Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرندے کی فریاد

آصف فرخی

پرندے کی فریاد

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    پرندے کی فریاد ادراک ذات کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ایک پرندہ بیچنے والا شخص سگنل لائٹ کے انتظار میں کھڑی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں سے فریاد کرتا ہے کہ وہ انھیں خرید کر اڑا دیں، یہ دعا دیں گے۔ پرندہ فروش ایک گاڑی میں بیٹھے شخص کو زبردستی ایک پنجرہ تھما دیتا ہے وہ جلدی سے پیمنٹ کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ پھر تقریباً روزانہ اس شخص کے گلے پڑ ایک دو پنجرے اس کے سر منڈھ دیتا ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد ان پرندوں کو اڑاتے ہوئے اسے بچپن میں پڑھی ہوئی نظم پرندے کی فریاد یاد آ جاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی بھی وقت، سماجی بندھن اور ذمہ داریوں کے پنجرے میں قید ہے۔ 

    پرندے بالکل ساکت تھے۔

    وہ آدمی شیشے پر انگلی سے ٹک ٹک نہ کیے جاتا تو میری نظر ان مٹھی بھر پرندوں پر پڑتی ہی نہیں۔ میں وہاں آتا اور دیکھے بغیر گزر جاتا۔ یا پھر یہ سب دیکھتا اور دیکھے بغیر آگے بڑھ جاتا، کچھ اور دیکھنے کے لیے، کہ چلتی ہوئی گاڑی میں دیکھنے کے لیے ہر لمحے نیا منظر ہے۔ پھیلتا ہوا شہر، چلتے پھرتے لوگ، دھوپ، عمارتیں۔۔۔ اس میں تین چار چڑیاں ایک آدمی کے سامنے آنے کے لیے ہوتی ہی کیا ہیں۔ ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی اور مانگنے والوں کی یلغار ہو گئی۔ گاڑیوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا، پہیوں اور ہارن سے بچ بچ کر راستہ بناتا ہوا وہ آدمی میری طرف بڑھا۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا مگر میں اسے دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کے جھکے ہوئے ہاتھ میں کیا ہے، مجھے اندازہ بھی نہیں ہوا۔ وہ ناخن سے شیشے پر چوٹ دیے جا رہا تھا اور منھ ہی منھ میں کچھ کہہ رہا تھا۔ ناخن کی چوٹ سے شیشہ ٹوٹ نہیں سکتا، مجھے معلوم تھا مگر اس مسلسل ضرب کی کھٹ کھٹ کو روکنے کے لیے مجھے اس سے کہنا ضروری معلوم ہوا، بابا معاف کرو۔

    لیکن میرے لفظ ہونٹوں پر اَن کہے ہی رہ گئے۔ اس کا ہاتھ تیزی سے حرکت میں آیا اور ہلتے ہوئے شیشے سے پنجرہ بھڑا دیا۔ تیلیوں والے پنجرے کے ایک کونے میں وہ پرندے سمٹے سکڑے، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بیٹھے تھے، پروں میں ہوا بھرے ہوئے جیسے جاڑے کی شام کی خنک ہوا میں کانپ رہے ہوں۔ ان کی چونچیں اور آنکھیں بھی پوری طرح نظر نہیں آرہی تھیں۔

    ’’لے لو بابو، ہی تین دانے رہ گئے ہیں۔۔۔‘‘ اس آدمی کے لہجے میں التجا تھی۔ پرندوں کی نہیں، اس کی اپنی مجبوری۔

    دانے؟ لے لو؟ مگر کیوں؟ ان پرندوں کا کیا ہوگا؟ میرے چہرے پر تعجب کے نقش شاید واضح ہو گئے، جو اس نے فوراً پڑھ لیے۔

    ’’بے زبان ہیں، دعا دیں گے۔۔۔‘‘

    بے زبان، پرندے۔۔۔ مگر پرندے کیا کر سکتے ہیں؟ میں اِن کا کیا کروں گا؟ میرے ذہن کے سوال میرے چہرے پر شاید پھر ابھر آئے۔

    ’’ان کو کہیں لے جاکر چھوڑ دینا۔ آزاد ہو جائیں گے تو دعائیں دیں گے۔ جان کا صدقہ ہو جائے گا۔ آئی بلا کو ٹالیں گے۔۔۔‘‘

    وہ ایک کے بعد ایک گنوائے جا رہا تھا مگر میں نے اس کی طرف نہیں، پرندوں کی طرف دیکھا۔ سگنل کا رنگ بدلا اور اس سے پہلے کہ پیچھے کی گاڑی ایک سے دوسرا ہارن دے، میں نے ایک نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے نوٹ کا رنگ آنکھیں پھاڑ کر دیکھا پھر نوٹ اس نے جھپٹ کر مٹھی میں بھر لیا اور پرندوں کا پنجرہ اَدھ کھلے شیشے میں سے تقریباً ٹھونس دیا۔ سگنل بدلا، گاڑی چل پڑی۔ وہ آدمی پیچھے رہ گیا اور پرندوں کا پنجرہ میری گود میں پڑا ہوا تھا۔

    میں نے اسٹیئرنگ وہیل گھمایا اور ٹریفک کے بہاؤ کے ساتھ بمبینو سینما کی طرف سے مڑ کر بندر روڈ پر آگیا۔ آنکھوں کے کونوں سے میں نے سینما ہال کے پوسٹرز پر زندگی کے حجم سے بڑے چہروں اور جسموں کو دیکھا، حسن اور دلیری کے یہ دعوے۔۔۔ غیر حقیقی، کون دیکھےگا۔۔۔؟ جیکب لائن کے سامنے سے ہوتا ہوا گرو مندر کی طرف جانے سے پہلے پارسی کالونی کے اس مکان کے سامنے سے گزرا جس کے سونے سونے کٹاؤدار پتھر اور آرائش کسی گزرے زمانے کی یاد دلاتے ہیں اور لگتا ہے جسے خالی چھوڑ دیا گیا ہے تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ پرانی نمائش ابھی آئی نہیں تھی اور میں نے گاڑی فٹ پاتھ کے ساتھ کرکے روک لی۔ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے میں نے پنجرہ دونوں ہاتھوں سے گھما کر دیکھا۔ چھوٹے سے پنجرے کے تیلیوں والے فرش پر وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ پنجرہ ترچھا ہوا تو وہ ایک کونے میں سمٹ گئے۔ میں نے پرندوں کے سر پر ہلکے سے پھونک ماری۔ سر کے اوپری حصے والے چھوٹے چھوٹے بال و پر ہلے۔ ایک پرندے نے آنکھیں جھپکیں۔ میں نے پنجرے کاپٹ کھول دیا۔

    ایک بھی پرندہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ پنجرہ ہاتھوں میں لیے لیے میں گاڑی سے اتر آیا اور فٹ پاتھ پر کھڑا ہوگیا۔ قائد اعظم کے مزار کی جانب ٹریفک کا ہجوم رواں دواں تھا اور کوئی میری طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے پنجرے کو ہلایا جلایا۔ وہ تینوں ایک کونے میں سٹ کر اکٹھے ہو گئے جیسے پروں والی چھوٹی سی ایک گیند۔

    میں نے پنجرے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ایک پرندے کو مٹھی میں پکڑ کر نکالا اور بند مٹھی کو ہوا میں اچھال کر کھول دیا۔ کیا یہ اس پرندے کا دل تھا جو میری انگلیوں میں دھڑک رہا تھا؟ پہلے ایک، پھر دوسرا اور تیسرا۔۔۔ پرندے نے پر مارا، ہوا میں ڈبکی بھری اور اونچا اٹھ گیا۔ میں کھڑا دیکھتا رہا اور وہ ایک ایک کر کے شہر کے دھواں دھواں آسمان میں اوجھل ہو گئے۔

    پرندوں سے خالی پنجرہ میں نے وہیں فٹ پاتھ پر ایک طرف رکھ دیا۔۔۔ کوئی اسے دیکھ لے اور اٹھا کر لے جائے۔۔۔ اور گاڑی اسٹارٹ کرکے گھر کی طرف موڑ دیا۔ مگر وہ جیسے میرے پیچھے پیچھے چلا آیا۔۔۔ پرندے کی طرح اڑتا ہوا، پنجرے کی طرح موجود۔۔۔ شہر کے ساتھ چلتا ہوا۔

    پھر مجھے پرندے دکھائی دینے لگے۔ بھانت بھانت کے بے تحاشا لوگوں اور ایک کے اوپر گرتی پڑتی عمارتوں کے اس ہجوم میں پرندے بہت بکھرے ہوئے تھے۔ اخبار میں بچوں کے لیے معمے کی تصویر کی طرح جس کے الگ الگ حصوں میں رنگ بھرا جائے تو کھوئی ہوئی وہ شکلیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو پہلے سے وہاں موجود تھیں مگر دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ لائنز ایریا سے لے کر گورا قبرستان تک اور اس سے بھی آگے، آسمان پر چیلیں منڈلاتی ہوئی نظر آتیں جو کبھی نیچے آتیں اور جھپٹا مار کر کچھ لے جاتیں۔ کوّے بہت تھے اور ہر جگہ ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ میرے گھر کی دیوار پر آکر وہ بولتے تھے مگر مہمان کبھی کوئی آتا تو آتا۔

    بوہری بازار اور ایلفنسٹن اسٹریٹ کی پرانی عمارتوں میں کبوتر گٹکتے پھرتے تھے اور دھوپ کے کسی کسی رخ پر ان کے پروں کے نیلے، لاجوردی، خاکستری رنگ ایک دم سے چمک اٹھتے۔ طوطوں کی کوئی ڈار کبھی آسمان میں گم ہو جاتی اور ان کی ٹیں ٹیں شہر کے اس شور میں دب جاتی جو کبھی نہیں تھمتا۔ آرام باغ کی مسجد کے صحن میں کوئی خدا کا بندہ سویرے سویرے دانہ بکھیر دیتا اور گوریا چڑیاں پھر دانہ چگنے آ جاتیں اور کسی کے قدموں کی آہٹ پالیتیں تو بھرا مار کے اڑ جاتیں۔۔۔ میں دیکھتا کا دیکھتا رہ جاتا۔۔۔ سونا آسمان جو پرندوں سے خالی ہو گیا، ایک شہر جس میں پنجرے رہ گئے۔

    اس خالی پنجرے نے پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔

    اس نے میرے وقت کا اندازہ لگا لیا تھا۔ میرے گھر واپس جانے کا وقت ہوتا تو وہ پنجروں والا آدمی سگنل کے آس پاس منڈلا رہا ہوتا۔ ایک بار، دوبار، چند بار پرندے کیا خرید لیے، مجھے چڑیوں کے لیے تنگ کرنا معمول بنا لیا اور یقیناً اسی نے اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی بتا دیا تھا کہ اس گاڑی والے بابو چڑیاں چھوڑ دیتے ہیں خرید کر۔ وہ دور سے پہچان لیتے اور میری گاڑی کے گرد جمع ہو جاتے۔ وہ قسم قسم کے پنجرے دکھانے لگتے، جن میں کئی طرح کی چڑیاں بھری ہوتیں۔ ’’مولا دکھ بیماری دور رکھےگا۔۔۔ غریب مسکین کو چھوڑ دو، ثواب ملےگا۔۔۔‘‘ وہ میرے سامنے اس طرح گھگھیاتا کہ مجھے شک ہو جاتا، کیا وہ واقعی پرندوں کی بات کر رہا ہے۔

    مگر مجھے اب جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی۔ روز روز کی یہ چڑیاں کب تک۔ ثواب کا ٹھیکا میں نے ہی لیا ہے؟ وہ خود کیوں نہیں ان کو چھوڑ دیتا؟ آزادی ہی دینی ہے تو پکڑتے کیوں ہیں، غریب بےزبانوں کو ستانے کے لیے؟ چھوڑنا ہی ٹھہرا تو شہر میں آدمی بہت ہیں۔ شہر بھر میں ایک میں ہی دکھائی دیا ہوں جو مجھے ٹھگنے چلے آئے ہیں یہ چڑی مار۔ آئے دن کے تقاضوں سے تنگ آکر میں نے سوچا، پولیس کو ان کے پیچھے لگا دوں۔ جانے کہاں سے یہ چڑیاں پکڑ کر لاتے ہیں اور کتنی تکلیف میں رکھتے ہیں کہ پرندے بیمار دکھائی دیتے ہیں۔ بےزبان فریاد بھی تو کرتے ہوں گے۔ پھر خیال آیا، پولیس کیا کر لےگی۔ یہاں تو انسانوں کی قیدوبند کا حساب نہیں۔۔۔

    میں نے تہیہ کر لیا کہ پرندے اب نہیں خریدوں گا۔ ان کو آزاد کرنا اکیلے میرا ذمہ ہی تو نہیں۔ شہر بھر کی چڑیوں کے دکھ سہنے کے لیے کیا میں ہی رہ گیا ہوں؟ اور وہ بھی دام دے کر؟ میں۔۔۔ میں ہی کیوں۔۔۔؟ ایسے ہی ایک دن وہ پھر نظر آیا۔ دفتر سے اٹھنے کے بعد گاڑی وکٹوریا روڈ پر مڑی ہی تھی کہ وہ تیزی کے ساتھ قدم اٹھاتا ہوا آیا، جیسے میرے ہی آنے کی گھات لگائے بیٹھا ہو۔ سڑک کے موڑ کے لیے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی رفتار جہاں دھیمی پڑنے لگتی، وہاں سے لمبے لمبے تیز تیز قدم بھرتا ہوا، گاڑیوں کے بیچ میں سے نکلتا ہوا اور پہیوں سے بچتا ہوا وہ سیدھا میری گاڑی کی طرف آیا۔ میں بھی اسے پہچان گیا۔ میلے، بدرنگ کپڑے، موٹے موٹے ہاتھ اور اکھڑا ہوا لہجہ جو دور کے دیہات کا سراغ دے رہا تھا۔ اب کی بار اس کے ہاتھ میں ایک سے زیادہ پنجرے تھے۔ میری طرف جو پنجرہ اس نے بڑھایا، اس میں مینائیں تھیں۔ پانچ چھ تو ہوں گی، میں اس وقت تو گن نہیں سکتا تھا۔ مگر وہ بالکل ساکت تھیں۔ ان کے پاس سے ایک آواز تک نہ آ رہی تھی۔ اگر کوئی حرکت تھی تو بس چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں جو ٹکر ٹکر میری طرف دیکھ رہی تھیں اور دیکھتے دیکھتے ذرا دیر میں پلک سی جھپک جاتی۔

    ’’تمہارے واسطے الگ سے رکھی ہیں، بابو۔ لے کر ان کو چھوڑ دو۔ اڑ جائیں گی تو برکت لائیں گی۔ آج جمعرات ہے بھری مراد ہے۔۔۔‘‘ وہ پھر شروع ہوگیا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا، میں نے سننا ضروری نہیں سمجھا۔ میں نے میناؤں کی طرف دیکھا، اسی طرح جیب سے نوٹ نکالا اور کچھ کہے سنے بغیر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس کی طرف پھر دیکھنے کی مہلت بھی نہیں ملی۔ پنجرہ گاڑی میں پھینک کر وہ ہوا ہو گیا۔ پنجرے میں بند مینائیں میری طرف دیکھے جا رہی تھیں اور جتنی دیر میں ان کی طرف دیکھے گیا، میری پلک نہیں جھپکی۔ دیکھنے کا یہ تار ٹوٹا جب سگنل بدلا، ہارن بج اٹھے اور گاڑیاں چل پڑیں۔

    ان میناؤں کو میں گھر لے آیا۔ معمولی، پتلی پتلی تیلیوں کا پنجرہ تنگ تھا مگر مینائیں ایک کونے میں سکڑی بیٹھی تھیں، اس لیے زیادہ حصہ خالی لگ رہا تھا۔ کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر مٹی کی پرانی سکوری میں پانی اور ایک تشتری میں صبح ناشتے کے بچے ہوئے توس کے ٹکڑے میں نے پنجرے میں رکھ دیے۔ بےچاری جانے کب کی بھوکی پیاسی ہوں گی، مجھے خیال آیا۔ میں پنجرے کے سامنے بیٹھا ان کو دیکھتا رہا۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ یوں ہی گم متھان، ایک دوسرے میں گھسی ہوئی، گٹھری بنی بیٹھی رہیں۔ میں ان کی آواز سننا چاہتا تھا۔ ان کو کھاتے پیتے، رستے بستے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر وہ بالکل ساکت تھیں۔

    پنجرے کا پٹ کھول کر میں نے اس میں ہاتھ ڈال دیا۔ بڑھتے ہوئے ہاتھ سے وہ اور اسی کونے میں سمانے، سکڑنے لگیں۔ جو سامنے تھی اس مینا کو میں نے پکڑ کر باہر کھینچ لیا۔ اس کی سیاہ آنکھیں میری طرف ہی تک رہی تھیں۔ ان آنکھوں میں، میں ایک بہت پرانی آواز سن رہا تھا۔ مینا کی یہ آواز میرے بچپن سے آ رہی تھیں۔

    گھر کی دیواراور منڈیروں پر مینا آن کر بیٹھتی۔ پھر ایک ذرا کی ذرا میں پھر سے اڑ جاتی۔ میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتا تھا۔ پھر کوئی مجھے گود میں اٹھاکر باہر لے جاتا تو میں مینا کو دیوار پر سے اڑ کر منڈیر پر اور منڈیر سے پھر نہ جانے کہاں اڑتے جاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ اس کا گھونسلہ جانے کہاں تھا، مکان کی کسی دیوار کی درز میں، کسی درخت پر۔۔۔ اور درخت بھی وہاں گنتی کے تھے۔۔۔ مگر مینا کے گھونسلے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ مینا اڑتی ہوئی آتی اور مینا کی آواز آتی۔ اس آواز کو میں نے بہت بچپن ہی سے پہچان لیا تھا۔ ’’چیا آ جا۔۔۔!‘‘ میری امی نے مجھے سکھایا تھا۔ بلانے پر وہ کبھی پاس نہیں آئی لیکن میں نے اس کو بلانا، پکارنا سیکھ لیا۔ میں اس کے پیچھے دوڑتا اور بولتا تو امی مجھے گود میں اٹھا لیتیں، ’’میری مینا۔۔۔‘‘ وہ کہتیں اور گدگدانے لگتیں۔ میں ہنس پڑتا۔ مینا اڑ جاتی۔

    اب جو مینا میرے ہاتھ میں تھی، میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے آنکھ نہیں جھپکی۔ پھر مجھے ایک اور بات (یاد؟) آئی۔ اسکول کے کمرے میں دھوپ بھری ہے اور میں بنچ پر بیٹھا ہوں۔ کتاب سامنے کھلی ہوئی ہے اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ اسکول کی مس کچھ حیرت سے اور دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھ رہی ہیں، کچھ کہہ رہی ہیں۔ مجھے ان کے اس وقت کے الفاظ یاد نہیں ہیں، اس نظم کا سبق یاد ہے جو اب بھی ان کی آواز میں سن رہا ہوں۔ نظمیں تو ہم اسکول میں بہت سی پڑھتے تھے۔ روز صبح اسکول کی گھنٹی کے بعد ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔۔‘‘ سارے بچے اسمبلی میں مل کر پڑھتے تھے۔ مس کی آواز آگے آگے ہوتی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے دہراتے۔ اسی آواز میں اس پرانے سبق کے حصے رہ رہ کر یاد آنے لگے۔ مگر میں انہیں بھولا ہی کب تھا۔ ’’آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا۔۔۔‘‘ وہ آواز جیسے کانوں میں گونجنے لگی، ’’وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا۔۔۔‘‘

    نظم کے سبق کے ساتھ کتاب میں ایک پنجرے کی تصویر بنی ہوئی تھی جس میں نیلے اور کالے رنگوں سے بنا ہوا ایک بھدا سا پرندہ تھا۔ مصور نے یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ پرندہ اداس اور غم زدہ بیٹھا ہوا ہے۔ ارے بے چارہ پرندہ، کلاس میں باری باری مختلف بچوں سے وہ نظم بلند آواز سے پڑھوانے اور اس تصویر والے پرندے کے بارے میں بتانے کا مجھ پر اتنا اثر ہوا تھا کہ کلاس ہی میں آنسو بہنے لگے تھے۔ میرے سوا کوئی نہیں ہے جو اس کی فریاد سن لے اور اسے آزاد کر دے اور میں خود بھی کیا کر سکتا ہوں، وہ اس کتاب میں اس نظم میں بند بیٹھا ہوا ہے۔

    میری امی بتایا کرتی تھیں کہ میں پنجرے میں بند پرندے دیکھ نہیں سکتا تھا اور اس نظم کو اتنی بار دہراتا تھا کہ ازبر ہوگئی تھی۔ جو مجھ سے کہتا، فر فر سنا دیتا تھا، اسکول میں اور گھر آنے والے مہمانوں کی شاباش وصول کرتا۔ کہیں کہیں سے وہ مٹے مٹے سے الفاظ پھر یاد آنے لگے۔ ’’وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت۔۔۔ آباد جس کے دم سے تھا۔۔۔‘‘ اور ’’ہوتی مری رہائی اے کاش مرے بس میں۔۔۔‘‘ وہ پرندے کی تصویر بھی یاد تھی اور اس نظم کا وہ مصرعہ جس پر پرندے کے آنسو نکلتے دکھائی دیتے، کیا بدنصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں۔۔۔ اور پھر اس سے آگے، ’’میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں۔‘‘ نہیں، بیچ میں سے کچھ غائب ہو گیا ہے۔ ہاں، یاد آ گیا،

    جب سے چمن چھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے

    دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے

    گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے

    دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

    وہ نظم شاید یہیں تک تھی۔ اس پرندے کے نیلے کالے، بدرنگ آنسو اتنے عرصے سے مجھ میں جمع تھے۔ اب وہ رک نہیں سکتے تھے۔ میں نے مینا کو چھوڑ دیا۔ وہ ہوا میں اٹھی، پھر اڑ گئی۔ ایک ایک کر کے میں نے ساری مینائیں اڑادیں۔ پنجرہ خالی رہ گیا۔

    خالی پنجرہ ہاتھوں میں تھامے، میں گھر سے باہر نکل گیا۔ بچپن کی اس نظم کے ٹوٹے ٹوٹے الفاظ اب بھی بیچ میں سے کٹ کٹا کر ذہن میں پلٹ رہے تھے۔ کوشش کے باوجود میں وہ پوری نظم نہیں دہرا سکا۔ تب میں نے واپس جانا چاہا اور تبھی مجھے پتہ چلا کہ اب واپسی ممکن نہیں رہی۔ کیا میں چابی اندر ہی بھول آیا تھا جو دروازہ نہیں کھلا؟ یا یہ دروازہ ہی کوئی اور تھا۔ وہ گھر میرے لیے بند ہو چکا تھا۔ وہ سب دروازے بند ہو چکے تھے اور وہ پرانے گھر مجھے چھوڑ کر جا چکے تھے۔ جیسے میں کلاس میں روتے روتے سو گیا ہوں اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب اسکول کی چھٹی ہوئی اور باقی بچے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ان کے پاس تو جانے کے لیے گھر بھی تھی۔۔۔ اپنے اس بچپن سے بچھڑا ہوا میں اس تنگ رہ گزر میں ہوں جس میں آگے ہی سرک سکتا ہوں۔ ایک ہی رخ ہے جس پر مجھے چلتے چلے جانا ہے۔

    گھر کے بند دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر میں نے اِدھر ادھر نظر دوڑائی۔ آسمان کا رنگ گدلا اور مٹیالا تھا اور اس پر بہت آگے تک چیلیں اڑ رہی تھیں۔ جانے کہاں، بزرٹالائن کی طرف یا بندر روڈ؟ اس سے فرق بھی کیا پڑتا تھا؟ ساری جگہیں ایک سی تھیں اور ان کے سامنے میری بےچارگی، بےسروسامانی۔ ان میں کوئی کتنا بھی آگے جا سکتا ہے، پھر گھوم کر واپس آنا ہوگا۔ یہ جیکب لائن اور بوہری بازار اور رام سوامی اور کشمیر روڈ تیلیاں ہیں اس پنجرے کی جو کسی کو نظر نہیں آتا اور چاروں طرف معلق ہے۔ اس کے ایک کونے میں سمٹ سکڑ کر دن بتانا ہیں آنکھیں جھپکائے بغیر۔۔۔ معاً اس نظم کا آخری شعر ذہن میں ابھرا،

    آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے

    میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے

    مگر مجھےآزاد کون کرےگا؟ مجھے کسی کا ہاتھ اپنے پنجرے کے باہر نظر نہیں آتا۔ کوئی میرے لیے اس آسمان کو پھیلا دے، یہ زمین چھوٹی پڑنے لگی ہے۔ کچھ نہیں تو اس پنجرے کو وسیع کر دے۔ شاید یہ کسی کے اختیار کی بات نہیں۔۔۔ پنجرے میں بند چڑیا کا اپنی فریاد پر اختیار ہے نہ دل کے دھڑکنے پر۔ پھر مجھے خیال آیا۔۔۔ جب وہ نظر نہ آنے والا ہاتھ پنجرے سے گھسیٹ کر باہر نکالنے کے لیے میری طرف بڑھےگا، تو اس کی مٹھی میں بند دھک دھک دھمک ہو رہی ہوگی، کیا وہ میرے دل کے دھڑکنے کی آواز ہوگی؟

    میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ میرے سوال کا جواب کہیں بھی نہیں تھا۔ اپنے اوپر بند ہوجانے والے دروازے کے سامنے بیٹھے رہنے سے بھی کوئی فایدہ نہیں۔ میں اس دروازے کے سامنے پورچ میں کھڑا ہو گیا۔ میں نے اپنے دونوں بازو پنکھ کی طرح پھیلا دیے اور گہرے گہرے سانس بھرنے لگا۔ جب تک پنجرہ میری تلاش میں مجھ تک دوبارہ پہنچ نہیں جاتا، تب تک میری آزادی ہے۔۔۔ جتنی دیر اسے سینے میں اتار سکوں، اتار لوں۔ پنجرے کی تیلیاں اگر ٹوٹتی نہیں ہیں تو ٹیڑھی تو ہو جائیں۔ میرے بس میں اتنی رہائی ہے۔۔۔

    میں نے گھر کی دیوار پر سے جھانک کر دیکھا۔ شام ڈھل رہی تھی اور درختوں میں بسیرا کرنے والے پرندے شور مچا رہے تھے۔

    مأخذ:

    میرے دن گزر رہے ہیں (Pg. 8)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: شہرزاد، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے