Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزار بے مردہ

رؤف خیر

مزار بے مردہ

رؤف خیر

MORE BYرؤف خیر

    بشیر بھائی بہت زندہ دل آدمی تھے۔ ہمیشہ رکوع میں دکھائی دیتے تھے۔ کمر نے جواب دے دیا تھا۔ وہ زیادہ تر اپنے گھر کے دروازے کے قریب بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھے آنے جانے والوں سے سلام و دعا بھی کر لیتے تھے اور بے تکلف ہم سِن دوستوں سے گالیوں کا تبادلہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے کوئی گائے بھینس گوبر کر دیتی تو بشیر بھائی کہتے تھے ’’یہ گائے بھینس کے بٹوے کو بھی یہیں کھلنا تھا!‘‘

    ایک دن وہ ہم سے اپنے بچوں کے بار ے میں کہہ رہے تھے کہ ’’سالے بڑے نا خلف ہیں‘‘ کبھی بہت زیادہ خفا ہوتے تو انھیں ’’سالا‘‘ کہہ دیا کرتے تھے۔ دراصل بشیر بھائی محکمہ پولیس سے وابستہ تھے مگر سب انسپکٹر بننے سے پہلے ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔ شاید گالیاں ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں۔ آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہی ہوگا کہ اپنے حلیئے سے شریف دکھائی دینے والے ایک مولانا پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے گئے۔ انٹرویو لینے والے انسپکٹر نے ان کی صورت دیکھ کر کہا کہ مولانا آپ کہاں آ گئے یہ محکمہ آپ جیسے لوگوں کے لیے نامناسب ہے۔ یہاں دن رات گالی بکنی ہوتی ہے۔ بغیر گالی کے کام ہی نہیں چلتا۔ پھر اس نے ان سے پوچھا آپ کو گالی دینا آتا ہے؟ موصوف نے کہا ہاں۔ تو انسپکٹر نے کہا اچھا دوچار گالیاں دے کر دکھائیے تو سہی اب مولانا شروع ہو گئے تیری ماں کی۔۔۔ تیری بہن کی۔۔۔ انسپکٹر نے حیران ہو کر کہا بس بس۔۔۔ مولانا نے کہا بس بول رہا ہے ماں کے۔۔۔ چنانچہ ان کا تقرر ہو گیا۔

    بشیر بھائی بھی اسی عادت سے مجبور تھے گھر اور باہر میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے وہ اکثر کہتے تھے کہ ان کی اولاد نا خلف ہے ان کی بات سنتی ہی نہیں۔ زندگی ہی میں یہ حال ہے تو مرنے کے بعد کیا یاد رکھیں گے۔ اس پر ہم نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بچوں کو ان کی بزرگی کا لحاظ کرنا چاہئیے۔ پھر ہم نے انھیں ایک نیک مشورہ دیا کہ ’’زندگی ہی میں آپ اپنا چہلم کر دیں‘‘ بولے کیا جیتے جی چہلم؟ ہم نے کہا اس میں حرج ہی کیا ہے۔ دیکھتے نہیں گنبدانِ شاہی! بادشاہوں نے جیتے جی ہی تو تعمیر کروا لئیے تھے اور ہم نے انھیں یقین دلایا کہ انشاء اللہ ہم ایک دردناک تعزیتی نظم کہیں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کے آخری مصرعے سے تاریخ وفات بھی بر آمد ہو۔ اگراس سال وہ تاریخ وفات غلط ثابت ہو جائے تو اگلے سال اس میں ایک الف کا اضافہ کر دیں گے اور تب بھی وہ تاریخ ٹل جائے تو کوئی فکر کی بات نہیں ہمیں نئی تاریخ کہنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی جیتے جی چہلم کر لینے کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ کون آپ کا سچا دوست ہے اور کون بےوفا، منہ دیکھے کی بات کرنے والا۔ اپنے احباب کو آزمانے کا یہ بہانہ ہوگا۔

    ’’ہم نے ان کی تسلی کے لیے ایک شاعر کا واقعہ بھی سنا یا جس نے بصد شوق اپنے لیے دو گز زمین اپنی پسندیدہ جگہ یعنی درگاہ شریفین‘‘ میں مہنگے داموں خرید رکھی ہے۔ وہ ہر ہفتہ وہاں جایا کرتے ہیں۔ سجادہ نشین نے ان کی مسلسل حاضری سے خوش ہو کر بازار کے دام سے کم یعنی صرف پچاس ہزار روپے میں انھیں دو گز زمین، مزار مبارک کے بالکل سامنے دے دی۔ جس کے شمال میں داغ دہلوی تو جنوب میں امیر مینائی اور مشرق میں شاذ تمکنت آسودۂ خاک ہیں اور مغرب میں صاحب مزار ہی ہیں۔ شاعر موصوف نے اس زمین پر اپنی آخری آرا م گاہ تیار بھی کروا لی ہے۔ اس پر پھولوں کی ڈالی بھی لگا رکھی ہے۔ گذشتہ کئی سال سے وہ ہر ہفتہ بڑے شوق سے اپنے ہی مزار پر فاتحہ بھی پڑھ لیا کرتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے عزیز و اقارب سے کوئی توقع نہیں کہ انھیں سال چھے مہینے میں سہی کبھی یاد کر لیا کریں گے۔ معاصرین شعرائے کرام سے بھی وہ بالکل مایوس ہیں معاصرانہ چشمک کی وجہ سے وہ ان کی کوئی یادگار قائم کرنے والے تو ہیں نہیں۔

    قبرستان میں شاعر موصوف نے ایک خوب صورت کتبہ لگا رکھا ہے جس پر لکھا ہے:

    ’’دکن کے شہرہ آفاق شاعر ذوق حیدرآبادی ولد فوق اورنگ آبادی‘‘ اور نیچے گزارش بھی ہے:

    ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں

    پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

    ہم نے خود اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ اپنی لحد پر آنکھ بند کیئے ہوئے اور ہاتھ اٹھائے اپنی مغفرت کی دعا کر رہے ہیں۔ پھر جیب سے پھولوں کی پڑیا نکال کر تعویذ پر ڈال دیتے ہیں۔ جب وہ پیٹھ پھیر کر مکروہاتِ دنیا کی طرف لوٹنے لگتے ہیں تو قبرِ شریف انھیں حسرت سے تکتی رہتی ہے اور زبان ز حال سے گویا کہہ رہی ہو۔

    کون سی رات آن ملیئےگا۔

    دن بہت انتظار میں گزرے۔

    وہ زندگی تو کرائے کے سرائے یا کسی چھاؤنی میں مسافرانہ و مہاجرانہ گزار رہے ہیں مگر پچاس ہزار روپے میں یہ دو گز زمین کا پلاٹ اس نیت سے خرید رکھا ہے کہ مرشد کے زیر سایہ نجات مل جائےگی، منکر نکیر رعایت کریں گے اور امید ہے کہ عاقبت سنور جائےگی حساب کتاب کا چکر نہ ہوگا۔

    انہوں نے یہ دو گز کا پلاٹ اس زمانے میں خرید لیا تھا جب اسی قیمت میں ایک سفالی مکان کسی نواح میں آسانی سے مل سکتا تھا اور وہ یہ کہنے کے موقوف میں آ جاتے۔ بقول خیرؔ۔

    کسی طرح تو کرائے کی علتوں سے بچے نواح شہر میں اک گھر تو خیرؔ ذاتی ہے۔

    مگر انہوں نے دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دی۔ شاعر صاحب بتا رہے تھے کہ یہ دو گز کا پلاٹ بھی آخری پلاٹ رہ گیا تھا۔ اب تو پورے احاطے میں کہیں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ مگر بشیر بھائی آپ فکر نہ کریں۔ اپنے محلے میں جگہ کی کوئی قلت نہیں ہے اور نہ مہنگائی اتنی بڑھی ہے اور پھر یہاں رعایت سبسڈی (SUBSIDY) مل رہی ہے اور پھر آپ سے کیا عرض کریں بشیر بھائی کچھ دن پہلے اس ذوق حیدرآبادی کے ’’مزار بےمردہ‘‘ پر ہمارا گزر ہوا۔ اس پر کسی اور نام کی تختی لگی ہوئی دیکھی یعنی کتبہ بدل گیا تھا۔ ہم نے فوراً ذوق صاحب سے فون پر رابطہ پیدا کیا۔ گھنٹی بہت دیر بجتی رہی۔ بڑی دیر بعد انہوں نے فون کا جواب دیا۔ ہم نے بعد سلام عرض کیا کہ حضور آپ کے مزار مبارک پر ناجائز قبضہ ہو گیا ہے۔ آج ہمارا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے نام کی جگہ کسی اور کا نام وہاں کندہ ہے۔ حصار بندی بھی ہو گئی ہے بولے ہاں مجھے معلوم ہے۔ ریٹ RATE اچھا مل گیا تو مزار میں نے ہی نکال دیا۔

    افسانہ:۵

    ضرورت رشتہ

    ہر اخبار میں ضرورتِ رشتہ کا اشتہار اخبار کے ایک اہم حصے کی طرح شامل رہتا ہے، جس میں لڑکے کی آمدنی اور لڑکی کے حسن سے متعلق مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔ لڑکے کے قدو قامت کا ذکر کم کم ہی ہوتا ہے البتہ لڑکی انچوں کے حساب سے طلب کی جاتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کے لڑکے کو اچھا رشتہ درکار ہے۔ اس کے لیے حسب ذیل تفصیلی تعارف دیا جاتا ہے۔ شرائط پر پوری اترنے والی لڑکی از خود بھی رابطہ پیدا کر سکتی ہے کیوں کہ ہم نے دیکھا ہے شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکیاں بھی ماں باپ کو زیادہ زحمت دینا نہیں چاہتیں۔ موبائل فون نمبر 9000420420 پر لڑکا چوبیس گھنٹے دستیاب رہےگا۔

    حسب ذیل اشتہار بجائے خود لڑکے کا مکمل تعارف (BIO DATA) ہے:

    لڑکا اپنے پانچ بھائیوں اور پانچ بہنوں کو واقعی ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ یعنی ایک آنکھ گل ہے۔ خاندانی پس منظر یہ ہے کہ لڑکا خاندان تیمور لنگ سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی لنگڑا ہے۔ سرکاری ملازموں کی باضابطہ مقررہ آمدنی کی طرح لڑکے کی کوئی مستقل بندھی ٹکی آمدنی نہیں ہے۔ وہ ایک ہی دن میں سینکڑوں روپئے کما بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ چونکہ لڑکا قناعت پسندی کا قائل ہے اس لیے وہ دولت کے پیچھے نہیں بھاگتا، چنانچہ دولت بھی اس سے پیچھا چھڑاتی رہتی ہے۔ اسی لیے لڑکا گھر دامادی کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ لڑکے کے والدین بھی کافی سمجھدار ہیں۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے لڑکوں کو روزگار کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے دیکھ کر انہوں نے اپنے لڑکے کو تعلیم سے دور ہی رکھا حتیٰ کہ وہ اخبار بھی نہیں پڑھ سکتا۔ یوں بھی اخبار ات میں کونسی اچھی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ مار دھاڑ، دہشت گردی اور جرائم کی تفصیلات جان کر قارئین کو حوصلے ملنے لگتے ہیں، اسی لیے لڑکا اپنی بےخبری میں مست ہے۔ لڑکا رات دن ٹی وی ضرور دیکھتا ہے لیکن کسی نیوز چینل کو زحمت نہیں دیتا، مباد ا کوئی خبر ا س کی بے خبری پر بجلی بن کر گرے۔

    صوم و صلوٰۃ کی پابند لڑکی ہر گز نہیں چاہیے، لڑکا صوم صلوٰۃ سے قطعی دلچسپی نہیں رکھتا۔ رات میں دیر تک ٹی وی سیرئیلس، گانے، فلمیں، میچ وغیرہ دیکھنے کی وجہ سے ظاہر ہے صبح آنکھ دس گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتی۔ گھر بھر کا یہی حال ہے۔ البتہ کرکٹ میچ شروع ہونے والا ہو تو الارم رکھ کر ساڑھے نو بجے بھی اٹھ سکتا ہے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند لڑکی گھر بھر کے لیے مسائل کھڑے کر دےگی۔ نہ صرف وہ بار بار نماز پڑھتی جائے گی بلکہ دیگر افراد کو بھی نماز کی تلقین کر کر کے ناک میں دم کر دیےگی، ایسی لڑکی سے نقض امن کا خطرہ ہوتا ہے۔ آس پاس کے بلکہ دور دور کے محلوں سے آنے والی اذانوں کی آوازیں پہلے ہی بہت ڈسٹرب کرتی ہیں (خاص طور پر فجر کے وقت) اب گھر کی بہو بھی نماز کے لیے سر ہو جائے تو صحت و عافیت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ لڑکی کا فیشن ایبل ہونا ضروری ہے۔ پردہ دار دقیانوسی لڑکی کے والدین زحمت نہ فرمائیں۔

    نماز کے علاوہ روزے سے بھی لڑکے کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ وہ گٹکھا کھانے کا عادی ہے۔ ہر آدھے گھنٹے کے وقفے سے گٹکھا نہ کھائے تو صحت کے متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ رعشہ شروع ہو جاتا ہے اور سگریٹ پینے میں تاخیر ہو جائے تو بھول چوک شروع ہوتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہی بھول جائے کہ وہ ایک عدد عورت کا شوہر بھی ہے۔ پینے کھانے میں بدنامی کا اندیشہ ہے اس لیے لڑکا گٹکھے پر گزارہ کر رہا ہے کہ یہ نشہ بازی کا سستا اور شریفانہ طریقہ ہے۔

    کمانے والی لڑکی کو اولین ترجیح دی جائے گی تاکہ لڑکے کے نکھٹوپن کا کچھ تو ازالہ ہو۔ لڑکی جتنی دیر کمانے جائےگی گھر میں سکون رہے گا۔ آج کل شادی سے پہلے طبی معائنہ کے لیے حکومتی سطح پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے لڑکا راضی نہ ہو گا مبادا طبی معائنے میں اس کی پول کھل جائے۔ ایک بار شادی ہو جائے تو عزت کے مارے لڑکی والے خود ہر سطح پر خموشی اختیار کر لیں گے ورنہ لڑکے کو اپنی عزت کا پاس کم ہی ہے وہ ہر صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ لڑکا ٹووہیلر، تھری وہیلر، فور وہیلر چلانا جانتا ہے۔

    جہیز میں تھری وہیلر ہی مل جائے تو بہتر رہےگا تاکہ ماں باپ سے ملانے کے لیے لڑکی کو وہ آرام سے لا سکےگا۔ ضرورت پڑنے پر تھری وہیلر سے استفادہ بھی کیا جا سکےگا۔ وہ روزی روٹی کا ذریعہ بنا رہےگا۔

    لڑکے کا پاسپورٹ تیار ہے، کئی دفعہ باہر جانے کی کوشش بھی کی۔ ہیلپر یا سوئیپر کی ملازمت بھی مل جائے تو سر کے بل جانے پر راضی ہے۔ ملک سے باہر بھجوانے والے صاحب سے جہیز کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جائےگا۔ لڑکے کو شادی کے فوری بعد سعودی عرب بھجوا دیں اور لڑکی کو اپنے گھر میں رکھ لیں تاکہ ساس، بہو کی جھنجھٹ ہی نہ رہے۔

    لڑکا ایک کرائے کے گھر میں پیدا ہوا، جوان ہوا اور آثار ایسے ہیں کہ ان شاء اللہ کرائے کے گھر ہی میں اس دار فانی سے کوچ کرے گا، البتہ کوئی صاحب جائیداد شخص جہیز میں مکان بھی دے دے تو یہ ارادہ بدل بھی سکتا ہے۔

    لڑکا کرائے کا مکان بدلتا رہتا ہے، مکان بدلتے رہنے میں بڑی سہولتیں ہیں۔ دو تین مہینے کا کرایہ ہڑپ کر بلکہ مکان دار سے کچھ لے کر مکان کا تخلیہ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مکا ن دار کرایہ ادا نہ کرنے پر نل لائٹ کٹوا بھی دے تو غیرقانونی کنکشن جاری رہتا ہے۔ علاقے کے ارباب مجاز سے اندرونی معاملت (UNDER HAND DEALING)کا ہنر اسے خوب آتا ہے۔ اس نے بعض مکانات پر ناجائز قبضے کی ناکام کوششیں بھی کیں مگر قسمت نے یاوری نہ کی۔ اسی خیال سے گھر کے پتے کے بجائے فون نمبر پر رابطے کی گزارش کی جا رہی ہے۔ یہ فون بھی صرف ان کمنگ ہے۔ زیادہ سے زیادہ لڑکے کی طرف سے مس کال MISS CALLدی جا سکتی ہے۔

    لڑکے کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے، وہ ناچنا گانا خوب جانتے ہیں۔ اس لیے شادی میں باجا ضرور ہوگا تاکہ دوستوں کو ہاتھ پاؤں کو حرکت دینے کی سہولت حاصل رہے۔ اس تھرکنے کو ناچ سمجھا جائے، مشرقی یا مغربی ناچ کی اصطلاح میں نہ سو چا جائے۔

    لڑکے کے چہرے پر ایک نظر ڈالنے والے دوسری نظر ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔ اس میں مصور کائنات کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ لڑکے نے اپنے چہرے کو آپ بگاڑ لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس لیے شادی کے موقع پر سہرا ضرور رہے گا تاکہ بارات کم از کم عقد ہونے تک تو تجسس میں رہے۔

    عقد میں تناول طعام کا انتظار ضرور ی ہے ورنہ صرف ’’شرکت باعث مسرت‘‘ قسم کی دعوتوں میں دعوتیوں کے آنے کی کم ہی توقع رہتی ہے۔ دولہے کی بارات میں لوگ بالکل کم ہوں تو کئی شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔

    اپنے رشتے داروں سے لڑکے کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ محلے والے بھی خوش نہیں ہیں۔ کوئی لڑکی دینے پر آمادہ ہی نہیں، اسی لیے لڑکے نے بھی طے کیا ہے کہ وہ خاندان اور محلے سے باہر شادی کرےگا۔ اسی لیے یہ ضرورت رشتہ کا تفصیلی اشتہار اخبار میں دیا جا رہا ہے۔ رنگ، نسل، مذہب، مسلک کی کوئی قید نہیں۔ لڑکی کا قبول صورت اور کماؤ ہونا کافی ہے۔ قدوقامت کی بھی پابندی نہیں، اس کی بھی پروا نہیں کہ لڑکی کے دانت اور بال اصلی ہیں کہ نقلی! شرط بس اتنی ہے کہ کھاتے پیتے گھرانے کی ہو، اچھا خاصہ جہیز لا سکتی ہو۔ ایسی کماؤ لڑکی سے لڑکا کہیں بھی کسی بھی وقت شادی کرنے کے لیے تیار ہے۔

    نوٹ: لڑکا چونکہ کرائے کے گھر میں رہتا ہے، اس لیے جہیز میں الابلا سامان کی جگہ نقد رقم ہی دی جائے تو خرچ کرنے میں سہولت رہےگی ورنہ اسباب اونے پونے بیچنے میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ کیوں کہ گھر میں سامان رکھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ لڑکے نے اپنے بارے میں نہایت صاف گوئی سے کا م لیا ہے، ورنہ یہ صورت حال تو بیشتر گھروں کی ہے۔ ٭٭ے تعلق رکھتا تھا۔ مختلف قبائیل

    افسانہ:۶

    بلی حج کو چلی

    صبح صبح ہم دودھ لانے کے لیے جاتے ہیں تو راستے میں اکثر ایک صاحب ٹوپی پہنے ہمیں ملتے ہیں سلام علیک ہوتی رہتی ہے۔ اگر چہ کہ نہ وہ ہم سے واقف نہ ہم ان کو جانتے ہیں۔ ایک صبح سلام کے بعد انہوں نے ہم سے گزارش کی کہ ہم ان کے لیے دعا کریں۔ ہم نے کہا کیسی دعا۔ بولے حج کا فارم لے کے آیا ہوں۔ کل داخل کروں گا۔ دعا کرو کہ فارم قبول ہو جائے۔

    ایک صاحب سے دو پہر میں ملاقات ہوئی۔ پوچھا۔ کہاں سے آرہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا بھئی فارم لانے گیا تھا۔ بڑا ہجوم ہے بڑی مشکل سے فارم ہاتھ لگا۔ ہم نے پوچھا کیسا فارم کیا ہاؤزنگ بورڈ یا حڈا والے مکانات الاٹ کررہے ہیں بولے ارے نہیں بھئی حج کا فارم۔ دعا کرو اس بار قرعہ اندازی میں نام نکل آئے۔

    ایک اور کرم فرمانے بتایا کہ ان کے کسی کرم فرما کی ساس بیمار ہے۔ ہم نے پوچھا۔ تو پھر؟ کہنے لگے وہ اپنی ساس کے لیے حجِ بدل کروا رہے ہیں۔ ہم نے کہا اچھا اچھا چلئے مبارک دعاؤں میں یاد رکھیئے۔

    ایک محترم ٹوٹی والا لوٹا خرید کر لا رہے تھے۔ ہم نے سلام کیا۔ جواب میں فرمانے لگے حج کے سفر کے دوران لوٹے کی ضرورت پڑے گی اس لیے خرید کر لا رہا ہوں۔ حالانکہ ہم نے لوٹے کے بارے میں کچھ پوچھا ہی نہ تھا۔

    ایک دوست کی ڈاڑھی بےترتیب بڑھ گئی تھی۔ ہم سمجھے شاید انھیں اصلاح یعنی شیو کی فرصت ہی نہیں مل رہی ہوگی۔ ہم سے دورانِ گفتگو کہنے لگے۔ ڈاڑھی چھوڑ رہا ہوں۔ ہم نے کہا خیر تو ہے؟ بولے دراصل حج کے لیے نکل رہا ہوں نا۔ اسی لیے شیو کرنا فی الحال ترک کر رکھا ہے۔

    ایک اور صاحب جن سے واجبی سی صاحب سلامت تھی، ایک دن بڑے تپاک سے ملے۔ ہاتھ ملایا۔ گلے لگایا اور کہنے لگے۔ بولا چالا (کہا سنا) معاف کر دیجئے۔ ہم ابھی اپنی حیرانی کا مظاہرہ ہی کر رہے تھے کہ کہنے لگے حج کو جا رہا ہوں۔ پتہ نہیں واپس لوٹنا ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ ہم نے انھیں تسلی دی کہ پانی کے جہازوں کا زمانہ گیا اب تو دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔ بولے۔ پھر بھی دعا کرو کہ صحیح سلامت گھر لوٹوں۔

    دور کے بلکہ بہت دور کے ایک رشتہ دار جن سے برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی، اچانک ایک دن گھر آ گئے۔ کہنے لگے بڑی مشکل سے آپ کا گھر ملا ہے۔ ہم نے کہا بڑی زحمت کی۔ سب خیریت تو ہے۔ بولے۔ ہاں سب ٹھیک ہے۔ دعا فرمائیے۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہونے والا ہوں۔ سوچا سب سے مل لوں۔ اسی لیے حاضر ہوا تھا۔ ہم نے پوچھا کیا اہلیہ بھی ساتھ آئی ہیں۔ بولے۔ نہیں وہ اپنی سہیلیوں سے ملنے گئی ہوئی ہیں۔

    ایک ملاقاتی پوچھنے لگے۔ چمڑے کا بیلٹ کہاں مل جائےگا۔ ہم سمجھے گردن میں درد ہے۔ ہم نے پوچھا کیا گردن میں باندھنے کے لیے؟ بولے۔ نہیں بھئی۔ پاسپورٹ وغیرہ رکھنے کے لیے بڑا سا بیلٹ چاہیئے۔ حج کے لیے نکل رہا ہوں نا!

    جان پہچان والے ایک صاحب گزارش کرنے لگے کہ ہم ان کے لیے دعا کریں تاکہ ان کا حج فارم اس سال بھی قبول ہو جائے۔ ہر چند وہ گذشتہ سال بھی حج کر آئے تھے۔ ہم نے کہا دوسروں کو بھی موقع ملنا چاہیئے۔ بولے۔ ثواب کے معاملے میں کوئی مصالحت نہیں۔ میں نماز بھی اول وقت جماعت سے پڑھنے کا قائل ہوں۔ زکوٰۃ بھی میں شروع رمضان ہی میں نکال دیتا ہوں۔ میں تو ستہ شوال کے روزے بھی نہیں چھوڑتا اور حج ہر سال کرنے کا ارادہ ہے۔ دعا فرمائیے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں۔ سنا ہے نئے قواعد کے تحت ایک دفعہ حج کرنے والے کو پانچ سال تک موقع نہیں دیا جائےگا۔ دعا فرمائیے۔ فارم داخل کر چکا ہوں اب کی بار بیوی ساتھ ہے۔ محرم تو ضروری ہے نا! فارم کیسے رد ہوسکتا ہے۔ پھر بھی دعا فرمائیے۔

    ایک سادہ لوح پوچھنے لگے۔ یہ امام ضامن کے بندھن کہاں دستیاب ہوتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگے۔ میں اس سال مع محل حج کو جا رہا ہوں۔ تو پھر؟ بارہ امام کی ضمانت میں اکثر لوگ جاتے ہی ہیں ہم بھی جائیں گے۔ ہم نے انھیں سمجھا یا کہ اللہ کے گھر کو کیا غیراللہ کی ضمانت میں جاؤ گے ؟ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ ہم نے مزید کہا جس اللہ کے گھر کے لیے سفر کر رہے ہو وہی سب سے بڑا ضامن ہے۔

    ایک پرانے دوست مخالف سمت سے ایک تیز رفتار گاڑی پر آ رہے تھے۔ ہم اپنی گاڑی پر حسب معمول بڑے اعتدال کے ساتھ جا رہے تھے۔ انھوں نے ٹرافک کے باوجود اپنی گاڑی روکی۔ ہمیں بھی اپنی گاڑی روکنی پڑی۔ پلٹ کر قریب آئے اور گلے ملنے لگے۔ ہم بولے مبارک۔ کہنے لگے اچھا آپ سمجھ گئے کہ ہم اس بار حج پر روانہ ہو رہے ہیں۔ دعا فرمائیے۔ اللہ قبول کرے۔

    جیسے جیسے حج کے لیے روانگی شرو ع ہوتی ہے۔ تمام اخبارات میں تصاویر کے ساتھ اشتہارات شائع ہونے لگتے ہیں جن میں موصوف کے لیے دعاؤں کی درخواست کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کسی کا کچھ قرض وغیرہ باقی ہو تو وہ وصول کر لے کہ موصوف حج کے لیے فلاں تاریخ کو ملک چھوڑ رہے ہیں۔ چلئیے کسی بہانے قرض لوٹانے کا خیال تو آیا۔

    حج کے لیے جانے والے ایک صاحب نے بھی جب دعاؤں کی درخواست کی تو ہم ذرا چونکے کیونکہ وہ بدنام زمانہ محکمے (DEPARTMENT) سے تعلق رکھتے تھے۔ جہاں وزن رکھے بغیر کوئی فائل آگے نہیں بڑھتی تھی۔ وہ صاحب بھانپ گئے اور کہنے لگے۔ میں نے گذشتہ ایک سال سے رشوت لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کرتا البتہ کوئی خوشی سے کچھ دیتا ہے تو دل نہیں توڑتا۔

    ایک دن بیگم نے کہا کہ ایک پھول کا ہار اور ایک مٹھائی کا ڈبہ لیتے آئیے۔ ہم نے پوچھا کس لیے؟ کہنے لگیں۔ بھول گئے؟ کل چھوٹے ماموں حج کے لیے نکل رہے ہیں اور آج انھوں نے اپنے گھر پر دعوت کی ہے۔

    ایک ڈاکٹر کے کلنک پر ایک بڑا سا بورڈ لگا دیا گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب حج کے لیے تشریف لے جا چکے ہیں۔ زندگی باقی رہی(یعنی مریضوں کی زندگی باقی رہی) تو چالیس دن بعد دوبارہ علاج شروع کر دیں گے۔

    حاجی صاحب حج سے لوٹنے لگتے ہیں تو بیٹوں، بیٹیوں، دامادوں، پوتوں نواسوں کی طرف سے ایک اشتہار کے ذریعے حاجی صاحب کی خدمت میں مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔

    کھانے میں مرچ قدرے تیز تھی۔ ہم ہو ہا کر رہے تھے کہ بیگم نے کھجور پیش کیئے۔ ہم نے پوچھا یہ کہاں سے آ گئے؟ کہنے لگیں ہمسائے نے بھجوائے ہیں۔ آب زم زم اور ایک ٹوپی بھی دی ہے۔ وہ حج کر کے جو آئے ہیں۔

    تو پھر یوں ہوا کہ ہمیں آبِ زم زم، کھجور، ٹوپیوں، تسبیحوں، جائے نمازوں وغیرہ کے تحفے جانے انجانے لوگوں کی طرف سے ملنے شروع ہو گئے۔ ایسے ایسے لوگ ٹوپی اور کھجور بھیجتے ہیں جنھوں نے چائے کی ایک پیالی کبھی نہیں پلائی۔ (مخفی مباد کہ ہم کھجور بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور اس نر غذا کو مؤنث نہیں سمجھتے

    ایک ڈاکٹر کا اشتہار چھپا کہ ڈاکٹر صاحب حج سے واپس آ چکے ہیں اور مطب (CLINIC) حسبِ معمول کام کرنے لگا ہے۔ ضرورت مندوں کے لیے آب زم زم میں بھگوئے ہوئے کفن کا انتظام بھی ہے۔

    ایک وکیل کی طرف سے ایک نوٹس شائع ہوئی کہ حج کے بعد جھوٹے مقدمات کی پیروی سے انہوں نے توبہ کر لی ہے۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ توبہ تو اللہ میاں قبول کرنے والے ہیں مگر وکیل صاحب نے ناجائز طریقے سے جن مکانات کا قبضہ قانونی داؤ پیچ سے دلایا اور جن دوکانات کو خالی کروا دیا ان کا کیا ہوگا۔ جن مجرموں کو پھانسی کے پھندے اور جیل سے بچا لیا وہ تو دعا دیں گے اور جس کی وجہ سے حج کا سفر آسان بھی ہوا۔ مگر ان بے گنا ہوں کا کیا ہو گا جنھیں وکیل صاحب نے ناحق جیل بھجوا دیا تھا۔

    بعد نماز ایک صاحب تمام مصلیوں سے گلے مل رہے تھے۔ معلوم ہوا گز شتہ آٹھ دن سے الگ الگ مسجد میں ہر نماز کے بعد وہ یہ عمل فرما رہے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ وہ حج کر کے لوٹے ہیں اور جبری مبارکباد وصول کر رہے ہیں۔ حج کو جانے سے پہلے بھی موصوف یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔

    ایک قریبی عزیز ہماری بچی کی شادی میں تشریف نہیں لائے۔ خفگی کا سبب معلوم ہوا کہ ہم نے دعوت نامے میں ان کے نام کے ساتھ حاجی نہیں لکھا تھا۔

    ہمیں دیر رات ایک فون آیا۔ فرمانے لگے ارے بھئی میں رشتے میں آپ کا ساڑھو(ہم زلف) لگتا ہوں۔ آتے ہوئے آپ سے مل کر نہیں آیا معذرت چاہتا ہوں دعا فرمائیے۔ اس وقت صفا و مروہ کے درمیان سعی کر کے باہر آیا ہوں۔ ہم سوچنے لگے دعا تو ان کو کرنی ہے۔ ہم کیا دعا کریں۔ دعائے خیر کے سوائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے