Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مہر بند

انور قمر

مہر بند

انور قمر

MORE BYانور قمر

    میں عرصے سے ہایپر ٹینشن HYPER TENSION کا شکار تھا۔ دراصل میں عمر کی جس منزل میں تھا اس منزل پر پہنچ کر لوگوں کو عموماً اس قسم کے عارضے ہوجایا کرتے ہیں۔ شہر میں رہنے اور سیڈینٹری لائف SEDENTARY LIFE جینے کا اتنا بھی جزیہ ادا نہ کریں!

    طبیب نے کئی قسم کے پکوان میرے حق میں مضر قرار دے دیے تھے۔ زندگی بھر، باقاعدہ علاج جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ شوق عبادت نہ تھا، تو پیدا کرنے، نیز میڈی ٹیٹ MEDITATE کرنے کی صلاح بھی دی تھی۔ گرچہ موٹرنشین نہ تھا، اس کے باوجود مجھ پر، صبح کی سیر کی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

    گھر سے دوڈھائی سو قدم کے فاصلے پر سمندر تھا، جس کے کنارے کنارے، جنوب سے شمال کو ایک سڑک جاتی تھی۔ سڑک کے انتہائی جنوب میں مچھیروں کی بستی تھی اور شمالی سرے پر مچھیرے تو بستے ہی تھے، لیکن ان کے درمیان مزور پیشہ افراد بھی اپنے کنبوں سمیت آن بسے تھے۔

    میرا معمول تھا کہ فجر سے پہلے میں حوائج ضروریہ سے فارغ ہوجاتا اور فجر ہوتے ہی گھر سے سیر کو نکل پڑتا۔ دوچار چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر میں چند ہی منٹوں میں سمندر کے کنارے پہنچ جاتا۔ چند لوگ جو مجھ سے عمر میں بڑے تھے، حسب معمول وہاں موجود ہوتے اور اپنے اپنے اشغال میں مشغول۔ کوئی پدما آسن جمائے گیان دھیان میں محو ہوتا، کوئیP.T. ورزشیں کرتا، تو کوئی ’’پرانایاما‘‘ کے ذریعے سواس بھرنے اور چھوڑنے کی مشق کرتا۔ دوچار غالباً اپنے فرائض سے اس وقت تک فارغ ہوچکے ہوتے، لہذا بینچوں پر بیٹھے وہ خوش گپیاں کیا کرتے۔

    لیکن وہ، ان سبھوں سے دور، بالکل الگ تھلک بیٹھا، سمندر کو ٹکٹکی باندھے دیکھا کرتا۔ میں جانتا تھا کہ نظریں تو اس کی افق میں گڑی ہیں، لیکن ذہن کہیں اور غلطاں و پیچاں ہے۔ جسم موجود ہے مگر روح عالم دیگر کی سیر کر رہی ہے۔

    میں اکثر اسی کے متعلق سوچتا ہوا اس دو ڈھائی کیلومیٹر لمبی سڑک کے شمالی سرے تک جاپہنچتا اور لوٹ کر تقریباً گھنٹے بھر بعد، پھر اسی مقام پر آتا، تو اسے وہاں نہ پاکر مجھے مایوسی ہوتی۔ مجھے لگتا کہ فریم تصویر سے خالی ہوچکا ہے اور منظر کس قدر اجڑا اجڑا سا لگ رہا ہے۔ گھر لوٹتے ہوئے بھی میں اسی کے متعلق سوچتا۔ کہاں گیا ہوگا؟ اگر اپنے گھر گیا ہے تو اس کا گھر کہاں ہے؟ کیا اسی علاقے میں؟ کس عمارت میں رہتا ہوگا؟ یہاں پر سیکڑوں چھوٹی بڑی عمارتیں ہیں۔ یہ تنہا رہتا ہے یا اپنے کنبے کے ساتھ؟ کیا کرتا ہوگا یہ دن بھر؟ اخبار تو سبھی پڑھتے ہیں۔ اس کی عمر کے لوگ تو اشتہار بھی نہیں چھوڑتے! یہ کم خور ہے یا بسیار خور؟ اپنے حلیے سے تو بلا کا ڈسپلنڈ DISCIPLINED آدمی لگتا ہے۔ چست اور پھرتیلا! اسے گھر کے بچوں کو پارک میں لے جانا تو نہیں پڑتا؟ اسکول کے دیے ہوئے ہوم ورک میں کیا یہ ان کا ہاتھ بٹاتا ہوگا؟

    شام میں ٹی وی ضرور دیکھتا ہوگا۔ اس کا پسندیدہ سیریل کون سا ہے؟ کہیں اسے شام ڈھلے چراغ جلانے کی لت تو نہیں؟ دوڈھائی پیگ لینے کے بعد اس کے ذہن میں کیسے کیسے رومانی خیال آتے ہوں گے۔ بچپن کی شرارتیں، جوانی کی لغزشیں اور سمجھے بوجھے عشق کے داؤپیچ یاد کرکے یہ مسکرادیا کرتا ہوگا۔ اسے وکل VOCAL سنگیت پسند ہے یا انسٹرومینٹل INSTRUMENTAL؟ کون ہے اس کا پسندیدہ کلاکار؟ سونے سے پہلے کیا اس کے رشتے دار اسے دن بھرکی روداد سناتے ہوں گے؟ کیا یہ آپس میں سماجی اور سیاسی مسئلوں پر بات چیت کرتے ہوں گے؟ ان کے افکار یقیناً جدا جدا ہوں گے، تاہم گھر کا بزرگ ہونے کے ناطے سبھوں کو اس کے نظریے سے اتفاق کرنا پڑتا ہوگا۔

    یہ اور ایسے سیکڑوں خیالات اس کے متعلق میرے ذہن میں آتے۔ کبھی میں ان سے لطف اندوز ہوتا تو کبھی ڈسٹربڈDISTURBED۔

    عرصہ ہوا میں بھول چکا تھا کہ طبیب نے ہایپرٹینشن سے راحت پانے کی غرض سے مجھ پر صبح کی سیر فرض قرار دی تھی مگر اب میں اسی شخص کی دید کا اشتیاق لے کر گھر سے نکلا کرتا تھا۔ جوں ہی میں اسے بینچ پر بیٹھا ہوا دیکھ لیتا، توں ہی مجھے قرار آجاتا۔

    ایک روز میں اس سے کچھ فاصلے پر بچھی ہوئی بینچ پر جابیٹھا۔ اس روز میں تہیہ کرچکاتھا کہ اس شخص کا مکمل احوال معلوم کیے بنا نہ رہوں گا۔ وہ شخص بدستور سمندر کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ سمندر شانت تھا، کافی فاصلے پر ایک لائٹ ہاؤس تھا، جس کی جانب ایک موٹر بوٹ دھواں اڑاتی چلی جارہی تھی۔ چند آبی پرندے چارے کی تلاش میں سمندر پر چکرارہے تھے اور کبھی کبھار سمندر کی سطح پر غوطہ بھی لگادیتے تھے۔

    میں کسی صورت اس کے مینٹل فریم MENTAL FRAME میں داخل ہوجانا چاہتا تھا اور جاننا چاہتا تھا کہ اس وقت اس کی فضا کا اس پر کیا اثر ہو رہا ہے۔

    ایک طریقہ تو یہ تھا کہ میں اس سے رسم و راہ پیدا کرتا، پھر رفتہ رفتہ اس کے متعلق وہ ساری باتیں معلوم کرلیتا جن کے جاننے کا میں مشتاق تھا۔ دوسری ترکیب یہ تھی کہ ایک ملاقاتی کی حیثیت سے اس سے ملتا اور اس کی ڈسپلنڈ لائف DISCPLINED LIFE کی تعریف میں چند جملے کہنے کے بعد اس کے ذاتی احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا لیکن مجھ میں ایسا کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہ تھی۔ لہٰذا میں بنچ پر پہلو بدلتا، اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔

    اپنے مقررہ وقت پر وہ اطمینان سے اٹھا، پھر اس نے بڑی شردھا سے سوریہ کو نمسکار کیا۔ غالباً وہ آج کے رچولس RITUALS مکمل کر چکا تھا، لہٰذا وہ جنوبی سمت میں واقع مچھیرو ں کی بستی کو چلا۔ اپنے اور اس کے درمیان کچھ فاصلہ قائم کرکے میں اس کے تعاقب میں روانہ ہوا۔ بستی میں چہل پہل شروع ہوچکی تھی۔ وہ جھونپڑوں کے درمیان بنی ہوئی تنگ راہوں سے گزرتا ہوا، بستی کے آخری سر ے پر جاپہنچا۔

    بستی کے اس سرے پر پتھریلا ساحل تھا۔ سمندر میں چوں کہ جزر تھا، لہٰذا چٹانیں ننگی ہوچکی تھیں۔ ایک لمحہ گنوائے بغیر وہ ان پر نپے تلے قدم رکھتا ہوا سمندر کے متوازی آگے بڑھنے لگا۔ اس راستے وہ ایک اور چوڑی سڑک کی سمت چلا جارہا تھا، جو انتہائی جنوب میں ایک ٹیلے تک جاکر ختم ہوجاتی تھی۔ تین چار منٹوں میں وہ اس سڑک پر پہنچ گیا۔ چونکہ چٹانیں سیلن زدہ تھیں، لہٰذا مجھے ان پر اپنا قدم رکھتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا۔ دو ایک بار میں پھسلا بھی اور ان کی رگڑ سے اپنی ٹانگ چھلوا بیٹھا۔ اس کے باوجود میں نے تعاقب جاری رکھا اور بالآخر میں بھی اس سڑک پر پہنچ گیا۔

    سڑک پر موٹروں کی آمد و رفت نہ ہونے کی بناپر، سڑک ویران پڑی تھی۔ کبھی کبھار کوئی موٹر کسی وحشت زدہ عورت کی طرح چیختی چلاتی تیز رفتار سے گزرجاتی۔ اکا دکا راہ گیر اِدھر اُدھر آجارہے تھے، لیکن اس کا دور دور تک کہیں نام و نشان نہ تھا۔ میں طے نہ کرپایا تھا کہ وہ دائیں جانب گیا ہے یا بائیں۔ دل کہتا تھا کہ تو دائیں اور بڑھ، وہ اسی سمت گیا ہے۔ دماغ قدم روکتا تھا۔ اسی کشمکش میں دوڈھائی منٹ گزر گئے۔ آخر کار میں دل کی آواز پر لبیک کہتا ہوا دائیں جانب چل پڑا۔

    قدم تیزی سے اٹھتے چلے جارہے تھے۔ اپنی غیرمعمولی رفتار پر مسرت ہو رہی تھی۔ عرصے تک صبح کی گئی سیر کا فیض مجھے اب مل رہا تھا۔ ایک شخص اچانک مجھے اپنی طرف آتا ہوا دیکھائی دیا۔ چند لمحوں میں وہ میرے قریب آگیا۔ میں نے اسے روکا۔ پھر اسے اس آدمی کا حلیہ بتاکر پوچھا کہ کیا اس حلیے کا آدمی راہ میں اسے دکھائی دیا ہے۔ اس نے اثبات میں گردن ہلائی اور سڑک کے بالکل آخری سرے پر واقع ایک اجڑی ہوئی سی گول عمارت کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا کہ اس نے مذکورہ شخص کو اس عمارت میں داخل ہوتے ہوئے چند منٹ پہلے دیکھا ہے۔ اس کا شکریہ ادا کرتا ہوا میں اس مکان کی جانب چل پڑا۔

    جوں جوں میں مکان کے قریب ہوتاجاتا تھا، توں توں مکان کی ہیئت واضح ہوتی جاتی تھی۔ مکان بیلن نما تھا اور دومنزلہ تھا۔ پلاستر یا تو اس پر شروع ہی سے کیا نہیں گیا تھا یا مرور زمانہ کے ہاتھوں جھڑ چکا تھا۔ اس کی چھت پر نہ تو کوئی انٹینا تھا، نہ کسی قسم کی کوئی اور فیٹنگ۔ اس کی کسی منزل سے کوئی تار باہر کو جھولتا ہوا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کی تقریباً دو درجن کھڑکیوں پر پلائی چڑھاکر انہیں مہربند کردیا گیا تھا۔ اس ترکیب سے عمارت کے متعدد دروازے بھی سیل SEAL کردیے گئے تھے۔

    میں نے اپنی حیرت و استعجاب پر قابو رکھتے ہوئے اس پراسرار عمارت کے دوتین چکر لگائے۔ میری کوشش تھی کہ میں اس عمارت کا کوئی ایسا دروازہ ڈھونڈ نکالوں جو مہر بند نہ ہو اور میں اس راستے سے عمارت میں داخل ہوجاؤں۔

    جب میں عمارت کے دوچار چکر لگاچکا تو مجھے اچانک خیال آیا کہ اس راہ گیر نے میری غلط راہنمائی تو نہیں کی اور مجھے مسخرہ بناکر چلتا بنا۔ جی میں آیا کہ ایک آخری چکر عمارت کے گرد اور لگالوں اور خوب ٹٹول ٹٹول کر ہر ہر دروازے کو دیکھ لوں۔ اپنی ناکامی کا اعتراف کرلینے سے قبل اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لانا کسی حد تک لازمی تھا۔

    پہلا، دوسرا، تیسرا، غرض یہ کہ میں نے چھے دروازے دیکھ لیے، وہ سب کے سب مکمل طور پر بند تھے۔ بادل ناخواستہ میں ساتویں دروازے کو ایک نابینا کی طرح ٹٹولنے لگا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ دروازہ میرے ہاتھ کے دباؤ سے اندر کی طرف کھل گیا۔ اندر اندھیرا تھا، یا کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا، اس کااندازہ میں فوراً نہ کرسکا۔ میرے حواس معذور ہوچکے تھے اور میری راہنمائی نہیں کر پا رہے تھے۔ اس کے باوجود میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔ چند قدم آگے مجھے دھواں چھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ آگے انتہائی کمزور پیلی سی روشنی ہو رہی تھی۔ لہذا میری ہمت بندھی، میں آگے بڑھا۔ سارے میں ایک ناقابل بیان بو سی پھیلی ہوئی تھی، ایسی بو جو عرصے تک مکان بند رکھنے سے کمروں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ آگے ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی، جس پر چادر تانے کوئی سو رہاتھا۔ میں چارپائی کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ میں نے اس کمزور پیلی سی روشنی میں دیکھا، چارپائی پر ایک جواں سال لڑکا سو رہا ہے۔ رسوئی میں استعمال ہونے والا سامان زمین پر بے ترتیبی سے پڑا ہے۔

    میں نے آہستہ سے آواز دی، ’’میاں! آنکھیں کھولو۔‘‘

    لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ اس نے دھیمی آواز میں پوچھا، ’’آپ۔۔۔ آپ کو ن ہیں؟‘‘

    اب میرے لیے اپنا تعارف کرانا مشکل ہوا۔ کچھ سوچ کر میں نے کہا، ’’اسی علاقے میں رہتا ہوں، ایک صاحب سے ملنے آیا ہوں۔‘‘

    ’’سوائے میرے، اس عمارت میں اور کوئی نہیں رہتا۔‘‘

    ’’تمہارے والد، یا کوئی اور رشتے دار؟‘‘

    ’’جی نہیں، میرے والد کا تو عرصہ ہوا، انتقال ہوچکا ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ میں نے لہجے سے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

    اس درمیان میں میں کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ وہ کرسی ایسی تھی کہ جس کا ہتھا اکھڑ چکا تھا۔ لڑکا بھی اٹھ کر دیوار کے سہارے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’اس عمارت میں اندھیرا کیوں ہے، اس کی کھڑکیاں اور دروازے کیوں مہربند کردیے ہیں؟‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم، ابا کہتے تھے یہ عمارت شروع ہی سے اسی وضع کی ہے۔‘‘

    ’’مگر انہوں نے ان کھڑکیوں اور دروازوں کو کھولنے کی کوشش نہیں کی؟‘‘

    ’’جی نہیں، ان کا کہنا تھا یہ عمارت جس حال میں ہمیں نصیب ہوئی ہے، ہمیں اِسے اسی حال میں رکھنا چاہیے، ہم کون ہوتے ہیں، اس کی وضع بدلنے والے۔‘‘

    ’’تمہارے والد کا انتقال کب ہوا؟‘‘

    ’’برسوں بیت گئے۔ میں بہت چھوٹا تھا۔ سات، آٹھ سال کا۔‘‘

    قدرے توقف کے بعد اس نے کہا، ’’ایک بات پوچھوں؟‘‘

    ’’ضرور پوچھو!‘‘ میں بولا۔

    ’’کہیں آپ کسی شخص کے تعاقب میں تو یہاں تشریف نہیں لائے؟‘‘

    ’’کیا؟‘‘ میں نے انتہائی حیرت کا اظہار کیا۔

    ’’سال میں دوچار افراد کسی ایسے ہی پراسرار شخص کا سراغ ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک آجاتے ہیں۔‘‘

    میں اپنی خفت مٹانے کو بولا، ’’یہ سچ ہے کہ میں ایک شخص کے تعاقب ہی میں یہاں آیا ہوں، بہرحال میں نہیں جانتا کہ اب وہ کہاں ہے۔‘‘

    اس نے کہا، ’’وہ جو کوئی بھی ہو، میں اس کے وجود سے قطعی لاعلم ہوں۔ بہرصورت میرے والد بڑے متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ وہ گھنٹوں سمندر کے کنارے بیٹھے یاد الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اکثر ان کا توشہ، سمندر سے آتا تھا۔‘‘

    ’’سمندر سے آتا تھا۔۔۔‘‘ میں تقریباً چیخ کر بولا، ’’تمہارے والد سمندر کنارے۔۔۔؟‘‘

    مجھے اپنے حواس معطل ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں اپنے پر قابو پاتے ہوئے بولا:

    ’’تم کہہ رہے تھے کہ ان کا توشہ سمندر سے آتا تھا۔ تم دل لگی تو نہیں کر رہے ہو مجھ سے۔‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔ جانے کیوں آپ کو میری بات ناقابل یقین لگ رہی ہے۔‘‘ اس کے لہجے سے خفگی عیاں تھی۔ اس نے پھر کہا، ’’آپ نے اب تک میرے طریق زندگی پر توجہ نہیں کی۔ میں نے اس عمارت میں اپنے آپ کو محصور کرلیا ہے۔ میں اس کی حدود سے باہر نہیں جاتا۔ میں نے اس دنیا کا داخلہ اپنے اوپر بند کرلیا ہے۔‘‘

    ’’لیکن تمہارے والد نے تو کوئی حصار اپنے گرد نہیں کھینچا تھا۔ ابھی تم کہہ رہے تھے کہ ان کا تو دنیا جہاں سے باقاعدہ تال میل تھا۔‘‘

    ’’یقیناً تھا۔ یوں تو میری بھی رسم و راہ کسی حدتک دنیا والوں سے تھی۔ ایک روز میں اپنے والد کے ساتھ سمندر کنارے بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص بڑی ہیبت کے عالم میں میرے والد کے قریب آیا اور کہنے لگا کہ اس بچے کو اکسپوژر EXPOSURE سے بچاؤ۔ اس پر پردہ چھوڑو۔ والد نے تابڑ توڑ مجھے چادر میں ڈھک لیا اور گود میں لیے گھر آگئے۔ اس دن کے بعد میں نے اپنی دہلیز کے باہر قدم نہیں رکھا۔‘‘

    ’’تو کیا، تمہارے لیے اب اس دنیا میں کوئی کشش باقی نہیں رہی؟‘‘

    ’’قطعی نہیں۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ اس نے پھر کہا، ’’اب یہ دنیا قطعاً ویسی نہیں رہی۔ آپ ہی بتائیے، آپ کے لیے اس میں کیا کشش ہے؟‘‘ اس سوال کا مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ وہ مجھے الجھن میں ڈال چکا تھا۔ میں کیوں کر اس بات کایقین کرلیتا؟ میں یہ بھی سوچ رہاتھا کہ اس کے، اپنے آپ کو، اس قدر پراسرار ظاہر کرنے میں آخر کیا تک تھی۔ کہیں اشارے کنایوں میں یہ مجھے رموز زندگی تو نہیں سمجھا رہاتھا۔ یہ مجھ سے کیا توقع رکھتا ہے۔ میں نے پوچھا، ’’اس عمارت میں سدا قید رہنے سے تمہارا جی نہیں گھبراتا؟‘‘

    ’’نہیں جناب! نہ میں قید ہوں نہ اس عمارت کے حصار میں۔ شاید آپ کو علم ہو کہ ہر عمارت میں ایک تہہ خانہ ہوتا ہے۔ اس عمارت میں بھی ہے۔ تہہ خانے اگر استعمال میں نہیں رکھے جاتے تو ان میں حشرات الارض بسیرا کرنے لگتے ہیں۔ ابا نے جب مجھے باہر کی دنیا سے پردہ کرلینے کی ہدایت کی تو انہوں نے اس تہہ خانے سے بھی مجھے واقف کرادیا۔ انہوں نے یہ بات بھی میرے ذہن نشین کرائی کہ جب بھی دل گھبرائے یا حبس محسوس ہو تو میں اس تہہ خانے میں اترجایا کروں۔ میرا اضطراب کم ہوگا اور تازہ دم ہوجایا کروں گا۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’تو کیا تم تہہ خانے میں اترا کرتے ہو؟‘‘

    ’’اکثر، کبھی دن میں دودو، تین تین بار اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ میں وہاں سے سطح پر آتا ہی نہیں۔ دو دو، چار چار، روز کے لیے میں وہیں رک جاتا ہوں۔‘‘

    اس لڑکے کی باتیں اب میری فہم سے بالاہوتی جارہی تھیں۔ وہ اسرار کی تہوں میں چھپا چلاجارہا تھا۔ میں نے ازراہِ گفتگو کہا، ’’کہاں ہے وہ تہہ خانہ؟‘‘ اس نے شہادت کی انگلی سے مغربی دیوار میں بنے ہوئے ایک دریچے کی طرف اشارہ کیا، ’’وہ رہا۔‘‘

    میں بولا، ’’کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘

    اس نے کہا، ’’یقیناً۔ پر ذرا ٹھہریے، میں آپ کو لالٹین لادوں۔‘‘

    وہ آہستہ سے اٹھا۔ اس نے چارپائی کے پیچھے سے لالٹین نکالی۔ اس کی چمنی صاف کی، اس کی بتی اونچی کی پھر چولہے کے پاس پڑی ماچس سے اسے روشن کیا۔ لالٹین کے روشن ہوتے ہی سارا کمرہ مجھ پر ایک کتاب کی طرح کھل گیا۔ ہر چیز انتہائی قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔ اس کا بستر پاک و صاف تھا۔ تکیے کے غلاف پر کوئی دھبہ نہ چادر پر۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ ناگوار سی بو اب تازہ پھولوں کی خوشبو میں بدل چکی تھی۔ میں نے اسی روشنی میں دیکھا کہ لڑکے کا چہرہ کلین شیو ہے۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور روشن ہیں۔ ناک ستواں ہے اور پیشانی کشادہ۔ وہ تازہ دھلے ہوئے مشرقی وضع کے کپڑوں میں ملبوس تھا۔

    وہ میرے ساتھ ساتھ اس دریچے تک آیا۔ اس کی کنڈی کھسکائی، اور دریچہ کھول دیا۔ دریچے کے کھلتے ہی تازہ اور فرحت بخش ہوا کاجھونکا آیا۔ اس نے وہ لالٹین مجھ کو تھماتے ہوئے کہا، ’’اسے سنبھالیے اور ذرا احتیاط سے سیڑھیاں اتریے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ کے لوٹنے تک میں چائے دم کر رکھوں گا۔‘‘

    مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میں کسی بھنور میں آپڑا ہوں۔ میں کس غرض سے سیر کو نکلا کرتا تھا۔ میں نے اس شخص میں بلاوجہ دل چسپی لی۔ ایسی کون سی ادا بھاگئی مجھے اس کی کہ میں اپنا کام دھندا چھوڑ کر اس کا پتا ٹھکانا معلوم کرنے پر آمادہ ہوا۔۔۔ اب جو اس عمارت میں داخل ہوا ہوں تو وہ شخص تو لاپتا ہے، اس لڑکے سے رسم و راہ پیدا ہوچکی ہے اور اس کے موہ میں آکر ایک تہہ خانے میں۔۔۔ جس میں تاریکی ہی تاریکی ہے۔۔۔ اترنے پر کمربستہ ہوں۔ کیا میں اپنی سوجھ بوجھ کھو چکا ہوں، یا میری قوت تمیز زائل ہوچکی ہے۔ میں کسی طلسم کا شکار تو نہیں ہوں!

    لڑکے نے زیر لب مسکراکر پوچھا، ’’آپ کس سوچ میں پڑگئے؟‘‘

    ’’کیا بتاؤں، اپنے اعمال، اپنی حرکات غرضیکہ اپنی زندگی کی بے معنویت کا مجھے اچانک احساس پیدا ہوا ہے۔ میں سراغ رساں ہوں، نہ پچھلے عہد کا کوئی خلیفہ، جو دوسروں کے آلام و مصائب دور کرنے کی خاطر گھر سے نکلا کرتا تھا۔ میری حقیقت اس بھٹکے ہوئے مسافر کی سی ہے، جسے اپنی منزل کاپتہ نہیں، نہ سہی، اپنے مسکن کا علم تو سبھوں کو ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے اپنے مسکن کو لوٹ جانا چاہیے۔‘‘

    میں نے آہستہ سے دریچہ بند کردیا۔ چٹخنی چڑھادی اور نڈھال قدموں سے پھر اسی کرسی پر آبیٹھا۔ مجھے پر شاک لگا۔ اس کرسی کے دونوں دستے صحیح و سلامت تھے۔ چند منٹوں میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر چائے پی۔ چائے پیتے پیتے وہ بدستور مسکرائے جارہا تھا۔ جانے کیوں اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر مجھے اس پر غصہ نہیں آیا۔ چائے ختم کرکے میں اٹھا، ’’اچھامیاں، چلتا ہوں، خوش رہو۔‘‘

    یہ بول کر میں نے اپنا ہاتھ مصافحے کے لیے بڑھادیا۔ اس نے جھک کر بڑے تپاک سے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولا، ’’خداحافظ۔‘‘

    میں عمارت سے باہر جانے کے لیے دروازے کی طرف چلا تو میں نے دیکھا کہ عمارت کے بالکل وسط میں کھڑا ہوں، میرے چاروں طرف دروازے ہی دروازے ہیں پر سبھی دروازے مقفل! میری دشواری کا اندازہ غالباً وہ کرچکاتھا۔

    ’’دائیں سے ساتواں دَر۔‘‘

    اس نے مشکل کشائی کی۔ ایک پل گنوائے بغیر میں اس دروازے تک جاپہنچا۔ جوں ہی دروازے کو میں نے اپنی جانب کھولا، توں ہی دروازہ کھل گیا۔ میں نے الوداعی نظر اس پر ڈالی اور اس تہہ خانے پر بھی۔ اس درمیان میں وہ میرے قریب آچکا تھا، مسکراہٹ بدستور اس کے لبوں پر کھیل رہی تھی۔ باہر کی روشنی میں اس کا چہرہ تازہ گلاب کا سا لگ رہاتھانیز اس کی آنکھوں سے رحمت ٹپک رہی تھی۔

    ’’سنیے۔‘‘

    میرے قدم رک گئے۔

    ’’برانہ مانیں تو ایک بات کہوں۔‘‘

    میں خاموش رہا۔

    قدرے توقف کے بعد وہ بولا، ’’آپ اوروں کی ٹوہ میں نہ رہا کریں۔ اس کے بجائے آپ اپنا گم شدہ تلاش کریں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ خلاء میں گھورنے لگا۔ مانو میرے بجائے میرے ہم زاد سے مخاطب ہو!

    وہ پھر بولا، ’’آپ کی دنیا کی تقریباً ہر عمارت میں لفٹ ہے، پر دکھ کی بات یہ ہے کہ لفٹ اوپر ہی کو جاتی ہے۔۔۔‘‘

    کچھ وقفے کے بعد وہ گویا ہوا، ’’بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہر عمارت میں ایک تہہ خانہ بھی ہوتا ہے۔ آپ کی عمارت میں بھی ہے۔ اس کی صفائی کرائیے۔ اس میں روشنی کیجیے، پھر تہہ خانے میں اتریے۔ دیکھیے کہ تہہ خانے کے راستے آپ کہاں پہنچتے ہیں۔۔۔‘‘

    تشکر آمیز نظروں سے میں نے اسے آخری بار دیکھا۔ وہ بدستور مسکرائے جارہاتھا۔ پھر میں اس عمارت کے باہر چلا آیا۔ میرے باہر نکلتے ہی وہ دروازہ بند ہوگیا۔ میں نے اِردگرد نظر ڈالی تو دیکھا باہر کی دنیا میں وہی لیلا رچی ہوئی تھی۔

    مأخذ:

    کلر بلائنڈ (Pg. 33)

    • مصنف: انور قمر
      • ناشر: قلم پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے