Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نادیدہ

MORE BYمحمد امین الدین

    صبا نے جوں ہی ہونٹوں کو ہلتے ہوے دیکھا، وہ ڈاکٹر کو بلوانے کے لیے دوڑی۔ ماں کے ہونٹوں کی جنبش سے سمجھی کہ وہ ہوش میں آرہی ہیں۔ وہ ایسا کئی بار سمجھ چکی تھی۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ امی کسی سے باتیں کررہی ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ سیاہ تارکول والی سپرہائی وے سے کئی سو گز دور ویرانے میں اس کے امی پاپا شدید اندرونی چوٹوں کے باوجود پوری رات کیسے زندہ رہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھاکہ یہ حادثہ کئی سالوں پر محیط واقعات و حوادث کا تسلسل ہے، اور وہ اس سے بھی آگاہ نہیں تھی کہ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد نہیں ہے۔

    یہ بات تو کچھ دن پہلے اس کے امی پاپا بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ صرف ایک بیٹی کے نہیں بلکہ ایک بیٹے کے بھی ماں باپ ہیں۔ مگر کار ایکسیڈنٹ کے بعد کچھ راز یکایک افشا ہوتے چلے گئے۔

    صبا نے جوں ہی ڈاکٹر کو بتایا، وہ دوڑا چلا آیا۔ جونیئر ڈاکٹر اور نرس بھی ساتھ ہی تھے۔ بیگم سعیدہ قمر کے ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے، مگر وہ ہوش میں نہیں تھیں۔

    ’’مس صبا! یہ وہی حالت ہے جو ہم پہلے بھی ڈسکس کرچکے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر نے صبا کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! مجھے یوں لگا جیسے امی ابھی بول پڑیں گی۔ پانی مانگیں گی یا مجھے پکاریں گی‘‘۔ یہ کہتے ہوے صبا کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

    ’’تم گھبراؤ نہیں۔ یہ انشاء اللہ ضرور بولیں گی‘‘۔ ڈاکٹر نے صبا کے گال تھپکتے ہوے کہا۔

    ڈاکٹر کے جانے کے بعد صبا کرسی پر ڈھیر ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں رکے ہوے آنسو چھلک پڑے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ کمرے میں کوئی اور نہ تھا۔ مگر یہ اس کا خیال تھا۔ کمرے میں اس کا بھائی موجود تھا اور وہ اس کی طرف دیکھتے ہوے ماں سے باتیں کررہا تھا۔

    ’’امی !یہ روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی۔ اس کے چہرے پر فرشتوں جیسی مسکراہٹ بہت اچھی لگتی ہے۔ ایک بار سالگرہ پر پاپا سنگاپور سے اس کے لیے کھلونے لائے تھے۔ یہ بہت خوش ہوئی۔ اس دن میں نے اسے کچھ اس طرح پیار کیا کہ یہ محسوس کرے۔۔۔ اس نے محسوس کیا، مگر ڈر گئی۔ اور ساری خوشی خوف میں بدل گئی۔ پھر میں نے اسے کبھی یوں محسوس کرانے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن شاید دو دن بعد مجھے اس کو محسوس کروانا ہوگا۔۔۔‘‘

    وہ اچانک خاموش ہوگیا ۔ صبا کی طرف آیا۔ ہاتھ بڑھا کر صبا کے گال پر رکے آنسو کو چھوا، آنسو فرش پر گر گیا۔ صبا گالوں کو صاف کرتے ہوے اٹھ کھڑی ہوئی اور امی کے قریب آکر انہیں غور سے دیکھنے لگی۔ ان کے ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے، مگر دکھائی نہ دینے والے جسم کی طرح آوازیں بھی ان سنی ہوچکی تھیں۔

    ’’صارم! دو دن بعد کیوں؟‘‘ بیگم سعیدہ قمر نے اپنے بیٹے سے پوچھا، جسے وہ کچھ دنوں سے صارم پکاررہی تھیں۔ چند روز پہلے سخت پتھریلی چٹان کے دوسری طرف گڑھے میں اتری تباہ شدہ کار کی پچھلی نشست پر زخموں میں ڈوبی مگر مامتا بھری آواز میں پہلی بار صارم کہہ کر پکارا تو وہ حیران نہیں ہوا، بلکہ بولا کہ میں جانتا ہوں، صبا کی پیدائش سے پہلے ڈاکٹر نے آپ کو غلط فہمی میں ڈال کر کہہ دیا کہ بیٹا ہے، تو آپ نے ہونے والے بیٹے کا نام صارم تجویز کیا تھا۔ مگر صبا ہوئی تو آپ حیران و پریشان اور لیڈی ڈاکٹر شرمندہ تھی ۔ تب پاپا نے آپ کو بہت حوصلہ دیا تھا۔ آپ کے اردگرد منڈلاتے ہوے میں یہ سب دیکھا کرتا تھا۔

    صارم نے بیگم سعیدہ قمر کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ حالانکہ وہ چاہتا تھا کہ ماں کو بتادے کو دو دن بعد آپ زندہ نہیں رہیں گی۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ بھی بتادے کہ پاپا کی ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹے ہوے مہرے اب ٹھیک ہونے جیسے نہیں رہے۔ انہیں اگلے تین برس اسی حالت میں گزارنا ہوں گے۔ مگر وہ خاموش رہا۔ وہ اکثر پلک جھپکتے لمحوں میں دیواروں ، سیڑھیوں، کوریڈوروں اور بند دروازوں سے گزرتا ہوا ٹراما سینٹر میں سر سے بندھے وزن کے ساتھ کوما کی حالت میں لیٹے ہوے اپنے پاپا کو دیکھتا، اور ان کے ذہن پر سوالوں جوابوں کا بوجھ ڈالے بغیر اسی برق رفتاری سے لوٹ آتا۔ امی کی طرح وہ اپنے پاپا کو بھی بتاچکا تھا کہ وہ ان کا وہی بیٹا ہے جس کے بارے میں وہ کبھی سوچتے رہتے تھے۔

    ماں باپ اور بیٹے کی یہ پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب حادثے کے بعد ڈرائیور کی روح پرواز کرچکی تھی اور پچھلی نشست پر بیٹھے ہوے قمر الزماں اور بیگم سعیدہ قمر کی سانس کی ڈور میں گرہیں پڑجانے کی وجہ سے جھٹکے لگنے لگے۔ تب دونوں نے دیکھا کہ گاڑی میں ایک چمک دار ہیولہ اتر آیا ہے۔ اکھڑتی سانسوں میں دونوں کو وہ ہیولہ موت کا فرشتہ لگا۔ مگر وہ روح قبض کرنے کے بجائے ان سے باتیں کرنے لگا تو وہ ششدر رہ گئے۔ کار میں کسی تیسری آواز کی بازگشت کے بغیر تینوں باتیں کررہے تھے۔ اگر کوئی دیکھتا تو دو زخمیوں کو بڑبڑاتا ہوا پاتا۔

    ’’تم۔۔۔ کون ہو؟‘‘ قمر الزماں نے پوچھا تو ان کا لہجہ ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹے مہروں کی طرح ٹوٹا ہوا تھا۔

    ’’میں آپ کا بیٹا ہوں‘‘۔ ہیولے نے جواب دیا۔

    ’’بیٹا۔۔۔؟‘‘ دونوں زخمیوں نے حیرت سے کہا۔ ’’ہمارا تو کوئی۔۔۔ بیٹا۔۔۔ نہیں ہے‘‘۔ یہ بات دونوں نے حیرت سے کہی تھی۔ لیکن بیگم سعیدہ قمر کے مقابلے میں قمر الزماں کی حیرت میں شدت نہ تھی۔

    ’’اس حالت میں نہیں چاہتا کہ آپ پر پرانی یادوں کا کوئی بوجھ ڈالوں‘‘۔

    ’’تم صاف دکھائی کیوں نہیں دے رہے ؟‘‘

    ’’مجھے اس کی اجازت نہیں ہے‘‘۔

    ’’کس کی طرف سے؟‘‘

    ’’جن کے پاس میں رہتا ہوں‘‘۔

    ’’کون ہے وہ؟‘‘

    ’’آپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔ اس وقت آپ کو طبی امداد کی ضرورت ہے‘‘۔

    ’’تو پھر کچھ کرتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’میری کوششوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ صبح سے پہلے کوئی مدد نہیں آئے گی‘‘۔

    ’’تم کوئی۔۔۔ منفی نادیدہ۔۔۔ ہو جو نہیں چاہتا۔۔۔ ہمیں امداد۔۔۔ ‘‘قمر الزماں کو اچانک شدید درد اٹھا تھا۔

    ’’میں کوئی شیطانی قوت نہیں ، آپ کا بیٹا ہوں‘‘۔

    ’’۔۔۔کوئی بیٹا۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہم کیسے مان لیں‘‘۔

    ہیولہ قمر الزماں اور بیگم سعید قمر کے بہت نزدیک آگیا۔ چمکیلا اور روشن دھواں ان کے بدن سے ٹکرایا۔ ٹھنڈک کے شدید احساس سے انہیں ہلکی سے پھریری آگئی۔ نرم و لطیف ٹھنڈا احساس دونوں کے وجود میں سرائیت کر گیا اور پھر یادوں کے پردے پر منظر چلنے لگے۔ ایک ہی واقعہ دونوں کو الگ الگ حیران کررہا تھا۔

    سعیدہ بیگم کی یادوں میں منظر زیادہ نہ تھے۔ انہیں تو بس اتنا یاد آیا کہ صبا کی پیدائش سے پہلے ان کا گھر انسانوں کو نگلنے اور بدلے میں سونا اگلنے لگا تھا۔ رفتہ رفتہ سمندر پار جانا گھر کی دہلیز کے پار جانے جیسا ہوگیا۔ ان ہی دنوں اس کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ تشخیص کے باوجود کئی ماہ تک جب قرار نہ آیا تو ایک معمولی آپریشن، اور بس ایک رسولی۔۔۔ مگر بچہ؟

    سارے منظر پلک جھپکتے غائب ہوگئے۔ ان کی یادوں میں قصہ بہت محدود تھا۔ وہ حیران تھیں کہ ایک ماں اتنی بے خبر کیسے ہوسکتی ہے۔ وہ سوچ میں پڑ گئیں۔ لیکن ایکسیڈنٹ کے بعد اندرونی و بیرونی چوٹوں نے پہلے ہی انہیں ریزہ ریزہ کررکھا تھا۔ سوچنے کی طاقت وہ کہاں سے لاتیں۔ وہ تیز تیز سانسیں لینے کی کوشش کرنے لگیں، مگر ذرا دیر میں ہمت جواب دے گئی۔ انہیں بیٹا پانا اچھا لگ رہا تھا، مگر جسے چھو نہ سکیں، وہ پانا کیسا؟ تب ان کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ یکایک انہیں لگا جیسے کسی ٹھنڈے یخ بستہ ہاتھ نے ان کے دل کو تھام لیا ہو۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں ان کی سانس ہموار ہوتی چلی گئی۔ انہیں گوناگوں قرار آگیا۔ مگر سعیدہ قمر کے ساتھ بیٹھے لیکن دروازے کی طرف ڈھلکے ہوے اور ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں فاصلے جیسی سنگین چوٹ کا درد جھیلنے والے قمر الزماں کے پاس اس واقعے کی کچھ ایسی یادیں تھیں، جنہیں وہ دماغ کے کسی گوشے میں اس طرح رکھ کر بھول گئے تھے جیسے سمندر سے چنی ہوئی سیپیاں کوئی بچہ وہیں ریت میں دبا کو بھول جائے۔ مگر اچانک پانی کی تیز لہر ریت کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے اور ساری سیپیاں باہر نکل آئیں۔ کچھ ایسے ہی قمر الزماں کی یادیں بھی دماغ کے گوشوں سے باہر آگئی تھیں۔ دھندلے اور ٹھنڈے یخ وجود نے سمندر کی لہروں جیسا کام کیا تھا۔

    حادثہ ہونے سے چوبیس سال پہلے نوجوان صرافہ مرچنٹ قمر الزماں اور جیولری ڈیزائنر سعیدہ جہاں جواب سعیدہ قمر بن گئی تھیں، کی شادی کو ایک سال ہوچلا تھا مگر اولاد تو کیا اس کی امید تک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ تاہم اس دوران یہ ضرور ہوا کہ بھرا پڑا بنگلہ خالی ہوتا چلا گیا۔ پندرہ سو گز پر پھیلا حویلی نما اونچی محرابوں والا خوبصورت بنگلہ سال بھر پہلے مکینوں کے دھڑکتے دل اور مہکتی سانسوں سے اٹا پڑا تھا۔ قمر کے والدین فخر الزماں و بیگم فخر الزماں، نجیب ماموں، ان کی دو بیگمات، رخسانہ نجیب، شمع نجیب ، ان کے چھ بچوں کے علاوہ چوکیدار، مالی، باورچی اور گھریلو نوکروں کی فوج موجود تھی۔ ہر وقت گھر میں میلہ سا لگا رہتا تھا۔ رخسانہ مامی اور شمع ممانی کی ہر وقت کی نوک جھونک اور بچوں کی شرارتیں گھر کے درودیوار کو ہر وقت جگائے رکھتیں کہ اچانک واقعات کا ایک سلسلہ جاری ہوگیا۔

    نجیب ماموں کا انتقال ہوگیا۔ بیگم فخر الزماں نے اپنی دونوں بھابیوں اور بھائی کے بچوں سے وعدہ کیا کہ وہ ان سب کا ہر طرح سے خیال رکھیں گی ۔چند ہی دن گزرے تھے کہ فخر الزماں اور بیگم فخر الزماں دونوں خواب گاہ میں مردہ پائے گئے ۔ہر چہرے پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ نئی نویلی دلہن سعیدہ قمر کو اچانک حویلی میں قہقہے گم ہوجانے سے خوف آنے لگا۔ مگر قمر الزماں والدین کی وفات کے غم اور اچانک بڑھ جانے والی کاروباری مصروفیات کے باوجود سعیدہ کو دلاسہ دیتا اور سمجھاتا، مگر کاروباری ذمہ داریوں کی وجہ سے وقت بہت کم دے پاتا۔ بڑھتی ہوئی تنہائی نے سعیدہ کو بیمار کردیا۔ قمر نے محسوس کیا تو اچھے ڈاکٹروں سے رجوع کیا ۔جب سادہ علاج کارگر نہ ہوا تو نفسیاتی ڈاکٹروں سے رابطہ کیا۔ ان ہی دنوں سعیدہ قمر کا وزن بڑھنے لگا اور پیٹ کا ابھار اور حجم تبدیل ہونے لگا۔ قمر نے گائنی ڈاکٹر کو دکھایا، ٹیسٹ ہوے مگر رپورٹ منفی آئی۔ شمع ممانی نے مشورہ دیا۔

    ’’رپورٹیں غلط بھی ہوسکتی ہیں۔ خدا کرے یہ خوشی کی بات ہو تم الٹرا ساؤنڈ کراؤ‘‘۔

    دونوں ایک بار پھر گائنی ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ وہ پچھلے تجزیے سے مطمئن تھی، مگر اطمینان کے لیے الٹرا ساؤنڈ بھی کر ڈالا۔ تصویروں میں خلا کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ سعیدہ کی بدلی ہوئی حالت کی وجہ سے گھر میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ اب کی بار رخسانہ مامی نے مشورہ دیا کہ کسی عالم سے استخارہ نکلوایا جائے۔ قمر الزماں نے چڑ کر منع کردیا مگر جب سعیدہ نے بتایا کہ وہ آج کل ڈر بھی جاتی ہے، اس لیے کسی بزرگ سے رابطہ کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ تب قمر نے صرافہ مارکیٹ میں اکثر دکھائی دینے والے ادھیڑ عمر شخص سے گفتگو کی جن کے بارے میں اس نے کئی لوگوں سے سن رکھا تھا کہ وہ روحانی علوم میں دسترس رکھتے ہیں۔ غلام محمد نے جب قمر کی ساری باتیں سنیں تو انہوں نے گھر دیکھنے کی خواہش کی۔ قمر الزماں انہیں گھر لے آیا۔ بنگلے کا ایک اک کمرا، دالان، چھت حتیٰ کہ نوکروں کے کوارٹروں کو بھی اپنی گہری نظروں سے دیکھ کر غلام محمد نے قمر الزماں سے تین دن کا وقت مانگا۔ تین دن کے بعد غلام محمد خود قمر الزماں کے کارخانے میں تشریف لائے اور بولے۔

    ’’بھئی قمر میاں! چائے پینے کا دل کررہا ہے ،مگر آپ کے گھر کی‘‘۔

    ’’آپ جیسا حکم کریں۔ ابھی چلیں‘‘۔

    قمر الزماں نے محسوس کیا کہ بات کچھ اہم ہے۔ وہ غلام محمد کو گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آیا۔ غلام محمد نے سبز ریشم جیسی گھاس پر پڑی بید کی کرسیوں پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ چائے کے دوران غلام محمد مسلسل عمارت کی بالائی منزل کی ایک بند کھڑکی کی سمت یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہاں کوئی موجود ہو۔ وہ بولے۔

    ’’یہ گھر فخر الزماں بھائی نے بنوایا تھا؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ دادا نے خریدا تھا‘۔ پھر وہ بولا۔ ’کیا کوئی خاص بات؟‘‘

    ’’یہ سمجھ لیجئے کہ میں آپ سے جو بھی کہوں گا وہ میرے خیالات نہیں ہیں، بلکہ مجھے بتائے گئے ہیں، جو میں آپ تک پہنچارہا ہوں‘‘۔

    غلام محمد یہ کہہ کر چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگئے۔ مگر قمر الزماں کو ایک ہی جملے نے استعجاب میں مبتلا کردیا تھا۔

    ’’ایک وعدہ کیجئے کہ آپ جو کچھ بھی سنیں گے، اپنے تک ہی رکھیں گے۔ آپ کا جاننا ضروری ہے، لیکن خاموش رہنا بہت ضروری ہے‘‘۔

    ’’میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں کسی سے ذکر تک نہیں کروں گا‘‘۔ نوجوان قمر الزماں نے بات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوے جواب دیا۔

    ’’آپ بہت خوش قسمت انسان ہیں کہ یہ گھر آپ کا ہے، اور آپ خوش قسمت انسان ہیں کہ سعیدہ بیگم آپ کی بیوی ہیں۔ آپ کو زندگی کی جتنی نعمتیں حاصل ہیں ،وہ ان دو کی وجہ سے ہیں‘‘۔

    قمر الزماں خاموشی سے سن رہا تھا۔

    ’’آپ کا یہ گھر ایک بڑی ہستی کی قیام گاہ ہے۔ وہ ہستی آپ سے آپ کی بیوی اور آپ کے بچوں سے بہت محبت کرتی ہے‘‘۔

    ’’لیکن ہمارا تو ابھی کوئی بچہ نہیں ہے؟‘‘

    ’’کچھ لوگوں پر مستقبل حال کی طرح روشن ہوتا ہے‘‘۔

    ’’تو ہمارے مستقبل کے بارے میں کچھ بتائیے؟‘‘

    ’’یہ وصف مجھے حاصل نہیں۔ جسے حاصل ہے وہ بڑی ہستی آپ کی شادی سے بھی پہلے آپ کی بیوی یعنی سعیدہ بیگم سے بہت محبت کرتی ہے۔ سعیدہ بیگم کا اس گھر میں بہو بن کر آنا ان ہی کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘‘۔ غلام محمد نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوے کہا۔

    قمر الزماں کو یہ سب سن کر اچانک جھٹکا سا لگا۔ جدید ڈیزائن والی جیولری کی نمائش اس کے حافظے میں اب بھی محفوظ تھی، جہاں اس کی سعیدہ جہاں سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہیں اس نے سعیدہ کے ڈیزائن کردہ زیورات کی تعریف کی اور پیشکش کی کہ وہ ان کے لیے ڈیزائن تیار کریں ۔ سعیدہ جہاں نے جو پہلا ڈیزائن تیار کیا وہ ایک نیکلس کا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں وہی نیکلس خود تخلیق کار کے گلے میں منگنی کے تحفے کی صورت میں سجا ہوا تھا۔ قمر الزماں کو یاد تھا کہ شادی کا فیصلہ دونوں نے مل کر کیا تھا۔ اس میں کسی تیسرے کی سوچ یا رضا مندی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اس وقت جس بات نے اسے حیرت زدہ کردیا تھا وہ کچھ اور ہی قصہ سنارہی تھی۔ کئی سوال اس کے دماغ کے بند دروازے پر مکے برسارہے تھے۔

    کوئی سعیدہ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ میں خوش قسمت ہوں کہ سعیدہ میری بیوی ہے۔۔۔ تو پھر میں خوش قسمت کیسے ہوا؟

    خوش قسمتی ہے کہ سعیدہ میری بیوی ہے۔۔۔ تو پھر کوئی دوسرا اس سے کیوں کر محبت کئے جارہا ہے؟

    وہ ہمارے گھر میں رہتے ہوے دیکھتا ہے کہ میں سعیدہ کے ساتھ رہتا ہوں ، جس سے وہ محبت کرتا ہے۔۔۔ تو پھر اسے غصہ یا جلن کیوں نہیں ہوتی؟

    وہ منشا کے بغیر اس گھر میں رہتے ہوے ہمارے بارے میں فیصلے کرتا ہے۔۔۔ کون ہے وہ؟

    میرے ماموں اور ماں باپ کی موت میں کہیں اس کا ہاتھ۔۔۔

    غلام محمد خاموشی سے قمر الزماں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ ردعمل جاننے کے لیے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیتے رہے۔ انہوں نے بغیر تمہید باندھے صرف دو باتیں کہی تھیں۔ ابھی کچھ اور کہنا باقی تھا، لیکن کہنے سے پہلے وہ قمر الزماں کو پرکھنا چاہتے تھے کہ کیا وہ مزید سن پائے گا؟ دماغ کے دروازے پر سوالوں کی دستک بند ہوئی تو قمر الزماں نے بدن ڈھیلا چھوڑ تے ہوے کہا۔

    ’’ایسے قصے ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے ہیں۔ کیا واقعی یہ سچ ہے؟‘‘

    ’’آپ کے ساتھ پریکٹیکلی ہورہا ہے تو خود ہی سمجھ لو‘‘۔ غلام محمد نے ایک لمحہ کے توقف کے بعد مزید کہا۔ ’مجھے ایک لفظ بھی بڑھانے یا گھٹانے کی اجازت نہیں ہے۔ یاد رکھئے ، آپ کا مجھ تک پہنچنے میں بھی کسی اور کے ارادے کا دخل ہے‘‘۔

    ’’شاید کسی نے اپنی بات مجھ تک پہنچانے کے لیے آپ کو قاصد بنایا ہے۔ مگر کیسے؟‘‘ قمر الزماں نے ایک اور سوال داغ دیا۔

    ’’میں نہیں بتاسکتا،اور میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ سب جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ کو بہت ساری باتیں خود بخود یا پھر وقت کے بہاؤ میں سمجھ میں آجائیں گی۔ لیکن ایک دو باتیں اور ہیں جنہیں جاننا ضروری ہے‘‘۔

    ’’آپ نے مجھے طلسم ہوش ربا کی حیرت انگیز دنیا میں لاکھڑا کیا ہے۔ اب کوئی حیرت، حیرت نہیں رہے گی۔ آپ کہیے میں ہمہ تن گوش ہوں‘‘۔ قمر الزماں نے استفہامیہ لہجے میں کہتے ہوے ہاتھ باندھ لیے اور پھر کندھے اور گردن جھکا دیئے۔

    ’’آپ کی بیگم اس وقت حمل سے ہیں‘‘۔ غلام محمد بولے۔

    ’’نہیں، وہ حمل سے نہیں ہیں‘‘۔ قمر الزماں نے فوراً جواب دیا۔

    ’’وہ حمل سے ہیں‘‘۔ غلام محمد نے زور دے کر کہا۔

    ’’غلام محمد صاحب! سنار نیا ہو یا پرانا، اسے سونے کی پرکھ ہو ہی جاتی ہے۔ اب تو الٹراساؤنڈ بھی کروالیا۔ اگر کوئی شک تھا تو وہ بھی دور ہوگیا‘‘۔

    ’’نادیدہ ہستی آپ کی بیوی سے ایک نادیدہ نشانی حاصل کررہی ہے‘‘۔

    ’’نادیدہ نشانی۔۔۔؟‘ ‘قمر الزماں کے ماتھے کو سلوٹوں نے گھیر لیا۔

    ’’جی ہاں‘‘ ۔غلام محمد بولے۔

    ’’اس کا مطلب میری بیوی ایک ایسے نادیدہ بچے کو جنم دیں گی، جس کا باپ میں نہیں کوئی اور ہوگا؟‘‘ قمر الزماں نے کہی ان کہی کا تانا بانا جوڑتے ہوے کہا۔

    ’’آپ کا پہلا آدھا جملہ درست ہے‘‘۔ غلام محمد نے دھیرے سے کہا۔

    ’’تو پھر باپ کون ہے؟‘‘ قمر الزماں نے اپنی دو چند حیرت سمیٹتے ہوے پوچھا۔

    ’’آپ ہیں‘‘۔

    ’’کہیں آپ مجھے پاگل کرنے کے موڈ میں تو نہیں ہیں‘‘۔ قمر الزماں ہنس پڑا۔

    ’’مجھے جو کچھ بتایا گیا ہے وہ میں آپ کو بتارہا ہوں‘‘۔

    ’’آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم میاں بیوی صاحب اولاد ہوں گے، لیکن نہیں بھی ہوں گے‘‘۔

    ’’ہوں گے۔۔۔ لیکن بعد میں ،جیسے سب ہوتے ہیں‘‘۔

    اچانک لان میں سکوت سا چھا گیا۔ قمر الزماں اور غلام محمد دونوں اپنی اپنی جگہ بولتے بولتے خاموش ہوگئے۔ دونوں کی نگاہیں یکایک بالائی منزل پر کھلنے والی کھڑکی کی طرف اٹھ گئیں۔ چند ثانیے کے بعد کھڑکی دوبارہ بند ہوگئی۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ کچھ سوچتے ہوے رہ گئے۔ کھڑکی برسوں سے بند تھی۔ جس کے پیچھے گول زینہ تھا جو چھت پر گول بارہ دری نما ہال پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ اس کے بعد نہ قمر الزماں نے کچھ پوچھا اور نہ غلام محمد نے کچھ بتایا۔

    اس دن کے بعد قمر الزماں کو الجھنوں نے آ لیا۔ وہ خاموش خاموش رہنے لگا۔ وہ سعیدہ کو دیکھتا تو سوچ میں پڑ جاتا۔ اسے بتادیا گیا کہ سعیدہ کے وجود میں ایک حیات پرورش پارہی ہے۔ مگر وہ اسے نہیں پاسکیں گے۔ کسی ننھے وجود کو چھونے کے لیے انہیں مزید تین برس اور انتظار کرنا ہوگا۔ قمر کی طبیعت میں الجھن کا عنصر کبھی بڑھ جاتا اور کبھی خود بخود غائب ہوجاتا۔ کچھ ہی دنوں میں رخسانہ مامی اپنے چاروں بچوں کو لے کر اپنے بھائی کے پاس لکھنو چلی گئیں۔ وہ وہیں سے بیاہ کر پاکستان آئی تھیں۔ عدت پوری کرتے ہی شمع ممانی نے خاموشی سے دوسری شادی کرلی اور گھر چھوڑ دیا۔

    گھر میں صرف قمر الزماں، بیگم سعیدہ قمر اور نوکر چاکر رہ گئے ۔ قمر الزماں نے ضرورت کے مطابق نوکر رکھے اور باقی رخصت کردیئے۔ سعیدہ بیگم کی جسمانی تبدیلیاں تیزی سے ظاہر ہونے لگی تھیں۔ دن بہ دن جسم کے بے ڈول ہونے کی وجہ سے سعیدہ نے کہیں آنا جانا بھی بند کردیا۔ لیکن اس کی تشویش بڑھتی چلی جارہی تھی۔ جس کا اظہار وہ قمر الزماں سے کردیا کرتی۔ وہ مطمئن کرنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔

    ان ہی دنوں قمر الزماں کی کاروباری مصروفیات بھی بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ امارات کے کئی بڑے تاجروں سے ان کا لین دین پہلے بھی تھا ، مگر اب اس نے خود دبئی اور مسقط میں اپنے دو شاندار شوروم قائم کرنے کے علاوہ دبئی میں کارخانہ بھی لگالیا، جہاں والد کے زمانے کے کئی ماہر کاریگروں کو ورک ویزے پر بھجوادیا گیا تھا۔ کاموں کی نگرانی کے لیے وہ بھی اکثر دبئی اور مسقط آتا جاتا رہتا تھا۔ کبھی زیادہ قیام کرنا ہوتا تو وہ سعیدہ کو بھی ساتھ لے جاتا۔ ہر چند کہ دبئی جدید شہر کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہوچکا تھا، مگر سعیدہ قمر وہاں بھی ہوٹل میں بند ہوکر رہ جاتیں۔ اکتاہٹ سے بھرے ایک دن قمر الزماں نے غلام محمد کے سامنے ذکر کیا تو انہوں نے اپنی جیب سے ایک رقعہ نکال کر دیا اور بولے۔

    ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ یہ دبئی میں مقیم ایک لیڈی ڈاکٹر کا نام وپتا ہے۔ اگلی بار جب جائیں تو بیگم کو انہیں دکھائیے‘‘۔

    قمر الزماں فوری جواب پر حیران ہوا مگر خاموش رہا۔ وہ جان چکا تھا کہ نادیدہ قوت اس کے ہر مسئلے سے واقف ہے۔ اگلی بار جب وہ دبئی گیا تو طویل قیام کے انتظامات کے ساتھ گیا اور جاتے ہی ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر نے سعیدہ بیگم کا معائنہ کرکے قمر الزماں کو یقین دلایا کہ ان کی بیوی کو ایک چھوٹے سے آپریشن کی ضرورت ہے۔ وہ ٹھیک ہوجائیں گی۔ قمر الزماں نے حقیقت سے واقفیت کے باوجود تجسّس کے باعث ڈاکٹر سے سوال کیا۔

    ’’ڈاکٹر! انہیں بیماری کیا ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں، کچھ خاص نہیں ہے۔ آپ کی بیوی کو معمولی سا گائنی پرابلم ہے۔ ایک چھوٹے سے آپریشن سے دور ہوجائے گا‘‘۔

    ’’کیا آپریشن کے بغیر دور نہیں ہوسکتا؟‘‘

    ’’کبھی کبھی آپریشن ہی ٹھیک آپشن ہوتا ہے‘‘۔

    قمر الزماں کو اندازہ ہوگیا کہ ڈاکٹر پردے کے دوسری طرف چھپی حقیقت سے ناواقف ہے۔ وہ بولا۔

    ’’آپریشن کب ہوگا؟‘‘

    ’’دو دن بعد مجھے اپنے پیپرز انڈورس کروانے کے لیے کنیڈا جانا ہے۔ جیسے ہی واپس آؤں گی تو آپریشن کردوں گی۔ زیادہ سے زیادہ بیس دن میں لوٹ آؤں گی‘‘۔

    لیکن ڈاکٹر نے لوٹنے میں دیر کردی۔ قمر الزماں کو شک تھا کہ ڈاکٹر بیس دن بعد آپریشن نہیں کرسکے گی۔ ڈاکٹر کے نہ لوٹنے سے وہ شک اب یقین میں بدل گیا۔ ڈاکٹر دو ماہ بعد لوٹ کر آئی۔

    اس دوران کئی بار ایسا ہوا کہ سعیدہ بیگم کے پریشان کن سوالوں کی وجہ سے قمر الزماں کی زبان پر پڑے تالے کھلنے لگتے۔ مگر اچانک ایسا کچھ ہوجاتا کہ بات ادھوری رہ جاتی یا کسی اور سمت نکل جاتی۔ قمر الزماں کی چھٹی حس اسے کسی اور کی موجودگی کا احساس دلاتی، اور وہ سہم کر رہ جاتا۔ اسے کبھی کبھی لگتا کہ وہ کسی کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا ہے ،یا اسے بے بس کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مگر وہ اس بات پر بھی حیران تھا کہ پچھلے چند ماہ میں کاروباری دنیا میں جو اس نے نام کمایا ہے، اور جو قدرومنزلت حاصل ہوئی ہے وہ اس کے حلقہ احباب کو ششدر کردینے کے لیے کافی ہے۔ وہ اکثر خود سے سوال کرتا کہ کیا اس سارے عمل کی قیمت یہ کاروباری قدرومنزلت ہے۔ یا یہ میری قسمت ہے جو اسی دور میں چمکی ہے، جب کوئی میرے گھر کی کیاری میں کھلنے والوں پھولوں میں سے کوئی ایک پھول چرالینا چاہتا ہے۔ مگر جب کوئی جواب نہیں ملتا تو الجھن اور بڑھ جاتی اور وہ سوچنا چھوڑ دیتا۔

    قمر الزماں کو ڈاکٹر کے آنے کی جوں ہی اطلاع ملی، وہ سعیدہ کو لے کر ہسپتال پہنچا۔ ڈاکٹر نے مریضہ کو ایڈمٹ کرلیا اور اگلے روز آپرشین کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    دوسرے دن آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ جسم میں ایک رسولی نما گچھا تھا جسے نکال دیا گیا ہے۔ اب مریضہ بالکل ٹھیک ہے۔ قمر الزماں یہ سب سن کر اور شیشے کے جار میں رکھی رسولی دیکھ کر حیران تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر یہ رسولی تھی تو پھر بچہ کہاں گیا۔ اس نے چاہا کہ وہ ڈاکٹر کو بتائے کہ اس کی بیوی کے جسم میں بچہ ہونا چاہیے، رسولی نہیں۔ مگر وہ حیرت کی شدت میں کچھ پوچھ ہی نہ سکا۔ کیوں کہ رسولی ایک زندہ حقیقت کی صورت میں سامنے موجود تھی۔ تب اس نے سوچا کہ پاکستان جاتے ہی غلام محمد صاحب سے حقیقت اگلوائے گا۔ کچھ دن آرام کے بعد قمر الزماں سعیدہ کو لے کر کراچی لوٹا تو اس نے غلام محمد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔مارکیٹ کے لوگوں نے بتایا کہ وہ نگینے لینے انڈیا گئے تھے مگر اب تک نہیں لوٹے۔ قمر الزماں کو دھیرے دھیرے یقین آتا چلا گیا کہ غلام محمد نے جو کچھ بتایا تھا وہ محض جھوٹ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ واقعہ دھند میں لپٹتا چلا گیا۔ اس دوران کچھ کاروباری لوگوں سے پتا چلا کہ غلام محمد کا انڈیا میں کسی بیماری کی وجہ سے انتقال ہوگیا ہے ۔ قمر الزماں کے لیے غلام محمد کی بتائی ہوئی ہر بات بے معنی سی ہوگئی۔ تین برس بعد جب صبا پیدا ہوئی تب بھی قمر الزماں کو یاد نہیں آیا کہ غلام محمد نے ہی کہا تھا کہ تین برس بعد آپ حقیقتاً صاحبِ اولاد ہوجائیں گے۔ کیوں کہ واقعہ میں اجنبیت اور غیر حقیقی عنصر اس شدت کے ساتھ موجود تھا کہ قمر الزماں کے ذہن سے اس قصے کی ہلکی سی پرچھایں بھی آسانی سے کہیں گم ہوگئی۔

    رات دھیرے دھیرے گزررہی تھی۔ صبح کا دھندلکا چاروں طرف پھیلا تو پیٹرولنگ کرنے والے ٹریفک اسکواڈ کو بڑی سی گاڑی سڑک سے دور گڑھے میں لٹکی ہوئی دکھائی دی۔ اسکواڈ حرکت میں آگیا اور دوپہر سے کچھ پہلے دونوں زخمیوں کو شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر ساری رات ہمت دکھانے اور ریزہ ریزہ گم شدہ یادوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرنے والے ادھیڑ عمر قمر الزماں کا حوصلہ آپریشن تھیٹر تک آتے آتے جواب دے گیا اور وہ کوما میں چلے گئے۔ دوسری طرف بیگم سعیدہ قمر کے ساتھ اس کے برعکس ہوا۔ جس ٹھنڈے یخ ہاتھوں والے وجود نے ان کے دل کو تھام کر سانس کی ڈوری کو ہموار کردیا تھا، وہ انہیں نیم بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لے کر چلا آیا۔ بیگم سعیدہ قمر کو طبی امداد دی جاچکی تھی۔ پورے عمل کے دوران صارم کا ٹھنڈا یخ نادیدہ وجود ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ دھند میں لپٹی ہوئی ساری یادیں جو صارم نے قمر الزماں پر جائے حادثہ پر منکشف کی تھیں، یہاں اپنی ماں سعیدہ قمر کے دماغ میں دھیرے دھیرے ابھارتا اور انہیں روشناس کرواتا رہا۔

    اس دوران وہ مسلسل صارم سے باتیں بھی کرتی جارہی تھیں مگر ان کی آواز بے صوت تھی۔ صرف ہونٹوں کی جنبش دکھائی دے رہی تھی، جسے دیکھ کر صبا بار بار چونک اٹھتی اور ڈاکٹر کو خبر کرتی کہ امی ہوش میں آرہی ہیں۔

    دیر دیر تک نہایت انہماک سے دیکھنے کے باوجود ڈاکٹروں کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ حیران تھے۔ غور سے دیکھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہونٹ کپکپاتے نہیں بلکہ باقاعدہ یو ں حرکت کرتے ہیں جیسے وہ کچھ بول رہی ہیں۔ کبھی کبھی وہ دیر دیر تک جنبش ہی نہیں کرتے اور کبھی مسلسل کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا جب وہ صارم سے ڈھیروں سوال کیا کرتیں، اور وہ برف کی طرح جمی ہوئی دھیمی آواز میں ان کے جواب دیا کرتا۔

    دونوں مریضوں کو ہسپتال میں آج تیسرا دن ہوچلا تھا۔ یہی وہ دن تھا جس کے بارے میں جاننے کے باوجود صارم اپنے پاپا اور امی کو نہیں بتاپایا تھا۔ کھڑکی پر پڑے پردے کی مہین جھریوں سے جھلکتی ہوئی سورج کی باریک باریک کرنوں سے پتا لگ رہا تھا کہ دوپہر کا وقت ہے۔ کمرے میں صبا اور بستر پر لیٹی ہوئی سعیدہ قمر کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ صارم بھی نہیں۔۔۔ وہ دیر سے غائب تھا۔ صبح سعیدہ قمر کی ایک مادرانہ خواہش نے اسے بے چین کردیا تھا۔ اس نے چند کلومیٹر دور واقع بنگلے میں موجود محبت کرنے والی ہستی سے لے کر کہیں دور کی مسافتوں پر موجود برگزیدہ مگر نادیدہ ہستیوں سے التجا کی ، مگر ہر طرف سے ایک سخت سرزنش میں ڈوبا ہوا انکار سننے کو ملا۔

    آج صبح بیگم سعیدہ قمر نے اچانک اس سے کہا کہ بیٹا میں تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور اپنی انگلیوں سے چھونا چاہتی ہوں۔ اسے یاد تھا کہ اس نے بارہا شرارت سے صبا کے کھلونے ایک جگہ سے دوسری جگہ سرکائے تھے۔ اسے یاد تھا کہ اس نے کئی مرتبہ اپنی امی پاپا کے کمرے میں رکھی چیزوں پر اپنا لمس چھوڑا تھا، دوپٹے کے پلو کو ہلایا تھا، سات سالہ صبا سے بے دھیانی میں دروازے کی لاک ہوجانے والی کنڈی کو اپنے ہاتھوں سے کھولا تھا جسے امی پاپا نے صبا کی ذہانت پر دال کیا تھا۔ مگر آج اس کی تمام التجاؤں کے جواب میں کہا گیا کہ وہ سب تمہارے سیکھنے ، جاننے اور سمجھنے کے زمانے کی باتیں تھیں۔ اب تم خود اس نادیدہ نظام کے مماثل ہو۔

    دیر تک ادھر ادھر بھٹکنے اور کوئی راہ نہ پانے کے بعد صارم بنگلے میں لوٹ آیا، جہاں وہ اس برگزیدہ ہستی کے ساتھ رہتا تھا جو سعیدہ قمر سے بے انتہا محبت کرتی تھی، اور جس نے ان کے وجود سے زندگی کے علیحدہ نظام الاوقات والا تحفہ حاصل کیا تھا۔

    صارم کی طرح وہ ہستی بھی آگاہ تھی کہ سعیدہ قمر حیات کے لامتناہی سلسلے میں اپنی ساعتوں کو شمار کرچکی ہیں۔ اور فنا ہونے کے ڈر سے چھٹکارا پانے والی ہیں۔ وہ ہستی یہ بھی جانتی تھی کہ زندگی کی ڈور سے بندھی ہوئی پتنگ کی طرح سعیدہ قمر جوں ہی نجات پائیں گی، صارم سے ان کی اجنبیت خود بخود ختم ہوجائے گی۔ لیکن مادی جسم میں سمائی ہوئی روح کی بے چینی، بعد والی صورت سے بہت مختلف، اجنبی اور منفرد تھی، کہ کبھی کبھی روح ناآسودگی کے جال میں پھنس کر ہمیشہ کے لیے بھٹکتی رہ جاتی ہے۔ وہ جس سے محبت کرتے تھے، اس کی روح کو یوں بے چین اور نامراد نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لہذا انہوں نے کڑے اصولوں سے انحراف کرتے ہوے صارم کو سعیدہ قمر کی خواہش پوری کرنے کی اجازت دے دی۔

    پلک جھپکتے میں صارم ہسپتال کے کمرے میں موجود تھا۔ جوں ہی ٹھنڈا یخ بستہ وجود کمرے میں اترا، بیگم سعیدہ قمر سمجھ گئیں۔

    ’’تم کہاں تھے؟ میں تمہیں کب سے پکاررہی ہوں‘‘۔

    بیگم سعیدہ قمر نے صارم سے پوچھا، ان کے ہونٹ ہلے، جنہیں صبا نے دیکھا۔ ڈاکٹروں کے بار بار سمجھانے کے باوجود ماں کے ہونٹوں کی جنبش صبا کو بے قرار کر گئی۔ وہ تڑپ کر اٹھی اور ماں کے نزدیک چلی گئی۔ صارم بھی وہیں موجود تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں ماں کا ہاتھ تھام لیا۔ ماں کے ہاتھ پر بوسہ دینے کے لیے تھوڑا سا وہ خود جھکا اور اپنے نادیدہ وجود کی طاقت سے ماں کے تھامے ہوے ہاتھ کو جنبش دی۔ وہ کامیاب ہوگیا۔ ہاتھ اوپر اٹھنے لگا۔ مگر صبا نے صرف اتنا دیکھا کہ اس کی امی کے ہاتھ نے حرکت کی ہے۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ سمجھی کہ اس کی امی ہوش میں آرہی ہیں۔ اس نے وہیں سے ڈاکٹر کو پکارا ۔ آواز کوریڈور میں دور تک گئی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر کمرے میں موجود تھا۔ اس نے بھی دیکھا کہ بیگم سعیدہ قمر کا دائیاں ہاتھ حرکت کررہا ہے۔ صارم نے ہاتھ کو بوسہ دیا تو ہاتھ کچھ اور اوپر اٹھ گیا۔

    صبا نے آگے بڑھ کر امی کا ہاتھ تھاما تو صارم کے نادیدہ وجود کی ٹھنڈک میں نہا گئی۔ وہ امی کو ہوش آنے کی خوشی میں روئے جارہی تھی۔

    اسی اثنا میں ڈاکٹر، نرس اور وارڈ بوائے مریضہ کو مکمل ہوش میں لانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ صارم ماں کے کچھ اور نزدیک ہوگیا۔ اب اس کی ایک ہتھیلی ماں کے ماتھے پر اور دوسری سینے پر دل کی جگہ پر رکھی ہوئی تھی۔ صبا کو نرس نے پیار سے علاحدہ کھڑا کردیا تھا اور خود نبض کی رفتار اور خون کے فشار کو جانچنے میں مصرو ف ہوگئی۔ اسی دوران بیگم سعیدہ قمر کی آنکھوں کے پپوٹوں میں جنبش ہوئی۔ وہ ہوش میں آرہی تھیں۔ پھر ان کے ہونٹ حرکت کرنے لگے۔ کمرے میں موجود ہر شخص کے کانوں سے مریضہ کی کئی روز سے گم شدہ آواز ٹکرائی۔

    ’’صارم۔۔۔‘‘

    ’’صارم۔۔۔ ‘‘وہ دوبارہ بولیں۔

    ’’یہ صارم کون ہے؟‘ ‘ڈاکٹر نے صبا سے پوچھا۔ ’’اسے جلدی بلاؤ‘‘۔

    ’’صارم تو کسی کا نام نہیں ہے‘‘۔ صبا نے حیرت سے جواب دیا۔

    ’’یہ کسی صارم کو پکاررہی ہیں۔ آپ کے گھر یا رشتہ داروں میں کسی کو پیار سے صارم کہتے ہوں گے‘‘۔ ڈاکٹر نے وضاحت کرتے ہوے کہا۔

    ’’میں تو کسی صارم کو نہیں جانتی‘‘۔ یہ کہتے ہوے صبا کے دماغ میں کوندا سا لپکا۔ وہ بولی ’’ڈاکٹر صاحب! کہیں حادثے کی وجہ سے امی کے دماغ میں چوٹ ۔۔۔ یا پھر یادداشت کا مسئلہ ۔۔۔‘‘

    جب ڈاکٹر نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا تو وہ اپنی امی کا ہاتھ تھام کر ان سے بولی۔

    ’’امی! میں آپ کی بیٹی صبا۔۔۔ آپ کے سامنے ہوں۔۔۔‘‘

    بیگم سعیدہ قمر نے صبا کی طرف سے دیکھا۔ مگر دوسرے ہی لمحے ان کی نظریں خلا میں کہیں اور اٹک کر رہ گئیں۔ ذرا دیر پہلے صبا سے شناسائی کی لہر یکایک بے یقینی میں تبدیل ہوگئی۔ وہ نقاہت بھری حیرت سے بولیں۔

    ’’تم صارم ہو؟‘‘

    ’’نہیں امی! میں صبا ہوں۔ پلیز آپ مجھے پہچانیے‘‘۔ یہ کہتے ہوے صبا رو پڑی۔ صبا کے ساتھ کھڑے صارم نے دھیرے سے گردن ہلائی۔ مگر بیگم سعیدہ قمر کی حیرت اور بے یقینی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے صارم کا جو خاکہ بنایا تھا وہ اس سے قطعی مختلف تھا۔ ان کے سامنے صبا سے بھی تین سال بڑا کوئی نوجوان نہیں بلکہ ایک نومولود بچہ تھا۔ درحقیقت بیگم سعیدہ قمر مختلف دنیاؤں کے متنوع نظام الاوقات اور ماہ و سال کی علاحدہ شماریات سے واقف نہیں تھیں۔ دوسری طرف صارم بھی کچھ بتانے سے قاصر تھا۔ وہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک حیرتوں میں لپٹی ہوئی بیگم سعیدہ قمر کی سانس اکھڑنے لگی۔ صبا روتے ہوئے چلائی۔

    ’’امی۔۔۔‘‘

    صارم آنے والی ساعتوں اور رونما ہونے والے حادثوں سے واقف تھا، مگر بیگم سعیدہ قمر کی حیرت میں ڈوبی بے یقینی کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔ بیگم سعیدہ قمر کی آنکھوں میں دھیرے دھیرے دھند اترنے لگی۔ ان کی آنکھوں میں حیرت کٹورے کی منجمد برف کے بیچ ساکت کسی مکھی کی طرح جم کر رہ گئی تھی۔

    (۲۰۰۷ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے