Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اوس کے موتی

اقبال حسن آزاد

اوس کے موتی

اقبال حسن آزاد

MORE BYاقبال حسن آزاد

    ماسٹر صاحب نے کال بیل دبائی۔ دروازہ کھلا اور وہ اپنی مخصوص جگہ پر جا کر بیٹھ گئے۔سجا سجایا ڈرائنگ روم، پرسکون ماحول اور روح میں تازگی پیدا کرنے والی خنکی۔ باہر کی گرم ہوا جیسے کہیں گم ہو گئی تھی۔ انہوں نے جیب سے رومال نکالا اور پیشانی پر آئے پسینے کے قطروں کوخشک کیا۔ ماسٹر صاحب کی تھکن چند لمحوں ہی میں کافور ہوگئی۔ پھر انہوں نے ذرا بلند آواز میں پکارا۔

    ’’ندیم!‘‘

    ’’آیا ماسٹر صاحب۔‘‘ اور پھر اگلے ہی لمحے ندیم ہاتھوں میں کاپیاں اور کتابیں سنبھالے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کی معصوم آنکھیں ایک نا معلوم جوش اور جذبے سے چمک رہی تھیں اور اس لرزیدہ ہونٹ کچھ کہنے کو بیتاب نظر آ رہے تھے۔

    ’’ماسٹرصاحب! ماسٹر صاحب!! معلوم ہے آج کون جیتا؟‘‘

    ماسٹر صاحب نے اس کے سرخ و سپید گال کی جانب دیکھتے ہوئے دھیرے سے پوچھا۔

    ’’کون؟‘‘

    ’’انڈیا!‘‘ ننھے ندیم کی آواز میں چڑیوں کی چہکار شامل تھی۔

    ’’اچھا!‘‘

    ’’ہاں ماسٹر صاحب! بہت مزا آیا اور جانتے ہیں ماسٹرصاحب! آج ڈش کٹا ہوا تھا۔‘‘

    ’’تو؟‘‘

    ’’تو کیا... میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا۔ بس www.stickcricket.com پر کلک کیا اور سب کچھ سامنے آ گیا۔ پھر میں نے Live score پر کلک کیا اور پورا اسکور آ گیا۔‘‘

    ’’کس نے سکھایا یہ سب؟‘‘

    ’’بھیا نے اور کس نے۔‘‘

    ندیم کا بڑا بھائی سرفراز اس سال پلس ٹو کا اکزام دے رہا تھا۔

    ’’اور معلوم ہے ماسٹر صاحب! جب بھیا پلس ٹو کر لیں گے تو پاپا ان کے لیے Lap Top خریدیں گے۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘

    ’’ہاں! لیکن ممی مجھے کمپیوٹر کھولنے سے منع کرتی ہیں ۔کیوں ماسٹر صاحب ؟‘‘

    ’’بیٹے! ابھی تمہارے پڑھنے لکھنے کا وقت ہے۔کمپیوٹر چلانے کے لیے تو ساری عمر پڑی ہے۔‘‘ انہوں نے کہنا چاہا مگر کچھ سوچ کر چپ رہے۔ندیم مسلسل بولے جا رہا تھا۔

    ’’ماسٹر صاحب! جانتے ہیں...؟‘‘ بولتے بولتے اس کی سانسیں تیز تیز چلنے لگی تھیں۔ ماسٹر صاحب صبر و سکون کے ساتھ اس کی باتیں سنتے رہے اور مسکراتے رہے۔ پھر انہوں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔

    ’’پاپا کب آئیں گے؟‘‘

    ’’پرسوں... پرسوں سنیچر ہے نا!‘‘

    انہیں یاد آیا۔ ندیم کے پاپا سنیچر کے سنیچر آیا کرتے ہیں۔ بڑے افسر ہیں اور کسی دوسرے شہر میں پوسٹید ہیں۔ ماسٹر ساحب سے ان کی بس دو ایک بار علیک سلیک ہوئی تھی۔ سارے معاملات میم صاحب ہی deal کرتی تھیں... اور وہ بھی اپنی خادمہ کے توسط سے۔ ماسٹر صاحب نے ندیم سے کہا۔

    ’’پاپا آئیں تو ان سے کہنا کہ ماسٹر صاحب نے تنخواہ بڑھانے کے لیے کہا ہے۔‘‘

    ’’جی بہت اچھا! کہہ دوں گا۔‘‘

    ’’کیا کہوگے؟‘‘ ماسٹر صاحب نے گویا اسے سبق یاد کراتے ہوئے کہا۔

    ’’وہی جو آپ نے کہا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے اب اپنا سبق یاد کرو۔‘‘ سنیچر کو بھی وہ حسب معمول ندیم کو پڑھانے گئے۔

    ’’پاپا آئے کیا؟‘‘ماسٹر صاحب نے پہنچتے ہی سوال کیا۔

    ’’ہاں! تین بجے آئے۔ابھی سو رہے ہیں۔‘‘

    ’’یاد ہے نا... میں نے کیا کہا ہے؟‘‘

    ’’جی ماسٹر صاحب! یاد ہے۔‘‘

    ’’اچھا! اب کتاب کھولو۔‘‘

    دوسرے روز اتوار تھا یعنی ٹیوشن کی چھٹی۔ سموار کو انہوں نے ندیم سے پوچھا۔

    ’’پاپا چلے گئے کیا؟‘‘

    ’’ہاں! وہ تو کل شام ہی کو چلے گئے۔‘‘

    ’’تم نے اپنے پاپا سے کہا؟‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’وہی پیسے والی بات۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کیا کہا انہوں نے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘

    ماسٹر صاحب مایوس ہو گئے۔ کئی برسوں سے وہ اسی تنخواہ پر پڑھاتے آ رہے تھے۔ اگر اس میں کچھ اضافہ ہو جاتا تو...‘‘

    ندیم نے پھر کرکٹ کا تذکرہ چھیڑ دیا تھا۔ ماسٹر صاحب نے اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

    ’’بیٹے! کھیل کود کی باتیں زیادہ مت کیا کیجئے۔پڑھنے لکھنے پر دھیان دیجئے۔‘‘

    پھر وہ ندیم کو پڑھاتے رہے اور سوچتے رہے۔وہ بھی کیا دن تھے۔ پڑھ لکھ کر نواب بننے کی باتیں اور کھیل کود کی خرابیاں۔ اب تو کھیل کود نے گویا تعلیم کو پیچھے... بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج کھلاڑی کڑوڑوں میں نیلام ہو رہے ہیں اور ایک وہ ہیں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی دو دو سو کی ٹیوشن پڑھاتے پھر رہے ہیں۔ پتہ نہیں کھوٹ کس میں تھا... ان کی تعلیم میں یا ان کی قسمت میں؟ اب تو ایسے لوگ بھی سرکاری ٹیچر بن رہے ہیں جنہیں اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا۔ کامیابی کی اس ریس میں وہ کہاں پچھڑے انہیں یاد نہیں۔ البتہ انہیں اپنا جھونپڑی نما مکان یاد تھا۔ کھونٹی سے لالٹین لٹک رہی ہے۔ اماں بھیگی لکڑیاں پھونک رہی ہیں۔ آنکھوں میں دھواں بھر رہا ہے اور آنکھوں کا پانی بہہ بہہ کر گالوں کو تر کر رہا ہے۔ ابا مسجد گئے ہیں... اذان دینے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آؤ نماز کی طرف آؤ۔ آؤ نماز کی طرف آؤ۔ آؤ سلامتی کی طرف آؤ۔ آؤ سلامتی کی طرف آؤ۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب سے بڑے اللہ میاں کی جانب پکارنے والے کی تنخواہ بہت ہی چھوٹی تھی... اتنی چھوٹی کہ وہ اس سے اپنے تین نفوس والے مختصر سے کنبے کی پرورش بھی نہیں کر سکتے تھے۔

    انہیں یاد آیا۔ انہیں بھوک لگ رہی تھی۔ سات برس کے بچے کی قوت برداشت یوں بھی کم ہوتی ہے۔ مگر جب تک ابا نہیں آ جائیں گے اماں کھانا نہیں دیں گی۔ ابا کہتے ہیں... بیٹا صبر کرو۔ صبر بڑی چیز ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور انہوں نے صبر کی تعلیم کو گانٹھ میں باندھ کر رکھ لیا تھا۔ تبھی توجب ایک دن ابا اذان دیتے دیتے کھانسنے لگے تھے اور کھانستے کھانستے گر گئے تھے اور لوگ انہیں چارپائی پر لاد کر گھر لائے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی صبر کیا تھا اور جب اسی طرح کھانستے کھانستے ایک دن ابا گذر گئے تھے تب بھی انہوں نے صبر ہی کیا۔ اماں دوسروں کے گھروں کے برتن دھونے لگیں اور وہ حسب معمول اسکول جانے لگے۔ اماں کی شکل میں ابا اپنا سایہ چھوڑ گئے تھے۔

    ’’بیٹا کبھی چوری مت کرنا۔کبھی جھوٹ مت بولنا۔ کبھی کسی کے آگے ہاتھ مت پھیلانا۔‘‘ اماں دن رات نصیحتیں کیا کرتیں۔ اماں برتن دھوتی

    رہیں اور وہ پڑھتے رہے اور جب انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اماں نے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ اب وہ بالکل تنہا اور تہی دست تھے اور اگر ان کے پاس کچھ تھا مرحوم والدین کی دعائیں جو قبولیت کے انتظار میں نہ جانے کب سے آسمانوں میں رکی پڑی تھیں۔ انہوں صبر کیا، شکر کیا، ماں باپ کی نصیحتوں کو یاد رکھا اور ٹیوشن کر کے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب وہی کام آرہا تھا۔ سوچا تھا کہ گریجوایشن کرنے کے بعد کوئی نوکری مل جائےگی توگھر گھر جا کر ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ ختم ہو جائےگا مگر شاید وقت ان کے حق میں نہیں تھا اور وقت ہی خدا ہے۔ آخر یہ وقت ہی تو سب کچھ ہے۔ یہی ہنساتا ہے، یہی رلاتا ہے۔ کامیابی، ناکامی سب اسی کے اختیار میں ہے۔ ہر کسی کو اس کا انتظار رہتا ہے مگر یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا اور پھر نوکری کے انتظار میں ان کی عمر آگے بڑھتی گئی کیونکہ عمر بھی کسی کا انتظار نہیں کرتی اور اب ان کی عمر پچاس سے تجاوز کر چکی تھی۔ انہوں نے اپنی عمر کا کبھی حساب نہیں رکھا۔ البتہ وقت نے ان کے چہرے پر اپنی مہر لگا دی تھی۔ بال کھچڑی ہو چکے تھے۔ آنکھوں پر موٹے فریم کی عینک چڑھ آئی تھی۔ ہاتھوں کی پشت کی نسیں کیچوؤں کی مانند نظر آتی تھیں اور سائکل چلاتے چلاتے گھٹنوں میں درد رہنے لگا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے نحیف و نزار جسم کے اندر اور کون کون سی بیماریاں پل رہی تھیں اس کا اندازہ انہیں نہیں تھا۔ ہاں اپنے بچوں کی بڑھتی عمر کا انہیں خوب اندازہ تھا۔ بڑی بیٹی رابعہ بیس سال کی ہو چکی تھی۔ چھوٹی بیٹی جویریہ پندرہ سال کی تھی اور بیٹا شمیم سات سال کا۔ بالکل ندیم کا ہم عمر۔ مگر کس قدر فرق ہے دونوں میں... ایک عمدہ کپڑوں میں ملبوس، زندگی سے بھرپور، بھرے بھرے سرخ و سپید گال، ہیرے کی کنی سی چمکتی چنچل اور شوخ آنکھیں۔ دوسرا بوسیدہ کپڑوں میں لپٹا، پچکے ہوئے گال، بجھی بجھی آنکھیں۔ کبھی کبھی انہیں لگتا جیسے پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ پیسہ زندگی کی حرارت ہے، پیسہ دلوں کی روشنی ہے اور پیسہ ہے تو ہر خوشی ہے۔ مگر جب کسی مالدار آدمی کا جنازہ دیکھتے تو خیال آتا کہ سب کچھ مٹی ہے۔ انہیں یاد آیا... ان کا بیٹا کئی مہینوں سے ویڈیو گیم کی فرمائش کر رہا تھا۔ اس نے شاید اپنے کسی دوست کے پاس دیکھا تھا۔ لیکن یہ کھلونا تو بہت مہنگا تھا... سو روپئے کا۔ انہوں نے سمجھا بجھا کر اسے چپ کرا دیا تھا مگر خود کو نہیں سمجھا پائے تھے وہ۔وہ اپنے بچے کی ایک چھوٹی سی خواہش پوری کرنے سے قاصر تھے۔ کوئی دوسرا باپ ہوتا تو غصے میں پیٹ دیتا۔ مگر ماسٹر صاحب ٹھہرے سدا کے نرم مزاج... انہوں نے کبھی کسی بچے کو ڈانٹاتک نہیں۔ کبھی اونچی آواز میں کسی سے کوئی بات نہیں کی اور ویسے بھی کسی سے بات کرنے کی ان کے پاس فرصت ہی کہاں تھی۔صبح ہوتی اور وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی سائکل لے کر نکل کھڑے ہوتے۔ رات کو تھکے ماندے آتے اور سوچتے کہ چلو زندگی ایک اور دن تمام ہوا۔

    ندیم نے اپنا سبق شروع کر دیا تھا۔ اسی دوران اندر سے خادمہ ہاتھوں میں ٹرے لیے ہوئے آئی۔ چینی کی پلیٹ میں چند میٹھے اور نمکین بسکٹ تھے اور ایک کپ چائے... اور ٹرے کے ایک کونے میں سفید رنگ کا لفافہ رکھا تھا۔ ماسٹرصاحب نے لفافہ اٹھا کر خاموشی کے ساتھ اپنی جیب میں رکھا اور چائے میں بسکٹ بھگو بھگو کر کھانے لگے۔

    پڑھائی ختم ہوئی تو وہ اٹھے۔ برآمدے سے اپنی سائکل اُٹھائی اور سڑک پر نکل پڑے۔ شام ہو چلی تھی۔پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ فضائے بسیط میں محو پرواز تھے اور ان سب کے رخ اپنے اپنے آشیانوں کی جانب تھے مگر انہیں ابھی دو جگہوں پر اور جانا تھا۔ پھر کل کے لیے سبزیاں خریدنی تھیں اور کوئی نو بجے تک گھر پہنچنا تھا۔ انہوں نے وقت مقررہ پر دونوں جگہوں پر اپنی ڈیوٹی نبھائی اور پھر مارکیٹ کی جانب ہو لیے۔ سبزیاں خرید چکنے کے بعد جب انہوں نے جیب سے لفافہ نکالا تو وہ بیک وقت حیرت اور مسرت دونوں سے دوچار ہوئے۔

    لفافے میں دو کی جگہ سو سو کے تین نوٹ تھے۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ ندیم کے پاپا نے ان کی درخواست منظور کر لی۔ ذرا سی دیر کے لیے انہیں اپنے جسم میں خون کی روانی تیز ہوتی ہوئی معلوم ہوئی۔ پھر انہوں نے خود کو سنبھالا اور سبزیاں تھیلے میں ڈال کر گھر کی جانب مڑے۔ بازار ابھی بند نہیں ہوا تھا۔ چہار سو روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ کھلونوں کی دکان پر پہنچے تو ان کے قدم خود بخود رک گئے۔

    ’’کیوں نہ شمیم کے لیے ویڈیو گیم خرید لیا جائے۔ کتنا خوش ہوگا وہ۔ اس کے پچکے ہوئے گال فرط مسرت سے سرخ ہو جائیں گے اور اس کی آنکھیں بلور کی مانند چمکنے لگیں گی اور جب وہ اس کھلونے کو اپنے دوستوں کو دکھائےگا تو اس کے لہجے سے کیسا فخر و انبساط پھوٹےگا۔‘‘ مگر پھٹی ہوئی مختصر سی چادر نے ان کے ارادے کو متزلزل کر دیا۔

    ’’نہیں! ایک بیکار سے کھلونے کے لیے سو روپے... نہیں نہیں... یہ تو اصراف بےجا ہے۔ گھر کی کتنی ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہیں۔

    انہوں نے سائکل آگے بڑھادی ۔لیکن پھر فوراً ہی بیٹے کا معصوم چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔

    ’’ کیا ہوا اگر سو روپے بیٹے کی خوشی کے لیے خرچ کر دیے۔ لوگ تو اولاد کے لیے نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں اور پھر یہ تو اضافی آمدنی تھی۔ بالکل غیر متوقع۔اگلے ماہ سے دوسری ضرورتوں پر دھیان دیا جائےگا۔ انہوں نے سائکل فٹ پاتھ کے کنارے لگا دی اور دکان میں داخل ہونے کے لیے قدم بڑھائے۔ پھر اچانک انہیں یاد آیا۔ رابعہ کی اوڑھنی پھٹ گئی ہے۔ ایک دو بار ان کی بیوی نے دبی زبان سے کہا بھی تھا۔ نہیں رابعہ کی اوڑھنی زیادی ضروری ہے اور وہ دکان کے دروازے سے لوٹ پڑے۔

    رات کو بستر پر جانے سے قبل انہوں نے اپنی بیوی سے کہا۔

    ’’ندیم کے یہاں تو تنخواہ بڑھ گئی ہے۔ اللہ نے رابعہ کی اوڑھنی کا انتظام کر دیا ہے۔ یہ لو سو روپے۔‘‘

    بیوی نے کوئی جواب نہ دیا۔لیکن کمرے میں پھیلی گہری تاریکی کے باوجود انہیں لگا جیسے اس کا مرجھایا ہوا چہرہ ایک پل کو چمک اٹھا ہو۔

    دوسرے روز حسب معمو ل شام چار بجے وہ ندیم کے گھر پہنچے۔ دروازہ خادمہ نے کھولا اور انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے اندر چلی گئی۔ ماسٹر صاحب نے اس کی نظروں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئے اور آواز لگائی۔

    ’’ندیم!‘‘

    اندر سے ایک دھیمی آواز آئی۔

    ’’ماسٹر صاحب سے پوچھنا... سمجھے؟‘‘

    ’’ہوں!‘‘ اور پھر ہاتھوں میں کتابیں اور کاپیاں تھامے ندیم ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ آج وہ کچھ خاموش خاموش سا دکھائی دے رہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ ندیم کے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی۔ ماسٹر صاحب کو شبہہ ہوا۔ کوئی بات ہے ضرور۔ انہوں نے دوبارہ زور دیتے ہوئے پوچھا۔

    ’’کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘

    ’’نہیں.....!‘‘ ندیم کی زبان لڑکھڑا گئی۔ اچانک ڈرائنگ روم کے پردے میں جنبش ہوئی۔

    ’’شرما کیوں رہے ہو؟ پوچھتے کیوں نہیں؟‘‘ ندیم نے اپنے دونوں ہونٹ سختی سے بند کر لیے۔ ماسٹر صاحب کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کبھی وہ ندیم کی جانب دیکھتے اور کبھی دروازے کی طرف ۔اسی دوران ڈرائنگ روم کا پردہ ہٹا کر خادمہ اندر داخل ہوئی اور اس نے بغیر کسی تمہید کے کہنا شروع کیا۔

    ’’ماسٹر صاحب! میم صاحب پوچھ رہی ہیں کہ کل آپ کو جو لفافہ دیا گیا تھا اس میں سو روپئے زیادہ تھے کیا؟‘‘

    ماسٹر صاحب ایک لمحے کو سٹپٹا سے گئے۔پہلے تو ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دیں۔ پھر وہ خود ہی پوچھ بیٹھے۔

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’مطلب ای ماسٹر صاحب کہ کل جو میم صاحب نے ندیم بابو کی فیس لفافے میں دال کر بھیجی تھی اس میں غلطی سے دو کی جگہ سو سو کے تین نوٹ چلے گئے تھے۔‘‘

    ’’غلطی...؟ ماسٹر صاحب سکتے میں آ گئے اور انہوں نے سمجھا کہ... ان کی نگاہوں میں رابعہ کی اوڑھنی گھوم گئی۔ نئی اوڑھنی میں رابعہ کتنی پیاری لگے گی۔ کہہ دو میاں کہ نہیں جی نہیں! بس سو سو کے دو ہی نوٹ تھے لفافے میں۔ کیا ثبوت ہے؟ایں۔‘‘

    مگر اچانک نہ جانے کہاں سے ابا سامنے آ کھڑے ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے اماں۔ ان کی زبان سے دھیرے سے نکلا۔

    ’’ہاں تھے تو... مگر میں سمجھا کہ...‘‘ اور ان کی زبان سے ادا ہونے والا جملہ یوں درمیان سے ٹوٹ گیا جیسے کسی کی امید ٹوٹ جاتی ہے۔ خادمہ کہہ رہی تھی۔

    ’’میم صاحب سو روپے واپس مانگ رہی ہیں۔‘‘

    ان کے حلق میں جیسے کوئی نوالہ سا اٹک ہوا۔ انہوں نے تھوک جگلتے ہوئے کچھ کہنا چاہا لیکن ان کی زبان نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

    اوس کے موتیوں کی کیا حقیقت؟ ذرا سی دھوپ لگی نہیں کہ۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے