Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پائل

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    آئی اے ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کنول شرما برگیڈیر عثمانی انکل کے ایک دوست کے ہاں گھومنے جاتا ہے۔ وہاں اسے پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیٹی کے رشتے کے لیے اس کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔ خاندان بہت ہی مہذب اور تعلیم یافتہ ہے۔ لڑکی بھی خوبصورت اور باسلیقہ ہے، اس کے باوجود وہ شادی سے انکار کر دیتا ہے۔

    کچے ریشم کی کریم کلر چادر سے ڈھکا اور ڈنلپ کے گدوں سے آراستہ بیڈروم انتہائی آرام دہ تھا۔ پھر بھی نیند کنول کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے برابر لگی شیلف سے ایک کتاب اٹھائی اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اس میں بھی دل نہیں لگا تو اس نے ہاتھ بڑھاکر پیتل کا بڑا سا منقش لیمپ آف کیا اور سرہانے لٹکا سوئچ دباکر نائٹ بلب آن کردیا۔ بڑی خواب آگیں سی نیلی روشنی کمرے میں بکھر گئی۔ اس نے آنکھیں موندلیں۔ بک شیلف پر انتہائی نفیس گلدان میں زرد رنگ کے جو گلاب بھرے ہوئے تھے وہ اس مدھم روشنی جیسی ہی خواب آگیں خوشبو پھیلا رہے تھے۔ آنکھیں بند کرنے سے شاید اس کی ناک کی حس بڑھ گئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے اس خوشبو کا اتنا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے پھر آنکھیں کھول دیں۔

    کمرے کے گھنی شکنوں والے پردے مہندی جیسے سبزرنگ کے تھے۔ قالین بھی گہرا سبز تھا۔ کمرے کی باقی سجاوٹ بھی کریم اور سبز رنگوں کے امتزاج سے کی گئی تھی۔ پائیں باغ میں کھلنےوالی کھڑکی سے وسیع و عریض لان نظر آرہا تھا جو اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ نومبر کی خنکی میں تھوڑا برفیلا لمس تھا۔ کنول نےایرانی بلی جیسا نرم گرم کمبل گردن تک کھینچ لیا اور ایک بار پھر آنکھیں موندلیں۔

    اس مرتبہ اس کے کان جاگ اٹھے۔ کل صبح اس نے اپنے آنے کی کوئی چار گھنٹے بعد خاتون خانہ کی آواز سنی تھی۔ وہ انتہائی شستہ انگریزی میں اپنے بیٹے دیپک سے کہہ رہی تھیں، ’’لڑکا واقعی وجیہ ہے اور ذہین تو خیر ہے ہی مگر ذرا ناترا شیدہ دکھتا ہے۔ خیر ٹریننگ اور پوسٹنگ کے بعد پالش بھی ہوجائے گی۔‘‘

    ’’حاضر جواب اور ہنس مکھ بھی ہے ماں۔ عثمانی انکل کبھی کوئی خراب چیز لے کر نہیں آتے۔‘‘دیپک نے ہنس کر جواب دیا تھا۔

    ’’میں چاہتی ہوں وہ کم از کم ہفتہ بھر ضرور ٹھہر جائے۔ الکا کو اسے اچھی طرح جاننے سمجھنے کا موقع ملنا بہت ضروری ہے۔ پھر وہ ٹریننگ کے لیے چلا جائے گا۔‘‘

    ’’میں روکنےکی کوشش کروں گا۔‘‘

    اسی وقت دیپک اندر داخل ہوا تھا اور ان لوگوں نے جھٹ موضوع گفتگو پلٹ دیا تھا۔ کنول صبح سے جس ڈپریشن میں مبتلا تھا، اس میں بس ایک لمحے کو ذرا سی کمی آگئی تھی۔ مسز باجپئی جیسی اسمارٹ، جہاں دیدہ اور تعلیم یافتہ خاتون نے اس کی ذہانت اور وجاہت کا اعتراف کیا تھا۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ شاید یوں بڑی نہ ہو لیکن کنول کو بہت بڑی معلوم ہوئی تھی۔

    لڑکا واقعی وجیہہ ہے۔۔۔ لڑکا واقعی۔۔۔ آوازیں چاروں طرف پھیل رہی تھیں۔ اس نے کان بند کرنا چاہے۔ نیند کا غلبہ طاری تھا مگر وہ سو نہیں پا رہا تھا۔ دماغ میں کوئی چیز کنکھجورے کی طرح رینگ رہی تھی اور ساری حسیں بیدار تھیں۔ اس نے آوازوں کو جھٹکا تو بند آنکھیں اندر ہی اندر کہیں پوری کھل گئیں۔

    وہ یہاں کل سویرے آیا تھا۔ سات بجے والی گاڑی سے۔ اسٹیشن پر اسے لینے جو لانبی سی چمکدار ائر کنڈیشنڈ کار آئی تھی اسے دیکھ کر اس کے ہوش اڑگئے تھے۔ مگر اس نے چہرے سے کسی قسم کی حیرت کااظہار نہیں ہونے دیا۔ وہ بے حد باوقار اور متین لڑکا تھا۔ وردی پوش ڈرائیور نے دروازہ کھولا اور ایک بے حد اسمارٹ اور خوش پوش نوجوان باہر نکلا۔

    ’’آپ غالباً کنول شرما ہیں۔۔۔‘‘ اس نے کنول کی طرف بڑھتے ہوئے انتہائی مہذب اور خلیق لہجے میں کہا تھا۔

    ’’میں دیپک ہوں۔ دیپک باجپئی۔ معاف کیجیے گا میں نے بھیڑ میں جانے سے بہتر یہی سمجھا کہ یہاں بیٹھ کر آپ کا انتظار کروں۔ دوسرے آپ مجھے پہچانتے بھی نہیں تھے۔ میں نے بھی صرف تصویر ہی دیکھی تھی۔‘‘

    کنول کے لبوں پر اس کی مخصوص دلکش مسکراہٹ بکھر گئی۔ رسمی گفتگو کے ساتھ وہ گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی جیسے ہوا میں تیرنے لگی۔ کوئی بیس منٹ بعد وہ جس بنگلے میں داخل ہوئی وہ اس گاڑی کے ہی لائق تھا۔ وسیع و عریض لان پر دور دور تک مخملی گھاس بچھی ہوئی تھی اور گلابوں کے تختے پھیلے ہوئے تھے۔ گاڑی کے اندر داخل ہوتے ہی تین چار خواتین لپکیں۔۔۔ ایک لانبی گوری چٹی قدرے موٹی لیکن بے حد باوقار خاتون کو وہ انداز سے پہچان گیا۔ فرنچ شفان میں ملبوس کسی فرنچ خوشبو میں بسی وہ عورت یقیناً خاتون خانہ تھیں۔ دوسری طویل قامت اور چھریرے بدن والی ادھیڑ عورت بھی کنارے دار بے داغ سوتی ساری میں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ ان کے بالوں میں پھولوں کی وینی تھی۔ باقی دو نوجوان لڑکیاں تھیں۔ فیڈڈ جینز اور پتلے کپڑے کے بلاؤز میں ملبوس وہ عام کالج گرلز کی طرح تھیں لیکن ان کے گرد ایک ہالہ تھا۔ بے پناہ اسمارٹ نس اور بے پناہ خود اعتمادی کاہالہ جو دولت اور اطمینان کی فراوانی سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

    ’’یہ ممی ہیں۔۔۔‘‘ دیپک نے موٹی خاتون کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’یہ الکا، یہ شبنم۔۔۔‘‘

    ’’اور یہ۔۔۔‘‘ اس نے طویل قامت خاتون کی طرف اشارہ کیا جس نے بالوں میں موگرے کی وینی سجائی ہوئی تھی۔ ’’انہوں نے ہم لوگوں کو پالا ہے۔۔۔ آیا ماں۔ ہم لوگوں کو بے حد چاہتی ہیں۔‘‘

    ’’تو یہ ان لوگوں کی گورنس ہے۔‘‘ کنول نے بیک وقت سب کے لیے ہاتھ جوڑتے ہوئے سوچا۔ اس کے ذہن میں اپنی ماں کی تصویر گھوم گئی۔ ماں کی ساری کبھی بے داغ نہیں ہوتی تھی علاوہ ان دوچار کبھی کبھی آنے والے دنوں کے جب وہ کہیں جارہی ہوتی تھیں۔ ان کے بالوں میں اتنی چمک بھی نہیں تھی اور پھول تو شاید انہوں نے کبھی نہیں سجائے تھے۔ عموماً وہ ایک گنجلی ہوئی میلی ساری میں ملبوس کبھی اس کے پلو سے ہاتھ پونچھتی نظر آتیں، کبھی ماتھے سے پسینہ۔ گھر میں پیسوں کی ایسی کمی نہیں تھی مگر وہ ماں کے رہنے کا ڈھنگ ہی بن چکا تھا۔

    کنول کو ایک عجیب سی بے کلی کا احساس ہوا جو انگیٹھی کے دھویں کی طرح چکر کاٹتی تھی۔ دھیرے دھیرے اس کے اندر اٹھ رہی تھی۔ ایک ملازم اس کا سوٹ کیس اٹھاکر مہمان خانے میں رکھ آیا تھا اور وردی پوش بیرا چاندی کی ٹرے پر بھاپ اٹھتی کافی کے پیالے لے کر اندر آچکا تھا۔

    نہانے کے بعد ناشتے کی میز تک آتے آتے کنول سب لوگوں سے خاصہ بے تکلف ہوچکا تھا۔ ان لوگوں نے چند گھنٹوں کے اندر ہی اس قدر اپنائیت اور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا تھا کہ اس کی ساری جھجک رخصت ہوچکی تھی۔ دوسرے دن ان لوگوں نے اسے گھمانے کا پروگرام بنایا۔ دیپک، شبنم اور ایلن ذرا پیچھے رہ جاتے یا آگے بڑھ جاتے اور الکا اس کے ساتھ رہ جاتی۔ سب کچھ سوچے سمجھے پلان کے تحت ہو رہا تھا۔ خیر وہ آیا بھی تھا الکا کو ہی دیکھنے۔ الکا کو دیکھنے یا اپنے آپ کو دکھانے؟

    برگیڈیر عثمانی سے اس کے ماما کے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ وہ کبھی ملٹری میں تھے۔ کنول کے آئی۔ اے۔ ایس میں آجانے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ وہ ہمیشہ سے ہونہار تھا اس لیے کسی کو تعجب نہیں ہوا۔ لڑکیوں والے پہلے ہی سے اس کے گھر کے چکر کاٹ رہےتھے۔ مگر برگیڈیر عثمان کی معرفت جو رشتہ آیا وہ بقول ماما سب سے زیادہ ’دھانسو‘ تھا۔ ویسے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لڑکا ہی لڑکا ہے ان کے یہاں۔۔۔ شان و شوکت ڈھونڈنا ہے تو اپنی ٹکر کے لوگوں میں جائیے۔

    وہ باجپئی میرے پیچھے پڑا ہے کہ خاندان میں کوئی آفیسر نہیں ہے۔ سب بزنس میں لگے ہیں۔ دولت کے ساتھ تھوڑا اقتدار ہونا ضروری ہے۔ بزنس کلاس میں بڑا افسر نہ آئے تو لگتا ہے بڑا ڈھنڈار محل تو بنوالیا لیکن آرائش کے لیے کچھ نہیں خریدا۔ اکلوتا بیٹا گریجویشن کے بعد امریکہ چلا گیا بزنس منیجمنٹ کے لیے۔ اسے افسر بنوادیتے تو پھر بعد میں یہ لانبا چوڑا دھندا کون سنبھالتا۔ رہی لڑکے کے ’سیلف میڈ‘ ہونے کی بات تو میاں وہ بیٹی کو اتنا دیں گے کہ خود بخود وہ ان کے طبقے میں شامل ہوجائے گا۔

    اور لڑکی۔۔۔ ماما نے سارے شک رفع کرلینے چاہے تھے۔ لڑکی بہت سوئیٹ ہے اور کم عمر بھی۔ کنول کو یقیناً پسند کرے گی۔ پھر انہوں نے ذرا جھک کر قدرے رازدارانہ انداز میں کہا تھا، ’’میرا خیال ہے وہ لوگ شادی جلدی چاہیں گے۔ ٹریننگ کا انتظار کرکے دو سال نہیں گنوائیں گے۔ اونچے طبقے کے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں گمراہی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ منشیات، آوارگی اور نہ جانے کیا کیا۔ جن لوگوں میں پرانی اقدار کی رمق باقی ہے وہ دھڑادھڑ شریف لڑکے ڈھونڈ کر لڑکیاں بیاہ کر رہے ہیں۔‘‘

    پھر ماما نے دھکے دے دے کر اسے یہاں بھجوایا تھا۔ ٹریننگ پر جانے کے دن قریب آرہے تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ کنول کو کوئی ایسی ویسی لڑکی ہڑپ لے وہ یہاں اس کی منگنی کرادیں۔

    الکا واقعی بے حد سوئیٹ تھی لیکن اس کی سمجھ سے بالاتر۔ اس نے جینز کے ساتھ سڈول پیروں میں پائل سے ملتا جلتاچاندی کا کوئی زیور پہن رکھا تھا۔ پائنچے چڑھے ہونے کی وجہ سے اس کی پنڈلیو ں کا کچھ حصہ نمایاں تھا ۔ فلیٹ چپلوں کے ساتھ وہ زیور گورے نازک پیروں پر بھلا ضرور لگ رہا تھا لیکن باقی کی ساری بیک گراؤنڈ اس زیور سے ذرا میل نہیں کھاتی تھی۔ زیور خالص ہندوستانی تھا اور لباس خالص مغربی۔ دلکش چہرے کے نازک ہونٹوں کی لپ اسٹک مغربی تھی اور ہونٹوں کے پیچھے کی زبان بھی مغربی۔

    اس وقت کنول کے ذہن میں بڑا بے تکا سا خیال آیا۔ اگر الکا سے اس کی شادی ہوجاتی ہے تو وہ بھی اسی چاندی کےزیور جیسا لگے گا۔ اپنی جگہ خوبصورت اور شاید الکا کو عزیز بھی مگر کم قیمت۔ ساری بیک گراؤنڈ سے الگ۔۔۔ بے میل جیسے بے سرتال کا سنگیت۔ اور فطری انداز میں بات کرتا ہوا کنول اچانک بے حد کانشس ہوگیا۔

    الکا اسے اپنی پسندیدہ چیزیں بتارہی تھی۔۔۔ تیرنا، گھڑسواری، جیمز ہیڈلے چیز کے ناول، ویسٹرن ڈانسنگ، سیاحت اور اطالوی کھانے۔

    ’’تم اٹلی ہو آئی ہو؟‘‘

    ’’میں آدھا یوروپ گھوم چکی ہوں۔‘‘ اس نے بچکانہ مسرت کے ساتھ کہا۔ روم میں میں نے ایک ہاؤس وائف سے وہاں کی مقبول ڈش Pizza بنانی سیکھی تھی۔ اب میں خود بیک کرلیتی ہوں۔

    ’’تم کھانا پکالیتی ہو؟‘‘

    الکا کے چھوٹی سی عمر میں آدھا یوروپ گھوم آنے کی بات نے کنول میں جو کھسیاہٹ بیدار کی تھی وہ حیرت میں ڈوب گئی۔

    ’’کبھی کبھی۔۔۔‘‘ الکا کا مختصر سا جواب تھا۔

    میری ماں کے دھوئیں سے بھرے کچن میں پکاسکو گی؟ کنول کی زبان پر یہ فقرہ آتے آتے رہ گیا۔

    ’’تمہاری ہابی کیا ہے۔۔۔؟‘‘ الکا اس سے پوچھ رہی تھی۔

    ’’میری ہابی۔۔۔؟‘‘ کنول نے اس سوال پر کبھی غور نہیں کیا تھا۔ آئی۔ اے۔ ایس انٹرویو بورڈ میں بیٹھے ہوئے بھاری انٹیلیکچوئیل نظر آنےوالے، چشمے کے پیچھے چھپی ذہین آنکھوں سے اندر کی اسکریننگ کرلینے والے گورنمنٹ آف انڈیا کے پرانےمنجھے ہوئے افسروں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وہ قطعی نروس نہیں ہوا تھا لیکن یہ اٹھارہ سالہ نازک اندام ناتجربہ کار لڑکی اسے نروس کر رہی تھی۔

    ’’کرکٹ کھیل لیتا ہوں۔‘‘

    ’’کرکٹ مجھے بے حد پسند ہے۔‘‘ وہ خوش ہوکر بولی۔ ’’ ابھی جو پاکستانی ٹیم آئی تھی ، جہاں جہاں میچ ہوئے ہم لوگ وہاں وہاں گئے۔ اس کے سارے کھلاڑیو ں کے آٹوگراف میرے پاس ہیں۔ وہ کمبخت عمران خان۔۔۔! vowکیا پرسنالٹی ہے۔‘‘ اس نے ایک ننھی سی کنکری اٹھاکر پاس بنے مصنوعی تالاب میں پھینکی۔ کنارے بیٹھے دوچار مینڈک اچھل کر بھاگے۔ وہ کھلکھلاکر ہنسی۔ بڑی پیاری معصوم سی ہنسی۔ زندگی اور اس کے حسن سے بھرپور۔ پھر اس نے چیونگم کا پیکٹ پھاڑا اور دوپیس کنول کی طرف بڑھائے۔ چیونگم لیتے ہوئے کنول کی انگلیاں اس کی انگلیوں سے چھو گئیں۔ لانبی ملائم۔ صاف رنگت والی انگلیاں۔ اس کا لمس ایسا ہی تھا جیسے ان زرد گلابوں کا لمس جو کنول کے کمرے میں سجادیے گئے تھے مگر کنول کے جسم میں کوئی ارتعاش نہیں پیدا ہوا، کوئی برقی رو نہیں جاگی۔

    کنول کو ذرا سا تعجب ہوا۔

    اسی وقت پیچھے کے باقی لوگ ان کے پاس پہنچ گئے۔ ایک پیڑ کا سایہ تلاش کیا گیا۔ کار میں بیٹھا ملازم ٹفن باسکٹ لے کر آرہا تھا۔ باسکٹ میں دسیوں کھانوں کے ساتھ شفاف کھڑکھڑاتے نپکین اور چمکتے ہوئے چھری کانٹے بھی تھے۔۔۔ کنول کو چھری کانٹوں کی عادت نہیں تھی اس لیے کھاتے وقت کھانے سے زیادہ اس کی توجہ اس بات پر تھی کہ اس سے کوئی حماقت سرزد نہ ہو۔ ویسے وہ بے حد ٹھنڈے مزاج والا لڑکا تھا اور ہر ایمرجنسی سے بغیر ہڑبڑائے ہوئے نمٹ لیتا تھا۔ کامیاب افسر کی پہلی کوالیفکیشن۔

    وہ سب کھاتے ہوئے قہقہے لگارہے تھے۔ دیپک الکا کے اسکول کے دنوں کے قصے سناتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ یہ جب مسوری میں پڑھتی تھی۔۔۔ دیپک کو اپنا پرائمری اسکول یاد آگیا جہاں کی شکستہ بلڈنگ سے اس نے پانچویں کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا تھا اور دھوتی پہنے ناک کی پھنگ پر چشمہ لگائے ماسٹر گردھاری لال نے بابوجی سے کہا تھا کہ یہ لڑکا بہت ہونہار ہے۔ اس کی پڑھائی پر خاص دھیان دیں۔

    دراصل دیپک یہاں آتے ہی دوحصوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک حصہ ساری گفتگو میں حصہ لے رہا تھا اپنی شگفتہ مزاجی اور حاضر جوابی سے سب کو ہنسا رہا تھا اور دوسرا حصہ اندر کبھی کہیں پہنچ جاتا تھا کبھی کہیں۔

    اس نےالکا کی طرف غور سے دیکھا۔ شاید دونوں کی جوڑی بڑی خوبصورت لگے گی۔ مگر اندر سے وہ ہمیشہ دو ٹکڑوں میں بٹا رہے گا۔ بڑا افسر بن کر بھی وہ اس کے طبقے کا ایک فرد نہیں بن سکے گا۔ اس گھر میں قدم رکھنے کے بعد وہ جن ٹکڑوں میں تقسیم ہوا ہے وہ مل کر بھی ایک نہیں ہوں گے۔ اس کی جڑیں ایسے گھر میں پوشیدہ ہیں جس کی ماہانہ آمدنی الکا کے یہاں روزانہ خرچ کے زمرے میں آتی ہے۔ کچن میں پیڑھی پر بیٹھ کر چٹخارے مار کر دہی کے ساتھ آلو کے گرم پراٹھے کھاتا ہوا کنول ڈائننگ ٹیبل پر سلور کٹلری کے ساتھ اٹالین Pizza یا چائنیز چلی چکن کھاتے ہوئے خود کو ایسا محسوس کرے گا جیسےبرساتی اوڑھ کر بارش میں گھومتا ہواشخص خود کو پانی سے الگ محسوس کرتا ہے۔

    الکا اب اپنا نیپکن گود میں پھیلارہی تھی۔ سڈول پیر کراس کرکے بیٹھ گئی تھی۔ اس کے پیر کا زیور پھر نمایاں ہوگیا تھا۔ اس نے پوچھا ، ’’الکا اسے کیا کہتے ہیں؟‘‘

    ’’کسے؟‘‘ اس نے مسکراتی آنکھوں سے پوچھا۔

    ’’یہ تمہارا زیور۔۔۔؟‘‘

    ’’ANKLET ‘‘

    ’’تمہارا مطلب ہے پائل۔۔۔‘‘

    ’’شاید۔۔۔‘‘

    ’’اس کی ہندی ایلن کی ہندی سے بھی بدتر ہے۔‘‘ اسکول میں یہ ہمیشہ ہندی میں فیل ہوتی تھی۔ دیپک نے پھر چھیڑا۔

    باہر کا کنول الکا کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور اندر کا کنول سوچنے لگا کہ پائل کو پائل نہ کہہ کر اگر Ankletکہہ دیا جائے تو بھی وہ اس سارے بدیسی لباس میں کبھی نہیں گھلتی۔ اچانک وہ زور سے ہنس پڑا۔ اس کے ذہن میں ایک نیم پلیٹ آگئی۔

    کنول کمار شرما پائل آئی۔ اے۔ ایس۔

    اور اب سارے دن گھوم پھر کر شدید تھکن کے باوجود مخمل سا بستر کا نٹوں کی طرح چبھ رہا تھا۔ وہ ماما سے، ماں سے، بابو جی سے کیا بہانہ بنائے گا؟ کیا کہے گا کہ اس قیمتی فریم میں فٹ یہ حسین تصویر اسے کیوں پسند نہیں آئی؟

    مأخذ:

    پرائے چہرے (Pg. 51)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے