڑھ روپیہ تک دینا ہے، ہم دو روپیہ سے بات چلاتے اور پھر کرتے کرتے فیصلہ ڈیڑھ روپیہ پر ہو جاتا اور یوں ادھر ایک روپیہ سے ڈیڑھ روپیہ تک چڑھنے میں اور ادھر دو روپیہ سے ڈیڑھ روپیہ تک آنے میں زمانے بھر کی باتیں ہوتیں۔ منڈی کے بھاؤ، اخباروں میں چھپی خبریں، موسم کا حال، ہندو مسلم اتحاد کا ذکر۔

    بھاؤ طے کرنے کے بھی لوگوں کے الگ الگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔ کئی سواریاں تو اپنی جگہ کھڑی دور سے ہی بات کرتی ہیں، کئی تانگے کے پاس آکر، چھت کی کمانی پکڑ کر بات کرتی ہیں۔ کئی تانگے کی سیٹ پر بیٹھ کر بھاڑا طے کرتی ہیں، کئی تانگا چلنے پر سودا شروع کرتے ہیں، کئی ٹھکانے پر پہنچ کر اپنی من مرضی کے پیسے تانگے والے کی ہتھیلی پر رکھتے ہیں اور پھر پانچ پانچ دس دس پیسے کرکے جیب سے نکالتے جاتے ہیں۔ تانگے والے کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ چار پیسے زیادہ بٹورلے، سواری کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ چار پیسے بچا لے۔

    کیوں بیٹا! پانی پیوگے؟ تجھے پیاس لگ رہی ہوگی۔ آج کل حوض ڈھونڈنے کے لیے بھی کوس بھر چکر لگانا پڑتا ہے، پہلے تو ہر سڑک پر، ہر کونے میں حوض بنے رہتے تھے۔ انگریزوں کے راج میں تو تانگے والوں کے لیے کوارٹر بھی بنے تھے، سب کے لیے نہ سہی، پر انگریز کو ہماری فکر تو تھی۔ اب تو تانگے کی کوئی پوچھ ہی نہیں۔ ان اسکوٹر والوں نے ستیاناس کر دیا ہے۔ راولپنڈی کے ’بھاپے‘ موج میں آ جائیں تو سواری کو مفت بٹھا کر لے جاتے ہیں اور راستے میں پرائی عورت سے میٹھی میٹھی باتیں کر لیتے ہیں یا پھر سامان اتار رہی سواری کی کوئی چیز کھسکا لیں گے۔

    اللہ جھوٹ نہ بلوائے۔۔۔ مہاجا نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ایک سواری نوٹوں سے بھرا ہوا بٹوا میری پچھلی سیٹ پر چھوڑ گئی تھی۔ مجھے ساری رات نیند نہیں آئی۔ اگلی فجر کو پہلی بات، میں نے اس کا بٹوا اسے جا لوٹایا۔ بابو جیسے گھوڑا بیچ کر سو رہا تھا، یہ جان کر کہ اس کا بٹوا گم ہو گیا تھا، بابو کو غش آ گیا، بابو سامنے بےہوش پڑا تھا اور میری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ ایک مولانا اپنی صندوقچی میرے تانگے میں بھول گئے، اس کی بیٹی کا بیاہ ہو رہا تھا، نئے کپڑے کے تھان، آٹے دال کی بوریاں، جہیز کے برتن، کٹورے لوٹے اور تھالیاں، سارا سامان اتار کر لے گئے، بس گہنوں کی صندوقچی چھوڑ گئے۔ رات ہی رات جاکر میں نے صندوقچی ان کے حوالے کی۔ میں نے سوچا، جب مولانا کو پتہ چلے گا کہ گہنوں کی صندوقچی وہ کھو بیٹھے ہیں تو ان کے گھر کہرام مچ جائےگا۔۔۔ اور وہی بات ہوئی۔

    جب میں ان کے یہاں پہنچا تو وہاں ماتم چھایا ہوا تھا۔ مولانا کے دست چھوٹ رہے تھے اور تو اور۔۔۔ ایک بار ایک کرانٹن میرے تانگے میں بیٹھی، شام کا وقت تھا، ڈھیر سارے اس کے بچے تھے، پلوں کی طرح چوں چوں کر رہے تھے، تانگے میں بیٹھتے ہی کرانٹن نے گودی کے بچے کو اگلی سیٹ پر سلا دیا۔ اترتے وقت اپنے سارے بچوں کو لے گئی پر گود والے بچہ کو بھول کر چلی گئی۔ میں نے تانگے سے اتر کر پیسے لیے اور پھر پان بیڑی لینے سامنے پوربیا کے ہاں جا کھڑا ہوا۔ کچھ دیر پان کھاکر بیڑی پیتا رہا۔ جب لوٹا تو دیکھا کہ کرانٹن کا گود کا بچہ مزے سے اگلی سیٹ پر سویا ہوا تھا۔

    لے بیٹا! باتیں کرتے کرتے ہم اڈے پر آن پہنچے، سواری بس آئی کہ اب آئی، اتنی دیر تو چارے میں ذرا منہ مارلے، مسالہ آج شام سے پہلے پہلے تجھے ضرور کھلانا ہے، یہ وعدہ ہے۔ مرد کی زبان ہوتی ہے، تو گھاس میں منہ مار لے، تجھے بھوک لگی ہوگی، تیسرا پہر ہونے کو ہے، میں تب تک بیڑی پی لیتا ہوں۔

    نہیں کوئی سواری آئی؟ بیٹھے بیٹھے شاید میری آنکھ لگ گئی تھی، آج کل موسم ہی کچھ ایسا ہے، گرمی جا رہی ہے، جاڑا ابھی آیا نہیں۔ نیند بہت آتی ہے۔ چاہے کوئی سواری آئی ہی ہو۔۔ اور مجھے سوتا دیکھ کر نکل گئی ہو۔ ضرور کوئی سواری آئی ہوگی، اتنی دیر ہمیں انتظار کرتے ہو گئی، سواری ضرور آئی ہوگی۔

    اگر پہلے آئی تھی، تو اب بھی آئے گی، سامنے کچہری میں سے کئی لوگ نکلے ہیں، تانگے کی سواریاں لگتی ہیں۔ سالم تانگہ کر لیں گے؟ یہ تو شاہدرہ یا مہرولی کی سواریاں ہیں، ایک چکر اور سمجھو کہ سارے دن کی روٹی نکل آئی۔ سنار کی کھٹ کھٹ اور لوہار کی ایک ہی چوٹ۔ لو یہ تو بس کے اڈے کی طرف ہولیے اور بس بھی سامنے آ رکی ہے، دوڑ کر بس میں جا بیٹھے ہیں۔ کیسے سواریاں لدی ہوئی ہیں بس میں، آدمی پر آدمی چڑھا ہوا ہے لیکن یہ لوگ بس میں ضرور بیٹھیں گے۔ میں کہتا ہوں، اتنے پیسے مجھے دیتے تو میں آرام سے ٹھکانے پر پہنچا آتا۔ بس تو اڈے سے لیتی ہے اور اڈے پر چھوڑ دیتی ہے، تانگہ تو تنگ سے تنگ گلی میں چلا جاتا ہے، سواری کو گھر کے سامنے جاکر اتارتا ہے۔

    کھڑے کھڑے تم اوب گئے ہو بیٹا؟ تم بھی سچے ہو، پرچھائیاں ڈھل رہی ہیں، آج بھی کوئی سواری نہیں آئی۔۔۔ کالے لوگ آج کل تانگہ میں نہیں بیٹھتے، کوئی گوری چمڑی والا ہی آئےگا اور ساری کسر پوری کر دےگا۔

    دیکھا تونے یہ بسیں کیسا دھواں چھوڑتی ہیں؟ جیسے پچکاری چھوڑ کر گئی ہو۔ بیٹا! تیری ماں نے کبھی کالی سڑک پر لید نہیں کی تھی۔ تانگہ کی ان بے قدروں کو کیا قدر؟ میں اب کسی کالے آدمی کو اپنے تانگے میں نہیں بیٹھنے دوں گا۔ کوئی کالا آدمی اس تانگے میں نہیں بیٹھ سکےگا۔

    پرچھائیاں ڈھل رہی ہیں۔

    آج میں تھکا تھکا کیوں لگ رہا ہوں؟ بیٹا! تم بھی مجھے اداس اداس لگ رہے ہو، کھڑے کھڑے تمہاری ٹانگیں دکھنے لگیں ہوں گی؟ چلتے چلتے، دوڑتے دوڑتے، کوئی اتنا نہیں تھکتا، جتنا کھڑے کھڑے انتظار کرتے کرتے تھک جاتا ہے، تم سوچ رہے ہو بیٹا! کہ میں بیڑی پر بیڑی پیے جا رہا ہوں، یہ بری لت مجھے لگی ہوئی ہے، لیکن میں باقی کوچوانوں کی طرح سلفہ تو نہیں پیتا، گانجا تو نہیں پیتا۔ تجھے پتہ ہے کہ تانگے والے کیا کیا نشہ کرتے ہیں۔ تجھ سے کون سی بات چھپی ہے؟ میں نے کبھی بھانگ کو نہیں چھوا، دارو کو منہ نہیں لگایا، افیم سے مجھے نفرت ہے، بس ایک بیڑی پیتا ہوں، وہ بھی سب سے سستی۔ جو بھی سستی بیڑی بازار میں آتی ہے وہی پینا شروع کر دیتا ہوں۔

    پہلوان کہہ رہا تھا کہ اس بیڑی میں گھوڑے کی لید بھری ہوتی ہے، ہوتی رہے، گھوڑے کی لید تانگے والے نہیں پئیں گے تو اور کون پئےگا، ٹیکسی والے تو دارو پیتے ہیں، جس میں بکرے کا خون نچوڑا ہوتا ہے، ایک بار میں نے بھی دارو پی ہے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے، بس ایک ہی بار۔ تب میں جوان تھا۔ نوجوان لڑکوں کے ساتھ مل کر ایک دن میں نے بوتل چڑھائی تھی، تیری ماں کے زمانے کی بات ہے بیٹا۔ خود بھی چسکی لگائی تھی اور روئی کے پھاہے سے تیری ماں کے نتھنوں کو بھی گیلا کیا تھا۔ پہلے تو جیسے وہ بدک ہی گئی، پھر نشے میں اس نے آنکھیں موند لیں، تیری ماں کی کیا بات تھی! اپنے مالک کی رضا میں راضی۔

    لو پرچھائیاں بھی ڈھل گئیں۔ آج کل اِدھر پرچھائیاں ڈھلتی ہیں، ادھر رات ہو جاتی ہے۔ بتی کی فکر کروں؟ تیل تو ابھی کل ہی میں نے ڈلوایا تھا، جب سواری آئے تو بتی جلانے میں وقت برباد ہوتا ہے، سواری اور موت کا کچھ پتہ نہیں؟ کب آ جائے!

    دیکھ، سواری آ رہی ہے!

    نہیں، ٹیکسی والے نے اسے اڑا لیا۔

    وہ۔۔۔ میم آئےگی!

    نہیں، اسے تو پیچھے سے آ رہے ’صاحب‘ نے اپنی موٹر میں بٹھا لیا!

    ہجوم درہجوم سامنے گیٹ سے نکل رہے ہیں۔ ہر کوئی ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف جاتا ہے، یا ان کی اپنی موٹریں انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔

    وہ آئیں گے۔ ماں بیٹا اکیلے ہیں، ادھر ہی آ رہے ہیں۔

    نہیں، انہوں نے تو اسکوٹر روک لیا ہے، گورے بھی آج کل کنگال ہو رہے ہیں۔

    جب منہ اٹھاکر انتظار کرو تو سواری کبھی نہیں آتی۔

    بیٹا! آج تو اداس ہے! آج تو خفا خفا سا لگتا ہے، روہانسا روہانسا۔۔۔! تجھے مسالہ ضرور کھلانا ہے، میں نے وعدہ کیا ہے، آج تجھے مسالہ۔۔۔

    لے سواریاں آ بیٹھی ہیں۔ میں نے کہا تھا نا؟ ادھر دیکھنا بند کر دوں گا تو سواری آ جائے گی۔

    چل بیٹا۔۔۔!

    ’’کیوں صاحب کناٹ پلیس؟‘‘

    ’’نہیں ہمیں لودھی گارڈن جانا ہے!‘‘

    ’’چل بیٹا! اڑ کر لے چل صاحب کو۔۔ اور۔۔۔‘‘

    ’’ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، بے شک مزے مزے سے چل، تانگے والے!‘‘

    صاحب تو بولی نہیں جانتا تھا، اس کے ساتھ سمٹ کر بیٹھی ہوئی لڑکی تانگے والے کو ہدایت دے رہی تھی۔ تانگہ ابھی چار قدم ہی چلا ہوگا کہ تانگے والے نے مڑ کر سواریوں کی طرف دیکھا، یوں اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا، اسے لگا جیسے اس لڑکی کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔ نہیں، آج کل کٹے بال، سب لڑکیاں ایک جیسی لگتی ہیں۔ ہونٹوں پر ایک جیسی سرخی، گالوں پر ایک جیسی لالی۔ گھوڑا دلکی پر تھا، یہ صبح سے پہلی سواری آئی تھی۔ اندھیرا تھا تو کیا؟ تانگہ اپنی پوری شان سے گھنٹی بجاتا ہوا تیز ہو رہا تھا۔

    ’’بھئی، تانگے والے بھائی، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، رات اپنی ہے۔۔۔‘‘

    یہ آواز تو اس کی پہچانی ہوئی تھی۔ تانگے والے نے کنکھیوں سے اس لڑکی کو دیکھا۔ فرنگی نے اسے اپنی بانہوں میں بھینچا ہوا تھا۔ کجراری آنکھیں، ترچھی بھویں، گالوں پر زلفوں کے سوالیہ نشان! مہاجا سوچتا یہ آواز تو اس کی پہچانی ہوئی تھی اور پھر وہ چونک گیا۔ ہائے اللہ! کہیں یہ رائے صاحب کی بیٹی تو نہیں ہے؟ اتنے میں وہ لڑکی بولی، ’’تانگے والے بھائی، تانگہ بے شک آرام سے چلاؤ۔۔۔ ہمیں تانگہ ساری رات رکھنا ہے، جو مانگوگے سو کرایہ ملےگا۔‘‘

    یہ تو وہی ہے اور تانگے والے کے ہاتھ سے لگام چھوٹ گئی۔ مہاجا پسینہ پسینہ ہو رہا تھا اور کانپتے ہونٹوں سے اس نے لڑکی سے پوچھا، ’’بیٹی! تم دہلی کی رہنے والی ہو؟‘‘

    ’’ہاں تو!‘‘

    ’’ہیلی روڈ میں تو نہیں رہتے؟‘‘

    ’’ہاں تو!‘‘

    ’’تم رائے صاحب کشوری لعل کی۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں میں رائے صاحب کی بیٹی ہوں!‘‘

    شراب میں بدمست لڑکی اپنے انگریز ساتھی کا سگریٹ لے کر کش لگا رہی تھی۔ مہاجا نے لگام کھینچ کر تانگہ ایک دم روک لیا۔

    ’’آپ اتر جائیے تانگے میں سے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’شرافت اسی میں ہے کہ آپ اتر جائیں میرے تانگے میں سے۔۔۔‘‘ مہاجا کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں۔

    ’’اس ویران سڑک پر۔۔۔؟‘‘

    ’’میں کہتا ہوں، میں تمہیں اپنے تانگے میں نہیں لے جاؤں گا۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ مہاجا کچھ اور بولتا، وہ لڑکی اپنے انگریز ساتھی سے گٹ مٹ کرتی ہوئی تانگے میں سے اتر گئی۔ بانہوں میں بانہہ ڈالے وہ ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ دیر اور اندھیرے میں ان دونوں کے بت کھو گئے۔ مہاجا کتنی دیر، ویسے کا ویسا بھونچکا سا اندھیرے میں اس طرف دیکھتا رہا۔ پھر گھوڑے کی باگ موڑکر اپنے گھر کی جانب چل دیا۔ مہاجا پھر اپنے گھوڑے سے باتیں کر رہا ہے۔۔۔

    بیٹا! تجھے معلوم ہے کہ یہ لڑکی کون تھی؟ تجھے کیا معلوم! تیری ماں ہوتی تو ایک دم پہچان جاتی۔ رائے صاحب کشوری لعل کی بیٹی۔ پولیس کپتان ہوتے تھے۔ اسے میں اسکول لے جایا کرتا تھا، صبح اسکول چھوڑ آتا، شام کو لے آتا، اسکول بھی کون سا نزدیک تھا، برلا مندر والے اسکول میں یہ پڑھتی تھی، کچی کونپل سی! مجال ہے ایک سے دوسری بات کر جائے، کبھی آنکھ اٹھاکر اس نے آگے یا پیچھے نہیں دیکھا تھا، جب ذرا بڑی ہوئی تو رائے صاحب کہنے لگے۔۔۔ مہاجا! تو تانگے میں پردہ لگوالے۔ میں نے کہا، رائے صاحب! کسی کی مجال نہیں جو مہاجا کے تانگے کی طرف آنکھ اٹھائے۔

    ہائے کم بخت! یہ شکنتلا تھی! زمانہ کو کیا ہوتا جا رہا ہے! آگ لگ گئی ہے۔ آگ لگ گئی ہے۔۔۔

    اور یوں تڑپتے ہوئے مہاجا نے تانگے کو اپنے ڈیرے پر لاکھڑا کیا۔ خالی ہاتھ، بھوکا، پیاسا۔

    بیٹا! آج بھی وعدہ پورا نہیں ہوا، آج بھی مہاجا کو جھوٹا ہونا پڑا۔ گھوڑے کا ساز اتارتے ہوئے مہاجا نے اپنا ہاتھ گھوڑے کے دانتوں میں دے دیا اور گھوڑا آہستہ آہستہ اپنے مالک کا ہاتھ چاٹنے لگا۔

    مأخذ:

    چاندنی رات کا ستم (Pg. 164)

    • مصنف: کرتار سنگھ دگل
      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے