Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مکتی بودھ

راجندر سنگھ بیدی

مکتی بودھ

راجندر سنگھ بیدی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی جو فلموں میں پلے بیک سنگنگ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا ہے۔ اس کی ملاقات ایک ایسے فلم ڈائرکٹر سے ہوتی ہے جسکی حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم زبردست کامیاب ہوتی ہے۔ ڈائرکٹر کو اپنی اگلی فلم کے لیے ایک موسیقار کی ضرورت ہے، جس کے لیے وہ اسے مکتی بودھ کے نام کی سفارش کرتا ہے۔ مکتی بودھ گیے وقتوں کا مشہور موسیقار تھا مگر ان دنوں اس کے ستارے گردش میں تھے اور وہ سر تا پا مقروض تھا۔

    یقین مانیے، اس میں نندلال کا ذرا بھی قصور نہ تھا۔ وہ کیا کرتا۔۔۔؟ اس کی فلم امبکا، چل گئی تھی۔

    میں بھی حد کر رہا ہوں جو ہندی فلم کے سلسلے میں منطق کی بات کرنے جا رہا ہوں! اس پر میں کہوں گا کہ جس منطق سے ہندی فلم فیل ہوتی ہے، اسی سے چل بھی جاتی ہے۔ جیسے اسے کوئی ضد ہو جاتی ہے، چلنے یا نہ چلنے کی۔ ایسی ہی ضد میں نندلال کی پہلی دو فلمیں پٹ گئی تھیں، حالانکہ ان میں سے ایک میں ہیروئن، اسٹوڈیو کی برسات میں بھیگی بھی تھی، کپڑے اس کے بدن کے ساتھ چپکے بھی تھے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے کپڑے ایکا ایکی کہیں نیچے چلے گئے ہیں اور بدن چھٹپٹا کے اوپر آ گیا ہے۔ بھیگنے سے پہلے کتنی مفلس اور نادار سی معلوم ہوتی تھی لیکن جب کیا مال دار نظر آ رہی تھی وہ۔

    دوسری فلم میں ہیرو نے خالی ہاتھوں، گلدانوں، صوفے کی ٹانگوں، لیمپ شیڈ شزیلیر کی زنجیروں اور جانے کن کن ہتھیاروں سے کاؤ بوائے ولین اور اس کے درجن بھر ساتھیوں کو فراش کر دیا تھا۔ کیسے وہ الٹے شاٹ میں اچھل کر میزنین فلور پر پہنچ جاتا تھا، جہاں ایک رسہ ہوتا ہے۔۔۔ ہمیشہ ہوتا ہے جس پر وہ جھولتا ہوا پھر نیچے کے دوزخ میں کود جاتا ہے۔ جبھی وِرددھی دَل میں سے کسی نے آناً فاناً اٹھ کر پانگے سے ہیرو کا سر کاٹ دیا۔۔۔ جی، بالکل ہی کاٹ دیا۔ یعنی سر الگ اور دھڑ الگ۔ لوگ ہراساں ہو گئے۔ اب کیا ہوگا؟ ارے یہ تو بالکل ہی مر گیا! وہ جانتے تھے کہ فلم کا ہیرو مر ہی نہیں سکتا اور پھر ہراساں بھی ہونا چاہتے تھے۔ ہیروئن کو شادی کیے بنا ہی وِدھوا کر گیا تو اس سنسار کا کیا ہوگا؟ سرشٹی کیسے چلےگی؟ مگر مانیے تو۔۔۔ کہاں مراوہ؟

    جبھی دیکھنے میں کنکریٹ کی دیوار سے دیوی پر کٹ ہو گئی اور نرتیہ کے سب نیموں کا پالن کرتے ہوئے ہیرو کے پاس چلی آئی۔ اس کے کٹے ہوئے سر کو مُدرا میں اٹھایا۔ ایسے دھیرج سے کہ اسے درد نہ ہو اور پھر اسے دھڑ کے ساتھ لگا دیا۔ سر لگتے ہی ہیرو نے پہلے ایک چھینک ماری، پھر اٹھا اور ہری بول، کہتا ہوا ایک طرف یوں چل دیا جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ کوئی دعا نہ سلام، شکریہ نہ ڈنڈوت۔ لیکن جب ہال میں کیا تالیاں پٹی تھیں۔ اگر فلم کے آخر میں لوگوں نے نندلال کو پیٹ ڈالا تو اس کی وجہ اسکرین پلے کی غلطی تھی۔۔۔ بات یوں ہوئی کہ دیوی کے ہاتھوں سے تو وہ بچ گیا، لیکن کچھ دیر بعد باہر جاکر سمندر میں ڈوب گیا!

    جب نندلال کوئی بے۔ اے فیل نہ تھا، جیسے اب ’امبِکا‘ کے بعد وہ پاس نہیں۔ وہ تو وہی تھا۔ فنانس بروکر، جو اپنی حاجتوں کے پیش نظر، روپیا لوٹا دیے جانے پہ بھی ہنڈی واپس نہ کرتا۔ کہیں سال ایک کے بعد اسے پھر اپنے بھلکڑ اسامی کے سامنے پیش کر دیتا۔ مگر ایک بات ہے۔ نندلال جب بھی پہلے خود ہر کسی کو نمسکار کرتا تھا جیسے آج بھی کرتا ہے۔ ورنہ فلموں میں یہ خلاف وضع فطری بات ہے۔ یہاں تو جو آپ کے سلام کا جواب نہ دے، سمجھو اس کی فلم چل گئی اور اگر آپ سے پہلے وِش کرے تو گھوٹالا ہوا۔

    نندلال کی شکل میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ ہماری آپ کی طرح کا آدمی تھا وہ۔ عام ہندستانی قد، وہی رنگ روپ، وہی چیچک کے داغ جو بچپن میں بہت نمایاں ہوتے ہیں، لیکن جوانی میں طاقت پکڑنے میں اپنی ہی ایک داب، ایک چھاپ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ بیچ میں عضلات کی سکڑن چھوڑ جاتے ہیں، البتہ جس میں آدمی بات کرنے میں سر کر چھوٹے چھوٹے جھٹکے دیتا ہے، آپ اس سے ادھار لینے جائیں تو آخر دم تک یہی لگتا ہے وہ دےگا، نہیں دےگا، دےگا، نہیں دےگا۔۔۔

    گونپھا سے گدیوں تک آپ ہندوستانی سنوں کو جمع کریں اور ان کی تعداد سے حاصل جمع کو تقسیم کریں تو جو اوسط نکلتا ہے، وہ نندلال کی شکل ہے۔ نہیں، ایسے شاید میں آپ کو سمجھا نہیں پاؤں گا۔ آپ یہاں سے ایرانی ہوٹل کولار کی طرف چلیں تو راستے میں دو نکڑ پڑتے ہیں۔ ان پر لڑنے والے ہر تیسرے الل ٹپ آدمی کی شکل نندلال کی سی ہوگی۔ اب سمجھے نا آپ۔۔۔؟ ٹھیک ہے کرشن کنھیا کا ایک نام نندلال بھی ہے، مگر کرشن کہاں کے گورے چٹے تھے؟ وہ بھی تو بھارت ورش میں اُتر اور دکن کے میل کی ایک ناکام سی کوشش تھے۔

    نندلال کو اپنے نام کے عامیانہ ہونے سے بہت چڑ تھی۔ مگر وہ کیا کرتا؟ نام بھی تو وجود کی طرح آدمی کے ساتھ یوں چپک جاتا ہے کہ ایک ہی بار اترتا ہے۔ وہ چڑ دراصل پیدا کی گئی تھی۔ ایسی حرکتیں بالعموم عورتیں کرتی ہیں، اپنے وجود کو بھول کر۔۔۔ فلمی لڑکیاں اسے کہتیں۔۔۔ کیا مہابھارت کے زمانے کا نام رکھ دیا تمہارے ماں باپ نے۔ اب اشونی کمار کو دیکھو۔ ہم اسے پیار سے اشُو اُشو تو پکار سکتی ہیں۔ نندو کیا اچھا لگتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے جیسے ٹھینگا ہے۔ چنانچہ نندلال نے باقاعدہ اور قانونی طور پر اپنا نام دیویندر کمار رکھ لیا، اس امید میں کہ ریحانہ اور جے شری اسے دیبو دیبو کہہ کر پکاریں گی تو کتنا اچھا لگےگا۔ اس سلسلے میں اس نے ایک پارٹی بھی کی جس میں اسکاچ چلی، کباب کارنر سے افغانی کباب اور ٹکے بھی آئے۔ پانچ ساڑھے پانچ ہزار کا خرچ بھی ہوا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ہر دوسرے تیسرے اسے کوئی مل جاتا او رکہتا۔۔۔ ارے نندلال، سنا ہے تو نے اپنا نام بدل لیا ہے؟ ایک دن رینو آئی جو پارٹی کے دن آؤٹ ڈور کر رہی تھی۔ بولی۔۔۔ اتنی بڑی پارٹی کر دی، نندلال جی اور ہمیں پوچھا ہی نہیں۔

    بیوی کہتی۔۔۔ میں نے تو اسی سے شادی کی تھی، میں کوئی دوسرا نہیں جانتی۔ کوئی میم تھوڑے ہوں میں جو آج ایک کے ساتھ ہو اور کل دوسرے کے ساتھ۔ میرا تو وہی ہے۔۔۔ اور پھر پاس بیٹھی ہوئی عورت نام لے دیتی ہے۔۔۔ نندلال۔۔۔! رول مانگنے کے لیے ایکٹر لوگ دفتر میں آتے ہی تھے، چنانچہ اس دن بھی دیویندر کمار ایسر کا نام پڑھ کر ایک چلا آیا۔ باہر اسٹول پر بیٹھے ہوئے چپراسی نے کہا۔۔۔ ہاں، صاحب اندر ہیں۔ ایکٹر اندر جاتے ہی انہیں پانو پر واپس چلا آیا۔۔۔ وہاں تو کوئی نہیں، وہی نندلال بیٹھا ہے!

    نندلال کا مکان معمولی تھا اور بیوی بھی معمولی، مگر کچھ نودولتوں کی باتیں چلی آئی تھیں اس میں امبکا سے جانے کے بعد۔ اس نے نئی کار خریدی، لیکن اسے بیوی کی اردل میں دے دیا اور خود اسی کھٹارے میں گھچ گھچ کرتا رہا، کیونکہ وہ لکی تھا۔ سپئیر جوتوں کی طرح سے رہنے پر بھی نندلال بڑا مکان لینے سے ڈرتا تھا۔ اس لیے نہیں کہ کل کلاں شاید اسی میں لوٹنا پڑے بلکہ اس لیے کہ اس کے بھاگیہ اُودے ہونے کی شری گنیش اسی لاطور بھون کے دو کمروں اور بالکونی سے ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی کی دیواروں پر اس نے سخت چمکیلے، بھڑکیلے، چکومار واڑی رنگ پوت لیے تھے۔

    فرج، ٹیلی وژن تو آج ہراننت رام، بے انت سنگھ کے پاس ہوتے ہیں، اس لیے کہیں تو امتیازی شان پانے کی پھڑپھڑاہٹ اور بیوی کو خوش کرنے کی لالسا میں اس نے اپنے ڈبل بیڈ کے پائے چاندی سے مڑھوالیے اور بیوی بار بار پہلو بدل کر اپنے پتی کی بے خوابی کا ساتھ دینے لگی۔ سب کچھ کتنا فراواں اور کم کم معلوم ہوتا تھا۔ ایک وہ وقت تھا جب فرش بھی عرش تھا ان کے لیے اور ایک یہ جس میں عرش بھی سرپیٹ کر رہ گیا تھا۔ بہرحال نند لال کو جو بھی کرنا تھا، انہی دوکمروں میں اور جو نہیں کرنا تھا وہ بھی انہی میں۔

    نندلال کے اِردگرد کی سب چیزیں عامیانہ بلکہ سوقیانہ ہونے کے باوجود ایک چیز بڑی اچھی تھی جو پوربلے جنم کے کسی پھل میں چلی آئی تھی اور وہ تھی مورننگ گلوری کی بیل جو کیسی بےخودی سے اس کے گھر کی دیواروں پر لپکی تھی۔ اس میں اسکارلٹ اوہارا کے پھول پھوٹ کر ہر آتے جاتے کے اند رلال بخار پیدا کرتے تھے۔ لوگ عام طور سے یہی سمجھتے تھے کہ اس گھر کے باسی کتنے تازہ ہیں، کتنے خوش مذاق ہیں۔ پھر ان کے جلوے میں ریاض کرتی ہوئی کسی لڑکی کی آواز مل جاتی۔۔۔ پنگھٹ پہ نندلال مجھے چھیڑ گیورے۔۔۔ اور سدھا، نند لال کی بیوی اٹھ کر سب کھڑکیوں کے پٹ بند کر دیتی۔

    فلمی اشتراکیت میں کوئی اکیلا نہیں کھاتا۔۔۔ کھا بھی نہیں سکتا۔ کسی کے امبکا جاتے ہی سب کے کان ہو جاتے ہیں اور وہ گنگٹوک کی جونکوں کی طرح سے کچھ یوں چمٹتے ہیں کہ آدمی کو پتا ہی نہیں چلتا۔ ادھر آدمی گرتا ہے، ادھر جونکیں گر جاتی ہیں۔۔۔ نندلال کاسا اصیل آدمی یہی کہتا ہوا پایا جاتا ہے۔۔۔ اچھا، تم میرے تاؤ کے ممیرے بیٹے ہو، اچھا؟ ہاں، ہاں، سنا تھا تمہارے بارے میں کیا کروں یار، جب سے امبکا چلی ہے، میرا فیوز ہی اُڑ گیا ہے۔ بس، دیوی ماں کی مہربانی ہے۔۔۔ کیا پیوگے؟ اور وہ ممیرا بھائی پینے کی بجائے کھانے بیٹھ جاتا ہے اور ہمیشہ کھاتا رہتا ہے۔

    رات بیوی جب میاں کے ساتھ بھنچ کر لیٹتی ہے تو کہتی ہے۔۔۔ ہائے جی! تمہارے پتا کا تو بڑا بھائی تھا ہی نہیں کوئی۔۔۔

    ایں؟ نندلال کہتا ہے۔۔۔ ان کا کوئی دوست ہوگا۔ سو جاؤ، سر مت کھاؤ میرا۔

    ہیرالال پانچواں ورن ہے جو آد سے چلا آیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ وہ منو مہاراج کی گنتی میں کیوں نہیں آیا؟ پیڑ الگ، پتے الگ تو دیمک اور ارض بھی الگ ہوتے ہیں۔

    اور آج تو اس پانچویں ورن کے بنا وافر پیسے اور ’امبکا‘ کا کوئی حل ہی نہیں۔۔۔

    جتنا آپ اس کاسہ لیس نسل کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، اتنی ہی اس میں لچک، اتنا ہی چونچال پن اور مقاومت پیدا ہو جائےگی۔ کچھ دیر کے بعد کاکروچ اور چوہے زہر کی گولیاں ہضم کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ آج کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسے خوشامد پسند نہیں۔ نہیں وہ خدا سے بھی بڑا ہو گیا۔ پھر آپ اگر پہلو بدلتے ہیں تو یہ ورن بھی نیا پینترا پیش کرنا جانتا ہے۔ آج کا طفیلیا کبھی بھی سیدھے سیدھے مرد کو عقل مند اور عورت کو خوبصورت نہیں کہتا۔ وہ ہمیشہ کہتا ہے۔۔۔ ناک کیسی بھی ہے، مگر تمہارے چہرے پر پھبتی ہے، بھابی۔۔۔ خوبصورتی کا یہی مطلب نہیں کہ رنگ گورا ہو۔۔۔ آج کل تو۔۔۔

    رنڈ سالا۔۔۔ سارا دن اپنی زبان اور سامنے والے کے کان کی مالش کرتا رہتا ہے۔ یہ جو آدمی سدھا اور نندلال کے پاس آیا تھا، اس کا نام ہیرا تھا۔ شاید لال بھی ہو۔۔۔ ہیرا لال۔ ناصر، جوشی، پانڈے، رام نواس کے طریقے الگ تھے اور ہیرالال کے الگ۔ وہ فلموں میں پلے بیک سنگر ہونے آیا تھا۔ ہیرا آج کے زمانے کا آدمی تھا۔ اس کی شکل ماڈ تھی اور عقل بھی ماڈ۔ اس کے بال بے طرح لمبے تھے اور گھنے، گھناؤنے۔ انسان کے ہونے کے بجائے وہ کسی گھوڑے کے معلوم ہوتے تھے مگر برل کریم کی کرشمہ سازی سے اطاعت پذیر ہوکر وہ کنڈل اور کڑیاں بن کر کاندھے اور گلے میں لٹک رہے تھے۔ ہیرالال جس کامقدر پانچواں ورن تھا، یوں پہلے ورن کا آدمی تھا۔ براہمن۔ اس کا رنگ کھلتا ہوا تھا اور سرخ بھی، جیسے پَلے سے پی ہو۔

    گول چہرے کو لمبی قلموں نے فلینک کر رکھا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ راج بھون ہے جس کے پھاٹک پر گارڈ ہاتھوں میں بندوقیں لیے کھڑے ہیں۔ بشرٹ عنابی، فلیئرز سیمابی۔ ایسا تضاد ناداری کی وجہ سے ہوتا ہے اور یا پھر اس وقت جب آدمی کپڑے کی حد سے گزر جاتا ہے اور فن کے اوج کو چھو لیتا ہے۔ اس کی سپتم کا ’سا‘ کہیں گلے میں بیٹھ گیا تھا۔ جب وہ گاتا تو عورتوں میں کئی بے نام سے جذبے پیدا ہو جاتے۔

    ہیرالال کی بھی انٹری فلم جگت میں آبائی جایداد کو بیچ کر آنے سے ہوئی۔ اس نے بھی فلم بنائی اور خدا آپ کا بھلا کرے، مار کھائی۔ اس کے گرد بھی پانچویں ورن کے بیسوں آدمی جمع ہو گئے اور اسے جینئس ثابت کرکے چلتے بنے۔ کتنے سانپ لوٹے ہوں گے ہیرالال کے سینے پر جب اپنی ہی فلم میں اسے پاپولر پلے بیک سنگر کو لینا پڑا کیونکہ میوزک ڈائرکٹر مامی تھا اور اس نے ضد پکڑلی تھی، یہاں کوئی کسی نئے آدمی کو آزمانے کی ہمت نہیں رکھتا، یہ جانتے ہوئے کہ کسی وقت وہ بھی تو نیا تھا اور کسی نے اسے چانس دینے کی حماقت کی تھی۔ ایک خلا او رخوف ہیں جو ہر آن فلم انڈسٹری کے اذہان کا احاطہ کیے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے بھی کسی دوسرے بڑے کے سہارے بڑے پکاتے ہیں۔

    ہیرا کو غلط فہمی تھی کہ اس کی فلم اس بڑے پلے بیک سنگر کی وجہ سے پٹی۔ اس کا یہ وہم خودپرستی پر نہیں تو اور کس بات پر مبنی تھا؟ وہ یہ جاننا ہی نہ چاہتا تھا کہ فلم کی آمریت میں پلے بیک سنگر تو ایک معدنی شے ہے، پیسے کی آکسیجن بنانے کے لیے جسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل بات تو ہیرو ہے اور ہیروئن۔۔۔ اور کہیں کہیں بیچ میں ڈائرکٹر۔

    رہ رہ کر ہیرا کو مکتی بودھ کی یاد آتی تھی۔ وہ ہوتے تو اس کی یہ درگت نہ ہوتی۔ مکتی بودھ اپنے زمانے کے ٹاپ کے میوزک ڈائریکٹر تھے۔ کبھی پورے دیس میں ان کی دھنیں گونجی تھیں۔ لیکن جب سے چوری یاری رواج ہوئے، وہ پچھڑ گئے۔ تعیش کے اس قانون میں وہ یک زوجہ آدمی۔۔۔ عمر بھر ایک ہی مجبوبہ کو نہارتے رہے جو اب ان کا منہ چڑاتی، انہیں گالی دیتی تھی اور جس کا نام تھا ’سنگیتا بھارتی۔‘ اس پر بھی مکتی بودھ اسی جوش و خروش سے خلاقی کی باتیں کرتے تھے۔ لوگ انہیں منہ پر تو کچھ نہ کہتے لیکن کچھ دور جاکر ہنس دیتے۔ ان کی غزل تک کا بھیس اب بھی پہاڑی، تلک کامود یا گوڑی پوربی ہوتا، حالانکہ آج کا تقاضا تھا کہ سرشوپاں کا ہو، دھڑ ہریسن کا اور پانو۔۔۔ کسی کے بھی۔

    ہیرا کا بال بال قرض میں بندھ گیا تھا اور اب وہ اس منزل پر پہنچ گیا تھا، جس میں آدمی آخر بے حیائی اختیار کر لیتا ہے۔ کپڑے جھاڑ کر اٹھتا اور تشنجی انداز میں پورے بازو پھیلاکر کہتا ہے کچھ نہیں ہے میرے پاس دینے کو۔ بگاڑ لو جو بگاڑنا ہے میرا۔ سیٹھ لوگ سوچتے اب اس کا اور بگڑ ہی کیا سکتا ہے؟ حوصلے والے اس کے لیے دعا کرتے، پچیس پچاس اور بھی دے کر جاتے، تھڑولے دیواروں سے سر ٹکراتے او ریا پھر کچہریوں میں دھکے کھاتے۔ کبھی ایک ہاتھی میرے ساتھی کو ہیرا نے فلیٹ لے کر دیا تھا۔ احتیاج میں ہیرا اسی میں اٹھ آیا، لیکن وہاں بھی فون پر فون آنے لگے۔ یہ آلہ جو کروڑوں کا کاروبار کرتا ہے اور یا پھر عاشقوں کی چُو چُو مو مو کی ترسیل، ہیرا کے لیے پھنیرا سانپ ہو گیا۔ آخر ایک سہانی صبح کو ہیرا کے اس پروردے نے اس کا سامان اٹھاکر سڑک پر رکھ دیا، جو سامان بھی نہ تھا۔۔۔

    وہاں، راشن کی دکان کے نکڑ سے، جو اب ہیرا کا رین بسیرا ہو گیا تھا، ایک ہی خوبصورت چیز دکھائی دیتی تھی۔۔۔ نندلال کے مکان پر لپکی ہوئی بیل! مگر جب ’امبکا‘ شروع بھی نہیں ہوئی تھی تو ہیرا نے نندلال کو آتے جاتے دیکھا تھا۔ یہ ’مبادا‘ کے انداز میں اسے نمستے کرتا تھا اور وہ ’شاید‘ کے انداز میں جواب دیتا۔ پھر پبلک لیٹرن کے نل سے دھوئے بنائے ہوئے کپڑوں میں ہیرالال شری روکڑا کے پاس گیا، جو بہت ہی نامی پروڈیوسر تھا۔ لیکن اس نے اپنے اس نیازمند کو دیکھنے تک کی پروا نہ کی۔ ہیرا کچھ سمجھ گیا۔ جب تک کوئی آدمی خود کو کسی کے لیے ناگزیر نہ بنالے، کام چلتے ہیں بھلا؟ اس نے رگھودلال سے دوستی دہرالی اور ناز سنیما کے پاس کافی ہاؤس میں جانے لگا، جہاں کسیلی کافی کی ایک پیالی اور بھنے سڑے ہوئے کیشونٹ کے چند دانوں پہ فلم والوں کی قسمت بن یا بگڑ جاتی ہے۔ رگھو نے ہیرا کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ ہیرا آخر دم تک یہی سمجھتا رہا، رگھو وہ سب میرے لیے کر رہا ہے۔۔۔ مگر وہ تو روکڑا کے انگوٹھے کا نشان چاہتا تھا۔

    اپنے سیٹھ سے بات کرلینے کے بعد رگھو ہیرا کے ساتھ روکڑا کے ہاں پہنچا۔ اتنے کم سود پر کسی کو پیسا ملے تو کون چھوڑتا ہے؟ جتنا بڑا پروڈیوسر ہو اتنا ہی سود کم لگتا ہے اور جتنا سود زیادہ ہو اتنا ہی پروڈیوسر کم ہو جاتا ہے۔ روکڑا کو فون ہو چکا تھا۔ جب ہیرا اور رگھو، بلکہ رگھو اور ہیرا اس کے پاس پہنچے تو انہوں نے خود آکر دروازے پر اس جوڑی کو رسیو کیا۔ اپنے فلمی سیٹ کے سے آفس میں چیک ٹی سیٹ میں انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے بنائی اور پلائی۔ باتوں میں جب روکڑا صاحب نے کہا۔۔۔ ہاں، ہاں، میں ہیرالال جی کو بڑی اچھی طرح سے جانتا ہوں تو دونوں ہیرالال اور رگھو نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہیرا نے ناز سے، رگھو نے نیاز سے۔ پھر انگوٹھے کا نشان یعنی دستخط وغیرہ ہوئے، رقم اس جیب سے اس جیب میں گئی اور دونوں خوش خوش لوٹے۔ کچھ ہی دنوں میں ہیرالال کو پتا چل گیا۔۔

    ہیرا لال نے دیکھا اس کی اصلی جگہ وہی ہے، جہاں روکڑا صاحب کا چپراسی بیٹھتا ہے۔ باہر وہی دروازے پر کی سرخ بتی صاحب کے مصروف ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی۔ ہیرا باہر بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ صاحب مصروف بھی رہےگا تو کتنا۔۔۔ دو گھنٹہ، چار۔۔۔ پانچ۔۔۔ اسے خبر نہ تھی، گھنٹے دن میں بدل سکتے ہیں اور دن مہینوں میں۔

    بیچ میں رگھو نے ہیرا کو اس عالم میں دیکھا بھی اور کہا۔۔۔ تو تو کہتا تھا روکڑا تیرا بڑا یار ہے، یار؟ وہ تو میں ا ب بھی یہی کہتا ہوں۔۔۔ ہیرا لال نے گھبراکر جواب دیا، آخر انسان ہے۔ اس سے کبھی مصروفیت ہو ہی جاتی ہے۔۔۔ ہے بھگوان۔۔۔ مجھے آخر چاہیے کیا تھا۔۔۔ یہی نا، ایک پلے بیک، روکڑا کے پاس!یہ ایسے ہی تھا، جیسے کوئی مفلس اوپر دیکھ کر کہتا ہے۔ اللہ! میں تجھ سے آخر مانگتا ہی کیا ہوں، یہی دو روٹیاں نا؟ہیرا کی فریاد اس مفلس کی فریاد سے بھی زیادہ اندوہ گیں تھی۔ غریب خدا کے ساتھ جوا کھیلتا بھی ہے تو اسٹیک کیا ہوتا ہے اس کا۔۔۔ یہی دس پیسے نا۔۔۔؟ روکڑا دوسرے کروڑ کی فکر میں ہے۔ میں ابھی پہلے کروڑ کی۔۔۔ اور ہنسی، جو رونا بھی نہ تھی۔

    پیسا اس کے پاس آتا ہے، جس کے پاس پیسا ہو۔ اس لیے ہیرا بھیک مانگ کر بھی کچھ پیسے جیب میں ڈال لیتا تھا، سوگند لے کر کہ وہ اس گداگری کو پیشے کے طور پر کبھی اختیار نہیں کرےگا۔ کام اس کے پاس آتا ہے، جس کے پاس پہلے ہی کام ہو۔ اس لیے ہیرا صریحاً جھوٹ بولتا تھا۔۔۔ پانچ پکچروں میں پلے بیک دے رہا ہوں میں۔ کوئی شروع نہیں ہوئی، کوئی ہو رہی ہے۔ گویا اس نے تین روپے کمائے، جن میں د وکھوٹے تھے اور ایک چل نہیں رہا تھا۔ جو چل نہیں رہا تھا اسے تین صرافوں کو دکھایا، جن میں سے دو اندھے تھے اور ایک کو دکھائی نہیں دے رہا تھا، وغیرہ۔۔۔

    بیچ میں ہیرا کی مکتی بودھ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ کہ ان کی حالت اور بھی خستہ ہو گئی ہے، ہیرا لال کو ان کی باتوں سے پتا چلا۔۔۔ برپشم قلندر! جسے میرے پاس آنا ہے آئے، نہیں آنا نہ آئے۔ میں ناگیا کسی کے پاس۔ غضب خدا کا، یہ گھمسان کامیوزک دینے کے بعد بھی اگر لوگ مجھے بھول گئے ہیں تو بھول جائیں۔ اور پھر، یہ ہو کیا رہا ہے دنیا میں۔ جھوٹ کا مول ہے، سچ انمول ہوکر رہ گیا ہے!

    مکتی بودھ کو چاہیے تھا گھر سے باہر نکلے تاکہ اسے دیکھ کر ہی کسی کو تو بھولے بسرے یاد آ جائے اور کچھ نہیں تو کھلی ہوا سے پھیپھڑے ہی صاف ہو جائیں۔ ایک بار وہ نکلے بھی۔۔۔ اور تو اور اسی سنگیتا بھارتی نے کوڑے کی ٹوکری ان کے سرپہ خالی کر دی! پیسے کو عورت چاہیے تو عورت کو بھی پیسا چاہیے۔ اس کے بعد مکتی بودھ اندر ہی اندر اور اندر اپنے آپ میں سمٹ گئے۔ جہاں انہیں اپنے ہی لہو کا سنگیت سنائی دینے لگا۔

    ہیرالال ان کے پاس بیٹھا تھا، جب مکتی بودھ نے اپنے مستک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ جو یہاں لکھا ہے، ہیرا، وہ مل کر رہےگا۔ ہیرالال نے مکتی بودھ کے ماتھے کی طرف دیکھا، جہاں چند بے ربط لکیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ بائیں طرف ایک گھنڈی سی بنی تھی۔ شاید اسی نے قسمت کے بہاؤ کو روک لیا تھا۔ جبھی کنڈلی دیکھنے والے پنڈت، مکتی بودھ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ جیسے ان کا بھی سہارا چلے جانے پر انہوں نے جھلاکر ہاتھ ہارمونیم پر مارا اور تھوڑی آ آ آ کے بعد ایک غزل شروع کر دی، جو پیلو میں باندھی گئی تھی۔۔۔

    کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو

    مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

    خشوع و خضوع کے آنسو مکتی بودھ کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے، جس نے ہیرا کے بھی بندھ کھول دیے۔ یہ وہ دن تھے جب نندلال کی ’امبکا‘ ہٹ ہو گئی تھی۔ ہیرا نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے۔۔۔ آئیڈیا!

    نندلال بری طرح سے پانچویں ورن میں گھرا ہوا تھا، جب کہ ہیرالال بڑی خامشی سے آکر نیاز مندانہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ صاحب سلامت تو ہو ہی چکی تھی، مگر نندلال اسے آگے بڑھنے دینا نہ چاہتا تھا۔ وہ پہلے ہی گجو، ڈانڈیکر، فیروز اور ان کی قبیل کے لوگوں سے گھبرایا ہوا تھا۔ جیسے ہر امیر آدمی کی بیماری میں ملاقاتی ڈاکٹر، حکیم اور وید بن جاتے ہیں، ایسے ہی سب لوگ اسے آیندہ کے لیے مشورے دے رہے تھے۔ اگر ناکامی میں نندلال کچھ سوچ بھی سکتا تھا تو اب کامیابی میں وہ بالکل کنفیوز ہو گیا۔

    نندلال جب دوسروں سے باتیں کر رہا تھا تو ہیرالال اپنی کمین گاہ سے نظر یں اس پر فوکس کرنے لگا، جیسے وہ کسی مسمر یزم ’تانترک ودّیا کے گر‘ جاننے لگا ہو۔ احتیاج آدمی کو کیا کچھ نہیں سکھا دیتی؟ اچٹ کر نندلال کی نظر جو ہیرا پر پڑی تو وہ اپنی نگاہیں ہٹا ہی نہ سکا۔ جیسے اس نووارد میں کوئی خاص بات ہو۔

    کیا حال ہے؟ نندلال نے تکلفاً پوچھ ہی لیا۔ اپنی جگہ پر کسمساتے ہوئے ہیرا نے وہیں سے ڈوری پکڑی۔۔۔ بس کرپا ہے امباجی کی۔ نندلال چونک گیا۔ اسے یوں لگا جیسے امبا ماں نے خاص طور پر اسے اس کے ہاں بھیجا ہے۔ امباماں جس نے چھ لاکھ کے خرچ پر کروڑ لوٹائے۔ پھر وہ ڈر گیا۔۔۔ کہیں یہ بھی تو وہ نہیں ہے؟

    مہینہ بھر ہیرا نے اپنا عندیہ نندلال سے چھپائے رکھا، جس سے نندلال میں ایک عجیب نفسیاتی الجھن پیدا ہو گئی۔ وہ اب تک لوگوں کی فرمایش اور اپنے انکار کا عادی ہو چکا تھا۔ ہیرا نے کام بھی پکڑا تو نندلال کے نئے دفتر کا۔ وہ پائی پائی پر انٹیریر ڈیکوریٹر سے لڑتا۔ پچیس ہزار کے خرچ پر نندلال اسے پانچ ہزار ایڈوانس دینا چاہتا تھا، لیکن ہیرا لال نے اس کے ہاتھ روک لیے اور اسے پانچ سو میں نپٹا لیا۔ کچھ دن کے بعد پھر اسے ایک ہزار دے دیا۔۔۔ آخر سامان تو ہمیں ہی دینا ہے، اسے تو سب اپنے دماغ ہی سے نکالنا ہے نا۔ وہی دلیل جس کی وجہ سے کوئی فنکار اپنے پیشے سے روٹیاں نہیں نکال سکا۔ لیکھک کو ساتھ میں پیاز کی دکان ضرور کھولنی چاہیے۔

    اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ جو آدمی پیسے کے لیے لٹکایا جاتا ہے، زیادہ تن دہی سے کام کرتا ہے۔ پھر ہیرا نے سدھا بھابی سے پوجا کا معاملہ طے کیا۔ نندلال سدھا کو ہمیشہ اِگنور کیا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ ہیرا ہی کی وجہ سے تھا کہ سدھا کو دفتر کے مہورت پر مکھ رکھا گیا۔ پوجا میں تو وہ تھی ہی تھی، لیکن دوسری باتوں میں بھی سب سے آگے۔ اصل میں وہی دیوی تھی جس کے پانو کی خیرات سے نندلال بنا۔ سیکڑوں لوگ نندلال کے لیے نہیں، ’امبکا‘ کی کامیابی کی خاطر آتے تھے۔ وہ پہلے سدھا کو نمسکار کرتے تھے، جس سے اسے اپنا وجود ضروری، خوبصورت اور امبکا معلوم ہونے لگا تھا۔ ہیرا نے اس قدر خوبصورت طریقے سے نندلال کو گرگوں سے بچایا تو نندلال کے دل میں اس کے لیے عزت بڑھ گئی۔ پھر آیا وہ آئیڈیا کا دن!

    دن ابھی شام میں ڈھل نہ پایا تھا کہ نندلال ہی کے گھر میں ہیرا نے عشاء کی نماز کی تیاری شروع کر دی۔ اس وقت وہ وضو کر رہا تھا، جب کہ نندلال چونکا۔۔۔ تم مسلمان ہو؟

    نہیں تو

    تو پھر۔۔۔ یہ؟

    میں سیکھ رہا ہوں، نماز کیسے پڑھی جاتی ہے؟

    وہ کس لیے؟

    میں ایک مسلم سبجیکٹ بنا رہا ہوں، نندلالجی۔۔۔ ہیرا نے کچھ رکتے ہوئے کہا۔۔۔ دراصل میں اس کا ٹائیٹل امپا میں رجسٹرڈ کروا آیا ہوں اور اس نے جیب میں سے رسید نکالی۔ واقعی ٹائیٹل ہیرالال پنڈت کے نام رجسٹرڈ تھا، اور وہ تھا۔۔۔ سجدہ!

    ارے۔۔۔! ہیرا نے ایک دم کہا، جیسے کوئی بھولی ہوئی بات ایک دم اسے یاد آ گئی اور جو پہلے ہی کوندے کی طرح سے لپک کر نندلال کے دماغ میں آ چکی تھی اور اسی لیے منطبق ہو گئی۔۔۔ یہ فلم آپ کو بنانی چاہیے۔ آپ جو کسی بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، آج ہو گیا۔۔۔ فیصلہ! بات یہ ہے، ’امبکا‘ بنانے کے بعد آپ نے پوری ہندو قوم کو را م کر لیا ہے، ’سجدہ‘ سے پوری مسلمان قوم کو رحیم کر سکتے ہیں۔

    ہیرا لال۔۔۔

    جی، نندلال جی؟

    ٹائیٹل۔۔۔

    ٹائیٹل میرے نام ہے تو کیا ہوا؟ آپ کے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔

    نہیں، میں سوچ رہا تھا۔۔۔ ٹائیٹل بہت دھانسو ہے۔

    جب ہی ہیرالال کو پتا چل گیا کہ وہ نشانے سے تھوڑا آگے ہی نکل گیا ہے۔ چنانچہ اس نے باتوں میں الجھائے رکھنے کی بات سوچی۔ یوں بھی دن بھر ادھر ادھر جھک مارنے سے نندلال کی مدافعت کی سب قوتیں ختم ہو چکی تھیں۔ پھر اس وقت وہاں کوئی دوسرا تھا بھی نہیں۔ سدھا بھابی جی کے ساتھ سازش کرکے اس نے آنے جانے والوں کے تانتے کو بکھیر دیا تھا۔ اس وقت وہ نندلال اور اس کے خدایا دیوی کے بیچ ’اکیلے‘تھے۔۔۔ ہیرا کہے جا رہا تھا۔۔۔ مسلمانوں کے اٹھنے بیٹھنے، ان کے کلچر میں وہ بات ہے جو ہندوؤں کو بھی بہت پسند آتی ہے۔۔۔ دیکھو نا، بیٹی کیسے باپ کو آداب کہتی ہے اور ساتھ میں ابا حضور بھی۔ سامنے آکر بھی کتنا خوبصورت پردہ ہے جو آج کے ننگے پن میں کہاں ہے؟

    میں سمجھ گیا۔

    نہیں، آپ نہیں سمجھے۔۔۔ مسلمان جو بھاشا استعمال کرتے ہیں، وہ کتنی سندر ہے۔ شکیلہ بانو بھوپالی جب قوالی کرتی ہیں تو گجراتی ہندو بھی پاگلوں کی طرح سے داد دیتے ہیں، چاہے ایک لفظ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔

    اس کی بات چھوڑو۔۔۔ وہ سب سمجھا دیتی ہے۔

    اس پر نندلال اور ہیرا دونوں مل کر ہنسے۔ انہوں نے دیکھا کہ سدھا بھی کبارڈ کے پیچھے کھڑی ہنس رہی ہے!

    پھر مشاعرے پر بات چلی آئی، جس کے سامنے کوی سمیلن کا رنگ نہیں جمتا۔

    تو ’امبکا‘ کے بعد ’سجدہ۔۔۔‘ بیچ میں نعت، قوالی، مشاعرہ، کوٹھا، غزلیں، چوڑی دار، مقیش لگے، لہراتے ہوئے دوپٹے، اور آخر۔۔۔ پیسا! بات ہو چکی تھی، مگر نندلال کا قدرتی حربہ آڑے آ رہا تھا، یعنی کہ سر کے جھٹکے۔ کبھی لگتا تھا فلم بنے گی، کبھی نہیں بنےگی، بنےگی، نہیں بنےگی۔۔۔

    میوزک ڈائرکٹر کے طور پر مکتی بودھ جی کا نام تجویز ہوا تھا، اس لیے کہ وہی ایک ایسے آدمی تھے، جو ہیرالال کے پلے بیک سنگر بننے کے خواب پورے کر سکتے تھے۔ ہیرا نے نندلال کے سامنے اپنی بات ہی نہ کی، کیونکہ اندر سے وہ جانتا تھا کہ مکتی بودھ آ جائیں گے تو وہ خود بھی آ جائےگا۔ اس کا چانس سینٹ پرسینٹ ہے۔ نندلال کا اعتراض تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکتی بودھ ایسا سنگیت کار انڈیا نے ابھی تک پیدا نہیں کیا، لیکن آج کل وہ بکتے نہیں۔ دوسرا ہندو ہونے کے ناطے وہ نعت کیسے بنائیں گے؟ پلے بیک سنگر بھی چوٹی کا ہونا چاہیے کیونکہ اردو بھاشا میں ’ک‘ دو طرح کے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک گلے سے نکلتا ہے اور دوسرا۔۔۔ دوسرا نامعلوم کہاں سے؟ ایسے ہی ’سا‘ آ۔۔۔ عرق عشبہ کو ٹھیک سے بولیں تو اَتار (عطار) کا لڑکا کہے گا۔۔۔ ہے تو میرے پاس، پر اتنا گاڑھا نہیں ہے۔۔۔ اور ہیرا کانپ گیا۔

    لیکن جیسے تیسے اتنے بڑے آدمی کو، جس کی ’امبکا‘ ہٹ ہو گئی تھی، مکتی بودھ کے گھر لے ہی آیا۔ نندلال نے بڑی عقیدت سے ان کے چرن چھوئے، مکتی بودھ جی نے وہسکی اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ جتنی دیر یہ سب لوگ پیتے پلاتے، پیتے کھاتے رہے، مکتی بودھ مسلم کلچر ہی کی باتیں کرتے رہے۔ آخر طے ہوا کہ گورووار کے روز ان سے کانٹریکٹ کریں گے کیونکہ وہی دن دیوی ماں کا ہے۔ نندلال نے جاتے ہوئے بھی اتنے بڑے میسٹرو کے پانو پر سر رکھا اور مکتی جی کو یقین ہو گیا کہ اس دن ان کا کانٹریکٹ ہو ہی جائےگا۔ دونوں لال چلے گئے، پیچھے وہی دوٹوٹرو رہ گئے لیکن آج بڑھیا سنگیتا نے اپنے بڈھے کے لیے گاجر کا حلوہ بنایا تھا۔

    فلمی دنیا میں ہر خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ جہاں اتنے بڑے پروڈیوسر کی تصویر میں میوزک دینے کے لیے لوگ مکتی بودھ کے پاس آنے لگے وہاں قرض خواہ بھی جو مایوس ہو چکے تھے۔ مکتی بودھ سب کو کہنے لگے۔۔۔ آپ گورووار کے روز آ جائے اور اپنا حساب لے جائیے۔۔۔ اور پھر۔۔۔ نہیں نہیں، گورووار نہیں۔ میرا خیال ہے اگلے منگل۔ بات یہ ہے نندلال چیک میں پیسے دےگا تو وہ سنیچر کو بینک میں پڑیں گے اور آپ تو جانتے ہیں، اس دن کوئی کلیرنس نہیں ہوتی۔ سوموار کو چیک جائےگا اور منگل کی شام کو میرے بینک میں آئےگا۔ اس لیے بدھ ہی کو آئیں تو اچھا ہے۔ مکتی بودھ حیران ہوئے کہ کسی کو ان کی یہ بات بری نہیں لگی۔

    رات جب مکتی بودھ سونے لگے تو ایک عجیب سی شکر گزاری کا جذبہ ان پر رینگنے لگا۔۔۔ آخر بھگوان نے سن لی میری۔ دیناناتھ شاستری، جیوتش آچاریہ تو کہتے بھی تھے کہ بس آپ کے ایسے دن آنے والے ہیں کہ آپ پہلے کے شکھر سے بھی اوپر پہنچیں گے۔ ایک نہیں شاید آپ کو پانچ چھے کانٹریکٹ بھی ملیں۔ ہو سکتا ہے راج دربار کی طرف سے مان بھی پراپت ہو۔ بس جب آپ کے چاند پر سے منگل گزر جائےگا تو پتنی کی طرف سے بھی چنتا نہ رہےگی۔ اور گورو کے مارگی ہوتے ہی لکشمی آپ کے گھر ڈیرا ڈال لے گی۔ پھر انہیں بیوی کا خیال آیا۔ وہ ہنسے۔۔۔ ایک گھر میں دو عورتیں کیسے رہ سکتی ہیں؟

    سٹی سول کورٹ سے ایک ٹانچ بھی مکتی بودھ جی کے ہاں کی سب چیزوں پہ لگی تھی۔ جب لال برادران وہاں تھے تو بڑھیا نے کس صفائی سے سب چیزوں پر لگی ہوئی ٹانچ کی چیپیاں چھپا دی تھیں۔ کسی پر میز پوش ڈال دیا تھا، کسی پر چادر۔ اگلے ہی روز بیلف وغیرہ کو کچھ دے دلاکر مکتی بودھ جی نے سامان پر قبضہ اور نیلامی کی تاریخ اگلے ہفتے تک ملتوی کروا لی تھی۔

    گورووار کے دن بھی نندلال ہی کو مکتی بودھ جی کے ہاں آنا تھا۔ پانچ بجے شام کا وقت تھا۔ جب چھے ساڑھے چھے ہوئے تو ہیرا کی شکل دکھائی دی۔ اس نے بتایا کہ نندلال کو لیبارٹری میں ’امبکا‘ کے نئے پرنٹ بنوانا تھے۔ اس لیے دیر ہو گئی۔ بات یہ ہے، اس فلم ’امبکا‘ کے ڈیڑھ سو پرنٹ بنوائے اور نیگیٹو گھس گیا۔ اس لیے ہم ایک پرنٹ سے ڈیوپ نکال کر اس سے کاپیاں بنوائیں گے۔ ڈیوپ سے جو پرنٹ نکلا ہے انکل، اس کے مقابلے میں پہلا پرنٹ بھی کچھ نہیں۔ آپ میری خاطر اس کوتاہی کو بھول جائیے۔ آپ میری مدد تو کر ہی رہے ہیں، تھوڑی اور کر دیجیے اور وہ یہ کہ آپ نندلال جی کے گھر ہی چلے چلیں۔۔۔ آناکانی کا کوئی بہانہ ہی نہ رہے۔ دیکھیے آپ کی عزت میری عزت ہے اور میری عزت تو کچھ ہے ہی نہیں۔ آخر وہ اتنا بڑا اور کامیاب پروڈیوسر ہوکر آپ کے گھر آیا ہی تھا نا۔۔۔ آپ کے چرن بھی چھوئے ہی تھے نا۔

    مکتی بودھ جی شاید کچھ سوچتے مگر بڑھیا نے انہیں کوئی موقع ہی نہ دیا۔ تسلا جس میں چاول رکھتے تھے، اسے خالی دکھادیا۔ مکتی بودھ اٹھے اور ہیرا کے ساتھ چل دیے۔ جب ہیرا کہہ رہا تھا، میرے پلے بیک کی بات ابھی نہیں، بعد میں کیجیےگا، جب آپ کا کانٹریکٹ ہو جائے۔ لاطور بھون میں نندلال کی بیوی سدھا نے ان کی خاطر وغیرہ کی۔ دس بجے تک زندگی کے یہ دو کنارے آپس میں ادھر ادھر کی ہانکتے رہے۔ پھر گیارہ بج گئے، بارہ اور خون مکتی بودھ کے سر کو آنے لگا۔ میں نے غلط کیا۔ چلو کوئی بات نہیں۔ کبھی ایک جھوٹ میں سے دس سچ بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر۔۔۔ نندلال آخر انسان ہے اور انسان سے مصروفیت ہو ہی جاتی ہے۔ نندلال کو اب لے ہی آؤ پرماتما، نہیں موت کا بیلف کیسے ٹلےگا؟

    نندلال اپنی اسی گھچ گھچ کرتی مگر لکی گاڑی میں اس وقت یعنی کہ رات کے ایک بجے آیا جب کہ مکتی بودھ ایسی تیسی کہہ کر چلنے ہی والے تھے۔ نندلال لنگڑا رہا تھا۔ پتا چلا اچانک پیچش ہوجانے سے اسے ڈاکٹر کے پاس جاکر سرین کے اوپر ٹیک لگوانے پڑے جو ابھی درد کر رہے تھے۔ شکروار دیوی ماں کا دن ہے، نندلال نے بتایا، اور اس روز وہ برت رکھتے ہیں۔ صبح سے کچھ کھایا ہی نہیں۔ مکتی بودھ نے کہا۔۔۔ پہلے کھاؤ، پھر بات کریں گے۔ آخر انسان اتنی دوڑ دھوپ کرتا کس لیے ہے؟ بہو! چاول میں دہی زیادہ دینا ذرا اور مکتی بودھ نے کسی اضطرار میں اپنا ہاتھ پیٹ پر رکھ لیا اور اسے سہلانے لگے۔

    ہیرا اور مکتی بودھ ٹیرس پر بیٹھے تھے، جہاں ان پر اوس پڑ رہی تھی۔ یہاں اوس پڑ رہی ہے انکل! ہیرالال نے کہا اندر نہ چلے جائیں؟مکتی بودھ بولے۔۔۔ نہیں بیٹا اس کا تو کچھ نہیں، وہ ہماری امیدوں پر نہ پڑے، بس۔۔۔ اور پھر وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس دیے۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد نندلال آیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر مکتی بودھ سے معافی مانگی، اس لیے نہیں کہ وہ لیٹ ہو گیا تھا، بلکہ پیسے لیٹ ہو گئے تھے۔ ابھی تک تو بندوبست نہیں ہوا مگر بدھ تک ضرور ہو جائےگا۔ جانے مکتی بودھ جی نے کیسے کہہ دیا۔۔۔ کوئی بات نہیں بیٹا! بدھ کون سا دور ہے؟ حالانکہ ان کے دماغ میں دلال، سیٹھیے، بیلف کیا کچھ گھومنے لگا تھا اور ان سے زیادہ اپنی بڑھیا جو گھوم ہی نہیں رہی تھی۔

    باقی ذمے داری ہیرا کی تھی کہ وہ بڑھو کو سمجھا دے کہ پیسا کوئی آسانی سے ڈھیلا نہیں کرتا۔ ’امبکا‘ میں کروڑ کا بزنس ٹھیک ہے لیکن وصولی بھی تو کوئی چیز ہے؟ پچیس ہزار تو دفتر کی اینٹر یر ڈیکوریشن میں لگ گیا ہے۔ ارے صاحب، ڈسٹری بیوٹر اور پیسا دیں؟ کیا کیا جھوٹے وَؤچر اور حساب نہیں بناتے؟ شہر شہر گانو گانو جاکر چیکنگ کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے ایجنٹ رکھیں تو اسے پانچ سو ہزار سے کیا کم دیں گے؟ اگر ڈسٹری بیوٹر اس کی جیب میں پانچ ہزار ڈال دے، ساتھ شراب پلائے اور کوٹھے پر گانا سننے کے لیے لے جائے تو بتائیے وہ ایجنٹ آپ کا ہوا یا ڈسٹری بیوٹر کا؟ ایمان داری نام کی یہاں کوئی چیز ہی نہیں۔ ایک ہی ایمان دار ایجنٹ ملا تھا، چیکنگ کے ایک ہفتے کے اندر جس کی لاش ٹائلیٹ سے ملی۔۔۔!

    خیر، ہیرا کیسا بھی تھا، تو مکتی بودھ جی ہی کا بہی خواہ۔ ساتھ نندلال کا بھی۔ حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے۔۔۔ اصل میں وہ اپنا ہی خیرہ خواہ تھا۔ لاطور بھون کے ٹیرس سے اٹھ کر چلتے ہوئے مکتی بودھ جی نے صرف اتنا ہی کہا۔۔۔ یہ کاہے کی بیل ہے؟مارننگ گلوری کی۔۔۔ نندلال نے جواب دیا۔ مکتی بودھ جی نے اپنی نظریں بچاتے ہوئے کہا۔۔۔ تو پھر ایوننگ گلوری کی بھی کوئی ہوگی۔۔۔؟ اور پھر وہ ہنس دیے، چل دیے۔

    ہیرا میں باقی تو سب ٹھیک تھا، لیکن ایک بات غلط تھی۔ اس نے مکتی بودھ جی کی پوری رقم اور سائیننگ اماؤنٹ بھی خود ہی طے کر دی تھی۔ جیسے وہ، مکتی جی، کوئی بات ہی نہیں۔۔۔ ظالم! پوچھ تو لیا ہوتا؟ فلم میں جو آتا ہے، رشتے جگا لیتا ہے۔ ارے بھائی، ہمیں اپنی بیٹا نہیں بیاہنا ہے۔ یہ کمرشل دنیا ہے، اس ہاتھ سے کام لو، اس ہاتھ سے دام دو اور بس۔۔۔ اس سے پہلے یہ بکواس کبھی نہ ہوئی تھی۔ ہوئی بھی تو ہم نے کانٹریکٹ پھاڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیے۔ اور اب، وہ جگر اب میں کہاں سے لاؤں۔۔۔؟ یہ ہیرا؟ کہتا ہے میں نے نندلال کو کہہ بھی دیا کہ انکل کا تو کچھ نہیں، وہ درویش آدمی۔۔۔ ارے درویش کو کیا حاجت نہیں ہوتی؟ پھر۔۔۔ فلمی دنیا گروپ سے چلتی ہے۔ آپ ایک بار اس گروپ میں گھس جائیے، انکل! ’امبکا‘ گروپ۔۔۔ ارے، بڑے نندلال آئے اور بڑے گئے۔۔۔ اس کے ذریعے آپ کو دس تصویریں ملیں گی۔ ارے۔ تیے، مجھے اسی ایک کی ضرورت ہے، بعد کی دس اور بیس کی نہیں۔۔۔ کبھی میرا بھی وقت تھا، جب تمہارے ایسے آدمی کو ہفتہ ہفتہ باہر بٹھائے رکھتا تھا۔ کہیں غلطی سے وہ اپنا تھوبڑا میرے کمرے میں لے آئے تو میں چلاکر کہتا تھا۔۔۔ گیٹ آؤٹ۔ گیٹ۔ آؤٹ۔

    اور اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے مکتی بودھ سچ مچ چلا اٹھے۔۔۔ گیٹ آؤٹ۔۔۔ بڑھیا ہڑبڑا کے اٹھی۔۔۔ کیا ہوا؟مکتی بودھ کی سانس دھونکنی کی طرح سے چل رہی تھی۔ وہ ماتھے پر سے انفعال کے قطرے پونچھ رہے تھے۔ وہی ہو رہا ہے، جو تیرے ایسے کھوسٹ کا ہونا تھا۔۔۔ بڑھیا نے کہا اور واپس اپنے بوڑھے بستر پر لیٹ گئی۔

    جس دلیری سے تقاضا کرنے والوں کو مکتی بودھ جی نے بدھ کا وقت دیا تھا، اسی بے حیائی سے اگلے سنیچر کا دے دیا (چیک بدھ کو بینک میں پڑےگا، تو۔۔۔ وغیرہ) حیرانی کی بات یہ کہ بیسیوں ہی آئے مگر ٹالے جانے پر کسی نے اُف بھی نہ کی۔ کیا ارادے تھے ان کے؟ وہ شور مچاتے، نالش کی دھمکی دیتے، مگر یہ چپ؟ رام جانے یہ سب مل کر کیا کرنے والے ہیں؟ مکتی بودھ کانپ رہے تھے۔

    بدھ کے روز موعودہ وقت پر ہیرا نندلال کی پتنی سدھا کے ساتھ چلا آیا۔ سدھا کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا جو اس نے مکتی بودھ جی کے آگے رکھ دیا۔۔۔ منہ میٹھا کیجیے، انکل!مکتی بودھ اور ان کی بڑھیا نے ڈبہ لے لیا اور انتظار کرنے لگے۔ ہیرا بولا۔۔۔ میں آپ کے گھر میں ان لکشمی کو لے آیا ہوں۔۔۔ اور اس نے سدھا بھابی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ سدھا بھابی سے بڑی لکشمی کیا ہوگی؟ بات یہ ہوئی کہ نندلال اوور فلو لینے کے لیے کلکتہ چلے گئے ہیں۔ ہفتہ بھر میں لوٹ آئیں گے۔ جاتے سمے انہوں نے تاکید کی کہ مکتی بودھ جی کو میرا اچانک چل دینا برا نہ لگے، اس لیے تم میری بیوی کو لے جانا اور ساتھ برج داسی کے ہاں سے رس ملائی کا ایک ڈبہ بھی۔۔۔ اپنی عورت سے بڑی آدمی کی عزت کیا ہوتی ہے؟ مکتی بودھ جی نے سر ہلایا اور بولے۔۔۔ ہوں، اور ایک نظر اپنی بڑھیا کی طرف دیکھا۔۔۔ ان میں پرانے جلال کے دن پھڑپھڑاکر رہ گئے۔۔۔

    ادھر ہیرا اور سدھا گئے، ادھر ٹانچ والے گھر سے ریڈیو گرام، اسپیکر، ٹیپ ریکارڈ، ہارمونیم، ستار، فرنیچر اور کچھ برتن اٹھاکر لے گئے۔۔۔ اس کا کیا ہے، مکتی جی نے سوچا، دس دن میں پیسے آ جائیں گے تو چیزیں بھی لوٹ آئیں گی، جب تک انہوں نے نیلام نہ کر دی ہوں تو۔۔۔ کر بھی دی ہوں تو نئی خریدیں گے۔ آخر ایک آدمی نے اپنی عورت، اپنی عزت میرے گھر بھیجی ہے۔ اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی؟ یہ کوئی آزمایش ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے دس دن میں نندلال کلکتہ سے لوٹ ہی آئے۔ جب ٹانچ والوں نے گھر کی چیزوں پر ہاتھ ڈالا تو مکتی بودھ کی بڑھیا نے ایک دلدوز چیخ ماری اور اس کے بعد بے ہوش ہو گئی۔ یہ اچھا ہی ہوا، اگر وہ ہوش میں ہوتی تو دوسروں کے ہوش ٹھکانے کر دیتی۔ وہ مغلظات سناتی کہ بس۔

    دس دن بیت گئے لیکن نندلال کلکتہ سے نہ لوٹا۔ اب ہیرا مکتی بودھ جی سے بچتا پھر رہا تھا۔۔۔ نندلال کا ہاتھ روکنے اور مکتی بودھ کو پیسا دلوانے کے بیچ میں وہ کہیں بٹ کر رہ گیا تھا۔ اسے اپنا آدرش دور ہٹتا، خود میں کہیں گم ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ نندلال کہیں اس سے بھی کھیل تو نہیں کر گیا؟ نہیں وہ ایسا آدمی تو نہیں ہے۔ ہیرا نے ایک بار مکتی بودھ کو مل کر بتایا کہ اوورفلو جھگڑے میں پڑ گیا ہے۔ اسی لیے نند لال نہیں آیا، مگر آئےگا ضرور، کچھ دن میں، کہاں جائےگا؟مکتی بودھ جی ہیرا کی بات پر ہونٹ بھینچ کر صرف ایک ہی کہتے رہے۔ ہوں! لیکن جب ہیرا چلا جاتا تو اپنے آپ سے کہتے۔۔۔ مکتی! تجھے کیا ہو گیا ہے، کیوں نہیں تو ان پلوں کو ٹھڈے مار کر باہر نکال سکتا؟ اب رہ ہی کیا گیا ہے۔۔۔؟

    اسی سلسلے میں ایک دن مکتی بودھ جی نے دلارے، اپنے شاگرد کو بھیج کر استاد کلب علی کا ستار منگوایا، جس پر ہاتھ رکھتے ہی وہ سب کچھ بھول گئے۔ بجاتے ہوئے کیسے وہ اس ساز سے لپٹ لپٹ جاتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے ان کے بازوؤں میں کوئی محبوبہ ہے۔ جس پر جھک جھک کر، جسے چوم چوم کر، جس پر انگلیاں دوڑا دوڑا کر، وہ کسی نئی زندگی کے سر نکال رہے ہیں۔۔۔ بڑھیا دیکھ رہی تھی اور کباب ہو رہی تھی۔ یہاں کی عورت، وہاں کی عورت کی ہمیشہ حاسد رہی ہے۔۔۔ یہ کہ اسے اپنی ذات میں کھوکر، اپنے مالک میں مدغم ہوکر اس کی ملکہ ہوجانا چاہیے، سب باتیں ہیں۔۔۔ وہ تو اپنے میاں کی ہر دل عزیزی سے بھی جل بھن کر راکھ ہو جاتی ہے۔۔۔

    ایک جھالے کے بعد یک دم مکتی بودھ جی نے ستار ایک طرف رکھ دیا اور پھر وہی اپنے آپ پر رحم۔۔۔ اس پر بھی تو یہ سب اپنے آپ سے ہوتے دیکھ رہا ہے مکتی۔۔۔ کیوں نہیں تو نندلالوں سے کہہ سکتا۔۔۔ نہیں چاہیے مجھے تمہارا ’سجدہ‘ جو سجدہ ہی نہیں۔۔۔ پھر انہیں رستم کے آخری دن یاد آجاتے، جن میں وہ روتا اور سر اوپر اٹھاکر، ہاتھ پھیلاکر کہتا۔۔۔ اللہ! کہاں گئے وہ میرے دن جب میں چلتا تھا تومیرے پانو زمین میں دھنس جاتے تھے۔ اور آج؟

    پھر وہ نعت جس کی دھن اپنی بیکاری کے دنوں میں مکتی جی نے نکالی تھی، جسے گاتے ہوئے انہوں نے بیچ میں سب بند کر دیا۔ یہ بھیرویں، یہ ٹوڈی۔۔۔ کیا میاں کی اور کیا بیوی کی اور کیا کھماچ سب بکواس ہیں۔ قرآن کی بھی تو آیت ہے، جس رخ زمانہ پھرے، اسی رخ پھر جاؤ۔۔۔ میں نہیں پھر سکتا، میری ہڈیاں بوڑھی ہو گئی ہیں جو ٹوٹ سکتی ہیں، مڑ نہیں سکتیں۔ نہیں! میں یہ نہیں کروں گا۔۔۔ میں نہیں مرغ باد گرد، میں نے اپنے سنگیت، اپنی ماں سے پیار کیا ہے، ایشور! عورتیں بیسیوں، سیکڑوں ہو سکتی ہیں، ماں صرف ایک۔۔۔ کیا میں بھوکا بھی نہیں مر سکتا؟ یہ آزادی مجھ سے کوئی نہیں، کوئی نہیں چھین سکتا۔۔۔

    نندلال دس دن بعد بھی نہ لوٹا۔ بیچ میں ہیرا مکتی بودھ جی کے گھر کا طواف کرتا رہا۔ مگر ان کا دروازہ کھٹکھٹانے، اندرجانے کی اس کی ہمت نہ پڑی۔ شاید وہ مکتی بودھ جی سے اتنا نہ ڈرتا تھا، جتنا ان کی بڑھیا سے۔ اب کے جو ہیرا آیا تو ایک تار سے مسلح۔ تار کلکتہ سے آیا تھا، جس میں لوٹنے کا تتھ وار سبھی لکھے تھے۔ اس دستاویز کو کانپتے ہوئے ہاتھوں میں لے کر مکتی بودھ پھر کچھ بھول گئے۔۔۔ اور آنکھیں سکوڑ کر کہیں دور دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔ ہوں۔۔۔!

    ہیرا اندر سے جانتا تھا کہ اگر مجھے مکتی بودھ جی کی ضرورت ہے تو انہیں بھی میری۔۔۔ اور نندلال کی۔۔۔ مقررہ تاریخ کو نندلال واقعی چلا آیا۔ ہیرا اسے گھیر گھار کر مکتی جی کے ہاں لے ہی آیا۔ بڑے تیقن سے اس کے ہاتھ گھنٹی پر پڑے۔ بہت دیر تک اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ آخر پتا چلا کوئی آرہا ہے۔ دروازہ کھلا تو سامنے بڑھیا تھی جو انہیں پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کانچ تھا۔ سارے چہرے پر پرچھائیاں پھیلی تھیں۔ اور جھریوں میں کوئی سلٹ جمی تھی، جیسے طوفان اور باڑھ کے بعد چھوٹے بڑے ندی نالو ں میں جم جاتی ہے۔ بڑھیا نے ان کو جانے کے لیے کہا نہ بیٹھنے کے لیے۔ اس پر بھی وہ اندر جاکر بیٹھ گئے۔ ہیرا نے پوچھا۔۔۔ انکل کہاں ہیں آنٹی؟پہلے تو وہ ایسے ہی بڑبڑ دیکھتی رہی۔ آخر بولی۔۔۔ جانے کہاں کھپ گیا ہے، بڑھئو۔۔۔ اسے تو موت بھی نہیں آتی۔۔۔ کیا کیا ٹونے نہ کیے میں نے۔۔۔

    تین گھنٹے انتظار کے بعد نندلال چیک سمیت لوٹ گئے۔ ہیرا نے اور کوئی دیر دیکھ لینے کو کہا، مگر نندلال راضی نہ ہوا۔ اٹھتے ہوئے نندلال نے تسلی کے لیے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا، چیک وہیں تھا! ہیرا کی حالت ابتر تھی البتہ اتنی محبت سے بنائی ہوئی اس کی عمارت ڈھے گئی تھی۔ جس ٹھیکے دار کو اسے بننے کے لیے دیا تھا، اس نے سیمنٹ سے زیادہ ریت اس میں ملا دی تھی۔

    ہیرا گم صم جا رہا تھا کہ دور سے اس کے کان میں کوئی دھن سنائی دینے لگی۔۔۔ جو پیلو میں بندھی تھی۔۔۔ ہیرا نے نندلال سے پوچھا۔۔۔ آپ کو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی، اس اینٹوپ ہل کے پیچھے سے جہاں عرب ساگر ہے؟ نندلال نے سننے کی کوشش کی اور بولا۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ ہاں۔۔۔ نہیں تو۔۔۔

    مأخذ:

    مکتی بودھ (Pg. 19)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے