Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منش، دھرم اور یدھ

عطاء الرحمان خاکی

منش، دھرم اور یدھ

عطاء الرحمان خاکی

MORE BYعطاء الرحمان خاکی

    گوتم بودھ کہتا ہے ’’میں سچ کو ڈھونڈتا تھا حیران ہوتا تھا، جب متلاشی تھا سچ نہ

    ملا اور جب سچ ملا اور میں نے ادھر ادھر دیکھا میں نہیں تھا‘‘۔

    گوتم بودھ اور وہ بھی شائد ایک ہی ناوکے سوار تھے، نہ معلوم منزلوں کے مسافر تو وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ کون ہے اور کیوں ہے، اگر وہ آسن جما کر دم سادھ کر بیٹھ جائے تو ممکن ہے اس کے جسم سے ایک ننھی کونپل پھوٹے اور پھیلتے پھیلتے انجیر کا درخت بن جائے اور وہ اس زمانے میں جا پہنچے جب منش کو تلاش نہیں ہوتی تھی اور اگر ہوتی بھی تھی تو وہ تتھاگت کی مانند راج پاٹ چھوڑ سنسار نہیں تیاگ دیتا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہیں کسی پتھر کے پیچھے سے بودھ کا چہیتا گھوڑا کنتھکا ہنہناتا ہوا آجائے اور اس کے تلوے چاٹ کر اپنی موجودگی کا یقین دلائے اور اسے کہے تیری تلاش مکمل ہو جائےگی میں اگرچہ ایک معمولی گھوڑا ہوں لیکن تو مجھے بےحد عزیز ہے اور کبھی جو تیری سوچیں مکڑی کے جال سمان الجھنے لگیں تو پریشان مت ہونا۔۔۔ تجھے نروان کی تلاش ہے اور وہ تجھے مل جائےگا اور وہ واپس آنکھیں بند کر دھیان میں گم ہوا تو اسے لگا کوئی اسے پکارتا ہے۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔۔۔ کوئی کہہ رہا تھا ’’ ہے بدری ناتھ! بستی میں عجیب گھٹنا ہوئی ہے، منش دھرم کے نام پر یدھ کر رہا ہے اور ہری کے سیوک دھن کے غلام ہو بن گئے ہیں، گونگے بولتے ہیں اور زبان والے ان کی شکلیں تکتے ہیں، اندھے بہتر دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اورآنکھ والے ٹٹول کر ٹھوکریں کھاتے چلتے ہیں، گیانی اپنے نرم بستروں کو نہیں چھوڑتے اور کم عقل لوگ علم کی شکشا دیتے ہیں، ناری بازاری عورت کا سروپ بھر کولہے مٹکا کر چلتی ہے اور بازاری عورت پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ تماشا دیکھتی ہے۔ کیسا کلجگ ہے۔ تب بدری ناتھ نے غور سے اس منش کو دیکھا وہ کمزور کاٹھی کا ایک بھکشو تھا جس کے جسم پر جا بجا زخموں کے نشان تھے۔

    تو تم آ گئے۔۔۔ آنکھیں کھولنے والے نے پوچھا۔

    ’’ہاں!!!‘‘ آنے والے نے ہاتھ جوڑ کر ادب سے کہا۔ تب تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ خاموشی کے مختصر وقفے کے بعد وہ بولا۔

    ’’بندھو، ادھر آ میرے پاس بیٹھ ،تونے بندروں کے راجہ کی جاتک سنی ہے؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’تو پھر سن‘‘ بدری ناتھ سنانے لگا۔’’ بیتے سمے کی بات ہے ہمارے گوتم بودھ مہاراج نے گھنے جنگل میں بندروں کے راجہ ہنومان جی کے روپ میں جنم لیا تھا، اسی ہزار بندر وں کے راجہ تھے۔ ایک دن انھوں نے سب بندروں کو جمع کیا اور آدیش دیا ’’میرے متروں اس جنگل میں بہت سارے پھل ہیں جو زہریلے ہیں اور ندیاں ہیں جو مگرمچھوں سے اٹی پڑی ہیں اور اگر تم کوئی نیا پھل یا کوئی نئی ندی پاوتو پھل کھانے اور جل پینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لینا‘‘۔ سب بندروں نے ایک زبان ہوکر کہنے لگے ’’آگیا کا پالن کریں گے‘‘ اور اپنے کاموں میں جت گئے پھر وہ ایک دن ایک گہری اور پراسرار ندی کے کنارے پہنچے، ان کے لئے وہ ندی نئی تھی، حالانکہ وہ تھکے ہوئے اور پیاسے تھے اور پیاس سے ان کے تالو ان کے حلقوں سے جا چپکے تھے تب بھی انھوں نے آگیا کا پالن کیا اور اونچے درختوں پر چڑھ راجہ کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔

    جب راجہ ان کے پاس پہنچا تو پوچھنے لگا ’’کوئی ندی میں تو نہیں اترا‘‘ تب سب نے گردن نفی میں ہلائی، راجہ نے ندی کنارے جانوروں کے قدموں کے نشانات دیکھے اور اس کو یقین ہو گیا کہ یہ ندی مگر مچھوں سے بھری پڑی ہے پھر یوں گویا ہوا ’’یہ ندی ہری کائی جیسے وشال مگرمچھوں سے بھری پڑی ہے جو کہ ہماری پرجاتی کا سمے سے جان کا بیری ہے چنانچہ کوئی بھی جل نہیں پیےگا‘‘۔

    تب اس ندیا کا سب سے وشال مگر مچھ جو دیودت تھا، جس نے اس سمے مگر مچھ کا جنم لیا تھا سوچا کیوں نہ اس جنم میں گوتم بودھ کا وناش کر دے، تب وہ کنارے آیا اور راجہ کو بولا ’’مہاراج جل کیوں نہیں پیتے‘‘، تب راجہ بولا ’’تم اس ندی کے مالک ہو‘‘ مگر مچھ بولا ’’ہاں ، میں ہی اس ندی کا مالک ہوں‘‘ راجہ نے سوچتے ہوئے پھر پوچھا ’’اور جوبھی اس ندی پر اپنی پیاس بجھانے آتا ہے تم اس کو کھا جاتے ہو‘‘ دیو دت نے جواب دیا ’’ہاں میں تو یہاں تک کہ معصوم پرندوں تک کو بھی نہیں بخشتا اور جب تم اپنی پیاس سے مجبور ہوکر ندی کنارے آوگے میں تمھیں بھی نگل جاوں گا‘‘ یہ کہہ کر دیودت نے پہلے اپنا سر پانی کے نیچے کیا پھر اس کی آنکھیں ندی کے اندر کھو گئیں اور وہ انتظار کرنے لگا تب راجہ نے جل کی جانب دیکھ شانت لہجے میں کہا ’’اے بیوقوف مگرمچھ میں تجھے اپنی پرجا میں سے کسی کو بھی نقصان پہچانے نہ دوں گا‘‘۔ مگر مچھ پانی سے باہر آیا اور نوکیلے دانتوں والا بڑا سا منہ کھول کر بولا ’’یہ ناممکن ہے‘‘۔ راجہ بولا ’’سن مورکھ، کچھ دوری پر بانس کے کھیت ہیں اور ہم بانس کے سرے کو جل کے سروت میں داخل کر دوسری طرف سے کھینچ کر اپنی پیاس بجھا لیں گے‘‘۔ تب مگر مچھ بہت سٹپٹایا اور اسی ہزار بندروں نے راجہ کے حکم مطابق بانس کی نلکیوں سے باری باری کر خوب سیر ہو کے جل پیا اور اوپر والے کو دھنیے واد کیا اور گھنے جنگلوں میں آگے بڑھ گئے اور پیچھے کچھ رہ گیا تو ندیا کی سطح پر بنتے پھوٹتے بلبلے اور مگر مچھ کا کرودھ۔

    جاتک سناکر بدری ناتھ بولا ’’جا بندھو واپس جا میں کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ وہ اٹھا اور چلتا رہا اور چار کوس دور ایک برگد کے پیڑ کے نیچے آسن جمایا، وہ تین دن اور تین راتیں وہاں آسن جمائے بیٹھا رہا پر وہ منش دوبارہ اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپہنچا اور اس کے ساتھ اب کی بار ایک اور منش بھی تھا ٹھیک اس جیسا کالا اور سوکھا پر اس کے جسم پر دھوتی اور جسم پر برہمنوں کی طرح ایک دھاگا پڑا ہوا تھا پھر وہ دونوں اس کے سامنے بیٹھ گئے تو بعد میں آنے والا دکھ بھرے لہجے میں بولا ’’اے گیانی ، کیا رام جی نے کرشن مہارج کو یہ نہیں کہا تھا کہ ایک سمے آئےگا جب یہ دھرتی ایک اجاڑ اور بےآباد بستیوں کا ویرانہ ہوگی اور کوئی زرخیز اور تناور درخت اس میں نہ اگ سکےگا اور اس وقت منش جاتی کا حال بھی اس اجڑے درخت جیسا ہوگا جتنا وہ سوریا کی روشنی اور آکاش کی بلندی کی طرف بڑھتا ہے اتنی ہی زور سے اس کی جڑیں دھرتی کے اندر دھنستی ہیں نیچے کی طرف تاریکی میں یعنی برائی کی طرف‘‘۔

    تب بدری ناتھ نے آنکھیں کھولیں اور کہا ’’بےشک یہی کہا تھا‘‘ پھر اپنی آنکھوں اور من کی شکتی سے بہار کی کونپلوں اور ہرے بھرے پتوں کی جگہ خزاں کی زردی کو پہن چکے جنگل کے ایک سوکھے درخت پر پر توجہ دی تو وہ لہلہا اٹھا اور پھل سے ایسے بھر گیا جیسے کسی بھاگن عورت کا پیٹ۔ تب وہ دونوں منش اس درخت پر جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑے اور پھل توڑ توڑ کر کھانے لگے اور جب سیر ہو کر بھوجن کیا تو واپس اس کے سامنے ادب سے بیٹھ گئے اور وہ درخت واپس خزاںکو اوڑھ کر مرجھا گیا اور اس کے ننگی شاخوں سے وایو شائیں شائیں کرکے گزرنے لگی۔

    تب دوجا بولا ’’گیانی بدری ناتھ، ہمارے ساتھ چل اور انھیں شکشا دے کہ تو ہی کیول ایسی ہستی ہے جو ہمیں اس دوویدھا سے نکال سکتا ہے‘‘

    بدری ناتھ بولا کہ ’’بندھووں تم نے شاہی گھوڑے کی جاتک سنی ہے‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ‘‘ تو سنو۔ اگلے جنم کی بات ہے بنارس میں راجہ برہما دت براجتا تھا اور ہمارے گوتم بودھ سفید رنگ کے شاہی گھوڑے کے روپ میں جنم گزارتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کے راجہ کے نوکر چاکر شاہی گھوڑے کو نہانے لے جارہے تھے، جب تالاب پر پہنچے تو گھوڑے نے دیکھا کہ ایک جنگلی گھوڑا پہلے ہی تالاب میں نہا رہا تھا جس نے شائد اپنے جیون میں پہلی بار نہانے کی غلطی کی تھی اور اس کی جسم کی غلاظت سے تالاب کا پانی کیچڑ میں تبدیل ہو گیا تھا اور فضاء میں عجیب سی بو بسی ہوئی تھی۔ تب نوکر وں نے اس جنگلی گھوڑے کو بھگایا اور شاہی گھوڑے کو تالاب کے قریب لے کر چلے تو اسے کراہیت ہوئی اور اس نے آگے جانے سے انکار کر دیا، انھوں نے بڑے جتن کئے پر وہ نہ مانا، نوکر اس کی رسی تھام کر محل کی جانب لے کر چلتے تو چلنے لگتا، تالاب کی جانب رخ کرتے تو زمین میں گڑ جاتا تب وہ نوکر اسے لے کر واپس ہوئے اور راجہ کے سامنے پہنچ بولے’’ مہاراج یہ گھوڑا پگلا گیا ہے، جنگلی ہو گیا ہے بات نہیں مانتا، تب راجہ کو بہت افسوس ہوا کیونکہ وہ اس کا سب سے پسندیدہ گھوڑا تھا اور وہ اسے اپنے بچوں کی طرح چاہتا تھا۔ راجہ کا تھا ایک وزیر باتدبیر وہ جان گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے اور راجہ کو بولا ’’مہاراج اگر آ گیا ہو تو میں معلوم کرتا ہوں کیا معاملہ ہے‘‘ راجہ نے اجازت دی تو گھوڑے کی لگام تھام نوکروں کو ساتھ لئے تالاب کی جانب ہو رہا، وہاں پہنچا تو کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا کیونکہ ہوا میں ہلکی سی گند تھی جو بہت بری معلوم ہوتی تھی، ایک نوکر سے پوچھا ’’جب شاہی گھوڑے کو یہاں لائے تو پہلے سے یہاں کوئی جانور نہا رہا تھا‘‘ تب سارے نوکر وں نے گردن زور زور سے ہلاکر کہا ’’ہاں ایک جنگلی گھوڑا نہارہا تھا‘‘۔ تب وزیر کہنے لگا ’’معاملہ میری سمجھ میں آ گیا ہے واپس چلو‘‘۔ راجہ کے دربار میں پہنچا اور سارا ماجرا سنایا جسے سن کر راجہ بہت خوش ہوا اور وزیر کی عقل مندی سے خوش ہو کر اسے انعام و اکرام سے نوازا اور اس گھوڑے کو مرتے دم تک اپنے ساتھ رکھا۔

    میں اپنے آپ میں مگن اور خوش ہوں تمھاری بستی اب ایک کیچڑ بھرے تالاب کی مانند ہے، اگر میں وہاں گیا تو اس کیچڑ میں لت پت ہو جاؤں گا۔

    تب پہلا بولا ’’ہے گیانی، منش ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوگئے ہیں‘‘۔۔۔

    بدری ناتھ نے کہا ’’پتا ہے ارجن نے شری کرشن سے کیا کہا تھا‘‘۔

    ’’نہیں‘‘

    بدری ناتھ نے آنسووں پونچھتے ہوئے کہا تو سنو’’دھرت راشترنے کہا: ہے سنجے ! کروکشیتر کی پاک دھرتی میں یدھ کی خواہش سے جمع ہو کر میرے اور پانڈو کے بیٹوں نے کیا کیا؟ ارجن نے شری کرشن سے یہ کہا: اے اچیت! میرے رتھ کو دونوں فوجوں کے درمیان کھڑا کیجئے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ یدھ کے لئے کون کون آئے ہیں اور جب جنگ شروع ہوگی کون کون مجھ سے یدھ کرےگا۔ سنجے نے کہا: ہے دھرت راشتر ! جب ہری کرشن نے ارجن سے یہ کہا تو انھوں نے دونوں فوجوں کے درمیان کھڑا کر دیا۔ بھیشم اور دروناچاریہ کے سامنے رتھ کو کھڑا کرکے کہا۔ اے ارجن! جنگ کے لئے جمع ہوئے ان کوروں کو دیکھ۔ اس کے بعد ارجن نے دونوں فوجوں میں موجود چاچا، دادا، استاد، ماموں، بھائیوں، بیٹوں، پوتوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو دیکھا۔ اس طرح دونوں فوجوں میں شریک عزیزوں کو دیکھ کنتی کے بیٹے ارجن کا دل رحم سے بھر آیا اور غمگین ہوکر بولا ’’اے کرشن! یدھ کرنے کی خواہش سے یہاں جمع ہوئے ان رشتہ داروں کو دیکھ کر میرا شریر لرز رہا ہے، منہ سوکھ رہا ہے اور رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں، غیروں کے مارنے سے بھی پاپ لگتا ہے تب اپنے ہی آدمیوں کے مارنے سے سوائے پاپ کے کیا بھلائی ہوگی اور اپنے ہی بھائی بندوں کے مارنے سے مجھے لوک اور پرلوک دونوں میں کچھ لابھ نظر نہیں آتا اگر مان لیا جائے کہ پرلو ک کی بات تو کون جانتا ہے اس سنسار میں تو ان کے مارنے سے راج ملے، سگھ بھوگ پراپت ہوں گے اور فتح ہوگی لیکن ہے کرشن نہ مجھے فتح کی خواہش ہے نہ سکھ بھوگ اور راج کی جب مجھے کسی چیز کی خواہش ہی نہیں ہے۔ تب کیوں لڑ کر اپنے ہی آدمیوں کو ماروں اور پاپ کی گٹھری اپنے سر پر دھروں اور ہے کرشن !میں شوک اور موہ کے کارن یدھ سے منہ نہیں موڑتا میرا اس یدھ سے کنارا کرنا اس غرض سے ہے کہ اس یدھ میں سوائے ادھرم کے دھرم نہیں دیکھتا اور اتنا روئے کہ گنگا اور جمنا میں بوچھال آ گیا، دیوی دیوتا بھی روئے اس زور کی بجلی کڑکی کہ سب کلیجا تھام کر رہ گئے پر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، یدھ ہوا اورلاشوں پر لاشے گرے اور آج بھی یدھ کے میدان میں ارجن مہاراج کے الفاظ گونجتے ہیں ’’دھرم کیا ہے دھرم کیا ہے بھیشم کو مارنا یا ان کا پالن پوشن کرنا، راج کرکے پرتھوی پالن کرنا بن باس کرکے بھکشا مانگنا ان میں سے کونسا دھرم کار ہے، دھرم کی خاطر اپنوں کو مارنا یا دل کی مان کر یدھ کو چھوڑ دینا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، میری سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔

    کتھا سناکر وہ خاموش ہوا تو وہ دونوں ایک ساتھ بولے ’’تو پھر بھائی بھائی کا دشمن کیوں ہوا، کیوں دولت، کرودھ اور دھرم کے نام پر ایک دوجے سے لڑتے ہیں؟‘‘

    تب بدری ناتھ ہنسا اور پھر رو دیا۔

    ’’ہے گیانی، تو ہنسا کیوں اور رویا کیوں‘‘ دونوں پوچھنے لگے۔

    ’’جب بکری ہنس اور رو سکتی ہے تو میں کہ منش جاتی سے ہوں کیوں ہنس اور رو نہیں سکتا‘‘۔

    ’’بکری کیوں ہنسی اور کیوں روئی‘‘؟

    بدری ناتھ نے جواب میں ایک جاتک سنائی۔ ’’ہے بندھووں، گوتم بودھ جیتاونا میں رہتے تھے، بھکشو ان کے پاس آئے اور کہا’’ کیا بکریوں، بھیڑوں اور جانوروں کو بھینٹ دینے کا کوئی لابھ ہوتا ہے‘‘گوتم بودھ نے کہا’’ نہیں میرے بھکشووں، کسی جاندار کی بھینٹ دینے سے کوئی لابھ نہیں ہوتا پھر انھوں نے جاتک کہی ’’بیتے سمے کی بات ہے برہما دت براجتا تھا، ایک برہمن نے مردوں کے بھوجن واسطے ایک بکری خریدی ور اپنے چیلوں کو دے کر کہا’’ اس کو ندیا کنارے لئے جاو، اس کو جل سے پوتر کرو، اس کو صاف ستھر کر اس کو ہار پھول پہناو اور اس کو کچھ بھوجن دو اور واپس لے آو‘‘۔ چیلے اس بکری کو لے کر چلے جب ندیا کنارے پہنچے تو وہ بکری ’’ہنسی اور پھر رودی‘‘۔ یہ دیکھ کر بالک گھبرا گئے اور واپس پہنچ برہمن کو پوری کتھا سنائی۔ برہمن نے بکری سے پوچھا ’’تو ہنسی کیوں اور پھر رو کیوں دی‘‘۔ بکری کہنے لگی ’’میں بھی پچھلے جنم میں برہمن تھی اور ویدوں کے انوسار جیون گزارتی تھی میں نے بھی ایک بکری نذر واسطے بھینٹ دی تھی اور اس ایک بکری کی ہتھیا کے کارن میرا گلا چارسو ننانوے بار کٹ چکا ہے اور میں اس لئے ہنس دی کہ آج میرے گلے پر پانچسویں بار یعنی آخری بار چھری پھرے گی اور روئی اس لئے کہ میرا گلا کاٹنے کے بدلے تجھے پانچ سو بار گلا کٹوانا پڑےگا‘‘۔

    برہمن بولا کہ ’’ہے بکری تو ڈر مت۔ تیرا گلا نہیں کٹےگا‘‘۔

    بکری بولی ’’اے مورکھ تو ابھی بھی نہیں سمجھا، اس پاپ کی سزا تو مل کر ہے گی تیری رکھشا سے کچھ بھی نہ ہوگا ‘‘۔

    برہمن نے بکری کو آزاد کیا اور چیلوں کو بولا ’’اس کی رکھشا کرنا ہی اب تمھارا دھرم ہے‘‘۔

    چیلوں نے بہت رکھشا کی پر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ بکری نے ایک اونچے پیڑ کی ٹہنیوں پر منہ مارا تب زور دار کڑاکا ہوا، بجلی اس پیڑ پر گری اور پیڑ بکری پر اور بکری کا سروناش ہو گیا۔ اسی پیڑ کے برابر میں دیوا پیڑ یہ سب دیکھتا تھا اور اس نے بکری کی خریداری سے لے کر اس کی موت تک کی گھٹنا کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ گوتم بودھ نے یہ کہہ کر اس جاتک کو ختم کیا ’’اس سمے میں نے دیوا پیڑ کے روپ میں جنم لیا تھا‘‘۔

    ہے بندھووں! اب واپس جاو اور لوگوں میں پرچار کرو۔ تب وہ دونوں منش خاموشی سے اٹھے اور بھاری من کے ساتھ جنگل سے نکل کر اپنی بستی میں چلے گئے اور پھر کبھی واپس لوٹ کر نہیں آئے۔

    بدری ناتھ دنوں آنکھیں موندے آسن جمائے بیٹھا رہا پر اس کے من بھی ایک پرشن تھا اور آسن میں بھنگ ڈالتا تھا، اس کا دھیان بار بار بھٹکتا اور من کے پرشن کی طرف چلا جاتا، نراش ہوکر وہ اٹھا اور من کی شانتی کے لئے اس جنگل سے نکل کھڑا ہوا اور چلتا رہا چلتے چلتے اس کے تلوے پھٹ گئے اور ان میں سے خون رس رس کر بہنے لگا پر وہ چلتا رہا۔ چلتے چلتے تھک کر ایک ندی کنارے تھوڑی دیر دم لینے رکا، آکاش میںجہاں پونم کا چاند ندی کی سطح پر اپنی چھب دکھلا رہا تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی وایو چل رہی تھی اور جل ندی کی سطح پر دھیرے دھیرے بہہ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر تک اس وایو کا آنند لیتا رہا پھر ایک شاندار انداز سے کھڑا ہوا اور آکاش کی جانب منہ کرکے بولا ’’اے پیدا کرنے والے جو بھی تیرا نام اور صفت ہے، تو نے ہی اس سنسار کو بنایا ہے، اے سوریا، چندراما، ستاروں اور اس دھرتی کے پیدا کرنے والے، ہم مٹی کے و ہ پتلے ہیں جن کو نچا کر تو آنند لیتا ہے، میںاپنے بان باس سے سکھی تھا تھا پھر تو نے من میں مشکل پرشن کا برچھا کیوں اتارا، امیں جانتا ہوں تو مجھے سن رہا ہے، میں نے بھی قسم کھائی ہے کہ جب تک اس راز کو جان نہ لوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا‘‘۔ پھر وہ کچھ دیر تک وہیں کھڑا ہوکر ندی کے پانی کا نظارہ دیکھتا رہا اور ایک نئے جذبے کے ساتھ واپس اٹھ کھڑا ہوا پھراور قدم اٹھا تا من میں دیپ جلائے خاموشی سے چل پڑا، کئی دن بعد وہ ایک عجیب و غریب گھاٹی میں پہونچا، جہاں حد نگاہ تک پیلی سرسوں جیسے سوکھے گھاس کے میدان تھے اور ان میں صرف ایک تنہا پیڑتھاجس کی ننگی شاخیں وایو سے جھولتی تھیں اسے لگا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اسے اس پرشن کا جواب ملےگا تب تو وہ اس پیڑکے نیچے آنکھیں بند کر گم ہو گیا۔ سمے بیتا وہ سوکھے گھاس کا میدان پھر سے ہرا بھر ا ہوا، وہ پیڑ جس پر ایک پتہ بھی نہ تھا پتوں سے اوپر سے نیچے تلک بھر گیا، آس پاس بستیاں آباد ہو گئیں لیکن وہ ویسا کا ویسے آسن جمائے بیٹھا رہا خود میں گم جہانوں کی سیر کرتے سچ کی تلاش میں۔

    اس نے ایک آواز سنی۔۔۔ تمھاری تپسیا پوری ہوئی۔۔۔ تمہیں سچ کی تلاش تھی اور تم نے اسے پا لیا ہے، بےشک تیری سوچیں جو مکڑی کے جالوں کی جیسے پھیلیں تھیں، اب وہ ایک تناور پیڑ بن گئی ہے، ہے بدری ناتھ! آنکھیں کھول اور دیکھ تیرا جواب تیرے سامنے بیٹھا ہے۔

    اس نے جب آنکھیں کھولیں، اس کی آنکھوں کے سامنے جہاں ہریالی سے تر گھاس کا میدان تھا، بیل بوٹے اور پرندے تھے اور ان ہریالی اور رنگوں سے نچڑتے اس منظر میں کوئی تھا بےحد مانوس اور وہ وہی تو تھا اس کے سامنے وہ خود تھا جیسے سامنے آئینہ رکھ دیا گیا ہوتب بدری ناتھ بولا ’’سچ کیا ہے‘‘۔

    تم سچ ہو۔

    تو پھر تم کون ہو؟

    تم بھی میں ہوں اور میں بھی تم ہوں۔

    تو سچ کون ہے۔

    سچ بھی تم ہو۔

    لیکن یہ پیڑ اور پکھیرو۔

    ہریالی سے نچڑتا یہ گھاس کا میدان۔

    نیلاہٹ سے تر یہ آکاش کی چادر۔

    بادلوں کے آوارہ جھنڈ۔

    چہرے پر پڑتیں سوریا کی کو مل کرنیں۔

    یہ بھی سچ ہیں۔

    گوتم بدھ کا بار بار جنم لینا۔

    مہابھارت کا ہونا۔

    یہ بھی سچ ہے۔

    ایسا ہوا کیوں؟

    من میں پرشن ڈالنے والا بھی وہی ہے۔

    اتتر دینے والا بھی وہی ہے۔

    وہی جیون ہے وہی مرتیو ہے۔

    آکاش میں اڑتا پنچھی بھی وہی ہے۔

    ندی میں بہتا جل بھی وہی ہے۔

    وایو کے سنگ اڑتا پتہ بھی وہی ہے۔

    وہی سب کچھ ہے۔

    وہی شروعات ہے، بیچ ہے اور آخر ہے۔

    وہی دھرم ہے وہی آدھرم ہے۔

    وہ تو ممتا ہے، ناری کی لجا ہے، بچے کی مسکان ہے۔

    پر منش دھرم کے نام پر یدھ کیوں کرتا ہے؟

    تب دوجا اس کے سامنے سے اٹھ کھڑا ہوا ور دکھی لہجے میں پوچھنے لگا

    ’’گوتم بودھ نے یہی شکشا دی تھی۔ بول جواب دے؟۔۔۔

    بول، بولتا کیوں نہیں ’’کیا کرشن اور ارجن نے کہا دھرم کے نام پر منش کو مارو اور یدھ کرو؟‘‘

    اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اور من بھاری ہو گیا۔ نروان ملا تو وہ اسی پیڑ میں سما گیا جہاں اس نے آسن جمایا تھا، سال میں ایک بار وہ اس پیڑ سے نکل کر واپس اس دھرتی میں آتا ہے اور منش جاتی کے لئے شوک کرتا ہے اور کرشن مہاراج بولتے ہیں ’’دھرم کیا ہے دھرم کیا ہے بھیشم کو مارنا یا ان کا پالن پوشن کرنا، راج کرکے پرتھوی پالن کرنا بن باس کرکے بھکشا مانگنا ان میں سے کونسا دھرم کار ہے، دھرم کی خاطر اپنوں کو مارنا یا دل کی مان کر یُدھ کو چھوڑ دینا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، میری سمجھ میں نہیں آتا‘‘، بکری پھر ہنستی اور رو دیتی ہے اور ایک کڑاکا ہوتا ہے، بجلی اس پیڑ پر گرتی ہے اور پیڑ بکری پر اور بکری کا سروناش ہو جاتا ہے اور دور کہیں جنگلوں میں دیودت جو اس سمے وشال مگر مچھ کے روپ میں جنما تھا گوتم بودھ کو کوجو اس سمے بندروں کے راجہ ہنومان جی کے روپ میں جنمے تھے انہیں دیودت کہتا ہے ’’جل کیوں نہیں پیتے‘‘ اور کہیں برہما دت براجتا ہے اور اس کا سفید رنگ کا خوبصورت گھوڑا کیچڑ بھرے تالاب کے پاس نہیں جاتا ہے اور گوتم بودھ کہتا ہے ’’میں سچ کو ڈھونڈتا تھا حیران ہوتا تھا، جب متلاشی تھا سچ نہ ملا اور جب سچ ملا تو میں نے ادھر ادھر دیکھا میں نہیں تھا ‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے