Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مردہ گھر میں مکاشفہ

اسد محمد خاں

مردہ گھر میں مکاشفہ

اسد محمد خاں

MORE BYاسد محمد خاں

    کہانی کی کہانی

    مردہ گھر میں مردوں کی رکھوالی کرنے والے شخص کے غیر معمولی برتاؤ عیاری مکاری اور بے حسی کو اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے جو مردوں کے اعضاء بیچ دیتا ہے لیکن خود کو نیک، ایماندار اور ذہنی طور پر غیر متوازن ظاہر کرنے کے لیے مردوں کے اوپر چڑھ چڑھ کر اپنے مبہم سے عمل کی انجام دہی کے لیے داد طلب نظروں سے دیکھتا ہے۔

    وہ میلی سی ٹوپی اوڑھے تھا۔ بار بار کے دھوئے ہوئے ملگجے کپڑوں سے اس کی مالی ابتری کا اندازہ ہوتا تھا۔ آنکھوں سے لگتا تھا کہ روز سرمہ لگاتا ہے۔ مجموعی طور پر وہ نیک دکھائی دیتا تھا۔ میں نے اسے این۔ او۔ سی دکھایا تو تپاک میں وہ دہرا ہو گیا، کہنے لگا، ’’اس کی کیا ضرورت تھی جناب! ویسے اگر ساتھ میں آپ دو فوٹو سٹیٹ کاپیاں بھی لے آتے تو بڑی مہربانی ہوتی۔‘‘

    میں نے اپنا ٹفن بکس اور تھرموس اٹھایا اور جانے کو ہوا تو وہ بڑی نیکی سے ہنسا اور کہنے لگا، ’’ابھی رہنے دو جناب! دوبارہ کہاں جاؤگے۔ پھر کبھی آؤ تو دے دینا۔ آپ اپنے ہی آدمی ہو۔‘‘ مجھےبڑی حیرت ہوئی۔ میں اس کا آدمی نہیں تھا تو پھر وہ ایسا کیوں کہہ رہا تھا۔ بہت مشکلوں کے بعد مجھے این۔ او۔ سی ملا تھا۔ میں نے بائیس صفحوں کا سوال نامہ بھرا تھا۔ ایک سو چالیس تصدیق ناموں، حلف ناموں، رکنیت ناموں، استحقاق ناموں اور عزاداری کی پرچیوں کی نقلیں فراہم کی تھیں، ساتھ میں طبی جدولیں اور دندان سازی کے چارٹ مہیا کیے تھے۔ تب کہیں جاکے مہینوں میں مجھے یہ این۔ او۔ سی۔ ملا تھا۔ میں کسی کا آدمی ہوتا تو کاہے کو مجھے یہ کھکیڑ اٹھانی پڑتی۔ مگر میں خاموش رہا۔ مجھے صبح سے شام تک اس آدمی کی معیت میں وقت گزارنا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ صبح ہی صبح اسے ناراض یا بیزار کر دوں۔

    میں نے ٹفن بکس اور تھرموس دوبارہ فرش پر رکھے تو وہ بولا، ’’جناب! آپ انہیں اوپر رکھ دو آرام سے۔ کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ اس نے میرے ٹوکنےسے پہلے میرا تھرموس اور ٹفن بکس اٹھایا اور دونوں قریبی سلیب پر پڑی لاش کے سینے پر رکھ دیے۔

    ’’ایلو جناب! اب آپ بھی آرام سے بیٹھ جاؤ۔‘‘ یہ کہتا ہوا وہ کونے کی طرف بڑھا اور وہاں سے ایک پہیے ٹوٹی وھیل بیرو کھینچ لایا، ’’میں تو جی ڈیوٹی پر ہوں، شام تک کھڑا رہوں گا، آپ اس میں بیٹھو آرام سے۔‘‘ وہ ہنسا،’’بے کار پڑی ہے۔ برف تو اب آتی نہیں۔‘‘

    ’’کیوں، برف کیوں نہیں آتی؟‘‘

    ’’آپ تو جانتے ہیں ناجی، برف اب کدھر آتی ہے۔‘‘ میں نہیں جانتا تھا لیکن میں چپ رہا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا وھیل بیرو کے پاس پہنچ گیا۔

    ’’میں نے تو جی کتنی بار لکھواکے پہنچوایا کہ ادھر ایک بینچ ڈلوا دو، بڑے بڑے عزت والے لوگ آتے ہیں، مگر جی کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔‘‘ اس نے یقیناً لکھواکر پہنچوایا ہوگا مگر کیوں کہ میں حتمی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا اس لیے چپ رہا۔ وہ اب تک میرے این۔ او۔ سی کی چار تہیں بنا چکا تھا، اب اس نےاسے اپنی بنڈی کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔ پھر بڑے تجسس سے پوچھنے لگا، ’’آپ تصویر بھی بناؤگے جی یا صرف مشاہدہ کروگے؟‘‘ وہ صرف کو صِرف اور مشاہدے کو ہائے حطی سے ادا کرنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر اس میں حرج کچھ نہیں تھا اس لیے میں نے جواب دیا کہ میں تصویر نہیں بناؤں گا۔

    میرا جواب سن کر وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بڑی چالاکی سے اپنی بنڈی کی جیب تھپکنے لگا۔ اسی جیب میں کچھ دیر پہلے اس نے میرا این۔ او۔ سی رکھا تھا۔ کہنے لگا، ’’ہاں جی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو آپ، سفید این۔ او۔ سی صرف مشاہدے، کا ہوتا ہے۔ اس پے تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تصویر والا این۔ او۔ سی نیلا ہوتا ہے۔ نیلا آج کل دے نہیں رہے کسی کو، حالات صئی نہیں ہیں۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا، وہ کہنے لگا، ’’تو ٹھیک ہے جی آپ بیٹھیں، میں ذرا نلکا کھول دوں، گرمی ہو گئی ہے۔‘‘

    اس نے کونے میں لگا ہوا نل کھول دیا تو یکساں آواز کے ساتھ پانی بہنے لگا۔ میں نے دیکھا نل والے کونے سےایک نالی شروع ہوتی تھی جو کوئی بالشت بھر چوڑی تھی اور فرش پر خاصی گہری بنائی گئی تھی۔ یہ نالی لاشیں رکھنے والے چاروں سلیبوں کا چکر لگاتی ہوئی مردہ گھر کی مغربی دیوار کو چھیدتی کہیں باہر نکل جاتی تھی۔ نالی جہاں سے دیوار کے پار جاتی تھی وہاں ایک مضبوط جالی لگی تھی۔ شاید چوہوں، تل چٹوں اور ناپسندیدہ چیزوں کو آنے سے روکنے کے لیے یہ انتظام کیا گیا تھا۔ اس نے نل کھولا تو مہارت کے ساتھ بنائے ہوئے نالی کے ڈھال پر پانی تیزی سے بہنا شروع ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں آس پاس ہلکی سی خنکی کا احساس ہونے لگا۔

    ’’آپ نے دیکھا جناب! عصولاً تو یاں برف کی ضرورت ہی نہیں پڑنی چاہیے۔‘‘ اس نےاصولاً کو عصولاً کی طرح ادا کیا تھا جو ظاہر ہے بے معنی لفظ تھا۔ کہنے لگا، ’’برف نہیں بھیجتے تو نا بھیجیں یہاں پانی کی ٹھنڈک ہی کافی ہوتی ہے جناب! ویسے میرے پاس یہ بھی ہے۔‘‘ اس نے مجھے سیاہ صابن دانی جیسا ایک ٹرانزسٹر ریڈیو دکھایا۔ یہ ٹرانزسٹر ریڈیو اس نے کالی ریشمی ڈوری کی مدد سے اپنی کلائی میں پہن رکھا تھا۔ کہنے لگا، ’’اگر کبھی خدا نخواستہ تعفن پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے جناب، تو میں اسے چلا دیتا ہوں۔‘‘

    اس نے ٹرانزسٹر چلا دیا۔ کوئی فضول سی عورت ایک فضول سا ملی نغمہ گا رہی تھی جس میں وطن کی بلائیں لینے اور اس کے چہرے پر نظر کا ٹیکہ لگانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ میں نے نغمہ سنتے ہوئے یہ بات نوٹ کی کہ طبلہ بجانے والا دوسرے تمام سازندوں اور اس فضول سی عورت پر حاوی آ گیا تھا۔ ٹھیکے ہی سے پتہ چل رہا تھا کہ اپنی اس ’کامرانی‘ پر بہت خوش ہے اور اب کسی کو پنپنے نہیں دےگا۔ میں مسکراتے مسکراتے رک گیا۔ یہ مسکرانے اور اس طرح کی باتیں نوٹ کرنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ پہلے مسکرایا پھر خوش دلی سے ہنسا، کہنے لگا، ’’یہاں سب چلتا ہے جناب! آپ آرام سے مسکراؤ۔ خیر ہے۔ یہاں کوئی نہیں دیکھتا۔ ویسے جناب بات کیا تھی؟‘‘

    وہ ابھی تک مسکرا رہا تھا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں اسے اصل بات میں کیسے بتا دیتا۔ خاموش رہنا بھی مناسب نہیں تھا، اس لیے میں نے ٹالنے کو کہہ دیا کہ میں برف کے بارے میں سوچ کر مسکرا رہا ہوں۔ وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا، کہنے لگا ،’’ہنسنے کی بات نہیں ہے جناب رونے کا مقام ہے۔ مجھ سے پہلے جو اس جگہ ڈیوٹی دیتا تھا اس کا رشتے کا بھائی شہر میں سوڈے لیمن کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ وہ روز آتا تھا اور ساری برف اٹھا لے جاتا تھا اور یہاں لاشیں پڑی سڑتی رہتی تھیں۔ توبہ توبہ ربا میریا۔ دیکھیں ناں جی آدمی کو اس قدر بےحس بھی نہیں ہونا چاہیے جی، مرنا سب نے ہے۔‘‘

    مجھے اس بےحس، خبیث، لالچی آدمی کی حرکت کا سن کر بہت تکلیف پہنچی تھی۔ مگر اب کیا کیا جا سکتا تھا، بات پرانی ہوچکی تھی اس لیے میں سرجھکا کر وھیل بیرو میں بیٹھ گیا۔ وہ کہنے لگا، ’’لالچ میں آدمی کس حد تک گر سکتا ہے جناب! آپ ’عندازہ‘ نہیں لگا سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے نیک آدمیوں کی طرح ٹھنڈی سانس لی،’’ہاہہ!‘‘ بے حس آدمی کی خباثت کو یاد کر کے وہ بہت اداس ہو گیا تھا۔ میں نے تسلی کے الفاظ کہنے کے لیے اس کی طرف رخ کیا اور دیکھا کہ وہ تو خود سر گھمائے بغیر صرف پتلیاں پھرا کر چالاکی سے میرا رد عمل دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت پہلی بار مجھے شک ہوا، میں سوچنے لگا ممکن ہے وہ اتنا نیک نہ ہو جتنا نظر آتا ہے۔ تاہم بدگمانی اچھی چیز نہیں ہوتی، میں نے اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اور کچھ اور سوچنے لگا۔

    مگر وقت اور جگہ دونوں ایسے تھے کہ زیادہ دیر تک کچھ بھی سوچنا ممکن نہیں تھا۔ میں نے نوٹ کیا تھا کہ یہاں برابر کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے جو سوچنے کے عمل کو روک روک دیتا ہے۔ اس وقت بھی دو باتیں ایک ساتھ ہونے لگیں۔ کونے والے نل سے شروع ہوکر جو ڈھلواں نالی سلیبوں کے چکر لگاتی مردہ گھر سے باہرچلی جاتی تھی۔ میں نےاس کے بہتے ہوئے پانی میں ایک تل چٹا دیکھا اور جب وھیل بیرو میں بیٹھے بیٹھے گردن اچکا کر میں نے اس منظر کی تصدیق کرنا چاہی تو اس نے اپنے ہاتھ میں پہنے ہوئے ٹرانزسٹر ریڈیو کی آواز ایک دم بڑھا دی۔ حیرت ہے، میں نےسوچا، آخر اسے یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر ایسی کچھ زیادہ حیران ہونے والی بات بھی نہیں تھی۔ مجھے ان سب باتوں کے لیے تیار ہو کر آنا چاہیے تھا۔

    دوسری سب تیاریاں تو میں کر کے آیا تھا۔ ٹفن بکس اور تھرموس تک لے آیا تھا۔ دونوں چیزیں سامنے سلیب پر رکھی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میں دوپہر کے لیے آلو کی قتلیاں تلوا کر لایا ہوں۔ میں تشویش کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے ٹفن بکس ہٹا دینا چاہیے۔ قتلیاں، ٹفن بکس میں رکھتے وقت بہت گرم تھیں۔ نچلے خانے میں ہونے کی وجہ سے قتلیوں کی تمام گرمی اس وقت لاش کے سینے میں منتقل ہو رہی ہوگی۔ مجھے وھیل بیرو سے اٹھتے دیکھ کر اس نے ریڈیو بند کر دیا اور خصومت سے دیکھتا ہوا میری طرف بڑھا۔

    ’’کیا بات ہے جناب؟ آپ آرام سے نہیں بیٹھ سکتے؟‘‘

    ’’یہ یہاں سے ہٹانا ہے۔‘‘

    ’’یہاں سے ہٹاؤگے تو پھر کہاں رکھوگے؟‘‘

    ’’یہ الماری جو ہے سامنے۔‘‘

    ’’ہاں ہے۔۔۔ تو؟ الماری کا کیا کرنا ہے؟‘‘

    ’’اسے کھولو میں ٹفن بکس اور تھرموس اندر رکھوں گا۔‘‘

    ’’الماری نہیں کھلتی جناب!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’دیکھو جناب! میں نے آپ سے این۔ او۔ سی کے دو فوٹوں سٹیٹ مانگے تھے تو آپ پیش نہ کر سکے۔ یہ تو میرے مہربانی تھی جو پھر بھی آپ کو۔۔۔‘‘

    ’’تمہی نے روکا تھا۔ میں تو جا رہا تھا کاپیاں بنوانے۔۔۔ٹھیک ہے۔ اب لے آتا ہوں۔‘‘

    وہ بہت فتح مندی سے بولا، ’’اب تو ٹائم گزر گیا جناب! شام سے پہلے آپ باہر نہیں جا سکتے، نہ کوئی اب یہاں آ سکتا ہے۔ آڈر یہی ہے۔‘‘

    ’’کمال ہے! کس قسم کے آدمی ہو تم؟‘‘

    ’’دیکھ لو۔۔۔ اپنا تو یہی ہے۔‘‘ کہہ کر وہ دوبارہ ریڈیو چلانے کو ہوا مگر کچھ سوچ کر کلائی کی گھڑی دیکھنے لگا۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اس نے بڑی نیکی سے اپنے سر پر ٹوپی ٹھیک کی اور ’’ایلو جناب!‘‘ کہہ کر وہ دوسرے سلیب پر چڑھ گیا جو مجھ سے دور اور دیوار کے بالکل قریب تھا۔ میں سمجھا اب یہ اپنا دن کا کام شروع کرنے والا ہے۔ مگر اس نےعجیب حرکت کی۔ سلیب پر کھڑے کھڑے، میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے دیوار کا سہارا لیا اور میلے کپڑے سے ڈھکی ہوئی تلے اوپر رکھی۔۔۔تینوں لاشوں پر جوتوں سمیت چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لاشیں ابھی سخت نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اسےچڑھنے میں مشکل پڑ رہی تھی۔ میں نے دیکھا وہ بری طرح ڈگمگانے لگا ہے۔ ایک بار گرنے کو ہوا تواتر آیا، میری طرف دیکھتے ہوئے کھسیانی ہنسی ہنسا اور دوبارہ لاشوں کے پیروں کی طرف سے چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ بالآخر دیوار کا سہارا لیے وہ سب سے اوپر والی لاش کی رانوں پر پیر جماتا، پیٹ پر سے ذرا سا اچھل کر سینے پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہیں سے کھڑے کھڑے اس نے داد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا، ’’دیکھا جناب آپ نے؟‘‘

    میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے بہ ظاہر بےتعلقی سے میری طرف پشت کر لی۔ لمحے بھر کو دیوار کی طرف منہ کیے خاموش کھڑا رہا۔ یا شاید وہ منہ ہی منہ میں کچھ کہہ رہا تھا جو میں سن نہ سکا۔ شاید وہ مجھے سنا بھی نہیں رہا تھا۔ پھر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔ اب اس نے اپنے دونوں بازوؤں کو ڈنٹر پیلتے ہوئے پہلوان کی طرح خم دے کر بازوؤں پر اپنے بدن کا سارا زور ڈال دیا اور دیوار کی طرف اپنا چہرہ بڑھایا۔ وہ شاید وہاں کسی قسم کا نشان تلاش کر رہا تھا۔ میں نے غور کیا تو دیکھا، وہ دیوار پر ٹنگی ایک فریم کی ہوئی پینٹنگ کی طرف جھک رہا تھا۔ اس نے فریم کے شیشے سے ایک بار اپنے ہونٹ مس کیے اور ہٹ گیا۔ پھر اس نے گھوم کر میری طرف نظر کی اور فاتحانہ انداز میں مسکرانے لگا۔ مسکرا چکا تو اوپر والی لاش کے حلق پر دونوں پیر جمائے لمحے بھر کو کھڑا رہا۔ پھر جست لگانے سے پہلے کسی ایتھلیٹ کی طرح اس نے اپنے گھٹنے ذرا خم کیے اور نرخرے پر سے فرش پر چھلانگ لگا دی۔ سلیب کے پاس کھڑے کھڑے اس نےمجھ سے کہا، ’’دیکھا جناب والا آپ نے؟ تو یہ ہے!‘‘

    اس کی یہ ساری کارروائی میرے لیے حیران کر دینے والی اور لایعنی تھی۔ میں خاموش رہا اور دیوار کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے پہلے توجہ نہیں دی تھی مگر اب جو پینٹنگ پر غور کیا تو دیکھا وہ کسی قسم کی خطاطی کا شاہکار ہے۔ کسی نے بہت عرق ریزی سے نیلی زمین پر زرد رنگ استعمال کرتے ہوئے دو لفظ لکھے تھے ’’ہاہا‘‘ میں نے دو لفظ اس لیے کہے کہ لکھنے والے نے ایک ’’ہا‘‘ ایک طرح لکھا تھا اور دوسرا ’’ہا‘‘ دوسری طرح۔ بس دو ہی سلے بلز تھے ’’ہاہا۔‘‘ اور اس شخص نے اتنی دقت اور مصیبت کے ساتھ سلیب اور لاشوں پر چڑھ کر اس ’’ہاہا‘‘ کو بوسہ دیا تھا۔ مگر کیوں دیا تھا؟ یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی۔

    میں بہت دیر سے بڑی بڑی باتوں پر خاموش رہا تھا مگر یہ جاننا تو ہرصورت میں ضروری تھا کہ اس نےجو کچھ کیا، کیوں کیا۔ اس لیے میں نے پوچھ ہی لیا، وہ بولا، ’’جناب والا! کیوں کا جواب تو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ آپ کو پہلے بھی کوئی جواب نہ ملا ہوگا۔ تو اب تک آپ کو عقل آجانی چاہیے۔‘‘ اس نے حسب توقع عقل کو عقل کہا تھا۔ میں خاموش رہا تو وہ بولا،’’دیکھیں ناں جی۔ پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوا ہے۔‘‘ میں اس کی بات سن کر پیلا پڑ گیا۔ ہائیں! ان باتوں کا پیٹ سے کیا تعلق؟ وہ ہنسا، ’’آپ سے دل مل گیا ہے جی اس لیے بتائے دیتا ہوں ورنہ آپ تو جانتے ہیں کہ بڑ بڑبڑ بڑ بڑ بڑ۔‘‘ وہ آگے بھی بہت کچھ کہتا رہا لیکن میں اس کے ریڈیو کے شور میں کچھ بھی نہ سن سکا۔ سن بھی لیتا تو کچھ زیادہ فرق نہ پڑتا اس لیے کہ وہ عیاری کی باتیں کر رہا تھا اور چالاکی سے آنکھیں چلاتا ہوا مسکرا رہا تھا۔

    اس کے بارے میں اڑائی گئی افواہیں مجھے اس وقت حرف بہ حرف سچی لگیں مگر بنا کسی ثبوت کے ان افواہوں پر پوری طرح یقین بھی تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے اپنی صورت، ٹوپی اور بنڈی تینوں چیزیں اتنی نیکی سے پہن رکھی تھیں کہ افواہوں کو اس سے منسوب کرتے کچھ عجیب سا لگتا تھا۔ مگر اس نے ٹھیک کہا تھا کہ مجھے اس وقت تک عقل آ جانی چاہیے تھی۔

    میں اس عرصے میں وھیل بیرو سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس سلیب کی طرف خاصا بڑھ آیا جس سے ٹیک لگائے وہ کھڑا تھا۔ اپنی عیار باتوں کے جوش میں اس نے دھیان ہی نہ دیا کہ میں اتنا آگے بڑھ آیا ہوں۔ چنانچہ جب میں نے آنکھ بچا کر لاشوں پر ڈھکے ہوئے میلے کپڑے کا ایک کونا چٹکی سے پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر اسے دور پھینک دیا تو وہ ہڑبڑا گیا اور کچھ کرنے کو ہوا مگر اب کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سلیب کی تینوں لاشیں میرے اس کے سامنے کھلی پڑی تھیں۔

    میں نے دیکھا مردوں کے بدن کے سب بال مونڈ دیے گئے تھے، حد یہ کہ پلکیں تک اتار لی گئی تھیں اور مونڈنےوالے نے اناڑی پن میں استرا چلاتے ہوئے جگہ جگہ سے لاشوں کے پپوٹے تک بھی کاٹ دیے تھے۔ ہر لاش کے رب کیج کو ۸ کے ہندسے کی شکل میں کاٹا گیا تھا اور سب سینے حجام کی کسوت کی طرح کھلے پڑے تھے۔ ایک ہی نظر میں اس کارروائی کی وجہ سمجھ میں آ جاتی تھی۔

    میں نے دیکھا اوپر کی لاش کے پھیپھڑے، معدہ، دل اور جگر وغیرہ جو کبھی اندر سے کھینچ کر نکالے گئے ہوں گے، پھر واپس نہیں رکھے گئے تھے۔ اس بنیادی کمی کو یوں پورا کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ لاش کے جینی ٹلز تراش کر سینے میں بھر دیے گئے تھے جو اس وقت بڑی بےچارگی کے ساتھ ا ایک کونے میں پڑے نظر آ رہے تھے کیوں کہ بیدار نہ ہوں تو بدنصیب جگہ ہی کتنی گھیرتے ہیں۔ میں نے ان کی فطری جگہ پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ وہاں بڑی عیاری اور منافقت سے چاندی کے ورق لگاکر جینی ٹلز کی غیر حاضری چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کوشش میں انہیں بلاشبہ ناکامی ہوئی تھی۔

    جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو شرمندہ ہونے کے بجائے وہ بڑی ڈھٹائی سے ہنسنے لگا، بولا، ’’میں نے جناب کو پہلے ہی ارض کیا تھا کہ پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوا ہے۔‘‘ وہ پھر پیٹ کا حوالہ دے رہا تھا۔ عرض کو ’’اَرض‘‘ کہتے ہوئے بھی اسے شرم نہ آئی۔ میں اس کے کہنے کے لیے کوئی سخت بات سوچ ہی رہا تھا کہ وہ مصالحت کے انداز میں کہنے لگا، ’’دیکھو ناں جی ایک تو آدمی سسرال والوں سے بڑا آجز ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ بےآواز ہنسنے لگا۔ میں نے نوٹ کیا کہ اسے جہاں عین کا استعمال کرنا چاہیے تھا وہ وہاں الف کا بےدریغ استعمال کر رہا تھا۔ نیکی کا پول کھل چکا تھا اسی لیے اس کی عینیں ختم ہو چکی تھیں۔ اس کی ہائے حطی کا بھی دور دور پتا نہیں تھا۔

    خیر، وہ کہنےلگا، ’’دیکھو جناب سسرال والوں کے ساتھ میل ملاپ سے رہنا پڑتا ہے۔ ایک ہی سالا ہے میرا۔ پوشش کا کام کرتا ہے۔ ایک بار بولا بھائی جی صوفے میٹریس میں بھرنے کے لیے مال نہیں ملتا۔ اکہتر کے بعد سے پٹ سن ملنا بند ہو گیا ہے اور روئی پڑتی ہے جی بہت مہنگی، تو آپ کو بھائی جی الا تالا نے ازّت دے رکھی ہے اور کہنے لگا بھائی جی آپ کی ذمہ داری میں جو سارا مال پڑا ہے وہ ضایا ہی جاتا ہوگا۔ ہی ہی ہی، پھر کہنے لگا بھائی جی لاشوں کو فرق کوئی نہیں پڑےگا۔ بھلے ہی اوپر بال ہوویں بھلے ہی نہ نہ ہوویں۔ ہی ہی ہی ہی بڑا ہی مشکرا ہے۔ مگر بات صئی کہہ رہا تھا۔ ایں ناجناب؟ تو آپ سمج گئے نا جی۔ سسرال والوں کے ساتھ تو جی میل ملاپ کے ساتھ رہنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

    اب وہ سلیب کے پاس سے ہٹ گیا تھا اور خوشامد میں ہاتھ ملتا ہوا میری طرف آ رہا تھا، ’’یہ خادم جناب فل ہال آپ کی اور کوئی خدمت تو کر نہیں سکتا۔ یہ بتائیں جناب آپ کا کوئی مرگی شرگی کا فارم ہے؟ کوئی چڑیا شڑیا پالنے کا شوق ہے آپ کو بھی؟ تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے بازو لہراتے ہوئے مردہ گھر کے پورے منظر کو اشارے میں لے لیا اور بولا، ’’دیکھیں ناں جناب! ادھر کتنے ہی من پڑا خراب ہوتا ہے۔ پرندے وگیرہ بھی تو اسی کی مخلوق ہیں جناب۔ خراب ہونے سے تو اچھا ہے یہ سب اس کی مخلوق کے کام آ جائے۔‘‘ اس نےعقیدت کے ساتھ دیوار پر ٹنگی پینٹنگ کی طرف دیکھا اور نیکی کے ساتھ آہ بھری، ’’ہاہہ! اگر جناب آپ اپنے ٹفن بکس کا ایک دو خانہ خالی کر دیویں تو جی بڑی مہربانی ہوگی۔ فل ہال تو جناب والا آپ کی بس یہی خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘

    خود اپنے بارے میں اب یہ بتانا ضروری ہو گیا ہے کہ میں جلد مشتعل ہونے والا آدمی نہیں ہوں۔ ہیجان اور تشدد سے دور رہنا چاہتا ہوں لیکن اس وقت اس کی باتیں سنتے ہوئے میں انتشار اور ہیجان میں کانپنے لگا، اس لیے ضروری ہو گیا تھا کہ میں یہ جگہ چھوڑ دوں۔ میں نے اپنا ٹفن بکس اور تھرموس اٹھایا اور مردہ گھر کے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ شخص میرا ارادہ بھانپ گیا تھا۔ اس لیے دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اب وہ بالکل بدلا ہوا آدمی تھا۔ اپنے سفید سفاک دانتوں کی نمائش کرتا ہوا وہ میرے راستے میں کھڑا تھا اور جس طرف سے بھی میں دروازے تک پہنچنا چاہتا تھا وہ مجھ سے پہلے پہنچ کر میری راہ بند کر رہا تھا۔

    میں پیدائشی خوف زدہ آدمی نہیں ہوں۔ مگر یہاں گزارے ہوئے وقت نے میرا پتا پانی کر دیا تھا۔ میں اپنے پائینچوں میں کھڑا کانپنے لگا۔ ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ٹفن بکس اور تھرموس ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ یہ دہشت کاٹے ٹو تھا۔ اس وقت مردہ گھر میں اگر کوئی آواز تھی تو یہی تھی۔

    اس نے میرا خوف دیکھ کر فتح مندی کے ساتھ کئی بار ’’ہاہا‘‘ کہا۔ یہ دیوار کی پینٹنگ والے سلے بلز تھے۔ کچھ ہی دیر پہلے اس نے بڑی دقت اور عقیدت کے ساتھ انہیں چوما تھا۔ اب وہ انہیں میرے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ میں پوری طرح گھر چکا تھا اور دہشت کے ٹے ٹو اور اس کی ’’ہاہا‘‘ کے درمیان کوئی بے ہمتی کا فیصلہ کرنے ہی والا تھا کہ کسی نے ہلکے سے دستک دی۔

    یہ باہر کی آواز نہیں تھی۔ کسی نے الماری کاپٹ تھپتھپایا تھا۔ کوئی الماری کے اندر تھا۔ مگر الماری کے اندر کون ہو سکتا ہے؟ مردہ گھر کی الماریوں میں موت کے سوا کون ہوگا۔ کیا یہ میری سماعت کا دھوکا ہے؟ مگر نہیں وہ آواز پھر آئی۔ اس مرتبہ اس نے بھی وہ آواز سنی۔ اس نے وہ آواز سنی اور پیلا پڑ گیا۔ وہ الماری کی طرف بڑھنا چاہتا تھا کہ میں نے، جو اب تک اپنے پائینچوں میں کھڑا لرز رہا تھا، اچھل کر اس کا رستہ روک دیا۔ اسے ناپسندیدگی سے گھورتے ہوئے میں نے الماری کے پٹ سے کان لگا دیے۔ اندر کوئی سانس لے رہا تھا اور دستک دیے جا رہا تھا۔ کوئی تھا جو باہر آنا چاہتا تھا۔ میرا دل مسرت سے بھر گیا۔

    مردہ گھر میں میرے علاوہ کوئی اور بھی ہے جو زندہ ہے اور باہر آنا چاہتا ہے۔ یہاں کوئی اور بھی زندہ ہے اور جینا چاہتا ہے۔

    مأخذ:

    برج خموشاں (Pg. 117)

    • مصنف: اسد محمد خاں
      • ناشر: سیفورٹین، کراچی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے