Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مردم گزیدہ

اقبال حسن آزاد

مردم گزیدہ

اقبال حسن آزاد

MORE BYاقبال حسن آزاد

    گلی تھی کہ شیطان کی آنت۔۔۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بتائی گئی تمام نشانیوں کو وہ عبور کرتا جا رہا تھا۔ بڑی سڑک جہاں پر سے بازار کے لیے مڑتی ہے، وہاں سے بائیں ہاتھ پر ایک گلی پھوٹتی ہے۔ گلی کے سرے پر ایک سیلون ہے۔ کچھ آگے جاکر گلی کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا مندر ہے۔۔۔ مندر کیا ہے بس ایک چھوٹا سا شو لنگ گڑا ہے۔ کچھ آگے جاکر دھوبیوں کے چند مکانات ہیں اور اسی کے پاس ایک کھلا سامیدان ہے جس میں کپڑے سوکھتے رہتے ہیں۔ بس ذرا سا اور آگے جانے پر ایک جھونپڑی کے آگے ایک بوتو بندھا ہوگا جس کے پاس ایک سوکھا سڑا سا بوڑھا اونگھتا ہوا دکھائی دےگا۔ پھر دونوں اطراف کھپریل کے کچے مکانات کا سلسلہ ہے۔ جہاں پر سے گلی کشادہ ہونے لگتی ہے، سمجھ لیجیے کہ کالونی آ گئی۔ وہاں سے پختہ مکانات ملیں گے۔ بس دو مکان کو چھوڑ کر تیسرا مکان۔۔۔ کسی سے بھی پوچھ لیجیےگا مگر کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں۔۔۔ گیٹ کے باہر میرے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ دو منزلہ مکان ہے۔ نیچے چھوٹا سا لان ہے۔ لان کے ایک سرے پر ہینڈ پمپ لگا ہوا ہے۔۔۔ اور ہاں مکان کے پاس ہی ایک پان کی دکان ہے اور ایک چائے خانہ بھی۔ یہ شارٹ کٹ ہے۔ اگر سڑک سڑک آئیےگا تو بہت لمبا پڑےگا۔‘‘

    اس کے ہونے والے مکان مالک نے راستہ بتاتے ہوئے کہا تھا اور پھر تاکید کی تھی۔

    ’’اور ہاں! سویرے چھ بجے تک ضرور پہنچ جائیےگا۔ ساڑھے چھ بجے میں یوگا کلب چلا جاتا ہوں۔‘‘

    اب ہوا یوں کہ سیلون والی گلی میں داخل ہونے کے بعد وہ شو لنگ کو کراس کرتے ہوئے دھوبیوں کے مکانات، کھونٹے سے بندھے ہوئے بوتو اور اونگھتے ہوئے بوڑھے کو پیچھے چھوڑ آیا تھا مگر اب جو کچے مکانات کا سلسلہ شروع ہوا تو ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہا تھا۔ ایسے ہی کچے مکان اس کے گاؤں کی گلیوں میں بھی تھے مگر وہاں کی گلیاں شیطان کی آنت کی طرح لمبی نہیں ہوتی تھیں البتہ پُر پیچ ضرور تھیں اور گلیاں بھی ایسی کہ بیک وقت صرف ایک آدمی ان میں سے گزر سکتا تھا۔ ایسی ہی ایک گلی سے گزرتے وقت ایک کتے نے اس کی پنڈلی میں دانت گڑا دیے تھے۔ حالانکہ ایسے موقعوں کے لیے اسے اپنے باپ کی نصیحت اچھی طرح یاد تھی کہ اگر راہ میں کتے نظر آئیں تو خاموشی سے چلتے رہو۔ ان کے قریب سے گزرتے ہوئے کوئی حرکت نہ کرو۔۔۔ نہ ان کی طرف دیکھو۔۔۔ خاموشی سے گزر جاؤ۔مگر وہاں گلی اتنی تنگ تھی کہ باپ کی نصیحت اس کے کام نہ آئی۔ کتا اسے دیکھ کر بھونکا تو وہ اضطراری طور پر پلٹ کر بھاگا اور کتے نے اس کی پنڈلی میں دانت گڑا دیے تھے۔ اس وقت وہ صاف دھلا ہوا نیا کرتا پائیجامہ پہنے ہوئے تھا۔ اس کا پائیجامہ پائنچے کے پاس سے تھوڑا سا پھٹ گیا۔ اس نے کسی طرح کتے سے پیچھا چھڑایا تھا اور بھاگتا ہوا گھر آ گیا تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر گھر میں کسی کو پائجامے کے پھٹنے کی بات معلوم ہو گئی تو اس کی گوشمالی ہوگی۔ اس نے پانی سے زخم دھو کر وہاں پر رومال باندھ دیا تھا۔ چند ہی دنوں میں وہ زخم سوکھ گیا تھا اور وہاں کھرنڈ جم گئی تھی۔ اب اتنے برسوں بعد کتے کے دانت کے نشان معدوم ہو چکے تھے۔ وقت کا مرہم ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ اس نے وقت دیکھنے کے لیے گھڑی پر نظر ڈالی۔ چھ بجنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے۔اگر اس کے موجودہ مالک مکان نے اسے عاجز نہ کر دیا ہوتا تو شاید اس وقت وہ اپنے بستر پر پڑا سو رہا ہوتا۔ اب یہ نیا مالک مکان کیسا نکلےگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائےگا۔ ویسے دیکھنے سننے میں تو شریف لگتا ہے۔ البتہ اس کی چند شرائط بھی تھیں۔

    ’’دیکھئے! وہ شریفوں کی کالونی ہے اس لیے میں بہت چھان پھٹک کر کسی کو مکان کرایے پر دیتا ہوں۔ میرے پاس چار فلیٹ ہیں۔۔۔ دو نیچے اور دو اوپر۔ ایک فلیٹ میں میں خود رہتا ہوں۔ دو کرایے پر اٹھے ہوئے ہیں۔ تیسرا ابھی ابھی خالی ہوا ہے۔ ہم لوگ سکون سے رہنے والے لوگ ہیں ،اس لیے میں چاہوں گا کہ آپ سے ملنے جلنے والے زیادہ لوگ وہاں نہ آئیں۔باتھ روم کی صفائی آپ کو خود کرنی ہوگی۔ کسی صفائی کرنے والے یا والی کو ہم لوگ گھر کے اندر داخل ہونے نہیں دیتے۔نیچے لان میں جو ہینڈ پمپ لگا ہے (اگر وہ کبھی خراب ہو گیا تو) اس کی مرمت سارے کرایہ داروں کو مل کر کرنی ہوتی ہے۔۔۔ اور ہاں، گیٹ رات نو بجے بند ہو جاتا ہے۔‘‘

    وہ سر جھکائے ساری بات سنتا رہا تھا۔ اسے یہ سوچ کر اطمینان ہوا تھا کہ بلڈنگ آباد ہے۔ ابھی پچھلے سال ہی اس کی شادی ہوئی تھی۔ بیوی امید سے تھی۔ وہ دن بھر گھر میں اکیلی رہتی، ادھر وہ آفس میں فکرمند رہتا۔ اگر اس کے غائبانے میں دردزہ اٹھ گیا تو۔۔۔؟ یہاں اوپر تلے کئی لوگ ہیں۔ وقت ضرورت آدمیوں کی کمی نہ ہوگی۔

    چلتے چلتے اس نے پھر تاکید کی تھی۔

    ’’سویرے چھ بجے تک ضرور آ جائیےگا۔‘‘

    اور اب جبکہ چھ بجنے میں محض چند منٹ رہ گئے تھے تو اسے دور سے چائے خانہ دکھائی دے گیا۔ پاس ہی پان کی دکان تھی۔ساتھ ہی ساتھ اسے آٹھ دس کتے گلی کے بیچوں بیچ اس طرح آڑے ترچھے پڑے دکھائی دیے کہ آگے کا راستہ بند ہو گیا تھا۔ برسات کا موسم تھا اور انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا وہ سب کے سب تھک ہار کر سوئے پڑے ہوں۔چائے خانہ کھل چکا تھا اور چائے خانے کا مالک چولہے میں کوئلے دہکا رہا تھا۔چند گاہک بنچ پر بیٹھے غالباً چائے کا انتظار کر رہے تھے۔ پان کی دکان کا مالک ایک بانکا سجیلا نوجوان تھا۔ایک شخص پان کی دکان سے ٹیک لگائے سگریٹ پی رہا تھا۔ سامنے ہی اس کا مطلوبہ مکان تھا۔جالی دار گیٹ اندر سے بند تھا مگر لان کا سارا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص لنگی باندھے ہینڈ پمپ سے پانی بھر رہا تھا۔ لوہے کے تار پر تولیہ لٹک رہا تھا۔ بالٹی کے پاس ایک صابن دانی رکھی تھی۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک عورت برتن صاف کر رہی تھی۔ ایک نوجوان لڑکا ہاتھ میں بلّا پکڑے طرح طرح کے پوز بناتے ہوئے شاٹ کھیلنے کی نقل کر رہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ یہ لڑکا اگر کرکٹر بن گیا تو کڑوڑوں میں کھیلےگا۔ وہ اپنی دھن میں آگے بڑھتا جا رہا تھا کہ اس کی آہٹ پا کر کتوں نے آنکھیں کھول دیں اور پھر وہ سب کے سب اس کی جانب تشویش، تعجب اور غصے کی نظروں سے دیکھنے۔ اسے اپنے مرحوم باپ کی نصیحت ایک بار پھر یاد آ گئی۔

    ’’راہ میں اگر کتے نظر آئیں تو خاموشی سے چلتے رہو۔ دوڑو مت کہ دوڑنے والے کے پیچھے کتے دوڑ پڑتے ہیں۔ اس لیے خاموشی سے چلتے رہو اور ان کے قریب سے گزرتے وقت کوئی حرکت کرو نہ ان کی طرف دیکھو۔ خاموشی سے گزر جاؤ۔‘‘

    ’’اس نے ایسا ہی کرنا چاہامگر وہ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ تھا اور کتوں کی نقل و حرکت سے اس کے دل میں اندیشے اٹھ رہے تھے۔ اسے لگا جیسے وہ کسی تاریک کمرے میں محبوس ہے جہاں کونے میں ایک بڑا سا گھڑا رکھا ہے اور وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں کمرے کے بیچوں بیچ پڑا ہے۔ کتے کے ذریعہ کاٹے جانے کے کئی بعد کی بات ہے۔ وہ تالاب کے کنارے بیٹھا ہوا تھا کہ پانی میں اسے اپنے عکس کی جگہ ایک کتے کا عکس نظر آیا۔وہ چونک کر مُڑا مگر وہاں کوئی کتا نہ تھا۔ اس نے پھر پانی میں دیکھا ۔اسے پھر کتے کا عکس نظر آیا۔ وہ ڈر گیا۔ پھر اس نے یہ بات اپنے چھوٹے چچا کو بتا دی۔ وہ چونک پڑے۔

    ’’کیا تمہیں کبھی کسی کتے کانے کاٹا ہے؟‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔چھوٹے چچا نے فوراً سائیکل اٹھائی اور اسے آگے بٹھا کر منگل ہاٹ کی طرف روانہ ہو گئے جہاں ہر منگل کو بازار لگتا تھا۔ وہاں ایک حکیم صاحب بھی آتے تھے جو کتے کے کاٹے کا شافی علاج کرتے تھے۔ اس روز بھی منگل تھا۔ حکیم صاحب آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے چار آنے کی ایک پڑیا دی اور کہا کہ اس لڑکے کو کسی تاریک کمرے میں تین دن اور تین راتیں بند رکھو۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھڑا رکھ دو۔ تین دن بعد میں آؤں گا۔ پھر ہوا یوں کہ اسے دوا کھلا کر کمرے میں بند کر دیا گیا۔ سارے روشن دان بھی بند کر دیے گئے۔ چھپر میں جو چھید تھے، انہیں بھی بند کر دیا گیا۔ اب اسے یہ یاد نہیں کہ ان تین دنوں میں اسے کچھ کھانے پینے کو ملا تھا یا نہیں۔ تین دن اور تین راتیں گزر گئیں۔ چوتھے روز حکیم صاحب آئے۔ دروازہ کھلوایا گیا۔ حکیم صاحب ناک پر رومال رکھ کر اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے گھڑے میں جھانک کر دیکھا اور واپس آکر اعلان کیا۔

    ’’زہر کے سارے کیڑے نکل گئے۔اب خطرے کی کوئی بات نہیں۔‘‘

    مگر خطرہ تو سامنے کھڑا تھا۔ منزل قریب تھی مگر کتے اس کی جانب خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے چند ایک اٹھ بیٹھے تھے اور اپنے بدن کو کھینچ کر انگڑائیاں لے رہے تھے۔ وہ اپنی زبان بھی لپلپا رہے تھے۔ پھر ان میں سے ایک کتا جو سب سے بڑا تھا اور بالکل سیاہ تھا، اٹھ کھڑا ہوا۔پہلے اس نے اپنی اگلی دونوں ٹانگوں کو زمین پر جما کر زور کی انگڑائی لی اور پھر اس کی جانب محتاط قدموں سے بڑھا۔ اس کی نیّت بخیر نظر نہ آتی تھی۔ اسے لگا جیسے اس کا دل بیٹھا جا رہا ہو۔ کتا زور سے بھونکا۔

    ’’بھوں۔۔۔ بھوں۔۔۔ بھوں!‘‘ پھر سبھی کتے ایک ساتھ بھونکنے لگے۔ اسی لمحے اسے اپنی پشت پر بھی کتوں کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اب وہ چاروں طرف سے گھر چکا تھا۔ نہ آگے بڑھ سکتا تھا نہ پیچھے ہٹ سکتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ارد گرد کے مکانوں سے لوگ لپک کر آئیں گے اور اسے ان درندوں سے چھٹکارا دلائیں گے۔ اسے توقع تھی کہ سگریٹ پیتا ہوا آدمی اس کی مدد کو آئےگا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جو لوگ گھروں کے اندر تھے وہ باہر نہیں نکلے اور سگریٹ پیتا ہوا آدمی ایک مخصوص ادا کے ساتھ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے اس کی جانب دیکھتا رہا تھا۔ پان کی دکان پر بیٹھا ہوا بانکا دلچسپ نظروں سے اس تماشے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ چائے خانے کا مالک اور وہاں پر بیٹھے ہوئے لوگ اس کی جانب یوں دیکھ رہے تھے گویا یہ روز کا معمول ہو ۔اس کا خیال تھا کہ مستقبل کا کرکٹر بلا لے کر دوڑا آئے گایا پھر پانی بھرتا ہوا آدمی یا برتن مانجھتی ہوئی عورت اس نوجوان کو اس کی مدد کے لیے بھیجےگی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور وہ نوجوان بلے کو زمین پر ٹکا کر پرشوق نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا تھا۔ کتے زور زور سے بھونک رہے تھے۔

    ’’بھوں۔۔۔ بھوں۔۔۔ بھوں!‘‘ اچانک اس کا ہونے والا مکان مالک بالکنی میں نمودار ہوا۔ غالباً وہ کتوں کے بھونکنے کی آواز سن کر بالکنی میں نکل آیا تھا۔ اس نے اوپر سے ہی پکار کر کہا۔

    ’’ڈریئے مت۔۔۔ یہ صرف بھونکتے ہیں، کاٹتے نہیں۔ آ جائیے، گیٹ کے اندر آ جایئے۔‘‘

    اس نے ایک لمحے کو نگاہیں اٹھا کر مالک مکان کو دیکھا ۔وہ اطمینان کے ساتھ کھڑا تھا۔ ادھر کتے تھے کہ کاٹ کھانے کے موڈ میں تھے اور وہ کالا کتا تو بالکل قریب آ گیا تھا۔ اس وقت وہ بالکل نہتّا تھا۔پہلے اس نے بازو ہلا ہلا کر، شی شی، ہش ہش کر کے انہیں ہٹانے کی کوشش کی لیکن اس کی اس حرکت سے کتے اور جوش میں آ گئے۔ اسے سڑک کے کنارے ایک بڑی سی اینٹ پڑی دکھائی دی۔ اگر وہ کسی طرح اس اینٹ تک پہنچ سکتا؟۔۔۔ یا اگر وہ گھر سے چھتری لے کر چلا ہوتا۔ مگر آج تو مطلع صبح سے ہی صاف تھا۔ اب اسے کسی طرف سے بھی مدد ملنے کی امید نہیں رہ گئی تھی۔تب اس نے بڑی سرعت کے ساتھ پینٹ کی بیلٹ کھولی اور اسے زور زور سے ہوا میں گھمانے لگا اور پھر بیلٹ کا بکلس ایک کتے کی تھوتھنی سے ٹکرایا تھا۔ کتے کے منھ سے کریہہ چیخ نکلی۔ وہ تیزی سے مڑا اور دم دباکر چیں چیں کرنے لگا۔ دوسرے کتے بھی جھجھک جھجک کر پیچھے ہٹنے لگے۔ مگر وہ پیچھے ہٹتے جاتے تھے اور بھونکتے جاتے تھے۔ اس کے لیے اتنا موقع غنیمت تھا۔ اس نے لپک کر اینٹ اُٹھائی اور تاک کراس کالے کتے کے منھ پر مارا جو ان کا سرغنہ تھا۔ کتے کا سر چکرا گیا اور ایک بھیانک چیخ کے ساتھ اپنی پچھلی ٹانگوں پر الٹ گیا۔ اس کے پسپا ہوتے ہی میدان صاف ہو گیا اور سبھی دم دبا دبا کر بھاگنے لگے مگر وہ بھاگتے جاتے تھے اور بھونکتے جاتے تھے۔ اس نے دوڑ کر دو تین ڈھیلے اٹھائے اور انہیں تاک تاک کر مارنے لگا۔ کتے اب کافی دور جا کر کھڑے تھے اور وہیں سے غرا رہے تھے مگر اب وہ ان کی غرّاہٹ سے ڈرنے والا نہیں تھا۔ اتنے میں سگریٹ پیتے ہوئے آدمی نے زور سے آخری کش لیا اور پھر سگریٹ کے ٹوٹے کو ہوا میں اچھالتے ہوئے اس کے قریب آیا اور بولا۔

    ’’آپ ڈرتے نہیں؟ بڑ ے بہادر ہیں آپ!‘‘

    ’’وہ کالی چمڑی والا تو ایک نمبر کا حرامی ہے۔ کئی لوگوں کو کاٹ چکا ہے۔‘‘ پان کی دکان پر بیٹھے ہوئے بانکے نے وہیں سے کہا۔تبھی مکان کا گیٹ کھلا اور پانی بھرنے والا آدمی باہر نکلا اور کہنے لگا۔

    ’’میں سوچ رہا تھا کہ یہ کتے کیوں بھونک رہے ہیں۔‘‘

    مکان مالک نے بالکنی میں کھڑے کھڑے ہاتھ ہلا کر کہا،

    ’’آ جائیے، آ جائیے۔اب خطرے کی کوئی بات نہیں۔ اوپر آ جائیے۔‘‘

    اس کے ہاتھ میں اب بھی چند ڈھیلے بچ رہے تھے۔ اس نے حقارت کے ساتھ ڈھیلوں کو سڑک کے کنارے پھینکا اور واپسی کے لیے مڑ گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے