aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مہذب درندہ

عشرت ناہید

مہذب درندہ

عشرت ناہید

MORE BYعشرت ناہید

    ۱۸ جنوری کو کرئیر گائیڈنس کی بھوپال میں ٹریننگ تھی اور رینا کو اپنے کالج کی طرف سے اس میں شریک ہونا تھا پروگرام کا آغاز دس بجے تھا اور ٹرین سے اتر کر کولار پہنچنے میں بارہ بج چکے تھے رکشا سے اترکر تیز تیز قدموں سے وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی چاروں طرف سناٹا تھا باہر صرف دو لڑکے ایک ٹیبل کے سامنے بیٹھے دکھائی دئیے جس پر رجسٹریشن چسپاں تھا۔ وہ تیزی سے ان کی جانب بڑھی اور جلدی جلدی اپنا نام اور پتہ درج کرواکر تقریباً دوڑتے ہوئے اندر کی طرف بڑھی تب ہی ان میں سے ایک لڑکے نے زور سے کہا میڈم روم نمبر چار۔

    اس نے گردن موڑکر اس کی طرف دیکھا اور اچھا کے انداز میں سر ہلا دیا۔ برآمدے سے گزرتے ہوئے چند لوگ نظر آئے وہ شاید منتظمین میں سے ہی تھے۔ اپنے کاموں میں مصروف کسی موضوع پر آپس میں بات کر رہے تھے ان سے رینا نے روم نمبر چار پوچھا ایک نے اشارے سے دائیں جانب بتایا وہ تھینکس کہتی ہوئی تیزی سے بڑھ گئی۔ روم کے دو دروازے تھے وہ پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوئی تمام سیٹس تقریباً فل تھیں اور سب لیکچر کی طرف متوجہ تھے۔ رینا نے چاروں طرف نظر دوڑائی آخری دو تین کرسیاں خالی تھیں وہ انہی کی طرف بڑھ گئی ایک چئیر پر براؤن چمڑے کالیپ ٹاپ بیگ رکھا تھا اسے اٹھا کر پچھلی خالی سیٹ پر رکھ دیا اور کرسی پر بیٹھ گئی اور پورے انہماک سے خاتون ٹرینر کی بات سننے لگی جب کہ تیز تیز چلنے کی وجہ سے اس کی سانسیں بہت تیز چل رہی تھیں۔

    دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک شخص پاس والی کرسی پر آکر بیٹھا اور بیٹھتے ہی اس نے پوچھا:

    ‘میڈم یہ بیگ آپ نے ہٹایا تھا؟’

    ‘جی ہاں’

    ’یہ میرا تھا’

    ’اچھا’

    اس نے اس کی بات اور اپنے بیگ ہٹانے کے عمل پر کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ اس کے نزدیک کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر سوال کیا۔

    ‘میڈم آپ کہاں سے؟’

    وہ بےوجہ بات کرنے کی کو شش کر رہا تھا وہ چونکہ اجنبیوں سے ذیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتی اس لیے اس کے سوال ناگوار سے لگ رہے تھے ا ور ویسے بھی اس کی پوری توجہ بھی سامنے تھی جہاں میڈم کچھ اہم نکات پروجیکٹر پر بتا رہی تھیں سوال کرنے کے بعد جواب کا دو لمحہ انتظار کر خود ہی کہنے لگا:

    ‘میں سائنس اینڈ آرٹس کالج جبلپور شعبہ نفسیات ( سائیکلوجی ) سے’

    ’آپ؟’

    پھر سوال

    ’میں بھی وہیں سے ہی‘

    کس کالج سے؟

    ’گورنمنٹ گرلس ارٹس کالج‘

    ‘اوہ’

    ’نائس ٹو میٹ یو’

    اس نے ہلکا سا مسکرا کر سر ہلا دیا۔

    ’ویسے مجھے آپ انجانی نہیں لگیں کیونکہ آپ کی شکل میرے ایک دوست کی بیٹی سنجیدہ کی ہو بہو ہے (پرانہ گھسا پٹا حربہ) اور میں تو سنجیدہ سمجھ کر آپ سے ہاتھ ملانے ہی والا تھا۔

    ’’آپ ایسا کرکے دیکھتے تو آپ کو پتا چل جاتا کہ کتنی غیرسنجیدہ سے واسطہ پڑا۔

    اس نے غیرسنجیدہ پر زور دے کر کہا اور یہ کہتے ہوئے اس کا لہجہ سخت بھی ہو گیا تھا۔

    وہ بڑے عجیب سے انداز میں مسکرایا اور اپنا وزیٹنگ کارڈ اس کی طرف بڑھا دیا جسے اس نے لے کر رکھ لیا۔

    اس کے اس طرح مسکرانے پر کہیں پڑھی ہوئی بات اچانک یاد آئی کہ علم نفسیات کے ماہر آہستہ آہستہ خود بھی نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ایک لمحے کے لیے اس سے ہلکا سا خوف محسوس ہوا مگر اس نے اس خیال کو فوری طور پر جھٹک دیا کہ مجھے کیا۔

    یہ اس کی اور ریناکی پہلی ملاقات تھی۔

    چونکہ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کرئیر گائیڈنس پر ذیادہ توجہ د ے ر ہا تھا اس لیے ہر دو مہینے میں کہیں نہ کہیں اس کی ٹریننگ اور سیمینارس ہو رہے تھے اس سے بھی ملاقات ہوتی مگر رسمی علیک سلیک کی حد تک۔

    ایسے ہی ایک پروگرام میں رینا کو بھی لیکچر دینا تھا وہ بھی موجود تھا رینا نے جس انداز سے اپنی بات مدلل طریقے سے کہی کرئیر سے وابستہ حقائق سامنے رکھے اس سے کافی لوگ متاثر ہوئے خاص طور سے تعریف ہوئی بولنے کے انداز کی۔ اس کی بات کاکہنے کا لب و لہجہ بلا مبالغہ منفرد تھا۔ (اور اسے اپنی اس خوبی کا اندازہ بھی تھا)۔

    اسی شام پہلی مرتبہ اس کا فون آیا بڑے مہذب انداز میں بے حد و حساب تعریفیں کہ آپ کے انداز بیان سے میں تو مبہوت سا ہو کر رہ گیا، آپ بول رہی تھیں اور ایک ایک لفظ میرے دل پر نقش ہو رہا تھا، میں نے اتنے سیمینارز میں شرکت کی کئی خواتین کو سنا مگر آپ سا بولنے کا اعتماد اور انداز کسی میں نہیں دیکھا میں چونکہ اس با ت سے اچھی طرح سے واقف تھی کہ ایک عورت کو تعریف کے ذریعے باآسانی بےوقوف بنایا جا سکتا ہے اس کی باتوں پر ہنستی رہی کہتی رہی کہ اتنی مبالغہ آرائی درست نہیں مگر وہ اپنی صداقتوں کی قسمیں کھاتا رہا۔

    اس دن فون پر رینا نے اس سے کافی بے تکلفی سے بات کر لی تھی جس پر بعد میں اس نے سوچا بھی کہ مجھے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے تھی پھر سوچا کہ بات کر لی تو کیا ہو گیا۔

    اس کال کے بعد تو جیسے اسے حوصلہ مل گیا ایک سلسلہ سا شروع ہوا پہلے واٹس اپ مسیجیز کا اور پھر فون کالس کا۔ رینا کے شوہر چونکہ بزنس کے سلسلے میں دوسرے شہر میں ہوتے تھے اور وہ گھر میں اکیلی ہوتی تھی اس لیے اس سے بات کرنے میں کوئی پریشانی بھی نہیں تھی اکثر وہ شام میں ہی فون کرتا تھا اس لیے اس کا بھی بوقت کٹ جاتا تھا کیونکہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں ،کبھی عصری مسائل ڈسکس کرتا، کبھی ادبی گفتگو کرنے لگتا تو کبھی سیاسی باتیں۔ انداز ہمیشہ شائستگی لیے ہوتا کبھی کوئی بات ایسی نہیں کی جو اسے ناگوار گزرتی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے اس کی باتوں میں اس کے لہجے میں ایک الگ سی کیفیت نظر آنے لگی تھی عورت جو کہ اپنی طرف اٹھنے والی ہر نظر کو پہچان لیتی ہے اسی طرح لہجوں کی بھی شناس ہوتی ہے سمجھتے ہوئے بھی وہ اس سے انجان بن گئی تھی کیونکہ اسے اپنی مضبوطی پر یقین تھا۔

    ایک دن اس کا میسیج آیا وھاٹساپ پر

    تھکن سے دور رہینگی مسافتیں تیری

    قدم قدم تو جہان دگر میں رکھتا چل

    رینا نے جواب میں لکھا

    ’’جہان دگر صرف صحرا ہے اس سے گریز کرنا ہی بہتر ہے’‘ صاف ظاہر تھا کہ وہ کسی نئی راہ پر گامزن ہے۔

    مزید سمجھاتے ہوئے لکھا تھا:

    ’’یہ راہ سراب ہے محض تشنگی اور دشت نوردی کے سوا کچھ نہیں دیگی اور آبلہ پائی مقدر بن جائے گی تم جس راہ کے مسافر ہو میں اس راستے کی طرف دیکھنا بھی گناہ عظیم سمجھتی۔ ‘‘

    ’رک جاؤ’

    مگر اس کا ایک ہی جواب

    ’بہتر ہے دل پاس رہے پاسبان عقل

    اس نے کہا ’’مجھے معلوم ہے عقل کی اہمیت عشق کے سامنے کچھ نہیں لیکن میں عقل کے راستے کو ہی رہبر بناکر چلتی آئی ہوں۔‘‘

    اس نے خود کے گرد ایک مضبوط حصار باندھ رکھا تھا کبھی بھی کسی پر اپنے ذاتی حالات عیاں نہیں ہونے دئیے تھے مگر وہ تھا کہ اس حصار پر ضرب پر ضرب لگائے جا رہا تھا اس کی ہر سمجھائش اس پر بے اثر سی ثابت ہو رہی تھی بے نام منزلوں کا مسافر رینا سے ہمسفری کا متقاضی تھا۔

    اس کی ایک ہی ضد میری محبت کا اقرار کیجیے۔

    ’’ارے کوئی زبردستی ہے میرے دل میں تمہارے لیے ایسے کوئی جذبات نہیں‘‘

    کئی بار عقل نے سمجھایا کہ اسکے فون اٹھانا بند کردو کر بھی دیا کئی بار لیکن میسیجیز دل کو پھر نرم کر دیتے۔

    خود کو سمجھالیتی کہ اسے ایک دن میری بات ضرور سمجھ آجائیگی۔

    اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو

    سنگ مر مر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے

    ایک دن کہا تھا رینا نے مگر وہ لفظوں کا کھلاڑی، عورت کی نفسیات سے واقف، موم کر دینے میں ماہر نکلا اور وہ اس کے مقابل محض ایک عورت ہی ثابت ہوئی اور اس کا گمان مضبوط چٹان ہونے کا گمان کہ ٹکرانے والے کو پاش پاش کر دونگی سب بھرم نکلے کیونکہ ایک دن وہ اپنے حصار کے زعم میں جوہڑ کو گلے لگا بیٹھی۔

    خود چھلانگ لگائی تھی میں نے اس آگ کی جھیل میں۔ سمجھتی تھی جھلس نہیں سکتی۔

    وہ اس دن گھر آگیا تھا ملنے کے لیے پتہ بھی تو اسی نے بتا یا تھا اورخیر مقدم بھی تو کیا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ دو نفوس اگر تنہا ہوں تو شیطان درمیان میں جگہ بنا لیتا ہے۔ لیکن اسے خود پر بلا کا اعتماد تھا کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں چائے پینے کے بعد بجائے اٹھ کر جانے کے وہ مزید سکون سے بیٹھگیا تھا جبکہ مجھے اندر سے گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی، میں چاہ رہی تھی وہ چلا جائے لیکن اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا تب رینا نے کسی ضروری کام کا بہانہ بھی کیا تو وہ کہنے لگا کہ واقعی کام ہے یا مجھ سے فرار چاہتی ہو؟ جو کہ ممکن ہی نہیں ہے اور پھر ایسا لگا مانو اس مہذب انسان کے اندر شیطان سما گیا۔ رینا کی تمام مضبوطی تمام مزاحمتیں بے سود ثابت ہوئیں، ابلیس ابن آدم کا روپ دھار کر بنت حوا کی قبا چاک کرتا رہا اور صرف ایک جملہ میرے فولادی حصار میں سوراخ کرتا رہا کہ میں کسی معمولی عمل کو معمولی انداز سے نہیں دیکھتا میں بہت غیر سنجیدہ ہوں۔

    لیکن یکلخت جانے کیا ہوا گلی سے کتوں کی تیز تیز دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں اور لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی گئیں دھیرے دھیرے دروازے کے نزدیک ٹھہر سی گئیں اس نے خوف سے لرزتے کانپتے دروازہ کے باہر جھانکا ان کی زبانیں باہر لٹک رہی تھیں جن سے لار ٹپک رہا تھا آنکھوں میں خونخوار سی وحشت جو غلاظت سے بھری تھی اور ایک تلاش واضح نظر آ رہی تھی مانو وہ اپنے کسی ہم ذاد کی گمشدہ روح کو ڈھونڈ رہے تھے تب ہی وہ اٹھا اور تیز تیز قدموں سے اندھیارے سے اجیارے کی طرف بڑھنے لگا۔ باہر روشنی میں نہائی ہوئی سارک میں اس کا سایہ اس کے قد سے بڑا ہوتا جا رہا تھا اور محلے کے سارے کتے اپنی گمشدہ روح کی تلاش میں بھونکتے ہوئے اس سایہ کے پیچھے ہو لیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے