Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منتر

پریم چند

منتر

پریم چند

MORE BYپریم چند

    شام کا وقت تھا۔ ڈاکٹر چڈھا گولف کھیلنے کے لئے تیار ہورہے تھے۔ موٹر دروازہ کے سامنے کھڑی تھی۔ کہ دو کہار ڈولی اٹھائے آتے دکھائی دیے۔ عقب میں ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا آرہا تھا۔ ڈولی مطب کے سامنے آکر رک گئی۔ بوڑھے نے دھیرے دھیرے آکر دروازہ پر پڑی ہوئی چک میں سے جھانکا۔ ایسی صاف ستھری زمین پر پاؤں رکھتے ہوئے اسے خدشہ لاحق ہورہا تھا۔ کہ کوئی جھڑک نہ دے۔ ڈاکٹر صاحب کو میز کے قریب کھڑے دیکھ کر بھی اسے کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔

    بوڑھے نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’حضور! بڑا غریب آدمی ہوں۔ میرا لڑکا کئی روز سے۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب نے سگار سلگا کر جواب دیا، ’’کل صبح آؤ۔ کل صبح۔ ہم اس وقت مریضوں کو نہیں دیکھتے۔‘‘

    بوڑھے نے گھٹنے ٹیک کر زمین پر سر رکھ دیا۔ اور بولا، ’’دو ہائی ہے سرکار کی۔ لڑکا مرجائے گا۔۔۔ حضور چار دن سے آنکھیں نہیں۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر چڈھا نے کلائی پر نظر ڈالی۔ محض دس منٹ باقی تھے۔ گولف سٹک کھونٹی سے اتارتے ہوئے بولے، ’’کل سویرے آنا کل سویرے۔ یہ ہمارے کھیلنے کا وقت ہے۔‘‘

    بوڑھے نے پگڑی اتار کر چوکھٹ پر رکھ دی۔ او رروکر بولا، ’’حضور! ایک نگاہ ڈل دیں۔ محض ایک نگاہ۔۔۔ لڑکا ہاتھ سے چلا جائے گا حضور! ایک لڑکوں میں سے یہی ایک بچ رہا ہے۔۔۔ حضور! ہم دونوں آدمی رو روکر مرجائیں گے۔ سرکار کا اقبال بڑھے۔۔۔ دین بندھو۔‘‘

    ایسے گنوار اور ناسمجھ دیہاتی تقریباً روز ہی آیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان کی فطرت سے اچھی طرح تھے۔ کوئی کتنا ہی کیوں نہ کہے۔ وہ اپنی ہی رٹ لگاتے جائیں گے۔ کسی کی سنیں گے نہیں۔ آہستگی سے چک اٹھاکر موٹر کی طرف بڑھے۔ بوڑھا ان کے پیچھے یہ کہتا ہوا لپکا، ’’سرکار! بڑاکرم ہوگا۔ حضور رحم کیجئے۔ بڑا بے بس اور دکھی ہوں۔۔۔ دنیا میں اور کوئی نہیں ہے بابو جی۔‘‘

    لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس کی طرف منہ گھما کر دیکھا تک نہ۔ موٹر پر بیٹھ کر بولے، ’’کل صبح آنا۔‘‘

    موٹر چلی گئی۔ بوڑھا کئی منٹ تک تصویر کی طرح ساکن کھڑا رہا۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ جو اپنی تفریح کے لئے دوسروں کی زندگی کی بھی پروا نہیں کرتے۔ شاید اس پر اب بھی اسے وشواس نہ ہوتا تھا۔ مہذب دنیا اس قدر سنگ دل اور بے حس ہے اس کا ایسا تعجب انگیز احساس اسے اب تک نہ ہوا تھا۔ وہ پرانے زمانے کے ان لوگوں میں سے تھا۔ جو لگی ہوئی آگ بجھانے، مردے کو کندھا دینے، کسی کے چھپر کو اٹھانے اور کسی جھگڑے کو مٹانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔

    جب تک موٹر بوڑھے کی نظروں میں رہی۔ وہ وہیں کھڑا اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ شاید اسے اب بھی ان کے لوٹ آنے کی امید تھی۔ پھر اس نے کہاروں سے ڈولی اٹھانے کو کہا۔ ڈولی جدھر سے آئی تھی۔ ادھر ہی چلی گئی۔ چاروں طرف سے مایوس ہوکر وہ ڈاکٹر چڈھا کے پاس آیا تھا۔ ان کی بڑی تعریف سنی تھی۔ یہاں سے ناامید ہوکر وہ کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا۔۔۔ ماتھا پیٹ کر رہ گیا۔

    اسی رات اس کا ہنستا کھیلتا سات برس کا بچہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ بوڑھے ماں باپ کی زندگی کا یہی ایک سہارا تھا۔ اسی کا منہ دیکھ کر وہ زندہ تھے۔ اس چراغ کے گل ہوتے ہی زندگی کی تاریک رات میں سنسناہٹیں سی آگھسیں۔ بڑھاپے کی تند محبت ٹوٹے ہوئے دل سے نکل کر اس تاریکی میں بلک بلک رونے لگی۔

    کئی برس گزر گئے۔ ڈاکٹر چڈھا نے دولت کے ساتھ ساتھ عزت بھی خوب کمائی۔ اور اپنی صحت کی سختی سے حفاظت کی۔ جو ایک غیر معمولی بات تھی۔ یہ ان کی باقاعدہ زندگی کا ہی نتیجہ تھا۔ کہ ۵۰ برس کی عمر میں ان کی چستی اور پھرتی نوجوانوں سے بھی بڑھ چڑھ کر تھی۔ ان کا ہر کام وقت کا پابند تھا۔ اس پابندی سے وہ ذرہ بھر بھی پرے نہ ہٹتے۔عام طور پر لوگ صحت کے اصولوں کی پیروی اس وقت کرتے ہیں جب وہ بیمار ہوجاتے ہیں وہ زندگی کے عام اصولوں کا بھید بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ان کی اولاد بھی اسی قانون کے زیرِ اثر تھی۔

    ان کے محض دو بچے ہوئے۔ ایک لڑا اورایک لڑکی۔ تیسرا بچہ نہ ہوا۔ اس لئے شریمتی چڈھا بھی ابھی جوان ہی نظر آتی تھیں۔ لڑکی کی شادی ہوچکی تھی۔ لیکن لڑکا ابھی کالج میں ہی پڑھتا تھا۔ وہی ماں باپ کی زندگی کا سہارا تھا۔ طبیعت میں انتہائی سکون، شرافت کا پتلا۔ بے حد باذوق اور فیاض۔ یونیورسٹی کا عزیز ترین طالب علم۔ نوجوان طبقہ کا محبوب رکن۔ جب بات کرتا تو جیسے منہ سے پھول جھڑتے تھے۔

    آج اس کی بیسویں سالگرہ تھی۔ شام کا وقت تھا۔ ہری ہری گھاس پر کرساں بچھی ہوئی تھیں۔ شہر کے رؤسا اور حکام ایک طرف اور کالج کے لڑکے دوسری طرف بیٹھے کھانا تیار رکر رہے تھے۔ بجلی کے قمقموں سے میدان بقہِ نور بنا ہوا تھا۔ تفریح کا تمام سامان بھی موجود تھا۔ چھوٹا سا مزاحیہ ڈرامہ کھیلنے کی تیاری بھی ہورہی تھی۔ کھیل خود کیلاش ناتھ نے لکھا تھا۔ نمایاں کرداربھی وہی تھا۔ اس وقت وہ ایک ریشمی قمیض پہنے۔ ننگے سر۔ ننگے پاؤں ادھر ادھر دوستوں کی آؤ بھگت میں مشغول تھا۔ کوئی پکارتا۔ کیلاش! ذرا ادھر آنا۔ کوئی ادھر سے بلاتا۔ کیلاش کیا ادھر ہی رہوگے؟ سبھی اسے چھیڑتے تھے۔ مذاق کرتے تھے۔ بیچارے کو دم مارنے کا بھی وقت نہ ملتا تھا۔

    اچانک ایک حسینہ نے اس کے قریب آکر کہا، ’’کیوں کیلاش ! تمہارے سانپ کہاں ہیں؟ ذرا مجھے دکھاؤ تو۔‘‘

    کیلاش نے اس سے مصافحہ کر کے کہا، ’’مرنالنی! اس وقت معاف کرو۔ کل دکھا دوں گا۔‘‘

    مرنالنی نے اصرار کر کے کہا، ’’جی نہیں! تمہیں دکھانا پڑے گا۔ میں آج نہیں ماننے کی۔ تم ہر روز کل کل کرتے رہتے ہو۔‘‘

    مرنالنی اور کیلاش دونوں ہم جماعت تھے۔ اور ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار۔ کیلاش کو سانپوں کے پالنے۔کھلانے اور نچانے کا بہت شوق تھا۔ طرح طرح کے سانپ پال رکھے تھے۔ ان کی فطرت اوررہن سہن کا مطالعہ گہری نظر سے کیا کرتا تھا۔ تھوڑے دن ہوئے۔ انہوں نے کالج میں سانپوں پر ایک معرکۃ الآرا تقریر کی تھی۔ سانپوں کے رقص کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس موضوع کے بڑے بڑے عالم بھی یہ مضمون سن کرانگشت بدنداں رہ گئے تھے۔ یہ فن اس نے ایک معمر سپیرے سے حاصل کیا تھا۔ سانپوں کی جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنے کا اسے جنون تھا۔ محض اس قدر اطلاع مل جانے پر کہ کسی آدمی کے پاس کوئی اچھی جڑی ہے۔ اسے چین نہ آتا تھا۔ اسے حاصل کر کے ہی دم لیتا۔ یہی ایک عیب تھا۔ جس پر ہزارہا روپے خرچ کرچکاتھا۔ مرنالنی کئی مرتبہ آچکی تھی۔ لیکن کبھی سانپوں کو دیکھنے کے لئے اس قدر مصر نہ ہوئی تھی۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ واقعی اس کا اشتیاق اس قدر شدید ہوگیا تھا۔ یا وہ محض کیلاش پر اپنے حقوق کامظاہرہ کرناچاہتی تھی۔ لیکن اس کی ضد بے موقعہ تھی۔ اس کوٹھری میں کتنی بھیڑ لگ جائے گی۔ ہجوم کو دیکھ کر سانپ کس قدر چونکیں گے۔ اور رات کو انہیں چھیڑناکتنا برا لگے گا۔ان باتوں پر اس نے ذرا بھی غور نہ کیا۔

    کیلاش نے کہا، ”نہیں۔ کل ضرور دکھادوں گا۔ اس وقت عمدگی سے دکھا بھی تو نہ سکوں گا۔ کمرے میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہ رہے گی۔‘‘

    ایک صاحب چھیر کر بولے، ’’دکھا کیوں نہیں دیتے ؟ اتنی سی بات کے لئے اتنی ٹال مٹول کر رہے ہو۔ مس گو بند!ہر گز نہ ماننا۔ دیکھیں کیونکر نہیں دکھاتے؟‘‘

    دوسرے مہاشہ اور بھی طنز سے بولے، ’’مس گوبنداس قدر معصوم اور سادہ لوح ہیں۔ تبھی اس قدر مزاج کرتے ہیں۔ کوئی اور ہوتی تو اب تک اس بات پر بگڑ چکی ہوتیں۔‘‘

    تیسرے حضرت مذاق اڑاکر بولے، ’’اجی تعلقات قطع کرلیتیں۔ بھلا کوئی بات ہے یہ بھی۔ اس پرآپ کو دعویٰ ہے کہ مرنالنی کے لئے جان تک حاضر ہے!‘‘

    مرنالنی نے دیکھا کہ سبھی مل جل کر اسے بنارہے ہیں۔ توبولی، ’’آپ لوگ میری وکالت نہ کریں۔ میں خود اپنی وکالت کرلوں گی۔ میں اس وقت سانپوں کا تماشہ نہیں دیکھنا چاہتی۔ چلو چھٹی ہوئی۔‘‘

    ایک دوست نے مذاق اڑایا، ’’دیکھنا تو آپ سب کچھ چاہیں۔ لیکن کوئی دکھائے بھی تو۔‘‘

    کیلاش کو مرنالنی کی اتری اور جھینپی ہوئی شکل دیکھ کر معلوم ہوا کہ اس کا یہ انکار اسے کتنابرا معلوم ہورہا ہے۔ جیوں ہی پریتی بھوجن ختم ہوکر گانا شروع ہوا۔ اس نے مرنالنی اور دوسرے دوستوں کو سانپوں کے ڈربے کے سامنے لے کر ڈگڈگی بجانا شروع کردیا۔ پھر ایک ایک خانہ کھول کر ایک ایک سانپ کو نکالنے لگا۔ وہ کیا کمال تھا۔ ایسا جان پڑتا تھا کہ یہ کیڑے اس کی ایک ایک بات اس کے دل کا ہر ایک جذبہ سمجھتے ہیں۔ کسی کو اٹھالیا۔کسی کو گردن میں حمائل کرلیا۔کسی کو ہاتھ میں لپیٹ لیا۔ مرنالنی ہر مرتبہ منع کرتی کہ انہیں گلے میں ڈالو۔ دوسرےسے ہی دکھا دو۔ بس ذرانچادو۔ کیلاش کی گردن میں سانپوں کو لپٹتے دیکھ کر اس کی تو جان ہی نکلی جارہی تھی۔ پچھتارہی تھی کہ میں نے خواہ مخواہ انہیں سانپ دکھانے کو کہا۔ لیکن کیلاش ایک نہ سنتا تھا۔ محبوبہ کے سامنے اپنے اس فن کی نمائش کا ایسا موقعہ پاکر وہ کب چوکتا تھا۔ ایک دوست نےبتایا، ’’دانت توڑ ڈالےہوں گے۔‘‘

    کیلاش نے ہنس کر جواب دیا، ’’دانت توڑ ڈالنا مداریوں کا کام ہے۔ کسی کے دانت نہیں توڑے گئے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ایک کالے سانپ کر پکڑ لیا۔ اوربولا، ’’میرے پاس اس سے بڑھ کر زہریلا سانپ اور کوئی نہیں ہے۔ اگر کسی کو کاٹ لے تو آدمی چشم دن میں مر جائے۔ ایک لمحہ کی بھی مہلت نہ ملے۔ اس کے کاٹے کا منتر نہیں۔ اگر کہو تو اس کے دانت دکھادوں؟‘‘

    مرنالنی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’نہیں نہیں کیلاش! ایشور کے لئے اسے چھوڑ دو۔ تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔‘‘

    اس پر ایک دوست بولے، ’’مجھے تو یقین نہیں آتا۔ لیکن تم کہتے ہو۔ تو مان لوں گا۔‘‘

    کیلاش نے سانپ کی گردن پکڑ کر کہا، ’’نہیں صاحب! آپ آنکھوں سے دیکھ کر ہی مانئے۔ دانت توڑ کر بس میں کیا تو کیا کیا۔ سانپ بڑا سمجھدار ہوتا ہے۔ اگر اسے وشواس ہوجائے کہ اس آدمی سے اسے کوئی نقصان پہنچنےکااحتمال نہیں تو وہ اسے کبھی نہ کاٹے گا۔‘‘

    مرنالنی نے جب یہ دیکھا کہ کیلاش کے سر پر بھوت سوار ہے تو اس نے مظاہرہ ختم کردینے کے ارادے سے کہا، ’’اچھا بھئی! اب یہاں سے چلو۔ دیکھو گانا شروع ہوگیا ہے۔ آج میں بھی کوئی چیز سناؤں گی۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے کیلاش کا شانہ پکڑ کر اسے چلنے کا اشارہ کیا اور کمرے سے نکل گئی۔ لیکن کیلاش تو مخاطب لوگوں کا وہم دور کر کے دم لینا چاہتا تھا۔ اس نے سانپ کی گردن پکڑ کر اس زور سے دبائی کہ اس کا منہ سرخ ہوگیا اور جسم کی تمام رگیں تن گئیں۔ سانپ نے اس کے ہاتھوں کبھی ایسا سلوک نہ دیکھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اس سے چاہتے کیا ہیں۔ اسے خدشہ محسوس ہوا کہ شاید وہ اسے مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی حفاظت کے لئے مستعد ہوگیا۔ کیلاش نے اس کی گردن خوب دباکر اس کا منھ کھول دیا۔ اور اس کے زہریلے دانت دکھاتے ہوئے بولا، ’’جن دوستوں کو شک ہو۔ آکر دیکھ لیں۔ آیا اب بھی کچھ شک ہے؟‘‘

    احباب نے آکر اس کے دانت دیکھے۔ اور متعجب رہ گئے۔ ٹھوس ثبوت کے سامنے شک و شبہ کی گنجائش کہاں؟ دوستوں کے شکوک کا ازالہ کرنے کے بعد اس نے سانپ کی گردن ڈھیلی چھوڑ دی۔ اور اسے زمین پر رکھنا چاہا۔ لیکن وہ کالا سانپ غصہ سے پاگل ہورہا تھا۔ گردن نرم پڑتے ہی اس نے سر اٹھاکر کیلاش کی انگلی پر لپک کر زور سے کاٹا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ انگلی سے ٹپ ٹپ لہو ٹپکنے لگا۔ پوری قوت سے انگلی دبا کر کیلاش اپنے کمرے کی طرف دوڑا۔ وہاں میز کی دراز میں ایک جڑی پڑی تھی۔ جسے پیس کر لگادینے سے سِم ِقاتل بھی دور ہوجاتا تھا۔ دوستوں میں ہلچل مچ گئی۔ باہر محفل میں اطلاع پہنچی اور ڈاکٹر صاحب گھبراکر دوڑے فوراً انگلی کی جڑ کس کر باندھی گئی اور جڑی پیسنے کے لئے دے دی گئی۔ ڈاکٹر صاحب جڑی کے قائل نہ تھے۔ وہ انگلی کو ڈسا ہوا حصہ نشتر سے کاٹ دینا چاہتے تھے۔ لیکن کیلاش کو جڑی پر مکمل وشواس تھا۔

    مرنالنی پیانوں پر بیٹھی تھی۔ خبر ملتے ہی دوڑی آئی اور کیلاش کی انگلی سے ٹپکتے ہوئے لہو کو رومال میں جذب کرنے لگی۔ جڑی پیسی جانے لگی۔ لیکن اس ایک لمحہ میں ہی کیلاش کی آنکھیں جھپکنے لگیں۔ ہونوں پر زردی پھیل گئی۔ یہاں تک کہ وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ فرش پر بیٹھ گیا۔ سارے مہمان کمرہ میں جمع ہوگئے۔ کوئی کچھ کہتا تھا۔ کوئی کچھ۔ اتنے میں جڑی پس کر آگئی۔ مرنالنی نے انگلی پر لیپ کیا۔ ایک منٹ اور گزرا۔ کیلاش کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ وہ لیٹ گیا اور ہاتھ سے ہوا کرنے کا اشارہ کیا۔ ماں نے دوڑ کر اس کا سرگود میں رکھ لیا اورمیز کا برقی پنکھا لگا دیا گیا۔

    ڈاکٹر صاحب نے جھک کر پوچھا، ’’کیلاش کیسی طبیعت ہے؟‘‘

    کیلاش نے آہستگی سے ہاتھ اٹھادیا۔ لیکن کچھ بولا نہیں۔ مرنالنی نے رونی آواز میں کہا، ’’کیا جڑی کچھ اثر نہ کرے گی؟‘‘

    ڈاکٹر صاحب نے سر تھام کر کہا، ’’کیا بتلاؤں۔ میں ا س کی باتوں میں آگیا۔ اب تو نشتر سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا۔‘‘

    نصف گھنٹہ تک یہی کیفیت رہی۔ کیلاش کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے اور چہرہ ماند پڑتا گیا۔ نبض کا کہیں پتہ نہ تھا۔ موت کے سبھی آثار نظر آرہے تھے۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ ایک طرف مرنالنی سر پیٹنے لگی۔ دوسری طرف ماں الگ بچھاڑیں کھانے لگی۔ ڈاکٹر چڈھا کو احباب نے تھام لیا۔ نہیں تو وہ اپنی گردن میں ہی نشتر اتار دیتے۔

    ایک صاحب بولے، ’’کوئی منتر جھاڑنے والا مل جائے تو عین ممکن ہے اب بھی بچ جائے۔‘‘

    ایک مسلمان نے اس کی تائید کی، ’’ارے صاحب! قبر میں پڑی ہوئی لاشیں زندہ ہوگئیں۔ ایسے ایسے باکمال موجود ہیں۔‘‘

    ڈاکٹر چڈھا بولے، ’’میری عقل پر پتھر پڑگیا تھا کہ اس کی باتوں میں آگیا۔ نشتر لگا دیتا تو یہ نوبت ہی کیوں آتی۔ بار بار سمجھاتا تھا کہ بیٹا سانپ نہ پالو۔ مگر کون سنتا تھا۔ بلائیے کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کو ہی بلائیے۔ میرا سب کچھ لے لے۔ میں اپنی تمام جائیداد اس کے قدموں پر رکھ دینے کو تیار ہوں۔ لنگوٹی باندھ کر گھر سے نکل جاؤں گا۔ لیکن میرا کیلاش۔ میرا عزیز کیلاش جی اٹھے۔ بھگوان کے لئے کسی کو بلائیے۔‘‘

    ایک صاحب کی کسی جھاڑنے والے سے جان پہچان تھا۔ دوڑ کر اسے بلا لائے۔ لیکن کیلاش کی شکل دیکھ کر اسے منتر چلانے کی جرأت نہ ہوئی۔ بولا، ’’اب کیا ہوسکتا ہے سرکار! جو کچھ ہونا تھا۔ ہوچکا۔ ‘‘

    ’’ارے احمق! یہ کیوں نہیں کہتا کہ جو کچھ نہ ہونا تھا۔ ہوچکا۔ جو کچھ ہونا تھا وہ کہاں ہوا؟ ماں باپ نے بیٹے کا سہرا کہاں دیکھا؟ مرنالنی کی آرزوؤں کی تکمیل کہاں ہوئی۔ دل کے وہ حسین خواب جس سے زندگی مسرتوں اور قہقہوں سے بھرپور تھی۔ کہاں پورے ہوئے؟ زندگی کے رقصاں سمندر میں دل کی خوشی لوٹتے ہوئے کیا ان کی نیا کو پانی نے نہیں نگل لیا۔ جو نہ ہونا تھا۔ وہ ہوگیا۔ وہی ہرا بھرا میدان تھا۔ وہی نشیلی روشن چاندنی ایک خاموش سنگیت کی طرح ماحول پرچھائی ہوئی تھی۔ وہی احباب کا جمِ غفیر تھا۔ وہی عیش و نشاط کے سامان تھے۔ لیکن جہاں مترنم قہقہے گونجتے تھے۔ وہاں اب درد و کرب اور آنسوؤں کا دور دورہ تھا۔‘‘

    شہر سے کئی میل دور ایک چھوٹے سے گھر میں ایک بوڑھا اوربڑھیا انگیٹھی کے سامنے بیٹھے جاڑے کی رات کاٹ رہے تھے۔ بوڑھا ناریل پیتا اور بیچ بیچ میں کھانستا بھی جاتا تھا۔ بڑھیا دونوں گھٹنوں میں سردئے آگ کی طرف تاک رہی تھی۔ مٹی کے تیل کی ایک کپی طاق پر جل رہی تھی۔ گھر میں چارپائی تھی۔ اور نہ بچھونا۔ ایک کنارے تھوڑی سی پیال پڑی تھی۔ اس کوٹھری میں ایک چولھا تھا۔ بڑھیا دن بھر سوکھی لکڑیاں اور اپلے چنتی تھی۔ بوڑھا رسی بناکر شہر میں فروخت کرآتا تھا۔ یہی ان کی زندگی تھی۔ انہیں نہ کسی نے روتے دیکھا اور نہ ہنستے۔ ان کا تمام وقت زندہ رہنے میں کٹ جاتا تھا۔ موت دروازہ پر کھڑی تھی۔ رونے یا مسکرانے کی فرصت کہاں؟ بڑھیا بولی، ’’کل کے لئے سَن تو ہے نہیں۔ کام کیا کروگے؟‘‘

    ’’جاکر جھگڑو شاہ سے دس سیر سن ادھار لاؤں گا۔‘‘

    ’’اس کے سابقہ دام تو دئے نہیں اورادھار کیوں کردے گا؟‘‘

    ’’نہ دے گا نہ سہی۔ گھاس تو کہیں نہیں گئی۔ دوپہر تک کیا دو آنہ کی بھی نہ کاٹ سکوں گا؟‘‘

    اتنے میں ایک آدمی نے آکر آواز دی، ’’بھگت! بھگت! کیا سوگئے؟ ذرا کواڑ تو کھولو۔‘‘

    بھگت نے اٹھ کر کواڑ کھول دئے۔ ایک آدمی نے اندر آکر کہا، ’’کچھ سنا؟ ڈاکٹر چڈھا بابو کے لڑکے کو سانپ نے کاٹ کھایا۔‘‘

    بھگت نے چونک کر کہا، ’’چڈھا بابو کے لڑکے کو؟ وہی چڈھا بابو ہیں نہ جو چھاؤنی میں بنگلے میں رہتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں ہاں وہی! شہر بھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ جاتے ہو تو جاؤ۔ آدمی بن جاؤگے۔‘‘

    بوڑھے نے سخت لہجہ میں سر ہلاکر کہا، ’’میں نہیں جاتا۔ میری بلا جائے۔ وہی چڈھا ہیں۔ خوب جانتے ہیں۔ بھیا کو لے کر انہیں کے پاس گیا تھا۔ کھیلنے جارہے تھے۔ پاؤں پر گرا تھا کہ ایک نظر دیکھ لیجئے۔ لیکن سیدھے منہ بات تک نہ کی۔ بھگوان بیٹھے سن رہے ہیں۔ اب جان پڑے گا کہ بیٹے کا غم کیسا ہوتا ہے اور کئی لڑکے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں جی! یہی تو ایک لڑکا تھا۔ سنا ہے سب نے جواب دے دیا ہے۔‘‘

    ’’بھگوان بڑا کارساز ہے۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو تیر آئے تھے۔ لیکن انہیں ذرا بھی رحم نہ آیا۔ میں تو ان کے دروازہ پر ہوتا تو بھی بات نہ پوچھتا۔‘‘

    ’’تو نہ جاؤگے؟ ہم نے تو سنا تھا۔ تم سے آکر کہہ دیا۔‘‘

    ’’اچھا کیا۔۔۔ اچھا کیا۔ کلیجہ شانت ہوگیا۔ آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔ لڑکا بھی سرد ہوگیا ہوگا۔ تم جاؤ۔ آج سکھ کی نیند سوؤں گا۔ (بڑھیا سے) ذرا تماکھولےلے۔ ایک چلم اور پیوں گا اب معلوم ہوگا لالہ کو۔ ساری صاحبی نکل جائے گی۔ ہمارا کیا بگڑا۔ لڑکے کے مرجانے سے راج تو نہیں چلا گیا۔ جہاں چھ بچے چلے گئے۔ ایک اور گیا تو کیا ہوا؟ تمہارا تو راج سونا ہوگیا۔ اسی کے لئے سب کا گلا دبا دبا کر جمع کیا تھا۔ اب کیا کروگے؟ ایک بار دیکھنے جاؤں گا۔ لیکن کچھ دن بعد طبیعت کا حال پوچھوں گا۔‘‘

    آدمی چلا گیا۔ بھگت نے کواڑبند کرلئے اور چلم پر تمباکو رکھ کر پینے لگا۔

    بڑھیا نے کہا، ’’اتنی رات گئے جاڑے میں کون جائے گا؟‘‘

    ’’ارے دوپہر ہوتی تو بھی نہ جاتا۔ سواری دروازے پر لینے آتی تو بھی نہ جاتا۔ بھول نہیں گیا۔ پنا کی صورت اب بھی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ اس بے رحم اور سنگ دل نے اسے نگاہ اٹھاکر دیکھا تک نہیں تھا۔ کہ میں نہ جانتا تھا کہ وہ نہیں بچے گا۔ خوب جانتا تھا۔ چڈھا بھگوان نہیں تھے۔ کہ ان کے ایک نظر دیکھ لینے سے امرت برس پڑے گا۔ نہیں! محض دل کا وہم تھا۔ ذرا تسلی ہوجاتی۔ بس اسی لیے اس کے پاس دوڑا گیا تھا۔ اب کسی روز جاؤں گا۔ اور پوچوں گا۔ کیوں صاحب ! کہئے کیسے رنگ ہیں۔ دنیا برابر کہے گی۔ کہے۔ کوئی پروا نہیں۔ چھوٹے آدمیوں میں تو سب عیب ہوتے ہیں، بڑوں میں کوئی خامی نہیں ہوتی۔ دیوتا ہوتے ہیں۔‘‘

    بھگت کے لئے زندگی میں یہ اولین موقعہ تھا۔ کہ ایسی خبر پاکر وہ خاموش بیٹھا رہا ہو۔ ۸۰ برس کی زندگی میں ایسا کبھی نہ ہوا۔ کہ سانپ کی خبر پاکر وہ دوڑا نہ گیا ہو۔ پوہ ماگھ کی اندھیری رات، چیت بساکھ کی دھوپ اور لُو، ساون بھادوں کے سیلاب زدہ ندی نالے، کسی کی اس نے پروا نہ کی تھی۔ وہ فوراً گھر سے نکل پڑتا تھا۔ بے لوث اور بے مدعا۔ لینے دینے کا جذبہ بھی دل میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ ایسا کام ہی نہ تھا۔ زندگی کی قیمت کون دے سکتا تھا۔ یہ ایک نیک کام تھا۔ صدہا مایوس آدمیوں کو اس کے منتروں نے زندگی عطا کی تھی۔ لیکن آج وہ گھر سے قدم نہیں نکال سکا۔ یہ اطلاع پاکر بھی سونے جارہا تھا۔

    بڑھیا نے کہا، ’’تمباکو انگیٹھی کے قریب رکھی ہوئی ہے اس کے بھی آج اڑھائی پیسے ہوگئے ہیں۔ دیتی ہی نہ تھی۔‘‘

    بڑھیا یہ کہہ کر لیٹ گئی۔ بوڑھے نے کپی گل کی۔ کچھ دیر کھڑا رہا۔ پھر بیٹھ گیا۔ آخر میں لیٹ گیا۔ لیکن وہ خبر اس کے سینہ پر ایک بوجھ سا بن کر موجود تھی۔ اسے معلوم ہورہا تھا کہ اس کی کوئی چیز کھو گئی ہے۔ جیسے تمام کپڑے گیلے ہوگئے ہیں یا پاؤں میں کیچڑ چمٹ گیا ہے۔ جیسے کوئی اس کے دل میں بیٹھا اسے گھر سے نکلنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ بڑھیا تھوڑی دیر میں ہی خراٹے لینے لگی۔ بوڑھے باتیں کرتے کرتے سوتے ہیں اور ذرا سی آہٹ پاکر ہی جاگ اٹھتے ہیں۔ تب بھگت اٹھا۔ اپنی لکڑی اٹھالی اور آہستہ سے کواڑ کھولے۔

    بڑھیا کی نیند کھل گئی۔ اس نے جلدی سے پوچھا، ’’کہاں جاتے ہو؟‘‘

    ’’کہیں نہیں۔ دیکھتا تھا کہ کتنی رات باقی ہے۔‘‘

    ’’ابھی بہت رات ہے۔ سوجاؤ۔‘‘

    ’’نیند نہیں آتی۔‘‘

    ’’نیند کاہے کو آئے گی۔ دل تو چڈھا کے گھر کے اردگرد گھوم رہا ہے۔‘‘

    ’’اس نے مجھ سے کون سی نیکی کی ہے۔ جو اس کے یہاں جاؤں۔ وہ آکر پاؤں پر گرے تو بھی نہ جاؤں۔‘‘

    ’’اٹھے تو اسی ارادے سے ہو۔‘‘

    ’’نہیں ری! ایسا احمق میں بھی نہیں ہوں کہ جو مجھے کانٹے دے۔ اسی کے لئے پھول بوتا پھروں۔‘‘

    بڑھیا پھر سو گئی۔ بھگت نے کواڑ بند کردیے اور پھر آکر بیٹھا۔ لیکن اس کی حالت بالکل ویسے ہی تھی۔ جیسے اپدیش سننے والوں کی باجہ کی آواز کان میں پڑنے پر ہوتی ہے۔ آنکھ چاہے اپدیشک کی طرف ہی ہو۔ لیکن کان باجے پر ہی لگے رہتے ہیں۔ دل میں بھی یہی آواز گونجتی رہتی ہے۔ بے رحم سلوک کا احساس بھگت کے لئے اپدیشک تھا۔ لیکن دل میں بدقسمت نوجوان کی طرف جھُک رہا تھا۔ جو اس وقت مر رہا تھا۔ جس کے لئے ایک ایک پل کی تاخیر بھی تباہ کن اور ہولناک ثابت ہوگی۔ اس نے پھر کواڑ کھولے۔ اس آہستگی سے کہ بڑھیا کو بھی خبر نہ ہوئی۔ باہر نکل آیا۔ اسی وقت گاؤں کا چوکیدار گشت لگا رہا تھا۔ بولا، ’’کیسے اٹھے بھگت؟ آج تو بہت سردی ہے۔ کہیں جارہے ہو کیا؟‘‘

    بھگت نے کہا، ’’نہیں جی۔ جاؤں گا کہاں۔ دیکھتا تھا۔ ابھی کتنی رات باقی ہے۔ بھلا وقت کیا ہوگا؟‘‘

    ’’ایک بجا ہوگا۔ او رکیا۔ ابھی تھانہ سے آرہا تھا۔ تو دیکھا کہ ڈاکٹر چڈھا بابو کے بنگلہ پر بڑی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ ان کے لڑکے کا حال تو تم نے سنا ہوگا۔ کیڑے نے چھولیا ہے۔ چاہے مر بھی گیا ہو۔ تم چلے جاؤ۔ تو شاید بچ جائے۔ سنا ہے۔ دس ہزار تک دینے کو تیار ہیں۔‘‘

    ’’میں نہ جاؤں گا۔ خواہ وہ دس لاکھ بھی دے۔ مجھے دس ہزار یا دس لاکھ لے کر کرنا بھی کیا ہے۔ کل مرجاؤں گا۔ پھر کون بھوگنے والا بیٹھا ہے؟‘‘

    چوکیدار چلا گیا۔ بھگت نے پاؤں آگے بڑھائے۔ جیسے نشے میں انسان کا جسم اس کی روح سے باغی ہوجاتا ہے۔ ا س کے بس میں نہیں رہتا۔ پاؤں کہیں رکھتا ہے اور پڑتا کہیں ہے۔ کہتا کچھ ہے اور زبان سے نکلتا کیا ہے۔ یہی کیفیت اس وقت بھگت کی تھی۔ دل میں ایک طوفان مچا ہوا تھا۔ انتقام تھا۔ جوابی عمل کی آگ روشن تھی۔ لیکن عمل دل کے قابو میں نہ تھا۔ جس نے کبھی تلوار کو حرکت نہیں دی۔ وہ ارادہ کرنے پر بھی اسے نہیں چلا سکتا۔ اس کے ہاتھ کانپتے ہیں۔ اٹھتے ہی نہیں۔

    بھگت لاٹھی کھٹ کھٹ کرتا لپکا جارہا تھا۔ احساس روکتا تھا۔ جذبہ اڑائے لئے جارہا تھا۔ خادم آقا پر فوقیت حاصل کر کے قابض تھا۔ آدھی رات گزر جانے کے بعد اچانک بھگت رک گیا۔ ہنسا اور انتقام نے فرض پر غلبہ پالیا، ’’میں یونہی اتنی دور چلا آیا۔ اس سردی اور تاریکی میں بے مقصد ہی اتنی دور آگیا۔ مجھے جان ہلکان کرنے کی کیا پڑی ہے؟ آرام سے سویا کیوں نہ رہا۔ نیند نہ آتی۔ نہ سہی۔ دو چار بھجن ہی گاتا۔ یونہی یہاں تک دوڑ آیا۔ چڈھا کا لڑکا رہے یا مرے۔ میری بلا سے۔ میرے ساتھ انہوں نے ایسا کون سا اچھا سلوک کیا تھا کہ میں ان کے لئے مروں؟ دنیا میں ہزاروں مرتے ہیں ہزاروں جیتے ہیں۔ مجھے کسی کے مرنے جینے سے کیا واسطہ؟‘‘

    لیکن انتقام نے ایک دوسرا رخ اختیار کیا۔ جو ہِنسا سے بہت کچھ ملتا جلتا تھا وہ جھاڑ پھونک کرنے نہیں جارہا۔ وہ تو دیکھے گا کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ کس طرح پیٹتے ہیں۔ کیونکر بچھاڑیں کھاتے ہیں۔ وہ دیکھے گا کہ بڑے لوگ بھی چھوٹوں کی طرح روتے ہیں یا صبر کرلیتے ہیں۔ بدلہ لینے کے جذبہ کو تسکین دایتا ہوا اس طرح وہ آگے بڑھنے لگا۔

    اتنے میں دو آدمی آتے دکھائی دیے۔ دونوں باتیں کرتے چلے آرہے تھے، ’’چڈھا بابو کا گھر اجڑ گیا۔ یہی تو ایک لڑکا تھا۔‘‘

    بھگت کے کانوں میں آواز پڑی۔ اس کی چال اور بھی تیز ہوگئی۔ تھکان کے مارے پاؤں نہ اٹھتے تھے۔اس قدر جلد جلد قدم اٹھا رہا تھا۔ جیسے اب منہ کے بل گر پڑے گا۔ اس طرح وہ کوئی دس منٹ تک چلا ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کا بنگلہ نظر آیا۔ بجلی کی بتیاں جل رہی تھیں۔ لیکن سناٹا چھایا ہوا تھا۔ رونے پیٹنے کی آواز بھی نہ آتی تھی۔ بھگت کا کلیجہ دھک دھک کرنے لگا۔ کہیں مجھے بہت دیر تو نہیں ہوگئی۔ اپنی عمر میں وہ اس قدر تیز کبھی نہ دوڑا ہوگا۔ بس یہی معلوم ہوتا تھا۔ جیسے اس کے عقب میں موت دوڑی آرہی ہے۔

    دو بج گئے۔ مہمان رخصت ہوچکےتھے۔ رونے والوں میں محض آکاش کے تارے رہ گئے تھے اور سبھی رو روکر تھک گئے تھے۔ بڑی بیتابی سے لوگ رہ رہ کر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ کسی طرح صبح ہو اور لاش کو گنگا کی آغوش میں بہا دیا جائے۔

    اچانک بھگت نے دروازہ پر پہنچ کر آواز دی۔ ڈاکٹر صاحب سمجھے۔ کوئی مریض آیا ہوگا۔ کسی اور دن انہو ں نے اس آدمی کو لوٹا دیا ہو۔ لیکن آج وہ باہر نکل آئے۔ دیکھا ایک بوڑھا آدمی کھڑا ہے۔ کمر جھکی ہوئی۔ پوپلا منہ۔ بھویں تک سفید ہوگئی تھیں۔ لکڑی کے سہارے کانپ رہا تھا۔ بڑی نرمی سے بولے، ’’کیا ہے بھائی۔ آج تو ہم پر مصیبت آپڑی ہے کہ کچھ کہتے نہیں بنتا۔ پھر کبھی آنا۔ ادھر ایک مہینہ تک تو شاید میں کسی مریض کو نہ دیکھ سکوں گا۔‘‘

    بھگت نے کہا،’’سن چکا ہوں بابو جی! اسی لیے تو آیا ہوں بھیا کہاں ہیں۔ ذرا مجھے بھی دکھا دیجئے۔ بھگوان بڑا کارساز ہے۔ مردے کو بھی جِلا سکتا ہے۔ کون جانے اب بھی اسے دیا آجائے۔‘‘

    چڈھا نے بے قرار لہجہ میں کہا، ’’چلو دیکھ لو۔ لیکن تین چار گھنٹے ہوگئے۔ جو کچھ ہونا تھا ہوچکا۔ بہتیرے جھاڑنے پھونکنے والے دیکھ دیکھ کر لوٹ گئے۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب کو امید تو کیا ہوتی۔ ہاں بوڑھے پر دَیا آگئی۔ اندر لے گئے۔ بھگت نے لاش کو دو منٹ دیکھا۔ تب مسکراکر بولا، ’’ابھی کچھ نہیں بگڑا بابو جی! وہ نارائن چاہیں گے تو آدھ گھنٹہ میں بھیا اٹھ بیٹھیں گے۔ آپ ناحق دل چھوٹا کر رہے ہیں۔ ذرا کہاروں سے کہئے پانی تو بھریں۔‘‘

    کہاروں نے پانی بھر بھر کر کیلاش کو نہلانا شروع کیا۔ پائپ بند ہوگیا تھا۔ کہاروں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ اس لئے مہمانوں نے احاطہ کے بیرونی کنوئیں سے پانی بھر بھر کر انہیں دینا شروع کیا۔ مرنالنی برتن لئے پانی لارہی تھی۔ بوڑھا بھگت مسکرا مسکرا کر منتر پڑھ رہا تھا۔ جیسے کامیابی اسکے سامنے کھڑی تھی۔ جب وہ ایک منتر ختم کرتا تو جڑی نکال کر کیلاش کو سونگھا دیتا۔ اس طرح نہ جانے کتنے گھڑے کیلاش پر ڈالے گئے اور نہ جانے کتنی مرتبہ بھگت نے منتر پھونکا۔ آخر آشانے جب اپنی لال لال آنکھیں کھولیں تو کیلاش کی لال لال آنکھیں بھی کھل گئیں۔ ایک لمحہ میں ہی اس نے انگڑائی لی اور پینے کے لئے پانی مانگا۔

    ڈاکٹر چڈھا نے دوڑ کر نارائنی کو گلے لیا۔ نارائنی دوڑ کر بھگت کے پاؤں پر گرپڑی اور مرنالنی کیلاش کے سامنے آنسوؤں سے آنکھیں پر کر کے بولی، ’’اب طبیعت کیسی ہے؟‘‘

    ایک لمحہ میں ہی یہ چیز ہر طرف منتشر ہوگئی۔ احباب مبارک باد دینے آنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب ہر ایک کے سامنے انتہائی عقیدت سے بھگت جی کا تذکرہ کر رہے تھے۔ سبھی لوگ بھگت کے درشنوں کے لئے بیتاب ہو اٹھے۔ لیکن اندر جاکر دیکھا تو بھگت کا کہیں پتہ نہ تھا۔ نوکروں نے کہا، ’’ابھی تو یہیں بیٹھے چلم پی رہے تھے۔ ہم لوگ تمباکو نکال کر دینے لگے تو نہیں لی۔ اپنی نکال کر چلم سلگائی۔‘‘

    یہاں تو بھگت کی چاروں طرف تلاش ہونے لگی اور ادھر بھگت لپکا ہوا گھر جا رہا تھا۔ کہ بڑھیا کے بیدار ہونے سے پہلے وہاں پہنچ جائے۔

    جب مہمان لوگ چلے گئے تو ڈاکٹر صاحب نے نارائنی سے کہا، ’’بوڑھا نہ جانے کہاں چلا گیا۔ ایک چلم تمباکو کا بھی روادار نہ ہوا۔‘‘

    نارائنی نے کہا، ’’میں نے تو سوچا تھا کہ اسے کوئی بہت بڑی رقم نذر کروں گی۔‘‘

    ڈاکٹر چڈھا بولے، ’’رات کو تو میں نے نہیں پہچانا۔ لیکن ذرا صاف ہونے پر میں اسے پہچان گیا تھا۔ ایک بار یہ ایک مریض لے کر آیا تھا۔ مجھے اب یاد آتا ہے کہ میں اس وقت کھیلنے جارہا تھا او رمریض کو دیکھنے سے انکار کردیا تھا۔ آج ایک روز کی بات یاد کر کے مجھے اس قدر کوفت اور خجالت محسوس ہورہی ہے کہ بیان نہیں کرسکتا۔ میں اب اسے کھوجوں گا اور اس کے قدموں پر سر رکھ کر معافی مانگوں گا۔ وہ کچھ لے گا نہیں یہ میں جانتا ہوں۔ اس کا جنم لیش کی بارش کرنے کے لئے ہی ہوا ہے۔ اس کے خلوص نے مجھے ایسا آدرش دکھایا ہے جو زندگی بھر میری نظروں میں رہے گا۔‘‘

    مأخذ:

    میرے بہترین افسانے (Pg. 27)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: کتاب منزل، لاہور

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے