Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجھے اسے زندہ رکھنا ہے

مشرف عالم ذوقی

مجھے اسے زندہ رکھنا ہے

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    جیسا کہ گھر والے بتایا کرتے تھے۔ وہ رات بہت بھیانک تھی جب میں پیدا ہوا۔ بہت بھیانک۔۔۔ جیسے خوف و دہشت کے ماحول میں کوئی چیخ اٹک گئی ہو۔ نہیں، اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور جیسے سب بچے روتے ہوئے پیدا ہوتے ہیں۔ میں بالکل نہیں رویا تھا۔ اس لئے پہلے تو مجھے مردہ سمجھ لیا گیا۔ پھر جس دائی نے مجھے پیٹ سے نکالا وہ فوری تدبیر کے تحت بغیر تاخیر کئے میرے گندے منہ میں اپنے ہونٹ ڈال کر ہوا بھرنے لگی۔ کہ شاید اس عمل سے بچے کے مردہ جسم میں تھوڑی تمازت آ جائے اور کوئی سانس بچ رہی ہو تو اس میں زندگی کی کرن لوٹ آئے اور جیسا کہ گھر والے بتاتے ہیں۔ ایک بھیانک بہت بھیانک رات جبکہ دائی کا منہ نومولود بچے کے خون اور پیپ سے بھر گیا تھا، وہ میری زندگی کے بچانے کا سبب ثابت ہوئی اور میں ایک تاریک سرنگ سے دنیا کے اجالے میں آ گیا۔

    پیدا ہونے کے بعد بھی میں اتنا دبلا پتلا تھا کہ مجھے کبھی اپنے ہونے پر یقین نہیں آیا اور میں ہمیشہ سے، جیسا گھر والے میرے بچپن کے بارے میں بتاتے ہیں۔۔۔ کہ میں بس ایک ہی رٹ لگایا کرتا تھا۔۔۔ نہیں میں پیدا کہاں ہوا ہوں۔۔۔ میں تو بس ہوں۔۔۔ اس طرح جیسے گھاس پھوس ہوتے ہیں۔۔۔ یا برسات کے دنوں میں ’’پھٹکی پھٹکی‘‘ نظر نہیں آنے والے کیڑے ہوتے ہیں۔

    اور جیسا کہ سب بچے اسکول جاتے ہیں، ایک دن مجھے بھی، اسکول بھیجا گیا۔ اس دن صبح ہی صبح ماں نے مجھے تیار کیا۔ نئے نئے کپڑے پہنائے۔ پرانی رضائی کا بنا ہوا بستہ میرے کندھے سے لٹکایا اور بابا کے ساتھ مجھے اسکول بھیج دیا۔ اسکول میں میرا نام تو لکھا گیا مگر شروع کے چند ماہ میرے لئے بہت سخت ثابت ہوئے۔

    جیسے بچے میرے لاغر جسم اور میرے ہونے کے باوجود نہ ہونے پر میرا مذاق اڑاتے۔۔۔

    ’’تو آپ بھی پڑھنے کو آئے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘

    ’’تو آپ کو احساس ہے، کہ آپ ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں؟کیوں نہیں‘‘

    ’’آپ کو سچ مچ احساس ہے۔۔۔‘‘

    اُف شرمندگی کی انتہا تھی۔ میں گھر آ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا۔۔۔

    ’’نہیں۔ مجھے نہیں پڑھنا ہے۔‘‘

    ’’مگر کیوں۔‘‘ ماں کے لہجے میں ناراضگی تھی۔

    ’’کیونکہ میں ہوں ہی نہیں‘‘

    ’’نہیں تم ہو اور ایک دن وہ بھی سمجھ جائیں گے۔‘‘

    یہ ماں تھی۔ جیسی کہ شفقت رکھنے والی سبھی مائیں ہوتی ہیں۔ جبکہ باپ اس کے برخلاف تھا۔ اس کی آنکھوں میں شک گہرا ہو گیا تھا۔

    ’’سنو، یہ ٹھیک کہتا ہے۔ اسے اسکول بھیجنا بند کر دو۔‘‘

    ’’مگر کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’کیوں کہ۔۔۔ یہ جو کہتا ہے کہ یہ ہے ہی نہیں۔ باپ پھسپھسا رہا تھا۔ کیا کبھی تمہیں اس کی موجودگی کا احساس ہوا۔ نہیں۔ مہربانی کر کے اس نو ماہ کے عذاب کا تذکرہ مت کرو۔۔۔ باپ نے ایک بھدی سی گالی دی۔۔۔ جیسے بچے گھر میں اپنے ہونے کا احساس کراتے ہیں۔۔۔ ویسے ہی۔ کیا تمھیں کبھی لگا کہ یہ گھر میں ہے۔ جیسے گھروں میں بچے ہوتے ہیں۔۔۔ نہیں غصہ مت ہو۔ یہ سچ مچ نہیں ہے۔ جو ہے وہ ہم سب کا شک ہے۔‘‘

    نہیں، میں نہیں ہوں۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے میں بس اسی خیال سے گھرا رہتا۔ میں نہیں ہوں، جو ہے وہ آنکھوں کا شک ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف ماں کی آنکھوں میں سختی تھی۔

    ’’نہیں تم ہو اور تمہیں اسے زندہ بھی رکھنا ہے۔ سمجھ رہے ہونا۔۔۔ تم ہو۔۔۔ اور تمہیں ثابت کرنا ہے۔‘‘

    مجھے نہیں معلوم، ماں کی آنکھوں میں اس چیز کے لئے خواب کیوں لہراتے تھے جو تھا ہی نہیں۔ جبکہ محلے والے، آس پڑوس کے لوگ، سب کا یہی خیال تھا۔۔۔ کیا تمہارے یہاں بچہ بھی ہے؟ اور گھر والے بتاتے ہیں کہ بعض عورتیں تو ماں کا مذاق بھی اڑاتی تھیں۔۔۔ کہ سچ کہو، نو ماہ کے تھیلے سے کچھ برآمد بھی ہوا ہے۔۔۔ یا بس یونہی اپنا جی خوش کرتی ہو۔۔۔‘‘

    ماں ان کی باتوں کا چنداں برا نہیں مانتی بلکہ ہنس کر کہتی ہے۔ ’’نہیں وہ ہے۔۔۔ اور ایک دن وہ ثابت بھی کرےگا۔‘‘

    میں بڑا ہوتا رہا اور سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے بڑا ہوتا رہا، مجھے اپنے نہ ہونے کے احساس کا خوف مٹتا گیا۔ میری آنکھیں جو دیکھ رہی تھیں، کان جو سن رہے تھے، وہ افسوسناک حد تک برے تھے۔ جیسے مجھے معلوم ہوا کہ اسکول کے ایک بچے نے دوسرے بچے کا قلم چرا لیا۔ دو بچے آپس میں لڑ گئے۔ ایک نے دوسرے کو زخمی کر لیا۔ پڑوس کے ایک بڑے میاں نے چھت سے کود کر جان دے دی اور تو اور۔۔۔ ایک بار بابا نے میری ماں کو رات کے وقت پیٹ پیٹ کر ادھ مرا کر دیا۔ نہیں، میرا نہیں ہونا ہی اچھا تھا۔ مجھے بھرپور طمانیت کا احساس ہوا۔

    ’’باپ نے تمہیں کیوں پیٹا؟‘‘ دوسرے دن میں نے ماں سے دریافت کیا۔

    ’’کیونکہ وہ بس یہی کر سکتا ہے۔‘‘ ماں ہمیشہ کی طرح مسکرائی۔

    ’’تمہیں برا نہیں لگا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟ کیونکہ وہ ہے! اس لئے؟‘‘

    ’’نہیں یہ بات نہیں ہے۔ ماں نے مجھے تھپکیاں دیں۔۔۔ یہ جاننے کے لئے تم بہت چھوٹے ہو۔ مگر جان لو۔ اسے بھی اپنے ہونے کا وقتاً فوقتاً ثابت کرتے رہنا ہے۔ جینے کے لئے۔ اس لئے ایسا ہوا۔ وہ ایسا نہیں کرے تو ماں فخر سے مسکرائی۔۔۔ شاید اسے اپنے ہونے کا یقین نہیں آئے۔‘‘

    ’’تمہیں یقین کیسے آتا ہے؟‘‘

    ’’ماں نے مجھے لپٹا لیا۔ میرے چہرے کا بوسہ لیا۔ جگمگاتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔۔۔ اس لئے کہ تم ہو۔۔۔ اور میرے یقین کے لئے نو ماہ کا یہ تحفہ بہت ہے۔۔۔‘‘

    وہ لمبا گھاگھرہ پہنتی تھی۔ بڑی بڑی دو چوٹیاں رکھتی تھی۔ زیادہ تر ننگے پاؤں رہتی تھی۔ چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ اس کا باپ نہیں تھا۔ میں اپنے نہ ہونے کے احساس کے ساتھ بڑا ہو رہا تھا اور وہ اس دوران برابر گھر میں آیا کرتی تھی۔ ماں کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھی اور ماں کہتی ہے۔۔۔ کہ کنکھیوں سے میری طرف دیکھا بھی کرتی ہے جو ماں کو اچھا لگتا ہے۔۔۔

    ’’تمہیں کیوں اچھا لگتا ہے؟‘‘

    ’’اس لئے کہ وہ تمہیں پسند کرتی ہے۔‘‘

    ’’لیکن میں تو ہوں ہی نہیں۔‘‘

    ’’تم ہو اور تم اسے ثابت بھی کر رہے ہو۔‘‘

    ماں کو ہنسی آئی تھی، اس کے موتیوں جیسے دانت کھل گئے تھے۔۔۔

    پتہ نہیں، میں کچھ ثابت کر بھی رہا تھا یا نہیں۔ میں تو صرف دیکھ رہا تھا اور جو دیکھ رہا تھا وہ بہت معمولی سی باتیں تھیں۔ مثلاً درخت میں پتے کیسے آتے ہیں۔ پھول کیسے کھلتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے یا غروب ہوتا ہے تو آسمان کیسا لگتا ہے؟ بلی چوہے کو کس طرح ختم کرتی ہے۔ چمگادڑ کیسے اڑتے ہیں۔ میں بعض چیزوں کی نقل بھی اتارا کرتا تا۔ لیکن یہ چیزیں جو میرے مشاہدے میں تھیں، اتنی حقیر تھیں کہ جب میں بیان کرتا تو باپ اپنا منہ دوسری طرف پھیر کر ہنسا کرتا تھا۔ یا پھر میرا مذاق اڑاتا۔

    ’’سچ مچ تم نہیں ہو۔‘‘

    ’’کیوں؟ تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے پانی میں کاغذ کی ناؤ کیسے تیرتی ہے۔۔۔ ہوائیں کہاں سے آتی ہیں۔۔۔ پکچھیوں کو آسمان میں کیا چاہئے۔ نہیں یہ سچ مچ چھوٹی اور معمولی باتیں تھیں اور باپ کہتا تھا۔۔۔ تمہیں اس سے بڑی باتیں سوچنا چاہئے۔۔۔ جیسے تمہیں سوچنا چاہئے کہ زندگی کے لئے ضروری کیا کیا چیزیں ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’زندگی کے لئے۔۔۔‘‘

    میں اس طرح چونکا، جیسے ماں کی اس بات سے چونکا تھا کہ وہ گھاگھرہ والی لڑکی مجھے پسند کرتی ہے۔۔۔ زندگی کے لئے۔۔۔ مجھے اپنا سوال ماں کے سامنے رکھتے ہوئے مشکل نہیں ہوئی۔ اس لئے کہ اس کے پاس جواب کا خزانہ پہلے سے ہی کھلا ہوا تھا۔

    ’’ہاں زندگی کے لئے تاکہ وہ گھاگھرہ والی لڑکی تمہارے گھر آ جائے اور تمہارا اپنا چولہا چکی ہو اور اس کے لئے تمہیں خود کو ثابت کرتے جانا ہے۔۔۔ سمجھ رہے ہونا۔ آخری سانس تک۔۔۔!‘‘

    باپ ایک مختصر سی بیماری میں چل بسا۔ مختصر سی بیماری۔ اسے کپکپا دینے والا بخار آیا۔ اپنے چھوٹے سے کمرے میں وہ ہذیان کی کیفیت میں اول فول بکتا رہا۔ پھر اس کی زبان بند ہو گئی۔ ماں نے دیکھا تو اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے تھے۔ باپ جا چکا تھا۔ باپ کبھی تھا۔ باپ موجود بھی رہا ہو گا۔ مگر چند دنوں میں ہی لگنے لگا کہ وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ نہیں، وہ نہیں تھا۔ اس لئے کہ جہاں کہیں بھی وہ ہو سکتا تھا۔ اب وہ نہیں تھا۔ اس کی موجودگی کا کوئی سا بھی احساس نہیں تھا۔ یا ممکن ہے اس نے اپنی موجودگی کو پنپنے ہی نہیں دیا ہو۔ ماں بھی روتی دھوتی ایسے چپ ہو گئی جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔

    ’’باپ تھا؟‘‘ میں نے ماں سا پوچھا۔

    ’’ہاں وہ تھا۔ جیسے تم ہو۔ پہلے میں بھی گھاگھرہ پہنتی تھی۔ پھر وہ مجھے لے آیا۔ رکھا۔ وہ مارتا بھی تھا اور۔۔۔ وہ ملائمت سے بولی۔ ’’مجھے اس کا احساس سدا رہےگا۔‘‘

    ماں پھر بولی۔ ’’میرے پیارے اب تمہیں باہر نکلنا ہو گا۔ جیسا کہ تم شروع سے خود کو ثابت کرتے آئے ہو۔ مگر اصل میں ثابت کرنے کا وقت اب آیا ہے۔ سمجھ رہے ہونا اور پھر اس گھاگھرے والی کو بھی بیاہ کر لانا بھی ہے تمہیں۔‘‘

    گھاگھرہ والی لڑکی۔ مجھے تعجب ہوا، وہ واقعی دیکھا کرتی تھی مجھے۔ کبھی چوکی چولہے کے پاس سے، کام کرتے ہوئے نلکے پر پانی بھرنے کے دوران، یا ماں کے ساتھ سوپ پر چاول پھٹکتے ہوئے۔ ایک بار وہ مونگ پھلی کے دانے لائی تھی میرے لئے اور میرے ہاتھوں پر بکھیر کر بھاگ گئی۔

    ’’یہ کیا تھا؟‘‘ میں نے ماں سے پوچھا۔

    ماں ہنسی۔ یہ جو بھی تھا مگر تیرے لئے تھا اور اسے تجھے خود ہی سمجھنا ہے۔۔۔

    ماں کی اس بات سے مجھے حیرانی ہوئی۔ مگر اب مجھے کام پر بھی نکلنا تھا۔ اس لئے کہ بقول ماں، میری مسیں بھیگ چکی تھیں اور میرا باپ مر چکا تھا اور جوان لڑکوں کو ہی گھر گرہستی کی فکر کرنی ہوتی ہے۔

    یہ سب باتیں گویا چلتی رہیں مگر پھر بھی مجھے یقین نہیں تھا کہ میں ہوں۔ مگر ماں کے پاس اس بات کا تسلی بخش جواب تھا۔۔۔ میں اس لئے ہوں کہ میں ان سارے واقعات کا چشم دید گواہ ہوں۔

    مجھے ہنسی آئی۔ ایک چھوٹی سی عمر میں ہم کتنی کتنی باتوں کے گواہ بن جاتے ہیں۔ جیسے ایک بار محلے میں بھیانک خاموشی چھا گئی تھی۔ جیسے بابا مر گئے تھے۔۔۔ جیسے سڑکیں سنسان ہو گئی تھیں۔۔۔ جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔ نہیں، میں کسی بات کا گواہ نہیں تھا۔ اس لئے کہ میں تھا ہی نہیں۔ اگر میں ہوتا تو مجھے دکھ ہوتا کہ میں کیوں ہوں اور یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ لوگ کہتے تھے اس کے پیچھے بڑی بڑی باتیں ہیں۔ شاید اسی لئے۔ مجھے تو بس یہی پسند تھا کہ طوطا ٹائیں ٹائیں کیوں کرتا ہے۔ کوا منڈیر پر آ کر چلاتا ہے تو اس کے معنی کیا ہوتے ہیں۔۔۔

    جب پہلے دن میں کام پر نکلا تو ماں نے میرے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں باندھ دیں۔ نئے جہان کے سارے تجربے نئے تھے۔ نہیں، تم نہیں ہو۔ تم ہو کر بھی نہیں ہو۔ مجھے ہر جگہ بس یہی ٹکا سا جواب ملتا۔ ماں ہر بار خوش ہو کر میرا حوصلہ بڑھاتی۔ ڈٹے رہو۔۔۔ ایک نہ ایک روز۔۔۔ پھر وہ فخر سے اپنی جھکتی کمر، اپنی پھیلتی جھریوں کو سمیٹ کر کھکھلا پڑتی۔۔۔ دیکھا، تم ہو اور تم اسے ثابت بھی کر رہے ہو۔۔۔ جاؤ کوشش کرو۔

    نئی زمین، نیا آسمان۔ شہر، اسٹیشن، بڑی بڑی گاڑیاں، آسیبوں جیسی عمارتیں نہیں۔ تم ہو ہی نہیں۔ آہ، تم کہاں ہو۔ جیسے ایک بدن ہوا میں اڑ رہا ہو۔ روئی کے گالے، جیسا یا۔۔۔ نہیں، میں تھا ہی نہیں۔ تبھی تو ایک دن اس گھاگھرے والی لڑکی نے بھی میری طرف دیکھنے والی اپنی آنکھیں واپس لے لیں۔

    ’’افسوس میں اپنا وقت برباد کرتی رہی۔ تم نہیں ہو اور جان لو۔ تم میرے لئے ایک گھاگھرہ بھی نہیں لا سکتے۔ اس نے دکھایا۔۔۔ ایسا پھٹا ہوا بھی۔۔۔‘‘

    مجھے دکھ ہوا۔ اس کا گھاگھرہ سچ مچ پھٹا ہوا تھا اور وہاں ایک بھدے کپڑے کا پیوند لگا ہوا تھا۔ افسوس، میری نظر کبھی بھی اس پیوند پر نہیں گئی۔ اس نے اپنا گھاگھرہ سنبھالا اور چلی گئی۔

    ’’نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ ماں کو اطمینان تھا اور اس نے پھر فخر سے دہرایا۔۔۔ ’’تم ہو۔۔۔ اور تمہیں اسے زندہ بھی رکھنا ہے۔ بس سمجھ گئے نا۔‘‘

    اس دن میں پھر کام کے لئے نکلا۔ ماں نے کچھ زاد راہ سفر کے لئے باندھ دیا تھا۔ چلتے چلتے میں کافی دور نکل گیا۔ یہاں ایک پل بن رہا تھا۔ کافی مزدور کام کر رہے تھے۔ سورج سر پر چڑھ آیا تھا۔ مزدور پسینے سے شرابور اور تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔ اب وہ قریب کے چشمے سے پانی پی رہے تھے۔ اور اپنے چہرے وغیرہ دھو رہے تھے۔ میں تیز تیز چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچ گیا اور اپنا مدعا سامنے رکھا۔

    ان سب نے حسرت سے اور لطف لینے والے انداز سے میری طرف دیکھا۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر کھلکھلا پڑے۔

    ’’نہیں۔ ہنسو مت۔۔۔ زندگی کے لئے۔۔۔ جیسا کہ میرے بابا نے سمجھایا تھا۔۔۔ اور تم لوگ بھی تو۔۔۔ میں کافی مارا مارا پھرا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’ممکن ہے۔۔۔‘‘

    ’’تو مجھے کام مل جائےگا۔ کوئی سا بھی۔۔۔ مجھے ثابت کرنا ہے کہ۔۔۔‘‘

    ایک مزدور نے غصے سے میری طرف دیکھا۔

    ’’نہیں تم ہو ہی نہیں۔ جو ہے ہی نہیں، اسے کام کیا ملےگا۔‘‘

    وہ سب ایک بار پھر قہقہہ لگا کر ہنسے۔ پھر پھاؤڑا، کدالیں لے کر کام پر لگ گئے۔ وہاں ایک موٹا سا آدمی تھا۔ اس کے ساتھ ایک خوش لباس دوسرا آدمی بھی تھا۔ وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے یقین تھا، اس نے ہماری باتیں بھی سنی ہوں گی۔ میں نے کان لگایا تو محسوس ہوا، وہ موٹا آدمی اس دوسرے آدمی سے میرے ہی بارے میں باتیں کر رہا تھا۔

    ’’نہیں۔ یہ کام ذرا مشکل ہے۔ اس سے نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں۔ کر لےگا۔‘‘

    ’’کر تو لےگا۔ مگر یہ۔۔۔ یہ تو ہے ہی نہیں۔‘‘

    موٹے آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ’’یہی ہمارے لئے کام کی بات ہے وہ ہے ہی نہیں۔ سمجھ رہے ہو۔ وہ نہیں ہے۔ بس یہی خاص بات ہے۔ اور میں اسی لیے اسے کام دینا چاہتا ہوں۔ وہ نہیں ہے۔ اس سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ سمجھ رہے ہو، نا۔۔۔‘‘

    خوش لباس شخص نے دھیرے دھیرے کچھ سوچتے ہوئے گردن ہلائی۔ پھر اس نے میری طرف اشارہ کیا۔ میں گھبرایا سا دونوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

    چلو، کام سے لگ جاؤ، بغیر تاخیر کیے۔

    اس نے حکم دیا۔ مجھے عجیب سا لگا، تاہم جھٹ پٹ آگے بڑھ کر میں نے کام سنبھال لیا۔ سر پر تیز سورج تھا۔ دھرتی جل رہی تھی۔ میں مستقل کام کر رہا تھا۔ مگر۔۔۔ وہ مزدور کہاں تھے۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ نہیں تھے۔۔۔ مگر ابھی تو وہ یہیں تھے۔۔۔ یہیں میرا تمسخر اڑا رہے تھے۔ مگر اب وہ نہیں تھے۔۔۔ کہیں نہیں تھے۔۔۔ یا میں انہیں نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ یا وہ مجھے نہیں دیکھ پا رہے تھے۔

    *

    اس دن میں لوٹتے ہوئے کافی تھک چکا تھا۔ جیسا ماں نے بھی دیکھا۔ میرے ہاتھوں اور پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ میں ماں کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا۔ میں اپنے چہرے پر تمام فخریہ جذبات سمیٹے میرے ہاتھ سہلا رہی تھی۔

    ’’اذیت۔۔۔ آہ‘‘ اپنے ہونے کے لئے یہ اذیّت بھی کتنی ضروری شے ہے۔۔۔ وہ مسکرائی۔ تم نے ثابت کر دیا ہے۔۔۔ تم برداشت کر سکتے ہو، اس لئے کہ تم ہو۔۔۔‘‘

    ماں کی باتیں میرے لئے تکلیف دہ تھیں۔ ماں نے پھر مجھ سے میرے مزدور ساتھیوں کے بارے میں پوچھا۔

    ’’نہیں وہ نہیں تھے، میں نے اپنا تاثر بیان کیا۔ جبکہ وہ وہیں تھے۔ میرے قریب۔۔۔ اور کام کر رہے تھے۔۔۔ مگر وہ مجھے دکھائی نہیں دیئے‘‘

    ’’آہ۔ ماں کو افسوس ہوا۔۔۔ اذیت‘‘ سب کتنی اذیت سہہ رہے ہیں۔ تو تمہیں وہ دکھائی نہیں دیئے؟‘‘

    ’’نہیں۔ وہ تھے ہی نہیں۔‘‘

    ماں نے مجھے دلاسا دیا۔ میرا سر سہلایا۔ پھر پیار سے بولی۔۔۔ وہ تھے بیٹے۔ ایسے ہی، جیسے کہ تم ہو۔۔۔ ہاں‘‘ وہ ہیں اور تمہیں یہ بات برابر ان لوگوں کو بتانی چاہئے کہ وہ تھے، وہ ہیں۔۔۔ اور وہ ہمیشہ سے موجود ہیں۔۔۔‘‘

    ماں نے اس بار اپنا چہرہ چھپا لیا۔ ممکن ہے ایسا کرتے ہوئے وہ بابا کو تلاش کر رہی ہو، جو اب نہیں تھا۔ مگر جس کے ہونے کا احساس ماں کے اندر زندہ تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے