Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیٹ کی آگ

MORE BYسہیل عظیم آبادی

    برسات کا موسم ختم ہو چکا تھا اور دھیرے سردی اپنا پرا جما رہی تھی، جب تیز ہوا چلتی تھی تو ٹھنڈ بجلی کی لہروں کی طرح بدن میں دوڑ جاتی تھی۔ بھیانک اور کالی رات آدھی سے زیادہ جا چکی تھی، سارے شہر پر سناٹا چھایا ہوا تھا، بازاری کتے ادھر ادھر مارے پھر رہے تھے، یا پولس کے سپاہی اپنی ڈیوٹی کے مطابق گھوم گھوم کر پہرہ دے رہے تھے اور آسمان سے چمکتے تارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دنیا پر موت کے اس چھائے ہوئے سناٹے کو دیکھ رہے تھے۔

    غریب رحیم دن بھر تھکا ہارا اور بھوکا تھا، رات اتنی جاچکی تھی مگر وہ ابھی بجلی کے ایک کھمبے سے لگا کھڑا تھا، کچھ سوچ رہا تھا، اس کے بدن پر پھٹے اور میلے کپڑے تھے، جن کو چھیدتی ہوئی ٹھنڈی ہوا اس کے بدن میں گھس رہی تھی، شبنم کی دھیمی دھیمی پھوار پڑ رہی تھی، اور اس کے کمزور بدن کو ٹھنڈا کر رہی تھی۔

    ٹھنڈی ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور رحیم کانپ گیا، اس نے بدن کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور ہلایا، پھر اوپر بجلی کی روشنی کو دیکھا، شبنم گرنے کی وجہ سے اس سے مدھم روشنی پھوٹ پھوٹ کر پھیل رہی تھی۔ بدن ہلا تو بھوک نے پھر کروٹ لی، پیٹ میں آگ لگ گئی، وہ بےچین ہو گیا، مگر جلدہی سردی نے اس کے خیال کو بھوک کی طرف‘‘ سے‘‘ بٹا کر اپنی طرف پھیر لیا، رحیم نے للچائی نظروں سے ان بڑے بڑے مکانوں کو دیکھا جو سڑک کے دونوں طرف ایک قطار سے کھڑے تھے۔ اس کے دل سے ایک چپ آہ اٹھی اور بیکسی کے ساتھ اس کے دل ہی میں ڈوب کر رہ گئی۔ پھر اس نے دور ایک چھوٹے سے مکان کو بھی دیکھا اور سوچنے لگا کہ وہیں جاکر آرام کرے، مگر ایک بات اس کو یاد آ گئی، دس بجے کے لگ بھگ ایک بار وہ اس مکان میں جا چکا تھا، لیکن مکان کے مالک نے اس کو وہاں ٹھہرنے نہیں دیا تھا، اور بہت خوشامد کرنے پر بھی اس نے پروا نہ کی تھی۔

    بیچارہ رحیم بھوک اور ٹھنڈک کو دلاسا دینے کے لئے بدن چرا کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا، آخر کیا ہوگا؟ لیکن کچھ نہ سوچ سکا، غریب بیوی کی یاد نے اس کو بے چین کر دیا، جس نے چلتے ”وقت بار بار کہا تھا کہ جیسے بھی‘‘ ہو کچھ روپیہ ضرور بھیج دینا، اس کی مرجھات ہوئی جوانی اور پھیکا چہرہ، سوکھے ہوئے بدن اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی یاد آئی اور وہ کسمسا کر رہ گیا۔ گھر بھیجنا تو ایک طرف اپنے کھانے پینے کا سامان بھی نہ کر سکا، ایک ہفتہ اور چھ آنہ مزدوری۔ جس سے کبھی چنے اور کبھی ستو خرید کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا رہا۔

    جس وقت وہ شہر میں آیا تھا، اس کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے، اس کو یقین تھا کہ کچھ ہی دنوں میں اتنا کمالےگا کہ خود کھانے کے علاوہ کچھ گھر بھی بھیج سکےگا، لیکن ہوا کیا؟ سارے دن شہر کی خاک چھانتا رہا، نہ کوئی نوکری ملی، نہ ایک پیسہ کی مزدوری۔ دوسرے دن ایک آنہ ملا، آدھا من بوجھ ایک بابو صاحب کے گھر پہنچانے کے لئے، بھوکا تھا، ایک آنہ کا ستو کھا گیا، تیسرے دن دو آنے ملے، اس کا دل بڑھ گیا، ایک آنہ خود کھایا اور ایک آنہ بچا لیا، لیکن چوتھے دن پھر کوئی کام نہ ملا۔ اسی طرح وقت کٹتا رہا، جب مزدوری کی طرف سے آس ٹوٹ جاتی تو نوکری ڈھونڈنے لگتا اور جب نوکری کی طرف سے نا امید ہو جاتا تو بازار میں آکر مزدوری کا کوئی کام دیکھتا، لیکن اس کی ساری کوششیں بےکار ہوئیں۔

    وہ نوکری کے لئے ایک بابو صاحب کے یہاں گیا اور چپ کھڑا رہا، ڈر سے زبان نہ کھلی۔ بابو نے خود ہی کہا، ’’ہٹا کٹا ہو کر نوکری کیوں نہیں کرتا، بھیک مانگتے شرم نہیں آتی؟‘‘ اس نے دبی زبان سے جواب دیا، ’’حضور میں بھیک نہیں، نوکری چاہتا ہوں۔‘‘ بابو نے کرسی پر کروٹ بدلتے ہوئے کہا، ’’تجھے نوکری کون دےگا، نہ جانے چور‘‘ ہےکہ ڈاکو، جا کسی دوسری جگہ جا، میرے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ وہاں سے واپس آیا، دوسرے اور تیسرے دروازے پر گیا، لیکن اسے نوکری نہ ملی‘‘ گھبراکر پھلوں اور ترکاریوں کے بازار میں آیا، ایک بابو نے اکڑ کر پوچھا، ’’ارے تم مزدور ہو؟‘‘

    رحیم نے بڑی امید کے ساتھ جواب دیا، ’’جی ہاں سرکار۔‘‘ بابو صاحب بولے، ’’تیری ٹوکری کہاں ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’سرکار میرے پاس ٹوکری نہیں ہے۔‘‘ بابو صاحب نے ”منہ سے سگریٹ کا دھواں اڑاتے‘‘ ہوئے کہا، ’’تو میرا کام تجھ سے نہیں چلے گا، میرے پاس سامان زیادہ ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں اپنی چادر میں‘‘ باندھ کر سامان پہنچا دوں گا۔ ”مگر بابو صاحب نے ایک دوسرے مزدور کو آواز دی۔ یہ آگے بڑھ کر کچھ کہنا چاہتا تھا کہ آنے والے مزدور نے اس کو گالی دی اور دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا اوور ساری ترکاریاں اپنی‘‘ ٹوکری میں اٹھا کر چلتا بنا، یہ منہ دیکھتا رہ گیا۔

    رحیم ساری باتوں کو سوچ رہا تھا۔ اتنے میں ایک سپاہی آیا، اس نے دیکھا اور رحیم کے سرپر ایک چپت مار کر بولا، ’’ابے۔۔۔ یہاں کیا کر رہا ہے، چوری کرنے کا ارادہ تو نہیں؟‘‘ رحیم نے سر اٹھا کر دیکھا اور لال پگڑی کو دیکھ کر کانپ گیا، کانپتی ہوئی آواز میں بولا، ’’نہیں حضور، میں بہت غریب آدمی ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر یہاں کیوں بیٹھا ہے بے۔۔۔‘‘

    ’’حضور میرا کوئی گھر نہیں ہے جہاں رہوں۔‘‘ سپاہی نیک آدمی تھا، دو چار گالیاں دے کر اپنی راہ چلا گیا، وہ پھر ساری باتیں سوچنے لگا۔ پھر اس کو خیال ہوا کہ اگر صبح کے وقت کوئی کام نہ ملا تو کیا ہوگا۔

    اسی ادھیڑ بن میں رات ختم ہو گئی، اور گھنٹہ گھر سے چار بجنے کی آواز آئی، ستاروں ک روشنی پھیکی پڑنے لگی، رحیم ایک لمبی جمائی لے کر کھڑا ہو گیا اور اسٹیشن کی طرف چلا کہ شاید وہاں کوئی مزدوری مل جائے۔ وہ اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا، مگر بھوک سے اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے، اسٹیشن کی طرف سے کچھ سواریاں آتی دکھائی دیں، اس کی ہمت اور امید بڑھ گئی، وہ تیزی سے قدم اٹھانے لگا۔ دو چار گاڑیاں اس کے پاس سے ہوتی ہوئی نکل گئیں اور سڑک پر سناٹا ہوگیا، اسٹیشن اب بھی دور تھا، گاڑی آنی بند ہو گئیں تو اس کی ہمت اور امید ٹوٹ گئی، اس کو یقین تھا کہ مسافر چلے گئے ہوں گے، لیکن اس کے پاؤں بڑھتے ہی گئے۔

    تھوڑی دور گیا تھا کہ ایک عورت دکھائی دی، اس کے پاس کافی سامان تھا، اور وہ اس کو مشکل سے اٹھائے چلی آ رہی تھی، ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بکس تھا، رحیم اس کے پاس گیا اور بولا، ’’لاؤ ماں میں پہنچا دوں جو جی میں آئے دے دینا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے بکس کی طرف ہاتھ بڑھایا، عورت نے جھٹکے کے ساتھ بکس کو کھینچ لیا اور بگڑ کر بولی، ’’الگ رہ۔‘‘ بکس سے جھن سے آواز آئی، رحیم کے ”دل میں بہت سی باتیں تیزی کے ساتھ آئیں اورنکل گئیں، دل نے پلک مارتے ہی بہت سی کروٹیں لے لیں، اس کا ہاتھ پھر بکس پر مضبوطی کے ساتھ پڑا، عورت کے ہاتھ سے چھوٹ کر اس کے ہاتھ میں آ رہا، عورت کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی، ’’چو۔۔۔‘‘

    لیکن رحیم کا دوسرا ہاتھ عورت کے منہ پر پڑا۔۔۔ پھر حلق۔۔۔ اس نے عورت کو زور سے دھکا دیا، وہ دور جا گری، سارا سامان ادھر ادھر تتر بتر ہو گیا۔۔۔ عورت سڑک پر تڑپ رہی تھی اور رحیم آہستہ آہستہ‘‘ چھٹتے ہوئے اندھیرے میں تیزی کے ساتھ نظر سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا۔

    مأخذ:

    الاؤ (Pg. 131)

    • مصنف: سہیل عظیم آبادی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے