Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منجولا

MORE BYاروند گوکھلے

    ٹرین چونکتی جھکولے لیتی اور ہانپتی ہوئی دوڑی جارہی تھی۔ ہر ڈبا انسانوں سے کھچاکھچ بھرا تھا۔ بیٹھنے کی بنچوں اور ان کے درمیان کی کھلی جگہوں کادم بھیڑ سے گھٹا جا رہا تھا۔ دروازے اور کھڑکیاں ’بش شرٹوں‘ دوپٹوں اور ساڑیوں، بالوں بھرے سروں اور تھکے ماندے اعضا سے لیپی جا چکی تھیں۔ لوگ ڈبے سے باہر بھی لٹکے ہوئے چلے جا رہے تھے ٹرین چیونٹیوں بھرے سانپ کی طرح تڑپتی ہوئی رینگ رہی تھی۔ یہ دو منھاکیچوا جیسے ہی رکتا اندرکی گندگی باہرپھینکی جاتی اور اس سے کہیں زیادہ وہ اندر داخل ہو جاتی۔

    ہر ہر چال سے نکل کرفٹ پاتھ اور پلیٹ فارم پر اور وہاں سے ٹراموں اور ٹرینوں میں آدمی ہی آدمی۔ ٹرینوں کی بھیڑ تو اپنی انتہا کو پہنچ جاتی۔ پھر بھی دن میں دو مرتبہ تو ٹرین کا سفر کرنا ہی پڑتا تھا۔ صبح کو آفس جانے کے لیے اور شام گھر لوٹنے کے لیے دو مرتبہ جہنم کے عذاب سے گزرنا ہی پڑتا تھا۔ بڑی مشکل سے جگہ ملتی تھی۔ پھر بچنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے کسی نہ کسی سے دھکا لگ ہی جاتا۔ سر کو کسی ہیٹ کا سرا گھستا رہتا۔ کبھی کندھا مسلا جاتا، اجنبی انگلیاں رانوں سے چپکی رہتیں۔

    پیروں پرجوتوں کی چھاپ ابھر آتی اورسارے جسم کی مالش ہو جایا کرتی۔ ادھر ادھر نظر ڈالنے کی بھی تو گنجائش نہ رہتی کیوں کسی کی چندیا کا پسینہ، کسی کی داڑھی کی کھونٹیاں توکسی کی گردن پر پاؤڈر کی چکنی تہیں نظر آتی رہتیں اور چپ چاپ سیدھے کھڑے ہونے پر بھی ایک دوسرے کی سانسیں اور پسینے کی بوناک اور منہ میں گھس کر کراہیت پیدا کرتی رہتی۔ دیدوں کے مقابل، نتھنوں سے لگے، ہر ہر مسام سے جڑے، مردہ دلوں اور کراہیت انگیز جسموں کے مالک بےشمار انسان۔ شام کا سفر تھوڑا سکون بخش لگتا۔

    صبح کو تو جیسے تیسے کچھ زہر مار کرکے گاڑی پکڑنے کے لیے بھاگنا پڑتا، ڈبے میں دھکے کھاتے اور انتظار میں تھکے ہوئے کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ پھر اسٹیشن سے آفس تک پیدل چلنا پڑتا۔ اس اتھل پتھل میں صبح کے اشنان اور میک اپ کا ستیاناس ہو جاتا۔ ادھوری چبائی ہوئی چپاتیاں پیٹ میں چبھن پیدا کرنے لگتیں، اس پر آفس کا دردسر، یوں توشام کو بھی گاڑی میں بھیڑ اور دھکم پیل ہوتی مگر گھر جاکر اطمینان سے منہ ہاتھ دھونے، آرام سے کھانا کھانے اور پھر سو جانے کی آس تو بنی رہتی۔

    ملے دلے ہوئے لوگ سوا چھ کی ٹرین سے اپنے اپنے ڈربے کی جانب روانہ تھے ٹائیاں ڈھیلی کئے ہوئے، ہاتھوں میں شام کا اخبار تھامے ہوئے مرد، گندے رومالوں سے آخری پسینہ پونچھتی اور تھکے ہوئے ہاتھوں سے گرتے ہوئے پرسوں کو سنبھالتی ہوئی عورتیں ٹھنڈی سانسیں چھوڑے جا رہی تھیں، جمائیاں آ رہی تھیں، تھکی ماندی آنکھیں بڑی بےصبری سے اپنے اپنے اسٹیشن کی راہ تک رہی تھیں اور ٹرین کے رکتے ہی آخری قوت کے ساتھ باہر نکلنے کی جدوجہد بھی جاری تھی۔

    اندھیری اسٹیشن تک پہنچتے ہی منجولا ڈبے سے باہر نکلنے کی پوری کوشش کرنے لگی۔ چرچ گیٹ پر جو اسے ایک سیٹ سے ٹک کر کھڑا ہونا نصیب ہوا تو اندھیری تک وہ وہاں سے ہل نہیں سکی تھی۔ سیٹ پر بیٹھا ہوا موٹا گجراتی اسے دیکھتا اور آہستہ آہستہ اس کی طرف کھسکتا رہا تھا۔ اس نے ذرا سرک کر اسے جگہ دینے کی پیشکش بھی کی تھی مگر سیٹ کی پشت کا سہارا کئے وہ چپ چاپ کھڑی رہی اور اس کا سہارا لیے ایک اورملازمت پیشہ نوجوان لڑکی۔

    دودھ کے خالی ہنڈے لیے ایک بھیا سامنے بیٹا تھا اور بقیہ دونوں طرف بہت سے لوگ بھیڑ کئے کھڑے تھے۔ بھیڑ نیچے اترتی جگہ سے سرکتی اور دوبارہ جوں کی توں نظر آتی۔ اندھیری اسٹیشن کے احاطے میں گاڑی کے داخل ہو جانے پر بھی باہر نکلنے کے لیے راستہ ملنا دشوار نظر آتا تھا۔ گجراتی، بھیا، چپکی ہوئی لڑکی اور دونوں طرف انسانی دیواریں۔ آخر منجولا نے ساڑی کے پلو کو کھینچ کر لپیٹا، پرس کو مضبوطی سے پکڑا اور آنکھیں بند کرکے دروازے کی سمت بڑھنے لگی۔ بےشمار دھکے، کندھوں پر دباؤ، بازوؤں میں چٹکیاں، جوڑے کو جھٹکے اور منجولا باہر آ گئی۔

    اسٹیشن سے باہرنکل کر وہ تیز تیز چلنے لگی۔ بال بالکل روکھے سوکھے ہو چکے تھے اورادھر ادھر اڑ رہے تھے۔ ہونٹ خشک تھے اور آنکھیں تھکی ماندی۔ بغل اور پیٹ پسینے سے چیکٹ ہو رہے تھے۔ ساری دوپہر ٹائپ رائٹر کوٹتے رہنے سے انگلیوں میں درد ہو رہا تھا اور اب چلنے سے پہلے ہی پیر دکھنے لگے تھے۔

    ’’منجولا آ آ آ مسز کھار کر!‘‘

    منجولا نے پیچھے مڑکر دیکھا اور ٹھٹک کر رہ گئی۔ کاشی کلکرنی پرس نچاتی ہوئی چلی آ رہی تھی۔ منجولا کے آفس کے نزدیک ایک دفتر میں وہ ملازم تھی۔ دونوں صبح کو ایک ہی ٹرین سے سفر کیا کرتے مگر واپسی میں وہ منجولا کو کبھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ دونوں سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگیں۔

    ’’روزانہ اسی گاڑی سے لوٹتی ہیں؟‘‘ منجولانے پوچھا۔

    ’’کہاں! آج ہی لوٹی۔۔۔ روزانہ تو ساڑھے سات ہی کی ٹرین ملتی ہے۔‘‘

    ’’اتنی دیر ہو جاتی ہے آفس میں؟‘‘

    ’’نہیں، چھٹی تو چھ ہی بجے ہو جاتی ہے مگر بعد میں گھر ڈھونڈنے کے لیے بھٹکنا پڑتا ہے۔ کوئی نہ کوئی، کسی نہ کسی جگہ کا پتہ دیتا ہے اور میں چلی جاتی ہوں وہاں، پھر پچھتاتی ہوں۔ کہیں بھیگھر کے مسئلے کا چرچہ چلتے ہی منجولا اکتانے لگی۔ سال بھر پہلے وہ ان ساری مصیبتوں سے گذر چکی تھی اوراب ہر روز صبح و شام مکان نہ ملنے کی شکایتیں سنتے سنتے تنگ آچکی تھی۔ تھوڑی دیرچپ رہ کر وہ اچانک بول اٹھی، ’’آپ شادی کر لیجئے، آپ کا۔۔۔‘‘

    ’’شادی طے ہو چکی ہے میری۔ اسی لیے کوئی گھر ڈھونڈ رہی ہوں۔ ڈیڑھ سال ہو گیا شادی طے ہوئے۔ ہم دونوں ہفتے میں چھ دن تک ساری بمبئی میں کمرہ ڈھونڈتے ہیں اور ساتویں دن شہر سے باہر جاکر، جگہ نہ ملنے کے غم میں منہ لٹکائے ہوئے پیار کا جشن مناتے ہیں۔‘‘

    اچانک منجولا کا چہرہ اتر گیا۔ کاشی کی کہانی سن کر نہیں، اس خیال سے کہ اس نے بھی پہلے پریم کیا، پھر گھر تلاش کیا اور تب شادی کی، لیکن۔

    ’’میں ذرا سبزی خرید کر لوں۔ کچھ دیر رکیں گی؟‘‘ منجولا نے کہا اور راستے کے کنارے کھڑے سبزی ترکاری کے ٹھیلوں کے پاس رک گئی۔ رومال میں پیاز لی، پرس میں مرچیں اور کوتھمیر ڈالی اور ہاتھ میں ناریل لے کر وہ آگے بڑھ گئی۔ کاشی اسے رشک سے دیکھ رہی تھی۔ آخر جب نہیں رہا گیا تو بولی، ’’مسز کھار کر، آپ لکی ہیں۔‘‘

    ’’آپ کو بھی مل جائےگا گھر میں پوچھ تاچھ کروں گی آپ کے لیے۔ ہمارے آفس کے سبرامنیم کو پتا ہوتا ہے خالی گھروں کا۔‘‘

    دونوں کی مسکراہٹیں روکھی پھیکی تھیں۔ پھر کاشی کلکرنی اپنے راستے چلی گئی۔

    منجولا تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ ابھی خاصا فاصلہ طے کرنے تھا۔ گھر جاکر پانی بھرنا تھا۔ پکانا تھا۔ نہانے کو جی چاہ رہا تھا اور بھوک بھی لگ رہی تھی۔ شرد واپس آ چکا تو اسے چائے بھی بنا کر دینی ہوگی۔

    شرد کا خیال آتے ہی منجولا سہم سی گئی۔ گھر سے نکلنے کے بعد ٹکٹ چیکر، ٹرین کا اندھا فقیر، آفس کا باس، سبرامنیم، اکاؤنٹنٹ کاؤلے، میری ڈی سوزا اور سرل ساٹھے چائے والا بھٹ، چرچ گیٹ پر ایک آنکھ دبانے والا بڈھا، ٹرین کا گجراتی کاشی کلکرنی، سبزی والا بھیا اس سارے پلان میں شرد کا کہیں پتا نہ تھا۔ جس پر برابر کا پریم کرکے گھر سنسار بسایا، وہی منجولا بڑی شدت سے اس کی طرف کھینچنے لگی لیکن دوسرے ہی لمحے اس کادل منجمد سا ہو گیا اور قدموں کی رفتار سست پڑ گئی۔

    قریب سے نکلتی ہوئی کار میں آلو بلی موریا جا رہی تھی۔ گاڑی کی رفتار کم کرکے وہ منجولا سے بولی، ’’لفٹ؟‘‘

    ’’نہیں، شکریہ، بس آہی گیا ہے گھر۔‘‘

    منجولا کے قدم بڑھتے چلے گئے۔ اب اس کے دماغ میں آلو کا خیال چکرانے لگا۔ آلو بھی نوکری کرتی تھی کسی ہوائی سفر کی ایجنسی میں۔ لیکن وہ بہت خوش تھی۔ شوہر سے عرصہ ہوا طلاق لے چکی تھی اور ہر روز ایک نئے دوست کے ساتھ گھومتی پھرتی تھی۔ اس کی کار اسی کے پیسے۔ اس کے بدن پر سجنے والی فراکیں اور ہونٹوں پر چمکنے والی لپ اسٹک بھی دوستوں کے تحفے ہوا کرتی تھیں۔ سب انگلیاں اٹھاتے تھے۔ لیکن آلو کو پروا ہ ہی نہیں تھی۔ کالج کی پرانی سہیلیوں نے مل کرایک مرتبہ گھوڑبندر کی ٹرپ کا پروگرام بنایا تھا اس وقت آلونے منجولا سے کھل کر دل کی باتیں کی تھیں۔

    ’’شادی راس نہیں آ سکی ہے مجھے۔ شوہر کچھ کماتا نہیں اور اپنی شوقین طبیعت کو دبانا میرے بس میں نہیں ہے۔ شوہر کے رشتے داروں کی بھیڑ بھاڑ بھی کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اگر میرا بچپن کا دوست بھی آ جائے تو سب شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘

    آخر آلو بلی موریا نے بغاوت کر ڈالی اور آزاد ہو گئی۔ آزاد تو نظر آتی تھی لیکن اس کے رنگ ڈھنگ سے تباہی و بربادی ہی ٹپکتی تھی۔

    آلو کی یادوں کو دیکھ کر منجولا گھبرا گئی۔ اس کا شرد تو کماؤ تھا اور گھر پر رشتے داروں کو روز ساتھ لاتا بھی نہیں تھا۔ وہ خود بھی زیادہ دوست بنانے سے کتراتی تھی اور فضول خرچیوں سے دامن بچاتی تھی۔ آلو بھی اسے ’’ہیپی ہاؤس وائف‘‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ اس کے باوجود منجولا جب اپنی چال کے نزدیک پہنچی تو اندھیرا ہو چکا تھا اور بتیاں جل چکی تھیں۔ دن ختم ہو جانے کا احساس ہوتے ہی اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ مرد اپنے اپنے کمروں کے باہر ننگ دھڑنگ بیٹھے ہوئے تھے۔ گپیں ہانک رہے تھے۔ بچوں کو کھلا رہے تھے۔ ان کے ننگے بدن اور ان گنت بچے دیکھ کر منجولا کو متلی سی ہونے لگی۔ سر گھمانے والے گراموفون اور ریڈیو زور شور سے بج رہے تھے۔ سنیما کے سنگیت کی فرمائشیں جاری تھیں اپنے سنگیت کے شوق کے قاتل اس شور کو سن کر اور بھی کھولنے لگی۔

    زینہ طے کرکے وہ اپنے کمرے کی طرف آئی۔ شرد واپس آ چکاتھا اور آرام کرسی پر لیٹا ہوا تھا۔ چپلیں اتارتے ہوئے اس نے پوچھا، ’’کب آئے؟‘‘

    ’’ابھی ابھی۔‘‘

    ’’میری چھ پانچ کی ٹرین بس ملتے ملتے رہ گئی۔‘‘

    پرس اور ترکاری پھینک کر وہ اندر کے کمرے کی طرف چلی گئی۔ پانی کی بالٹی خالی پڑی تھی۔ صبح باہر نکلنے سے پہلے اس نے بالٹی بھر دی تھی۔ شردنے ساری بالٹی خالی کر دی تھی۔ منجولا چڑ گئی۔ کم از کم دوبارہ بھرکر تو رکھی ہوتی۔ صبح آفس جاتے وقت اتارا ہوا پاجامہ بھی اسی طرح پھیلا پڑا تھا۔ اس کی ساری بھی فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ منجولا نے ساڑی اور پاجامے کو پیر سے کونے میں دھکیل دیا۔ باہر سے شرد چلایا، ’’کیا کر رہی ہو؟ چلو ذرا باہر گھوم آئیں۔‘‘

    ’’آتی ہوں بابا، ابھی تو آئی ہوں۔‘‘ اس نے بالٹی اٹھائی اور باہر آئی، ’’ذرا منہ ہاتھ دھو لوں۔ پھر چلتے ہیں۔‘‘ شرد کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا اور برآمدے سے ہوکر ٹنکی کی طرف بڑھ گئی۔ شرد کے آگے بڑھ کرپانی لے آنے کی پیشکش تک نہیں کی، اس بات کا دکھ ہوا اسے۔ نل کے پاس جاکر اسے انتظار میں کھڑا رہنا پڑا۔ کوئی بالٹیاں بھر رہا تھا اور کوئی منہ ہاتھ دھو رہا تھا۔ اس نے اپنی بالٹی آدھی ہی بھری۔ پوری بالٹی اٹھا لے جانے کی سکت ہی کہاں باقی رہی تھی۔

    منہ ہاتھ دھونے اور کپڑے بدل لینے کے بعد وہ خود کو بہتر محسوس کرنے لگی۔ ہلکی پھلکی اور تازہ دم۔ آئینے میں جی بھر کے اپنا چہرہ نہار لینے کے بعد وہ خوش ہوکر شرد سے بولی، ’’چلو۔‘‘

    شرد کرسی میں اسی طرح دھنسا رہا اور ترش لہجے میں بولا، ’’اب کہاں جاؤگی۔ آٹھ تو یہیں بج گئے۔ تمہارا بننا سنورنا ہی ختم نہیں ہو رہا تھا گھنٹے بھر سے۔‘‘

    منجولا بھڑک اٹھی۔ چڑکر کچھ کہنے ہی والی تھی کہ شرد پھر بول اٹھا، ’’خود پر سے توجہ ہٹتی ہی کب ہے تمہاری۔ چائے تک کے لیے نہیں پوچھا۔‘‘

    یہ سنتے ہی منجولا کا چہرہ اتر گیا۔ کافی دیر تک کوئی جواب نہیں سوجھا اسے۔ آخر بڑی کوشش کے بعد وہ بولی، ’’ارے۔۔۔ سوری ماں! ادھر دیکھو نا! میں بہت تھک گئی تھی۔ اس لیے خیال نہیں رہا۔ رک جاؤ بھی پتیلی چڑھاتی ہوں۔ اتنے ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘‘ مگر شرد کا غصہ ختم نہیں ہوا۔ منجولا کو دور ہٹاتا ہوا بولا، ’’رہنے دو، میں ہوٹل میں پی لوں گا۔ سچ مچ مت بناؤ چائے۔‘‘

    اسے کھڑا ہوتا دیکھ کر وہ بولی، ’’تو پھر چلیں باہر؟‘‘

    ’’نہیں، جی نہیں چا رہا اور جائیں بھی تو جلد واپس چلنے کا تقاضہ شروع کر دیتی ہو تم۔ کھانا پکانا ہے۔ پانی بھرنا ہے۔‘‘

    ’’تو آؤ آج باہر ہی کھا لیں کھانا، پانی سویرے بھر لیں گے۔‘‘

    ’’باہر کھانے کی چٹک لگ گئی ہے تمہیں اور پھر پیسے کہاں ہیں؟ صرف چائے پینے کے لیے دو آنے بچے ہیں میری جیب میں۔‘‘

    منجولا غصے سے بےقابو ہو گئی۔ اس نے میز پرپڑا ہوا ناریل زور سے پٹک کر توڑ ڈالا۔ اس کا جی چاہا ناریل کا پانی پی لے مگر غصے میں اس نے سارا پانی بہہ جانے دیا۔ رومال میں بندھی ہوئی پیاز اور پرس میں رکھی ہوئی مرچیں اور کوتھمیر لے کر وہ پیچ وتاب کھاتی ہوئی اندر چلی گئی۔ شرد دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ جلاکر دھواں چھوڑنے لگا۔

    منجولا نے چولہا جلایا۔ پیاز اور کوتھمیر کاٹی۔ ترکاری بنانے کے لیے برتن چولہے پر چڑھایا پھر اسے اتارکر چائے کے لیے پتیلی چڑھائی اور اس میں بھول سے پیاز ڈال دی۔ اسے بھی اتار لیا اور چائے کے لیے دوسری پتیلی چڑھائی۔ شرد آہستہ سے اس کی پشت کر آ کھڑا ہوا اور نرم آواز میں بولا، ’’منجو!‘‘

    منجولا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ کندھے پر دھرا ہوا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی، ’’ابھی تیار ہوئی جاتی ہے چائے۔‘‘

    ’’واقعی نہیں چاہیے مجھے، کیوں بنائی؟ اور سنو! آج ہم باہر ہی کھا لیں گے کھانا۔‘‘

    ’’یہ رہی چائے۔‘‘ چائے چھانتے ہوئے منجولا نے کہا اور باہر کیوں کھائیں! تمہارا پسندیدہ سالن بن رہا ہے آج، دیکھو تو سہی۔‘‘

    شرد نے پیار سے اس کے کندھے دبائے۔ پھر چائے ختم کرکے بولا، ’’کچھ اور مت پکاؤ اب۔‘‘

    ’’چپاتیاں توبنا لوں۔‘‘

    ’’نہیں ہاتھ دکھ رہے ہوں گے تمہارے، میں بریڈ لے آتا ہوں۔‘‘

    ’’یوں صبح کا تھوڑا بریڈ اور ڈیڑھ چپاتی رکھی ہے۔ خیر اگر جا رہے ہو تو سامنے جو نیا سندھی ہوٹل کھلا ہے نا وہاں سے تھوڑی سی مٹھائی۔۔۔‘‘

    منجولا کے کھلے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے شرد نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    منجولا کا چہرہ تاریک ہو گیا۔ وہ چپ چاپ ترکاری میں چمچہ چلانے لگی۔ شرد خاموشی سے دوسرے کمرے میں گیا اور پھر گھر سے باہر نکل گیا۔ آنکھوں میں سمٹ آئے آنسوؤں کو منجولا نے کھلی چھوٹ دے دی۔ اسے یاد آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے اسے آنکھوں ک اخیال رکھنے کی تاکید کی تھی۔ اس پر مزید آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔ ڈاکٹر صاحب نے تبدیل آب و ہوا کا مشورہ بھی دیا تھا۔

    منجولا کے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں اینٹھنے لگیں۔ چلنے اور دیر تک کھڑے رہنے سے پیر دکھنے لگے تھے۔ چار پانچ گھنٹے تک مسلسل ٹائپ رائٹر کوٹتے رہنا پڑا تھا۔ اس کی ٹھک ٹھک کانوں میں گونجنے لگی، تیز ہوتی گئی اور اب تک قابو میں رہنے والا سر بھی چٹخنے لگا۔

    کھانا بناکر وہ باہر کے کمرے میں آئی۔ دروازہ پاٹوں پاٹ کھلا ہوا تھا۔ کونے میں پڑی آرام کرسی، میز، پلنگ، کتابیں۔۔۔ سارے گھر سنسار پر منجولا نے خالی خالی نظریں ڈالیں۔ ایک ایک چیز جٹانے میں کتنا سکھ ملا تھا اسے۔ صرف ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے اور آج یہ سب کیا ہو گیا؟ وہ سارا جوش و خروش اتنی جلدی کیوں کر ختم ہو گیا۔ پہلے بھی تکلیفوں کا سامنا تھا۔ پھر اوروں کے مقابلے میں تو بڑی خوش قسمت ہے وہ۔ کاشی کلکرنی کو دیکھو، گھر سنسار بسانے کے لیے سرے سے گھر ہی نہیں ہے۔ آلو بلی موریا کا شوہر نکھٹون کلا۔ میرا گھر سنسار تو دو کمروں اور دو نوکریوں پر استوار ہے پھر بھی یہ جھگڑا، یہ تناتنی، کہاں ہے خرابی؟ کہاں سے بگاڑ؟

    وہ کمرے میں یوں ہی کھڑ ی رہی۔ پھر برآمدے میں چلی گئی۔ پھر واپس چلی آئی۔ برآمدے میں سکون سے کھڑا رہنا مشکل تھا۔ مسلسل آمدورفت اور شور و غوغا۔ پھر کھڑے رہنے لائق بات وہاں تھی بھی کون سی؟ رسوئیوں کا دھواں اور سنیما کے گیت۔ پڑوسیوں سے بات چیت کرنے کو بھی من نہیں کر رہا تھا۔ سب اپنے اپنے کاموں اور الجھنوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ کمرے ہی میں اچھالگ رہا تھا اور اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

    ساڑھے نو بج گئے تو بھی شرد کا پتہ نہ تھا۔ کبھی جی چاہتا وہ جلدی سے آ جائے اور کبھی جی چاہتا وہ نہ آئے۔ اس کے آنے ہی پر کھانا کھایا جا سکتا تھا پر کھانا کھاتے ہی۔۔۔ منجولا اداس ہو گئی۔

    لیکن شرد کے آتے ہی منجولا کی بے چینی ختم ہو گئی۔ اس کے مٹھائی لے آنے پر وہ بےاختیار خوش ہو گئی۔ فوراً کھانا پروسنے لگی۔ مٹھائی اور سالن کے دو حصے کئے۔ شرد کو زیادہ حصہ دیا اور پھر اس کی تھالی سے لے لے کر کھایا۔ آفس کے سبرامنیم کے لطیفے بیان کئے اور شرد کے ساتھ خود بھی قہقہے لگائے۔ کھانا ختم ہوتے ہی شرد کو کمرے سے روانہ کرکے اس نے جھوٹے برتن سمیٹے۔

    جب تک منجولا باہر کے کمرے میں آتی، شرد نے فرش پرگدوں کے بستر لگا دیے تھے اور سگریٹ پھونکتے ہوئے آرام کرسی پر پڑا تھا۔ بچے ہوئے گدے اور سگریٹ کا دھواں دیکھتے ہی منجولا کی کھلی ہوئی طبیعت پھر اداس پڑ گئی۔ اسے خوف محسوس ہونے لگا۔ کراہیت سی پیدا ہو گئی اور چڑکر وہ بولی، ’’سوتے وقت سگریٹ پی رہے ہو تم؟‘‘

    ’’ابھی سونے کا وقت کہا ں ہوا ہے؟‘‘

    ’’دس بج چکے ہیں!‘‘

    ’’تو سو جاؤ تم۔‘‘

    ’’لیکن بتی جل رہی ہو تو نیند نہیں آتی مجھے۔‘‘

    شرد بھی چڑ گیا۔ ایک طویل کش لے کراس نے سگریٹ بجھا دی۔ بولا، ’’تمہیں بتی سے تکلیف ہوتی ہے یا سگریٹ سے تکلیف ہوتی ہے۔‘‘

    منجولا خاموش رہی۔ بستر پر ڈھیر ہو گئی اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ کرپڑی رہی۔ شرد تلملاکر اٹھا۔ دروازہ بند کرکے بتی گل کی اور بغل کے بستر پر لڑھک گیا اور پھر چاروں اور خاموشی چھا گئی۔ تھوڑے وقفے کے بعد شرد کی آواز ابھری، ’’آؤ۔‘‘

    ایک انجانی سی ٹیس سے بھری ہزاروں سوئیاں منجولا کے سارے بدن میں چبھ گئیں۔ جس جھگڑے کا ڈر اسے لگا ہوا تھا وہی جھگڑا اندھیرے میں بھوت بن کر اٹھانے لگا۔ بڑی دقت سے اس نے کہا، ’’نہیں۔‘‘

    ’’خفا ہو گئیں۔‘‘

    ’’اوں ہوں۔‘‘

    ’’ایسا کیوں کرتی ہو؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ آؤ نا!‘‘

    ’’جانے دو، مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘

    اندھیرا ہونے کے باوجود منجولا نے آنکھوں پر سے ہاتھ نہیں ہٹایا تھا۔ آنکھوں سے ہاتھ ہٹاکر شرد کی گردن میں بانہیں ڈال دینے کی خواہش اس کے من میں ابھری لیکن اس کے اعضا کی ساری قوت چھن چکی تھی اور اس کی پیٹھ بستر سے چپک کر رہ گئی۔

    ’’نیند تو تمہاری گردن پر دائم سوار ہو گئی ہے، ہمیشہ کے لیے سو جاؤ۔‘‘

    شرد کے غصے سے بھرے الفاظ کانوں میں پڑتے ہی منجولا اٹھ بیٹھی، کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی، ’’کتنے چڑھ جاتے ہو تم! تم اورمیں دونوں چلو کچھ باتیں کریں، شطرنج کھیلوگے؟ نہیں تو باہر گھومنے چلیں۔‘‘

    ’’نہیں تم سو جاؤ۔ جاگنے سے طبیعت بگڑ جائے گی تمہاری۔‘‘

    ’’مجھے کون سا روگ ہے؟‘‘

    ’’یہی تو جاننا چاہتا ہوں میں۔‘‘

    شرد کے الفاظ میں چھپا ہوا کرب منجولا نے محسوس کر لیا، جان لیا۔ بےبسی اور دکھ کی آہیں اس کے سینے میں جمع ہو گئیں۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اورسارے بدن میں تھرتھری سی دوڑ گئی۔ وہ لجاجت سے بولی، ’’ناراض ہو گئے ہو تم! میں سمجھ رہی ہوں۔ لیکن قسم کھاکر کہتی ہوں مجھے لطف نہیں آتا۔ خواہش ہی نہیں ہوتی۔‘‘

    ’’پہلے ہربات اچھی لگتی تھی۔ آج کل اڑیل ہو گئی ہو۔ اب میں تمہیں اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    منجولا کا چہرہ ایسا ہو گیا جیسے کہنا چاہتی ہو، اب کیا کہوں تم سے؟ پھر بھی وہ بول اٹھی، ’’آپے سے باہر کیوں ہوتے ہو؟ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘

    ’’سب سمجھتا۔۔۔‘‘

    ’’میں تھک جاتی ہوں دوست! کھانا پکاکر، پانی بھر کے روز آنے جانے کی دردسری سے، آفس کے ٹائپ رائٹر کی وجہ سے۔۔۔‘‘

    ’’میں نہیں تھکتا کیا؟ کیا میں کام نہیں کرتا اور ساری دنیا کی عورتیں کام کرتی ہیں۔ کام کیا گنا رہی ہو۔ ایسا ہی ہے تو چھوڑ دو نوکری۔ لیکن یہ میں کیسے کہوں؟ میری ہی غریبی، کمزوری ننگی نہ ہو جائےگی۔۔۔‘‘

    منجولا کے دل میں کھینچا تانی ہونے لگی۔ شرد کو کیسے سمجھائے؟ اپنے آپ کو کیوں کر منائے۔ آخر جی کڑا کرکے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ آنکھیں نکالتی اور ہونٹ کاٹتی ہوئی۔

    ’’کھڑکی مت بند کرو۔۔۔‘‘ شرد چڑ کر چلایا، ’’گرمی سے یوں ہی طبیعت گھبرا رہی ہے۔‘‘

    منجولا سہم گئی۔ کھڑکی سے دورہٹتی ہوئی بولی، ’’پڑوس کا مہمان جگہ کی تنگی کے سبب ہماری کھڑی کے پاس کھٹیا ڈال کر سوتا ہے۔‘‘

    ’’رہنے دو۔۔۔ تم بھی روز کی طرح چپ چاپ سو جاؤ۔‘‘

    منجولا بھی چڑ گئی۔ آرام کرسی میں خود کو جھونک کر خاموش پڑی رہی۔ ڈراؤنا سناٹا اس سے سہا نہیں جا رہا تھا۔ بولی، ’’اگلے مہینے ہم سب سے پہلے ایک پنکھا خریدیں گے۔‘‘

    شرد بھیانک انداز میں ہنسا۔ بولا، ’’تو ایک مہینے کے لیے تمہیں چھٹکارا مل گیا، کیوں۔۔۔‘‘

    منجولا کا دماغ بھڑک اٹھا، بڑے کڑوے لہجے میں بولی، ’’یہ کیا بک رہے ہو؟‘‘

    شردنے دوگنی کڑواہٹ کے ساتھ جواب دیا، ’’کیوں غلط کہہ رہا ہوں، کیا یہ جھوٹ ہے کہ اب ہمارے بیچ میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں رہا؟‘‘

    ’’شرد! شرد!‘‘ منجولا غصے سے کانپنے لگی۔ پھرخود پر قابو پانے کی کوشش میں اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔

    دوبارہ سناٹا چھا گیا۔ لیکن صرف کمرے کی حد تک۔ باہر برتنوں اور جھگڑوں کی آوازوں اور فلمی گیتوں کے شورکا سلسلہ جاری تھا اور کمرے کی خاموشی کے ساتھ سنگست کر رہا تھا۔

    شرد بستر چھوڑ کر اٹھا اور آرام کرسی کے پائے سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا۔ منجولا نے ممتا بھرے انداز میں اس کے سرپر ہاتھ پھیرا۔ شرد نرمی سے بولا، ’’ایسا برتاؤ کیوں کرتی ہو منجو؟ پہلے کتنی خوش رہا کرتی تھیں تم! بھول گئیں ساری باتیں؟ شادی کے بعد تمہارے گاؤں میں گزارا ہوا ہفتہ یاد ہے؟ رات بھر جاگا کرتے تھے ہم دونوں! دن چڑھ آنے پر بھی کمرے سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھیں تم! اور یہاں بھی یہ حال تھا کہ شام کولوٹ آنے پر تم مجھ سے چمٹی رہا کرتی تھیں۔‘‘

    منجولا کو ہچکیاں روکنا دشوار ہو گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولی، ’’یاد ہے دوست، سب کچھ یاد ہے، شرد میں تم سے پریم کرتی ہوں۔ تمہارے بنا نہیں رہ سکتی۔ میرا۔۔۔‘‘

    شرد تیز ی سے آگے بڑھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے بولا، ’’میں تمہاراہی ہوں تم ہی پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگی ہو۔ دیکھو اوروں کو کہاں یہ تنہائی بھی نصیب ہوتی ہے۔ جہاں دس دس آدمی ایک ساتھ رہتے ہوں اس گھر میں جھانک کر تو دیکھو اور مزدوروں کی حالت تو آخر ایسا کیوں کرتی ہو؟ میں جانتا ہوں کہ شادی کے نئے نویلے دنوں کی کشش ہمیشہ قائم نہیں رہتی۔ پھر بھی۔۔۔‘‘

    اس کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام کر منجولا روتے ہوتے بولی، ’’نت نئے دنوں کے بعدبھی مجھے اچھے لگتے ہو دوست، لیکن پسینے سے چپچپاتی یہ دوڑ بھاگ، یہ مشینی زندگی مجھے راس نہیں آرہی۔ شرد چلو یہاں سے کہیں اور چلے جائیں۔ تم مجھے لے چلو، پہلے یہاں سے، کہیں اور لے چلو۔۔۔‘‘ اس کے الفاظ اور ہچکیاں ماحول میں گھٹ کر رہ گئیں۔

    کافی دیر بعد شرد کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی، ’’تم اکتا چکی ہو، مجھے لگتا ہے تمہیں بچہ چاہیے۔‘‘

    ’’ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر بچہ ہونے والا ہو تو میں یہاں ہرگز نہیں رہوں گی۔ میرے بچے کو ایسی۔۔۔ جانے دو، اس بحث سے کیا حاصل!‘‘

    منجولا کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ شرد کا جوش بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ درشت لہجے میں بولا، ’’حالات سے سمجھوتہ نہیں کریں گے تو ہمیں کو دکھ ہوگا۔ مجھے بھی کہاں پسند ہے یہ کھینچ تان۔ لیکن کیا کریں؟ پھر دن بھر کی کوفت سے تھک جانے پر تھکن اتارنے کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے۔ وہ بھی تم۔۔۔‘‘

    شرد کے الفاظ سن کر منجولا کا کلیجہ کٹ گیا۔ اسے کراہیت محسوس ہوئی، چڑ گئی۔ اس کے ساتھ شرد کو ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اس کا جی چاہا ابھی ٹھ کر کہیں دور نکل جائے۔ بہت دور۔۔۔

    اتنے میں شرد نے اسے اچانک کرسی سے نیچے گھسیٹ لیا۔ غصے میں بدبدایا، ’’مہینے بھر سے برداشت کر رہا ہوں۔ بہت عجیب ہو گئی ہو تم۔‘‘

    وہ نیچے آ پڑی، اس کی گرفت میں اسے کوئی لطف محسوس نہیں ہوا۔ گرمی کے مارے دم اور زیادہ گھٹنے لگا۔ اس کا گلے لگانا لوکل ٹرین میں چاروں طرف سے لگنے والے مردوں کے دھکوں کی مانند تھا اور بوسہ بھیڑبھاڑ میں لی گئی چٹکی کی طرح۔

    شرد نے چڑکر اسے دور دھکیل دیا، ’’جاؤ مرو!‘‘

    منجولا کو لگا سچ مچ اسے موت آ جائے تو اچھا۔ اپنے محبوب، اپنے شوہر کے ساتھ چلنے کی سکت بھی نہیں رہی اس میں۔ اسے خود سے نفرت ہونے لگی۔ اب اور کن معاملات میں اپنی پسند و ناپسند، اپنے خیالات و جذبات کا جنازہ نکلنا باقی ہے؟ پھر اتنی سی بات کے لیے ضد کیوں؟ کیا ان گنت عورتیں چپ چاپ اپنے من کو نہیں مارتی ہیں؟ خود اس کا شرد بھی تو یہی کر رہا ہے۔ بےکل ہوکر اس نے بےاختیار آواز دی، ’’آؤ نا، لونا۔‘‘

    ’’لاش کے منہ سمبھوگ نہیں کر سکتا میں۔‘‘ اس نے تلخ ہوکر جواب دیا اور اٹھ گیا، ’’آج سے تمہارا اور میرا رشتہ ختم۔ تم نے خود مجھے اپنے سے دور کر دیا۔ تم اس طرح رہ سکتی، پر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ میں اپنا سکھ آپ تلاش کر لوں گا۔ تمہارے نخرے نہیں سہہ سکتا۔ جا رہا ہوں میں۔‘‘

    منجولا کے آنسو خشک ہو گئے، پیشانی شکنوں سے بھر گئی۔ بھڑک کر چلا اٹھی، ’’جاؤ، جاؤ جہاں جی چاہے جاؤ۔‘‘

    ’’تمہارے باپ کا ڈر نہیں ہے۔‘‘

    ’’لو، اس پرس میں پیسے ہیں، چاہیے تو لواور جاؤ۔‘‘ منجولا غصے سے بےقابو ہو رہی تھی۔ اسے لگا جیسے اس کاسرپھٹ جائےگا یا سارا بدن سلگ اٹھےگا۔

    پھر اچانک سے کسی خوف نے آ گھیرا۔ دلی کوفت اور رنج مل کر اسے بے ہوش کرنے لگے۔ غصے اور غم کی کشمکش نے اس کی حالت قابل رحم بنا دی۔ بے انتہا کوشش کے بعد وہ خود پر قابو پا سکی، سرکتی ہوئی آگے بڑھی اور ٹٹولتے ہوئے شرد کے پیر پکڑ کر بولی۔ ’’معاف کر دو، مجھ پر دیا کرو، مجھے سمجھو، تمہارا وجود مجھے چاہیے لیکن۔۔۔‘‘

    شرد ہونٹ چباتا ہوا آرام کرسی کی طرف بڑھا اور لٹھ کی طرح دھم سے اس پر گرکر سگریٹ سلگانے لگا۔

    منجولا بڑی رقت کے ساتھ اس کی جانب سرکی اور دردمندی سے بولی، ’’کیسے سمجھاؤں تمہیں؟ میرے سارے تصورات بالکل الگ، ایک دم مختلف ہیں دوست! روح مسرور ہو، جسم کھلا کھلا ہو، صاف ستھرا اور خوبصورت ماحول ہو تو ہی میرے جذبات پھلتے پھولتے ہیں۔ یہاں آس پاس شور، آمدورفت جاری رہتی ہے، رونا چلانا، گالم گلوج سن کر طبیعت مالش کرنے لگتی ہے۔ پسینہ بہتا رہتا ہے۔ پسو کاٹتے رہتے ہیں، بدن چور اور سر بھاری رہتا ہے، ہزاروں باسی بریڈ کے ٹکرے، لوکل ٹرین میں بھوکی نگاہیں اور آفس کے ٹائپ رائٹر کی کھٹ کھٹ، ان سب سے دماغ کو تکلیف پہنچتی رہتی ہے اور پھر دل ایک دم مرجھا جاتا ہے، جسم آمادہ نہیں ہوتا۔ چارو ں طرف یہ عمل نفرت انگیز روپ اختیار کرتا جا رہا ہے، حیوانوں کی طرح۔ لیکن مجھے حیوان نہیں بننا ہے۔ میں اپنے جذبات، اپنی خواہشات کی حفاظت کرتی ہوں، انہیں پوتر مانتی ہوں۔ کم از کم اس تحفظ سے تو مجھے محروم نہ کرو۔ مجھے بےعزت نہ کرو شرد، مجھے بےعزت نہ کرو۔‘‘

    منجولا کے ادھورے شبد کب ختم ہوئے خود اسے بھی پتہ نہیں چلا۔ ہچکیوں کے سیلاب میں پگھل کر بہہ گئے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی دھماکے کے ساتھ پھٹنا چاہتی تھی اورسلگ رہی تھی۔ لوکل ٹرین کے لوگ پشت کی جانب دھکے دے رہے تھے اور ہوس بھری نظروں سے اسے گھور رہے تھے۔ راہ چلتوں کے فحش الفاظ اور چال کے بےشمار بچے مل کر اس کے اردگرد ناچ رہے تھے، پسو کاٹ رہے تھے۔ پسینہ بہہ رہا تھا اور شرد کی گود میں سر رکھے ہوئے وہ نیند کی آغوش میں سماتی جا رہی تھی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے