Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منگل سوتر

سلمی صدیقی

منگل سوتر

سلمی صدیقی

MORE BYسلمی صدیقی

    ایک بڈھا آدمی مردہ خانہ میں داخل ہوا۔ لاش کے چہرے پر سے چادر ہٹائی گئی۔ وہ جھجک کر پیچھے ہٹ گیا۔

    پولیس کے آدمی نے پوچھا ’’یہ چھوکری تمہارا ہے سیٹھ؟‘‘

    بڈھے آدمی نے ماتھے سے پسینے کے قطرے پونچھے۔ ہونٹ بھینج کر بولا، ’’یہ میری بیٹی کی لاش نہیں ہے۔ اس کے گلے میں تو منگل سوتر پڑا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔ اور میری بیٹی کنواری تھی۔ یہ تو کسی ہندو نوبیا ہتا کی لاش ہے۔‘‘ بوڑھا آدمی سر جھکائے ہوئے، چہرہ رومال سے ڈھانپے ہوئے مردہ گھر کے دروازے سے باہر نکل گیا۔

    ایک جوان مرد مردہ گھر میں داخل ہوا۔ لاش کے چہرے سے چادر ہٹائی ہے تو وہ چونک کے ایک قدم آگے بڑھ گیا۔

    پولیس کے آدمی نے پوچھا، ’’یہ تمہارا عورت ہے سیٹھ؟‘‘

    مرد نے پیشانی پہ ہاتھ پھیرا کچھ دیر سوچا، آنکھیں بند کر لیں اور سر جھکا کر بولا، ’’میں کنوارا ہوں۔ میرا نام نرمل کمار ہے۔ یہ عورت نوبیاہتا ہے۔ اس کے گلے میں تو منگل سوتر پڑا ہے۔ یہ میری عورت کیسے ہو سکتی ہے بھائی؟‘‘

    جوان مرد ناک پہ رومال رکھے جلدی سے مردہ گھر سے باہر نکل گیا۔

    باہر سے مردہ گھر کے دروازے پر تالا ڈال دیا گیا۔ اور پھر اچانک اپنے منہ پر سے چادر ہٹا کر نوبیاہتا لڑکی ایک لمبی سی انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھی۔ وہ آدھی سوئی اور آدھی جاگی ہوئی سی نظر آتی تھی۔ اور اس کے چہرے پر ہنسی آئی ہوئی سی محسوس ہوتی تھی۔ برابر پڑی ہوئی لاشیں اس کے اٹھ بیٹھنے سے سہمی ہوئی نظر آرہی تھیں لیکن وہ لڑکی اپنی ساتھی لاوارث لاشوں سے بالکل نہیں ڈری۔ اس نے ہنس کے ایک بھکارن کی لاش سے کہا، ’’تو گھبرامت اے نادار بھکارن! شام تک ضرور کوئی بھکاری تجھے پہچان کے اپنے ساتھ لے جائے گا۔ شمشان گھاٹ تک تیرا ضرور کوئی وارث ہوگا۔ اس لیے کہ تیری مانگ میں سیندور نہیں ہے اور تیرے گلے میں منگل سوتر نہیں ہے۔‘‘

    اور پھر اس لڑکی نے نیم خوابیدہ حالت میں اس بھکارن کی بدبودار لاش سے مخاطب ہو کے کہنا شروع کیا،

    ’’جانے تمہارا کیا نام ہے۔ لیکن اس مردہ گھر میں آنے سے پہلے میرا نام زرینہ تھا۔ زرینہ بیگم۔ میری ماں کا نام ریحانہ بیگم تھا۔ لیکن اسے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ بچپن سے میں نے صرف اپنے باپ کو دیکھا۔ میرا باپ سب باپوں کی طرح چاہنے والا باپ تھا۔ اور یہی چاہت اس کی اور میری سب سے بڑی بدنصیبی تھی۔ چاہت بدنصیبی کا دوسرا نام ہوتا ہے۔‘‘

    بھکارن کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی، ناک سکوڑ کر وہ بولی، ’’اور وہ صرف میرے حصّے میں آئی تھی۔ میں اس بدنصیبی کو پہچانتی ہوں۔ آگے چلو۔‘‘

    ’’آگے کہاں چلوں میری بھکارن۔ ہم تو اب اتنے آگے چلے آئے ہیں۔ کہ آگے کوئی راہ نہیں ہے چلنے کے لیے میرے باپ نے میری وجہ سے دوسری شادی نہیں کی۔ ہردم مجھے ساتھ ساتھ رکھتے تھے ابا جان۔ تم نے میرے ابا جان کو دیکھا ہے نا؟‘‘

    پرسوں شام جب ہم نے ساتھ بیٹھ کر چائے پی تھی تو اس وقت ابّا جان اتنے بوڑھے نہیں تھے۔ آج تو وہ ایک دم سو سال کی بوڑھے نظر آرہے تھے۔ صرف 48 گھنٹے میں انہوں نے پچاس سال کا سفر طے کر لیا۔ پرسوں شام میں نے ان سے نرمل سے شادی کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ وہ میری اور نرمل کی دوستی سے واقف تھے۔ کچھ اڑتی اڑتی خبریں بھی انہوں نے سُنی تھیں۔ لیکن خود میرے منہ سے ایسی بات سننے کی انہیں تاب نہ تھی۔ پہلے تو وہ چونک گئے۔ جیسے آج میرے مردہ چہرے پر سے چادر ہٹنے کے بعد وہ چونکے تھے بالکل اسی طرح۔ پھر انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا تھا، ’’یوشٹ اپ!‘‘ انہوں نے بڑی گرج دا رآواز میں کہا۔ ان کی آواز سے میرے ہاتھ سے چائے کا کپ چھٹ کے نیچے گر پڑا اور بھوری اور مٹیالی چائے کا گدلا پانی میری قمیض پر بکھر گیا تھا۔ اور میں ڈر کے اور سہم کے رونے لگی تھی۔ یہ میرا آخری حربہ تھا ابا جان کو منانے کا۔ بڑا آزمودہ نسخہ تھا۔ بس ایک ذرا آنکھوں سے دو قطرے بہائے نہیں کہ ابا جان موم بن جاتے تھے۔ فوراً مجھے گلے لگا لیتے تھے۔ اور بس پھر میں اپنی من مانی کر والیتی تھی۔ لیکن پرسوں شام تو ابا جان کو جانے کیا ہوا، چیخ چیخ کے انہوں نے سارے گھر کو سر پہ اٹھا لیا تھا۔ عبدل باورچی اور آیا ماں۔ اور بلڈنگ کا چوکیدار سب لوگ سارا کام کاج چھوڑ کے اوپر کی بالکنی میں آگئے تھے۔ اور سب مل جل کے ابا جان کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے اور میں نے اپنا گلا اپنے دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا تھا۔

    میں مرنے سے نہیں ڈر رہی تھی لیکن گلا گھوٹنے سے نہیں مرنا چاہتی تھی۔ گلے میں تو مجھے منگل سوتر پہننا تھا نا۔ آیا ماں جلدی سے پڑوس سے آنٹی دیبا کو بلا لائی۔ دیبا آنٹی میری امّی کی سہیلی تھیں۔ ان کے ساتھ کی پڑھی ہوئیں، وہ مجھے بہت چاہتی تھیں۔ ابّا جان بھی دیبا آنٹی کو اپنی سگی بہن کی طرح مانتے تھے۔ لیکن اس وقت جانے ابّا جان کو کیا ہوگیا تھا۔ دیبا آنٹی کو دیکھ کر وہ چیخ کر بولے، ’’کس نے بلایا ہے اس ہندو عورت کو، میرے گھر میں سے نکل جائو۔ سب لوگ نکل جائو میرے گھر میں سے۔ کسی ہندو کو میرے گھر میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ میں مُسلمان ہوں۔ اور میری اولاد بھی صرف مسلمان ہی ہوگی۔ آج کے بعد اگر کسی ہندو نے میرے گھر میں قدم رکھا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ عبدل جلدی سے ابا جان کو ان کے کمرے میں لے گیا۔ اس نے جلدی سے ہمارے فیملی ڈاکٹر شرما کو فون کیا۔ مگر ابّا جان چیخ کر بولے، ’’آج سے میں کسی ہندو ڈاکٹر کا علاج نہیں کرائوں گا۔‘‘

    آنٹی دیبا مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئیں۔ انہوں نے ابّا جان کی باتوں کا برا نہیں مانا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ پہلی بار میرے سامنے میری ماں کا نام لے کر روئی تھیں۔ مجھے بھی پہلی بار اپنی امی یاد آئی تھیں۔ بچپن ابا جان کے ساتھ گزار لینے کے بعد میں نے تو جانا تھا کہ زندگی میں بغیر ماں کے بھی بچے آرام سے پل سکتے ہیں اگر ان کے باپ ابا جان جیسے ہوں لیکن کل شام پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ اماں صرف ایک رشتہ ہی نہیں ہے ایک ڈھال بھی ہے جو حملہ سے بچاتی ہے، ایک آنچل ہے جو آنسو سکھاتی ہے ایک چھائوں ہے جو دھوپ سے بچاتی ہے اور اس دن میں نے پہلی بار جانا کہ مذہب ضرور کسی باپ نے ایجاد کیا ہوگا۔ ماں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یا شاید اس کا دھرم بھی اس کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ یقین نہ آئے تو یسوع مسیح کو پاک ماں کی گود میں دیکھ لو۔‘‘

    آنٹی دیبا نے نرمل کو اپنے گھر بلایا۔ وہ بہت گھبرایا۔ ہوا نظر آتا تھا۔ حالانکہ میری تو ساری گھبراہٹ نرمل کو سامنے دیکھ کر دور ہو گئی۔ نرمل چار دن کے بعد مجھ سے ملا تھا۔ آنٹی دیبا نے کہا، ’’تم دونوں گھبرائو مت۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، ایک دو دن میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

    لیکن نرمل تو مجھ سے بھی زیادہ گھبرایا ہوا تھا۔ کہنے لگا، ’’کل سے اب تک کتنے ہی گمنام ٹیلیفون آچکے ہیں میرے نام کہ اگر میں نے کسی مسلمان لڑکی کی طرف نظر اٹھائی تو اچھا نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’ارے واہ!‘‘ میں کھلکھلا کے ہنس پڑی، ’’ایسے ایسے تو جانے کتنے فون میرے نام آتے ہی رہتے تھے کہ اگر میں نے اس ہندو لڑکے کے ساتھ میل جول نہیں چھوڑا تو اچھا نہیں ہوگا۔

    ارے کیا اچھا نہیں ہوگا بھئی؟

    بھلا پوچھئے یہ ٹیلیفون کرنے والے لوگ کون ہوتے ہیں۔ ان کو اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے ایک ہندو لڑکے اور مسلمان لڑکی کی یا ایک مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادی سے یا دوستی سے۔ دنیا کے نظام میں کیا فرق آجائے گا۔ یہ دوستی، شادی وغیرہ کس قدر ذاتی مسئلہ ہے۔ ’’لیکن نرمل تو بالکل گھبرا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے باپ نے تو اُس کو گھر سے نکال دینے اور جائداد سے بے حق کر دینے کے لیے بھی کہا ہے۔

    ’’یہ تو بہت ہی اچھا ہے۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا، ’’پھر تو ہم دونوں آزاد ہیں، نہ کوئی جائداد نہ کوئی مذہب بس ہم اور تم۔‘‘

    آنٹی دیبا نیچے چلی گئی تھیں۔ نرمل اور میں دونوں بالکونی کی ریلنگ سے ٹکے ہوئے دوپہر کے غصیلے سورج کی کرنوں کو سمندر کی شیتل لہروں میں گم ہوتے دیکھ رہے تھے۔ سورج کا چہرہ بالکل میرے ابا جان کے چہرے کی طرح دہکتا ہوا نظر آرہا تھا اور میں سورج سے آنکھیں ملاتے ڈر رہی تھی۔ جیسے ابا جان کا سامنا کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔

    نرمل کا ہاتھ میں نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ وہ بہت ٹھنڈا ہاتھ تھا۔ مجھے غصہ آنے لگا، ’’نرمل تمھیں کیا ہو گیا ہے آخر۔۔۔؟ تم کیوں ایسے ہو گئے ہو۔ جیسے میں تم سے پہلی بار مل رہی ہوں۔‘‘

    نرمل سے پہلی ملاقات جو ہو کے ساحل پہ ہوئی تھی۔ وہ ہولی کا دن تھا۔ رنگ رلیاں منامنا کے ٹولیاں سمندر میں غسل کر رہی تھیں۔ ہمارے کالج کا بھی لڑکے لڑکیوں کا ایک گروپ اس دن جو ہو پہ موجود تھا۔ نرمل میری سہیلی سنیتا کا بھائی تھا۔ اسی شام کو نرمل سنیتا کے ساتھ ہمارے گھر آیا تھا وہ کالج چھوڑ چکا تھا۔ اور اپنے باپ کی بزنس کے طور طریقے سیکھنے میں مصرورف تھا۔

    میرے ابا جان تو ایک وکیل ہیں۔ نہ بہت امیر نہ بہت غریب۔ ہم لوگ بس ایسے ہی تھے۔ نہ کبھی بھوکے رہے نہ کبھی کسی کے گلے کاٹے۔ بس ہماری تقدیر تو وہی تھی جو ہمارے دیش کے کروڑوں درمیانی درجے کے انسانوں کی تقدیر ہے۔ ویسے ہی غیر یقینی۔ ویسے ہی معمولی۔ ویسی ہی جدو جہد سے معمور۔ نرمل تو بڑے آدمی کا بیٹا تھا لیکن ہمارے درمیان کبھی اور کچھ آیا ہی نہیں۔ ہمارے درمیان تو ناریل کے سائے تھے۔ سمندر کے ساحل تھے ریستوران کے نیم تاریک گوشے تھے۔ ہم تو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے لمبی سیروں کو جاتے تھے۔ اور ناریل کا پانی پیتے تھے اور کُھلی ہوا میں جیتے تھے۔ یہی نرمل کی زندگی تھی۔ یہی میرا جیون تھا۔

    ہمارے گھر آنے جانے والے لوگ تو جدا جدا مذہب کے ماننے والے تھے۔ ابا جان کو دیبا آنٹی راکھی باندھتی تھیں اور ٹیکا کرتی تھیں اور ابا جان ان کو شگون کے روپے دیتے تھے۔ مرلی چاچا عید کے دن ہمارے گھر آتے تو مجھے عیدی دیتے تھے۔ نرمل شب برات کا انتظار کرتا تھا اور جانے کتنا حلوہ مانگ مانگ کر کھاتا تھا۔ مجھے دیوالی کا تہوار کتنا پسند تھا۔ ہر طرف روشنی۔۔۔ اُجالا۔۔۔ نکھار۔ عبدل گیارھویں کی نیازدلواتا تھا اوربسنتا مہالکشمی کے مندر سے لایا ہوا پرساد ہمیں دیتا تھا۔ اس وقت تو ابا جان نے کچھ نہیں کہا تھا۔ اور کوئی گمنام ٹیلیفون ہمارے گھر نہیں آیا تھا۔ پھر۔۔۔ اگر نرمل نے اور میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عید، دیوالی، ہولی اور شب برات اکٹھے منانے کا فیصلہ کیا تو کیوں یہ قیامت برپا ہوگئی۔

    لیکن مجھے ابا جان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ عام طور سے باپ یہی کرتے ہیں۔ گو انھیں ایسا کرنا نہیں چاہیے، لیکن نرمل کی بزدلی سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں بجھ گئی اور میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس ٹھنڈے ٹھنڈے سے منجمد نرمل کو کیسے ہمت اور حوصلے کی بھٹی میں تپادوں۔ نرمل سے میں نے کہا،

    ’’نرمل تمھیں یاد ہے۔ اس دن ہم ہینگنگ گارڈن گئے تھے۔۔۔‘‘

    ہوں۔۔۔، نرمل نے کہا۔

    ’’جہاں ہم دونوں بیٹھے تھے، وہاں سے نیچے میرین ڈرائیو کا منظر کتنا دلکش تھا، بمبئی ایک دلہن کی طرح سجا سجایا نظر آرہا تھا۔ اور میرین ڈرائیو سے چوپاٹی تک روشنی کی لمبی قطار دلہن کے گلے میں پڑے ہوئے منگل سوتر کی طرح لگ رہی تھی۔ لگ رہی تھی نا؟‘‘

    ’’ہاں‘‘ نرمل نے کہا۔

    ’’اور وہیں ہم نے طے کیا تھا کہ جب ہماری شادی ہوگی تو میں اپنے گلے میں خوبصورت سا منگل سوتر پہنوں گی۔ یاد ہے تمہیں؟‘‘

    ’’یاد ہے۔‘‘ نرمل نے کہا۔

    میں نرمل سے سب کچھ، بہت کچھ کہتی رہی۔

    لیکن نرمل خاموشی سے سنتا رہا۔

    پھر وہ چلا گیا۔ یہ کہہ کے کہ وہ جلدی میرے پاس آئے گا۔ میں نے اس کا انتظار کیا۔ اسے ٹیلیفون کیا۔ آخر شام کو میں جلترنگ ہوٹل پہنچ گئی۔ اپنے اور نرمل کے پسندیدہ گوشے میں بیٹھ کے میں اس کا انتظار کرنا چاہتی تھی لیکن وہاں تو کوئی اور جوڑا بیٹھا تھا۔ شاقی کا بینڈ چیخ رہا تھا۔ اور ماریا مائیک ہاتھ میں پکڑے تھرک تھرک کر گا رہی تھی۔

    میں دبے دبے چپکے چپکے اس کو نے تک پہنچ گئی۔ لڑکی خوبصورت تھی جو پیار کے پہلے لمحے میں ہوتی ہے۔ لڑکا اٹھا۔

    لڑکی بھی اٹھی۔

    لڑکی نے مجھے دیکھا۔

    میں نے لڑکے کو دیکھا۔

    لڑکے نے مجھے نہیں دیکھا۔ وہ تو صرف اسی لڑکی کو دیکھ رہا تھا، دیکھے جا رہا تھا۔ وہ دونوں چلے گئے۔

    میں نے اپنے پرس میں رکھے ہوئے منگل سوتر کو دیکھا۔ پیچھے مڑ کر اپنی بیس سال کی زندگی کو دیکھا۔ جو ہوکے ساحل کو دیکھا۔ گلابی شفق کو دیکھا۔

    بہتے ہوئے پانی کو دیکھا۔

    دیر تک اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے پانی کو سمندر کی ریت میں جذب ہوتے دیکھتی رہی۔ اور جب سورج ڈوب چلا، امید ڈوب چلی تو جیسے کسی نے میرے کان میں کہا، ’’لگن کا وقت ہوگیا۔‘‘

    نیند کی گولیاں میں نے اپنے پرس سے نکال لیں، اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کے میں نے انپے گلے میں منگل سوتر پہن لیا تھا۔‘‘

    لڑکی اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔ وہ چپ چاپ لیٹ گئی اور اس نے چادر اپنے منھ پر لے لی۔ مردہ بھکارن نے بھی اپنی آنکھیں موند لیں۔ اچانک اس کے کانوں میں ایک ننھے منے بچے کی کمزورسی آواز آئی۔

    ’’بھکارن ماں!‘‘

    بھکارن نے خوف سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔

    آواز لڑکی کی چادر میں سے آرہی تھی۔

    ’’تم نے اس عورت کی کہانی تو سن لی۔ میں اپنی کہانی کیسے سنائوں؟‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے