Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیچھا کرتی آوازیں

نعیم بیگ

پیچھا کرتی آوازیں

نعیم بیگ

MORE BYنعیم بیگ

    لڑکیوں نے کھنکتے قہقہوں کے درمیان اسے بالآخر کمرے میں دھکیل دیا گیا۔ موسم کی خنکی اور مہکتی مسکراتی فضا کے باوجود اس کے جسم سے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ گھبراہٹ اسکے چہرے سے عیاں تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اسکی کپکپاتی ٹانگیں جلد ہی اسکے اوپر کے دھڑ کو سہارا دینے سے انکار کر دیں گی۔ اس نے اندر گھستے ہی جلدی سے دروازہ بند کر دیا اور اس کی چٹخنی کھینچ د ی۔

    چند لمحوں تک اپنی سانس کو متوازن کیا۔ اسکے قدم من من بھاری ہو رہے تھے۔ دل کی دھڑکن تیز تر ہونے سے سینہ پھٹنے لگا۔ خوف کی شدید لہر نے اس کے ذہن کو اپنی مٹیالی دھند میں لپیٹ لیا اور منظر غائب ہونے لگے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا آہستہ آہستہ چلتا پھولوں کی لڑیوں سے آراستہ مسہری کے قریب جا کھڑا ہوا۔

    دلہن کمرے کے بیچ رکھے پھولوں کی لڑیوں سے آراستہ نئے پلنگ کے بے شکن بستر پر شادی کا جوڑا پہنے سکڑی ہوئی بیٹھی تھی۔ پھولوں کی لڑیوں کو ایک طرف کرتے ہوئے وہ مسہری کی پائنتی پر بیٹھ گیا۔ دلہن نے ہلکے سے اپنی نظروں کو اٹھایا تو اسکی جان نکل گئی۔ وہ اسے یوں زردی مائل پسینے میں شرابور دیکھ کر گھبرا سی گئی۔ وہ اپنے شوہر کو نہیں جانتی تھی ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے اس نے صرف تصویر دیکھ رکھی تھی۔

    دلہن نے ہمت کر کے اپنا ہاتھ بڑھایا اور گھٹنوں پر رکھے اس کے شدید کپکپاتے گرم ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ پھر مدتوں بعد فوزی گہری نیند میں اتر گیا۔

    غربت اور معذوری نے منظور کو ذہنی طور پر ابتری کا شکار کر رکھا تھا۔ سارا دن رکشا چلانا اس کے بس میں نہیں تھا لیکن کسی دوسرے کام کے وہ قابل بھی تو نا تھا۔ لکڑی کی ایک ٹانگ اس کی مجبوری تھی۔ وہ دن بھر کا تھکا ماندہ گھر پہنچتا تو شیداں اپنی ایک عدالت سجا دیتی۔ ہر روز بچوں میں سے کسی ایک کو ملزم کے طور پر پیش کر کے وہ ناجانے کس بات کا بدلہ لے رہی تھی۔ اب یہ معمول اس کے لئے ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا۔ وہ گھر پہنچتے ہی خود ہی کسی معمولی بات پر کسی بچے کی پٹائی کر دیتا پھر رات کے کسی پہر تک اپنے غصے کو چھپائے رکھتا۔ اسے شیدان سے نفرت ہو چکی تھی۔

    سارے بچے جلدی سونے کے عادی تھے تاہم اس کا چہیتا پانچ سالہ فوزی دیر تک باپ کے پاس لیٹا جاگتا رہتا اور پھر کسی پہر سو جاتا۔

    وہ تو اللہ بھلا کرے خواجہ صاحب ایک نیک شخص تھے جنہوں نے شیداں کو ان کے گھر کی پرانی ملازمہ کے ناتے از راہِ اللہ اپنی بیگم کی وفات کے بعد رہنے کو ایک کمرہ دے رکھا تھا جو دالان کے پار کونے والا تھا۔

    خواجہ صاحب کی اپنی ساری اولادیں ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے منظور کے بچے خواجہ صاحب کو ان کی خواہش پر دادا کہتے تھے۔ خواجہ صاحب اکثر میاں بیوی کو انکے جھگڑوں کی وجہ سے ڈانٹ چکے تھے بلکہ ایک آدھ بار تو انہوں نے گھر سے نکال دینے کی دھمکی بھی دے دی تھی۔ جس پر منظور اب خاموش ہو چکا تھا لیکن شیداں کی آواز اب بھی نہیں رکتی تھی۔

    ’’دادا۔۔۔ دادا۔۔۔‘‘ پانچ سالہ فوزی نے دالان میں چارپائی پر سوئے دادا کے کندھے کو ہلاتے ہوئے اسے جگا دیا۔

    ’’کیا ہے فوزی؟‘‘ دادا نے غنودگی میں پوچھا۔

    ’’دادا۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کوئی اندر اماں کو مار رہا ہے اور ابّا بھی بستر پر نہیں ہیں۔‘‘

    خوف سے فوزی کے منہ سے بڑی مشکل سے الفاظ نکل رہے تھے۔

    ’’ہائیں! کیا کہا! مار رہا ہے؟‘‘ دادا فوراً جاگ گئے۔

    ’’دادا اماں چیخ رہی ہیں‘‘

    ’’تم نے کوئی خواب دیکھا ہوگا۔‘‘

    خواجہ صاحب نے اسے تسلی دی۔

    ’’دادا۔۔۔ نہیں جلدی کریں اماں مر جائیں گی؟‘‘

    اس نے روتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا بابا۔۔۔ اچھا۔‘‘

    دادا جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر تیزی سے دالان سے گزر کر کونے والے کمرے کے باہر پہنچ گئے۔ دروازہ نِیم کھُلا تھا جسے فوزی نے شاید باہر نکلتے ہوئے کھُلا چھوڑ دیا تھا۔ خواجہ صاحب نے اندر جھانکا۔ اندھیرا ہونے کے باوجود اسے پلنگ پر دو سائے حرکت کرتے محسوس ہوئے اور دبی دبی سے نسوانی چیختی آوازیں بھرپور مردانہ سانسوں میں بسی مبہم گالیوں سے ملاپ کرتی کچھ نمایاں تھیں۔

    جسموں کے ملاپ میں روحیں چٹخ رہی تھیں۔۔۔ اور فِضا ہولناک تھی۔

    ’’ہت تیرے کی!‘‘

    خواجہ صاحب نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو خوفزدہ فوزی بھی پیچھے ہی کھڑا تھا۔ انہوں نے خاموشی سے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنی چارپائی پر آکر لیٹ گئے۔

    ’’اوئے فوزی پُتر۔۔۔ تم میرے پاس ہی سو جا ؤ۔‘‘

    خواجہ صاحب نے پرسکون ہوتے ہوئے فوزی کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ ’’لیکن دادا۔۔۔؟‘‘

    فوزی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ وہ خوف سے تھرتھر کانپ رہا تھا۔

    ’’اوئے۔۔۔ تجھے بولا ہے نا۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔ شاباش سو جا۔ ایسے ہی رقابت کا سفر جسموں کے ادھورے ملاپ میں طے کر رہے ہیں۔‘‘

    وہ خود کلامی میں بڑبڑائے۔

    ’’چل ادھر میرے ساتھ ہی پلنگ پر سو جا۔‘‘

    خواجہ صاحب نے اسے ایک تکیہ دیتے ہوئے کہا۔ خود انہوں نے سکون سے چادر اوڑھی اور فوزی کے کپکپاتے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے گہری نیند میں چلے گئے لیکن وہ منظر فوزی کے اندر پوری شدت سے ہمیشہ جاگتا رہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے