Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجسمہ

غلام عباس

مجسمہ

غلام عباس

MORE BYغلام عباس

    کہانی کی کہانی

    ایک بادشاہ کی اپنی ملکہ سے بے انتہا محبت کی کہانی ہے۔ باشاہ کی خواہش یہ تھی کہ ملکہ اس سے وارفتگی سے اپنی محبت کا اظہار کرے لیکن ملکہ شاہی آداب کی پابندی کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے بادشاہ افسردہ رہنے لگا اور اس نے اپنے غم سے نجات پانے کے لئے ایک خوبصورت مجسمے میں پناہ لی۔ مجسمہ کی طرف حد سے بڑھی ہوئی توجہ نے ملکہ کو بیدار کیا اور اس نے مجسمہ کے اعضا کو وقفہ وقفہ سے ایک ایک کرکے کاٹ ڈالا لیکن بادشاہ کی محویت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک دن ملکہ نے مجسمے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور بادشاہ کے قدموں میں گر پڑی۔

    بادشاہ اپنی حسین و جواں سال ملکہ کو دیوانہ وار چاہتا تھا۔ ملکہ دل ہی دل میں اس کی الفت پر ناز کرتی، مگر فطرتاً وہ عورتوں کے اس غیور و خود سر طبقہ میں سے تھی جو دنیا میں کسی کو اپنی کمزوری سے باخبر کرنا اور اپنے تئیں اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا عورت کے وقار کے منافی سمجھتا ہے۔ وہ انسان تھی اور انسانوں کی طرح اس کے سینے میں بھی درد و محبت کا طوفان بارہا اٹھتا مگر اس کا جذبہ خودداری اسے دبا لینے میں کامیاب ہو جاتا۔ جب وہ بادشاہ کو آتے دیکھتی تو اس کی نظریں وفور ادب سے جھک جاتیں۔ کان فرمان شاہی کے منتظر ہو جاتے۔ وہ تسلیم و اطاعت کا ایک پیکر بن جاتی تھی۔ بادشاہ اسی چیز سے اکتا چکا تھا۔

    جب وہ سلطنت کے کاروبار سے فارغ ہوکر تھکا ہارا محل میں آتا تو چاہتا کہ کوئی ایسا رفیق و دم ساز ہو جو محبت کے میٹھے اور جاں نواز کلمات سے میرے دل کو تسکین دے، جو بجائے مجھ کو مخاطب کرنے کے میرے دل سے ہم کلام ہو۔ اس کے برعکس ملکہ کے پرتکلف، رسمی اور محبت سے عاری الفاظ اس کے دل میں نشتر بن کر چبھ جاتے تھے۔ ایک مدت گزر گئی مگر ملکہ کے برتاؤ میں ذرا فرق نہ آیا۔ اس کی نگاہوں میں بادشاہ کا احترام جیسا پہلے تھا، ویسا ہی اب بھی تھا۔ وہ اس کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھتی تھی۔ مگر وہ کلمہ محبت جسے سننے کے لیے بادشاہ کے کان بے تاب رہتے تھے، اس کے منہ سے کبھی نہ نکلتا۔ اتفاق سے اس عرصہ میں بادشاہ کے ہاں کوئی اولاد بھی نہ ہوئی، جو اپنی ماں کی سرد مہری کا نعم البدل بن جاتی، جسے پروان چڑھتے دیکھ کر بادشاہ کے دل میں امیدیں اور امنگیں پیدا ہوتیں اور پھلتی پھولتیں۔ بادشاہ روز بروز لطف زیست سے مایوس ہوتا جاتا تھا۔

    ایک دن جب بادشاہ دربار جانے لگا تو ملکہ اس کے پاس آئی اور بڑے ہمدردانہ لہجہ میں کہنے لگی ’’عالی جاہ! آپ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ کیا عجب دوسری عورت سے آپ کے ہاں اولاد ہو جائے، جو آپ کے بعد تخت و تاج کی وارث بنے اور آپ کا نام قائم رکھے۔ میں آپ کو سچے دل سے اس کی اجازت دیتی ہوں۔ یقین جانیے سوت کے آنے سے میرے دل کا امن اور چین بحال رہے گا۔ بادشاہ نے کسی قدر خشمگیں نظروں سے ملکہ کی طرف دیکھا۔ اف یہ عورت احساسات سے کس درجہ خالی ہے۔ گوشت پوشت کی نہیں پتھر کی بنی ہے، اور اس کے سینے میں دل بھی پتھر ہی کا ہے۔ بادشاہ نے نظریں دوسری طرف پھیر لیں اور محل سے باہر نکل گیا۔

    تو کیا اس عورت کو سزا دینی چاہیے اور اس التفات شاہانہ کا جس کی وہ تنہا مالک ہے کسی اور کو بھی حصہ دار بنا دینا چاہیے؟ بادشاہ دن بھر طرح طرح کے خیالوں میں آہیں بھرتا رہا، اسے ملکہ سے بےحد الفت تھی، ایسی الفت جیسی صرف شاعروں کا تخیل ہی تخلیق کر سکتا ہے۔ وہ اس قسم کے چاہنے والوں میں سے تھا جو محبوب کی ہر تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر درد و کرب سے کراہتے ہیں۔ بادشاہ نے فیصلہ کر لیا کہ دوسری شادی نہ کروں گا۔

    بادشاہ بےحد افسردہ اور ملول رہنے لگا۔ نہ کسی سے بات کرتا نہ کسی سے ملتا۔ اپنے ہی خیالوں میں کھویا رہتا۔ سلطنت کے کسی کام میں اس کا دل نہ لگتا۔ روز بروز رعایا کے سودوزیاں سے بےپروا ہوتا جاتا۔ عمائد سلطنت اس کی یہ حالت دیکھ کر کڑھتے مگر دم نہ مارتے۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ کوئی غم بادشاہ کو اندر ہی اندر کھائے جاتا ہے مگر اس غم کا سبب پوچھنے کی انہیں جرات نہ ہوتی تھی۔ وہ اس کا دل بہلانے کے لیے اسے شکار کو لے جاتے۔ شمشیر زنی اور نبرد آزمائی کے اکھاڑے منعقد کراتے۔ دور دور کے باکمال سے باکمال مغنی بلاتے۔ سبک رو سے سبک رو رقاصہ لڑکیاں اس کے دربار میں پیش کی جاتیں۔ لیکن اس قسم کے مشاغل چونکہ جذبات کو اکساتے اور دل میں ولولے پیدا کر دیتے، اس لیے بادشاہ بجائے لطف اندوز ہونے کے اور افسردہ ہو جاتا تھا۔

    ہاں ایک شغل تھا جس سے اسے کسی قدر تسکین حاصل ہوتی تھی۔۔۔ فن مصوری۔ بادشاہ کے پاس قلمی تصاویر کا ایک نادر و نایاب ذخیرہ تھا، جس میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ بادشاہ کی صنعت پرستی اور قدردانی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ چنانچہ جوان تو جوان بڈھے اور نحیف صناع بھی قدردانی کے بھروسے پر ہزاروں میل کا سفر طے کرکے آتے اور اپنی محنت کی داد امیدوں سے بڑھ کر پاتے تھے۔ ایک دن ایک بوڑھا سنگ تراش ایک مرمریں مجسمہ لیے ہوئے بادشاہ کے حضور میں پیش ہوا۔ یہ ایک حسین عورت کی شبیہ تھی۔ صنعت کا نادر ترین نمونہ! معلوم ہوتا تھا کسی وارفتہ مزاج ساحر نے پتھر کے ایک بے جان ٹکڑے میں عشق کا گرم سانس پھونک کر اسے حیات دوام بخش دی ہے۔ یہ شبیہ اس دنیا کی کسی عورت کی نقل نہ تھی۔ بلکہ وہ صناع کے تخیل کی ان عورتوں میں سے ایک تھی جن کی ہمسری عالم بالا کی عورتیں اور دیبیاں بھی نہیں کر سکتیں۔ بادشاہ صنعت کے اس عجیب و غریب نمونے کو دیکھ کر بے حد محظوظ ہوا۔ بوڑھے صناع کو نہال کر دیا اور مجسمہ اپنی خواب گاہ میں ایک ایسی جگہ رکھوا لیا کہ نظر ہر وقت اس پر پڑتی رہے۔

    یہ مجسمہ ڈیڑھ دو فٹ سے زیادہ نہ تھا، مگر سنگ تراش نے اس میں ایسی زندگی بھر دی تھی کہ اسے دیکھ کر اس کے قدوقامت کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ یہی معلوم ہوتا کہ بادلوں کی رنگین دنیا کا ایک پیکر حسن و شباب ہے جسے سحر و افسوں سے ساکت کر دیا گیا ہے۔ جس کے ساکت اعضا میں مچلنے کی آرزوئیں بیتاب ہیں۔ جس کے نم آلود ہونٹوں میں ہم کلامی کی تمنا آنکھیں کھول رہی ہے۔

    اٹھتے بیٹھتے بادشاہ کی نگاہ اس مجسمے پر پڑتی اور وہیں جم جاتی تھی۔ اس کی خواب گاہ میں صنعت و حرفت کی بیسیوں چیزیں تھیں مگر نہ جانے مجسمہ میں کیا بات تھی کہ وہ اسے دوسری چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہونے دیتی تھی۔ بعض اوقات وہ پہروں محویت کے عالم میں کھڑا اسے تکتا رہتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے اور مجسمہ کے درمیان نامعلوم طور پر ایک رشتہ، ایک تعلق پیدا ہو گیا ہے، جو بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بادشاہ کی حالت میں بھی ایک تغیر ہوتا جاتا تھا۔ ملکہ کی سنگ دلی اور بےمہری کا غم تو کسی وقت بھی دل سے دور نہ ہوتا تھا مگر اب اس غم کو مٹانے کا ایک حد تک ذریعہ اس کے ہاتھ آ گیا تھا۔ عورت سے، یا یوں کہو ملکہ سے وہ جس چیز کا خواہاں تھا، وہ ایک حد تک اسے اس مجسمہ سے حاصل ہو رہی تھی۔

    ملکہ کو اس حسین مجسمہ کا علم تھا، اور وہ جانتی تھی کہ بادشاہ اسے تحسین کی کیسی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس نے کئی بار بادشاہ کو محویت کے عالم میں اس مجسمہ کی طرف تکتے بھی دیکھتا تھا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ میرے ساتھ بادشاہ کے برتاؤ میں فرق آ گیا ہے۔ اور وہ مجھ سے دور دور رہنے لگا ہے۔ وہ یہ سب کچھ جانتی تھی مگر معترض نہ ہوتی تھی۔ بہار کا موسم آیا۔ آنکھوں میں آپ سے آپ ایک خمار، دل میں ایک درد اور روح میں ایک تشنگی پیدا ہو جانے کا موسم آیا۔ جب ہر جاندار اپنے لیے ایک مونس و دم ساز کی جستجو کرتا ہے۔ ایک دن صبح کو بادشاہ بستر سے اٹھا تو بہت بے چین تھا۔ رات اسے اپنی کم نصیبی کا احساس شدت سے ہوا تھا۔ کروٹیں بدلتے بدلتے صبح کر دی تھی۔

    ملکہ سے اسے جتنی شکایتیں اور رنجشیں تھیں وہ سب تازہ ہو گئی تھیں۔ ان خیالات کا اثر اب تک زائل نہ ہوا تھا۔ وہ آہستہ سے اٹھ کر دریچے کے پاس جا کھڑا ہوا۔ نیچے پائیں باغ میں خوش گلو پرندوں کے چہچہے بہار کو رنگین تر بنا رہے تھے۔ بادشاہ اور بھی افسردہ ہو کر دریچے کے پاس سے چلا آیا۔ اب اس کی نظر مجسمہ پر پڑی۔ آج یہ مجسمہ اسے جس قدر حسین معلوم ہوا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ بوڑھے سنگ تراش کے تخیل کی یہ نامعلوم عورت آج اس قدر زندہ نظر آتی تھی گویا اگر بادشاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا تو ناز کے ساتھ اپنے ننھے ننھے پاؤں اٹھاتی ہوئی بے حجابانہ اس کے پاس چلی آئےگی۔

    بادشاہ بہت دیر تک اس کے سامنے کھڑا اسے تکتا رہا۔ ملکہ کئی بار خواب گاہ میں آئی، مگر بادشاہ کو اس محویت کے عالم میں دیکھ کر الٹے پاؤں لوٹ گئی۔ دوپہر ہونے کو آئی مگر بادشاہ اس مجسمہ کے پاس سے نہ ہٹا۔ اچانک کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ بادشاہ چونک اٹھا۔ پلٹ کر دیکھا تو ملکہ تھی۔ وہ بولی، آج کیا بات ہے۔ آپ ایسے افسردہ نظر آتے ہیں۔ صبح ناشتہ بھی نہیں کیا؟ بادشاہ نے جواب دیا ، ہاں صبح میری طبیعت کچھ اچھی نہ تھی۔ یہ کہہ کر وہ پھر مجسمہ کو دیکھنے میں محو ہو گیا۔ ملکہ آگے بڑھ کر مجسمہ کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اسے بادشاہ کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ بولی، بس بہت دیکھ چکے۔ چلیے ناشتہ کریں۔ آج صبح میری طبیعت بھی گری گری تھی۔ اس لیے میں نے بھی اب تک ناشتہ نہیں کیا۔

    ملکہ کی زبان سے یہ فقرہ سن کر بادشاہ چونک اٹھا۔ اس کے بعد وہ ملکہ کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا۔ گو چند لقموں سے زیادہ نہ کھا سکا مگر آج اسے ایک ایسی لذت کا احساس ہوا جس سے وہ آشنا نہ تھا۔ اس دن بادشاہ کی زندگی میں ایک نیا تغیر رونما ہوا۔ پہلے کی طرح وہ اب مجسمہ کو افسردگی سے نہ دیکھتا اور نہ اسے دیکھ کر اس پر محویت طاری ہوتی، بلکہ جس طرح کوئی بچہ اپنے محبوب کھلونے سے کھیل کر خوش ہوتا ہے، اسی طرح وہ مجسمہ سے کھیل کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ وہ اس کے چھوٹے سے خوبصورت سر پر ہاتھ پھیرتا۔ اس کے اعضا کو چھوتا۔ انگلیوں سےاس کی ٹھوڑی پکڑ کر پیار سے جھنجھوڑتا۔ اپنے ہاتھ سے پھولوں کا تاج بنا کر محبت سےاس کے سر پر رکھتا اور خوش ہوتا۔ ملکہ نے بادشاہ کی ان حرکات کو بارہا دیکھا اور اسے اس کی عقل اور سمجھ پر شبہ ہوا۔ مگر جب وہ اس سے ہم کلام ہوتی تو اسے پہلے سےبھی بڑھ کر عقل مند اور ہوش مند پاتی۔

    اب ملکہ کے رویہ میں بھی فرق آنے لگا تھا۔ صبح کو جب وہ بادشاہ کو جگانے آتی تو یہ دیکھ کر کہ وہ پہلے ہی سے بیدار ہے اور حسب معمول مجسمہ سے کھیلنے میں مشغول ہے، پہلے کی طرح الٹے پاؤں نہ لوٹ جاتی تھی۔ بلکہ اب وہ بادشاہ کو کبھی سیر کی غرض سے اور کبھی ناشتے کے لیے، غرض کسی نہ کسی بہانے خواب گاہ سے باہر لے جاتی تھی۔ بادشاہ ملکہ کے اس تغیر سے بے خبر نہ تھا اور اس سے ایک خاص حظ اٹھاتا تھا۔

    ایک دن محل میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ صبح کو جب بادشاہ بستر سے اٹھا اور حسب معمول اس حسینہ کے مجسمہ کے قریب آیا تو دیکھا کہ اس کے داہنے گال پر سیاہی کا بڑا سا بدنما دھبہ لگا ہے۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ پیشانی پر بل پڑ گئے، غیظ و غضب کے عالم میں مٹھیاں بند ہو گئیں۔ چاہتا تھا کی دنیا اور اس کی ہر چیز کو تہ و بالا کر دے کہ اچانک کسی خیال نے اس کا ہاتھ روک دیا۔ وہ چہرہ جو غصے سے تاریک ہو گیا تھا آہستہ آہستہ روشن ہونے لگا، اور اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف سا تبسم نمودار ہو گیا۔ اس کے بعد بادشاہ نےمحل کے تمام لونڈی غلاموں کو بلایا اور غیظ و غضب کے دیوتا کی طرح گرجا برسا۔ دوغلاموں پر شبہ ظاہر کیا اور ان کے کوڑے لگوائے۔ پھر پانی، برش اور سمندر جھاگ منگوایا اور خود ہی اس مجسمہ کے گال پر سے سیاہی کا دھبہ دور کرنے میں مصروف ہو گیا۔

    ملکہ سہمی ہوئی اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ یہ سب ماجرا دیکھتی رہی۔ آداب شاہی نے اس کی زبان سے ایک حرف بھی نہ نکلنے دیا۔ جب تک بادشاہ مجسمہ کے گال سے دھبہ دور کرنے میں مصروف رہا، وہ اس کے پاس ہی کھڑی رہی۔ مگر اس اثنا میں اس نے ایک بار بھی آنکھ اٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھا۔ جب بادشاہ اس کام سے فارغ ہو گیا تو اس نے بڑی محبت سے مجسمہ کی طرف دیکھا۔ ملکہ چپ چاپ وہاں سے چلی آئی۔

    اس واقعے کو دو ہفتے گزر گئے۔ ایک دن ایک اس سے بھی بڑھ کر ناگوار واقعہ پیش آیا۔ بادشاہ صبح کو اٹھ کر مجسمہ کے پاس آیا تو دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ مجسمہ کی آنکھیں بادشاہ کو بہت محبوب تھیں اور وہ انہیں جل پریوں کی زمردیں آنکھوں سے تشبیہ دیا کرتا تھا۔ مگر یہ دیکھ کر بادشاہ بجائے غضبناک ہونے کے کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ محل کے سب لونڈی غلام طلب کیے گئے اور ان کی پیٹھ پر کوڑے لگوائے گئے۔ اس دن بادشاہ کو ایسی خوشی ہوئی کہ شاید کسی بڑے غنیم پر فتح پانے سے بھی نہ ہوتی۔

    مجسمہ کے عیب دار ہو جانے پر بھی بادشاہ کی نظروں میں اس کی وقعت ویسی ہی رہی جیسی پہلے تھی اور وہ ہر روز اسی فریفتگی سے اس سے کھیلا کرتا۔ اس کے بعد ایک دن بادشاہ نے دیکھا کہ مجسمہ کے دونوں کان کٹے ہوئے ہیں۔ یہ وہی کان تھے جنہیں بادشاہ ’’صدف سیمیں‘‘ کہا کرتا تھا۔ پھر ایک دن دیکھا کہ اس کی ناک کٹی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ایک دن دیکھا کہ اس کے سینے پر کسی تیز ہتھیار سے ضربیں لگی ہوئی ہیں۔ ہر دفعہ بچارے لونڈی غلاموں کی شامت آ جاتی تھی۔ لیکن پھر بھی بادشاہ اس مجسمہ کا ویسا ہی گرویدہ رہا۔ اب بھی گھنٹوں اس سے کھیلنے میں مشغول رہتا۔

    ایک دن صبح کو بادشاہ ذرا دیر سے اٹھا۔ رات اسے بڑے سکھ کی نیند آئی تھی۔ عمر بھر ایسی میٹھی نیند کبھی نہ سویا تھا۔ انگڑائی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ جوں ہی مجسمہ کی طرف نظر گئی تو منہ سے بےاختیار چیخ نکل گئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ فرش پر سنگ مرمر کے ہزاروں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے ہیں۔۔۔ دوسرے لمحہ ملکہ اس کے قدموں میں تھی۔

    مأخذ:

    کلیات غلام عباس (Pg. 483)

    • مصنف: غلام عباس
      • ناشر: رہروان ادب، کولکاتا
      • سن اشاعت: 2016

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے