Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیند کا بچپن

محمد سلیم الرحمٰن

نیند کا بچپن

محمد سلیم الرحمٰن

MORE BYمحمد سلیم الرحمٰن

    وہ گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر چپ چاپ بیٹھا تھا اور اس کے ارد گرد دور دور تک خاموشی۔ اس گھر میں سے کبھی کبھار ہنڈیا میں چمچہ چلنے کی آواز آ جاتی تھی۔ سامنے میدان کے آخر میں ڈوبا ہوا سورج آسمان کو گہرا لال چھوڑ گیا تھا اور بادلوں کی دھجیاں کہیں لال، کہیں بھوری اور کہیں زرد تھیں۔ درخت چھوٹے اور کالے نظر آ رہے تھے اور صبح کی بارش کا رکا ہوا پانی رنگین شیشوں کے ٹکڑوں کی طرح چمک رہا تھا۔۔۔ مگر دور دور تھا۔

    جدھر درخت زیادہ تھے، ادھر گاؤں تھا اور گاؤں کی طرف جانے والی کچی سڑک خالی پڑی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے سورج کے جانے سے دنیا خالی رہ گئی ہو، جیسے اس طوفان میل کے گزر جانے کے بعد، جسے وہ ہر شام گزرتے دیکھنے جایا کرتا تھا، واپس آتی ہوئی خاموش خالی معلوم ہوا کرتی تھی۔ وہ کچھ سوچ نہ رہا تھا، بس آنکھیں کھولے دیکھ رہا تھا اور یہ محسوس کر رہا تھا کہ کہیں کچھ کمی ہے۔ کوئی چیز کھو گئی ہے اور یہ جانتا تھا کہ یہ کھوئی ہوئی چیز جس کا کوئی نام نہ تھا، اس چونی جیسی ہرگز نہ تھی جو پچھلے دنوں اس سے کھو گئی تھی اور وہ پٹا تھا۔

    کہیں گاڑی نہ گزر جائے۔۔۔ وہ اٹھا اور بہت آہستہ آہستہ سڑک کی طرف چل دیا۔ ریل کی پٹری سڑک کے اس طرف تھی۔ راستے میں کئی مکان آتے تھے۔ ایک مکان کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے ایک آدمی کو دیکھا اور یہ سوال ایک دم اس کے ہونٹوں پر آیا، ’’سعید کہاں ہے؟‘‘ آدمی نے کہا، ’’بیٹے، سعید کو بخار آ گیا ہے، اس لیے وہ کھیلنے نہیں آیا اور میاں، تم بھی گھر جاؤ۔ جب دونوں وقت مل رہے ہوں تو اس طرح منھ اٹھائے نہیں پھرتے۔‘‘

    اس نے ’’اچھا‘‘ کہا اور وہیں کھڑا ہوگیا۔ جب وہ آدمی اپنے گھر چلا گیا تو وہ آگے بڑھا۔

    آخری مکان سے ذرا پرے ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔ وہاں سفید کپڑے پہنے ایک لڑکی کھڑی کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس نے کئی دفعہ اسے دیکھا تھا اور اس کا نام بھی جانتا تھا لیکن اس سے بات کرنے کو کبھی دل نہ چاہا تھا۔ اسے پاس سے گزرتے دیکھ کر لڑکی نے کہا، ’’آؤ دیکھو، تالاب میں کون ہے؟‘‘

    اس نے لڑکی کے پاس کھڑے ہوکر دیکھا۔ تالاب میں ان کے عکس پڑ رہے تھے، ’’یہ تو ہماری پرچھائیاں ہیں۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا، ’’دیکھو، میں اپنا ہاتھ ہلاتا ہوں۔۔۔ وہاں بھی ہلےگا، جیسے آئینے میں۔‘‘

    ’’ہائے، میں تو سمجھی تھی کوئی ہے۔‘‘ لڑکی نے بن کر کہا اور آنکھیں مٹکائیں۔ اسے کچھ کراہت سی آئی۔ بغیر سوچے سمجھے ایک سوال اس کے ذہن میں ابھرا، ’’آج تمہارے یہاں کیا پکا ہے؟‘‘ وہ بولا۔

    ’’آلو گوشت۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا، ’’آلو کیسی خراب چیز ہیں۔ مجھے آلوؤں سے نفرت ہے۔‘‘

    ’’آلو گوشت میں اچھے لگتے ہیں۔ مٹر کے ساتھ بھی۔ ہیں نا؟‘‘

    وہ کچھ دیر چپ رہے۔

    ‘‘ تمھارا نام جھپو ہے نا؟ تم اس گھر میں رہتے ہو جس میں املی ہے؟‘‘ وہ چپ رہا۔ اتنے میں کسی نے لڑکی کو آواز دی۔ وہ چلی گئی۔

    ہوا چلنے سے جھاڑیاں سرسرا رہی تھیں۔ گاڑی کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ گھاس میں جگہ جگہ پانی چمک رہا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے اس کھمبے تک پہنچا جہاں کھڑے ہوکر وہ گاڑی دیکھا کرتا تھا۔ اس کے جوتے اور پائنچے بھیگ گئے تھے۔ اذان آخری آواز تھی جو اس سکوت میں گونجی تھی، لیکن وہ بھی زمین سے بہت دور اوپرا ٓسمان میں تھراتی معلوم ہوئی تھی، جہاں کوے سست رفتاری سے مغرب کی طرف اڑے جا رہے تھے۔

    اندھیرا گہرا اور راستے غیر واضح ہو گئے اور مکان دور چلے گئے۔ آسمان پر کہیں کہیں ستارے ٹمٹانے لگے۔ کھڑے کھڑے اسے ایک دو دفعہ یوں لگا جیسے سو گیا ہو۔ اس نے نیچے جھک کر دو کنکر اٹھائے، ایک سیدھے ہاتھ سے، یک الٹے ہاتھ سے۔ وہ مٹھیوں میں ٹھنڈے اور چکنے اور گول تھے، آنکھوں میں آتی نیند کی طرح۔ اس نے کنکروں کو آنکھوں کے قریب لاکر دیکھا۔

    گاڑی کا وقت پر نہ آنا کوئی نئی بات نہ تھی۔ کبھی تو وہ مایوس ہوکر گھر پہنچ جاتا تب گاڑی کے گزرنے کی آواز آتی اور وہ اسے دیکھنے کی بجائے سننے پر اکتفا کرتا۔ کبھی گاڑی اس وقت آتی جب وہ پٹری سے خاصی دور جا چکا ہوتا۔ اتنی دور سے گاڑی دیکھنے سے اس کے مزے میں کچھ فرق آ جاتا ہے۔ وہ گاڑی کو بہت پاس سے گزارنا چاہتا تھا۔ ’’آج پھر گاڑی لیٹ گئی ہے۔‘‘ اس نے دل میں کہا۔ اس نے بڑوں کو ’’گاڑی لیٹ ہوگئی‘‘ کہتے سنا تھا لیکن یہ اسے مہمل معلوم ہوتا تھا۔ اسے یہ افسوس تھا کہ اس نے گاڑی کو لیٹے ہوئے کبھی نہ دیکھا تھا۔

    بدمزہ ہوکر وہ چل دیا۔ اس نے کنکر وہیں پھینک دیے۔ ہر دس قدم بعد وہ احتیاطاً پیچھے مڑ کر دیکھتا۔ اس کے پائنچے اور جوتے کیچڑ میں سن گئے۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے وہ رکا اور سامنے کھڑے ہوئے برگد کو دیکھنے لگا۔ اس نے سوچا، ’’برگد سو رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ درخت شام ہوتے ہی سو جاتے ہیں۔ کچھ کام تو کرتے نہیں جو تھک ہی جاتے ہوں۔ ہاں، ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں اور سوتے ہوئے بھی کھڑے ہی رہتے ہیں۔‘‘ یہ بات اسے عجیب تر معلوم ہوئی۔ کھڑے کھڑے سو جانا! کھڑے کھڑے سوئے اس نے کسی کو نہ دیکھا تھا۔ لوگوں کو ہمیشہ لیٹے یا بیٹھے سوتے دیکھا تھا۔ البتہ ایک اس کی دادی ایسی تھی جس کے متعلق اسے کبھی صحیح اندازہ ہی نہ ہوتا تھا کہ وہ سو رہی ہے یا جاگ رہی ہے۔

    گھر میں داخل ہوکر اس نے سب سے پہلے نل پر جوتے اور پاؤں دھوئے اور پائنچے دھونے کی ناکام کوشش کی۔ پھر اس نے بغیر کسی وجہ کے املی کے تنے کو تھپتھپایا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا باورچی خانے میں پہنچا۔ نوکرانی جھکی ہوئی، چولھے میں پھونکیں مار رہی تھی۔ ماں پیاز کاٹنے میں مشغول تھی۔

    ’’ماں، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

    ماں نے حسب معمول ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’تو میں کیا کروں۔ ایک گھنٹے بعد ملےگا کھانا، آیا سمجھ میں۔ ا ور جو صبر نہیں ہوتا تو مجھے کھا لے۔‘‘ اس کے برعکس نوکرانی نے اس کے ساتھ غیرمعمولی نرمی برتی، کہنے لگی، ’’بیٹا ذرا صبر کرو۔ کم بخت لکڑیاں گیلی ہیں، سوئی سوئی آگ جل رہی ہے۔ دال دم آ جائے تو روٹی ڈال دوں۔ آ جا، بیٹا، یہیں بیٹھ جا۔‘‘

    وہ ایک موڑھی گھسیٹ کر نوکرانی کے پاس بیٹھ گیا اور فوراً یہ سوال اس کے ہونٹوں پر آیا، ‘‘ کیا درخت رات کو سچ مچ سو جاتے ہیں؟‘‘ وہ اس طرح باتیں کرنے کا عادی ہو گیا تھا۔ بغیر کسی خواہش یا کوشش کے وہ کچھ نہ کچھ کہہ دیا کرتا تھا۔

    ‘‘ہاں، رات کوانھیں نہیں چھیڑتے۔‘‘ نوکرانی نے دوپٹے سے آنکھیں پونچھتے ہوئے جواب دیا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ رو رہی ہو۔ پھر اس نے اگلی بات پوچھی جو اس کے ذہن میں کچھ دیر سے اٹکی ہوئی تھی، ’’لیکن کھڑے کھڑے سو جاتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، اللہ کی قدرت ہے۔‘‘

    ’’کبھی کسی کو دیکھا تو نہیں کھڑے کھڑے سوتے؟‘‘ اس نے فوراً اعتراض کیا۔ اتنے میں ماں جو تنی دیر سے چپ تھی، آواز کو ذرا کرخت بناکر تیزی سے بولی، ’’کیا بحث کیے جا رہا ہے۔ اپنی ہی صورت دیکھ لی ہوتی آئینے میں۔ پوستی کہیں کے! تو تو سارے ہی دن سویا ہوا لگتا ہے۔ آنکھوں میں کیچڑ بھری ہوئی، جب دیکھو جمائیاں لے رہا ے۔ کسی چیز کا ہوش نہیں۔ کھڑا ہے تو کھڑا ہے۔ بیٹھا ہے تو بیٹھا ہے۔ بس تجھے تو اس وقت ہوش آتا ہے جب بھوک لگتی ہے۔ ہوش آیا اور جھٹ باورچی خانے میں۔‘‘

    ماں جب چپ ہو گئی تو نوکرانی نے کہنا شروع کیا، ’’پیڑ تو خیر کھڑے کھڑے سو جاتے ہیں، میں تو آدمیوں کی بات کہتی ہوں، سوتے میں چلتے پھرتے رہتے ہیں۔ بیگم صاحب، ہمارے ماموں تھے ایک، انھیں یہی مرض تھا، سوتے سوتے چھتوں پر پھرتے رہتے۔‘‘

    ’’اچھا، یہ قصے کہانیاں پھر کہہ لینا۔ دال ذرا دیکھو۔‘‘ باورچی خانے میں خاموشی چھا گئی۔ نوکرانی کی باتوں سے اسے ایک فائدہ ہوا۔ اس نے دادی کا معمہ اپنے طور پر حل کر لیا اور اس نتیجے پر پہنچا، دادی بھی سب کام سوتے سوتے ہی کرتی ہے، تبھی تو سونے جاگنے کا فرق پتا نہیں چلتا۔ سوتے میں بولتے ہوئے تو اس نے اپنے ابا کو بھی سنا تھا۔

    خاموشی سے اکتاکر وہ باورچی خانے سے نکل آیا۔ اب کدھر جانا چاہئے۔ اس نے غور کیا۔ بڑے بھائی کے پاس اس کا جانا منع تھا۔ ان کی پڑھائی میں ہرج ہوتا تھا۔ آج سے پہلے اس نے کئی دفعہ دوپہر کو چوری چھپے میز پر کرسی رکھ کر دروازے کے بالکل اوپر ایک ذرا سی دراڑ سے یہ منظر دیکھا تھا کہ کتاب کھلی ہوئی سامنے ہے اور بھائی جان پڑے سو رہے ہیں اور وہ ان کی شکایت کرتے کرتے رہ گیا تھا، لیکن آج اس کا یقین متزلزل ہو چکا تھا۔ شاید وہ سوتے ہوئے ہی پڑھ رہے ہوں۔ یہ بھی تو ممکن ہے۔ کم از کم سوتے ہوئے کتاب پڑھنا، سوتے ہوئے چھتوں اور منڈیروں پر چلنے سے بہت آسان تھا۔ چھتوں پر چلنے والے آدمی کا تصور کرتے ہی اس کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔

    ابا باہر بیٹھک میں کسی سے باتیں کر رہے تھے۔ بیٹھک میں بھی اس کی آمد کو پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھا جاتا تھا۔ کچھ دیر وہ صحن میں متذبذب کھڑا رہا۔ پھر اس نے بڑی بہن کے کمرے کا رخ کیا۔

    وہ روزانہ کی طرح پڑوس کی دو لڑکیوں کے ساتھ سر جوڑے کھسر پھسر کر رہی تھی۔ اس کے کمرے میں قدم رکھتے ہی خاموشی طاری ہوگئی۔ تینوں چہرے اس طرح مڑے جیسے وہ ان پر کوئی ظلم کرنے آیا ہو۔ بہن نے تیوری چڑھا کر پوچھا، ’’کیوں کیا ہے؟‘‘ اس نے اسرار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں آہستہ آہستہ، گویا لفظوں کو چبا چباکر کہا، ’’دیکھو، آپا، میں سو رہا ہوں۔‘‘ پڑوس والی لڑکیاں ایک دوسرے کی طرف آنکھیں پھیلاکر دیکھنے کے بعد ہنسنے لگیں۔

    ’’کیا بکواس ہے؟ تو سویا جاگا برابر ہے!‘‘

    ’’ہاں، ٹھیک ہے اور آپا تم بھی سو رہی ہو۔ بھائی جان بھی اور بشیرن کا ماموں تو سوتے سوتے چھتوں پر چلتا ہے۔ پتا ہے؟‘‘

    ’’نکل باہر، جھپو کے بچے۔ نہیں چانٹا دوں گی۔‘‘ وہ جلدی سے باہر آ گیا۔ پچھلے تجربات کی بنا پر اسے معلوم تھا کہ وہ کچھ کہے یا نہ کہے، کمرے سے نکالا جانا اس کا مقدر ہے۔ ہر روز وہ کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی وقت نکالا جاتا تھا۔ یہ معمول تھا۔

    صحن میں کھڑے رہنے یا بے مدعا ادھر ادھر گھومنے پر اس نے اپنی پرانی نشست پر جا بیٹھنے کو ترجیح دی۔ وہ دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھ گیا۔ اب سامنے بالکل اندھیرا تھا۔ بادل پھر آ رہے تھے۔ گاؤں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔ برگد پر کبھی کبھی کوئی پرندہ چہچہا اٹھتا تھا۔

    یکایک ایک خیال اس کے ذہن میں چہچہایا۔ سوال یہ ہے اس نے سوچا، کہ ہم اصل میں جاگتے کس وقت ہیں اور جاگنے پر ہمیں کیا نظر آئےگا۔ لیکن یہ سوال اسے عجیب اور مہمل سا بھی معلوم ہوا جیسے کسی ایسی گاڑی کا انتظار جو لیٹ ہوگئی ہو۔ اس نے اپنے آپ کو اطمینان دلاتے ہوئے دل میں کہا، اماں باورچی خانے سے ٹلیں تو میں نوکرانی سے یہ بات پوچھوں۔ اسے پتا ہے۔ پتا تو سب کو ہے، لیکن دوسرے مجھے بتانا نہیں چاہتے۔ شاید وہ مجھ سے بات چھپاتے ہیں کہ وہ بھی میری طرح سوئے ہوئے ہیں۔ اگر وہ یہ نہ چھپائیں تو مجھے ڈانٹیں کیسے۔

    اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے ہاتھوں میں ٹھنڈے، گول، چکنے کنکر ہوں۔ اس نے حیران ہوکر سوچا کہ کنکر تو میں نے پھینک دیے تھے۔ اس کا سر ایک طرف کو جھکنے لگا تھا۔ اس نے مٹھیاں کھولیں تو ان میں سے دوکوے نکل کر اڑ گئے اور اب کوے ہر طرف سے اڑ اڑ کر آنے لگے اور شاخیں ہی شاخیں تھیں، جن پر کوے آ آکر ٹول رہے تھے اور آدمی لٹک رہے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں اور وہ مینڈکوں کی طرح بول رہے تھے اور کووّں کے بوجھ سے اس کا سر بھاری ہو گیا تھا اور وہ کووّں کو اڑانے کے لیے ہاتھ ہلانے کی کوشش کرنے لگا، لیکن اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔

    جب باپ نے عشا کی نماز پڑھنے جانے کے لیے دروازہ کھولا تو اسے چوکھٹ پر دیکھا اور سہج سے اٹھاکر اندر لے گیا اور بستر پر لٹا دیا اور قدرے شکایت آمیز لہجے میں بولا، ’’آج یہ پھر چوکھٹ پر بیٹھا بیٹھا سو گیا۔‘‘ ماں نے منھ بناکر کہا، ’’اور کیا، اس کے لیے تو ساری کائنات سونے کے لیے بنی ہے۔‘‘ اور جمائی لینے لگی۔

    مأخذ:

    شب خون (Pg. 15)

      • ناشر: اسرار کریمی پریس، الہ آباد
      • سن اشاعت: 1973

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے