Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مٹی کا زنگ

مرزا حامد بیگ

مٹی کا زنگ

مرزا حامد بیگ

MORE BYمرزا حامد بیگ

    یہ سب جیسے اچانک ہی ہوا۔ ریلوے اسٹیشن پرمعمول کی زندگی نے یکلخت کروٹ لی اور پھر ستے ہوئے چہروں اور نیندسے بوجھل آنکھوں والے مسافروں کاایک ہجوم اکٹھا ہوتا چلا گیا۔

    رات کا پہلا پہر ہوگا، جب یہ واقعہ پیش آیا۔

    دور کے سفر پر نکلنے والے مسافروں اور اسٹیشن کے عملے کے لیے یوں تویہ کوئی انہونی بات نہ تھی لیکن پھر بھی ایسا بہت کم ہوا ہے کہ یوں اچانک ہنستا بولتا ہوا کوئی شخص یکلخت چپ ہوجائے اور پتا چلے کہ مر گیا۔

    لدھے پھندے ٹھیلوں کو دھکیلنے والے قلی، پان بیڑی سگریٹ اور نان پکوڑہ بیچنے والے چھوکرے، ٹی سٹال کے کارندے، ڈاک بابو، ٹکٹ کلکٹر اور شام کا اخبار بیچنے والے لڑکے، سب حیران رہ گئے۔

    لوگوں کا ایک ہجوم تھا، جس کے بیچ یوں اچانک دم دے جانے والا ادھیڑ عمر کا مسافر، لوہے کے ایک خالی بینچ پر سرنیوڑھائے بڑے پرسکون انداز میں بیٹھا تھا۔ جیسے زندہ ہو اور کسی گہری سوچ میں ہو۔

    ’’یہ آیا کہاں سے ہے؟‘‘

    ’’آیا نہیں۔ شاید جا رہا تھا‘‘۔

    ’’کہاں جا رہا تھا؟‘‘

    ’’خدا جانے‘‘۔

    ’’جیب میں دیکھ لیتے۔ شاید کوئی کاغذ کا پرزہ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ سب دیکھ لیا‘‘۔

    بھانت بھانت کی آوازیں تھیں اور طرح طرح کے سوالات۔

    ’’اس کا سامان بھی تو ہوگا ساتھ‘‘۔

    ’’کوئی لے اڑا شاید‘‘۔

    ’’اس کے برابر میں بھی تو کوئی بیٹھاہی ہوگا۔ کسی نے دیکھا نہیں۔ کیسے ہوا یہ سب؟‘‘

    سفید بھوؤں والے ایک بزرگ نے پوچھا۔ جواب میں سب چپ تھے۔ سب نے ایک دوسرے کی طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔

    ’’وضع قطع سے تو مقامی آدمی دکھائی دیتا ہے‘‘۔

    ’’ہاں۔ شاید‘‘۔

    ’’واچ اینڈ وارڈ کو اطلاع کرو بھائی‘‘۔ ایک نے مشورہ دیا۔

    ’’آئے تھے دو وردیوں والے۔ دیکھ داکھ کر چلے گئے‘‘۔

    ’’چلے گئے۔۔۔وہ کیوں؟‘‘

    ’’وہ کہہ رہے تھے، یہ ہمارے تھانے کی حدود کا معاملہ نہیں ہے۔ کہیں دور سے لایا گیا ہے ٹرین پر اور یہاں لاکر اس بینچ پر بٹھا گئے‘‘۔

    ’’نا بھئی، ایسا کچھ ممکن نہیں‘‘۔

    ’’یہاں کیا ممکن نہیں ہے صاحب۔ ہو سکتا ہے آدھ گھنٹہ پہلے کراچی کی طرف نکل جانے والی اٹھارہ ڈاؤن خیبر ایکسپریس پر اسے لائے ہوں اور یہاں بٹھا گئے ہوں‘‘۔

    ’’ارے نہیں بھئی۔۔۔ گزشتہ ایک گھنٹے سے تو ہم لوگ دیکھ رہے ہیں اسے۔ ہم سے پہلے پولیس والے پڑتال کر گئے۔ شاید اس سے بھی پچھلی گاڑی پر لایا گیا ہو‘‘۔

    ’’لیکن یہ کوئی بات تو نہ ہوئی نا۔ وہ آئے بھی اور دیکھ کر نکل لیے۔ ان کا کام تھا، تفتیش کرتے‘‘۔

    ’’تفتیش کرتے۔۔۔واہ۔۔۔ کیس ہوکسی اور علاقے کا اور یہ بلا وجہ ہلکان ہوتے پھریں۔ کہاں پتا کرتے پھریں دوسروں کی حدود میں؟‘‘

    ’’آپ بہت حمایت کر رہے ہیں پولیس والوں کی‘‘۔

    ’’اچھا بھئی نہیں کرتا حمایت۔ یہ ڈاک گھر کے پچھواڑے، واچ اینڈ وارڈ کا کمرہ ہے۔ جائیے بلا لائیے انہیں۔ اگر آپ کے کہے پر آتے ہیں تو۔۔۔‘‘

    ’’ارے نہ آئیں۔ نہیں آتے تو۔۔۔۔ حق بات تو کرنی چاہیے نا۔۔۔‘‘

    ’’حق بات۔ ٹھیک کہا آپ نے۔ آپ دیں گے گواہی، اس بات کی کہ مرنے والے کو آپ نے اس بینچ پربیٹھے دیکھا؟‘‘

    ’’میں کیوں دوں کا گواہی؟ خواہ مخواہ۔۔۔ سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ہم اتنے سارے لوگ‘‘۔

    ’’اچھا۔۔۔ٹھیک ہے۔ چلیں میرے ساتھ کون کون چلےگا۔ بلا کر لاتے ہیں دوبارہ انہیں۔ لیکن اپنی بات پر قائم رہیےگا‘‘۔

    وہ بھنایا ہوا نوجوان مجمع کو چیرتا ہوا چلا۔

    ’’آئیے۔۔۔ آئیں میرے ساتھ۔۔۔ آتے کیوں نہیں؟‘‘

    اس نے ہجوم کی طرف نظر بھر کر دیکھا اور تیزقدم اٹھاتا ہوا نکل گیا۔ اب ہجوم بکھرنے لگا۔ اس ڈر سے کہ کہیں وردی والے آہی نہ جائیں۔ کوئی پانی کی صراحی بھرنے نل کی طرف ہو لیا۔ کسی نے اپنے بچے کو انگلی سے لگایا اور اپنے سامان کے گرد منڈلانے لگا۔ کسی کو نان پکوڑے بندھوانے تھے، وہ ادھر نکل گیا۔ غرضیکہ سب کو کوئی نہ کوئی کام یاد آ گیا۔

    سب دور سے کھڑے کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے اسے اور وہ لوہے کی خالی بینچ پر سر نیوڑھائے، بڑے پرسکون انداز میں بیٹھا تھا۔ جیسے زندہ ہو اور کسی گہری سوچ میں ہو۔ اس اثنامیں ایک پسنجر گاڑی آکر رکی اور کافی دیر ٹھہری رہی۔

    ’’چائے والا۔۔۔ چائے‘‘۔

    ’’پان، بیڑی، سگریٹ‘‘۔

    ’’اے چائے والے‘‘۔

    ’’ٹھنڈی بوتل‘‘۔

    ’’قلی۔۔۔ ارے قلی۔۔۔ قلی۔۔۔‘‘

    گاڑی کیا آئی، ریلوے اسٹیشن کی چہل پہل بحال ہو گئی۔ پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے ایک مسافر نے وقت گزاری کی خاطر جیسے بات چلائی۔

    ’’ارے بھئی کے گھنٹے لیٹ ہے، آپ کی پسنجر؟ اسے تو خیبر میل سے پہلے پہنچنا تھانا؟‘‘

    ’’کیا پوچھتے ہیں صاحب۔ کچھ تو پہلے سے لیٹ تھے اور کچھ خیبر نے لیٹ کروا دیا۔ بائی پاس پررکے رہے، اس کے انتظار میں۔ وہ گزر گئی تو چلی ہے اپنی گاڑی۔۔۔‘‘ ایک اکتائے ہوئے مسافر نے کھڑکی کے ساتھ لگ کر بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔

    ’’کوئی پوچھنے والا نہیں صاحب‘‘۔

    ’’ہاں جی۔ بس اللہ کے آسرے پر چلے جاتے ہیں‘‘۔

    ’’غضب خدا کا۔۔۔ وہ دیکھ رہے ہیں نا آپ۔۔۔ وہ سامنے بینچ پر۔۔۔ وہ جو سرنیوڑھائے بیٹھا ہے نا بھلا مانس۔۔۔ وہ زندہ نہیں، مر چکا ہے‘‘۔

    ’’ہیں؟ وہ کیسے؟‘‘

    ’’خود دیکھ لیجئے، گاڑی سے اتر کر‘‘۔

    ’’کیوں جی۔۔۔ کیا واقعی وہ مر گیا؟‘‘

    رکی ہوئی پسنجر ٹرین کے مسافروں نے ہڑبڑا کر حیرت کے ساتھ کھڑکیوں میں سے باہر جھانکا اور دروازے کارخ کیا۔

    ایک بار پھر جمگھٹا سا لگ گیا اس کے گردا گرد۔

    ’’کہاں جا رہا تھا؟‘‘

    ’’جا نہیں رہا تھا، بلکہ لایا گیا ہے، اسی حالت میں‘‘۔

    ’’اسی حالت میں؟ یعنی مر چکا تھا اور یہاں اتار گئے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ سنا تو یہی ہے‘‘۔

    ’’کوئی پولیس کو اطلاع کرو بھائی‘‘۔

    ’’آئے تھے۔ پڑتال کر گئے ہیں۔ پھر پلٹ کر نہیں آئے‘‘۔

    ’’کوئی اور جاؤ، ان کے پیچھے۔۔۔ مٹی ٹھکانے لگ جائے‘‘۔

    ’’گئے تھے ایک صاحب۔ لوٹ کر نہیں آئے‘‘۔

    ’’دھر لیا ہوگا، بیچارے کو ناحق‘‘۔

    ’’جان چھڑانی مشکل ہو گئی ہوگی‘‘۔

    ’’ایسے میں کون دیتاہے گواہی‘‘۔

    اب گاڑی نے وسل دے دی تھی اور گارڈ انجن کے رخ پر سبز روشنی دکھاتا ہوا اپنے ڈبے کی طرف چل پڑا تھا۔

    ’’گواہی کی کیابات ہے صاحب۔ ہم دے دیتے۔ ایک انسان کا معاملہ ہے‘‘۔

    ’’لیکن ہم نے تو آگے جانا ہے۔ جا رہے ہیں بچوں کے ساتھ‘‘۔

    اب گاڑی نے رینگنا شروع کر دیا تھا۔

    ’’لو، اپنی گاڑی تو چل دی۔۔۔ کچھ کیجئےگا صاحب‘‘۔

    ’’ارے مل کر چلے جاؤ نا سب کے سب۔ ثواب کا کام ہے‘‘۔

    یہ سب آوازیں چلتی ہوئی گاڑی کی کھڑکیوں اور دروازوں میں سے آ رہی تھیں اور بچے کچھے لوگوں کا ہجوم، اس لوہے کی بھاری بینچ کے گرد خاموش کھڑا تھا۔

    گاڑی چلی گئی تو ایک کرنجی آنکھوں والے منحنی سے شخص نے بات چلائی۔

    ’’اس کا سامان بھی تو ہوگا ساتھ کچھ دیکھ داکھ کر معلوم کر لیتے کہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے‘‘۔

    ’’شاید کوئی لے اڑا سامان‘‘۔

    ’’ہے ہے، کیا زمانہ آ گیا صاحب۔ مردوں کو بھی نہیں بخشتے‘‘۔

    ’’جیب سے کچھ نکلا؟‘‘

    ’’آئے تھے دو وردی والے۔ پڑتال کر گئے۔ شاید کچھ پتا ٹھکانہ نکلا ہی ہو۔ لیکن وہ کہہ رہے تھے، یہ کیس ہماری حدود کا ہے نہیں‘‘۔

    ’’حدود کیسی؟‘‘

    ’’حد ہوتی ہے نا اپنے اپنے تھانے کی۔ پرائے لفڑے میں کون پڑتا ہے‘‘۔

    ’’پرایا لفڑا؟ وہ کیسے؟ کام ہے ان کا‘‘۔

    ’’ہوگا صاحب۔ مجھ پر کیوں خفا ہوتے ہیں آپ؟‘‘

    ’’عجیب بات کرتے ہیں آپ بھی۔ ہوگا کیا، کام ہے ان کا‘‘۔

    ’’مجھے معاف رکھیے صاحب۔ غلطی ہو گئی کہ آپ نے پوچھا اور میں نے جواب دے دیا‘‘۔

    ’’اجی چھوڑئیے۔ میں دیکھتا ہوں۔ لاتاہوں ابھی انہیں اپنے ساتھ‘‘۔

    کرنجی آنکھوں والا منحنی شخص چل دیا ایک طرف۔ تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے۔

    ’’جلد واپس آ جائیےگا‘‘۔ کسی نوجوان نے چوٹ کی۔

    ’’آ رہا ہوں اور دیکھ لیتا ہوں تمہیں بھی‘‘۔

    ’’ارے خاک آئیں گے آپ۔ بہت سے یہ کہہ کر اور بھاگ لیے‘‘۔ نوجوان آپ ہی آپ بڑبڑایا۔

    ہجوم، ایک بار پھر بکھرنے لگا تھا۔ مبادا وہ لوٹ آئے، اپنے ساتھ واچ اینڈ وارڈ والوں کو لیے ہوئے۔

    اب اکا دکا افراد دور سے کھڑے، چور نظروں سے دیکھ رہے تھے اسے اور وہ، لوہے کی خالی بینچ پر سر نیوڑھائے بڑے پرسکون انداز میں بیٹھا تھا جیسے زندہ ہو۔

    رات کا دوسرا پہر ہوگا، جب پہلے تو شنٹنگ کرتا ہوا ایک انجن گزرا اور اس کے بعد بیس ڈاؤن چناب ایکسپریس کی متوقع آمد سے متعلق گھنٹی ہوئی۔ چناب نے دوسری پلیٹ فارم پر رکنا تھا۔ اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے ادھر کی رونق برابر والے پلیٹ فارم پرمنتقل ہو گئی۔ دونوں پلیٹ فارموں کے درمیان گہرائی میں پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں اور لوہے کا اونچا جنگلہ سر اٹھائے کھڑا تھا۔

    پان، بیڑی، سگریٹ بیچنے والے چھوکرے، رابطہ پل پر سے ہوتے ہوئے، اب اپنی چھابڑیوں کے ساتھ ادھر چلے گئے تھے۔ چائے، نان پکوڑے اور ٹھنڈی بوتل کی آوازیں بھی ادھر ہی سے آ رہی تھیں۔ پھر درمیان کی پٹڑی پر چناب آ گئی اور اس طرف مکمل ویرانی چھا گئی۔

    سیمنٹ کے اونچے چھجوں سے جھانکتی ہوئی میلی زردروشنیوں میں بھاری بینچ پر وہ سرنیوڑھائے بیٹھا تھا کہ اچانک ڈاک گھر کے پچھواڑے سے نکل کر آتے ہوئے چندوردی والے اس کی طرف لپکے۔ ایک کے ہاتھ میں سندھی ٹوپی تھی، جو اس کے سر پررکھ دی گئی۔ پھر سب نے مل کر اسے اٹھایا جیسے کسی معذور کو اپنے ساتھ سہار ا دے کر لیے جاتے ہوں۔

    وہ سب بہت جلدی میں تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، رابطہ پل پر سے گزار کر وہ اسے دوسری طرف لے گئے اور کھڑی ہوئی ٹرین کے چلنے سے پہلے ایک پر سکون ڈبے میں سوار کروا دیا۔ اسے اٹھا کر لے جانے کا منظر شاید کسی نے دیکھاہو یا شاید سب کی نظر ہی چوک گئی۔

    اگلے روز رات کا پہلا پہر ہوگا۔ وہی پلیٹ فارم تھا اور وہی لوہے کا بھاری بینچ، جس پرپختونوں والی ٹوپی اوڑھے ایک مسافر، سرنیوڑھائے بڑے پرسکون انداز میں بیٹھا تھا جیسے زندہ ہو اور کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہو۔

    پان، بیڑی، سگریٹ کی چھابڑی اٹھائے ہوئے ایک لڑکے نے قریب سے گزرتے ہوئے اسے پہچان لیا۔

    ’’ارے، یہ تو وہی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے، لڑکے نے بساند سے بچنے کے لیے ناک پر ہاتھ رکھ لیا۔ پھر لدے پھندے ٹھیلوں کو دھکیلنے والے قلی، نان پکوڑہ بیچنے والے چھوکرے اور ٹی سٹال کے کارندے سب اکٹھے ہو گئے۔

    ’’یہ آیا کہاں سے؟‘‘ کسی نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔

    ’’خدا جانے صاحب‘‘۔

    ’’وضع قطع سے تو پختون دکھائی دیتا ہے‘‘۔

    ’’ہاں۔۔۔ شاید‘‘۔

    دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گرد اگرد، ستے ہوئے چہروں اور نیند سے بوجھل آنکھوں والے لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوتا چلا گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے