Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیا سال مبارک ہو

ذکیہ مشہدی

نیا سال مبارک ہو

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    ’’نئے سال کے موقع پر ہونے والی ایک پارٹی کی پس منظر پر مبنی کہانی، کالج کے زمانہ کے چار دوستوں کی داستان بیان کرتی ہے۔ ثروت گھر سے بیوٹی پارلر کے لیے نکلی تھی۔ راستے میں اسے کالج کی ایک دوست ارملا مل جاتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ ایک ریسٹورینٹ میں جا بیٹھتی ہے، جہاں وہ دونوں گزری زندگی کے واقعات کو یاد کرتی ہیں۔ اسی دوران ثروت کو آنند یاد آتا ہے، جس سے ایک زمانہ میں محبت تھی۔ وہ ایسی محبت تھی، جو پوری ہونے کے بعد بھی ادھوری رہ گئی تھی۔‘‘

    نئے سال کی شام کو دی جانے والی پارٹی کے سارے انتظامات مکمل تھے۔ بس صرف اپنے چہرے کی مرمت اور رنگ و روغن کے لیے بیوٹی پارلر جانا باقی رہ گیا تھا اور راستے سے کچھ خشک میوے خریدنے تھے۔ ثروت نے گاڑی گیراج سے نکالی ہی تھی کہ مالی کی بیوی دوڑتی ہوئی آئی دکھائی دی۔ سرد ہوا کی بوچھار سے اس کا سانولا چہرہ سرخ ہو رہاتھا۔ پچھلے جاڑوں میں ثروت کی دی ہوئی پرانی شال اب کثرت استعمال سے پتلی پڑچکی تھی۔ اسے کس کر لپیٹی، پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ وہ عین گاڑی کے سامنے آگئی۔

    ’’کیا ہے جانکی؟‘‘ثروت نے جھنجھلاہٹ سمیٹتے ہوئے پوچھا۔

    ’’بی بی جی، ہم اسپتال جارہے ہیں۔ کچھ پیسہ پیشگی چاہیے تھا۔‘‘

    ’’کیوں رام رتن ٹھیک نہیں ہوا؟‘‘ثروت کو قدرے شرمندگی کا احساس ہوا۔ پچھلے کئی دنوں سے وہ سوچ رہی تھی کہ مالی کی کوٹھری کی طرف جاکر اس کی خیریت پوچھے گی لیکن موقع ہی نہیں ملا تھا۔

    ’’ٹھیک نہیں ہیں، بی بی۔ بخار نہیں چھوٹ رہا۔ ڈاکٹر نے کہا ہے ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکال کر اس کی جانچ کریں گے۔‘‘ وقت کی تنگی کا خیال کرکے ثروت نے مزید سوال جواب اگلے وقت کے لیے اٹھا رکھے، پرس سے سوکا نوٹ کھینچ کر جانکی کی طرف بڑھایا اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔

    ’’مالکن۔۔۔‘‘

    ’’جانکی، اب بعد میں بات کرنا۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ ثروت نے اس کی بات کاٹ دی ۔ پیشانی پر نصف گھونگھٹ درست کرتی جانکی وہاں سے ہٹنے لگی مگر اس کی حرکات سست تھیں اور چہرے پر مایوسی تھی۔ شاید اسے اور پیسے چاہئیں۔ ثروت نے پرس میں پڑے نوٹوں کا دھیان کیا اور کہا اچھا واپس آکر دیکو ں گی۔ اس مرتبہ پارٹی میں اس کے شوہرنے ایک نئی پخ لگادی تھی۔ وہ نہ خود پیتاتھا نہ اس کے گھردی جانے والی پارٹیوں میں شراب پیش کی جاتی تھی لیکن اس مرتبہ دوستوں کی ضد اور اس دھمکی پر کہ وہ اس کے یہاں آئیں گے ہی نہیں، اسے جھکنا پڑا تھا۔ یوں ایک بڑا خرچ اور نکل آیا تھا۔ پھر یہ کہ پچھلے کئی مہینوں سے جانکی پیشگی کہہ کر جو رقم لے رہی تھی وہ کبھی منہا نہیں ہوئی تھی۔

    شہر کے اس بڑے اور مہنگے ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں داخل ہوتے ہوئے ثروت کی نظریں یکایک اس موٹی عورت پر پڑیں اور اسے محسوس ہوا کہ چھینی لے کر جگہ جگہ سے گوشت چھانٹ دیا جائے تو ایک بڑی جانی پہچانی صورت باہر نکل آئے گی۔ آنکھوں کے گوشوں سے ثروت نے دوبارہ اسے دیکھا۔ وہ تقریبا اس کی ہم عمر تھی۔ یہی کوئی چالیس بیالیس یا ذرا سی کچھ زیادہ۔ اچانک ہی گوشت خودبخود چھٹ گیا اور ایک بڑی نازک اندام لڑکی باہر نکلی۔ نازک اندام اور کم سن۔ وقت بہت پیچھے لوٹ گیا۔

    ’’ارے اُمی۔ !‘‘ آس پاس کے لوگوں کا خیال کیے بغیر ثروت حیرت بھری مسرت کے ساتھ چیخی۔ اس عورت نے تیزی کے ساتھ پلٹ کر ثروت کو دیکھا۔ اگلے لمحے دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر تھیں۔ ارملا کا شوہر ایک بڑی پرائیویٹ فرم میں اونچا عہدہ دار تھا۔ حال ہی میں ان لوگوں کا ٹرانسفر دلی ہوا تھا۔ ارملا کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ ثروت بھی دہلی میں ہی ہے۔ دونوں کی شادیاں ہوجانے کے بعد پہلے خط و کتابت سرپٹ دوڑی تھی، پھر لنگڑی لنگڑی چلی تھی اور پھر تھم کر وقت کی دھند میں گم ہوگئی تھی۔

    مارے خوشی کے ثروت نے اپنا لیپا پوتی والا پروگرام ملتوی کردیا۔ دونوں کناٹ پلیس کے ایک ریستوراں میں بیٹھ گئیں۔ ماضی کی قندیل سے نکل نکل کر جگنوان کے گرد اڑنے لگے۔

    ’’اتنی موٹی کیسے ہوگئی ارمی؟‘‘

    ’’کھا کھا کے۔‘‘ارملا نے سادگی سے کہا اور زور سے ہنس پڑی۔ وہی پرانی ہنسی۔

    کھانا واقعی ارملا کی کمزوری تھا۔ ہوسٹل کے ڈائننگ ہال میں سب سے زیادہ ہنگامہ وہی کیا کرتی تھی۔ وہاں نان ویج (Non-veg) کے نام پر اکثر انڈوں کا سالن ملتا تھا۔ ایک ایک ابلاہوا انڈا ہر لڑکی کی پلیٹ پر رکھ دیا جاتا اور شوربا اور تلے ہوئے آلو علاحدہ ڈونگوں میں۔ ثروت کی تو یہ دیکھتے ہی جان جل جاتی لیکن ارملا عرف ارمی کھانے کی ہر چیز دیکھ کر پل پڑتی تھی۔ ایک مرتبہ ہوسٹل کے کمپاؤنڈ میں نہ جانے کیسے ایک بکری گھس آئی۔ گول مٹول فربہ سی بکری۔ ارملا نے بڑے سنجیدگی سے کہا، ’’دیکھ تو ثروت کیا عمدہ مٹن چلاآرہا ہے۔ چل پکڑیں۔‘‘ جب ٹیبل پر انڈےآتے ارملا پورا کھانا میز پر آنے سے پہلے اپنی پلیٹ کے انڈے تو کھا ہی جاتی ، دو ایک اور لڑکیوں کی پلیٹ سے اٹھاکر بھی چٹ کر جایا کرتی تھی۔ پھر دوڑی چلی جاتی میس کی نگراں مسز ڈزنی سے شکایت کرنے۔ بوڑھی مسز ڈزنی خاصی خبط الحواس ہوچکی تھیں۔ بوکھلائی ہوئی ڈائننگ ہال میں چلی آتی اور رونی صورت بناکر کہتیں۔ انڈے کہاں جاسکتے ہیں لڑکیو! I laid them myself (میں نے خود دیے تھے) سارا ہال قہقہہ بار ہوجاتا۔ وہ بے چاری مزید بوکھلاجاتیں اور کچن میں جاکر اور انڈے ابلواتیں۔ بڑی ہی نیک تھیں۔ اور جتنی نیک تھیں اس سے زیادہ بھلکڑ۔ نہ جانے کب کی مرکھپ چکی ہوں گی۔

    ارملا کچھ اداس ہوگئی۔ ’’ان کا مرنا تو واجب ہوگا۔ بیس سال پہلے ہی لپٹا حریرہ تھیں۔ لیکن کچھ ایسے لوگ مرگئے جنہیں ابھی بہت زندہ رہنا تھا۔‘‘

    ’’کون ارمی!‘‘ ثروت نے سانس روک کر جواب کا انتظار کیا۔ ایک لمحے کے بھی دسویں حصے میں نہ جانے کن کن لوگوں کےنام ذہن میں کوند گئے۔ اور ان کی مردہ صورتیں بھی۔

    وہ سب پانچ تھے۔ ارملا، ثروت، جیوتی، راک ویل (پورا نام راک ویل سنگھ) اور آنند۔ وہ راک ویل کو اس طرح متعارف کراتے تھے۔ آپ سے ملیے آپ ہیں راک ویل، پورانام راک ویل سنگھ۔ پھر اس احمقانہ انداز پر خود ہی ہو ہو کرکے ہنستے۔ ملنے پر راک ویل کی مزاج پرسی کچھ یوں کی جاتی ’’ہائی راک ویل! راکنگ ویل؟‘‘(Rocking well) جواب میں وہ کسی فلسفی کی طرح منڈیا ہلاتا اور کہتا، ’’ویری ویل سر (یا میڈم) ویری ویل‘‘ پھر کسی اداس گدھے کی طرح لانبی تھوتھنی لٹکا لیتا۔ وہ سارے کے سارے بلا وجہ قہقہے لگاتے۔ ایک عمر تھی، ایک زمانہ تھا کہ ہنسی روئیں روئیں سے پھوٹا کرتی تھی۔

    اتفاق سے گروپ کے دونوں لڑکے ڈے اسکالر تھے اور لڑکیاں ہوسٹل میں تھیں۔ ان کی ملاقات روز کلاسوں میں ہوتی۔ یونیورسٹی کینٹین میں بھی وہ زیادہ تر ساتھ نظر آتے۔ کینٹین ملک بار کے نام سے جانی جاتی تھی اور وہاں کے دوسے مشہور تھے اور مونچھوں والا ہنس مکھ بیرا بشیر بھی۔ وہ اکثر ادھار دوسے کھاتے اور جاڑوں کی خوش گوار دھوپ میں گھاس پر بیٹھ کر مونگ پھلیاں چگتے۔ ایک مرتبہ ایک لفنگا سا دکھائی دینے والا اجنبی لڑکا اسکوٹر پر جاتے جاتے ان لوگوں کے بہت قریب آکر رک گیا تھا اور بڑے بے ہودہ ڈھنگ سے آنکھ دباکر بولا تھا، ’’تین لڑکیاں اور دو لڑکے، ہمیں موقع دیجیے، ہم توازن درست کردیں گے۔‘‘ اس نے اسکوٹر کا انجن بند نہیں کیا تھا پرن بھی وہ بھاگ نہیں سکا۔ آنند اور راک ویل نے پھرتیلے چیتوں کی طرح لپک کر اسے دبوچ لیا اور باری باری دو، دو جھاپڑ یوں رسید کیے جیسے کوئی اہم فریضہ انجام دے رہے ہوں۔ ہائیں ہائیں کرکے لڑکیاں دوڑیں ورنہ وہ یوں ہی یہ فریضہ کچھ دیر اور انجام دیتے رہتے۔ آنند بہت گورا تھا۔ غصے اور شرم سے اس کاچہرہ سرخ ہوگیا تھا۔

    وہ سب کیسے معصوم چہرے تھے۔ نوجوان، تازہ، ہرے بھرے جیسے شاخ پر پھوٹی ہوئیں نئی کونپلیں۔ طالب علموں کی مخصوص باہمی وفاداری کی ڈور میں بندھے۔

    ’’کمینہ! پتہ نہیں کون تھا!‘‘

    ’’ضرور لاء ڈپارٹمنٹ کا رہا ہوگا۔ سارے لفنگے ادھر ہی ملتے ہیں۔‘‘

    سب کو پتہ تھا ارملا کی شادی کی بات ایک وکیل سے چل رہی تھی۔ گرچہ بعد میں وہاں نہیں ہوئی لیکن اس وقت خاصی حد تک آگے بڑھ چکی تھی۔ ارملا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ کھسیاکر گھاس توڑنے لگی۔ جیوتی نے زیرلب شادی کا گیت گنگنانا شروع کیا۔ اس کی آنکھوں میں گہری مسکراہٹ تھی۔ ’’لو یہ تو ابھی سے تنکے چننے لگیں۔‘‘

    ان بیس بائیس برسوں میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یونیورسٹی کیمپس میں اور سڑکوں پر لڑکے جس زبان میں لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں وہ ناقابل تحریر ہے۔ اس کے باوجود کوئی شریف لڑکا اٹھ کر انہیں جھاپڑ نہیں لگاتا۔ لگانے کی ہمت بھی نہیں کرسکتا۔ سوشریف لڑکوں پر پانچ سات لفنگوں کا تناسب اب بالکل الٹ گیا ہے اور جو جہاں اکثریت میں ہے اور اقلیت کو روندنے کی صلاحیت رکھتا ہے، روندنا چاہتا ہے۔ ان بیس برسوں میں ہم نے کیا کچھ کھویا ہے۔ حیا اور شرافت کے ساتھ جینے کا حق تک۔ آنند سے جینے کا حق کس نے چھینا؟ وہ تو بہت بڑی بڑی باتیں کیا کرتا تھا، جینےکی امنگ سے بھرپور۔ ثروت گنگ ہوکر کافی میں چمچہ چلاتی رہی۔ ارملا کسی داستان گو کی طرح قصہ سنا رہی تھی۔ اس کا لہجہ افسردہ تھا۔ ’’شادی کے بعد بیاہ کرمیں ناگ پور گئی تھی، یہ تو تجھے معلوم ہی ہے۔ پانچ سال وہاں رہی۔ پھر اچانک ارون کاتبادلہ لکھنؤ ہوگیا۔ وہاں آنند اور راک ویل سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور جیوتی سے بھی۔‘‘

    ’’جیوتی تو آگرے کی رہنے والی تھی‘‘ ثروت نے بے صبری سے کہا۔ ’’وہ بھی وہاں آگئی۔ تم سب پھر مل گئے۔ ایک میں ہی علاحدہ ہوگئی۔‘‘

    ’’جیوتی کے لکھنؤ واپس آنے کا قصہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ ہمیں لکھنؤ آئے دو ہفتے ہی ہوئے تھے۔ ابھی پرانے دوستوں کو تلاش کرنےکا موقع بھی نہیں مل سکا تھا۔ میں امین آباد میں بچے کے دودھ کا ڈبہ تلاش کرتی گھوم رہی تھی کہ راک ویل ٹکراگیا۔ مارے خوشی کے بھرے بازار میں میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ ’’واہ باس کیا ملاقات ہوئی ہے۔ قسم خدا کی۔ بس شام کو میتھڈسٹ چرچ آجاؤ۔ آج میری شادی ہے۔‘‘ میں نے کہا آج ہی شادی ہے تو یہاں کیا ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہو؟‘‘ پتہ چلا دلہن کی انگوٹھی ابھی تک نہیں خریدی گئی ہے۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ٹاٹا کرتابھاگ نکلا۔ جاتےجاتے مڑکر چلایا، ’’میتھڈسٹ چرچ۔ شام کو پانچ بجے۔‘‘ بے حد خوش تھا۔ میں بچوں کو لے کر گئی۔ ارون نےبڑی رکھائی سے جانے سے منع کردیا تھا۔ خیروہاں پہنچی اور دلہن کو دیکھا تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ راک ویل کی شریر مسکراہٹ ایک کان سے دوسرے کان تک۔

    ’’دلہن جیوتی تھی؟‘‘

    ’’ہاں۔ کم بختوں نے کبھی بھنک تک نہیں لگنے دی تھی۔ میں تو خوب ہی لڑی۔ وہاں آنند بھی تھا۔‘‘

    ’’یہ تو بتاؤ اسے ہوا کیا تھا؟ کب مراوہ۔ کیوں مرا، کیسے مرگیا؟‘‘ثروت کی آواز میں بے قراری تھی۔ کافی کے پیالے پر اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔

    ’’ہم دونوں نے تو گریجویشن کے بعد یونیورسٹی چھوڑدی تھی لیکن آنند نے ایم اے جوائن کرلیا تھا۔ اس وقت ایم اے کیے ہوئے بھی اسے تین سال ہوچکے تھے لیکن وہ کسی مستقل روزگار سے نہیں لگ سکا تھا۔ انگریزی اچھی تھی، اخباروں میں کالم لکھتا رہتا تھا اور شام کو ایک پرائیوٹ ایوننگ انسٹی ٹیوٹ میں کلاسیز لیتا تھا۔ ارون کہتے تھے کن پھٹیچر لوگوں سے تمہاری دوستی رہی ہے۔ تب میں نے انہیں بتایا کہ ایک بہت بڑے دولت مندملیح آباد کے پرانے زمینداروں کے گھرانے کی لڑکی ثروت سے بھی میری گہری دوستی تھی۔ ہاں اگر دوستی کا معیار دولت اور خاندان کو ہی مانیں تو۔‘‘

    ’’اور شادی کا معیار؟‘‘ ثروت کے دل میں پھانس سی چبھی۔ ابامیاں ثروت کے یونیورسٹی جانے کے سخت خلاف تھے۔ قصبے میں سخت پردے میں رہ کر اس نے انٹرمیڈیٹ پاس کیا تھا مگر دونوں بھائی بڑے روشن خیال تھے۔ انہوں نے اپنی دلیلوں سے ابا کو چاروں خانے چت کردیا۔ بڑے بھیا اسے کیلاش ہوسٹل چھوڑ کر جانے لگے تو بولے تھے، ’’ثرو بیٹا، تم میری ضد پر سات پردوں سے نکل کر سیدھی ایک مخلوط تعلیم والے ارادے میں آگئی ہو۔ جیسے تلاؤ کی مچھلی چھوٹ کر سمندر میں آگرے۔ ایسی کوئی بات نہ کرنا کہ مجھے ابا میاں سے شرمند ہونا پڑے اور۔۔۔‘‘ کیننگ کالج کی برجیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’اس عظیم ادارے سے بھی۔‘‘

    آنند کی دوستی کو چاہت میں بدلتے دیکھ کر ثروت ڈر گئی تھی اور اس نے اپنے دل کے چاروں طرف ایک فولادی دیوار تعمیر کرلی تھی۔ وہ ہنس ہنس کر اسے بے وقوف ٹھہراتی رہتی تھی۔ بے وقوف اور جذباتی۔ ایک دن وہ بہت سنجیدہ ہوگیا۔ سنجیدہ اور اداس۔ ’’جانتا ہوں تمہارے اور میرے درمیان جو دیوار ہےاس میں میں کبھی روزن نہیں بناسکوں گا۔‘‘ اس لمحے وہ گورا، لانبا، گٹھے ہوئے جسم والا، فٹ بال کا بہترین کھلاڑی کیسا بے چارہ لگ رہا تھا۔ بے بس و بے چارہ۔ بےاختیار جی چاہا اس کے گلے سے لگ جائے۔ اسے تسلی دے لیکن اس خواہش کا گلا گھونٹ کر وہ ہنسنے لگی تھی۔ ’’آنند، ایک دن اپنے آنگن میں بیٹھ کر اپنی بیوی کے ہاتھ کی بنی چائے پیتے ہوئے جب اپنی حماقتوں کے قصے سنارہے ہوگے تو ان میں میرا بھی ذکر آئے گا۔‘‘ اس دن کے بعد سے آنند نے اپنی کسی کمزوری کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ثروت کی ہنسی اسے کہیں اندر تک کچوٹ گئی تھی مگر وہ ہمیشہ بہت اچھا دوست رہا تھا۔ ذہین اور بذلہ سنج۔ ہرایک کی مدد کو حاضر۔ بے حد محنتی۔ پھر زندگی کی ہماہمی میں اس کا چہرہ دوسرے چہروں کی بھیڑ میں گم ہوتا چلا گیا۔ شوہر کے ساتھ ثروت دل کی کسک دل میں دبائے کبھی یہاں کبھی وہاں۔ ایک کے بعد ایک تین بچے۔ دل کی حدوں سے باہر آکر اس کسک نے آج پھر اس کے پورے وجود کو گھیر لیا تھا۔

    ’’ارمی، بتاؤ نہ آنند کیسے چلا گیا؟ بولتی کیوں نہیں ہو؟‘‘ کہتے ہوئے اسے لگا جیسے اس کے اندر برف گر رہی ہے اور ہاتھ پیر شل ہوتے جارہے ہیں۔

    ’’تمہیں آنند کی چھوٹی بہن یاد ہے؟ ہم لوگ آرٹس فائنل ایئر میں تھے۔ اس نے بی ایس سی پارٹ ون میں داخلہ لیا تھا۔ ہم لوگ کبھی کبھی اس سے ملنے سائنس فیکلٹی جاتے تھے۔‘‘ ثروت دل ہی دل میں جھنجھلائی۔ یہ میرے سوال کا جواب تو نہیں۔ آنند کی بہن کہاں آگئی درمیان میں، لیکن اس نے صبر کے ساتھ کہا۔ ’’خوب یاد ہے۔ آگے بولو۔‘‘

    ’’وہ پیاری سی نازک ہری دوب سی سائنس گریجویٹ جلاکر ماردی گئی۔‘‘

    ثروت کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔

    ’’اس کے سسرال والوں نے کہا تھا ہمیں جہیز نہیں چاہئے، ہم لڑکی کو تعلیم اور خوبصورتی پر لے جارہے ہیں۔ لیکن پھر بھی آنند اور اس کے والدین نےجو ہوسکتا تھا، دیا تھا۔ فرنیچر، ریفریجریٹر جیسا سارا انگڑ کھنگڑ اور موٹر بائیک بھی۔ شادی کے بعد انہوں نےاصل رنگ دکھایا۔ آئے دن فرمائشیں لیکن وتسلانے نوکری کرنی چاہی تو وہ نہیں کرنے دی۔ کہا ہمارے گھر کارواج نہیں کہ بہو بیٹیاں نوکری کرتی پھریں۔ بہو کوجلاکر ماردینا شاید ان کے گھر کا رواج تھا۔ اسےانہوں نے بخوبی نبھایا۔

    وتسلا کو جلا ہوا میں نے خود دیکھا۔ کنگ جارج کے برن وارڈ میں پورے اڑتالیس گھنٹے وہ زندگی اور موت کے درمیان جھولتی رہی۔ مہینوں مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ آنند تو بھائی ہی تھا اور بھائی بھی کیسا کہ سب سے محبت کرنے والا۔ اس حادثے کے وقت وہ مختلف نوکریوں کے لیے مقابلے کے امتحانوں میں بیٹھ رہا تھا۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ ہر جگہ فیل ہوا۔ وہ کالج والی نوکری تھی لیکن وہاں پیسہ بہت کم ملتا تھا۔ ماں دل کی مریض پہلے سے تھی اب ان کا مرض شدت اختیار کرگیا۔ اسی دوران آنند کو یرقان ہوا جو پیچیدہ صورت اختیار کرگیا۔ ڈاکٹروں نے اسے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ، دلی لے جاکر علاج کرانے کی رائے دی۔ کچھ رقم اس کے باپ کے پاس تھی۔ کچھ انہوں نے پراویڈنٹ فنڈ سے لینے کی بات کی، لیکن آنند نے اپنے علاج پر روپیہ خرچ کرنے کے بجائے چھوٹے بھائی کی تعلیم کے لیے پس انداز کرنا مناسب جانا۔ وہ کبھی دلی نہیں گیا۔ وہیں مرگیا لکھنؤ میں ہی۔‘‘

    آنسوؤں کی چلمن کے پیچھے سےثروت نے ارملا پر نظر ڈالی۔ ’’گومتی کے کنارے بہتی ہوائیں اس کی چتا کی راکھ اڑالے گئیں اور تم نے کچھ نہ کیا ارملا؟‘‘

    ’’ثروت۔ ہم لوگ بہت کم ہی ایک دوسرے سے مل پاتے تھے۔ میرا اپنا کنبہ تھا۔ دھوپ میں بیٹھ کر مونگ پھلیاں چگنے اور ایک دوسرے کے دلوں میں جھانکنے والی بے فکری اب کہا ں تھی۔ مجھے تو یہ تک نہیں معلوم ہوسکا کہ اس کی بیماری سنگین صورت اختیار کرتی جارہی تھی۔ ویسے ثروت۔۔۔‘‘ ارملا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا، ’’میں دولت مند شوہر کی بیوی ضرور ہوں لیکن ارون کی مرضی کے خلاف گھر میں پتہ بھی نہیں کھڑکتا۔ اچھا ہی ہوا جو میں انجان رہی۔ جاننے پر بھی کیا اسے ایک بڑی رقم اٹھاکر دے سکتی تھی؟‘‘

    ’’ہاں، ہم بچوں کی برتھ ڈے پارٹیوں اور منگنی، شادی کے ہنگاموں اور غیرملکوں کے تفریحی چکر لگانے جیسے کاموں پر ہزاروں ہزارپھونک سکتے ہیں لیکن ہمارے بہت سےعزیز، احباب، پڑوسی صرف اس لیے مرجاتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔‘‘ ثروت نےدھیرے سے کہا۔

    ’’اور جب مرجاتے ہیں تب بڑا رنج ہوتا ہے۔ پھر وقت سب پر مٹی چڑھاتا گزر جاتا ہے اور وہ سب یوں بھلا دیے جاتے ہیں جیسے آنند۔ اس کے گزرجانے پر ہم سب بہت روئے تھے۔ کئی دن لگاتار اس کے گھر بھی جاتے رہے۔ بیتی باتیں دوہراتے رہے لیکن اب تو بارہ چودہ سال گزرچکے ہیں۔ اولاد کو چھوڑ کر باقی سب کاصبر آ جاتا ہے۔ زندگی جیٹ کی رفتار سے رواں دواں رہتی ہے۔‘‘

    ’’آج میرے گھربھی ایک بڑی پارٹی کااہتمام کیا گیا ہے۔‘‘

    ’’ہاں کل نیا سال شروع ہے۔‘‘

    ’’اس کے علاوہ توصیف کو حال ہی میں ایک بڑا پرموشن بھی ملا ہے۔ اس کی پارٹی کا تقاضہ بھی تھا۔ مگر دل کیسا بوجھل ہوگیا۔ مجھے لگ رہا ہے میں کچھ نہیں کرسکوں گی ارمی۔‘‘

    ’’دل کا بوجھ دل تک رکھنا ثرو۔ میں آنند سے بہت خوش ہوکر ملتی تھی۔ اسی کا انتظار کیا کرتی تھی۔ تم جانتی ہو وہ کس قدر ہنستا تھا۔ ایک دن ارون نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ارے وہ، اس کا فون آیا تھا۔ وہی تمہارا اولڈ فلیم(Old Flame)۔ ہوسکتا ہے بات مذاق میں کہی گئی ہو لیکن اس کالہجہ کسی مذاق کا غماز نہیں لگا اس کے بعد سے میں بہت محتاط ہوگئی۔‘‘

    ثروت ہنس پڑی۔ ایک کھوکھلی سی ہنسی۔ ’’آج اتنے زمانے بعد شاید توصیف ایسا کچھ نہ سوچ سکے مگر ہاں میں اپنے کسی پرانے ہم جماعت کے لیے، جس کو مرے ہوئے بھی چودہ پندرہ برس گزر گئے، اس کی پارٹی کا مزا کرکرا کردو، یہ وہ نہیں برداشت کرے گا۔‘‘

    انہوں نے ایک دوسرے کے فون نمبر اور پتے لیے۔ چلتے چلتے ثروت پلٹی۔ اس کی ویران آنکھیں خلا میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں، ’’کیا واقعی ایسی پیاری سی معصوم لڑکی کو کوئی جلاکر مار سکتا ہے، ارملا سچ کہنا۔‘‘

    ’’ہوسکتا ہے آج بھی، اسی وقت کوئی اور بھی معصوم لڑکی اس لیے جلائی جارہی ہو کہ اس کے سسرال والوں کو مرضی کے مطابق جہیز نہیں مل سکا تھا۔ روزانہ اوسطاً آٹھ سے دس لڑکیاں اسی طرح جلاکر ماردی جاتی ہیں۔ اور کتنے ہونہار شریف لڑکے اس لیے مرجاتے ہیں کہ ان کے پاس معقول ذریعہ معاش نہیں ہوتا یا بیماری میں علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔‘‘ ثروت کا لہجہ تلخ تھا۔

    ’’یہ اعداد و شمار میرے پاس نہیں ہیں ثروت۔‘‘

    اعداد و شمار شیاما چرن کے پاس رہا کرتے تھے۔ بور کہیں کا۔ ہمیشہ اگلتارہتا تھا۔

    کوئی پندرہ جوڑوں کی پارٹی میں وہ اکیلا کنوارا تھا۔ نصف سنچری ٹھوک چکا تھا پھر بھی تنہا۔ ڈرنکس کے لیے بھی سب سے زیادہ ادھم اسی نے مچارکھا تھا۔ ’’تم جرنلسٹوں کو مفت کی پینے کی عادت ہوجاتی ہے۔‘‘ ثروت نے ایک بار چڑ کر کہا تھا لیکن اس نے ذرا برا نہیں مانا تھا۔ اس وقت شیاما چرن سمیت کوئی بیس لوگ تھے جن کے ہاتھوں میں جام تھے۔ بس کچھ خواتین نےگریز کیا تھا اور ثروت کے شوہر نے۔ بڑا حسین سماں تھا۔ کئی جگہ آگ روشن تھی۔ اکتیس دسمبر کی یخ بستہ رات کو وہ سب چھوٹے چھوٹے جھرمٹ بناکر الاؤ کے گرد بیٹھے تھے۔ سیخوں پر مرغ بھن رہے تھے۔ گول مٹول اور فربہ۔ گھی اور مسالوں کی خوشبو ثروت کے لان کی ہری دوب کی مہک کے ساتھ گھل مل گئی تھی۔ غزالی آنکھوں والی خوبصورت، نوجوان کچی دوب سی وتسلا کو لوگوں نے یوں ہی بھون دیا تھا۔ انسانی گوشت کی چراند سارے محلے میں۔۔۔ ثروت کو منھ بھر کر ابکائی آگئی۔ وہ گھبرا کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔

    ’’کیا انتظام کیا ہے بھابی۔ ماشاء اللہ۔‘‘ شیاماچرن کہہ رہا تھا۔

    ’’ابے ہندو ہوکر کیا انشاء اللہ، ماشاء اللہ کرتا رہتا ہے۔ بھگوے جھنڈے والے پکڑلے جائیں گے تجھے۔‘‘کھلر نے شیاما کے کاندھے پر ایک دھپ رسید کیا اور زور سے قہقہہ لگاکر ہنسا۔

    ’’یہ ہندو ہے؟‘‘ توصیف نے مصنوعی حیرت سے آنکھیں نکالیں۔ ’’مجھے تو معلوم ہی نہیں ہوا ورنہ اب تک اس کا گلا کاٹ چکا ہوتا۔‘‘

    ’’1990کے فرقہ وارانہ فساد میں ۴۶۵لوگ مارے گئے۔ سرکاری آنکڑے۔ ایک اور کا گلا کاٹ دے گاتو کون سا تیر مارے گا۔‘‘ شیاما چرن نے اپنے حصے کے چوزے کی سیخ کو آنچ پر گھمایا۔

    ’’اگلے ماہ ریتا کی شادی کی تاریخ طے کرنی ہے۔‘‘ مسز کھلر کہہ رہی تھیں۔ ’’حیدرآباد جانا ہے وہاں موتی سستے ملتے ہیں اور عمدہ بھی۔ یہ میں وہیں سے لائی تھی۔‘‘ اپنے گلے میں پڑی سچے موتیوں کی لڑی کو انہوں نےانگلیوں پر گھمایا۔

    مرغ کی ٹانگ بھرے منھ سے شیاما چرن کہہ رہا تھا ’’۱۹۸۸ء میں صرف مئی کے مہینے میں پنجاب میں ۲۹۱لوگ مارے گئے۔ مئی ۱۹۹۰ء میں یہ تعداد ۸۸۲ ہوگئی، اس سال کی گرمیوں میں ۵۶۴ افراد مارے گئے۔ ماشاء اللہ کیا ترقی ہے۔ انشاء اللہ اگلی مئی میں ہم ان اعداد و شمار کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے۔‘‘

    ’’یہ مرد جہاں بیٹھیں گے اسی طرح کی بکواس کریں گے۔‘‘ تہمینہ امجد نے منھ بنایا۔‘‘ مسز کھلر آپ حیدرآباد جائیں تو مجھے بھی خبر کیجیے گا۔ آپ سے میں بھی موتی منگواؤں گی۔‘‘

    ’’یار چپ بھی رہ۔‘‘مردوں میں سے کسی نے شیاما چرن سے کہا۔

    ’’اور شادی کر ڈال۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔‘‘

    ’’کس سے کروں۔ ہندستان کی آبادی سےدوملین لڑکیاں غائب ہیں۔ کنواروں کی تعداد ویسے بھی بڑھے گی۔‘‘

    ’’ہندوستان کی ترقی کے نام!‘‘مہندر نےاپنا گلاس بلند کیا۔ ارغوانی شراب سےبھرا گلاس۔ سرخ خون کی رنگت۔ آسام کاخون۔ کشمیر کاخون۔ جیتے جاگتے انسانوں کا جیتا جیتا لہو۔ دھرتی میں ملتا، پانی کو سرخ بناتا۔

    گھڑی کی سوئیاں بارہ پر پہنچ رہی تھیں۔ چاروں طرف پٹاخے پھوٹنےلگے۔ ہر طرف آدم کےبیٹے ایک دوسرے سےدست و گریباں تھے۔ یوگوسلاویہ، روس، عراق، بموں کے دھماکوں سے دنیا دہل گئی تھی۔ ’’ساری دنیا ایک کنبہ ہے۔‘‘ کسی بے وقوف نےچارہزار سال پہلے کہا تھا۔

    ثروت کے سر پر ایک راکٹ شائیں کی آواز کرتا گزرگیا۔ ایک شور بلند ہوا ’’نیا سال مبارک ہو۔‘‘ سب نےکھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔ مبارک ہو، مبارک ہو۔ چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ چپکا کر لوگوں نے ایک دوسرے کو بلاوجہ مبارک باد پیش کی۔

    ’’پھر بکھار چڑھ رہا ہے ردھیا کے بابو؟‘‘ جانکی نے بیمار شوہر کی پیشانی چھوکر متفکر ہوکر کہا۔ ’’ اب تو شاید ہی مالکن او رپیسہ دیں۔‘‘

    ’’نیا سال مبارک ہو۔‘‘ پٹاخوں کے دھماکوں کے ساتھ یہ شور ان کی کوٹھری میں بھی گھس آیا تھا۔ مالی زور سےکراہا۔

    ’’ہلّا برا لگتا ہے ردھیا کے بابو؟ تھوڑی دیر میں شانت ہوجائے گا پھر سب ویسا ہی رہے گا، پہلے جیسا۔‘‘ اس نے شوہر کو تسلی دی۔

    مأخذ:

    (Pg. 74)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے