Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھسلن

MORE BYمحمد حسن عسکری

    جمیل کا تو اس طرف خیال تک نہ گیا تھا، مگر ذاکر کے غیر متوقع طرزعمل نے اس کے دل میں بھی دلچسپی، ورنہ کم سے کم کھرچن سی تو ضرور پیدا کردی۔ وہ ہوا یوں کہ ایک دن مردانے میں ذاکر جمیل کی کمر میں ہاتھ ڈالے پلنگ پربیٹھا تھا کہ یکایک اندر سے نذرو نمودار ہوا۔اس نے ایک لمحے کے لیے ٹھٹک کرکمرے کے باشندوں کا جائزہ لیا، اور پھر شانے چوڑے کیے، سینہ اٹھائے، اپنی موٹی میلی سوتی بنیان کی، جس کے مختلف رنگ عرصے کے استعمال سے گھل مل کراب ایک چتیوں دار بھوری رنگت میں تبدیل ہو چکے تھے، آدھی آستینوں سے نکلی ہوئی بانہوں اور ٹخنوں سے اونچی دھاری دار تہمد ہلاتا، بغیر کسی طرف دیکھے اپنے گلے کے سیاہ ڈورے کو ہاتھ سے گھماتا ہوا لاپروائی سے سیدھا میز کی طرف چل دیا۔ نذرو کے داخل ہوتے ہی ذاکر کی بھنوئیں اوپر اٹھ گئی تھیں، اور اس کی آنکھیں نذرو کے چہرے پر گڑ چکی تھیں۔ نذرو کے چلنے کے ساتھ ساتھ ذاکر کی آنکھیں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلیں اور جمیل کے کندھے کوجھٹکا دے کر بایاں ہاتھ اپنے گھٹنے پر فیصلہ کن انداز سے رکھتے ہوئے ایک بھوں اوپر چڑھا کر اور دوسری نیچ کھینچ کر ترچھی سلوٹوں سے جتے ہوئے ماتھے اور طنز سے مسکراتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پوچھا: ’’یہ کون صاحب ہیں بھئی؟‘‘

    ’’ارے! تمہیں نہیں معلوم؟‘‘ اور اس کے یہاں ذاکر کی آمدورفت کی تعداد کو دیکھتے ہوئے جمیل کا تعجب بے جا بھی نہ تھا‘‘۔ یہ نوکر ہے ہمارا نیا۔۔۔ نذرو۔۔۔ کمال ہے یار، تمہیں اب تک خبر نہ ہوئی۔۔۔ ہیں؟‘‘

    اس سوال کے جواب کی اہمیت پر غور کئے بغیر، ذاکر نے کہا ’’یعنی آپ کو بھی یہ شوق ہوا۔ یہ کب سے؟ کیا ارادے ہیں آخر؟‘‘ اس کی شک و شبہ سے بھری ہوئی آنکھوں کی تیزی اور چمک، اور ان کے جھکے ہوئے کناروں کے ساتھ اب دو ہونٹ بھی ہنسنے کے لیے کھل چکے تھے۔

    جمیل کا دل نہ چاہتا تھا کہ اس گفتگو کو محض مذاق سے زیادہ وقعت دے، مگر اس نقطہ نظر کے انوکھے پن نے اسے ایسا مجبور کردیا کہ شام تک جتنی مرتبہ بھی نذرو اس کے سامنے آیا، اس نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھ کر اس نظریہ کی صداقت معلوم کرنے کی کوشش کی، مگر ہر دفعہ یہی فیصلہ کرنا زیادہ خوشگوار معلوم ہوا کہ ذاکر صرف اسے چڑا رہا تھا۔ تاہم اسے اپنے نئے نوکر کی شخصیت کچھ عجیب و غریب، اجنبی اور پر رمز ضرور معلوم ہورہی تھی، آج سے نہیں بلکہ پہلے ہی دن سے۔ وہ آکر بڑے لاابالیانہ پن سے ہاتھوں کو پیٹ کے اوپر ایک دوسرے پررکھ کر دھوپ میں جا کھڑا ہوا تھا۔ اور ہاں، اس نے کسی کو سلام تک نہ کیا تھا۔ جب اس سے نوکری کرنے کو پوچھا گیا تو اس نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا تھا ’’ہاں ہاں، جی۔ کیوں نہ کریں گے؟‘‘ اسے دعویٰ تھا کہ وہ ہر کام کر سکتا ہے۔ جب اس سے تنخواہ کے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے اپنا زردی مائل بے رنگ لمبا صافہ اتارا، اور اسے جھاڑ کر دوبارہ باندھتے ہوئے ایسے انداز میں کہا گویا تنخواہ آخری چیز تھی جس سے اسے دلچسپی ہو سکتی تھی۔ ’’اجی، جو بھی دل چاہے دے دینا‘‘۔ اور اس نے تین روپے پرکوئی اعتراض کیا بھی نہیں۔ دو دن تک وہ بہت خاموشی اور سستی سے اپنا کام کرتا رہا، مگر تیسرے دن اس نے بالکل غیر متوقع طرز گفتگو اختیار کیا۔ جب جمیل اسکول جانے سے پہلے باورچی خانہ میں بیٹھا کھانا کھارہا تھا تو نذرو نے نہایت رازدارانہ لہجے میں کہا ’’اجی آج ایک سالی عجیب بات ہوئی۔۔۔سنائوں میں جمیل میاں، وس کو تمہیں؟‘‘نذرو کے تنے ہوئے کان، گول گول پھرتی ہوئی آنکھیں، ہنسی میں کھلے ہوئے ہونٹ، اس کی ناک کے دونوں طرف سرخی کی جھلک، اور گالوں میں پڑے ہوئے گڑھے کو دیکھ کر جمیل ہچکچایا اور ا س کے منہ سے نوالے میں سے پھنستی پھنساتی ایک نیم رضامند ’’ہوں‘‘ نکلی۔نذرو کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ ’’یہ جو برابر میں لالہ رہتے ہیں نا، اجی یہی دیوار تلے‘‘۔ نذرو ہر شخص اور ہر چیز کی بہن کے بارے میں اپنے فاسد خیالات کا بلا جھجک اظہار کیا کرتا تھا۔ اور اس وقت بھی وہ اسے چھپا نہ رہا تھا۔ ’’تو آج جو میں ذرا کوٹھے پہ گیا جمیل میاں، تو کیا دیکھا کہ وس کی بیوی سالی، بس بالکل ویسے ہی بیٹھی تھی۔۔۔ بس ایک ساڑھی لپیٹ رکھی تھی وس نے۔ اور اب کیا بتائوں بھئی لو۔۔۔لاحول بلا۔ لاحول بلا۔ سب دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ توجی، اتنے میں وس کامیاں۔۔۔لالہ۔‘‘ نذرو اور قریب کھسک آیاتھا اور جمیل کا ساراچہرہ گلابی ہو گیا تھا، اور وہ جلدی جلدی نوالے توڑ رہا تھا۔ ’’توجی وس نے آتے ہی وس کے لے کے پلنگ۔۔۔‘‘ جمیل کے پھندا لگ گیا اور وہ کھانستا ہوا گھڑوں کی طرف بھاگا، اور پانی پی کر سیدھا چل دیا۔ اس کے کسی نوکر نے کبھی اس سے ایسا ذکر نہ کیا تھا۔ اس چیز نے اسے شش و پنج میں ڈال رکھا تھا۔ او رپھر آج کی ذاکر کی باتیں۔ وہ نہایت مضبوط دلیلوں اور مثالوں سے اس سب کی اہمیت کم کرنے اور اسے کوئی غیر معمولی چیز نہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا، مگر پھر اسے اپنے فیصلو ں پراعتبار نہ آتاتھا۔

    اگلے دن تک یہ بات اسکول میں پہنچ گئی۔ درمیانی وقفے میں جب نویں کلاس کے لڑکے نیم کے پیڑ کے نیچے جمع ہوئے توایک پوری ٹولی نے جمیل کو گھیر لیا۔

    ’’اونچے جارہے ہیں بھئی جمیل بھی آج کل‘‘۔

    ’’خیرمیاں شکر کرو، یہ اس قابل توہوئے‘‘۔

    ’’ابے ہٹا۔ یہ! اس مرے یار سے آتا ہی کیا ہے سوائے گھوٹنے کے، کسی کے سامنے بات توکر نہیں سکتا، بڑا بنا ہے کہیں کا وہ‘‘۔

    ’’مکھیاں ماروگے بیٹا‘‘۔ مرزا بیدار بخت نے نصیحت کی۔ ’’سب بھول جاؤ گے یہ فرسٹ ورسٹ آنا‘‘۔

    جمیل ان سب کے جواب میں جھینپ جھینپ کر روکھی ہنسی ہنس رہا تھا اور خالی نگاہوں سے ان کے چہرے دیکھ رہا تھا۔ لیکن وہ اسے وقتی تفریح سمجھ کر ٹلا نہ سکتاتھا۔ اور شبہوں کے ساتھ ساتھ اس کی دلچسپی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ ان چیزوں سے بھی واقف ہونا چاہتا تھا جس کا یہ سب لوگ ذکر کررہے تھے اور جس کا تخیل اس کے دماغ میں نہایت غیر واضح ساتھا۔ وہ بھی علی بابا کے غار میں داخل ہونا چاہتا تھا۔

    اسی دن دوپہر کو مرزا بیدار بخت ذاکر کو ساتھ لے کر جمیل کے یہاں نمودارہوئے۔ انہوںنے اس کا پہلے ہی سے اعلان کر دیا تھا۔ مرزا جی کو بڑی پیاس لگی ہوئی تھی۔ نذرو انہیں پانی کا گلاس دے کر کھڑا ہوگیا اور اپنا سر کھجانے لگا۔ مرزا جی نے پانی کا گلاس واپس نہیں دیا۔ وہ دومنٹ تک اس کا جائزہ لیتے رہے اور پھر بولے۔ ’’کہو دوست کیا نام ہے تمہارا؟‘‘

    ’’ہمارا نام؟ کیا کروگے پوچھ کے ہمارا نام؟‘‘ اس نے بے توجہی سے کہا۔

    ’’کچھ برائی ہے پوچھنے میں؟‘‘

    ’’ہمارا نام ہے سید نذیر علی!‘‘ نذرو نے بتلایا۔

    ’’او ر نذرو؟‘‘ مرزا جی نے پوچھ لیا۔

    ’’اب ہم غریب آدمی ہیں، چاہے جو کہہ لو‘‘۔

    ’’رہنے والے کہاں کے ہو تم؟ اچھا بیٹھو، بیٹھو، باتیں کرنی ہیں تم سے‘‘۔

    نذرو پلنگ کے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ یوں تو کبھی کبھی اسے کرسی پر بیٹھنے میں جمیل کا لحاظ نہ ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت اس کی نشست بتارہی تھی کہ وہ اپنے آپ کو مواخذے سے مامون سمجھ رہا ہے۔

    اس نے ماتھے اور سر پراپنا چوڑا اور موٹا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’اجی کیاپوچھو ہو۔۔۔ ہم غریبوں کا رہنا رہوانا‘‘۔

    ’’ابے سالے؟‘‘ مرزا جی نے پہلو بدل کر ڈانٹا۔ ’’اکڑ گیاکرسی پہ بیٹھ کے ! بتاتا ہے کہ کی جائے قانونی کاروائی تیرے ساتھ‘‘۔

    نذرو ایک دم ہنس پڑا۔ اس کا ہاتھ سر سے گھٹنے پر آگیا۔ پیچھے کھسک کر اس نے مانوس اور مصالحانہ انداز میں ٹانگیں پھیلا لیں۔ اور بغیر کسی مزید، گو متوقع، سوال کے اپنی پوری سوانح حیات سنا ڈالی۔ ’’رہنے والے توہم ہیں عنایت پور کے۔ ہمارے والد ہیں سید مقبول احمد۔ دیکھا ہوگا آپ ہے۔ بہت آتے ہیں وہ تو شیر‘‘۔ مرزا جی کے انکار سے مایوس ہوئے بغیر اس نے اور زیادہ اعتماد کے ساتھ دوسری شہادت پیش کی۔ ’’اچھا، تو یہ ہیں نا سید اشفاق علی۔ یہ بزار کے نکڑ پرجو رہویں ہیں۔۔۔ موٹے سے۔۔۔ بڑی بڑی مونچھیں فوٹو گراف کے رکاٹ بغل میں دبائے جو پھرتے ہیں۔ یہی تو ہیں ہمارے خالو۔۔۔ سگے خالو ہیں یہ ہمارے۔۔۔ تو ابا جو تھے ہمارے۔۔۔ وہ تھے اس قدرکے ظالم کے بس۔ جب میں پڑھنے نہ جاتا تو مار دیویں تھے ایسی بودی کہ دس سال کاتھا میں وس وخت۔ ایک دن جو مارا انہوںنے مجھے، تو مجھے آیا بڑا غصہ، میں بھاگ کر بدلو جلاہے کی پھلیح پہ جا بیٹھا۔ وس نے مس سے کہا چل بے دلی۔۔۔ شیشے کے کرخانے میں۔ میں وسی کے ساتھ چل دیا۔ بس جی وہ دن ہے اور آج کا دن۔ قسم لے لو مس سے جو پھر گھر میں جھانکا بھی ہوں۔ پانچ سال ہو گئے اور پھر والد نے کی بھی بڑی کوشش، لیکن میں ون کے نہ آیا جھانسے میں۔۔۔دلی میں میں شیشے کے کرخانے میں نوکر ہو گیا تھا۔ کرخانے والا بس بیٹے کے برابرسمجھتا تھا مجھے، جو چیز چاہے اٹھائوں چاہے رکھوں۔ اور پیسوں کے معاملے میں بچارے نے کبھی مجھ سے نا نہیں کی۔ بڑی محبت تھی وسے مس سے۔ ایک دن میں رانگ آگ پہ رکھ کے ذرا نیچے بزار میں اترگیا۔ وہاں ایک لونڈا سالا کرنے لگا مجاخ، بس اسی میں دیر ہو گئی۔ آکے جو دیکھ میں نے تو رانگ الٹا پڑا تھا۔ کرخانے والا بہت بگڑا مجھ پہ۔ خیر ایسی بات کا تو میں برا بھی نہ مانتا، پر وہ مجھے گالی دے بیٹھا۔ وخت کی بات آگ لگ گئی میرے بدن میں۔ میں وس سے لڑکے نکل گیا۔ کئی دن پھرا وہ میرے پیچھے پیچھے۔ خوشامد کرتاوا کہ چل، چل، اتی سی بات کابرامان گیا۔ پرساب، یہ دیکھ لو کہ میں نے ہی نہ سنی وس کی بات۔ سید ٹھہرے پھرہم بھی۔ کوئی رعیت تھے وس کی۔ وس سے کہہ دیا میںنے کہ لے تیری خاطر ہم نے دلی بھی چھوڑی۔ بس میں وہاںسے یہاں چلا آیا۔

    اس دن سے مرزاجی، اور خصوصاً ذاکر کی آمدورفت پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی۔ لیکن جمیل محسوس کررہا تھا کہ اس کی کمر کے گرد ذاکر کے ہاتھ کی گرفت بہت کمزور پڑ گئی ہے۔ ان دونوں کو آتے ہی پانی یا پان کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اور جتنی دیر وہ بیٹھتے، ا سکا زیادہ حصہ نذرو سے دل کے بازاروں، گلیوں، کارخانوں، اور سڑکوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں گزرتا۔ نذرو کی وہ پہلے والی کسالت، سستی اور خاموشی سرے سے غائب ہو چکی تھی۔اب اس کی چال میں پھرتی آچکی تھی، اور وہ دن میں تین چاربار منہ ہاتھ دھونے لگا تھا۔ اس کا صافہ اب باورچی خانے کی کھڑکی میں پڑا رہتا تھا اور اس کے چھوٹے گھنگریالے بال، جن پر پہلے خشکی جمی رہتی تھی، کڑوے تیل سے سیاہ او رچمکدار نظر آنے لگے تھے۔ وہ اپنے بنیائن اور تہمد کو بھی ایک دفعہ کنوئیں پر پچھاڑ چکا تھا۔اس کی ٹین کی ڈبیا اب کبھی بیڑیوں سے خالی نہیں نظر آتی تھی۔ بلکہ اس کے گلے کا ڈورا بھی ریشمی ہوگیا تھا۔ باتونی بھی وہ اس بلاکاہوگیا تھا کہ اسکے دلی کے متعلق قصے کبھی ختم نہ ہوتے معلوم ہوتے تھے۔ لیکن مرز اجی اور ذاکر اسے دو اچھے سامعین مل گئے تھے۔ اور ان دونوں سے تو اس کے تعلقات ترقی کرکے دوستانے کے لگ بھگ پہنچ گئے تھے۔ انہیں نذرو کے منہ کی جھوٹی بیڑیاں پینے میں ذرا تابل نہ ہوتا تھا۔ وہ اسے یار دوستوں کی سی گالیاں بھی دے لیا کرتے تھے، حالانکہ وہ ایک مرتبہ جمیل کے ’’گدھا‘‘کہہ دینے پر بھڑک اٹھا تھا۔ جب وہ مرزا جی کے جوتے چھپا دیتا توم رزا جی اسے پکڑ کرفرش پرگرادیتے اور اس کے گالوں اور سینے پرچٹکیاں لیتے، یہاں تک کہ وہ جوتوں کا پتابتادیتا۔ جمیل نے اکثر اندر سے نکلتے ہوئے ذاکر کی بانہوں کو نذرو کے گلے میں دیکھا تھا، مگر وہ اس کے سامنے آتے ہی ہٹالی جاتی تھیں۔ نذرو نے جمیل کا کہنا ماننا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ وہ اس کی بات کو ان سنی کردیتا تھا۔ جب جمیل پڑھتا ہوتاتووہ سامنے چارپائی پر الٹا لیٹ کر اونچی جھنجھناتی آواز میں گانے لگتا۔ ’’میری جاں جلف کے پھندے بناناکس سے سیکھے ہو‘‘۔ یا ’’جانی جبنا پہ اتنا نہ اترایا کرو‘‘۔وہ جمیل کے منع کرنے پر بھی نہ مانتا، اور ہنس ہنس کر دوسرا گیت شروع کردیتا۔ ’’وہ چلے پھٹک کے چاول مری منگنی اور بیاہ کے‘‘۔ جب جمیل ضبط کی آخری حد پر پہنچنے کے بعد غصے میں دانت کچکچاتا، جوتا لے کر سیدھا کھڑا ہوجاتاتووہ جوتاچھین کر بھاگ جاتا اور پھر ہاتھ نہ آتا۔ آخرجمیل رونکھا ہو جاتا اور پھر اس سے نہ پڑھا جاتا۔ وہ تہیہ کرلیتا کہ آج ضرور وہ نذرو کو ابا کے سامنے مارے گا اور گھر سے نکال دے گا۔ لیکن جب تھوڑی دیر بعد نذرو آکر لجاجت سے کہتا ’’جمیل میاں، مجاخ کا بڑا مان گئے’’۔ تو وہ اپنے ارادے میں ترمیم کر لیتا اور نذرو کے سر پر دو تین تھپڑ جما کر، جس میں شاید اس کی باریک انگلیوں کو ہی زیادہ تکلیف پہنچتی ہوگی، اپناغصہ بھلادیتا۔ مگر اس سب کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نذرو کو جمیل کاخیال نہیں تھا۔ بغیر کہے ہی وہ جمیل کا ہرکام تیاررکھتا تھا۔ اس کے جوتے کبھی میلے نہیں رہتے تھے، اور نہ اس کے کمرے میں گرد کا نشان۔ نذرو اس کا سرپرست اور محافظ بن گیا۔ وہ ہمیشہ جمیل کو کتابیں صاف رکھنے میں، اندھیرے میں گھر سے باہرنکلنے میں، غرض ہر بات میں بزرگانہ ہدایتیں اور نصیحتیں کیاکرتا ۔ وہ مرزا جی اور ذاکر کو بھی اسے زیادہ تنگ نہ کرنے دیتا تھا۔ جمیل کو نذرو کی یہ حیثیت جو اس نے قائم کرلی تھی، گراں توضرورگزرتی تھی، اور وہ اب اپنے دوستوں کے سامنے نذروکی موجودگی میں اپنے آپ کو ایک کم اہمیت والی شخصیت محسوس کرنے لگا تھا۔ لیکن اس کے دل میں کبھی کبھی صرف ایک ہلکی اور غیر واضح جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوکر رہ جاتی تھی۔ چنانچہ اس نے نہایت آسانی سے نذرو کو اپنے اوپر مسلط ہوجانے دیا۔ مرزاجی اور ذاکر کے نذرو کی طرف متوجہ ہو جانے سے اب وہ اسے پریشان نہ کرتے تھے، اور وہ اپنے آپ کوکچھ ہلکا سا پاتا تھا۔ نذرو کی خبر گیری اور توجہ سے اس کے کام بغیرکسی تکلیف کے ہو جاتے تھے اور اب اسے اپنی کتابوں اور رسالوں کے رومانی افسانوں میں وقت گزارنے کا پہلے سے بہت زیادہ موقع ملنے لگاتھا اس لیے اس نے نذرو اوراس کے برتائو کو بغیر کوئی اہمیت دئیے یا بغیر کسی تشویش کے یوں ہی چلنے دیا اور اپنے پہلے استعجاب کو تحلیل ہوجانے دیا۔

    لیکن اس کا استعجاب دوبارہ زندہ ہوا۔ وہ اس وقت جب مرزا جی اور ذاکر کی آمدورفت بڑھنے کے بعد پھر گھٹتے گھٹتے بہت کم رہ گئی تھی۔

    اس کے ملنے والوں کے دو گروہ تھے۔ایک تواس کے ساتھی، نویں کلاس کے کچھ لڑکے،یہ سب اس سے کافی بڑے تھے اور سب اپنے اپنے استروں کا انتخاب کرچکے تھے۔ یہ جمیل کی طرح دبلے پتلے کمزور اور منحنی نہ تھے، بلکہ ان کی چوڑی ہڈیاں، اٹھے ہوئے کندھے اور بھرے ہوئے ڈنڈتھے۔ یہ لوگ جب آتے تو اس سے الگ ہو کر بیٹھنا توجانتے ہی نہ تھے۔ وہ کبھی تو اس کی گردن میں ہاتھ ڈالتے، کبھی اسے سینے سے لپٹا کر بھینچتے، یہاں تک کہ اس کاچہرہ سرخ ہو جاتا اور اس کی پسلیاں ٹوٹنے سی لگتیں۔ کوئی اسے گود میں بٹھاتا، کوئی اس کے سینے کی کھال کھینچ کھینچ کرلال کر دیتا، کوئی اس کے بال بکھیر دیتا۔ اور پھر ان لوگوں کی چمکتی ہوئی آنکھوں اور پھڑکتے ہوئے نتھنوں اور پھیلے ہوئے ہونٹوں سے معلوم ہوتاکہ ان کی تسکین نہیں ہوئی ہے۔ ان کے جانے کے بعد وہ تھک کر بالکل چور ہو جاتا، اس کے دماغ سے ہر قسم کے خیالات غائب ہو جاتے اور وہ افسردگی سے چارپائی پر پڑا رہتا۔ بعض دفعہ تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے گالوں پر ایسا لیس دار تھوک لپ جاتا کہ اسکی کھال کھینچتی ہوئی معلوم ہونے لگتی۔ دو دو تین تین مرتبہ منہ دھونے کے بعد بھی اسے محسوس ہوتا کہ یہ نجاست اس کے چہرے پر اسی طرح نمایاں ہے اور وہ غسل خانے سے نکل کر گھروالوں کی نظروں سے بچتاہوا سیدھا اپنے کمرے میں چلا جاتا۔اتنے لوگوں کو اپنامداح پاکر اسے ایک گونہ تسلی تو ضرور ہوتی تھی۔ مگر اسے ان کی یہ حرکات عجب مہمل اور لغو نظرآتی تھیں۔ ان کا مقصد اس کے لیے مبہم اور مشکوک ساتھا، اورنہ اس کی متانت نے ان لوگوں کو ان حرکات کی غرض و غایت کو زیادہ واضح کرنے دیاتھا۔ جب وہ جاتے تو اس کے لیے بس اتنا چھوڑ کر جاتے، تھکا ماندہ جسم، دکھتی ہڈیاں، نچے ہوئے گال، گرم کنپٹیاں، درد کرتاہوا سر اور چڑچڑامزاج۔ اور پھر ان سے بچنا بھی خوشگوار نتائج پیدا نہ کر سکتا تھا۔ یہ ممکن تھا کہ وہ اندر سے کہلوا دیا کرے کہ وہ گھر پر موجود نہیں ہے، لیکن اس نے خود دیکھا تھا کہ ایک مرتبہ شمس الدین نے شرط بد کر گھونسے سے کرسی کا تختہ توڑ دیاتھا اور عنایت علی کے ہاتھ کی قوت تو خود اس کی انگلیاں پنجہ لڑانے میں محسوس کر چکی تھیں۔

    ملنے والوں کے دوسرے گروہ میں نیچی کلاسوں کے لڑکے تھے۔ چھٹی سے لے کر آٹھویں تک۔ یہ سب جمیل کے ہم عمر یا اس سے کچھ چھوٹے تھے۔ یہ لوگ پہلے گروہ کی غیر موجودگی میں آتے تھے اور انہی میں جمیل کو زیادہ کھل کر ہنسنے بولنے اور تفریح کرنے کا موقع ملتا تھا۔پھر ان پر اس کا رعب بھی خاصا تھا۔ اگر وہ کبھی ذرا ناراضگی کا اظہار کرتا تو سب کی ہنسی رک جاتی تھی اور وہ مجرمانہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکےن لگتے تھے۔ تاہم وہ بڑی حد تک ان کے مذاق کا برا بھی نہ مانتا تھا۔ بعض بعض دن توجب وہ دوپہر کی گرمی اور خاموشی میں بے چینی سے اکیلا کروٹیں بدلتا ہوتا اور کہیں ساتویں کلاس والا مظہر آنکلتا تواس کادل تیزی سے حرکت کرنے لگتا۔ اپنی قمیض کے دامن کو ہاتھوں سے ٹانگوں کے قریب تھامے ہوئے وہ مظہر کو کسی بہانے کونے کی طرف لے جاتا اور اس کا کندھا پکڑ کر ہچکچاتے ہوئے جلدی سے اس کے گال پراپنے ہونٹ رکھ دیتا اور فوراً پیچھے ہٹا لیتا۔ گال ٹھنڈا، چکنا اور پھیکا سا ہوتا، مگر اسے محسوس ہوتا کہ اس کی بے چینی یک لخت مدھم پڑ گئی، اسے اپنی یہ حرکت کچھ بے معنی اور احمقانہ سی معلوم ہونے لگتی۔ وہ دل ہی دل میں حیرت سے ہنستا۔ پھرکچھ شرماکر بیٹھ جاتا۔ اور مظہر سے اس کی پڑھائی کے بارے میں پوچھنے لگتا۔

    غرض اسی گروہ نے جمیل کودوبارہ نذرو کی طرف مستفسرانہ نظروں سے دیکھنے پر مجبور کیا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ ان لوگوں میں بھی نذرو کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ ایک دن نذرو کی موجودگی میں، مشتاق نے مذاق اور قہقہوں اور چیخوں کے درمیان اپنی آواز کو بلندکرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’بھئی آج یہ طے کرو کہ دونوں میں سے کون اچھا ہے، مالک یا نوکر‘‘۔ اپنے نوکر کو اس نئی روشنی میں دیکھے جانے کے خوف سے جمیل کی ناک کے دونوں طرف سرخی جھلک آئی اور اسے اپنی کھال سکڑتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔ مگر اس نے اس ترکیب میں اپنی آخری امید سمجھتے ہوئے مسرور کوزور سے دھکا دیا۔ ’’ابے، میرے اوپرگراہی پڑتا ہے‘‘۔ اسے توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ مسرور کے دھکے سے میز گر پڑی، اور اس نے سب کو کتابیں چننے میں لگا دیا۔

    اب جمیل کی آنکھیں زیاد ہ تجسس سے اور شک آمیز حیرت سے نذرو کے چہرے اور جسم کو ٹٹولا کرتی تھیں۔ مشتاق نے ایسا ذکر چھیڑ کر اس کے جذبہ افتخار کو ایک بے پناہ ٹھیس لگا دی تھی۔ اس نے اپنے دوستوں کے دوسرے گروہ سے بھی ملنا اب بہت کم کردیا تھا۔ کیونکہ اسے ان کے متفقہ فیصلے کا، جوممکن تھا اس کے خلاف ہوتا بہت ڈر تھا۔ مگروہ اس خیال کو اپنے دل سے کسی طرح دور نہ کر سکا۔ اسی لیے وہ اپنے خطروں کو دلیلوں سے دور کرنے کی پیہم کوشش کرتا کہ ایک نفرت آمیز ’’ہنہ‘‘ کے ساتھ اس کی ہر طرف سے نظریں پھیر لے۔ نذرو کی انگلیاں، وہ سوچا کرتا، کیسی موٹی موٹی گنواروں کی سی ہیں اور اسی طرح اس کے بھدے پیر، بغیر بالوں والی پنڈلیاں کیلے کے پیڑ جیسی ہیں، بیچ میں سے مڑا ہوا، ایک دانت آدھا ٹوٹا، ادرک کی گانٹھ جیسے کان، چھوٹی اور گھنی گردن، پھیلاہوا پیٹ، گالوں میں ہنسی کے وقت گڑھے پڑ جاتے ہیں جیسے بازاری عورتوں کےایک نفرت آمیز ’’ہنہ!‘‘ لیکن اس ’’ہنہ‘‘ کے باوجود وہ اسے دوسری دفعہ دیکھنے پر مجبور ہوتا۔ اس کے گندمی رنگ میں سفیدی کی چھینٹ ہے۔ آنکھوں کے نیچے ہڈیوں پر توذرا سی سرخی بھی جھلکتی ہے، کھال تنی ہوئی ہے مگر چکنی اورچمک دار۔ ٹھوڑی کیا گول ہے! چال کے لاابالیہ پن میں نہ معلوم یہ ہلکی سی کشش کیوں ہے۔ آنکھیں گول مٹول سہی، مگر متجسس اور چمکتی ہوئی۔ اس کی گردن پرذرا میل نہیں جمتا۔ بازوئوں کی مچھلیاں کیسی حرکت کرتی ہیں۔ چہر ہ گولائی لیے ہوئے ہے۔ جمیل خود اپنی رائے سے بھی خوف زدہ ہو جاتا اور فوراً کوئی کتاب اٹھا لیتا۔ جو دس منٹ سے زیادہ اس کی مدد نہ کر سکتی۔ آستینیں اوپر کھینچ کروہ اپنی بانہوں کو اوپر سے نیچے تک دیکھتا، گندمی رنگ، پتلی پتلی لکڑیاں سی، ہلکے ہلکے بال۔ کچھ مطمئن ہوکر وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا۔ ایک نرم، نہایت نرم ، روئی کی طرح۔ ۔۔ اور چکنی سطح پراس کی انگلیاں پھسلتیں۔ یقین کو عین الیقین بنانے کے لیے وہ آئینہ اٹھا لیتا۔ بڑی بڑی سیاہ، بادامی، لمبی پلکوں والی آنکھیں آئینے میں سے دیکھ کر اس کی طرف جھانکتیں۔اسے ایسی خوشی ہوتی گویا اس نے کوئی نئی دریافت کی ہے۔ دودھ جیسے سفید اور بلند ماتھے پر سیاہ چمک دار بالوں کی ، جن میں پیچھے کی طرف ہلکا سنہر ا رنگ جھلکتا تھا، کوئی لٹ پڑی ہوتی، زردی مائل سفید رنگ میں آنکھوں کے نیچ کافی دور تک سیب کی سی سرخی ملی ہوئی ہے۔ ناک لمبی مگر پتلے ہونٹ خاصا نعم البدل ہیں۔ کانوں کے لمبان کو بال چھپا لیتے ہیں۔ تھوڑی چپٹی ہے۔۔۔ ہے تو ہوا کرے، رنگ تو گوراہے۔ چہرہ گول نہیں ہے۔۔۔آنہہ۔۔۔ گول چہرے ہی میں کون سی خوبصورتی لگی ہوئی ہے۔ اوپر کے ہونٹ پرہلکے ہلکے بال نظر آنے لگے ہیں۔ ۔۔ مگر ایسا رواں تو جمیل نے کئی عورتوں کے بھی دیکھا تھا۔۔۔ اپنی پتلی کمر کی بدولت وہ اپنے دبلے پن کو بھی معاف کر سکتا تھا۔

    یہ نظرئیے اطمینان بخش تو ضرورتھے، مگر موازنے کا خیال جمیل کے سامنے ایک ایسے گھنائونے عفریت کی شکل میں آتا تھا جو اپنی زہر ناک حاسدانہ نظروں سے ناک اور کانوں کو کھینچ کھینچ کر دگنا لمبا کر دیتا۔ ٹھوڑی کو پھیلاتے پھیلاتے دہلیز بنا دیتا۔ چہرے کو ہر طرف سے پیٹ پیٹ کر کانیں نکال دیتا۔ اس کے رنگ کو ہلدی کی طرح دکھلاتا اور اس کی سیب کی سی سرخی کو دھندلا دیتا۔ اوپر کے ہونٹ کے ہلکے ہلکے بال گہرے اور گھنے ہونے شروع ہو جاتے اور جمیل پیچ وتاب سے تنگ آکر انہیں ناخونوں سے کھینچنے لگتا۔

    مگر نذرو کا طرز عمل بدل رہا تھا۔ اب وہ پہلے سے زیادہ اس کا خیال رکھنے لگا تھا۔ اب وہ اس کا کہنا ماننے سے انکار نہ کرتا تھا اور کم سے کم جمیل کے پڑھتے وقت وہ بالکل نہ گاتا تھا۔ بلکہ اب تواس کی غزالوں کا انتخاب بھی اصلاح پذیر تھا اور اس کا دل پسند گانا اب یہ تھا ’’کرے گا کیا ارے صیاد تو جنجیرکے ٹکڑے‘‘۔ اب وہ جمیل کے کمرے کی طرف زیادہ رہنے لگا تھا۔ جمیل پڑھتا رہتا اور وہ ایک طرف کرسی پر بیٹھا اپنا سر کھجایا کرتا اور بعض اوقات تو اونگھنے بھی لگتا۔ نہ معلوم اسے کیا سماگئی تھی کہ وہ اپنی عمر جمیل سے کم ثابت کرنے کے لیے بہت بے قرار رہتا تھا، بیٹھے بیٹھے وہ جمیل کو پڑھنے سے روک کر کہتا ’’ذرا حساب تو لگانا جمیل میاں، کہ میں کتے برس کا ہوا۔۔۔ جب میں پڑھنے بیٹھاہوں تو آٹھ سال کا تھا۔ میں تو آٹھ اور دو دس اور پانچ پندرہ۔ چھوٹا ہی ہوا نا میں تم سے؟‘‘

    جمیل چڑ سا جاتا، اسے محسوس ہوتا کہ نذرو اپنی برتری جتانا چاہتا ہے۔ ایک دوسری چیز بھی جمیل کو بہت ناگوار گزرتی تھی۔ جب وہ اپنی کتاب میں غرق لیٹا ہوتا تو نذرو اس کے پیر میں گدگدی کیے بغیر کبھی نہ مانتا۔ حالانکہ اس کے بدلے میں اسے لاتیں اور چانٹے کھانے پڑتے تھے۔ نذرو کی ایک اور عادت یہ تھی کہ وہ جمیل کے سرہانے بیٹھ جاتا اور ا سکے بالوں میں ہلکے ہلکے انگلیاں پھرایاکرتا۔ اس سے جمیل کے تھکے ہوئے اور خشک دماغ میں ایسا معلوم ہوتاگویا سکون اترتا چلا جارہا ہے اور وہ گردن کو ڈھیلا چھوڑ کر کتاب سے توجہ ہٹا لیتا۔ شروع شروع میں تواس نے نذرو کو بھگا بھگا دیا، مگر جب وہ کسی طرح بازنہ آیا تو آخر ا س نے نذرو کو یہاں تک اجازت دے دی کہ وہ کنگھا لے کر بیٹھ جائے اور جس طرح چاہے اس کے بال بنائے اور پھر بگاڑے، اور پھر بنائے اور پھر بگاڑے۔

    اخیر اکتوبر کی رات کے نو بجے تھے ، کچھ خنکی سی ہورہی تھی۔ جمیل کوٹھے پر دالان میں اکیلا لیٹاتھا۔ نذرو آیا اور اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا ’’جمیل میاں ایک بات کہوں تم سے، برا تو نہیں مانو گے؟‘‘

    جمیل دھک سے رہ گیا۔ اس کے دل کی حرکت رکتی ہی معلوم ہوئی اور ٹانگیں سنسنانے لگیں۔ کئی دن سے نذرو کا انداز ظاہر کررہا تھا کہ وہ کوئی بات کہنی چاہتا ہے۔ جمیل کو شبہ تھا کہ وہ بات غیرمعمولی ضرورہے۔ اس نے ارادہ کر لیاکہ وہ ایسی بات سنن سے جس کی نوعیت سے وہ بالکل بے خبر ہے، انکار کردے گا۔ لیکن اسے حیرت بھی ہورہی تھی۔ آخر کچھ سوچ کر اس نے رکتے ہوئے کہا ’’ہاں، کہہ‘‘۔

    نذرو نے بات کہنے کا انداز بنانا شروع کیا ہی تھا کہ قدموں کی آواز آئی۔

    یہ بات کئی دفعہ قدموں کی آواز سے ملتوی ہوہو گئی۔ لیکن آخر ایک دن ایسا آیا کہ نذرو نے نہ صرف بات کہنے کا انداز بنا لیا بلکہ بات بھی شروع کر دی، اورکوئی آواز نہ سنائی دی۔ اس نے پراسرار آواز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اجی کیا بتائوں میں نے کیسا عجیب خواب دیکھا۔۔۔ عجیب خواب تھا سالا۔۔۔ کیا بتائوں، جمیل میاں، کیا خواب تھا وہ‘‘۔

    ’’ہاں، کیا خواب تھا وہ ؟‘‘ جمیل نے بے تابی، مگر شبہ سے پوچھا۔

    ’’اجی، کیا بتائوں۔۔۔ کیاخواب تھاوہ۔۔۔ میں جب سے وسی کو سوچ رہا ہوں برابر‘‘۔

    ’’ابے تو کچھ کہے گا بھی؟‘‘

    ’’ہاں ہاں تو جی، وہ خواب۔۔۔ برا تو نہیں مانو گے، جمیل میاں‘‘۔

    ’’تو کہہ توکسی طرح‘‘۔

    لمبا سانس لے کر نذرو نے سنایا ’’برا مت ماننا، جمیل میاں، دیکھو وہ خواب۔۔۔ ہنسی آوے ہے مجھے اس خواب پہ‘‘

    جمیل نے پھر ڈانٹا۔

    ’’ہاں تومیں نے یہ دیکھا خواب میں، جمیل میاں، کہ۔۔ کہ۔۔ میں اور تم ایک پلنگ پر لیٹے ہیں‘‘۔

    بم کا گولہ پھٹا۔ مگر چوں کہ جمیل نے اسی نوعیت کی کوئی بات سننے کے لیے اپنے آپ کو پہلے سے تیار کرلیا تھا، اس لیے اس دھکے کا مقابلہ کرنے میں اس کی کوشش زیادہ کامیاب رہی۔ اس سب کو ہیں ختم کر دینے کے لیے جمیل نے اس لفظ کو انتخاب کیا ’’اچھا‘‘۔ اور اس لفظ کو اس نے ایسی آواز میں ادا کرنے کی کوشش کی جس میں کسی جذبے کی آمیزش نہ ہو۔

    نیچے سے کسی نے نذرو کو پکار کر جمیل کی مدد کی۔ اس نے جانے کے لیے اٹھتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں آنکھیں گھما کر کہا۔ ’’جمیل میاں، ویسے چاہو جتنا چاہے دق کرلو، خواب میں تو مت تنگ کیا کرو‘‘۔

    اب جمیل نذرو کی نگاہوں سے کچھ سہما سہما سا رہنے لگا۔ نذرو نے بھی اس کے کمرے میں آنا بہت کم کر دیا تھا۔ لیکن وہ اکثر جمیل کے سامنے مسکرا پڑتا تھا۔ جس سے جمیل شرمندہ سا ہو جاتا۔ گویا وہ چوری کرتا پکڑا گیا ہے۔ جب تک نذرو اس کے کمرے میں رہتا اسے سوئیاں سی چبھتی معلوم ہوتیں اور اس کا دل چاہتا کہ چادر اوڑھ کر اپنے آپ کو نذرو کی نگاہوں سے بچالے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ لیٹے لیٹے وہ کسی چیز کو اپنے پیروں کے قریب محسوس کرتا۔ کتاب سامنے سے ہٹا کر دیکھنے پر معلوم ہوتا کہ نذرو اس کے پیر سے اپنا چہرہ لگائے بیٹھا ہے۔ وہ نفرت اور غصے سے پیر کھینچ لیتا۔ مگر اب وہ نذرو کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک کے خوف سے اس کے لات نہ مارتا تھا۔اب چاہے ا سکے سر میں درد ہی کیوں نہ ہو، وہ کبھی نذرو سے سر ملنے کو نہیں کہتا تھا اور اس کے بالوں سے نذرو کی دلچسپی بھی جیسے زائل سی ہو گئی تھی۔

    رفتہ رفتہ یہ سب معمول سا ہو گیا اور جمیل نے نذرو کی طرف زیادہ خیال کرنا چھوڑ دیا لیکن ایک واقعہ سے اس کی جھینپ اور ڈر، جو اب کم ہو چلے تھے، نفرت اور کراہت میں تبدیل ہو گئے۔ پہلی مرتبہ قوالی سننے کا شوق جمیل کو عرس میں لے گیا اور رات کے خیال سے نذرو بھی اس کے ساتھ کر دیا گیا۔ جگہ تو خیر بیچ میں مل گئی، مگر کھچ پچ اتنی تھی کہ کروٹ بدلنے کا موقع نہ ملتا تھا۔ تالیوں اور ڈھول کے گھٹاکے، قوالوں کی منجھی ہوئی بے روک آوازوں کے ساتھ مل کر اپنا کام کر چکے تھے۔ ایک گیروا لباس اور لمبی داڑھی اور بالوں والے صاحب نے اپنی وارفتگی کا اظہار، آنکھیں بند کر کے جھونٹے کھانے سے بڑھ کر، اپنے مسلک کی روایتی خوش ادائی سے کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے لیے میدان خالی کر دیا گیا اور ’’جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہے‘‘ کی تکرار ہونے لگی۔ ان کی ہر فلک شگاف ’’اللہ ہو‘‘ پر ان کے سر کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر نذرو ’’اجی! اجی!‘‘ کہہ کر پیچھے ہٹتا جاتا تھا اور جمیل کے اوپر گرا پڑ رہا تھا۔ وہ بے چینی سے جمیل کا بازو کھینچ کھینچ کر کہہ رہا تھا ’’اجی جمیل میاں، مجھے توڈرلگے ہے‘‘۔ لوگ ہنسنے لگے۔ جمیل کے کان سرخ اور گرم ہو گئے اور ا سکی کنپٹیاں جل اٹھیں۔ اس دن سے جمیل کی جھجک نکل گئی اور اب وہ نذرو کی نگاہوں کا بے خوف ہو کر مقابلہ کر سکتا تھا۔ لیکن اب اس نے نذرو کو ایسی حقارت اور نفرت سے دیکھنا شروع کر دیا تھا جیسے اس کالے پیلے مینڈک کو، جو برسات میں نالیوں پر سے رینگتا ہوا بستر پر آچڑھے۔

    اپریل آگیا۔۔۔ گنگا اور جمنا کے دو آبے کا رنگ اور افسردہ اپریل۔ موسم کی خشکی، گرمی، ہوا، خاک، دھول، سالانہ امتحان کی تیاریوں، مایوسیوں اور امیدوں نے اضمحلال اور گم گشتگی کی ایک مستقل فضا پیدا کر دی تھی۔۔۔ روح پر ایک ناقابل برداشت لیکن لازمی بوجھ کی طرح۔ دوپہر کا وقت تھا۔ ہوا کمرے کے کواڑوں کو ہلائے ڈالتی تھی اور گرد نے روشن دانوں میں سے آ آ کر چہرے اور بالوں کو بھورا بنادیا تھا۔ باہر تو دھوپ کا جو کچھ بھی حال ہو، مگر کمرے میں، جہاں جمیل لیٹا تھا، گرمی کا اس قدر اثر ضرور تھا کہ اس کے جسم کو تھکا ہوا اور دماغ کو گٹھل بنادیا تھا۔ باوجود درختوں کے ہلنے کے ایک پررمز اور گراں بار خاموشی مسلط معلوم ہوتی تھی۔ جس میں دور سے کسی خوانچے والے کی آواز وحشت کا اضافہ کر دیتی تھی۔ گھڑی کی ٹک ٹک ایک جانکاہ ہتھوڑے کی طرح کان کے پردے پر پڑ رہی تھی۔ اور ہری مکھی کی بھنبھناہٹ تیز لمبی سلاخوں کی طرح دماغ میں گھس کر اسے بے حس کر چکی تھی۔ جبا ہیاں ٹوٹی پڑتی تھیں اور آنکھوں سے پانی ڈھلکنے لگا تھا۔ کروٹوں پر کروٹیں بدلنے اور سر کے بال نوچنے پربھی نیند نہ آرہی تھی۔ کچھ ایسا احساس ہو رہا تھا گویا موسم کی سختیوں نے ہر چیز کو برباد کر دیا ہے۔ خاتمہ کر دیا ہے۔ سکون کا بھی اور نیند کا بھی۔ ٹانگیں پتھر کی ہو گئی تھیں۔ اور رانوں میں ٹیسیں سی اٹھ رہی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد جمیل خاموش سیدھا لیٹ جاتا، ہاتھ پھیلا کر اوپر کی طرف، اور ٹانگیں اکڑا کر نیچے کی طرف کھینچتا، اور پھر ڈھیلا چھوڑ دیتا۔ وہ رانوں کو مضبوطی سے پکڑ کرخوب رگڑتا، گویا وہ آج انہیں گھس کر ختم کر دینے پر تلا ہوا ہے۔ جب اس سے بھی اسے چین نہ آتا تو وہ گھٹنے پٹی پر اور بانہہ آنکھوں پر رکھ کر خاموش لیٹ جاتا۔۔۔ تھوڑی دیر سے نذرو کھڑا دلچسپی سے اس کی حالت دیکھ رہا تھا۔ وہ پائینتی کی طرف آیا اور ایک منٹ تک آنکھیں گھما گھما کر دیکھتا رہا اور پھر یک لخت ہنس کرکہنے لگا ’’جمیل میاں! تمہارے پاس بیٹھ جاؤں‘‘۔

    جمیل کے پیروں میں سے خون بھاگا اور رانوں میں سنسنی پھیلاتا ہوا تیزی سے دماغ میں جا کر کھوپڑی سے کھٹ سے ٹکرایا۔دل دھڑ دھڑ چلنے لگا۔ کنپٹیوں کی رگیں ابھر آئیں اور درد کرنے لگیں۔۔۔معلوم ہوتا تھا اس کے جسم کی ہر ہر رگ بغاوت پر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ خون کے دوران نے اس کی سوچنے کی قوتوں کو معطل کر دیا تھا۔ وہ ’’ہاں‘‘ کہنے والا تھا کہ باہر سے کسی نے پکارا ’’جمیل!‘‘

    امتحان کے اندیشوں اور دغدغوں کی جگہ اب چھٹیوں کی بے فکری اور بے خیالی نے لے لی۔ گرمیاں جم چکی تھیں۔ گرمی اب بھی پڑتی تھی، ہوا اب اور تیز ہو گئی تھی مگر نئے موسم کا کسل اور بے گانگی ختم ہو چکی تھی۔

    آدھی رات کا وقت تھا کہ کسی چیز کے اس کی ٹانگ کے قریب حرکت کرنے سے جمیل کی آنکھ کھلی۔ وہ چھت پر سو رہا تھا۔ چاند آسمان پر بیچوں بیچ میں تھا اور ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی۔صحن کے دوسرے کونے سے خالو کے تیز خراٹوں کی متواتر آواز آ رہی تھی، لیکن یہ دیکھ کر اسے تعجب ہوا کہ نذرو کا پلنگ جو شام دور بچھاتھا، اب اس سے ایک گز کے فاصلے پر آگیا ہے۔ اس نے اپنے پلنگ پر ہر طرف ٹٹولا۔ مگر کوئی چیز نہ دکھائی دی۔ اس نے پھر چادر سے منہ ڈھک لیا۔ تھوڑی دیر خاموش لیٹے رہنے سے اسے پسینہ آتا معلوم ہوا اور اس نے چادر کو سینے تک کھینچ لیا۔ نیند ایک دفعہ اچٹی تو بس پھر غائب ہی ہو گئی۔ کچھ دیر تو وہ چاند کو آسمان پرکھسکتے ہوئے دیکھتا رہا، اور پھر اس سے اکتا کر خالو کے خراٹوں پر دل ہی دل میں ہنسنے لگا۔ کیسی آوازنکل رہی ہے۔ اس نے سوچا، جیسے بلیاں لڑ رہی ہوں۔۔۔ یہ تشبیہ اس نے اپنی خالہ سے سیکھی تھی۔ دفعتاً اسے نذرو کی آنکھیں چمکتی ہوئی دکھائی دیں۔

    ’’ابے جاگ رہا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    گاڑھے کی موٹی چادر میں سے نکلے ہوئے منہ نے جواب دیا۔ ’’ہاں‘‘۔

    ’’یہاں کیسے آگیا ہے تو؟‘‘ کچھ نہ کچھ کہنے کی غرض سے جمیل نے پوچھ لیا۔

    ’’توکچھ ہرج ہے؟‘‘

    جمیل نے اتنی رات گئے اس کا جواب چانٹے سے دینا مناسب خیال نہ کیا مگر یہ جواب گفتگو کو آگے بڑھانے میں بھی مددگار نہ ہوسکا۔ تھوڑی دیر تک دونوں خاموش لیٹے اپنی پلکیں جھپکاتے رہے۔

    نذرو کا ہاتھ اور سینہ بھی چادر سے باہر نکل آیا۔ اس نے کہا ’’اجی، کیا چاندنی ہو رہی ہے‘‘۔

    ’’ہوں‘‘ جمیل نے جواب دیا۔ مگر چاہتا وہ بھی تھا کہ اگر نیند نہیں آتی توکم سے کم باتیں کر کے ہی وقت ٹالاجائے۔

    ’’بڑی سیریں کی ہیں ہم نے بھی دلی میں چاندنی میں‘‘۔

    جمیل نے ایسا موضوع تلاش کرنے کی کوشش میں، جس میں کچھ دیر تک باتیں ہو سکیں، ہمیشہ سے زیادہ بے تکلفی سے کہا ’’بڑی بدمعاشیاں کی ہوں گی سالے تم نے دلی میں‘‘۔

    ’’اجی ہم نے؟‘‘ نذرو ہنسا۔ ’’اجی ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تمہیں توجمیل میاں کچھ شوق ہی نہیں‘‘۔

    ’’ابے ، مجھے شوق! کس بات کا؟‘‘

    ’’یہی سیر ویر ، دل لگی‘‘۔ نذرو اپنی کہنی کے سہارے اٹھا اور اس کا ہاتھ جمیل کے پلنگ کی پٹی پرآگیا۔ اس نے مسکرا کر کہا۔ ’’لائو ٹانگیں دبادوں جمیل میاں‘‘۔

    ’’کیوں، کیا میں کوئی تھکا ہوا ہوں‘‘۔

    نذرو کا ہاتھ اس کی ٹانگ کے قریب آگیا ’’نا ویسے ہی‘‘۔

    ’’ہونہہ!‘‘ جمیل نے جھینپتے ہوئے کہا۔ لیکن جب نذرو کاہاتھ اس کی ران پر پہنچ گیا تواس نے کوئی اعتراض کیا بھی نہیں اور چپ لیٹا رہا۔

    ہاتھ ران پر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ جمیل کی ٹانگوں پرچیونٹیاں سی رینگتی ہوئی معلوم ہوئیں اور نذرو کی انگلیوں کے ساتھ ساتھ اس کا خون بھی چلنے لگا۔ جب انگلیاں زیادہ سریع الحس حصوں پر پہنچیں تو اس کے گدگدی ہونے لگی۔ اور اس نے نذرو کاہاتھ ہلکے سے پکڑ کر، بغیر اسے ہٹانے کی کوشش کے ’’ابے ‘‘ کہا۔ مگر ہاتھ اسی طرح چلتارہا۔

    خالو کے خراٹے رک گئے۔ ہاتھ کھینچ لیا گیا۔

    پھر وہی خرخرخرخر۔۔۔ ران پھر سہلائی جانے لگی۔

    یک لخت نذرو نے ہاتھ کھینچ لیا اور چادر سے اپنے جسم کو کندھوں تک ڈھک کر سیدھا لیٹ گیا۔ اس کا بدن تیر کی طرح کھنچا ہوا تھا۔ نتھنے پھڑپھڑارہے تھے اور پلکیں جلدی جلدی جھپک رہی تھیں۔ اگر جمیل اس کاچہرہ چھو کر دیکھتا تواسے معلوم ہوتا کہ وہ کتنا گرم ہے۔

    ’’ابے یہ کیا؟‘‘

    ’’اجی تم کیا جانو، تم نے کیا کر دیا‘‘۔ نذرو نے رکتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    جمیل حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ دس منٹ بعد نذرو پھرسیدھا ہوا۔ اب اس کے چہرے سے ایسا سکون ظاہر ہوتا تھا گویا کوئی طوفان چڑھ کر اتر گیا ہو۔

    جمیل کی ران پھر سہلائی جانے لگی۔۔۔ جمیل کے بدن میں کھلبلی سی ہوئی۔ سرچکرا سا گیا۔ سارا جسم پھنکنے لگا۔ اسے ایک پھریری سی آئی اور وہ نذرو کا ہاتھ الگ پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے جلدی سے نالی پرجا کر پیشاب کیا۔ پانی پی کر اس نے تھوکا اور اب سونے کے ارادے سے چادر تان کر لیٹ گیا۔ خالو کے خراٹوں سے اس پر جلدی ہی غنودگی طاری ہو گئی۔

    اس کی ٹانگ پر کوئی چیز ہلی۔ اس نے چادر سے سرنکال کر دیکھا، نذرو کا ہاتھ تھا۔ نذرو اپنے پلنگ پر سے آگے جھکا ہوا تھا، اور اس کی آنکھیں گول گول گھوم رہی تھیں۔

    نذرو نے کہا ’’آجاؤں؟‘‘

    جمیل کے پیٹ میں ایک ہیجان سا پیداہوا جو بجلی کی سرعت سے تمام جسم میں پھیل گیا۔ اس کا سر گھوما۔ آنکھوں کے سامنے دھند سی پھیل گئی اور سائبان کے کھمبے اور ان کے لمبے سائے ناچتے ہوئے معلوم ہونے لگے۔ اس کے رکے ہوئے حلق سے پھنسے ہوئے صرف دو لفظ نکل سکے ’’ابے ہٹ!‘‘

    مأخذ:

    لوح (Pg. 575)

    • مصنف: ممتاز احمد شیخ
      • اشاعت: Jun-December
      • ناشر: رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے