Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مایا جال

MORE BYمحمد امین الدین

    قلعہ نما سنگلاخ دیواروں کے پیچھے کی دُنیا سے آنی والی خبرسن کر اس کے پیروں تلے زمین سرک گئی۔ دیوار یں قہقہہ لگاتی اور سرسراتی ہوئی بلند سے بلند تر ہونے لگیں۔ سیلن زدہ ماحول میں اس کا دم گُھٹنے لگا، آنکھیں پتھرا گئیں اور آنسو درد کی پاتال میں گم ہوگئے۔ اس کا جسم کانپ اٹھا۔ مئی کی سڑتی ہوئی گرمی کے باوجود وہ کپکپی سے دوچار تھا۔ اسے سہارے کی ضرورت محسوس ہوئی ، کیوں کہ اسے لگا وہ گر جائے گا۔ اس نے دیوار کی طرف ہاتھ بڑھایا تو دیوار سرکتی ہوئی دور چلی گئی ۔ یکایک زمین نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا، وہ بے اختیار بیٹھتا چلا گیا۔ سر کو پیچھے کیا تو دیوار سے ٹکراگیا۔ یقیناًدیوار اپنی جگہ موجود تھی ،بلکہ ہر شے پہلے کی طرح اپنی جگہ موجود تھی۔

    دُھواں دُھواں ہوتی ہوئی آنکھوں کی پاتال میں گم شدہ آنسو اچانک بہہ نکلے۔ وہ دھاڑیں مار اور سر پٹخ پٹخ کر رونے لگا۔ آس پاس موجود کسی بھی شخص نے اسے سمجھانے یا چُپ کرانے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ دیر بعد وہ خود ہی سسکیاں لیتے لیتے چپ ہوگیا، اور ٹُک ٹُک خالی دیواروں کو تکنے لگا۔ سیلن زدہ کمرے کی سر اٹھاتی دیواریں ربع صدی پر پھیلی ہوئی دھندلی تصویروں سے اَٹی پڑی تھیں۔

    راتوں میں اس کی سلامتی کے لیے اٹھے ہوئے سراپا دُعا ہاتھ۔۔۔ سجدے میں گری ہوئی عاجزانہ پیشانی ۔۔۔اور سینے پر آیت الکّرسی پڑھ کر پھونکیں مارتے مجسم ہونٹوں کی مامتا بھری تصویریں۔

    بے دھیانی میں خود اس کے ہاتھ بھی دُعا کے لیے اٹھتے چلے گئے لیکن اس کے لرزتے ہونٹوں پر کوئی دُعا نہ مچل سکی۔ کیونکہ اسے کوئی دُعا یاد ہی نہیں تھی۔بچپن میں ماں نے اسے بہت سی دُعائیں یاد کروائی تھیں، مگر اس نے دُعاؤں کو دُہرانے کا سلسلہ جاری نہیں رکھا۔ وہ سجدے کے آداب سے بھی واقف نہیں تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا تو ماں زبردستی اسے مسجد بھیجا کرتی۔ کالونی کے بوڑھوں کو رکوع و سجود کرتے دیکھتا اور خود بھی ویسا ہی عمل دُھرانے لگتا۔ نہ کوئی آیت اور نہ کوئی ثناء۔

    ایک دن ماں نے بتایا کہ نماز میں کچھ پڑھتے بھی ہیں۔ ماں کو جو دُعائیں اور رکوع و سجود کے کلمے یاد تھے، وہ اسے بھی یاد کروادیئے۔ وہ انہیں نماز میں دُھرانے لگا۔ ماں کی یاد کروائی ہوئی دُعاؤں کے علاوہ ایک دُعا اس نے خود بھی سیکھی۔ وہ ماں کی لمبی عمر کی دُعا تھی۔ وہ پوری دنیا میں ماں کو ہی جانتا اور اسے ہی پیار کرتا تھا۔

    کچھ عرصہ تو وہ بڑی توجہ سے پنچ وقتہ نماز کا پابند رہا، پھر الکساہٹ سے فجر چھوٹنے لگی۔ موسم سرد ہوا تو عشاء سے پہلے ہی بستر میں دُبکنے لگا اور پھر دن کی نمازوں میں سے کبھی ایک، کبھی دو اور یوں وہ رفتہ رفتہ اپنی ڈگر پر چل پڑا۔

    وقت کے ساتھ ساتھ وہ ساری دُعائیں بھی بُھولتا چلا گیا۔ کالونی کا ہر فرد اسے جانتا تھا۔ سب اسے بچپن سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔ اس کے باپ کی زندگی سے ہی ،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے باپ کی بڑی عزت تھی، مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ پڑوسی کلیم صاحب کہا کرتے تھے کہ صرف دو طرح کے لوگوں کی عزت کی جاتی ہے، ایک وہ جو واقعی قابلِ عزت ہوتے ہیں۔ اور اپنے رکھ رکھاؤ ، شرافت یا رُتبے کی وجہ سے لوگوں میں تعظیم کا مرتبہ پاتے ہیں۔ یا پھر اس کی عزت ہوتی ہے جس سے لوگ ڈرتے یا خوف کھاتے ہیں۔ بدمعاشی، غنڈہ گردی یا جبر کا خوف۔۔۔ اس کا باپ اسی دوسری قبیل کے لوگوں میں سے تھا۔

    اس کی عمر کے اٹھارویں برس کے موسم بہار میں باپ چل بسا اور اپنے ساتھ خزاں رسیدہ خوف بھی لے گیا۔ تب ماں نے چاہا کہ وہ زندگی کو ذرا بہتر ڈھنگ سے گزارنا سیکھے۔ مگر جب وہ نا سمجھی کی عمر میں باپ کی کُرسی پر بیٹھا اور الٹے سیدھے دو چار پلاٹوں کے سودے کروانے کے بعد کمیشن کا حقدار ٹہرا تو اسے زندگی گزارنا خود بخود آگیا ،اور وہ جان گیا کہ اعلیٰ درجے کے لوگوں کی طرح فیکٹریوں میں دن رات کی پروڈکشن کا جھنجھٹ ، متوسط طبقے کی طرح دکانوں میں سامانِ زندگی بھرنے اور بیچنے کے متھا خوری، یا پھر نچلے طبقے کے مزدوروں کی طرح مشینوں میں ہاتھ کالے کیے بغیر کتنی آسانی سے دولت کمائی جاسکتی ہے۔

    تب اسے ماں بہت بے وقوف لگی جو اس کے باپ کے اس طریقہء آمدنی کو پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ماں ابا کی اس آمدنی کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی تھی، بس نانا کی طرف سے گفٹ میں ملے ہوئے دو منزلہ مکان کے کرائے سے اپنا خرچہ پورا کرتی ۔ پھر بھی اس نے اپنی پہلی کمائی ماں کے ہاتھ پر رکھنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنے باپ کی طرح ناکام رہا۔

    مگر ماں نے اپنی شفقت کا ہاتھ اس کے سر پر پھر بھی رکھا۔ نہ دُعاؤں میں کمی کی اور نہ ہی صبح نکلتے ہوئے اس کے سینے پر آیت الکّرسی پڑھ کر پھونکنا چھوڑا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسے باپ نے نہ اچھی تعلیم دلوائی اور نہ کوئی ڈھنگ کا ہُنر سکھایا۔ بس ایک دکان میں رکھی کرسی ، میز اور ٹیلی فون، کاروبار کی صورت میں اس کے لیے چھوڑا ہے۔ اب شاید یہ ہی اس کا مقدر ہے، اور پھر یہ دھندہ کم ہی کب ہوتا ہے۔ بڑے شہر پھیلتے رہیں، نئی سوسائٹیاں بنتی رہیں۔ جب تک فائلیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں آتی جاتی رہیں گی، خالی دکان میں ھذا من فضل ربی کے تغرے کے عین نیچے اونچی کرسی پر براجماں بے ہنر بے تعلیم آدمی پھلتا پھولتا رہے گا۔

    اس نے بہت جلد اس کاروبار کا چلن سیکھ لیا۔ وہ غیر محسوس طریقے سے اپنے باپ جیسا ہی بنتا جارہا تھا۔ اسی کی طرح بیٹھتا اور سودے کیا کرتا، مگر خوش قسمتی سے اس کو باپ سے زیادہ اچھے فنانسر ملے، جو کہ اس کے اپنے سرمائے میں اضافے کا سبب بنے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہر کے کئی بڑے اور چھوٹے مکانوں، دکانوں کا مالک بنا اور زمین کے کئی ٹکڑے اس کی جاگیر میں شامل ہوئے۔ وہ اکثر سوچا کرتا کہ آخر اس کی ماں کو ان پیسوں سے نفرت کیوں ہے؟ مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ وہ ماں سے کبھی یہ سوال نہیں کرسکا، اور اب تو اس کو ماں کے پاس بیٹھنے کا وقت بھی بہت کم ملتا تھا۔ اسے یہ کبھی پتا ہی نہیں چل سکا کہ جس طرح صرف چند برسوں میں ملک میں سیلاب کی طرح تیزی سے گھس آنے والی دولت نے بے نام و نشاں بنجر زمینوں پر صرف ایک تختی کی صورت میں کھڑی ہوئی غیر آباد سوسائٹیوں پر بکھری ہوئی خودرو جھاڑیوں میں پوشیدہ پلاٹوں کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا یا اور اسے کروڑ پتی بنادیا ہے ،اسی طرح اب یہ پیسہ اس کی جیب سے نکل کر کسی اور طرف بہنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔

    پچھلے سال جب اس نے کئی ہزار گز کا ڈیفنس کا قیمتی پلاٹ فروخت کیا تو رانا صاحب نے دیکھتے ہی دیکھتے اس پر بہت ہی خوبصورت اور جدید کوٹھی تعمیر کرواڈالی۔ ابھی کوٹھی آباد بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسے ایک ڈائریکٹر نے اپنے ڈرامے کے لیے پسند کرلیاِ اور پھر اس میں شوٹنگ ہونے لگی۔ پہلے دن شوٹنگ پر رانا صاحب نے اسے بھی دعوت دی۔ یہیں اس کی ملاقات ڈرامے کی ہیروئن سے ہوئی، جسے پتا چل گیاتھا کہ اس شخص نے حال ہی میں یہ قیمتی پلاٹ فروخت کیا ہے۔

    بڑی رقمیں بہت زیادہ دیر ایک جگہ نہیں ٹھہرا کرتیں، اور اچانک ہاتھ آنے والی دولت تو یوں بھی اپنی قدر کھو دیتی ہے، یا پھر مالک کا دماغ خراب کردیتی ہے ۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ بہت جلد اخلاقیات اور رقم، دونوں معاملوں میں کنگال ہونے لگا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈرامہ پروڈیوسر بن گیا۔ کہانی جو اسے سنائی گئی وہ اس قدر گلیمر سے بھرپور تھی کہ جس کے تصور ہی سے زندگی سحر انگیز ہوجائے۔ قدم قدم پر چمکتی دنیا ، خواب ناک ماحول، بڑی بڑی گاڑیاں، بارُعب کردار، کبھی سنگاپور کبھی دبئی اور کبھی دُنیا کے کسی اور حسین خطے پر حسین جلوؤں، تھرکتے جسموں کے ساتھ کبھی جذبات ،کبھی ایکشن، اور یہ سب اس کی اپنی دسترس میں۔ رائٹر اور ڈائریکٹر اس کے قدموں میں، سر۔۔۔ عالی جاہ۔۔۔ خاں صاحب۔۔۔ آغا جی۔۔۔ سیٹھ صاحب۔۔۔ جیسے خطابات، دعوتیں، حسین شامیں، رنگ و نور کی محفلیں اور ان محفلوں میں وہ راجہ اِندر۔۔۔

    وہ یہ سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ سب تو اس دنیا کا محض ڈرامہ ہے، دکھاوا ہے ، فرضی کہانی ہے۔ یہا ں خطابات ، رشتے، تعلقات سب مصنوعی ہوتے ہیں۔ آپ عالی جناب کی کرسی پر براجماں ہیں تو آپ ہیں، اور جب آپ وہاں نہیں تو پھر کہیں بھی نہیں۔

    اسے کیا پتہ تھا کہ پروڈیوسر بننے میں ذہانت، معاملہ فہمی اور پروڈکشن کی سوجھ بوجھ رکھنا کس قدر ضروری ہوتا ہے۔ محض پیسے کی بنیاد پر دھوکہ اور ایک عدد فلاپ سیریل ہی ملتی ہے، اور یہی کچھ ہوا بھی۔ اس کی میگا سیریل بُری طرح فلاپ ہوگئی۔

    وہ تب بھی کنگال نہیں ہوا تھا۔ اس کے پاس کھونے کے لیے ابھی اور بہت کچھ تھا۔ چند مہینوں کی عیش، اور نقصان نے اسے ذہنی پریشانی میں ضرور مبتلا کردیا تھا، تاہم رنگین دنیا اب بھی ایک فون کال کے فاصلے پر تھی۔ مگر اسے جو کال موصول ہوئی اس نے الجھن میں ڈال دیا۔ ڈرامے میں تیسرے درجے کی سائیڈ ہیروئن نے حاملہ ہونے کا مژدہ سُنایا تھا۔ صائب الرائے لوگوں نے اسے معاملہ کچھ لے دے کر نبٹانے کا مشورہ دیا ،مگر سائیڈ ہیروئن شادی کرنے پر بضد تھی۔

    نکاح والے دن اسے خیال آیا کہ اگر اس کی جگہ اس کا باپ ہوتا تو قہقہہ لگاتا اور خبر کو انجوائے کرتا، مگر میرے اندر یہ کون سا آدمی پیدا ہوچلا ہے جو شادی کے لیے راضی ہوگیا، اور اگر راضی ہونا مجبوری ہے ،تو کاش یہ مجبوری اور خبر ڈرامے کی اصل ہیروئن کی طرف سے ملی ہوتی۔

    وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جو اصل ٹاپ کی ہیروئن ہوتی ہیں ان کا کام بھی ٹاپ کا ہوتا ہے۔ اتنی جلدی تحفظ تو ڈھلتے ہوئے جسموں اور چہرے کی جلد میں پہلی جُھری پڑنے کا خوف رکھنے والی اداکاراؤں کوہوتا ہے ،کہ نہ جانے کب ڈرامے میں بڑی بہن اور ماں کے کردار کی آفر آنے لگے ،اور معاوضہ گھٹ کر چوتھائی اور اس سے بھی کم رہ جائے۔

    وہ یہ سب جانتا ہی کب تھا۔ اسے اپنے اناڑی ہونے کا احساس شادی کے چند دنوں بعد ہی ہوگیا ،جب پتا چلا کہ سائیڈ ہیروئن کے پیٹ میں بچہ ہونے کی کوئی علامت نہیں ہے۔

    تب اسے بہت غصہ آیا۔ رگوں میں بہتا ہوا لہو آنکھوں میں اتر آیا، یکایک اس کے اندر کنڈلی مارکر سوئے ہوئے باپ کا خون پھنکارنے لگا۔ سینے کے پار اترتے خنجر نے کمرے کی فضا میں مچلتی ،تڑپتی ہوئی چیخوں کو کمرے کی دیواروں سے باہر نکالنے کی بہت کوشش کی، مگر مضبوط دیواریں آڑے آگئی تھیں۔ پھر بھی پولیس نے قتل کی وجوہات اور قاتل کا سراغ آسانی سے لگالیا۔

    جیل میں دوسرے دن ہی اسے خبر ملی کہ ماں کے دُعاؤں والے ہاتھ بے جان، آنسو بھری آنکھیں بے نور اور مامتا بھرا دل خاموش ہوگیا ہے۔ وہ بکھر گیا۔۔۔ صدمے سے یا نہ جانے خوف سے۔۔۔ اب نہ راتوں میں دعاؤں کے لیے اٹھا ہوا کوئی ہاتھ تھا، نہ سجدے میں پڑی ہوئی کوئی پیشانی اور نہ ہی جسم پر ہالہ بناتی ہوئی کوئی آیت الکّرسی کی پھونک۔ تب اس نے دیکھا کہ چاروں طرف جیل کی سنگلاخ دیواریں سرسراتی ہوئی اوپر سے اوپر ہوتی چلی جاری ہیں۔

    (۲۰۰۵ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے