Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیلی کا بھوت

گلاب داس بروکر

نیلی کا بھوت

گلاب داس بروکر

MORE BYگلاب داس بروکر

    گھور، اندھیری کالی رات نے اپنی اجارہ داری چاروں طرف پھیلا دی تھی لیکن ایک کمرے میں اور دیے کی روشنی میں بیٹھے ہوئے ان تین دوستوں کو کچھ خیال ہی نہ رہا تھا اور شاید اس کی پرواہ بھی نہ تھی۔ وہ تینوں اپنی باتوں میں ایسے مصروف تھے کہ اگر یہ کالی بھیانک رات کالے کالے بادلوں سے اور بارش اور کڑک اور چمک سے اور بھی زیادہ بھیانک بن جاتی تب بھی وہ شاید اس طرف متوجہ نہ ہوتے۔

    رات کے گھنٹے بھی ایک کے بعد ایک گزرتے جا رہے تھے۔ سردی بھی کچھ زیادہ ہی تھی لیکن اس کا احساس شاید انہیں تھا کیونکہ کمرے کے ایک کونے میں رکھی ہوئی چارپائی پر نرملا اور پربودھ میاں بیوی ایک ہی کمبل اوڑھے بیٹھے تھے۔ ان کا دوست ششی اپنی کرسی چارپائی سے لگا کر اور اپنی دونوں ٹانگیں گھٹنوں سے موڑ کر اور اوپر سمیٹ کر اور ان پر اپنے دونوں باز و لپیٹ کر گٹھری بنا بیٹھا تھا۔

    اس وقت جو گفتگو ہو رہی تھی اس سے انہیں بےحد دلچسپی تھی۔ اس کا اندازہ تو ان تینوں کے لب ولہجے اور چہرے کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ اکثر دفعہ تو یوں ہوتا کہ تینوں بہ یک وقت بولنے لگ جاتے۔ ایک اپنی بات پوری نہ کرتا کہ دوسرا بولنے لگتا، مطلب یہ کہ ان کی بات چیت کے درمیان ایک ثانیے کے لیے بھی خاموشی کا وقفہ نہ آتا۔

    ’’او ماں رے! لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اچھا کیسے لگے؟‘‘ نرملا نے اپنا دبلا پتلا اور گورا ہاتھ کمبل کے گھونسلے میں سے باہر نکالا اور پھر کمبل سے اپنے قدرے زرد جسم کو ڈھانکتے ہوئے بولی۔ اس کے لہجے میں حیرت تو نہ ہونے کے برابر تھی لیکن نفرت صاف ظاہر تھی۔

    سردی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی تھی کیونکہ دوسرے ہی لمحے اس کا ہاتھ واپس کمبل میں گھس گیا۔ اب کمبل سے باہر صرف اس کا چہرہ تھا، سفید اور ہر قسم کے جذبات سے عاری۔

    ’’یہ تو نہیں سمجھ سکتی نیمو۔‘‘ پر بودھ نے بڑے پیار سے تعریفی نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اور سمجھ میں آبھی کیسے سکتی ہے یہ بات؟‘‘

    ’’ٹھیک ہے نیمو بہن، تم یوں محسوس کرو تو یہ فطری بات ہے۔‘‘ ششی نے اپنے بازوؤں کی گرفت گھٹنوں پر اور بھی سخت کر دی۔ ‘‘کہاں تم اور کہاں وہ۔۔۔؟ وہ تو بالکل ہی۔۔۔‘‘

    اور وہ اس کی خصوصیات کی مکمل تشریح کیے بغیر خاموش ہو گیا کیونکہ اس کا خیال تھا بلکہ اس نے یقینی طور پر سمجھ لیا تھا کہ دونوں میاں بیوی نے، جو اس کی طرف یوں دیکھ رہے تھے گویا وہ حقیقت بیان کررہا ہو، اس کے نامکمل فقرے کو مکمل کر لیا گیا ہوگا اور اس کے گورے، بشاش اور صحت مند بشرے پر نفرت و حقارت اور ناپسندیدگی کے جذبات یکے بعد دیگرے آکر گزر گئے۔

    ’’لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ نیمو نے پھر کہا، ’’اسے کچھ عزت کا پاس بھی نہ تھا۔ ہندو، مسلمان، دوست، دشمن، کوئی بھی۔۔۔‘‘

    نیمو نے بھی فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اس کے بشرے سے ہلکا ہلکا غم ٹپکنے لگا۔

    ’’ہمیں کیا لینا دینا نیمو؟‘‘ پربودھ نے کہا اور پھر ششی کی طرف دیکھ کر بولا، ’’خود تو مرگئی لیکن مرنے سے پہلے ہی غریب منگل کو نیم جان کر گئی۔ تو تو سب جانتا ہے یار۔‘‘

    ’’ہاں سب جانتا ہوں۔’’ ششی نے سر ہلایا اور پھر بڑی سنجیدگی سے اضافہ کیا، ’’جتنا تم جانتے ہو، میں شاید اس سے کچھ زیادہ ہی جانتا ہوں۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے میں جو تغیر ہوا وہ نہ تو پربودھ نے دیکھا اور نہ نیمو نے حالانکہ دونوں بڑے اشتیاق سے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔

    ششی نے کہنا شروع کیا تو اب اس کی آواز اتنی بلند نہ تھی۔

    ’’وہ کسم ہے نا؟ وہی جیا کی بہن؟ ایک دن اسے نیلی سے کچھ کام تھا تو وہ دوپہر کے وقت اس کے گھر گئی۔ اس وقت تو منگل بچارا گھر میں ہو ہی نہیں سکتا، کام دھندے سے گیا ہوا تھا۔ نیلی نے کمرے کا دروازہ بھی ٹھیک سے بند نہ کیا تھا۔ کسم نے دھکا دیا تو کواڑ کھل گئے۔ کمرے میں نیلی کسی کے ساتھ ایسی شرمناک حالت میں بیٹھی ہوئی تھی کہ۔۔۔ کسم نے دیکھ لیا۔‘‘

    ’’تم سے کس نے کہا؟ تجھے کس نے بتایا؟‘‘ دونوں میاں بیوی نے قریب قریب ایک ساتھ پوچھا۔

    چند ثانیوں تک ششی یوں خاموش بیٹھا رہا جیسے یہ سوالات اس نے سنے ہی نہ تھے۔ خاموشی کے اس وقفے میں ایک چہرہ اس کی نظر کے سامنے تیرنے لگا۔ ننھا سا، معصوم سا، سفیدی مائل زرد اور چہرہ جیسے اس سے کہنے لگا، ’’ارے تم بھی؟ تمہیں کیا حق ہے؟‘‘ ابھی وہ اس چہرے کے سوالات کا جواب سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بار پھر وہی سوال میاں بیوی کی طرف سے پوچھا گیا۔

    ’’لیکن یار! ان سب باتوں کا پتہ تجھے کہاں سے چلا؟‘‘

    ’’مجھے؟ ار۔۔۔! بات یہ ہے کہ کسم نے جیا سے کہا اور اس نے میری بیوی سے۔‘‘

    ’’دیکھا نیمو! اب یہ نیا انکشاف۔‘‘ پربودھ بولا۔

    اس وقت نیمو نے بھی کچھ کہا لیکن ششی ٹھیک سے نہ سن سکاکیونکہ اس کے سامنے اب اکیلا ایک چہرہ نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک پورا جسم بنتا جا رہا تھا۔ دبلا پتلا، کمزور، اس کے باوجود مسحور کن اور معصوم، جو چہرے کی معصومیت اور پاکیزگی میں اضافہ کر رہا تھا اوریہ چہرہ، یہ جسم اس سے کہہ رہا تھا،

    ’’تم بھی ششی۔۔۔ خیر، کہو اور بھی جو کچھ کہنا ہے کہہ دو۔ باقی کچھ نہ رہ جائے۔‘‘ اور جیسے اسی سے شرما کر ششی نے پربودھ اور نیمو کے درمیان چلتی ہوئی بات کو توڑ کر کہا، ’’اور نیموبہن! وہ نیلی کتنی معصوم معلوم ہوتی تھی؟ جیسے ایسی عورت تو کبھی پاپ کر ہی نہیں سکتی بلکہ اس کا خیال تک نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود کس قدر بےدرد۔۔۔‘‘

    ’’اور زہریلی بھی کتنی تھی۔ منگل نیمو کے ساتھ بات چیت کرتا تو نیلی اس بچارے کی جان کو آ جاتی۔‘‘ پربودھ نے کہا۔

    ’’ہوگا۔ ہمیں کیا؟‘‘ نیمو نے اداسی سے کہا، ’’آخر میں توبچاری مرہی گئی نا؟ اور تکلیف بھی کس قدر برداشت کی توبہ توبہ ایسی موت۔۔۔‘‘

    ’’ایسوں کا انجام تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ ششی نے بڑے جوش سے کہا، ’’نہ خود سکون اور سکھ سے رہی اور نہ کسی کو رہنے دیا۔‘‘ اور جیسے وہ اس چہرے کو اور اس جسم کو اپنی نظر کے سامنے سے دھکیل دینا چاہتا ہو، یوں اس نے دگنے جوش اور غصے سے کہا، ’’میں نے اسے اس دفعہ یوں کہا اور اس دفعہ۔۔۔‘‘

    اور اس کی داستان شیطان کی آنت بنتی چلی گئی۔ نیلی کی لغزشوں اور ان لغزشوں سے بچانے کے لیے اس نے جو کوششیں کی تھیں، پند و نصائح کے جو دریا بہائے تھے، ان کے واقعات پر واقعات وہ بیان کرتا چلا گیا۔ اس کے اور نیلی کے درمیان کبھی تو اتنی بے تکلفانہ باتیں ہوئی تھیں کہ ان واقعات کی تفصیل کو نیمو اور پربودھ بڑے شوق اور دلچسپی سے سنتے رہے۔ بیچ بیچ میں وہ دونوں بھی اپنی یادداشت کی فہرست میں سے دلچسپ اور مضحکہ خیز واقعات منتخب کرکے بیان کر دیتے تھے۔

    انہی باتوں میں وقت گزرتا چلا گیا۔

    اس عرصے میں ششی کی داستان جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی ویسے ویسے اس کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ کیونکہ ایک طرف وہ چند خاص قسم کے واقعات بیان کر رہا تھا تو دوسری طرف دوسری قسم کے مخصوص واقعات کی یادیں اس کے دماغ کے اسٹیج پر سے ہٹی ہی نہ تھیں بلکہ اور سامنے آکر اودھم مچا رہی تھیں۔

    وہ یہاں گفتگو کے سیلاب میں، دو زندہ جسموں کے سامنے، گھور اندھیری رات ہونے کے باوجود لالٹین کی روشنی سے نیم روشن کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور نیمو اور پربودھ اس کے ساتھ تھے لیکن اس کا دھیان یہاں نہ تھا۔ اس کا دل یہاں نہ تھا۔ اس کا تصور یہاں نہ تھا۔ وہ سینکڑوں میل دور بمبئی کے ایک مقامی علاقے میں تھا۔ منٹ، گھنٹے اور دن خیالات کی خراد پر چڑھتے تیزی سے گھوم رہے تھے اور واقعات گڑھے جا رہے تھے۔ ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک۔ وہ بمبئی کے ایک اسکول میں ملازم تھا۔ نیلی کا شوہر منگل بھی اسی اسکول میں تھا اور دونوں ایک ہی علاقے میں رہتے تھے۔ پربودھ کوئی دوسرا کام کرتا تھا تاہم وہ اور نیمو بھی اسی علاقے میں رہتے تھے۔

    ان کے گھر تھوڑے تھوڑے فاصلے سے واقع تھے۔ منگل اور نیمو، نیمو اور نیلی، نیلی اور ششی، پربودھ اور منگل، یوں وہ ایک دوسرے کے دوست تھے اور یہ دوستی اتنی گہری اور ایسی بےغرض تھی کہ لوگوں کو رشک آتا تھا۔ مثالی دوستی تھی وہ! ایسی بے غرض، گہری مثالی دوستی کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ واقعات کا پورا کارواں ششی کی نظروں کے سامنے سے گزر گیا۔ نیلی نیمو سے جلنے لگی۔ منگل کو نیمو سے یوں بے تکلفی سے ملنے کی کیا ضرورت تھی؟ کئی داؤ آزما کر نیلی نے منگل کو نیمو کے یہاں جانے سے روک دیا۔

    ششی سے بھی اس نے نیمو کے متعلق ہزاروں باتیں کہی تھیں۔ ان میں کی صرف ایک بات اس وقت ششی نیمو اور پربودھ کو سنا رہا تھا۔

    ’’اور مجھ سے کہنے لگی، ششی بھائی! اس پر مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ منگل نیمو کا ماتھا چومتا ہے تو مجھے کیا؟ ایسا تو وہ ایک دوست کی طرح کر رہا ہے، اس کا تو مجھے یقین تھا اور یہ کون سی بہت بڑی بات تھی؟‘‘

    ’’اور سچ تو یہ ہے کہ وہ ایسی معصومیت سے یہ کہہ رہی تھی کہ اس کے دل میں بھرے ہوئے زہر کو کوئی سمجھ نہ سکے اور کمال تو یہ تھا کہ اس نے اس زہر کو یوں دبا رکھا تھا کہ کبھی بھولے سے بھی وہ اس کی زبان پر آکر الفاظ کی صورت اختیار نہ کر سکتا تھا۔‘‘

    ’’جھوٹی کہیں کی۔ بالکل جھوٹ ہے یہ۔‘‘ نیمو نے غصے سے پھنکار کر کہا، ’’ایسا کبھی ہوا ہی نہیں۔ قسم لے لو۔‘‘

    پربودھ کی آنکھوں میں صرف نفرت تھی، وہ خاموش رہا۔

    ’’جھوٹی ہی تو تھی۔ وہ تو یوں کہ۔۔۔ اسے ہزار مرد چوم لیں یہ اسے پسند تھا۔ چنانچہ ایسا ہی تو خیال آئےگا اسے۔ جو خود جیسا ہوتا ہے نا دوسروں کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔‘‘ ششی نے کہا اور پھرٹھٹک کر گم سم ہو گیا اور اسی وقت ایک واقعہ اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ، اس کی نظر کے سامنے آگیا۔ نیلی کا چال چلن ذرا ویسا ہی تھا، یہ تو وہ سب ہی جانتے تھے۔ ایک دو اعتراف تو خود نیلی نے منگل کے سامنے دکھتے دل سے کرلیے تھے۔ ششی بھی اس سے واقف تھا، اسی لیے تو واقعہ بن گیا۔

    منگل اور نیلی کے ساتھ اور انہی کے کمرے میں ششی بیٹھا ہوا تھا۔ بیٹھنے کی ترتیب یوں تھی:ایک کرسی پر منگل بیٹھا ہوا تھا۔ قریب ہی آرام کرسی میں ششی دھنسا ہوا تھا اور اس کے قریب ہی چھوٹی سی کرسی پر نیلی بیٹھی ہوئی تھی۔ منگل باتوں کا رسیا تھا۔ دنیا جہاں کی باتیں کرکے وہ ان دونوں کو ہنسا رہا تھا۔ ششی بے تحاشہ ہنس رہاتھا۔ یوں ہنستے ہنستے اس نے ایک دفعہ نیلی کی طرف دیکھا اور اسے ایسا لگا کہ نیلی اسی کی طرف دیکھ رہی ہے۔

    منگل کی باتوں کا خزانہ کم ہونے ہی میں نہ آتا تھا، چنانچہ ان کی ہنسی بھی اسی مناسبت سے بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک بار پھرششی نے نیلی کی طرف دیکھا تو اس وقت اس کا زرد چہرہ ہنسنے کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا، ششی کو اپنی طرف د دیکھتا دیکھ کر نیلی اور بھی زیادہ ہنسی اور یہ پہلا موقع تھا جب ششی کو زرد و نیلی دلکش معلوم ہوئی۔

    منگل کی وہ چھڑی، سیر کو جاتے وقت جسے وہ اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا، وہیں رکھی ہوئی تھی۔ نیلی نے یہ چھڑی اٹھالی اور اس سے کھیلنے لگی۔ اس کی اس حرکت سے تینوں کی باتوں کا سلسلہ نہ ٹوٹا۔ کچھ ہی دیر بعد نیلی اس چھڑی سے ششی کے تلوے گدگدانے لگی۔ ششی کی ہنسی بے اختیار ہو گئی اور منگل کو بھی ہنسی آ گئی۔

    اس شرارت کی سزا دینے کے لیے ششی نے نیلی کے ہاتھ سے چھڑی گھسیٹ لی۔ اس وقت چھڑی کو پکڑے رہنے کی کوشش میں نیلی قدرے آگے کی طرف جھک گئی اور اس کا چہرہ ششی کے عین قریب آ گیا اور تب اس کے چہرے پر جمی ہوئی نیلی کی آنکھیں اپنی خاموش زبان میں ہزاروں راز کہہ گئیں۔

    جانے کیا بات تھی کہ آج اسے نیلی کے خلاف ہی باتیں کرنے کا جوش چڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ اس کی بری عادتوں کی ان گنت مثالیں دینے کے بعد وہ پربودھ اور نیمو کو یہ بتانے لگا کہ نیلی دوسروں کے سامنے بھی منگل اور نیمو کی برائیاں کرنے سے باز نہ رہتی تھی۔

    ’’کسم سے بھی اس نے تمہارے اور منگل کے متعلق بری بری باتیں کہی تھیں۔ یہ سب باتیں جب مجھ سے میری بیوی نے کہیں تو مجھے اس قدر غصہ آیا کہ۔۔۔‘‘

    لیکن دل کے پردے پر تو ایک دوسری ہی تصویر چل رہی تھی۔ ایک دفعہ بمبئی جاتے ہوئے وہ اور نیلی مضافات کے درمیان دوڑتی ہوئی بجلی کی ریل میں ساتھ تھے۔ کمپارٹمنٹ میں اتنی بھیڑ تھی کہ آدمی بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے ہوئے تھے۔ بڑی مشکلوں سے وہ دونوں پاس پاس بیٹھ گئے۔ ششی کا پیر نیلی کے پیر سے ذرا دب گیا۔ اس کا خیال تھا کہ نیلی اپنی ٹانگ ہٹا لےگی لیکن وہ تو یوں بیٹھ رہی جیسے کہ جانتی ہی نہ ہو۔ رہا ششی تو وہ بھی اپنی ٹانگ کھسکا نہ سکا۔

    ریل میں سے اتر کر دونوں ہی بس اسٹینڈ پر کھڑے بس کا انتظار کرنے لگے اور اس وقت پتہ نہیں کیسے ششی کا ہاتھ نیلی کے ہاتھ سے چھو گیا بلکہ اس کے ہاتھ میں جیسے اپنے آپ ہی چلا گیا۔ نیلی نے اپنااور ششی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ نیلی نے جب اپنی معصوم آنکھوں سے ششی کی طرف دیکھا تو اس کے حلق میں پھندے پڑ گئے۔ وہ کانپتی ہوئی آواز میں صرف اتنا کہہ سکا، ’’نیلی! کل شام تو میرے گھر آ جانا۔‘‘

    ان دنوں ششی گھر میں اکیلا ہی تھا۔

    ’’منگل وقت پر گھر آ گیا تو ہم دونوں تمہارے یہاں ضرور آ جائیں گے۔‘‘ نیلی نے ہنس کر کہاتھا۔

    ششی کی آواز اب کچھ زیادہ ہی کانپ رہی تھی اور بیٹھ بھی گئی تھی۔ اس نے کہا، ’’نہیں۔ تو اکیلی ہی آنا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ بس آ گئی تھی۔ اس پر چڑھتے ہوئے نیلی نے پوچھا۔

    ’’بس، یونہی۔‘‘ کہہ کر ششی وہاں سے چل دیا۔

    اور اس کے بعد دوسری شام کو نیلی کے بہت سے ’’مجبوبوں‘‘ میں ششی نے ایک کا اور اضافہ کیا۔ وہ اسے یاد آیا اور اس نے نیمو اور پربودھ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ’’نیلی تورنڈی تھی! جانے کیا حشر ہوا ہوگا اس کا۔‘‘

    ’’ششی بھائی! میرے خیال میں اب ہم یہ موضوع ہی بدل دیں تو اچھا ہو۔‘‘ نیمو نے ایک جمائی لے کر کہا، ’’وہ بچاری تو مر گئی۔ اب اس کی برائی کرنے سے کیا فائدہ۔‘‘

    ’’ششی یار! آج تو خوب کھل پڑا۔ ہمارے تو خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ تو نیلی سے اس قدر بیزار ہوگا۔‘‘

    ’’اتنا بیزار ہوں کہ بس نہ پوچھو۔ اس سے جان پہچان کرنا بھی گناہ تھا۔‘‘ ششی نے تلخی سے کہا۔

    ایک بار پھر وہی معصوم چہرہ ا س کی نظر کے سامنے تھا۔ وہی دلربا چہرہ جو بڑی معصومیت سے کہہ رہا تھا، ’’اچھا، یہ تم کہہ رہے ہو؟ اور تم سے جان پہچان کرکے مجھے تو ثواب ملا ہوگا؟‘‘ اب تو ششی کی تلخی انتہا کو پہنچ گئی۔

    باتوں ہی باتوں میں ڈیڑھ بج گیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ ان باتوں سے اب وہ اکتا بھی گئے تھے۔ ششی اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’اچھا بھئی۔ اب میں چلتا ہوں۔ آج تو بہت ہی دیر ہو گئی۔‘‘

    ’’ڈیڑھ بج گیا۔‘‘ نیمو نے پھر جماہی لی۔

    ششی نے اپنے سوتی کوٹ کے کالر کھڑے کرکے اپنے گز بھر مضبوط سینے کو سردی سے بچانے کا انتظام کر لیا اور ایک ہلکی سی انگڑائی لے کر بولا، ’’ابھی تو کافی لمبا فاصلہ طے کرنا ہے اور میں الو کی طرح یہاں بیٹھ رہا۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا یار؟‘‘ پربودھ بھی کمبل میں سے نکل کر اٹھ کھڑا ہوا، ’’دو ڈھائی میل کا فاصلہ بھی کوئی فاصلہ ہوا؟‘‘

    نیمو کمبل کی پناہ میں سے باہر آئی اور ساڑھی جھٹک کر کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے بولی، ’’اف! اندھیرا گھپ ہے باہر تو۔‘‘ اور پھر لہجے میں ہمدردی لاکر اضافہ کیا، ’’ششی بھائی! رات کی رات یہیں ٹھہر جاؤ تو کیا ہرج ہے؟ ایسے اندھیرے میں کہاں ٹھوکریں کھاتے جاؤگے۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔‘‘ ششی نے ہنس کر کہا، ’’یہ بمبئی تو ہے نہیں کہ آدمی اپنے گھر ٹیلی فون کرکے خبر کردے۔ اب تک گھر نہیں پہنچا تو سب کو فکر تو ہو رہی ہوگی۔‘‘

    ’’اور یہ دیسی راج؟ میں تو کہتی ہوں پر بودھ، بیکار ہی یہاں آئے۔‘‘ نیمو نے کہا، ’’راستے میں بلیک آؤٹ، کہیں روشنی کا داغ دھبہ تک نظر نہ آئے، جیسے ساری دنیا کی جنگ یہیں لڑی جا رہی ہو؟ اس سے تو بمبئی لاکھ درجہ بہتر تھا۔‘‘

    ’’لیکن یہ تو نہیں دیکھتی کہ بمبئی میں جتنی تنخواہ ملتی تھی اتنی ہی یہاں بھی ملتی ہے۔ لیکن یہاں ہمارے ٹھاٹھ ہیں کہ نہیں؟ اتنی ہی تنخواہ میں بادشاہ کی طرح رہتے ہیں۔‘‘ پر بودھ نے جواب دیا۔ نیمو اس کا جواب دینے جا رہی تھی کہ ششی بیچ میں بول پڑا، ’’اب اگر یہ بحث چل نکلی تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید گزر جائےگا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایک یا دوسری ملازمت مل جانے کی وجہ سے ہم سب پھر یکجا ہو گئے۔ اسی پر بھگوان کا شکر ادا کرو۔‘‘

    ’’اکیلے منگل بھائی بچارے وہیں رہ گئے۔‘‘ نیمو نے کہا۔

    ’’اچھا بھئی تو میں چلتا ہوں۔‘‘ ششی نے کہا اور چل بھی دیا۔

    پر بودھ اور نیمو اسے دروازے تک پہنچانے گئے۔ اندھیری خاموش رات دبے پاؤں گزر رہی تھی۔ تارے بھی جیسے اندھیرے میں پگھل گئے تھے۔ البتہ صرف ایک سردی تھی جو اپنا سکہ جما رہی تھی۔ اپنے پورے جسم کو ساڑھی میں لپیٹ کر نیمو نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولی، ’’ششی بھائی! میری مانو اور آج کی رات یہیں ٹھہر جاؤ۔ رات بڑی بھیانک ہے اور سردی بھی زیادہ ہے۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔ بندہ تو یہ چلا۔’’ ششی نے کہا، نیمو کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور دروازے کے باہر نکل گیا۔

    ’’دیکھ یار! راستے میں نیلی کے متعلق سوچتے ہوئے نہ جانا۔‘‘ پربودھ ہنسا اور پھر اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا، ’’ششی کو کبھی اندھیرے یا سردی نے روکا ہے کہ آج روک لیتے۔ دیکھا نہیں اس کا بدن؟‘‘

    ’’پورا پہلوان ہے پہلوان۔‘‘

    ’’ایسی رات میں مجھے چند قدم دور جانا ہو تب بھی مارے خوف کے نہ جا سکوں۔‘‘ نیمو نے کہا۔

    اور وہ دونوں ایک بار پھر اپنے کمرے اور دیے کی حفاظت میں چلے گئے۔

    ادھر ششی نے اپنا تنہا سفر شروع کیا۔

    اسے دو ڈھائی میل کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ پچھلے تین چار مہینوں سے نیمو اور پربودھ کا ٹھیاواڑ کے اس چھوٹے سے قصبے میں مقیم تھے۔ وہ بستی سے باہر ایک دور کے پلاٹ میں رہتے تھے۔ ششی کا مکان بستی میں ہی تھا۔ ان دونوں کے مکانوں کے درمیان دو ڈھائی میل کا فاصلہ تھا۔ بیچ میں ایک میل کا علاقہ تو بالکل ہی غیر آباد تھا۔ بستی کے لوگ اس غیر آباد علاقے کو ’’صحرا‘‘ کہتے تھے۔

    ششی نے چلنا شروع کیا اور اس کے قدموں کی چاپ نے خاموشی اور اندھیری رات کا دل دھڑکا دیا۔ اس کے آس پاس اور حد نظر تک سوائے اندھیرے کے اور کچھ نہ تھا اور سردی تھی کہ آگ وریشے میں سرایت کررہی تھی۔ ششی اپنی مخصوص رفتار سے فاصلہ طے کر رہا تھا۔ رات کے اندھیرے سے بھی زیادہ اور تقریباً ٹھوس اندھیرا اس کے دل میں پھیلتا جا رہا تھا۔

    ’’میں نے کیوں نیلی کی اتنی بہت ساری برائیاں کر دیں؟ اگر وہ گنہگار تھی تو میں کہاں کا پاکباز اور پارسا ہوں؟‘‘

    ’’کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟‘‘ اس کا دل دھڑک کر اس سے پوچھ رہا تھا۔ اس سوال کے تنگ ہوتے ہوئے جال میں سے آزاد ہونے اور اپنا دھیان بٹانے کے لیے اس نے دائیں بائیں اور اوپر نیچے دیکھا۔ اسے کچھ بھی نظر نہ آیا، سوائے اندھیرے کے اور اسے یوں معلوم ہوا کہ یہ اندھیرا بھیانک اژدہے کی طرح منہ پھاڑے اسے نگل لینے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ ایک بار پھر اس کے دماغ میں خیالات کی آندھی اٹھی۔ آخر آخر میں تو پربودھ اور نیمو تقریباً خاموش ہی رہے تھے۔ وہ خود ہی احمق کی طرح مسلسل بولے جا رہا تھا۔ تو کیا اس نے نیلی سے زیادتی نہیں کی؟

    ’’ہاں۔ کی ہے۔‘‘ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے خود نیلی نے جواب دیا ہو۔ اس نے چونک کر سامنے دیکھا۔ جیسے نیلی ہنس رہی تھی اور اسے سرزنش کر رہی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ کچھ نظر نہ آیا سوائے اندھیرے کے۔ وہ کانپ گیا۔ یہ سوچ کر کہ یہ سردی کا اثر تھا، اس نے اپنا کوٹ اپنے مضبوط سینے پر ٹھیک سے لپیٹ لیا۔ وہ آگے بڑھا۔ خیالات کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ اس کے قدم سرد زمین پر بجنے لگے۔ ’’دھب۔ دھب۔ دھب۔‘‘

    اچانک اس نے محسوس کیا جیسے کوئی اس کے پیچھے چلا آ رہا ہو اور قدموں کی یہ چاپ اسی کی ہو۔ وہ ٹھٹک کر کھڑا رہ گیا۔ آواز خاموش ہو گئی۔ اس نے پیچھے دیکھا۔ کچھ نہ تھا سوائے اندھیرے کے۔ اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا۔ وہ وہمی نہ تھا، کبھی خوفزدہ نہ ہوا تھا بلکہ ڈرنا تو وہ جانتا ہی نہ تھا۔ پھر آج یہ کیا؟ اور اس نے غلط کیا کہا تھا۔ نیلی خراب تو تھی ہی۔

    ’’ہاں تھی۔ لیکن تم؟‘‘ ایک بار پھر وہی ہنستا ہوا چہرہ اندھیرے کے پردے پر تیر آیا۔ اس کی نظر سے بچنے کے لیے ششی نے دوسری طرف دیکھا۔ لیکن اس طرف بھی وہی آنکھیں، وہی مسکراہٹ اور چہرے کے وہی خطوط دکھائی دیے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ صرف وہم تھا۔ اس کا مریض دماغ اور بےچین دل ہی یہ ہیولے پیدا کر رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ ان ہیولوں سے ڈرنے لگا۔ حقیقت میں ڈرنے لگا۔

    ایک بار پھر کوٹ ٹھیک کرکے اس نے قدم آگے بڑھا دیے۔ چلتے چلتے اس نے سوچا کہ کاش اس وقت کوئی اس کے ساتھ ہوتا۔ ساتھ نہ ہوتا تو کم از کم مسافروں کی آمد ورفت تو جاری ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ توہمات اور یہ ہیولے تو نہ ہوتے۔ ابھی وہ چار قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک بار پھر توہمات نے اسے نرغے میں لے لیا۔

    ’’کتنی سردی ہے!‘‘ اس نے اپنے کانتپے دل سے پوچھا۔

    ’’بہت!‘‘ دل نے جواب دیا۔

    مزید کچھ سوچے بغیر وہ لوٹ پڑا۔ پربودھ کے گھر سے وہ زیادہ دور نہ آیا تھا اور اب وہ اپنے دوست کے گھر کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتا جا رہا تھا۔ وہاں بھی اندھیرا تھا۔ انھوں نے دیا بجھا دیا تھا۔ وہ چند ثانیوں تک کھڑا سوچتا رہا کہ آواز دے یا نہ دے۔ نیلی کا دلکش چہرہ جو ا س کے دماغ کے پردوں میں محفوظ تھا ایک بار پھر نظر کے سامنے آ گیا اور ششی نے پکار کر کہا۔، ’’پربودھ! نیمو بہن!‘‘

    اندر سے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز آئی، ’’کون ہے؟‘‘

    ’’میں ہوں۔‘‘

    ’’کون ششی بھائی!‘‘ ساتھ ہی دروازے کے پیچھے پیروں کی چاپ سنائی دی اور چند ثانیوں بعد ہی وہ ایک بار پربودھ کے کمرے میں تھا۔

    ’’کیوں ششی! کیا بات ہے؟ واپس کیوں آ گیا؟‘‘ پربودھ نے پوچھا۔

    اپنے سامنے دو زندہ انسانوں کو دیکھ کر ششی کا خوف رفع ہوگیا۔ اس نے کہا، ’’باہر سردی غضب کی ہے۔ سوچا تمہاری شال لیتا چلوں۔‘‘ وہ آیا تو اس وقت ہی نیمو نے اس کے چہرے پر کی کیفیت دیکھ لی تھی۔ اب اس وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اس نے کہا، ’’میں پھر کہتی ہوں ششی بھائی کہ تم آج کی رات یہیں ٹھہر جاؤ۔ کس غضب کی سردی ہے اور اندھیرا بھی۔‘‘

    ’’نہیں۔ میر اجانا ضروری ہے۔‘‘ ششی خود حیران تھا کہ وہ خوفزدہ کیوں ہو گیا تھا۔ وہ اپنے دن میں بھی اپنے ڈرپوک ہونے کا اقرار کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ نیمو نے وہیں رک جانے پر اصرار کیا۔ پربودھ نے بھی کہا لیکن ششی نے انکار کر دیا۔ شال اپنے جسم پر لپیٹ کر وہ پھر روانہ ہوا۔

    ایک بار پھر اس خاموش اور ناگن کالی رات نے اس کا استقبال کیا۔ لیکن اس دفعہ ششی نے اپنا سارا خوف جھٹک دیا تھا۔ اب وہ خوفزدہ نہ ہوگا، یہ فیصلہ کر کے وہ پربودھ کے گھر کے اجالے میں سے نکل کر باہر رات کے اندھیرے میں آ گیا اور تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔

    خیالات کا سلسلہ بدستور جاری تھا۔ خیالات کے اس بھنور میں نیلی بھی پھنسی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود وہ خوف محسوس نہ کر رہا تھا۔

    ’’میں خائف تھا۔‘‘ وہ دل میں ہنسا۔

    ’’ایسی تو کئی ایک اندھیری راتیں میں پھلانگ گیا ہوں۔ اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟‘‘

    نیلی کے متعلق بھی اب وہ بے دھڑک سوچنے لگا۔

    ’’دوسروں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہی رہا ہو لیکن مجھے تو چاہتی تھی کمبخت۔‘‘ اس خیال سے اس کی مردانگی کو عجیب سا سکون ملا۔

    بستی پیچھے چھوٹ گئی۔ اب وہ علاقہ شروع ہواجسے بستی والے ’’صحرا‘‘ کہتے تھے۔

    ’’تمہیں یاد کرتے کرتے کسی ویران جگہ مر جاؤں تو۔۔۔؟‘‘ یہ ویران مقام آیا تو اسے نیلی کے یہ الفاظ یاد آ گئے۔

    ’’اب تو وہ بچاری مر گئی۔ پتہ نہیں مرتے وقت اس نے مجھے یاد کیا ہوگا کہ نہیں۔‘‘

    ’’لیکن مری بڑی تکلیف سے، امراض کے بادشاہ دق نے اس کا خاتمہ کر دیا، آخری دنوں میں تو میں نے اسے دیکھا تک نہیں۔ کیسی معلوم ہوتی ہوگی اس وقت؟‘‘

    اور اس کے سامنے ایک خوفناک چہرہ آ گیا۔ نیلی کے آخری دن۔ دھنسی ہوئی آنکھیں، ہونٹ خشک اور زرد اور کھنچا ہوا چہرہ۔ ششی لرز اٹھا۔ اس کے منھ سے ایک چیخ نکل گئی اور قدم تھم گئے۔ اس کے پیروں تلے کوئی چیز دب کر گیند کی طرح اچھلی۔ اس کے بھونکنے سے ششی نے سمجھ لیا کہ یہ کتا تھا۔ اس کے باوجود اس کا دل اسی طرح زور زور سے دھڑکتا رہا۔ ایک انجانا خوف ایک بار پھر اس کے دل پر مسلط تھا۔ ایک بار پھر خیالات کے بھوت رقص کرنے لگے۔

    ’’کیسی لگ رہی ہوگی نیلی؟‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا۔

    مدقوق نیلی کا تصور جو ابھی اس نے ایک لمحہ پہلے کیا تھا، اس سے بھی بھیانک تصویر اس کے اس تصور نے اسے دکھائی۔ وہ جیسے اس کے سامنے ہی کھڑی تھی۔ اس دفعہ اس کے دانت درندے کے دانتوں کی طرح لانبے تھے اور وہ ہنس رہی تھی۔ ششی نے آنکھیں بند کرلیں۔ آگے بڑھنے کے لیے اس نے قدم بڑھایا تو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پیر زمین میں گڑ گئے ہوں۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ وہاں کچھ نہ تھا۔ صرف اندھیرا تھا، لیکن یہ اندھیرا اسے پہلے سے زیادہ ہیبت ناک معلوم ہوا۔

    جلدی سے گھر پہنچ جانے کی آرزو میں اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ کچھ دور تک بھاگا بھی اور اسے یوں لگا جیسے کوئی پیچھے بھاگا آ رہا ہے لیکن وہ گردن گھما کر پیچھے دیکھنے کی جرأت نہ کر سکا۔

    بچپن میں مختلف قسم کے خوف اسے سہما کر آنکھیں بند کر دینے پر مجبور کر دیتے تھے لیکن آج وہ یہ ایک انوکھا اور نئی قسم کا خوف محسوس کر رہا تھا جو اسے نہ صرف آنکھیں کھلی رکھنے بلکہ انہیں پھاڑنے پر مجبور کر رہا تھا۔ جلتے پر داغ کی طرح آج ہی اور اسی وقت ہی اسے پربودھ کی کہی ہوئی ایک بات یاد آ گئی۔

    ’’نیلی زندگی میں منگل کو اس قدر پریشان کیا کرتی تھی کہ مجھے حیرت اس پر ہے کہ مرنے کے بعد بھوت بن کر منگل سے چمٹی کیوں نہیں؟‘‘ کیا پتہ نیلی مر کر بھوت ہی بن گئی ہو اور اس کا بھوت اس وقت اسے پریشان کر رہا ہو تو؟ ششی بھوت پریت نہ مانتا تھا۔ یہ سب کچھ اس کا وہم تھا، یہ وہ خود اس وقت بھی تسلیم کر رہا تھا، اس کے باوجود توہمات نے اسے باؤلا بنا دیا تھا۔

    وہ تقریباً بھاگتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا۔ دل دھڑک رہا تھا۔ خدا جانے کیوں اور کس طرح خیالات تھے کہ بس چلے آرہے تھے، تانتا بندھا ہوا تھا۔ گاؤں قریب آرہاتھا لیکن یادیں بپھری ہوئی بھڑوں کی طرح اس کا پیچھا چھوڑتی ہی نہ تھیں۔

    اس شام جب وہ ششی کے پاس آئی تھی تو اس وقت نیلی نے چاہے صرف دکھاوے کی خاطر ہی سہی اسے روکنے کی کتنی کوشش کی تھی، ’’تمہیں منگل کی قسم اگر کچھ کرو تو۔‘‘ اس نے کہا تھا۔ لیکن ششی نے اس کی ایک نہ سنی تھی۔

    ’’اور آج تم ہی مجھے رنڈی کہہ رہے ہو۔‘‘ ششی کو ایسا لگا جیسے نیلی سامنے کھڑی ہنس ہنس کر کہہ رہی ہو، ‘‘اپنے دوست کو دھوکا دیا، احسان فراموش، نمک حرام۔‘‘

    اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی، وہ تقریباً ہانپ رہا تھا۔ اس کے باوجود شال کو اپنے جسم پر لپیٹتا وہ اسی تیز رفتار ی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کے عین سامنے اور کچھ ہی فاصلے پر ایک تناور درخت سا نکل آیا۔ کم سے کم اسے تو ایسا ہی معلوم ہوا۔ وہاں کچھ نہ تھا، یہ تو وہ جانتا تھا۔ تو پھر یہ کہاں سے آ گیا؟ کیا تھا یہ؟ اس نے اوپر نظر کی۔ اس درخت پر نیلی بیٹھی ہوئی تھی۔ تندرست، جوان اور دل لبھا لینے والی۔ وہ اسے بلارہی تھی وہ آنکھیں بند کر کے آگے بڑھا۔ چند قدم آگے بڑھنے کے بعد ہی اسے یہ خیال آیا کہ یہ تو مانیک چوک کا ستون تھا۔ درخت ورخت کچھ نہ تھا۔

    اور اب وہ اپنے گھر تک دوڑ گیا۔

    جب وہ اپنے گھر کے بند کواڑوں کو جھنجھوڑ رہا تھا تو اس وقت اس پر لرزہ طاری تھا۔ ایسی سخت سردی میں بھی اس کا جسم دہک رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اس کی بیوی بولی، ’’ہائے، ہائے، تمہیں تو لرزہ چڑھ آیا ہے۔ پتے کی طرح کانپ رہے ہو۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔ مجھے سوجانے دے۔‘‘ اس نے کہا اور چارپائی پر ڈھے گیا۔

    ششی حقیقت میں ڈر گیا تھا۔ رات بھر وہ کچھ سوتا اور کچھ جاگتا رہا اور اس عالم میں نیلی کے ہی متعلق خیالات اور خواب اسے پریشان کرتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ بےسدھ سا پڑا تھا۔ اس کی بیوی پانی میں کپڑا تر کر کے اس کے ماتھے پر رکھ رہی تھی کیوں کہ وہ بخار میں پھنک رہا تھا۔ رات کو بھی وہ ایک دو دفعہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا تھا۔

    ششی نے آنکھیں کھولیں لیکن پھر فوراً ہی بند کر لیں۔ اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ اپنے ماتھے پر سے جھٹک دیا۔

    ’’اب بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ میری جان لینا چاہتی ہے۔‘‘

    بیوی نے کپڑا پانی میں تر کرکے اس کے ماتھے پر رکھ دیا اور پھر اس کے بالوں میں پیار سے کنگھی کرتے ہوئے کہا، ’’کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ گزشتہ رات سے دیوانوں کی سی حرکتیں کر رہے ہو؟‘‘

    ششی نے پوری طرح سے آنکھیں کھول دیں۔ وہی گھر، وہی محبت کرنے والی بیوی اور وہی سورج کی گرم اور خوشگوار دھوپ۔ یہ سب کچھ اس نے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں اٹکی ہوئی نیلی کی صورت خود بخود غائب ہو گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر اور آنکھیں ملا کر دیکھا۔ نیلی وہاں نہ تھی۔ اس کی زہریلی لیکن دلکش مسکراہٹ نہ تھی۔ یہاں تو وہ تھا، اس کی محبت کرنے والی بیوی تھی اور سردیوں کے نرم گرم سورج کی شعاعیں تھیں۔ اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے بیوی سے پوچھا، ’’تجھے کچھ بھی نظر نہیں آیا؟‘‘

    ’’مجھے تو کیا نظر آ سکتا ہے؟ میرے لیے تو بس تم ہی تم ہو۔ تم ہی نظر آتے ہو۔ تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔

    ششی نے ایک آہ بھر کر کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    جس کو نے میں اسے رات نیلی کھڑی نظر آئی تھی، اس طرف اس نے ڈرتے ڈرتے دیکھا۔ وہاں کچھ نہ تھا سوائے اس حسینہ کی تصویر کے جو شروع سے وہیں لٹک رہی تھی۔ وہ لیٹ گیا اور ایک بار پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔

    بیوی کے ہاتھ کا لمس اس کے تپتے ہوئے جسم کو سکون بخشنے لگا۔

    مأخذ:

    گجراتی کہانیاں (Pg. 129)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے