Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماسٹر صاحب

مختار احمد

ماسٹر صاحب

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    ماسٹر صاحب کی نوکری سے ریٹائرمنٹ میں ابھی کافی سال باقی تھے مگر وہ سنجیدگی سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کی سوچ رہے تھے۔ اپنی بیٹی فائزہ کی شادی کے لیے انھیں پیسوں کی اشد ضرورت پڑ گئی تھی اور آخری امید ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم ہی تھی۔

    فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا اپنی تخلیقات کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے اور ان سوچوں سے اسے دلی مسرت حاصل ہوتی ہے۔اس کی تخلیق کردہ چیزیں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں، اس کو خوش اور مطمئن رکھتی ہیں۔ یہ ہی حال ماسٹر صاحب کا بھی تھا۔ وہ بھی جب سوچتے تھے کہ ان کے پڑھائے ہوئے بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں لگ کر ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہونگے تو ان کو ایک دلی مسرت کا احساس ہوتا تھا۔ کسی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے اسے ملک و قوم اور خود اس کے لیے مفید بنانا واقعی خوشی اور اطمینان کی بات تھی۔

    ان کا شمار ان پرانی قدروں کے لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنے پیشے سے بہت زیادہ محبّت کرتے تھے۔ اس کے بدلے انھیں کیا مل رہا ہے اور کیا نہیں، اس میں فائدہ ہے یا نقصان انھیں ان چیزوں کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ زندگی بھر انہوں نے تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام کیا تھا۔ یہ کام کرتے کرتے وہ اس کے اتنے عادی ہوگئے تھے کہ کبھی تو یہ سوچ کر ان کا دم گھٹنے لگتا تھا کہ اگر وہ اسکول کی نوکری سے فارغ ہو گئے تو تعلیم سے تیس بتیس سال کی رفاقت کو کیسے فراموش کریں گے؟

    ہر روز اسکول سے فارغ ہو کر وہ شام کو پڑھائی میں نسبتاً کمزور بچوں کو گھر بلا کر بغیر کسی فیس کے ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ ان کی بیوی اور بیٹی فائزہ بھی اس بات کا خیال رکھتی تھیں کہ ٹیوشن پڑھنے کے لیے آنے والے کسی بچے سے گھر کا کوئی کام نہ کروائیں۔

    فائزہ تو اس کام میں ان کا بہت ہی ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ روز صحن میں جھاڑو لگا کر اور پانی کا چھڑکاؤ کر کے جھاڑو لگاتی پھر صاف ستھری دری بچھا کر بچوں کے بیٹھنے کا انتظام کرتی۔ گھڑونچی پر رکھی صراحی میں پانی بھرتی تاکہ پڑھنے والے بچوں کو ٹھنڈا پانی میسر آ سکے۔ وہ خود بھی اتنی بڑی نہیں تھی، مگر اپنے سے چھوٹی عمر کے بچوں کا کام دیکھنا اور ان کو سبق دینا بھی وہ کرلیتی تھی۔

    ماسٹر صاحب کی بیوی کو سب بچے ادب سے استانی جی کہا کرتے تھے حالانکہ انہوں نے آج تک کسی کو نہیں پڑھایا تھا۔ وہ بھی ماسٹر صاحب کی طرح ہی نیک نفس اور سیدھی سادھی تھیں۔ وہ بڑی دلجمعی سے گھر کے کاموں میں لگی