Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نامرد

کلام حیدری

نامرد

کلام حیدری

MORE BYکلام حیدری

    اس چوڑی سڑک کے ایک کنارے میں بہت مشہور سنیماہال ہے جس میں صرف انگریزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کے دوسرے کنارے پر بھی سنیما ہال ہیں اور سب کچھ کے علاوہ سنیما ہال یا ہوٹل زیادہ ہیں۔ ہوٹل بھی شریفیہ، نظامیہ، صابریہ قسم کے۔۔۔ جن کے بڑے بڑے ڈرائننگ ہال میں ہر وقت چیخ و پکار مچی رہتی۔ قلیہ، قورمہ، پلاؤ، نان، فیرنی۔ کھانے ناشتے کا کوئی امتیاز ان ہوٹلوں میں نہیں تھا اور کھانے کے لیے یہ ہوٹل آٹھ بجے صبح سے گیارہ بجے رات تک ہر ایک کے لیے کھلے رہتے۔ اس وشال شہر کی خوبی یہ ہے کہ یہاں اس قسم کے ہوٹل بہت ہیں اور ان میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ ہر گھنٹہ ان کی تحویل میں کتنا جاتا ہے۔ مگر یہ ہر سال پھیلتے ہیں، ایک چھوٹے ڈائننگ ہال سے شروع ہوکر ان میں دو چار تو اب چھوٹے محلے کے برابر ہو گئے ہیں۔

    سنگ مرمر ٹاپ والے ٹیبل، مستحکم قسم کی چھوٹی کرسیاں، بدزبان اور زبان دراز نوکر۔۔۔ خاموش اور پرسکون کاؤنٹرز پر بیٹھے بت جو ڈر اور کھول کر روپے ڈالنے اور گاہک کے زائد پیسوں کو واپس کرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں کرتے۔ یہ ڈراور ایسے بنے ہوتے ہیں کہ ڈراور کے پیندے کی تختی ڈراور کی طرح باہر کھینچ لیجئے تو ڈراور میں رکھے سب روپے نیچے خندق میں گر جاتے۔ یہ خندق چار فٹ اونچا، پانچ فٹ چوڑا ہوا کرتا ہے اور پھر وہاں سے اسٹیل کے بکسوں میں بند ہو کر کہیں بھیج دیے جاتے ہیں۔ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے بت ہر چار گھنٹے پر بدل جاتے ہیں۔

    میزوں پر کھانے والے لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اوسط آمدنی والے سے لے کر کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، دوروٹی، دو بوٹی۔۔۔اور آٹھ دس گھنٹے کے لیے اطمینان ہو گیا۔ آفس میں کام کریں، بازاروں میں دوڑتے پھریں، ہیرا پھیری کریں۔

    ان ہوٹلوں میں دو تین ایسے بھی ہیں جنہوں نے اوپری حصوں میں کمرے بنا رکھے ہیں اور ان کو کرائے پر لگاتے ہیں، شادی بیاہ کے زمانے میں باراتیوں کے لیے یہ کمرے ریزرو بھی کرائے جاتے ہیں۔ کمروں کی آرائش وغیرہ بھی ان ہوٹلوں کے معیار کے مطابق ہی ہے۔ بعض کمرے ملحق باتھ روم کے ساتھ ہیں جن کا کرایہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوٹل کے لوگ ان میں ٹھہرنے والے لوگوں کی کچھ ذرا عزت کر لیتے ہیں۔ گھنٹی بجائی اور بیرا حاضر والی بات نہیں، مگر یہ کہ ذرا کمرے سے باہر نکل کر گلا صاف کرکے پکارا جائے تو دو تین پکار میں لنگی پہنے ہوئے ایک نوکر آجائےگا، کام بتایے، آٹھ آنے انعام دے دیجئے، بس آپ کا کام ہو جائےگا۔

    صبح کو غسل وغیرہ کرکے نو بجے اتریے اور ناشتے وغیرہ کا چکر چھوڑیے، سیدھے دو روٹی اور دو بوٹی والے شوربے کے ساتھ جی چاہے کوئی اور ایکسٹرا پلیٹ منگا لیجئے اور بس، پانچ بجے شام تک کے لیے مطمئن اپنے کام میں لگ جائیے۔

    تو بات دراصل یہ ہے کہ میں نے اس بڑی سڑک اور اس کے سنیما اور خصوصاً ہوٹلوں کا ذکر اس لیے کیا کہ اس شہر کی خصوصیات میں سے یہ اہم خصوصیتیں ہیں اور یہ جو خلقت کی خلقت یہاں دوڑتی پھرتی ہے، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ان ہوٹلوں نے اسے ممکن بنا دیا ہے، یہ کوئی دلی نہیں ہے، بمبئی بھی نہیں ہے، یہ تو بڑا پیارا شہر ہے۔

    کالج میں پڑھتا تھا تو اسی وقت سے یہ بات ذہن میں بیٹھ گئی ہے کہ ان ہوٹلوں نے بڑے آدمیوں کے بنانے میں بڑا حصہ لیا ہے، آپ اسے نہ مانیں۔۔۔ مگر میں جانتا ہوں۔

    مگر میں تو اس شہر کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ حالانکہ پھر بھی شاید بہت کم جانتا ہوں۔

    تو یہ شہر اسی وقت سے مجھے لگتا ہے کہ شہر نہیں، ایک ملک ہے! ملک تو میں اسے آبادی کے لحاظ سے کہتا ہوں، مگر یہ اور بھی کئی وجوہات سے ملک کہے جانے کے لائق ہے۔

    پر اس ذکر کو چھوڑیے۔

    میں پانچ چھ سال بعد اس شہر میں آیا ہوں۔

    ٹھہرئیے!

    یہ بات بائیس سال پہلے کی ہے کہ میں نے جب ایک چھوٹی سی فیکٹری ایک دوسرے صوبے کے قصبے میں کھولی تھی اور تب میں نے محسوس کیا تھا کہ اس شہر کو جاننے کے کیا فوائد ہیں!

    مجھے جب کوئی چیز انجینئر بتاتا کہ خریدنا ہے اور اس کی قیمت پانچ ہزار ہوتی ہے تو میں انجینئر کو ساتھ لے کر سیدھا اس شہر میں آ جاتا اور اس مخصوص بازار میں چلا جاتا جہاں وہی چیز مجھے ہزار ڈیڑھ کم میں مل جاتی۔

    لوہے کے تار کی میرے صوبے میں بڑی کمی ہو گئی۔ قیمت بہت بڑھ گئی تو میں نے اس شہر کا رخ کیا اور ایسی ایسی پتلی گلیوں میں دامن بچاتا گزرا کہ جہاں تاروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، بس یہ ذرا زنگ لگا، کچھ ذرا موٹائی میں کم تھے۔۔۔ مگر اور ان گلیوں میں مجھے وہ تمام ہنر بتائے گئے کہ میں کس طرح ہر ٹیکس سے بری ہو کر اپنے قصبے میں یہ مال لے جا سکتا ہوں۔

    اور ایک بار ایسا ہوا کہ۔۔۔

    یہ شہر ہر بار میرے مسئلے کو حل کر دیتا کیوں کہ یہ شہر نہیں ملک ہے۔

    طالب علم کی حیثیت سے اس شہر نے مجھے سکھایا کہ کماؤ اور پڑھو۔

    انڈسٹری کھولنے کے بعد اس شہر نے مجھے بتایا کہ ہر آنکھ میں دھول جھونکنے کی تربیت یہاں سے حاصل کرو اور میں نے یہاں سے اپنے کام کے لائق تربیت حاصل کی۔ ہنرمندوں نے مجھے میری ضرورت کا ہر ہنر بتایا، اس بار میں پانچ سال بعد پھر یہاں آیا تھا۔

    اور شرفیہ قسم کے ہوٹل کے ایک کمرے میں ٹھہر گیا جو ملحق باتھ روم کی وجہ سے اپنے مکینوں کو عزت بخشتا تھا۔

    آٹھ بجے صبح میں نیچے اترتا تو۔۔۔

    فٹ پاتھ پر ایک لکڑی کے بڑے سے بکس میں وہ عورت جو بہ مشکل سترہ سال کی ہوگی، اپنا بستر سلیقے سے تہہ کر کے اس میں رکھتی، اس کا شوہر نل پر نہاتا رہتا اور وہ اسے گمچھا نما کچھ دیتی، پھر وہ اس لکڑی کے بکس سے، جو کافی بڑا تھا، ایک کڑاہی نکالتی اور پھر کچھ برتن ، چھوٹی بڑی شیشیاں، چمچے۔۔۔ اور پان کی دکان اور ہوٹل کی دیوار سے جو کونہ بنتا، اس میں اینٹیں کھڑی کرکے چولھا بنا کر اپنا کام شروع کر دیتی۔

    یہ تو روزانہ کا معمول تھا اس کا، جو میں کئی دن تک دیکھنے کے بعد جان گیا تھا۔

    مگر میرے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے تھے۔

    یہ سترہ سالہ لڑکی شوہر سمیت اس فٹ پاتھ پر رہ تو سکتی ہے اور وہ بےحد سلیقہ مندی سے رہتی ہے، مگر اس فٹ پاتھ پر۔۔۔ اس فٹ پاتھ پر دوسرے تقاضوں کا کیا ہوتا ہوگا؟

    میں اس دن صبح سے نکلا ہوا شام کے سات بجے لوٹا اور ہوٹل میں کھانے کے بعد پان کی دکان پر پان کھانے لگا، سامنے نگاہ گئی تو دیکھا، میری ایک پسندیدہ فلم لگی ہوئی ہے۔ سنیما کے کاؤنٹر پر پوچھا کہ نائٹ شو میں یہی فلم ہے؟

    میں نے ایک اوسط درجے کا ٹکٹ کٹایا اور گیارہ بجے فلم دیکھ کر لوٹا تو۔۔۔ تو میں نے دیکھا اس لڑکی کا شوہر فٹ پاتھ پر اوندھا سویا ہوا ہے اور وہ لڑکی آس پاس بھی نہیں ہے۔

    اب نہیں ہے تو مجھے کیا فکر ہونے لگی، میں خود پر جھنجھلایا۔

    مگر میں خود اپنے لیے کئی مصیبتیں کھڑی کر سکتا ہوں اس لیے میں نے پان والے سے پان لیے اور پھر اس بڑی سڑک پر ٹہلنے لگا، یعنی یوں کے اس لڑکی کی جائے رہائش سے آگے ہی چلتا گیا۔ میں شاید ۴؍۱ میل چل کر پھر لوٹا۔

    تو بھی لڑکی نہیں تھی۔

    پان والا اپنی دکان کے پٹروں پر دیے ہوئے نمبروں کو جوڑ جوڑ کر دکان بند کر رہا تھا۔

    یہ شہر اور یہ ہوٹل۔۔۔

    انہوں نے بڑے آدمیوں کے بنانے میں مدد ہی نہیں کی، بلکہ بنا دیا کیونکہ اگر وہ لوگ یہاں نہ آتے اور یہ ہوٹل نہ ہوتے تو کہیں چپراسی یا معمولی کلرک ہو جاتے۔

    ایک پولیس کی جیپ رکی اور دو سپاہیوں نے اس لڑکی کو گود میں اٹھا کر اس کے شوہر کے پاس آہستگی سے پٹک دیا۔ لڑکی نے ایک سپاہی کے کمر بند کو پکڑ لیا اور چلائی۔۔۔

    ’’تیرا اپھسر سالا ہوگا۔۔۔ مجھے۔۔۔سالا۔۔۔ اور ۔۔۔‘‘

    سپاہی بیلٹ چھڑا کر جیپ میں سوار ہوکر چلا گیا۔ میں جلدی سے پان کی دکان کی اوٹ میں ہو گیا تھا۔

    اس نے اپنے شوہر کو بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔

    ’’سالا آرام سے سوتا ہے۔۔۔ تیرے سامنے سالا وہ اپھسر مجھے اٹھا کر لے گیا اور تم سالا جبان بھی نہیں ہلایا۔۔۔ تم سالا۔۔۔ نامرد۔۔۔‘‘

    ’’پولیس کا بڑا افسر تھا، ہم غریب لوگ ہیں، ہماری۔۔۔ چل سوجا اور بھول جا۔۔۔ کل دوسری جگہ چلے جائیں گے‘‘۔

    ’’تو بھول جا۔۔۔ کاہے کہ تو نامرد ہے، میں۔۔۔ میں ۔۔۔تجھ سے طلاق لیتی ہوں۔۔۔ کاہے کہ تو میرے لائک نہیں۔۔۔‘‘

    اور وہ وہاں سے ایک گٹھڑی باندھ کر اسی وقت ایک طرف سچ مچ چلی گئی۔

    رات بھر یہ منظر نیند کی جگہ لیے رہا۔

    اس کے بعد میں چار روز اور وہاں رہا اور جس دن مجھے لوٹنا تھا اس دن کمرے میں جو اردو اخبار دیکھا اسے میں نے جھپٹ کر پڑھا۔

    ’’ساؤتھ سیٹی کے ایس پی کا ایک لڑکی نے اس کے آفس کے کمرے میں رات گیارہ بجے تیز کٹار سے پیٹ چیر دیا۔۔۔تفصیلات معلوم نہیں‘‘۔

    جب میں اپنے سامان سمیت آٹھ بجے صبح نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ وہ آدمی لکڑی کے بکس میں بستر لپیٹ کر رکھ رہا ہے۔

    مجھے لگا، نامردی اس میں اور مجھ میں مشترک ہے۔

    پان کی دکان کی اوٹ سے میں نے اپنے آپ کو جھانکتے ہوئے دیکھا، میں اپنا چہرہ پہچان سکتا ہوں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے