aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

معجزہ

MORE BYرضیہ سجاد ظہیر

    ڈھول زور زور سے بجنے لگا، ’’ڈر دگڑ دگڑ ڈردگڑ دگڑ۔۔۔‘‘

    دونوں کھمبوں کے بیچ میں ڈوری بندھ چکی تھی، ڈوری کے دنوں سروں پر کھمبوں کی نوکوں سے لپیٹ کر، پھولوں کے ہار بندھے ہوئے اور ان سے ذرا نیچے کالا دھاگا بھی ڈیڑھ گرہ دے کر بندھا تھا، داہنے ہاتھ والے کھمبے کے نیچے مجوشاہ آلتی پالتی مارے چٹائی پر بیٹھا تھا گلے میں پھولوں کا موٹا سا ہار، لا ل لنگوٹ، ننگا کرتی، دبلا پتلا، اکہرا جسم، سر کے بال تیل سے خوب چمکتے ہوئے اور ناک اور اوپر والے ہونٹ کے بیچوں بیچ ایک ننھا سا کالا مسہ جو گردن ہر بار گھمانے سے دکھائی دے جاتا تھا۔

    چاروں طرف لوگ جمع ہوتے جارہے تھے۔ آج مجوشاہ، پھر بہت دنوں کے بعد نٹ بازی کے کمالات دکھانے والا تھا۔۔۔ بھیڑ بڑھتی گئی اور ہجوم رسی بندھے کھمبوں کے چاروں طرف ایک دائرے کی شکل میں اکٹھا ہوتا گیا۔ ڈھول پھر بجنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ اعلان کرنے والے کی آواز ’’ڈردگڑ دگڑ ڈر دگڑ دگڑ۔۔۔ معجزہ پروردگار کا، شکر پالن ہار کا، رب ہی کو سب حمد واجب ہووے ہے، معجزہ پروردگار کا۔۔۔ انسان جو کچھ کر دکھاوے ہے، سو سب ویسی کریم کی کریمی ہووے ہے، شکر پالن ہار کا، ڈوبتے کو تیرادے، مرتے کو بچادے، شکر کھیون ہار کا، آج دیکھیو لوگوں مجوشاہ کا کمال۔۔۔ ایسا کمال شہر بھر، ملک بھر، دنیا بھر میں دیکھنے میں نہ آوے گا۔۔۔ دیکھیو لوگو، آئیو لوگو۔۔۔ پھر مت پچھتائیو لوگو۔۔۔ ڈر دگڑدگڑ ڈر دگڑ دگڑ۔‘‘

    ایک آدمی گلے میں انگوچھے کا جھولا بنائے، سب سے ایک ایک آنہ جمع کر رہا تھا!

    پھر مجوشاہ کھڑا ہوا۔ ایک مرتبہ اس نے نظر اٹھاکر ڈوری کو دیکھا، لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، مڑ کر اپنے ایک ساتھی سے کچھ پوچھا، اس نے سرہلاکر ہامی بھری۔ مجوشاہ نے ایک ہاتھ بڑھایا، کلائی میں پھول او رکچا ناڑہ بندھا تھا۔۔۔ ہاتھ سے کھمبے کو ہلایا، پھر ڈوری پر ایک نگاہ ڈالی، پھر دوسرے ہاتھ کو کھمبے پر اونچا رکھ کر ایک پاؤں کھمبے پر جمایا اور دوسرا اٹھایا۔

    اتنے میں پیچھے بھیڑ سے ایک لڑکا ایک بڑی سی ٹوکری اٹھائے نکلا۔ اس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے گھڑے بھرے تھے، سرخ مٹی کے گھڑے جن پر سفید کھریا مٹی سے پھول بوٹے اور بیلیں بنی ہوئی تھیں، مجوشاہ کھمبے سے اترآیا، گھڑوں کو پاس لانے کا اشارہ کرکے، ان میں سے ایک کو اٹھاکر سرسے اونچا کرکے گھمایا۔ مجمع میں اشتیاق کی ایک لہر دوڑ گئی۔

    ’’اب گھڑے آگئے۔۔۔ اب دیکھیو کتے کتے گھڑے سر پر رکھ کر چلے ہے۔‘‘ فخرو بولا، ’’کیا بات ہے میرے شیر کی۔۔۔ کمالات کا بنا ہوا ہے۔‘‘ اشرف نے جوش میں آکے ہاں میں ہاں ملائی۔ کھنڈساری والے لالہ جی بولے، ’’اجی وہ پچھلے سال جو سرکل آیا تھا ولائت سے، اس میں جو میم تھی نا۔۔۔ وہ اس کے کمالات دیکھ کے اس پہ عاشق ہوگئی تھی۔‘‘

    ’’اور کیا۔۔۔‘‘ اللہ دیا بولا، ’’ون نے کتا کتا کیا کہ میرے ساتھ چلا چل، پر گے پٹھاگے کیے گیا کہ میں چلا جاؤں گا تو میرا علم کون اٹھاوے گا، میرے امام باڑے کی بتی گل ہوجاوے گی۔‘‘

    ’’جو چلا جاتا تو پوبارے ہوتے، وہ تو ہزار روپے پیدا کرے تھی۔۔۔‘‘ ایک بڑے میاں بولے جو بستی میں اپنی کنجوسی کے لیے مشہور تھے۔

    ’’اجی ہاں، کاہے کو چلا جاتا وس کے ساتھ، روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہووے ہے۔ بڑے میاں، ادھر آیا ودھر گیا۔ چاردن کی چاندنی۔‘‘

    ’’تو یہاں بھی اس کے کون تھا۔۔۔ نہ جو رو نہ جاتہ اللہ میاں سے ناتہ۔۔۔ جیسے یہاں ویسے ہی کہیں اور۔۔۔‘‘ بڑے میاں نے اپنی بات ثابت کرنے کو دلیل پیش کی۔

    ’’تو جورو ہی بچے سے سب کچھ نہ ہووے ہے، اپنے باپ دادوں کا گھر چھوڑدیتا؟ زمین چھوڑ دیتا؟ آدمی وہ قسمت والا جو جس زمین سے پیدا ہووے، وسی میں پیوند ہووے۔‘‘

    منوہر ہنس کے بولا، ’’تم تو بڑے میاں بس ہر گھڑی روپے کی ہی سوچوں ہو، کل کوٹیں ہوجاؤگے تو سب یہاں ہی رکھا رہ جاوے گا، ٹینٹ میں باندھ کر نہ لے جانے کے ہو، ایرے غیرے نتھو خیرے مزے اڑاویں گے۔‘‘

    اتنے میں ڈھول پھر بجنے لگا، ڈر، دگڑ، دگڑ دگڑ ڈر دگڑ دگڑ، معجزہ پروردگار کا، شکر پالنہار کا۔۔۔ مجوشاہ نے کھمبے پر چڑھنا شروع کیا۔۔۔ دھیرے دھیرے وہ کھمبے کے سرے پر پہنچ گیا اور پھر ایک دم اسی پر کھڑا نظر آنے لگا۔۔۔ کھڑے ہوکر اس نے اپنے جسم کو ایک بار تولا اور پھر تن کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ رسی ایک بار لچکی، اس کا جسم بھی لچک گیا، پھر اس نے دونوں ہاتھ پھیلاکر اپنے توازن کو برقرار کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھایا۔۔۔

    ڈھول زور زور سے بجنے لگا۔

    مجوشاہ ذرا سا آگے کوجھکا، ایک لمبے بانس پر ایک گھڑا اوندھا کرکے اونچا کیا گیا، چشم زدن میں وہ گھڑا مجوشاہ کے سر پر پہنچ گیا۔۔۔ پھر ایک ایک کرکے سات گھڑے اونچے کیے گئے۔۔۔ اور ایک کے بعد ایک، یہاں تک کہ ساتواں گھڑا بھی مجوشاہ کے سر پر پہنچ گیا۔ مجمع کا اشتیاق اور بڑھ گیا۔ ’’اللہ عمر بڑھاوے۔۔۔ پیسے وصول کردیے۔‘‘

    ’’اجی اس کے جیسا تو کوئی ہے ہی نہ پوری بستی میں۔‘‘

    ’’اتنا دم رکھے ہے جب ہی تو گزوں لمبا علم لے کے چلے ہے اس شان سے کہ دیکھوں تو بس اخّے، اے کہ جیسے کوئی چیتا جارہا ہے۔‘‘

    ’’اور کمال گے ہے کہ ایک ہاتھ سے ماتم بھی کرتا جاوے ہے۔‘‘

    ’’اجی ابھی کیا ہے، جب قلا کھاوے گا، تب دیکھیو لگے ہے جیسے سارے بدن میں ہڈی ہی نہ ہے۔‘‘

    رسی پر دھیرے دھیرے چلتا ہوا مجوشاہ اب دوسرے کھمبے تک پہنچ گیا تھا، یکایک وہ ایک دفعہ ذرا سا اچھلا اور پلک جھپکتے میں مڑگیا، مجمع نے سانس روک لی، پھر بانسوں پر گھڑے چڑھائے گئے، ایک دو تین۔۔۔ پورے چودہ۔۔۔ اب اس کے سر پر اکیس گھڑے تھے۔ سب سے اوپر والا چھوٹا سا لگتا تھا، حالانکہ سب کے سب برابر تھے۔۔۔ ڈھول زور زور سے بجنے لگا، ’’معجزہ پروردگار کا، شکر پالن ہار کا۔۔۔ سہارا کھیون ہار کا۔۔۔‘‘

    مجو شاہ نے ایک قدم اٹھایا، رسی لچکی دوسرا قدم اٹھایا، گھڑے ذرا سا ہلے، پھر اس نے دونوں ہاتھ پھیلا دیے، تیسرا قدم اٹھایا، رسی لچکی اور زور سے تھرتھرانے لگی، اس نے دوسرا پاؤں بڑھانے کی کوشش کی مگر رسی کے ساتھ پاؤں بھی تھرتھرانے لگے۔۔۔ پھر ایک دم سے ہوا میں اکیس گھڑے بکھرتے ہوئے اور دو پھیلتے ہوئے، کپکپاتے ہوئے ہاتھ دکھائی دیے۔۔۔ مجمع سے چیخ کی ایک گونج اٹھی۔۔۔

    ’’مرگیا۔‘‘

    ’’پانی لاؤ پانی۔‘‘

    ’’چکر آگیا۔‘‘

    ’’ایسا تو برسوں میں کبھی نہ ہوا اجی، یہ آج ہوا کیا؟‘‘

    ’’اجی بندے کا ہی تو پاؤں ہے، نہ سنبھل سکا۔‘‘

    ’’گے نٹ بازی کمبخت ہے ہی بری بلا۔۔۔ بیڑا غرق ہو اس کا۔‘‘

    ’’جان جوکھم کا کام ہے جی۔‘‘

    ’’ارے تو ذرا ہوا تو چھوڑو۔۔۔ اوپر ہی چڑھے چلے آؤہو۔‘‘

    ’’ہٹو جی ہٹو، یہاں کیا تھیٹر ہو رہا ہے، اس کی جان جاری ہے، تم لوگ تماشہ بنائے لو ہو۔‘‘

    مجوشاہ کے ساتھیوں نے جلدی جلدی سب کو ہٹایا، کوئی دوڑ کر چٹائی پر بچھانے کو دری لے آیا، وہیں ٹوٹے گھڑوں کے پاس اس کو لٹاکر پانی کے چھینٹے دیے گئے، پنکھا جھلا جانے لگا، مجمع میں سے کسی نے اپنے کان میں سے عطر کا پھایا نکال کر سنگھانا شروع کیا، تھوڑی دیر میں اسے ہوش آگیا۔۔۔ ہوش آتے ہی اس نے اشارے سے ایک گھڑا پاس کھسکوایا اور لیٹے ہی لیٹے اس پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

    ’’کیسے ہو بادشاہ؟‘‘ اس کے ایک ساتھی نے پوچھا۔

    ’’اچھا ہوں۔۔۔‘‘ وہ دھیمے سے بولا، ’’مرنے کا تو نہ ہوں، پر رسی پر اب شاید کبھی نہ چڑھا جاوے گا۔۔۔‘‘ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر وہ پھر گھڑے پر ہاتھ پھیرنے لگا اور آنکھیں بند کرلیں۔

    ’’اجی، تم اپنا دل کا ہے کو چھوٹا کرو ہو۔۔۔ ہم لوگ بھی تو ہیں، تم بس زندہ رہو، ہمارے سر پر ہاتھ رکھو۔۔۔‘‘ اس کے ایک شاگرد نے اس کے پاؤں دباتے ہوئے کہا۔ مجوشاہ نے ایک پل کے لیے آنکھیں کھولیں، محبت سے اپنے شاگرد کو دیکھا، دونوں آنکھوں سے ایک ایک بوند ٹپک کر کنپٹی پر سے ہوتی ہوئی بالوں میں چلی گئی۔۔۔ سینہ سے ایک گہری آہ نکلی۔

    ٭

    علاج معالجہ سے جان تو بچ گئی لیکن جس بل گرا تھا، ادھر کا پاؤں بالکل بے کار ہوگیا، پھر بھی اس نے ایک طر ف سے گھسٹ کر چلنے کو بیساکھی لگانے پر ترجیح دی۔ وہ نٹ بازی کے ہر میدان میں آتا، کھمبے کے نیچے چٹائی پر بیٹھا رہتا۔۔۔ جو نٹ رسی پر چڑھنے جاتا، وہ اس کے سر چھوتا، اور وہ پاس رکھے گھڑے پر پیار سے ہاتھ پھیرتا، بے خیالی کے عالم میں، کھمبے پر چڑھتے ہوئے نٹ کے پیروں کو تکتا رہتا۔۔۔ پھر نظر پھسل کر گھڑے پر آجاتی او ر ٹھنڈی سانس کے ساتھ آہستہ سے منہ سے نکل جاتا، ’’معجزہ پروردگار کا۔۔۔ شکر پالن ہار کا۔۔۔‘‘

    علم اٹھانا اس نے البتہ اسی طرح اب تک جاری رکھا تھا۔ ایک ہاتھ اور ایک پاؤں تو اس کا مضبوط تھا، پھر وہ کیوں علم اٹھانا چھوڑتا، ہاں اتنا ضرور کیا گیا تھا کہ علم کے بیچ میں دو ڈوریاں باندھ دی جاتی تھیں، جن کو دو آدمی سہارا دینے کے لیے پکڑے رہتے تھے۔ نیچے سے مجوشاہ بغل میں علم دبائے، اس کے ڈولتے بانس کو اپنی ٹھڈی سے بھینچے، اپنے سینہ میں جکڑے، تعزیہ کے آگے آگے رینگتا ہوا لکیر سی بناتا ہوا چلتا اور علم کا پھریرہ دھیرے دھیرے لہراتا جاتا۔

    محرم آتے ہی مجوشاہ کے مفلوج جسم میں ایک نئی جان سی پڑجایا کرتی تھی۔ گھسٹتا گھسٹتا وہ ہر اس جگہ جاپہنچتا جہاں محرم کی تیاریاں ہوتی رہتیں اور اپنی رائیں اور خدمات پیش کرتا۔۔۔

    ’’اجی فاخری بوبو، کیا علم کے پنجے مانج رئی ہوگی۔۔۔؟ لاؤ میں مانج دوں۔‘‘

    ’’ابے اللہ دیے تو لایا ہوگا گے قاغذ؟ جیسے پوربیوں کا بھات، ارے مجھ سے کائے کو نہیں کہا۔۔۔ اچھے سے اچھا منگوادیتا مردہ باد نے۔‘‘

    ’’لا مجھے چھری دے شبراتی، دیکھ کیسی اچھی کھپچیاں نکال لوں ہوں کہ طبیعت خوش ہوجاوے گی۔‘‘

    ’’اس نوری سے لئی پکواؤگے تو بگڑے گی نہ تو کیا سدھرے گی، پھوہڑ جنم جنم کی۔۔۔ لاؤ مجھے دو، میں ابھی فروٹ پکاکے لاؤں ہوں۔‘‘

    کام کرتے کرتے وہ باتیں بھی کرتا جاتا، ’’اجی کیا بات تھی بڑے میر صاحب کی، اب ویسا مرثیہ کوئی نہ پڑھ سکتا، اجی وہ زبان سے تھوڑا ہی، وہ تو دل سے پڑھیں تھے، دل سے۔۔۔ ان کی بات ان کے ساتھ گئی۔۔۔ وہ کیا پہلی کو پڑھیں تھے؟ وہ۔۔۔ جاویں آپ خلق کی مشکل کشائی کو آوئے ہے کربلا سے اجل پیشوائی کو۔۔۔ کیا پڑھیں تھے کہ کلیجہ پانی ہوجاوے تھا۔۔۔ کیا کیا لوگ اٹھ گئے۔۔۔‘‘ پھر وہ ایک ٹھنڈی سانس کھینچتا، ’’معجزہ پروردگار کا۔۔۔ شکر پالن ہار کا۔‘‘

    اس سال محرم کی چاند رات کو جب تمام تعزیے بن گئے، علم جھل جھل کرنے لگے، امام باڑہ رنگ، روشنی، پھول اور خوشبو سے بھر گیا تو مجوشاہ اپنے علم کے آگے پانچویں شمع روشن کر رہا تھا، جو اسے یکایک احسا س ہوا کہ لوگوں میں کچھ گھسر پھسر ہو رہی ہے۔

    ’’ابے کیا ہے کیا؟ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے ماچس کی تیلی بجھاتے ہوئے کہا۔

    ’’اجی کچھ نہیں، وہ تار کا قصہ ہے۔‘‘ اللہ دیے نے جواب دیا۔

    ’’تار؟ کیسا تار؟‘‘

    ’’اجی وہ تار جو لوہے کے کھمبوں میں لگارہے ہے نہ۔۔۔ اجی وہ تار دینے کا تار ہو وے ہے نا۔۔۔ وس کے کھمبوں میں کان لگا کے سنو تو سنن سنن سنائی دیوے ہے۔‘‘

    کھمبے اور تار کا نام سن مجوشاہ یکایک چونک پڑا، ہاتھ کی جلتی ہوئی شمع سے گرم گرم آنسو اس کے ہاتھوں پر ٹپک رہے تھے مگر اس کی آنکھیں جیسے دور کہیں دیکھ رہی تھیں۔۔۔ دو کھمبے، ان کے بیچ میں تنی ہوئی ڈوری، اس پر چلتے ہوئے نپے تلے قدم، جسم کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے ہوا میں پھیلے، لہراتے ہوئے دو ہاتھ۔۔۔ پھر اس کے کان میں اللہ دیے کی آواز آئی، ’’تو گے سننے میں آیا ہے کہ نئے جنٹ صاب تار نہ کاٹنے دیویں گے۔‘‘

    مجوشاہ ایک دم چونک پڑا اور شمع کو اس کی جگہ پر جماکے، ہاتھ پر گرا ہوا موم چھڑاتے ہوئے بولا، ’’توتار نہ کاٹا جاوے گا تو علم کیسے جاوے گا؟‘‘

    ’’گے ہی تو بات ہے۔۔۔‘‘ نورے نے کہا، ’’وہ کیں ہیں کہ علم کو جھکا کے لے جاؤ، ہر سال اتنا خرچ نہ برداشت کرنے کی ہے گورنمنٹ۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ تو اب یہ کوئی نئے آئے ہیں گورنمٹ کے بڑے سگے جو مولا سے بھی بڑھ گئے؟‘‘

    ’’اجی وہ کیں ہیں کہ۔۔۔‘‘ شبراتی نے کچھ کہنا چاہا۔

    مجو شاہ بولا، ’’ہاں ہاں۔۔۔ تو وہ کچھ کہیں ہیں تو ہم بھی کچھ کے سکیں ہیں۔۔۔ تارکی کٹوائی اور پھر سے جڑوائی میں جو کچھ لگے گا وہ لے لیں، پر علم تو کبھی نہ جھکنے کا ہے۔ آخر گئی برسات آندھی سے نہ اڑگیا تھا تار، پھر بنوایا تھا کہ نئیں؟‘‘

    اس نے چاروں طرف دیکھا، سب چپ تھے، ’’تم لوگوں نے کہا تھا کہ ہر سال تار کاٹا جاوے ہے؟‘‘

    ’’اجی، ہم سے بات کاں ہوئی۔۔۔ بات تو منجھلے میر صاحب سے ہوئی تھی۔‘‘

    ’’چلو میر صاحب کے واں۔‘‘

    سب ا مام باڑے سے نکلے، مجوشاہ سب کے بعد نکلا، اس نے امام باڑے کا دروازہ بھیڑا، دروازے کو دونوں ہاتھ لگاکر اپنی انگلیاں چو میں اور سب کے پیچھے ہولیا۔ رستے سے اور بھی کچھ لوگ ساتھ ہولیے اور دھیرے دھیرے گاؤں کی پتلی، پرپیچ گلیوں، کچے پکے گھروں اور کیچڑ مٹی کے کوچوں سے گزرتا ہوا یہ قافلہ منجھلے میر صاحب کی پکی شاندار حویلی کے سامنے جاکے رکا۔ میر صاحب باہر کے ہی کمرے میں تخت پر بیٹھے کچھ حساب کتاب کر رہے تھے، ان لوگوں کو آتے دیکھ کر پہلے تو کچھ حیران ہوئے، پھر شاید سمجھ گئے، آواز دی، ’’ترابن۔۔۔ بڑی دری دے جائیو۔۔۔‘‘

    دو تین منٹ بعد ترابن دری لیے اندر سے نکلی، سب نے مل کر دری بچھوائی، بیٹھے۔۔۔ مجو شاہ دروازہ کے پاس جوتیوں کے نزدیک، دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا، منجھلے میر صاحب نے اپنے کاغذات کیش بکس میں رکھے اور اس کو تالا لگاتے ہوئے ان لوگوں کی طرف منہ کیے بغیر بولے، ’’کیا بات ہے؟ تم لوگوں کی مجلس کب ہو رہی ہے؟‘‘

    اللہ دیے نے سب کی طرف دیکھا اور ذراہمت کرکے جواب دیا، ’’مجلس تو وہی ہوگی اپنے وخت پر میر صاحب پانچویں کو۔۔۔‘‘ پھر ذرا رک رک کر کہنے لگا، ’’ہم لوگ گے پوچھنے آئے ہیں اے کہ وہ عَلم کے و اسطے جنٹ صاحب سے پھر بات چیت ہوئی تھی میر صاحب؟‘‘ میر صاحب ذرا لاپروائی سے بولے، ’’اب پھر سے اس میں کیا بات چیت ہووے گی؟‘‘

    ’’پھر بھی۔۔۔‘‘ نورا بیچ میں بولا، ’’ہم لوگ ذرا سننا چاہیں کہ وہ کیا کیں ہیں۔‘‘

    ’’وہ تو میں اللہ دیے کو بتاچکا ہوں۔۔۔ وہ اب کے تار نہ کاٹنے دیویں گے۔‘‘

    ’’آپ سے وِنوں نے خود کہا۔۔۔؟‘‘ کھنڈساری والے لالہ جی نے پوچھا۔

    ’’ہاں۔۔۔ خد کہا۔۔۔ کہ ہر سال گورنمنٹ اتنا خرچہ برداشت کرنے کو تیار نہ ہے، یا تو علم چھوٹا بنایا جاوے یا جھکاکے لے جایا جاوے۔‘‘

    ’’پھر آپ نے بھی تو کچھ کہا ہوگا؟‘‘ محمدو نے سوال کیا۔

    میر صاحب چڑھ گئے، ’’ابے انہوں نے کیا میری رائے پوچھی تھی جو میں کچھ کہتا۔ یا خوامخئی کو اپنی ٹانگ اڑانے لگتا۔ وہ حاکم ٹھہرے، ان کا کام حکم دینا ہے کہ خدائی بھر سے پوچھتے پھرنا ہے۔‘‘

    ’’پر ان کو گے معلوم ہے اے کہ ہر سال امام حسین کے علم کے لیے تار کاٹا جاوے ہے؟‘‘ لالہ جی نے کہا۔

    ’’ارے، تم لوگوں کی کھوپڑی الٹی ہے کیا؟ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہر سال کی طرح تار نہ کاٹا جاوے گا اس سال تو معلوم ہوگا جب ہی تو کہہ رہے ہیں۔‘‘

    ’’مگر میر صاحب، ایسا تو ہماری سات پشتوں میں کبھی نہ ہوا۔‘‘ اشرف بولا۔

    ’’ابے تیری سات پشتیں ریل گاڑی میں نہ چڑھیں تو تو بھی مت چڑھیو، بیل گاڑی اور ٹہرو میں ہی چلا کر سدا۔۔۔ انہہ۔۔۔ کیاعقل ہے۔‘‘

    لالہ جی بولے، ’’تو میر صاحب، اگر خرچے کی ہی بات ہے تو ہم لوگ تار کی کٹوائی اور بنوائی کا پورا خرچا دینے کو تیار ہیں۔ آپ جنٹ صاحب سے کہہ دیویں۔‘‘

    ’’کیوں بے نور، چندہ کرلیویں گے؟‘‘

    نور جو ہر موقعہ کے لیے بستی سے چندہ اکٹھا کرنے کا کام ہمیشہ کیا کرتا تھا، سینے پر ہاتھ مارکر بولا، ’’ضرور، اے کہ منٹوں میں جمع ہوجاوے گا چندہ۔‘‘

    ’’بس ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ اشرف بولا، ’’آپ معلوم کرلیویں کتنا خرچا ہوگا، ہم پہلے سے پہلے اکٹھا کرلیویں گے۔‘‘

    ’’میں کیوں معلوم کروں۔۔۔ تم لوگ اپنے آپ کیو ں نہ معلوم کرتے۔ میں ان سب چکروں میں نہ پڑنے کا ہوں۔۔۔‘‘ میر صاحب نے کیش بکس دوسری طرف کو سرکاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ اس جواب پر سناٹا چھاگیا اور میر صاحب نے سناٹے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آہستہ سے سمجھانے کے انداز میں کہا، ’’کل رات سے گڑھیا کے پاس پولیس کا پہرہ لگ جاوے گا، میری صلاح مانو تو علم چھوٹا ہی بنالو اس سال، چھٹی ہوئی، جھکانے وکانے کا چکر ہی ختم۔۔۔ کیوں ناحق کو حاکموں سے اڑوہو۔‘‘

    مجمع میں کھسر پھسر شروع ہی ہوئی تھی کہ جوتوں کے پاس بیٹھے ہوئے مجوشاہ نے پہلو بدلا۔ اپنی سوکھی، بے جان ٹانگ کو داہنے ہاتھ سے سمیٹا، ذرا سا مسکرایا، پھر ہونٹ سکیڑے اور پھر میر صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا، ’’میر صاحب!‘‘

    ساری نگاہیں مجوشاہ کی طرف مڑگئیں، صرف میر صاحب تیوری پر بل ڈال کر اپنے کیش بکس کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔ مجوشاہ ایک پل چپ رہا، پھر اس نے تھوک گھونٹا اور اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیر کر بولا، ’’میر صاحب، مولا نے تو گے نہ سوچا تھا کہ یزید حاکم ہے۔۔۔‘‘ پھر وہ دروازہ کے ٹیک کا سہارا لے کر ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی جوتیاں پہننے لگا اور پہنتے پہنتے بولا، ’’اوروں کی تو میں نہ کہہ سکتا پر جب تک میری جان میں جان ہے، نہ تو علم ایک سوت چھوٹا ہوگا اور نہ ایک سوت جھکے گا۔۔۔ وہ ہم سے خرچا چاہے جتا لے لیویں، پر ہم ایمان کا سودا کبھی نہ کرنے کے ہیں۔‘‘

    سب چپ تھے، ڈیوڑھی کا پردہ ہلکے سے ہلا جیسے کوئی اس کے پیچھے کھڑا یہ سب کچھ سن رہا ہو۔۔۔ پھر پردہ برابر ہوگیا۔

    سب لوگ اٹھے اور میر صاحب کو سلام کرکرکے چپ چاپ باہر نکل آئے اور خاموشی سے امام باڑے کی طرف چلنے لگے۔ مجوشاہ نے اللہ دیے کو اشارے سے اپنے قریب بلایا اور گھسٹ گھسٹ کر چلتے ہوئے اس سے سرگوشی کی، ’’گے میر صاحب کب گئے تھے جنٹ صاحب سے ملنے؟‘‘

    ’’شاید۔۔۔ چار۔۔۔ چھ۔۔۔ دن ہوئے ہوں گے۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ وہ ان کے اٹاری والے مقدمے کا کیا ہوا؟‘‘

    ’’ابھی تو چل ریا ہے۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ تو یہ اصل میں کس کام سے گئے تھے صاحب کے پاس؟‘‘

    ’’گے تو خبر نہ ہے۔‘‘

    ’’تو ذرا پتہ لگا۔۔۔ پر دیکھ ذرا ہوشیاری سے کام کیجیو۔‘‘

    ’’اجی نشاخاطر رہو۔۔۔‘‘ اللہ دیا بھیڑ میں سے نکل کر بائیں طرف کو مڑگیا۔۔۔ بھیڑ امام باڑے کی طرف بڑھتی گئی۔

    منجھلے میر صاحب باہر سے آکر، ہاتھ منھ دھوکر، تخت پر کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ نیم تلے والی ممانی کوٹھری سے نکل کر آئیں، میر صاحب نے انہیں سلام کیا، انہوں نے دعا دی اور تخت کے ایک کونے پر بیٹھتی ہوئی بولیں، ’’گے سب لوگ کائے کو آئے تھے بھیے؟ خیر تو ہے؟‘‘

    میر صاحب کی تیوری پر بل پڑگئے، کسمساکے بولے، ’’اجی وہی علم کی بات تھی۔‘‘

    ممانی چپ رہیں۔۔۔

    میر صاحب کو مجبوراً آگے کہنا پڑا، ’’اب یہ لوگ تو عقل کے پیچھے ڈنڈا لے کے پھریں ہیں ممانی۔۔۔ پوچھو کہاں حاکم ضلع، کہاں تم دھنیوں، جلاہوں، نٹوں کی اوقات، گورمنٹ کی حکومت ہے، کوئی مذاق تو ہے نہ۔‘‘

    ممانی چپ رہیں۔ میر صاحب کچھ کھسیاکے بولے، ’’آخر گے کہاں کی جہالت ہے کہ باپ دادوں کے وخت سے جتنا بڑا علم نکلتا آیا ہے، وتّا ہی بڑا نکلے گا، چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہوجاوے۔‘‘

    اتنے میں گھر کی اور بیویاں بھی اکٹھی ہوگئیں۔ فاخری بوبو بولیں، ’’مگر بھئیے تار تو ہمیشہ ہی سے کاٹا جاوے ہے، گے لوگ کوئی نئی بات کرنے کو تو نہ کئے رئے۔‘‘

    ’’ان اللہ مارے انگریزوں کابیڑا غرق ہو، گے تو کسی کا دین ایمان سلامت نہ چھوڑنے کے ہیں۔‘‘ مرشدہ آپا نے عاجز ہوکے کہا۔

    ’’پولس والوں کو کچھ دے دلاکے روکا نہ جاسکتا؟‘‘ زینت خالہ نے رائے دی۔ میر صاحب بولے، ’’اجی تم لوگوں کی بھی باتیں۔ جس معاملہ کو سمجھو نہ ہو، اس میں کائے کو بولو ہو، پولس کیا اپنی مرضی سے ہواں گئی ہے۔‘‘

    ’’کیاپولس لگ گئی؟‘‘ ممانی نے پہلی بار آہستہ سے پوچھا۔

    ’’ابھی تو خفیہ لگی ہے۔۔۔ باقاعدہ بھی لگ جاوے گی، امام کے سوئم تک پہرہ رہے گا۔‘‘

    ’’ہے ہے، بھلا کتے سپاہی ہوں گے؟‘‘ فاخری بوبو نے گھبراکر پوچھا۔

    ’’اب ہوں گے جتے ہوں گے۔ میں تو کوئی گنتی کرنے گیا نہ۔۔۔ سو دو سو تو ہوویں گے ہی۔‘‘

    ’’ہے ہے۔۔۔ اب دیکھو کیا قیامت اٹھے ہے۔‘‘

    ’’ہاں بیوی، قیامت تو اٹھے ہی گی۔‘‘ شفو خالہ بولیں۔ شفو خالہ کسی بھی بحث میں ہر شخص کی بات سے اتفاق کرتی تھیں۔

    ’’اب مولا ہی کوئی معجزہ دکھاویں گے۔ لوگ تو ہرگز علم نہ جھکانے کے ہیں، چاہے جان چلی جاوے۔‘‘

    ’’لو بیوی، بات ہی ایسی ہے، علم کیسے جھکے گا، کوئی ہنسی ٹھٹھا ہے۔‘‘ عیدن نانی نے کہا۔

    ’’ہاں ہاں۔۔۔ بھلا علم کیسے جھک سکے ہے۔‘‘ شفو خالہ نے اتفاق کیا۔ ممانی دھیرے سے بولیں، ’’پر گے لوگ تو کیں ہیں نہ کہ پورا خرچہ دیویں گے۔‘‘

    ’’ایسا ہوجاوے تو سب ہی سے ٹھیک ہے۔‘‘ شفوخالہ نے ہاں میں ہاں ملائی۔ میر صاحب پھر کھسیا گئے، ’’اب تم عورتوں کو کیا سمجھا جاوے، حاکموں کی بات تم لوگ کیا جانو۔‘‘ شفوخالہ نے پھر اتفاق کیا، ’’ہاں ہاں، بھئے، بھلا ہم لوگ کیا سمجھ سکیں ہیں حاکموں کی بات۔‘‘

    ’’پرگے تو ہے بڑا اندھیرا۔۔۔‘‘ ممانی مختصر سا جملہ کہہ کر کوٹھری میں چلی گئیں۔ جب میر صاحب پان کھاکر باہر نکلنے لگے تو انہوں نے ڈیوڑھی میں ایک ڈولی رکھی دیکھی، جس پر پردہ باندھا جارہا تھا، وہ الٹے پاؤں اندر گئے، ’’گے کون جارہا ہے اس وخت؟‘‘

    ’’میں جارئی ہوں بھئیے۔۔۔‘‘ ممانی نے کوٹھری سے اپنی گٹھری سمیت نکلتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’کیوں۔ عشرہ ہیاں نہ کرنے کی ہو؟‘‘

    ’’نہ بھئیے ہواں میری مرغیوں کو کون دیکھے گا۔ میں آئی تھی جب ہی ایک اونگھ رئی تھی۔ دیکھیوں موقعہ ہووے گا تو ایک پھیرا اور کروں گی۔۔۔ اتوریہ اللہ ماری کی الگ فکر ہے، جنے کسی نے انے بھوسہ پانی دیا ہوگا کہ نہ۔۔۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ ڈولی میں سوار ہوگئیں۔

    میر صاحب نے ایک بار ان کو غور سے دیکھا۔۔۔ باہر کھسک لیے!

    ٭

    آٹھویں محرم کو بڑے امام باڑے کے صحن میں حاضری کا انتظام کیا جارہا تھا، کچھ لوگ بیٹھے تھے، کچھ کھڑے تھے، کچھ کمر میں رومال باندھے، حصے بنا رہے تھے۔ پکے صحن کے چاروں طرف کچھ حصہ چھوٹا ہوا تھا، اس میں کئی بڑے بڑے درخت تھے، جن کی ڈالیوں میں گیس کی لالٹین ٹنگی ہوئی تھیں، جو بار بار ہوا کے جھونکوں سے ڈولتی تھیں اور شکستہ دیواروں پر دوڑتے بھاگتے کام کرنے والوں کی پرچھائیوں کو ہلا ہلا دیتی تھیں۔ دو طرف بنے ہوئے دالانوں میں پردے پڑے تھے، جن کے پیچھے عورتیں تھیں، کچھ باتیں کر رہی تھیں، کچھ اپنا کھانا کھول کھول کے کھا رہی تھیں، کچھ بچوں کو سلا رہی تھیں اور ایک ٹولی، بیچ میں لالٹین رکھے، نوحے کی بیاض کھولے کچھ نوحے پڑھ پڑھ کر اس کا سوز ملا رہی تھیں۔ بچوں کا کوئی حساب نہ تھا، ہر طرف ہی دس پانچ اونگھتے، سوتے، لڑتے، بھاگتے، کھیلتے پھر رہے تھے اور بار بار کام کرنے والوں سے ٹکراٹکرا کر ڈانٹ اور تھپڑ کھاتے۔

    ’’اے لو، وہ مرشدہ آپا کی لونڈیا کلچوں کے ٹوکرے میں جاپڑی۔۔۔ دیکھیو بھئیے کوئی ثابت بچا کہ سب توڑدیے چڑیل نے۔‘‘

    ’’اوشبراتی کے پوٹ، منے کردیا ادھر کو مت آ، کیا بوں کے جوں رکھے ہیں گے، مانتے ہی نہ ہیں، چڑھے ہی چلے آویں ہیں شیطان کے سگے۔‘‘

    ’’ابے فخرو والے، دونگا ایک ریپٹ، شربت کے قریب بھی نہ پھٹکیو، نہ تو ٹانگ توڑدیوں گا۔۔۔‘‘ پھر دو چار دھپوں کی آواز آتی، اندر دالان سے اور شہ ملتی، ’’یار بھپے، ضرور مار، ٹانگ توڑدے، ایک تو توڑ ہی دے پھر دیکھا جاوے گا۔ میرا تو اپنے آپ ہی خون جلا ڈالا اس اللہ ماری اولاد نے۔‘‘

    اس تمام چہل پہل، غل غپاڑے سے دور، بالکل الگ، ایک چھوٹی سی کوٹھری میں جو امام باڑے کے اندرونی حصے میں تھی اور اس میں امام باڑے کا سامان سال بھر بند رہتا تھا۔۔۔ مجوشاہ ایک چٹائی پر، دیوار سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا۔ تین چار ساتھی اس کے آس پاس تھے، اشرف گھٹنے پر ایک تختی اور اس پر ایک کاغذ رکھے، ہاتھ میں کلک کا قلم لیے بیٹھا تھا، شبراتی ہاتھ میں ایک دھواں دیتی لالٹین اونچی کیے ہوئے تھا اور اس کی دھندلی روشنی میں مجوشاہ کا چہرہ زرد لگ رہا تھا۔۔۔ کئی رات نیند نہ پڑنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں سرخی آگئی تھی، بال الجھے ہوئے تھے، کالی قمیص جو کندھے پر سے پھٹی تھی، اس کا گریبان کھلا ہوا تھا اور گلے میں پڑی سبز کچے کلاوہ کی ڈوری اندر سے جھانکتی دکھائی دے رہی تھی، جس کو وہ بار بار انگلیوں سے کھینچتا۔۔۔ کوٹھری کا دروازہ بند تھا۔ ’’ہاں تو کیا لکھا بھئیے۔۔۔‘‘ اس نے اللہ دیے سے پوچھا۔ وہ اشرف کے کندھے پر سے جھانک کر پڑھ رہا تھا۔

    ’’پڑھ دیوں؟‘‘

    ’’ہاں ہاں، پڑھ دے، سب سن لیویں گے۔‘‘

    اللہ دیے نے پڑھنا شروع کیا، ’’بحضور فیضِ گنجور، جناب جنٹ صاحب بہادر۔۔۔ جیسا کہ حضور کو معلوم ہوگا کہ علم کا معاملہ اب تک طے نہیں ہوچکا ہے، ہم لوگ علم کو جھکانے پر تیار نہ ہیں کیونکہ سدا سے یہ علم اِتا ہی بڑا بنتا چلاآیا ہے اور اس کے لیے تار ہمیشہ کاٹا جاوے تھا۔ ہم لوگ حضور کی خدمت میں دو درخواستیں روانہ کرچکے ہیں کہ برائے مہربانی حکم تار کاٹنے کا دیاجاوے۔ جو کچھ خرچ تارکٹوائی اور پھر سے لگوائی کا ہووے گا وہ ساکنانِ بستی کی طرف سے دیا جاوے گا۔‘‘

    ’’گے کیا لکھا ہے؟ کون بستی؟‘‘ شبراتی نے لالٹین کے پیچھے سے پوچھا۔

    ’’مطلب گے ہے کہ بستی کے رہنے والے۔۔۔‘‘ اشرف نے سمجھایا۔

    ’’تو یوں کیوں نہ لکھا؟‘‘ محمدو نے پوچھا۔

    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، درخواست میں ایسے ہی لکھا جاوے ہے۔‘‘ مجوشاہ بولے، ’’ہاں تو پھر بھیے۔۔۔‘‘

    شرفو پڑھنے لگا، ’’اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ ساکنان بستی کی طرف سے دیا جاوے گا۔۔۔ عرض قبول ہو تحریری کہ سندرہے اور بہ وقت ضرورت کام آوے۔۔۔ اور حضور کا کرم ہو تو تھوڑے لکھے کو بہت سمجھاجاوے۔‘‘

    ’’اور گے بھی لکھ دے بھئیے کہ اس درخواست کو تار سمجھا جاوے۔۔۔‘‘ رحیمو بولا۔

    ’’نہ نہ، حاکموں کو گے سب نہ لکھا جاتا۔‘‘ اشرف نے مجوشاہ کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’ہاں بس۔۔۔ اور ضرورت نہ ہے، اتا ٹھیک ہے۔‘‘ مجوشاہ نے کہا۔

    ’’مگر اس میں گے تو لکھا ہی نہ گیا کہ ہم لوگ علم کبھی نہ جھکانے کے ہیں۔۔۔‘‘ ٹیلے والے فقیرے چچا بولے۔ مجو شاہ زور سے بولے، ’’لکھا ہے۔‘‘

    فقیرے چچا اپنے اعتراض پر قائم رہے، ’’کاں لکھا ہے؟ میں نے تو نہ سنا!‘‘

    شبراتی جل کے دھیرے سے بولا، ’’اب تم تو بہرے بھنڈ ہو تو کوئی کاں تک تمہارے لیے گلا پھاڑے گا۔‘‘

    مجوشاہ نے اس کا پہلو دبایا او رچیخ چیخ کر فقیرے چچا کو یقین دلایا کہ ایسا بالکل لکھا گیا ہے کہ ہم لوگ علم کبھی نہ جھکانے کے ہیں۔۔۔ پھر چاروں طرف دیکھ کر بولے، ’’لے بولو، اب کون کون جاوے گا گے درخواست لے کے۔۔۔ میں تو جاؤں گا ہی۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ شبراتی لالٹین نیچے رکھ کے بولا، ’’اور میں۔۔۔ اور منوہر بھی کہے تھا اور لالہ جی کے آئے تھے، چلیو تو مجھے بھی ضرور لے چلیو اور۔۔۔‘‘

    اتنے میں دروازہ کھلا اور رمضانی داخل ہوا۔ دروازہ بند کرتے ہوئے خاموشی سے بیٹھ گیا۔ مجوشاہ نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا، رمضانی نے انکار میں سرہلایا۔ مجوشاہ نے دھیرے سے پوچھا، ’’جاویں گی؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’تو پھر کب معلوم ہووے گا۔‘‘

    ’’یا آج رات، یا کل صبح تڑکے۔‘‘

    ’’پرسوں تو عشرہ ہے۔۔۔‘‘ کئی لوگوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔۔۔ مگر پھر مجوشاہ کو چپکا اور سنجیدہ دیکھ کر سب خاموش ہوگئے، مجوشاہ نے پھرسراٹھایا اور رمضانی سے مخاطب ہوا، ’’جنٹ صاحب آگئے کہ ابھی سٹاری ہی میں ہیں۔‘‘

    ’’آگئے۔۔۔ تھوڑی دیر ہوئی۔‘‘

    ’’تو یہ درخواست ابھی جاوے۔‘‘ مجوشاہ نے سب کی طرف دیکھ کے کہا۔ سب نے اتفاق کرتے ہوئے سرہلایا۔

    ’’کیا درخواست لکھ گئی؟‘‘ رمضانی نے کہا۔

    ’’ہاں!‘‘ مجو شاہ نے کہا، ’’لے اب تو کچھ کھاپی تو لے۔ شرفو، رمضانی کا حصہ لا کے دے۔‘‘

    پھر اس نے اپنے باہر نکلتے ہوئے ساتھیوں کو ایک مرتبہ غور سے دیکھا، دیوار سے ٹیک لگاتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس بھری، ’’معجزہ پروردگار کا۔۔۔ شکر پالن ہار کا۔‘‘

    ٭

    نویں کی صبح کو کوئی چار بجے ہوں گے، ممانی مجلس سے لوٹ کر چولہا سلگا رہی تھیں کہ دروازے پر آہستہ سے دستک ہوئی، ممانی نے کواڑ کے پیچھے سے پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘

    ’’میں ہوں۔۔۔ اللہ دیا۔‘‘

    ’’آبھئیے آ۔۔۔‘‘ دروازہ کھل گیا اور پھر بند ہوگیا، اللہ دیا اندر آگیا اور پھر اپلوں کے دھوئیں سے کھانسنا شروع کردیا، چولہے کے پاس بیٹھ کر اس نے ادھر ادھر نظر ڈالی مگر کچھ بولا نہیں۔ ممانی نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولیں، ’’چائے بنادوں، جگا اتر جاوے گی۔‘‘

    ’’بنادو۔‘‘ اللہ دیا پیڑھی پربیٹھے بیٹھے بولا۔

    ممانی گرم پانی کی پتیلی میں چائے کی پتی ڈالتے ہوئے بولیں، ’’آج فخرو کے واں خوب ماتم ہوا۔۔۔ ایسا ماتم برسوں سے دیکھنے میں نہ آیا تھا۔‘‘

    اللہ دیا چپ رہا، پھر آہستہ سے بولا، ’’میر صاحب گئے تھے؟‘‘

    ’’ہوں گئے تو تھے۔۔۔ پھر۔۔۔ مگر بھئیے اس آنے جانے سے کچھ کام نہ بننے کا ہے، مولا ہی جانیں کیا بات چیت ہووے ہے۔ تو تو ہواں تھا نہ۔‘‘

    اللہ دیے نے سرہلاکے حامی بھری۔

    ’’تو میں نے تو ہوئیں کے دیا تھا کہ دونوں باتیں نہ چل سکیں ہیں۔ یا تو جنٹ صاحب سے اپنے مقدمے ہی سیدھے کروالو، یا مولا کا ہی کام کروالو۔ گے نہ چل سکے ہے کہ دودھ بھی پیارا پوت بھی پیارا، قسم کس کی کھاؤں۔‘‘ اتنے میں چائے ابلنے لگی، ممانی نے پتیلی اتارکے اس میں ذرا سا دودھ ملایا، نتھار کرپیالے میں انڈیلا اور شکر ڈال کر چمچے سے چلاتے ہوئے اللہ دیے کی طرف بڑھاتے ہوئے آہستہ سے بولیں، ’’تو پھر مجو کیا کہے ہے۔‘‘

    ’’کہنا کیا ہے، علم جاوے گا بس۔‘‘

    ’’کاں تک؟‘‘

    ’’جہاں تک ہم لوگوں کے دم میں دم ہے۔‘‘

    ’’پولیس لگی ہے؟‘‘

    ’’بہتیری ہے۔۔۔ گڑھیا کے پاس لال ہی لال پگڑیاں دکھ رہی ہیں، لگے ہے ٹیسو کا کھیت اگ آیا۔‘‘

    ’’تو کیسے آیا؟‘‘

    ’’مرشدہ آپا کے حاطے میں کو ہو کے، شرفو اور رمضانی ادھر گئے ہیں میر صاحب کے واں۔‘‘

    ممانی خاموش ہوگئیں، اللہ دیا جانے کو اٹھا تو ممانی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور آہستہ سے بولیں، ’’دیکھ بھئیے، آپ بل سو ہزار بل کسی کی آس مت دیکھیو تم لوگ، بس جو کچھ کرنا ہے وہ مولا کا نام لے کے اپنے آپ ہی کیجیو۔‘‘

    ’’وہ تو کیا ہی جاوے گا۔‘‘ اللہ دیے نے جواب دیا۔۔۔ پھر ذرا رک کے بولا، ’’کل رات ہم دس بارہ آدمی گئے تھے درخواست لے کے جنٹ صاحب کے واں۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’اجی۔۔۔ وہ بات تک نہ کرتا، دروازہ پر ہی وس کے چپراسی نے کے دیا کہ صاحب تم لوگوں سے نہ ملنے کے ہیں۔۔۔ اور مجھ سے کہنے لگا کہ تم سب سے زیادہ ادھر ادھر شیخی بگھارتے پھروہو، خبر بھی ہے تمہارا وارنٹ نکلا ہوا ہے، جب حوالات میں سڑوگے تو سب پتہ چل جاوے گا۔‘‘

    ’’چپراسی کون ہے؟‘‘

    ’’اجی وہی ہے۔۔۔ ترابن کا لونڈا۔ اسے میر صاحب نے ہی تو رکھوایا ہے جنٹ صاحب کے۔‘‘

    ’’پھر کیا۔۔۔ خدا گنجے کو ناخون نہ دے جو اپنی گنج کھجاوے، وہ تو۔۔۔‘‘

    باہر کسی کے ڈنڈا پٹکنے اور کواڑ بھڑ بھڑانے کی آواز آئی۔۔۔ اللہ دیے نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا، پر ممانی نے فوراً اس کا دامن پکڑ کر پیچھے کی طرف کھینچ لیا اور ایک کونے میں دھکیل کر خود درار میں سے جھانکیں۔۔۔ پورب سے ہلکی ہلکی روشنی نکل رہی تھی اور تین چار پولیس والوں کے سایے ان کو اپنے دروازے کے پاس منڈلاتے نظرآئے، انہوں نے ایک ہاتھ پیچھے کرکے اللہ دیے کو اشارہ کردیا، چشم زون میں وہ بکری کی پیٹھ پر پاؤں رکھ کر بڑے سے نیم کی ایک شاخ پر چڑھ گیا، وہاں سے دیوار پر اور دیوار کود کر امرودوں کے باغ سے ہوتا ہوا، مرشدہ آپا کے حاطے سے ہوتا ہوا امام باڑے کی حد میں۔۔۔ ممانی نے پھر درار میں سے دیکھا۔ اب پولیس والوں کے پیچھے اور آس پاس بہت سے محلے والے اکٹھے ہوگئے تھے اور زور زور سے بحث ہو رہی تھی، ‘‘ وس کے نام وارنٹ ہے، ہم نے وسے ادھر آتے دیکھا تھا اور گیا ہے وہ وسی گھر میں۔۔۔ ہم تلاشی لیویں گے۔‘‘

    ’’اجی ہوش میں ذرا۔‘‘ نتھو پہلوان اپنے ڈنٹر بیٹھک چھوڑ کر پولیس اور ممانی کے دروازے کے بیچ میں کھڑا ہوگیا، ’’کس میا کے پوت میں دم خم ہے کہ یہ دہلیز الانگے گا۔‘‘

    ’’میاں خیریت چاہتے ہو تو سیدھے سیدھے چلے جاؤ۔۔۔ رانڈ بیوہ سیدانی کے گھر کی تلاشی! کچھ سیندھی پی گئے ہو کیا؟‘‘ کسی نے کہا۔ لالہ جی کا بڑا لڑکا، ہاتھ میں لوٹا لیے، کان میں جنیو لپیٹے بھیڑ میں شامل ہوتا ہوا بولا، ’’ذرا پھر سے کہئیو۔۔۔ تالو سے جیبھ کھینچ لیوں گا۔‘‘

    ممانی اطمینان سے اپنے آنگن میں لوٹ آئیں اور اپنی بکری کو گلے لگاکے پیار کرنے لگیں، ’’اری واہ ری میری سیڑھی۔۔۔! لے بھوسا کھا۔۔۔ پچ!‘‘

    ٭

    دسویں تاریخ کی صبح آگئی اور صورت حال بالکل نہیں بدلی۔ رات بھر تعزیوں نے حسب معمولی گشت کی، پولیس کے سپاہی بندوقوں پر سنگینیں چڑھائے ان کے ساتھ گھومتے رہے۔ پانچ بجتے بجتے سب تعزیے بڑے امام باڑے کے صحن میں پہنچ گئے، الوداعی پڑھی جانے لگی، امام باڑے کے دالانوں میں عورتوں کا ہجوم کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، بستی کے سارے گھر خالی ہوگئے تھے، امام باڑے کے صحن میں سب مرد ننگے پیر ننگے سر ماتم کر رہے تھے۔ ’’یاحسین، واحسین‘‘ کی آوازوں سے سارا ماحول گونج رہا تھا، پھر یکایک صحن کے دوسرے کونے سے علم اٹھنے لگا۔ مجوشاہ نیچے سے اسے اٹھائے تھا اور دو آدمی ڈوریوں کو پکڑے اسے سہارا دیے تھے۔ دھیرے دھیرے علم آگے بڑھتا گیا اور پھر صحن کے بیچوں بیچ رکھے ہوئے بڑے تابوت سے گلے مل گیا۔ مجوشاہ نے اپنے ہونٹ بھینچے، ادھر ادھر دیکھا اور آواز دی، ’’اجی، گوندنی تلے والے میر صاحب۔۔۔ اجی کاں ہو؟‘‘

    وہ بھیڑ میں سے کہیں سے بولے، ’’ہاں بھئیے، ہوں گا، گے ہوں گا۔‘‘

    ’’اجی دو چار بند وہ مرثیہ پڑھ دو۔ جاویں ہیں آپ خلق کی مشکل کشائی کو۔ آوے ہے کربلا سے اجل پیشوائی کو۔‘‘

    ’’وہ تو پہلی تاریخ پڑھا جاوے ہے، آج پڑھنے کا نہ ہے۔‘‘

    ’’اجی تم دو ایک بند پڑھ دو، میری خاطری سے۔‘‘

    میر صاحب نے مرثیہ شروع کیا۔۔۔ علم اور تعزیے بہت ہی آہستہ آہستہ کربلا کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔ ان کے اطراف اور پیچھے ماتم کرنے والوں کاحلقہ جو تھوڑی تھوڑی دور پر رک کر ماتم کرتا، نوحے پڑھتا اور پھر تعزیے آ گے بڑھنے لگتے۔ ان کے پیچھے مجمع، اور پیچھے عورتیں بچے۔۔۔ اور ان کے پیچھے کچھ لوگ فاقہ شکنی کا سامان اٹھائے اور لالہ جی کے آدمی، کھنڈساری شکر، مٹکیاں بالٹیاں لیے ہوئے۔ تھوڑی دور چل کر عورتوں کا ہجوم امام باڑے کو واپس ہوا۔۔۔ صحن میں سب جمع ہوگئیں اور سونے، اجاڑ امام باڑے کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ نیم تلے والی ممانی نے نوحہ شروع کیا۔۔۔ گھر لٹ گیا زہرا کا قیامت ہوئی۔ برپا اے وائے حسینا، فرزند نبی قتل ہوا، اجڑا مدینہ، اے وائے حسینا۔

    نوحے ماتم کے بعد سب ننگے فرش پر بیٹھ گئیں۔

    ’’اب دیکھیو، کیا ہووے ہے؟‘‘

    ’’اب مولا ہی کوئی معجزہ دکھاویں۔‘‘

    ’’اللہ ہی مالک ہے ان لوگوں کی جانوں کا، بندوقیں سب پولیس والوں کے ہاتھ میں ہیں۔‘‘

    ’’اجی تو ایسے بندوق نہ مارسکتے۔ اب ایسا بھی کیااندھیر ہے۔‘‘

    ’’گے نہ کئو، حکومت کا نشہ برا ہووے ہے۔‘‘

    ’’امام ضامن کی ضمانت میں دیا سب کو، وہی بچاویں گے۔‘‘

    ’’آخر ہووے گا کیا؟‘‘

    ’’چھدو۔۔۔ ذرا دوڑیو تو میرا پوت دیکھیو تعزیے کاں تک پہنچے۔ کیا ہو ریا ہے؟‘‘

    دوچار ذرا بڑے بچے دوڑے۔

    مجمع تعزیے اور علم لیے آگے بڑھتا گیا۔۔۔ یہاں تک کہ وہ نشیب آگیا جو گڑھیا کہلاتا تھا، اس کے ہی قریب نالہ تھا اور نالے کے کنارے پر پولیس کا پہرہ۔ نالے کے اوپر ایک پلیاسی بنی تھی، اطراف میں بہت سے درخت اور بہت ہی گھنی جھاڑیاں اور جھاؤ کا اتنا گہرا جنگل تھا اور نرکل کی جھاڑیاں کہ اکثر چور ان میں چھپ جاتے تھے تو پتہ نہیں چل سکتا تھا۔ ان جھاڑیوں کے درمیان سے ایک پتلا سا راستہ نکلتا تھا اور اسی راستہ پر، گڑھیا کے بالکل قریب دو طرف تار کے کھمبے تھے۔۔۔ ان ہی کھمبوں پر کھنچے ہوئے دو تین تار دوپہر کی دھوپ میں چاندی کی طرح چمک رہے تھے، ایک مری ہوئی چمگادڑ تاروں میں پھنسی، لٹکی ہوئی فصا کے بھیانک پن کو بڑھا رہی تھی۔

    بستی کی طرف سے تعزیے اور علم اور ان کے پیچھے پیچھے لوگوں کاہجوم پتلے سے راستے پر ہولیا اور تار کی طرف بڑھنے لگا، جیسے جیسے علم بڑھتا جاتا تھا، تعزیہ اس کے ساتھ ساتھ پیچھے پیچھے، آہستہ آہستہ آرہاتھا اور علم ہراول کی طرح آگے ہوتا جاتا تھا، زمین پر مجوشاہ کے گھسٹتے ہوئے جسم سے لکیر بنتی جاتی تھی، جھاڑیوں کے تنکے اس کے سیاہ کپڑوں سے الجھتے جاتے تھے، سر پر گردوغبار اور بھوسے کی تہہ اور موٹی ہوتی جاتی تھی۔۔۔ اور اس کے وجود پر پھیلے ہوئے علم کا پھر یرہ ڈولتا جاتاتھا۔۔۔ یہاں تک کہ بڑا علم، تار کے بالکل نزدیک پہنچ گیا اور باقی اور تعزیے کوئی چالیس پچاس گز دور رہ گئے۔ مجوشاہ نے پیچھے کو ہاتھ ہلاکر رکنے کا اشارہ کیا، سب تعزیے علم رک گئے، صرف وہ بڑا علم لیے اور آگے بڑھتا گیا۔

    پھر وہ ایک منٹ کے لیے رکا اور نظر اٹھاکر اس نے تاروں کو دیکھا۔۔۔ دو اونچے اونچے کھمبے اور ان کے بیچ میں تنا ہوا، کھنچا ہوا تار۔۔۔ اس کے لبوں پر ایک ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ آئی، پھر ایک ٹھنڈی سانس اور اس کے منہ سے دھیمے سے نکلا، ’’معجزہ پروردگار کا۔۔۔ شکر پالن ہار کا۔۔۔‘‘ اور اس نے پھر ایک ٹھنڈی سانس بھری، لب بھینچ لیے، ایک پل کو اس کی نظر جھکی اور پھر اٹھی، اب کی بار علم کے پھریرے پر ایک لمحہ کوٹکی، وہاں سے پھر تار پر گئی اور واپس لوٹ کر انگریز پولس افسر کی نگاہوں سے مل گئی۔

    اس نے زور سے صدادی، ’’تار کاٹ دو۔‘‘

    ’’تار نہیں کٹے گا۔ علم کو جھکاکے لے جاؤ۔‘‘ پولیس کی طرف سے آواز آئی، جو اتنی ہی اونچی تھی۔

    ’’علم تو نہیں جھکے گا۔‘‘ مجوشاہ نے پھر اتنے ہی زور سے کہا۔

    اب کے پولیس کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔ انکار کی مکمل خاموشی!

    مجوشاہ نے مجمع کی طرف گردن پھرائی اور زور سے آواز دی، ’’سب علم تعزیے رکھ دو، جب تک بڑا علم نہیں جائے گا، ہم لوگ یہیں رہیں گے۔‘‘

    تمام تعزیے تابوت کندھوں پر سے اتار کے زمین پر رکھ دیے گئے، علم درختوں سے ٹکا کر کھڑے کردیے گئے، چشم زدن میں بڑے امام باڑے میں خبر پہنچ گئی کہ تعزیے اور علم رک گئے ہیں، تار نہیں کاٹا گیا۔۔۔ ساری بستی میں ہراسانی پھیل گئی کیونکہ امید کے خلاف سب امید لگائے بیٹھے تھے کہ جب تعزیے گڑھیا پر پہنچیں گے تو تار ضرور کاٹ دیا جائے گا۔۔۔ یا ممکن ہے کوئی معجزہ ہو اور تار اپنے آپ ہی کٹ جائے!

    جب شام کے چار بج گئے، فاقہ شکنی کا وقت آگیا لیکن کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو عورتوں کا ایک جم غفیر بستی سے نکلا اور گڑھیا کی طرف چلا، ان کے ہاتھوں میں کڑوا ساگ اور جو کی روٹیاں تھیں، سروں پر دریاں اور بستر تھے، گودیوں میں چھوٹے بچے، بڑے بچوں کے ہاتھوں میں سات قسم کے بھنے اناج کی پوٹلیاں، لالٹین، دواؤں کی شیشیاں، نوحے مرثیوں کی بیاضیں، بچے طرح طرح کے کھلونے اور مٹی چتھڑے کی گڑیاں ہاتھوں میں لیے۔۔۔ لالہ جی کی طرف سے سب کو شربت پلایا گیا، ست نجے (سات قسم کسے بھنے ہوئے اناج) سے فاقہ شکنی کی گئی، بچوں کو بہلانے کے لیے گڑ چنے تقسیم کیے گئے، لالٹین روشن کی گئیں، مجلس شروع ہوئی۔

    گڑھیا پر نگر آباد ہوگیا۔

    ٭

    ممانی اپنی بکری دوہ کے اٹھ ہی رہی تھیں کہ ان کے کان میں ماتم کی آواز آنے لگی۔۔۔ انہوں نے گھبراکر مرشدہ آپا کی طرف والی کھڑکی کھولی اور زور سے پکارا، ’’مرشدہ، اے مرشدہ۔‘‘ مرشدہ آپا شاید پہلے ہی سے سن رہی تھیں، جواب میں بولیں، ’’ہاں، ہاں۔۔۔ ماتم کی آواز آرہی ہے گی، گڑھیا کی طرف سے۔ لگے ہے عورتیں ماتم کر رئی ہیں۔‘‘

    ’’کیا عورتیں بھی ہواں چلی گئیں؟‘‘

    ’’لگے تو کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘

    ممانی نے بے قرار ہوکر سامنے والا دروازہ کھولا، لالہ جی کا سب سے چھوٹا لڑکا سر پر بستر رکھے ہاتھ میں جلتی لالٹین جھلاتا ہوا، تیز تیزچلتا سامنے سے گزرا، انہوں نے گھبراکے اسے آواز دی، ’’منوہر، اے بھئیے منوہر، اے ذرا سن تو۔‘‘

    وہ رک گیا۔

    ’’گے کیا معاملہ ہے بھئیے؟ کیا عورتیں بھی گڑھیا پہ چلی گئیں۔‘‘

    وہ بولا، ’’لو، کب کی۔۔۔ باپو بھی وہیں، مائی بھی اور اب دادی بھی، ان کا ہی تو گے دری تکیہ اور کھیس لے جارہا ہوں۔۔۔‘‘ اور وہ چلنے لگا۔

    ’’ارے تو ٹھہر تو۔۔۔ میں بھی چلوں ہوں۔ ذرا تھم۔‘‘

    ’’چلنا ہے تو جلدی کرو، ابھی مجھے ہواں سے لوٹ کر اور شکر بھی لے جانی ہے، باپو نے کہا ہے جد توڑی امام حسین گڑھیا پہ رہیں گے، روز شربت بٹوایا جاوے گا۔۔۔ لو چلو ہو؟‘‘

    ’’اے ہے چلوں ہوں، ذرا تو چھری تلے دم لے، ریل تو نہ چھوٹی جاری، جو ہولائے لے رہا ہے۔‘‘

    ممانی جلدی سے اندر آئیں، الگنی پر سے چادر کھینچی، بکس دھڑام سے بند کیا، دونوں کوٹھریوں میں تالادیا، پیچھے کے دروازے کی کنڈی چڑھائی اور چوڑی دار پاجامہ کی موہریوں پر موزے چڑھاکر جوتی پہن رہی تھیں کہ مرشدہ آپا گھبرائی ہوئی سامنے کے دروازہ سے گھسیں اور ان کو روانگی کے لیے تیار ہوتے دیکھ کر حیران رہ گئیں، ’’ممانی، اے گے تم کاں جاری ہوگی؟ اے کاں؟‘‘

    ’’مولا کے دربار میں۔۔۔‘‘ انہوں نے جلدی سے جواب دیتے ہوئے چولہے میں بھر لوٹا پانی ڈالا اور کھاردے کی دوپاٹ والی چادر اوڑھنے لگیں۔ مرشدہ ان کو دیکھ دیکھ کر بدحواس ہوئی جارہی تھیں، ’’پرواں دھنوں، جلا ہوں، نٹوں میں کاں جاوگی؟ اے کیا باولی ہوئی ہو، ہواں پردہ کاں رے گا؟‘‘

    ’’میرے مولا اور ان کے مولا دو نہ ہیں۔۔۔ اور جب میری نبی زادیوں کا پردہ نہ ریا، سب کو قید کرکے، ننگے سر شام لے گئے موذی۔۔۔ تو میرا پردہ کیسا، صدقے کیا ا ن پر۔‘‘

    چادر اوڑھ کر وہ باہر نکلیں۔ مرشدہ آپا تیز چلتی ہوئی اپنے گھر کی دہلیز پر جا کھڑی ہوئیں، ممانی نے دروازے میں تالا دیا اور پھر چلتے چلتے مرشدہ آپا کو پکار کے کہا، ’’مرشدہ میری مرغیوں کو دانہ دے دیجیو، تیری طرف والی کھڑکی بند نہ ہے، بس بھڑی ہے گی، دانے کی کونڈیلی لکڑیوں کی بخاری میں رکھی ہے گی اور چولہے کے جو مٹکا ہے وس میں بھوسی ہے، اتوریہ (بکری) کو ڈال دیجیو، کبھی بے زباں بھوکی مرے۔۔۔ اے ذرا تھم کے چل بھیے، تو تو ہوا سے باتیں کر ریا ہے، چلتی تو چلوں گی، انجن تو نہ لگ ریا میرے پیروں میں۔‘‘

    ٭

    اللہ دیا دوڑتا ہوا اس گروہ میں پہنچا جہاں اس کی بہنیں اور بستی کی کچھ اور عورتیں بیٹھی تھیں۔

    ’’ارے، چادریں دو، چادریں۔‘‘

    ’’اے ہے کیوں، اللہ خیر، چادریں کس واسطے چاہیں؟ اب کیا آفت ٹوٹی، کیا ہوا بھئیے؟‘‘ اس کی ماں نے ہول کھاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’اب دو بھی ہو کہ پوچھے ہی جاؤگی، خبر بھی ہے نیم تلے والی سیدانی ممانی آپہنچیں۔‘‘ سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا، ’’ہے ہے۔۔۔‘‘

    کچھ جھاڑیوں کے بیچ میں ذرا سی جگہ صاف کرکے یہ سب عورتیں، اندھیرے میں بیٹھی تھیں، بس ادھر ادھر دسویں تاریخ کا چاند کچھ روشنی بکھیر رہا تھا، دور ایک پیڑ میں ایک چندھی سی لا لٹین لٹکی تھی۔۔۔ اللہ دیے کی ماں نے جلدی سے اپنی اور اپنی چھوٹی بہن کی چادریں پھٹکار کے، تہہ کرکے اللہ دیے کے حوالے کردیں۔ شبراتی کی ماں نے بھی گھبراکر اپنی کھیس بڑھادی اور محمدو کی پوپلی دادی بھی اپنی کالی گوٹ والی مونگیا رنگ کی دوہرلے کے لڑکھڑاتی ہوئی لپکیں، ’’گے بھی لیتا جا بھئیے، کہیو بالکل پاک صاف ہے، نماز بھی پڑھ سکیں ہیں اس پر، میرے پاس تو گوموت کا ٹنٹا ہی نہ ہے۔‘‘

    قریب قریب لگے ہوئے تین درختوں میں گھیس چادریں باندھ کرممانی کے لیے آڑ کی گئی، اندرممانی نے منوہر کی مدد سے اپنی دری بچھائی، تکیہ رکھا، اس پر مونگیا دوہر تہہ کرکے بچھائی اور پھر اس پر مرثیوں نوحوں کی بیاضیں رکھ کر ان کو الٹنا پلٹنا شروع ہی کیا تھا کہ عورتوں کی ایک بھیڑ ان کے خیمے میں داخل ہونی شروع ہوئی۔ جب سب بیٹھ گئیں تو ممانی سے مجلس شروع کرنے کی درخواست کی گئی۔

    ممانی کی آواز اپنی جوانی میں بڑی پاٹ دار او رزبردست تھی، وہ جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھیں، اسی مشغلہ میں عمر گئی، لیکن اب ان کو سہارے کی ضرورت ہوتی تھی، اکیلی نہیں پڑھ سکتی تھیں، اب ان کے دہنے پر مرشدہ آپا اور بائیں پر زہرا خالہ بیٹھتی تھیں کیونکہ اب نہ ان کی آواز میں اتنی طاقت تھی نہ کلیجہ میں ا تنا دم۔۔۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔ نہ مرشدہ آپا تھیں نہ زہرا خالہ۔۔۔ یہاں ان کو کون سہارا دے گا؟ پھرانہوں نے ایک پل کو سر جھکایا، کچھ سوچا، سر اٹھاکر ادھر ادھر دیکھا، بہت سی آنکھیں انہیں کتنے احترام، کتنی امید سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔ ان کی نگاہیں اللہ دیے کی بہن اختری پر جاکر ٹھہریں۔

    ’’اختری، تجھے تو پڑھنا آوے ہے نہ۔۔۔ مجھ سے تو قرآن شریف پڑھا تھا تو نے، پھر قصص الانبیا بھی تو پڑھے تھی۔۔۔ آمیرا ساتھ دے۔‘‘ اختری بوکھلا کے رہ گئی! وہ مرثیہ کیسے پڑھے گی، مجلس تو سیدانیاں پڑھیں ہیں مگر اس کی ماں نے بڑے فخر کے ساتھ اسے آگے ٹہوکا دیا۔

    ’’اور اسے بھی آوے ہے پڑھنا۔۔۔‘‘ شبراتی کی ماں نے اپنی بہو کے متعلق اطلاع دی، ’’لا، لونڈے کومجھے دے دے۔۔۔ سو گیا؟‘‘

    ’’ہاں، سوگیا۔۔۔‘‘ شبراتی کی بہو نے ہرے دوپٹہ کے گھونگھٹ کے اندر سے جواب دیا۔۔۔ پھر اس نے لڑکے کو اپنی ساس کی گود میں لٹایا اور گھونگھٹ ٹھیک کرتی ہوئی ممانی کے بائیں ہاتھ پر جابیٹھی۔۔۔ ممانی نے سلام شروع کیا۔۔۔ اعداحرم کو مثلِ گنہگار لے گئے۔۔۔ مجرائی سر کھلے سر بازار لے گئے۔

    تعزیوں کو گڑھیا پر رکے تیسرا دن ہو رہا تھا۔۔۔ بارھویں تاریخ کا چاند اپنی اداس کرنیں اس چھوٹے سے قافلے پر برسا رہا تھا جو اس گھنے جنگل کے بیچوں بیچ ڈیرہ ڈالے پڑا تھا۔ بڑے علم کے نیچے اللہ دیا بیٹھا تھا، ہاتھ میں ایک چھوٹی سی لکڑی لیے، زمین پر مٹی میں کچھ یوں ہی نشانات بنارہا تھا، کبھی کبھی ادھر ادھر سے گھاس نوچنے لگتا، کبھی نظر اٹھاکر علم کے پھریرے کو دیکھتا۔ اس وقت ہوا بند سی تھی مگر پھریرا پھر بھی بہت ہی دھیمے دھیمے ہل رہا تھا، دور سے کبھی کسی چڑیا کی تیز سیٹی کی آواز آتی، کبھی بستی کی طرف سے کسی کتے کے رونے کی۔۔۔ پہرہ داروں کے پاؤں کی آہٹ، چاندنی میں بندوقوں پر چڑھی ہوئی سنگینوں کی چمک اور لہک۔۔۔ اور پھر سناٹا!

    پھر اللہ دیے کو محسوس ہوا کہ قدموں کی چاپ قریب آرہی ہے۔ پھر محمدو اور اشرف آئے، پہلے انہوں نے ادھر ادھر دیکھا، اللہ دیے سے مخاطب ہوئے، ’’گے کیا معاملہ ہے؟ استاد کاں گئے ہیں۔‘‘

    ’’بستی!‘‘ اللہ دیے نے سرجھکائے جھکائے مختصر جواب دیا۔

    ’’پربستی کائے کو گئے ہیں؟‘‘ محمدو نے پوچھا۔ اس کی پیشانی پر ایک دو بل آگئے تھے، اشرف کی بھی تیوری چڑھی ہوئی تھی۔ اللہ دیا چپ چاپ سرجھکائے زمین کریدتا رہا۔

    ’’وہ کل بھی تو گئے تھے بستی؟‘‘ محمدو نے پوچھا۔

    ’’ہاں گئے تو تھے‘‘ اللہ دیے نے آہستہ سے جواب دیا۔

    ’’تجھے کچھ نہ معلوم کیوں گئے تھے؟‘‘

    ’’نہ اللہ قسم مجھے کچھ خبر نہ ہے۔‘‘

    ’’وہ رمضانی کے ریا تھا کہ اس نے ون کو پھگنالوہار کی دوکان پر دیکھا تھا۔‘‘

    ’’دیکھا ہووے گا۔‘‘ اللہ دیا بے نیازی سے بولا۔

    اشرف اور محمدو ایک منٹ خاموش رہے پھر بولے، ’’اچھا پھر تو تو چل، مجلس شروع کریں۔‘‘

    ’’میں نہ چل سکوں ہوں، مجھ سے کے گے ہیں کہ جد توری میں لوٹ کر آؤں تو یہاں ہی بیٹھا رہیو علم کے پاس، ایک سوت مت کھسکیو، کبھی علم کو اکیلو چھوڑدیوے۔‘‘

    ’’اچھا تو ہم لوگ چلیں ہیں، استاد آجائیں تو ان کو بھیج دیجیو۔۔۔ یا پھر وہ یہاں بیٹھیں تو توآجائیو۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔‘‘ اللہ دیے نے کہا اور پھر سر جھکاکے زمین کریدنے لگا۔

    محمدو اور اشرف بڑبڑاتے ہوئے، ممانی کے خیمے سے کچھ دور پر بچھی ہوئی دری پر جابیٹھے، مجلس شروع ہوئی۔

    ٭

    تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اللہ دیے نے دیکھا مجو شاہ دور سے چلے آرہے ہیں، ان کے ایک ہاتھ میں ایک ہرے کپڑے میں بندھی ہوئی چھوٹی سی پوٹلی تھی، علم کے نزدیک آکر انہوں نے اس پوٹلی کو بہت آہستہ سے زمین پر رکھا اور اللہ دیے سے مخاطب ہوئے، ’’تومجلس میں نہ گیا اللہ دیے؟‘‘

    ’’کیسے جاتا، یہاں علم جو اکیلا ہوجاتا، تم ابھی تو کے گئے تھے کہ جد توری میں نہ آؤں، تو یہاں ہی بیٹھا رہیو، علم کو چھوڑ کر ہٹیو مت۔‘‘ وہ مسکرائے مگر بولے کچھ نہیں، پھر علم کے نیچے بیٹھ گئے۔ ایک بار سر اٹھاکر انہوں نے پھریرے کو دیکھا اور بولے، ’’لے اب تو مجلس میں جا، میں ہیاں بیٹھوں ہوں۔‘‘ پھر ذرا رک کے بولے، ’’کوئی تجھے مجلس میں بلانے آیا تھا؟‘‘

    ’’ہاں، اشرف اور محمدو آئے تھے۔‘‘

    ’’مجھے بھی پوچھتے ہوں گے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’پھر تو کیا بولا؟‘‘

    ’’میں نے کیا بستی گئے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’پھر وہ بھی تو کچھ بولے ہوں گے؟‘‘

    ’’نہ، بولتے کیا۔۔۔‘‘ اللہ دیے نے ایک منٹ چپ رہ کر کہا، پھر زمین کریدنے لگا۔ استاد مسکرائے، ’’اللہ دیے مجھ سے چھپامت، میں سب دیکھ رہا ہوں۔۔۔ ویسے، ویسے ٹھیک بھی ہے، آخر لوگ کب تک یہاں پڑے رہیں گے۔۔۔ اپنے اپنے گھر ہیں محنت مزدوری، روزگار ہے، بال بچے ہیں، میرا تو کوئی آگے پیچھے ہے نہیں، اکیلا آدم ہوں، اللہ کا خادم۔۔۔‘‘ وہ ذرا سا ہنسے، پھر ایک ٹھنڈی سانس بھری، پل بھر کو چپ رہے، پھر ایک دم سراٹھاکے بولے، ’’لے اچھا، اب تو مجلس میں جا۔‘‘

    ’’کیوں تم نہ چلنے کے ہو مجلس میں۔۔۔ اچھا، میں جاکے کسی کو بھیجے دوں ہوں، ہیاں بیٹھے، تم آجائیوں۔‘‘

    ’’نہ رہنے دے، آج کی رات میں کیں نہ جانے کا ہوں، علم کے ساتھ اکیلا ہی رہنا چاہوں ہوں۔۔۔ تو جا۔‘‘

    اللہ دیا حیران ہوکران کا منہ تکنے لگا، وہ مسکرادیے، پھر ا یک بارگی انہوں نے اپنے دونوں بازو پھیلادیے۔ اللہ دیا ان کے سینے سے لگ کر سسکیاں بھرنے لگا۔۔۔ وہ اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولے، ’’ارے واہ رے میرے مٹی کے شیر، باؤلا ہوا ہے، بہادر مرد کیں روویں ہیں۔‘‘

    پھر آہستہ سے بولے، ’’دیکھ اللہ دیے، آج سوئم کی رات ہے نہ؟‘‘ اللہ دیا بولا، ’’ہوں۔۔۔‘‘

    ’’تو مولا چاہیں تو آج کچھ ہووے گا ضرور۔۔۔ تو دیکھ لیجیو، معجزہ پروردگار کا۔۔۔ اچھا چل جا اب۔‘‘

    اللہ دیے جانے کے لیے اٹھا، مجوشاہ اسی پیر کے تنے سے پیٹھ لگاکے بیٹھ گئے، جس سے علم ٹکا ہوا تھا۔۔۔ ان کی نگاہیں دونوں کھمبوں پر جمی تھیں اور ان کے بیچ میں تنے جھلملاتے ہوئے تار پر بار بار ٹھہرتی تھیں!

    مجلس بارہ بجے کے قریب ختم ہوئی، اللہ دیا لوٹا تو مجوشاہ وہیں دری بچھائے آڑے لیٹے، جاگ رہے تھے، اس نے ان کا حصہ ان کو پکڑایا، صراحی سے ایک گلاس پانی انڈیل کر ان کو دیا۔۔۔ انہوں نے حصہ کھایا، پانی پیا، پھر بستر کرتے ہوئے اللہ دیے سے بولے، ’’تو یہاں سوئے گا بھیے؟‘‘

    ’’تو اور کاں؟ روز ہیئں سوؤں ہوں۔‘‘

    ’’وہ میں پاؤں پھیلاؤں ہوں تو مجھے اڑچن لگے ہے، ذرا ادھر کو کھینچ لے بیری تلے۔‘‘

    اللہ دیے نے چپ چاپ اپنا بستر بیری تلے کھینچ لیا۔

    دھیرے دھیرے سب لالٹین بجھ گئیں، صرف ممانی کے خیمے والی جل رہی تھی، زنانی مجلس ختم ہوئے بھی دیر ہوئی تھی لیکن ممانی ابھی تک اپنے بستر پر آڑی لیٹی، مناجات گنگناتی ہوئی، تمباکو، چونا اور چھالیہ ہتھیلی پر مل مل کر پھانک رہی تھیں۔۔۔ ان کو نیند نہیں آرہی تھی، سرہانے کی طرف اختری لیٹی گہری نیند سو رہی تھی اورپائنتی شبراتی کی ماں پوتے کو بغل میں چادر میں دبائے سو رہی تھی۔۔۔ اور بھی کئی عورتیں بچے نیند میں غافل پڑے سو رہے تھے۔

    تمباکو پھانک کر ممانی دبے پاؤں باہر نکل آئیں۔۔۔ یہاں سے وہاں تک سب لوگ سو رہے تھے، تار کے پاس پہرہ دینے والے سپاہی تک سوگئے تھے۔۔۔ صرف چاند جاگ رہا تھا۔۔۔ وہ ایک منٹ کھڑی یہ منظر دیکھتی رہیں، خاموش، اداس! پھر اپنے چادروں سے گھرے خیمہ میں لوٹ آئیں، دو ایک منٹ چپ چاپ بستر پر بیٹھی رہیں، پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اپنے تھکے، درد کرتے ہوئے پیر پھیلائے، چادر کو پھٹکار کراوڑھا، تکیہ کو ایک بار اور ٹھیک کیا اور لیٹتے ہوئے ہاتھ بڑھاکر لالٹین کی بتی نیچے کھسکا ہی رہی تھیں کہ ایک دم چونک پڑیں، چادر جلدی سے ہٹاکر وہ کان لگاکے سننے لگیں اور پھر چلائیں، ’’اختری، اے اختری، اٹھ تو سئی، گے کون کودا؟‘‘

    اختری ہڑبڑاکے اٹھ بیٹھی، ’’کیا ہوا، کیا ہوا ممانی۔۔۔ کوئی کودا؟ کاں؟‘‘

    ’’جانے کیا تھا، ایسا لگے ہے کہ کوئی بڑے اونچے سے کودا۔‘‘

    شبراتی کی بہو بھی چونک کے اٹھ بیٹھی، ’’محمدو بھئیے کو آوازدوں؟‘‘

    ’’اے نہ، وہ تو مردوں سے شرط باندھ کے سوئے ہے اللہ مارا، اس کے سر پر تو فرشتے ڈھول تاشے بجاویں تب بھی وہ خبر نہ لیوے گا ہے۔۔۔ منوہر کو پکار۔۔۔‘‘ پھر ذرا رک کے بولیں، ’’دیکھ ذرا سن تو سہی، کراہنے کی بھی تو آواز آرہی ہے گی۔۔۔ گے ہے کیا معاملہ، یا اللہ خیرکیجیو۔ منوہر، اے منوہر بھئیے۔۔۔‘‘ وہ ہراساں ہوکر خود ہی خیمے سے نکل پڑیں اور زور سے چلانے لگیں۔۔۔ اتنے میں سب عورتیں اٹھ گئیں اور حلقہ باندھ کر فریادی ماتم ہونے لگا، امداد کو آؤ، فریاد کو پہنچو!

    شور سے اللہ دیے کی آنکھ کھلی، وہ وہیں سے چلایا، ’’اجی کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟‘‘

    ’’بھئیے ذرا اٹھ کے دیکھ تو، میں نے کسی کے گرنے کی آواز سنی جیسے کوئی بڑے اونچے سے دھم سے کودا کہ جنے گر پڑا۔۔۔ کراہنے کی بھی آواز آری ہے، سن۔۔۔‘‘

    ’’کدھر سے آئی آواز؟‘‘

    ’’ادھری، تار کی طرف سے۔‘‘

    اللہ دیے کی نظریں فوراً تار کی طرف اٹھ گئیں اور پھر۔۔۔ کھلی کی کھلی، پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، وہ سکتے کے عالم میں اپنی جگہ پر جما کا جما رہ گیا۔۔۔ اس نے دیکھا کہ بڑا علم دھیرے دھیرے تار کی طرف بڑھ رہا ہے اور بس اب پار ہوا ہی چاہتا ہے، جھاڑیوں اور لمبی لمبی گھاس کی وجہ سے یہ نظر نہیں آسکتا تھا کہ نیچے سے اسے کوئی پکڑے تھا مگر کوئی نہ کوئی پکڑے تھا۔ ہوگا ورنہ وہ چل کیسے رہا تھا۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ، ادھر ہی سے کراہنے کی آواز بھی آرہی تھی، جو لمحہ بہ لمحہ تیز تر ہوتی جارہی تھی جیسے کسی کا اب دم نکلا، تب نکلا!

    اللہ دیا پاگلوں کی طرح مجوشاہ کا بستر ٹٹولنے لگا، بستر خالی تھا، تکیہ ایک طرف کو لڑھکا ہوا تھا اور وہ کپڑا کھلا پڑا تھا۔۔۔ وہ ہرے رنگ کا کپڑا جس میں وہ رات ایک پوٹلی سی باندھ کے لائے تھے۔۔۔

    اللہ دیا ایک دم چیختا ہوا، زور زور سے روتا ہوا تار کی طرف، آوازیں دیتا ہوا دوڑنے لگا، ’’محمدو، شرفو، نورے، ابے دوڑیو، معجزہ ہوا۔۔۔ تار کٹ گیا، تار کٹ گیا، معجزہ ہوا۔‘‘

    ساری لالٹین ایک ساتھ جل اٹھیں، سناٹے کی چادر چرچراکے پھٹ گئی، سب دوڑنے لگے، میدان میں بھاگتے ہوئے قدموں کے علاوہ کسی دوسری آواز کا گزر نہ تھا۔۔۔ دھپادھپ، دھمادھم، بھدابھد۔۔۔ عورتیں ماتم کرتی رہیں، بچے نیند سے اٹھ کر رونے لگے، درختوں میں بیٹھے دبکے ہوئے پرندے چاندنی میں ادھر ادھر نکل کر اڑنے اور پیڑوں سے ٹکرانے لگے۔۔۔ منٹوں میں سب کچھ یوں بدل گیا جیسے مردہ جسم میں یکایک پھر سے زندگی کی لہر دوڑ گئی ہو۔

    جب اللہ دیا سب سے آگے دوڑتا ہوا تار کے پاس پہنچا تو مجوشاہ علم لیے تار سے چار پانچ قدم آگے بڑھ چکے تھے۔ آس پاس پولیس کے کچھ سپاہی بھونچکا کھڑے ان کو تکے جارہے تھے۔ اللہ دیے کو دیکھتے ہی مجو شاہ نے ایک دردناک کراہ کی آواز بلند کی اور پھر زور سے بولے، ’’اللہ دیے، علم کو سنبھال، یہ گرنے نہ پائے، اسے سنبھال بھئیے۔‘‘

    اللہ دیے نے ایک ہاتھ سے علم کو پکڑا اور دوسرے سے مجوشاہ کو سہارا دے ہی رہا تھا کہ اور لوگ آگئے اور انہوں نے ہر طرف سے علم کو پکڑ لیا۔۔۔ آگے کو ذرا سا جھکاہوا، ڈولتا، کپکپاتا ہوا علم کئی ہاتھوں کا سہارا پاکر پھر سیدھا اور سربلند ہوگیا۔

    اللہ دیے نے مٹی میں پڑے ہوئے مجوشاہ کو سیدھا کیا، ان کے منہ سے خون جاری تھا، گردن پھرا کر انہوں نے ایک بار مڑ کر علم کودیکھا اور پھر اسے سیدھا پاکر اطمینان کی ایک گہری سانس لی۔ اللہ دیے نے ان کے کندھوں کو سہارا دے کر ان کا سراٹھاکر اپنے زانو پر رکھ لیا۔۔۔ ان کی سانس اکھڑ چکی تھی۔

    اللہ دیے کی طرف دیکھ کر وہ ایک بار مسکرائے، پھر ایک دم کان لگاکے سننے لگے، علم تعزیے اب اور آگے جارہے تھے اور ماتم ہو رہا تھا۔ شبیر اٹھائے ہیں اب حق کا علم حسینا، ہے راہ صداقت میں حضرت کا قدم تنہا۔۔۔

    مجوشاہ کی آنکھوں کے کونوں سے دو آنسو ڈھلک پڑے، دھیمے سے بولے، ’’اللہ دیے، تو نے دیکھ لیا نہ۔۔۔ معجزہ، معجزہ پروردگار کا۔۔۔ شکر، شکر پالن ہار کا۔۔۔ شکر۔۔۔ ش۔۔۔‘‘

    اور ان کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے