Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مہاجر پرندے

شفق

مہاجر پرندے

شفق

MORE BYشفق

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے، جس کے ماں باپ اسے فسادیوں سے بچانے کے لیے گاؤں سے دور بھیج دیتے ہیں۔ وہاں سے بھاگ کر وہ ایک پادری کے گھر میں پناہ لیتا ہے۔ اس کے وہاں آنے کے کچھ دن بعد ہی دائیں بازو کے گروہ کا ایک رکن پادری کا قتل کر دیتا ہے اور پولس اس قاتل کو پکڑنے کی بجائے پادری پر ہی زبردستی تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر شمبھو کو اس کی گواہی دینے کے لیے کہتی ہے۔‘‘

    ہوش آیا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اوندھے منہ زمین پر پڑا ہوا ہے۔

    اس نے ہاتھ سے ٹٹول کر کھردری اور ننگی زمین کا لمس محسوس کیا۔ آنکھیں کھولنی چاہیں تو داہنی آنکھ سوج کر بند ہو گئی تھی۔ کروٹ بدلنے کی کوشش میں ہونٹوں سے کراہ نکل گئی، ریڑھ کی ہڈی میں درد کی تیز لہر اٹھی اور پورے بدن میں پھیل گئی۔

    میں کہاں ہوں؟ اس نے بڑی مشکل سے زمین پر پھیلے ہوئے اپنے جسم کو سمیٹا اور اٹھ کربیٹھ گیا۔ درد کی چادر پورے بدن کو اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑکر دیکھنا چاہا اور یہ خیال ذہن میں کوندا کہ شاید بینائی زائل ہو گئی ہے۔ پیاس سے سوکھی ہوئی زبان اور سوجے ہوئے ہونٹ، کیا میں گھر لوٹ آیا ہوں؟ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ لمس ابھی زندہ تھا، پیشانی پر چپچپاہٹ محسوس ہوئی تو یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ باپو کا لگایا ہوا تلک ابھی باقی ہے۔ باپو نے چمپا، گوری، چنچل اور پارو کو اس کے سامنے تلک لگایا تھا۔ ماں باپو ان سے لپٹ کر خوب روئے تھے۔ ان کے جسموں پر پیار سے ہاتھ پھیرے، پھر رسیاں کھول دیں۔ میری بیٹیو! جہاں جی چاہے چلی جاؤ ہم تمہیں اپنے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ چاروں ٹکر ٹکر انہیں دیکھتی رہیں، کھونٹے سے لگی کھڑی رہیں۔ سنا نہیں تم نے، جاتی کیوں نہیں ہو؟ باپو نے چلا کر کہا تو وہ مردہ قدموں سے ناؤ تک گئیں۔ وہ بالکل خالی تھی، نہ گھاس کا ایک تنکا نہ پانی کی ایک بوند، انہوں نے پلٹ کر باپو کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہوئے تھے۔

    شمبھو! جاؤ انہیں گاؤں سے باہر ہانک آؤ۔ جب شمبھو گایوں کو گاؤں سے باہر ہانک آیا تو ماں نے اسے باہوں میں بھر لیا۔ وہ اس کے منہ پر اپنا منہ رگڑ رہی تھی۔ پھر باپو نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جب شمبھو نے ماں کے سینے سے سر اٹھایا تو باپو نے اس کے ماتھے پر بھی تلک لگا دیا۔ پھر رندھے ہوئے گلے سے کہا۔

    ’’شمبھو! تم کہیں بھی چلے جاؤ۔ بارش ہو تو لوٹ آنا۔ تب تک ہم زندہ رہے تو۔۔۔‘‘ آواز ہچکیوں میں ڈوب گئی۔

    اس نے حیرت اور دکھ سے ماں باپو کو دیکھا۔ ان کے سوکھے ہوئے اداس چہرے، غم کی شدت سے تاریک ہو رہے تھے۔ آنکھیں ساون بھادو بنی ہوئی تھیں۔ صرف شمبھو کے والدین نے ہی نہیں، گاؤں والوں نے اپنی عزیز ترین چیزیں آزاد کر دی تھیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے ان کے مرنے کا دردناک منظر کیسے دیکھ سکیں گے۔

    شمبھو مضبوط دل کا لڑکا تھا، گھر سے نکلتے وقت رویا نہیں۔ ماں باپو کے پاؤں چھوئے اور حوصلے کے ساتھ کہا، میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا اور بارش ہوتے ہی گھر لوٹ آؤں گا۔

    سوکھی اور تڑخی ہوئی ان داتا دھرتی، سوکھے ہوئے تال تلیا، ببول کے جھنڈ، آگ اگلتا سورج، لوکے تھپیڑے، ہڈیوں کا ڈھیر، ہڈیوں کے خوشحال بیوپاری، ٹرکوں پر لادی جاتی ہڈیاں، خوشی سے چمکتے چہرے، آج نہیں تو کل چمپا، گوری چنچل کی ہڈیاں بھی ٹرکوں پر لادی جائیں گی۔ اس نے بڑے دکھ سے سوچا اور قدموں کی رفتار تیز کر دی۔ وہ موت کی اس وادی سے جتنا جلد دور چلا جائے بہتر ہے۔

    بہت دور چل کر اسٹیشن آیا اور وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک ٹی ٹی ای نے اسے اسٹیشن پر دھکیل نہیں دیا۔ وہ نہیں جانتا تھا یہ کون سی جگہ اور کون سا اسٹیشن ہے۔ وہ اسٹیشن سے باہر نکلا اور چلتا رہا، نہ جانے کب تک چلتا رہا پھر بھوک پیاس سے نڈھال ہوکر گر پڑا۔

    آنکھیں کھلیں تو ایک مہربان چہرہ اس پر جھکا ہوا تھا۔ مہربان آنکھیں، مہربان ہونٹ۔ میرے بچے تم میرے دروازے پر پڑے ہوئے تھے۔ تمہیں پربھو یسوع نے بھیجا ہے۔ تم یسوع کے مہمان ہو۔ عظیم باپ سب کی فکر رکھتا ہے۔

    کئی دنوں تک شمبھو خواب اور حقیقت میں فرق کی کوشش کرتا رہا۔ صاف ستھرا گھر، پھولوں کے پودے، اچھا کھانا اور مہربان فادر، وہ اس گھر کا ملازم نہیں، ایک فرد تھا، جو فادر کے باہرجانے پر گھر کی رکھوالی کرتا۔ باورچی خانہ سنبھالتا۔ بازار سے سودا سلف لاتا، فادر گھر پر ہوتا تو زیادہ وقت لکھتا رہتا۔ گنگناتا رہتا اور شمبھو اس کے لئے چائے یا کافی بناتا رہتا۔ دن آرام سے کٹ جاتا، رات کو سونے سے پہلے وہ ماں باپو کو یاد کرتا، اس کے گالوں پر اب تک ماں کی شفیق انگلیوں کا لمس اور ماتھے پر باپو کا لگایا ہوا تلک موجود تھا۔

    شمبھو نے اپنا ماتھا چھوا۔ چپچپاہٹ سے اندازہ لگایا کہ سر سے بہا ہوا خون وقت گزرنے پر جم گیا ہے۔ بیٹھنے سے درد کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ اس نے کھڑا ہونا چاہا، ٹخنوں پر پڑنے والی ٹھوکروں نے ہڈی کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس نے دیوار کے سہارے کے لئے ہاتھ پھیلائے تو ہاتھ ہوا میں گھوم کر رہ گئے۔ اس نے قدم آگے بڑھانا چاہا تو کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس سے چت لیٹا نہ گیا تو دھیرے دھیرے پھر اوندھ گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے فادر کی لاش اوندھے منہ زمین پر پڑی تھی اور پیٹ کے نیچے سے رینگ کر خون کی لکیر زمین پر پھیل رہی تھی۔

    بازار کی جس دکان سے وہ سبزیاں لاتا تھا وہاں ایک دن سیاہ رو، دبلا پتلا، ماتھے پر ٹیکہ لگائے ایک شخص پہلے سے موجود تھا۔ جب شمبھو، ٹماٹر، آلو اور ہری مرچیں خرید چکا تو اس آدمی نے اس سے نام پوچھا، شمبھو نے دیکھا تھا کہ سبزی فروش نے اسے کوئی اشارہ کیا ہے۔

    شمبھو نے اپنا نام بتایا تو اس شخص نے نیا نام پوچھا۔۔۔ جوزف یا مائیکل۔

    شمبھو نے حیرت سے اسے دیکھا۔ میرا پہلا اور آخری نام شمبھو ہے۔ اسے یہ آدمی بالکل اچھا نہ لگا۔ خصوصاً اس کی آنکھیں اور نام پوچھنے کا طنزیہ انداز۔

    تو تم ابھی تک شمبھو ہی ہو، جوزف نہیں بنے۔ اس کے لہجے میں بڑی چبھن اور نفرت تھی۔ تمہارا فادر تو دھرم پریورتن کراتا پھرتا ہے، تمہیں کیسے چھوڑ دیا؟

    شمبھو کو اس آدمی سے ڈر لگنے لگا تھا۔ وہ خموشی سے گھر چلا آیا۔ جب رات کو فادر لکھنے کی میز پر بیٹھے تو شمبھو نے آج کا واقعہ بتاکر پوچھا تھا۔

    ’’فادر کیا وہ آدمی سچ کہہ رہا تھا؟‘‘

    فادر کچھ دیر تک چپ رہے۔ جیسے جواب دینے کے لئے مناسب الفاظ سوچ رہے ہوں۔ انہوں نے قلم میز پر رکھ دیا، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر پوچھا، ’’تم نے ہندو دھرم کب قبول کیا؟‘‘

    ’’میں تو پیدا ہی ہندو دھرم میں ہوا ہوں۔‘‘

    فادر کے ہونٹوں پر مہربان سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’میرے بچے، ہم کسی کا دھرم پریورتن نہیں کراتے۔ ہم تو ہزاروں برس پہلے جنگلوں اور پہاڑوں میں کھدیڑے ہوئے لوگوں کو آدمی کی جون میں واپس لا رہے ہیں اور وہی ذہنیت اس کی مخالفت کر رہی ہے، جس نے انہیں، جنگلوں میں ڈھکیلا تھا اور پھر اس طرح بھول گئے جیسے وہ انسان ہیں نہ اس دھرتی کے حقیقی مالک۔ وہ ذہن پچاس برسوں تک مسلمانوں کو حملہ آورکہہ کر بےچین کئے رہا اور مسجد کا ملبہ سرجو میں بہا دیا تو چین کا سانس لیا، جیسے بابر کو ملک باہر کیا ہو۔ اب ان کا زہریلا منہ ہماری طرف پھر گیا ہے کہ ہم نے بھی تو یہاں حکومت کی ہے۔ انہوں نے آسٹریلین مشنری اور ان کے معصوم بچوں کو کار میں زندہ جلا دیا اور اب پورے ملک میں ہمارے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ہمیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیک کام کرنے والوں کو ہر زمانے میں سزا ملی ہے۔ ان پر الزام لگا ہے۔‘‘

    شمبھو اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا کہ فادر کی باتیں سمجھ سکتا۔ وہ تو ہاں ناں میں جواب چاہتا تھا۔ جب باورچی خانے سے ہانڈی لگنے کی مہک آئی تو وہ باورچی خانے کی طرف بھاگا۔ اچانک ٹین کے سائبان پر بارش کا شور سنائی دیا۔ سوندھی مٹی کی خوشبو اسے یہ یاد دلانے آئی تھی کہ مہاجر پرندوں کی وطن واپسی کا موسم آ گیا ہے۔ اگر تمہارے والدین زندہ ہوں گے تو بادلوں میں تمہارا چہرہ ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ ان کی متاعِ حیات تو تم ہی ہو، ان کے اکلوتے بیٹے، گوری، چنچل، چمپا کی ہڈیاں نہ جانے کس کارخانے میں پس کر کھا دیا منجن بن گئی ہوں گی یا بننے والی ہوں گی۔

    شمبھو بادل دیکھ کر فادر سے یہی کہنے جارہا تھا۔ اگر وہ باہر چلے جاتے تو شام کو لوٹتے اور بادل دیکھ کر شمبھو کا دل ماں باپو کے لئے بےچین ہو گیا تھا۔ اسے گاؤں یاد آ رہا تھا۔ ہونٹ وا کئے دھرتی تالابوں کے پیڑی بھرے پیٹ، آسمان پر منڈلاتے گدھ، گاؤں والوں کی آسمان تکتی نگاہیں۔ بادل پوری فضا کو نئی زندگی کا مژدہ سنا رہا ہوگا اور لوگ آنکھوں میں آنسو بھرے اپنے والوں کو یاد کر رہے ہوں گے۔ ایسے میں وہ گاؤں لوٹ جائے تو ماں باپو کتنا خوش ہوں گے۔ فادر نے وعدہ کیا تھا کہ گاؤں جاتے وقت اسے ایک گائے کی قیمت دے دیں گے اور فادر کے باہر جانے سے پہلے وہ اپنے گاؤں جانے کی اطلاع دے دینا چاہتا تھا۔

    جب وہ کمرے سے باہر نکلا تو فادر روش عبور کر کے گیٹ تک پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے گیٹ کھولا اور باہر نکل کر آہستگی سے گیٹ بند کر دیا۔ شمبھو نے اپنی رفتار اور تیز کر دی۔ فادر کے باہر نکلتے ہی ایک آدمی جھپٹا تھا، پھر فادر کی چیخ سنائی دی، وہ پیٹ پکڑے زمین پر جھکتے جا رہے تھے۔ پھر وہ زمین پر ڈھیر ہوگئے اور سبزی فروشوں کی دکان والا سیاہ رو شخص اطمینان سے چاقو بند کر کے جیب میں رکھ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر فادر پر ڈالی پھر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

    شمبھو گیٹ کا چھڑ پکڑے پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھر رہا تھا۔ اس کے حلق سے ایک طویل چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ اکٹھی ہو گئی۔

    بہت دیر بعد پولیس آئی۔ فادر کی برادری والے خوفزدہ بھی تھے اور برہم بھی۔ پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد لاش اٹھوادی۔ چشم دید گواہ صرف شمبھو تھا۔ پولیس اسے اپنے ساتھ تھانے لے آئی اور اسے کمرے میں ڈھکیل دیا۔

    شانے پر ستارے لگائے پولیس افسر ایک بڑی سی میز کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اسی کی پشت کی دیوار پر گاندھی جی اور پردھان منتری کی تصویریں آویزاں تھیں۔

    گاندھی جی کی تصویر دیکھ کر شمبھو کو انجانا سا سکون ملا۔ اسے گاندھی جی کا وہ کتھن یاد آ گیا جو ہر صبح انگریزی نیوز سے پہلے ریڈیو پر دہرایا جاتا تھا۔

    ہندو مسلم ایکتا ہر سمٹے اور ہر پرستھیتی میں قائم رہنے والا ہمارا اچاریہ دھرم ہونا چاہئے۔ اب مورننگ نیوز، فادر ہر صبح انگریزی نیوز ضرورت سنتے تھے۔

    پولیس آفیسر نے کھنکھارا تو اس نے چونک کر تصویر سے نظریں ہٹا لیں، انسپکٹر ہنٹر کا سرا دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر دھیرے دھیرے مار رہا تھا۔

    ’’تمہارا نام؟‘‘

    ’’شمبھو‘‘

    ’’باپ کا نام‘‘

    ’’جگ بندھو‘‘

    ’’نیا نام‘‘

    شمبھو نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔ ’’میرا نیا پرانا دونوں نام شمبھو ہے۔‘‘

    ’’سالا بہت قابل بنتا ہے،‘‘ انسپکٹر کے چہرے پر ناگواری کا سایہ گزر گیا۔ ہتھیلی پر مارتا ہوا رول رک گیا۔

    ’’وہاں کیا کرتے تھے۔۔۔‘‘ آواز میں کرختگی اور چہرے پر جلال تھا۔

    ’’باورچی‘‘

    ’’تم کرسچن ہو؟‘‘

    ’’نہیں، ہندو۔‘‘

    ’’پادری نے تمہارا دھرم پریورتن نہیں کرایا تھا؟‘‘

    شمبھو نے دھیرے سے ’نہیں‘ کہا۔

    ’’پھر وہ کیا کہتا تھا؟‘‘

    ’’وہ کہتے تھے کہ انسان کو ہر حالت میں سچ بولنا چاہئے، دوسرے کی سیوا کرنی چاہئے، کیونکہ سارا دھرم مارگ ایک بھگوان تک جاتا ہے۔‘‘

    ’’گھر میں کیا کرتا تھا؟‘‘

    ’’گیت لکھتے تھے؟‘‘

    ’’گیت۔۔۔ کیسا گیت، تمہیں کوئی گیت یاد ہے۔‘‘

    ’’نہیں، مگر وہ اپنے گیتوں میں امن شانتی او رپریم کے لئے پربھو یسوع سے پرارتھنا کرتے تھے۔‘‘

    ’’کیا تم اتنی سی بات نہیں کہہ سکتے کہ اس نے زبردستی تمہارا دھرم پریورتن کرایا تھا۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں نے انہیں وچن دیا تھا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا۔‘‘

    انسپکٹر نے ایک بھدی گالی بکی اور دونوں ٹیکہ دھاری سپاہی جو اسے اپنے ساتھ لائے تھے، چوکنا ہو گئے۔ انہوں نے بیدیں مضبوطی سے تھام لیں۔

    ’’ہاں، تو تم نے کیا دیکھا تھا؟‘‘ انسپکٹر نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر پوچھا۔

    ’’میں گاؤں جانے کی اگیا چاہتا تھا۔ فادر باہر نکل رہے تھے، میں ان کے پیچھے بھاگا، جیسے ہی وہ گیٹ کھول کر باہر نکلے میں نے دیکھا کہ۔۔۔‘‘

    اچانک اس پر دو طرف سے لاٹھیاں برسنے لگیں۔ وہ چیختا ہوا گر ا تو اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا گیا اور لات گھونسے برسنے لگے۔ وہ دبلا پتلا کمزور لڑکا، بد حال ہو گیا، ہونٹ پھٹ گئے، آنکھ پر چوٹ لگی۔ ایسا اندھیرا چھایا جیسے وہ کبھی نہ دیکھ سکےگا۔ بال چھوڑتے ہی وہ کٹی ہوئی شاخ کی طرح زمین پر گر کر سسکنے لگا۔

    ’’ہاں، اب ٹھیک ہے،’‘ انسپکٹر کی پرسکون آواز سنائی دی۔ ‘‘اسے اٹھاؤ اب یہ سچ بولےگا۔‘‘

    ’’ہاں، تو تم پر پادری نے دھرم پریورتن کے لئے ظلم کیا تھا۔‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’اس نے تم پر ظلم کیا تھا۔ تمہیں مارا تھا، تمہاری آنکھ پر چوٹ لگی ہے۔ تم آنکھیں نہیں کھول سکتے، تم نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس وقت تم باورچی خانے میں آنکھیں سینک رہے تھے۔‘‘

    ’’یہ سب جھوٹ ہے۔ شمبھو چیخا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’اس کی ماں کی۔۔۔‘‘ دونوں سپاہی اس پر پل پڑے، اس کے جسم کے نازک حصے پر ٹھوکریں پڑیں، اسے لگا کہ پیٹ پھٹ گیا، آنتیں باہر گر رہی ہیں۔ درد کا طوفان ا س کے بدن میں سر پٹکنے لگا اور وہ ذبح کئے مرغ کی طرح زمین پھر پھڑکتا پھر رہا تھا۔

    اور اب نہ جانے رات کا کون سا پہر ہے۔ دیر سے ٹین کے سائبان پر بارش ہورہی تھی، پھر بارش دھیمی ہوتے ہوئے رک گئی اور قدموں کی چاپ سنائی دی، جو اس کے کمرے کی طرف آ رہی تھی۔ خوف سے اسے دل دھڑکنیں ڈوبتی محسوس ہوئیں۔ اس نے سوجے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری، لہو کا نمکین ذائقہ زبان پر پھیل گیا۔

    ٹارچ کی روشنی میں کمرے کا قفل کھلا اور دونوں سپاہی سر پر مسلط تھے۔ اس نے سوتا بن جانا چاہا تو پسلی پر ٹھوکر پڑی، ’’اٹھ مادر۔۔۔ باپ کا گھر ہے جو ٹانگیں پسارے سو رہا ہے۔‘‘

    شمبھو نے اٹھ جانے میں عافیت سمجھی وہ مشکل سے اٹھ کر کھڑا ہوا مگر چوٹ موچ نے کھڑا نہ رہنے دیا۔ وہ گرپڑا۔۔۔ پھر کھڑا ہوا اور گرا، جب تیسری بار کھڑا ہوا تو دونوں نے بغلوں سے تھام لیا اور اس طرح گھسٹتے ہوئے چلے کہ سارا بوجھ ان پر تھا اور اس کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔

    وہی کمرہ وہی تصویریں وہی کرسی اور وہی ستارے۔ اسے زمین پر ڈال دیا گیا۔ سپاہیوں نے انسپکٹر کو بتایا کہ یہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ انسپکٹر کرسی سے اٹھا، شمبھو کی حالت اس پنکھ ٹوٹے فاختہ جیسی ہورہی تھی جسے بھوکے کرگسوں کے سامنے ڈال دیا گیا ہو اور وہ اس کا زندہ گوشت نوچنے کے لئے دھیرے دھیرے ا س کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ اس سے پھر وہی سوال پوچھا گیا، ’’پادری نے دھرم پریورتن کے لئے تم پر ظلم کیا تھا نا؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’تم نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘

    شمبھو نے اپنے خشک ہوتے حلق میں عجیب سے خرخراہٹ محسوس کی۔ اسے ابکائی آرہی تھی۔ باہر بارش پھر شروع ہو گئی تھی۔ بادل شاید اپنے کھو جانے والوں کے لئے رو رہے ہیں۔ اس نے ماں باپو اور فادر کو یاد کیا۔ اینٹھی ہوئی زبان سے بمشکل ہاں کہاں اور ذہن کو چاروں طرف سے سمیٹ کو ماں باپو کے چہروں پر مرکوز کر دیا۔

    اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر بوٹ کی ایڑیاں دباؤ بڑھاتے بڑھاتے گھومنے لگیں۔ اس نے دیکھا سارا گاؤں جل تھل ہو رہا ہے اور اس کے ماں باپو گاؤں کے باہر گاؤں آنے والی راہ پر نظریں جمائے کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کر شمبھو بڑے زور سے چیخا تھا۔ ماں باپو مہاجر پرندوں کی واپسی کا موسم آ گیا ہے۔ میں آ رہا۔۔۔ ہوں۔ ہوش آیا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اوندھے منہ زمین پر پڑا ہوا ہے۔

    اس نے ہاتھ سے ٹٹول کر کھردری اور ننگی زمین کا لمس محسوس کیا۔ آنکھیں کھولنی چاہیں تو داہنی آنکھ سوج کر بند ہو گئی تھی۔ کروٹ بدلنے کی کوشش میں ہونٹوں سے کراہ نکل گئی، ریڑھ کی ہڈی میں درد کی تیز لہر اٹھی اور پورے بدن میں پھیل گئی۔

    میں کہاں ہوں؟ اس نے بڑی مشکل سے زمین پر پھیلے ہوئے اپنے جسم کو سمیٹا اور اٹھ کربیٹھ گیا۔ درد کی چادر پورے بدن کو اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑکر دیکھنا چاہا اور یہ خیال ذہن میں کوندا کہ شاید بینائی زائل ہو گئی ہے۔ پیاس سے سوکھی ہوئی زبان اور سوجے ہوئے ہونٹ، کیا میں گھر لوٹ آیا ہوں؟ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ لمس ابھی زندہ تھا، پیشانی پر چپچپاہٹ محسوس ہوئی تو یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ باپو کا لگایا ہوا تلک ابھی باقی ہے۔ باپو نے چمپا، گوری، چنچل اور پارو کو اس کے سامنے تلک لگایا تھا۔ ماں باپو ان سے لپٹ کر خوب روئے تھے۔ ان کے جسموں پر پیار سے ہاتھ پھیرے، پھر رسیاں کھول دیں۔ میری بیٹیو! جہاں جی چاہے چلی جاؤ ہم تمہیں اپنے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ چاروں ٹکر ٹکر انہیں دیکھتی رہیں، کھونٹے سے لگی کھڑی رہیں۔ سنا نہیں تم نے، جاتی کیوں نہیں ہو؟ باپو نے چلا کر کہا تو وہ مردہ قدموں سے ناؤ تک گئیں۔ وہ بالکل خالی تھی، نہ گھاس کا ایک تنکا نہ پانی کی ایک بوند، انہوں نے پلٹ کر باپو کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہوئے تھے۔

    شمبھو! جاؤ انہیں گاؤں سے باہر ہانک آؤ۔ جب شمبھو گایوں کو گاؤں سے باہر ہانک آیا تو ماں نے اسے باہوں میں بھر لیا۔ وہ اس کے منہ پر اپنا منہ رگڑ رہی تھی۔ پھر باپو نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جب شمبھو نے ماں کے سینے سے سر اٹھایا تو باپو نے اس کے ماتھے پر بھی تلک لگا دیا۔ پھر رندھے ہوئے گلے سے کہا۔

    ’’شمبھو! تم کہیں بھی چلے جاؤ۔ بارش ہو تو لوٹ آنا۔ تب تک ہم زندہ رہے تو۔۔۔‘‘ آواز ہچکیوں میں ڈوب گئی۔

    اس نے حیرت اور دکھ سے ماں باپو کو دیکھا۔ ان کے سوکھے ہوئے اداس چہرے، غم کی شدت سے تاریک ہو رہے تھے۔ آنکھیں ساون بھادو بنی ہوئی تھیں۔ صرف شمبھو کے والدین نے ہی نہیں، گاؤں والوں نے اپنی عزیز ترین چیزیں آزاد کر دی تھیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے ان کے مرنے کا دردناک منظر کیسے دیکھ سکیں گے۔

    شمبھو مضبوط دل کا لڑکا تھا، گھر سے نکلتے وقت رویا نہیں۔ ماں باپو کے پاؤں چھوئے اور حوصلے کے ساتھ کہا، میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا اور بارش ہوتے ہی گھر لوٹ آؤں گا۔

    سوکھی اور تڑخی ہوئی ان داتا دھرتی، سوکھے ہوئے تال تلیا، ببول کے جھنڈ، آگ اگلتا سورج، لوکے تھپیڑے، ہڈیوں کا ڈھیر، ہڈیوں کے خوشحال بیوپاری، ٹرکوں پر لادی جاتی ہڈیاں، خوشی سے چمکتے چہرے، آج نہیں تو کل چمپا، گوری چنچل کی ہڈیاں بھی ٹرکوں پر لادی جائیں گی۔ اس نے بڑے دکھ سے سوچا اور قدموں کی رفتار تیز کر دی۔ وہ موت کی اس وادی سے جتنا جلد دور چلا جائے بہتر ہے۔

    بہت دور چل کر اسٹیشن آیا اور وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک ٹی ٹی ای نے اسے اسٹیشن پر دھکیل نہیں دیا۔ وہ نہیں جانتا تھا یہ کون سی جگہ اور کون سا اسٹیشن ہے۔ وہ اسٹیشن سے باہر نکلا اور چلتا رہا، نہ جانے کب تک چلتا رہا پھر بھوک پیاس سے نڈھال ہوکر گر پڑا۔

    آنکھیں کھلیں تو ایک مہربان چہرہ اس پر جھکا ہوا تھا۔ مہربان آنکھیں، مہربان ہونٹ۔ میرے بچے تم میرے دروازے پر پڑے ہوئے تھے۔ تمہیں پربھو یسوع نے بھیجا ہے۔ تم یسوع کے مہمان ہو۔ عظیم باپ سب کی فکر رکھتا ہے۔

    کئی دنوں تک شمبھو خواب اور حقیقت میں فرق کی کوشش کرتا رہا۔ صاف ستھرا گھر، پھولوں کے پودے، اچھا کھانا اور مہربان فادر، وہ اس گھر کا ملازم نہیں، ایک فرد تھا، جو فادر کے باہرجانے پر گھر کی رکھوالی کرتا۔ باورچی خانہ سنبھالتا۔ بازار سے سودا سلف لاتا، فادر گھر پر ہوتا تو زیادہ وقت لکھتا رہتا۔ گنگناتا رہتا اور شمبھو اس کے لئے چائے یا کافی بناتا رہتا۔ دن آرام سے کٹ جاتا، رات کو سونے سے پہلے وہ ماں باپو کو یاد کرتا، اس کے گالوں پر اب تک ماں کی شفیق انگلیوں کا لمس اور ماتھے پر باپو کا لگایا ہوا تلک موجود تھا۔

    شمبھو نے اپنا ماتھا چھوا۔ چپچپاہٹ سے اندازہ لگایا کہ سر سے بہا ہوا خون وقت گزرنے پر جم گیا ہے۔ بیٹھنے سے درد کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ اس نے کھڑا ہونا چاہا، ٹخنوں پر پڑنے والی ٹھوکروں نے ہڈی کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس نے دیوار کے سہارے کے لئے ہاتھ پھیلائے تو ہاتھ ہوا میں گھوم کر رہ گئے۔ اس نے قدم آگے بڑھانا چاہا تو کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس سے چت لیٹا نہ گیا تو دھیرے دھیرے پھر اوندھ گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے فادر کی لاش اوندھے منہ زمین پر پڑی تھی اور پیٹ کے نیچے سے رینگ کر خون کی لکیر زمین پر پھیل رہی تھی۔

    بازار کی جس دکان سے وہ سبزیاں لاتا تھا وہاں ایک دن سیاہ رو، دبلا پتلا، ماتھے پر ٹیکہ لگائے ایک شخص پہلے سے موجود تھا۔ جب شمبھو، ٹماٹر، آلو اور ہری مرچیں خرید چکا تو اس آدمی نے اس سے نام پوچھا، شمبھو نے دیکھا تھا کہ سبزی فروش نے اسے کوئی اشارہ کیا ہے۔

    شمبھو نے اپنا نام بتایا تو اس شخص نے نیا نام پوچھا۔۔۔ جوزف یا مائیکل۔

    شمبھو نے حیرت سے اسے دیکھا۔ میرا پہلا اور آخری نام شمبھو ہے۔ اسے یہ آدمی بالکل اچھا نہ لگا۔ خصوصاً اس کی آنکھیں اور نام پوچھنے کا طنزیہ انداز۔

    تو تم ابھی تک شمبھو ہی ہو، جوزف نہیں بنے۔ اس کے لہجے میں بڑی چبھن اور نفرت تھی۔ تمہارا فادر تو دھرم پریورتن کراتا پھرتا ہے، تمہیں کیسے چھوڑ دیا؟

    شمبھو کو اس آدمی سے ڈر لگنے لگا تھا۔ وہ خموشی سے گھر چلا آیا۔ جب رات کو فادر لکھنے کی میز پر بیٹھے تو شمبھو نے آج کا واقعہ بتاکر پوچھا تھا۔

    ’’فادر کیا وہ آدمی سچ کہہ رہا تھا؟‘‘

    فادر کچھ دیر تک چپ رہے۔ جیسے جواب دینے کے لئے مناسب الفاظ سوچ رہے ہوں۔ انہوں نے قلم میز پر رکھ دیا، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر پوچھا، ’’تم نے ہندو دھرم کب قبول کیا؟‘‘

    ’’میں تو پیدا ہی ہندو دھرم میں ہوا ہوں۔‘‘

    فادر کے ہونٹوں پر مہربان سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’میرے بچے، ہم کسی کا دھرم پریورتن نہیں کراتے۔ ہم تو ہزاروں برس پہلے جنگلوں اور پہاڑوں میں کھدیڑے ہوئے لوگوں کو آدمی کی جون میں واپس لا رہے ہیں اور وہی ذہنیت اس کی مخالفت کر رہی ہے، جس نے انہیں، جنگلوں میں ڈھکیلا تھا اور پھر اس طرح بھول گئے جیسے وہ انسان ہیں نہ اس دھرتی کے حقیقی مالک۔ وہ ذہن پچاس برسوں تک مسلمانوں کو حملہ آورکہہ کر بےچین کئے رہا اور مسجد کا ملبہ سرجو میں بہا دیا تو چین کا سانس لیا، جیسے بابر کو ملک باہر کیا ہو۔ اب ان کا زہریلا منہ ہماری طرف پھر گیا ہے کہ ہم نے بھی تو یہاں حکومت کی ہے۔ انہوں نے آسٹریلین مشنری اور ان کے معصوم بچوں کو کار میں زندہ جلا دیا اور اب پورے ملک میں ہمارے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ہمیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیک کام کرنے والوں کو ہر زمانے میں سزا ملی ہے۔ ان پر الزام لگا ہے۔‘‘

    شمبھو اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا کہ فادر کی باتیں سمجھ سکتا۔ وہ تو ہاں ناں میں جواب چاہتا تھا۔ جب باورچی خانے سے ہانڈی لگنے کی مہک آئی تو وہ باورچی خانے کی طرف بھاگا۔ اچانک ٹین کے سائبان پر بارش کا شور سنائی دیا۔ سوندھی مٹی کی خوشبو اسے یہ یاد دلانے آئی تھی کہ مہاجر پرندوں کی وطن واپسی کا موسم آ گیا ہے۔ اگر تمہارے والدین زندہ ہوں گے تو بادلوں میں تمہارا چہرہ ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ ان کی متاعِ حیات تو تم ہی ہو، ان کے اکلوتے بیٹے، گوری، چنچل، چمپا کی ہڈیاں نہ جانے کس کارخانے میں پس کر کھا دیا منجن بن گئی ہوں گی یا بننے والی ہوں گی۔

    شمبھو بادل دیکھ کر فادر سے یہی کہنے جارہا تھا۔ اگر وہ باہر چلے جاتے تو شام کو لوٹتے اور بادل دیکھ کر شمبھو کا دل ماں باپو کے لئے بےچین ہو گیا تھا۔ اسے گاؤں یاد آ رہا تھا۔ ہونٹ وا کئے دھرتی تالابوں کے پیڑی بھرے پیٹ، آسمان پر منڈلاتے گدھ، گاؤں والوں کی آسمان تکتی نگاہیں۔ بادل پوری فضا کو نئی زندگی کا مژدہ سنا رہا ہوگا اور لوگ آنکھوں میں آنسو بھرے اپنے والوں کو یاد کر رہے ہوں گے۔ ایسے میں وہ گاؤں لوٹ جائے تو ماں باپو کتنا خوش ہوں گے۔ فادر نے وعدہ کیا تھا کہ گاؤں جاتے وقت اسے ایک گائے کی قیمت دے دیں گے اور فادر کے باہر جانے سے پہلے وہ اپنے گاؤں جانے کی اطلاع دے دینا چاہتا تھا۔

    جب وہ کمرے سے باہر نکلا تو فادر روش عبور کر کے گیٹ تک پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے گیٹ کھولا اور باہر نکل کر آہستگی سے گیٹ بند کر دیا۔ شمبھو نے اپنی رفتار اور تیز کر دی۔ فادر کے باہر نکلتے ہی ایک آدمی جھپٹا تھا، پھر فادر کی چیخ سنائی دی، وہ پیٹ پکڑے زمین پر جھکتے جا رہے تھے۔ پھر وہ زمین پر ڈھیر ہوگئے اور سبزی فروشوں کی دکان والا سیاہ رو شخص اطمینان سے چاقو بند کر کے جیب میں رکھ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر فادر پر ڈالی پھر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

    شمبھو گیٹ کا چھڑ پکڑے پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھر رہا تھا۔ اس کے حلق سے ایک طویل چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ اکٹھی ہو گئی۔

    بہت دیر بعد پولیس آئی۔ فادر کی برادری والے خوفزدہ بھی تھے اور برہم بھی۔ پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد لاش اٹھوادی۔ چشم دید گواہ صرف شمبھو تھا۔ پولیس اسے اپنے ساتھ تھانے لے آئی اور اسے کمرے میں ڈھکیل دیا۔

    شانے پر ستارے لگائے پولیس افسر ایک بڑی سی میز کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اسی کی پشت کی دیوار پر گاندھی جی اور پردھان منتری کی تصویریں آویزاں تھیں۔

    گاندھی جی کی تصویر دیکھ کر شمبھو کو انجانا سا سکون ملا۔ اسے گاندھی جی کا وہ کتھن یاد آ گیا جو ہر صبح انگریزی نیوز سے پہلے ریڈیو پر دہرایا جاتا تھا۔

    ہندو مسلم ایکتا ہر سمٹے اور ہر پرستھیتی میں قائم رہنے والا ہمارا اچاریہ دھرم ہونا چاہئے۔ اب مورننگ نیوز، فادر ہر صبح انگریزی نیوز ضرورت سنتے تھے۔

    پولیس آفیسر نے کھنکھارا تو اس نے چونک کر تصویر سے نظریں ہٹا لیں، انسپکٹر ہنٹر کا سرا دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر دھیرے دھیرے مار رہا تھا۔

    ’’تمہارا نام؟‘‘

    ’’شمبھو‘‘

    ’’باپ کا نام‘‘

    ’’جگ بندھو‘‘

    ’’نیا نام‘‘

    شمبھو نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔ ’’میرا نیا پرانا دونوں نام شمبھو ہے۔‘‘

    ’’سالا بہت قابل بنتا ہے،‘‘ انسپکٹر کے چہرے پر ناگواری کا سایہ گزر گیا۔ ہتھیلی پر مارتا ہوا رول رک گیا۔

    ’’وہاں کیا کرتے تھے۔۔۔‘‘ آواز میں کرختگی اور چہرے پر جلال تھا۔

    ’’باورچی‘‘

    ’’تم کرسچن ہو؟‘‘

    ’’نہیں، ہندو۔‘‘

    ’’پادری نے تمہارا دھرم پریورتن نہیں کرایا تھا؟‘‘

    شمبھو نے دھیرے سے ’نہیں‘ کہا۔

    ’’پھر وہ کیا کہتا تھا؟‘‘

    ’’وہ کہتے تھے کہ انسان کو ہر حالت میں سچ بولنا چاہئے، دوسرے کی سیوا کرنی چاہئے، کیونکہ سارا دھرم مارگ ایک بھگوان تک جاتا ہے۔‘‘

    ’’گھر میں کیا کرتا تھا؟‘‘

    ’’گیت لکھتے تھے؟‘‘

    ’’گیت۔۔۔ کیسا گیت، تمہیں کوئی گیت یاد ہے۔‘‘

    ’’نہیں، مگر وہ اپنے گیتوں میں امن شانتی او رپریم کے لئے پربھو یسوع سے پرارتھنا کرتے تھے۔‘‘

    ’’کیا تم اتنی سی بات نہیں کہہ سکتے کہ اس نے زبردستی تمہارا دھرم پریورتن کرایا تھا۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں نے انہیں وچن دیا تھا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا۔‘‘

    انسپکٹر نے ایک بھدی گالی بکی اور دونوں ٹیکہ دھاری سپاہی جو اسے اپنے ساتھ لائے تھے، چوکنا ہو گئے۔ انہوں نے بیدیں مضبوطی سے تھام لیں۔

    ’’ہاں، تو تم نے کیا دیکھا تھا؟‘‘ انسپکٹر نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر پوچھا۔

    ’’میں گاؤں جانے کی اگیا چاہتا تھا۔ فادر باہر نکل رہے تھے، میں ان کے پیچھے بھاگا، جیسے ہی وہ گیٹ کھول کر باہر نکلے میں نے دیکھا کہ۔۔۔‘‘

    اچانک اس پر دو طرف سے لاٹھیاں برسنے لگیں۔ وہ چیختا ہوا گر ا تو اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا گیا اور لات گھونسے برسنے لگے۔ وہ دبلا پتلا کمزور لڑکا، بد حال ہو گیا، ہونٹ پھٹ گئے، آنکھ پر چوٹ لگی۔ ایسا اندھیرا چھایا جیسے وہ کبھی نہ دیکھ سکےگا۔ بال چھوڑتے ہی وہ کٹی ہوئی شاخ کی طرح زمین پر گر کر سسکنے لگا۔

    ’’ہاں، اب ٹھیک ہے،’‘ انسپکٹر کی پرسکون آواز سنائی دی۔ ‘‘اسے اٹھاؤ اب یہ سچ بولےگا۔‘‘

    ’’ہاں، تو تم پر پادری نے دھرم پریورتن کے لئے ظلم کیا تھا۔‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’اس نے تم پر ظلم کیا تھا۔ تمہیں مارا تھا، تمہاری آنکھ پر چوٹ لگی ہے۔ تم آنکھیں نہیں کھول سکتے، تم نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس وقت تم باورچی خانے میں آنکھیں سینک رہے تھے۔‘‘

    ’’یہ سب جھوٹ ہے۔ شمبھو چیخا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’اس کی ماں کی۔۔۔‘‘ دونوں سپاہی اس پر پل پڑے، اس کے جسم کے نازک حصے پر ٹھوکریں پڑیں، اسے لگا کہ پیٹ پھٹ گیا، آنتیں باہر گر رہی ہیں۔ درد کا طوفان ا س کے بدن میں سر پٹکنے لگا اور وہ ذبح کئے مرغ کی طرح زمین پھر پھڑکتا پھر رہا تھا۔

    اور اب نہ جانے رات کا کون سا پہر ہے۔ دیر سے ٹین کے سائبان پر بارش ہورہی تھی، پھر بارش دھیمی ہوتے ہوئے رک گئی اور قدموں کی چاپ سنائی دی، جو اس کے کمرے کی طرف آ رہی تھی۔ خوف سے اسے دل دھڑکنیں ڈوبتی محسوس ہوئیں۔ اس نے سوجے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری، لہو کا نمکین ذائقہ زبان پر پھیل گیا۔

    ٹارچ کی روشنی میں کمرے کا قفل کھلا اور دونوں سپاہی سر پر مسلط تھے۔ اس نے سوتا بن جانا چاہا تو پسلی پر ٹھوکر پڑی، ’’اٹھ مادر۔۔۔ باپ کا گھر ہے جو ٹانگیں پسارے سو رہا ہے۔‘‘

    شمبھو نے اٹھ جانے میں عافیت سمجھی وہ مشکل سے اٹھ کر کھڑا ہوا مگر چوٹ موچ نے کھڑا نہ رہنے دیا۔ وہ گرپڑا۔۔۔ پھر کھڑا ہوا اور گرا، جب تیسری بار کھڑا ہوا تو دونوں نے بغلوں سے تھام لیا اور اس طرح گھسٹتے ہوئے چلے کہ سارا بوجھ ان پر تھا اور اس کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔

    وہی کمرہ وہی تصویریں وہی کرسی اور وہی ستارے۔ اسے زمین پر ڈال دیا گیا۔ سپاہیوں نے انسپکٹر کو بتایا کہ یہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ انسپکٹر کرسی سے اٹھا، شمبھو کی حالت اس پنکھ ٹوٹے فاختہ جیسی ہورہی تھی جسے بھوکے کرگسوں کے سامنے ڈال دیا گیا ہو اور وہ اس کا زندہ گوشت نوچنے کے لئے دھیرے دھیرے ا س کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ اس سے پھر وہی سوال پوچھا گیا، ’’پادری نے دھرم پریورتن کے لئے تم پر ظلم کیا تھا نا؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’تم نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘

    شمبھو نے اپنے خشک ہوتے حلق میں عجیب سے خرخراہٹ محسوس کی۔ اسے ابکائی آرہی تھی۔ باہر بارش پھر شروع ہو گئی تھی۔ بادل شاید اپنے کھو جانے والوں کے لئے رو رہے ہیں۔ اس نے ماں باپو اور فادر کو یاد کیا۔ اینٹھی ہوئی زبان سے بمشکل ہاں کہاں اور ذہن کو چاروں طرف سے سمیٹ کو ماں باپو کے چہروں پر مرکوز کر دیا۔

    اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر بوٹ کی ایڑیاں دباؤ بڑھاتے بڑھاتے گھومنے لگیں۔ اس نے دیکھا سارا گاؤں جل تھل ہو رہا ہے اور اس کے ماں باپو گاؤں کے باہر گاؤں آنے والی راہ پر نظریں جمائے کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کر شمبھو بڑے زور سے چیخا تھا۔ ماں باپو مہاجر پرندوں کی واپسی کا موسم آ گیا ہے۔ میں آ رہا۔۔۔ ہوں۔

    مأخذ:

    وراثت (Pg. 100)

    • مصنف: شفق
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے